Tag: فلمی صنعت

  • سماجی موضوعات پر شان دار فلمیں بنانے والے ایس سلیمان

    سماجی موضوعات پر شان دار فلمیں بنانے والے ایس سلیمان

    پاکستان میں فلمی صنعت کے زمانۂ عروج میں کئی ہدایت کار آئے جنہوں نے نہایت شان دار اور کام یاب ترین فلمیں شائقینِ سنیما کو دیں اور انڈسٹری میں‌ اپنی صلاحیتوں کو بھی منوایا۔ انہی میں‌ سے ایک سید سلیمان المعروف ایس سلیمان تھے۔ سینئر ہدایت کار اور پروڈیوسر ایس سلیمان پچھلے سال 14 اپریل کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    ایس سلیمان ماضی کے اداکار سنتوش کمار اور درپن کے چھوٹے بھائی تھے۔ بھارت کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہونے والے ایس سلیمان کی پہلی فلم ’گلفام‘ 1961 میں ریلیز ہوئی۔ ایس سلیمان نے 60 سے زائد فلموں کے لیے ہدایات دیں۔ 1975ء میں فلم ’’زینت‘‘ ریلیز ہوئی تھی، جس میں نام ور اداکارہ شبنم نے زینت کا یادگار رول ادا کیا تھا۔ ایس سلیمان اس فلم کے ہدایت کار تھے، جنہوں نے سماج میں بیٹی کی پیدائش کو بُرا سمجھنے والوں کو اس فلم میں آئینہ دکھایا تھا۔ وہ ان فن کاروں میں‌ سے تھے جو معاشرتی، اصلاحی اور سماجی مسائل پر فلمیں بنانے کے حوالے سے یاد کیے گئے۔

    29 دسمبر 1938ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے اس ہدایت کار کا اصل نام سیّد سلیمان تھا۔ ان کے والدین کا تعلق بھی فنی دنیا سے تھا۔ ان کے بڑے بھائی سنتوش کمار پاکستان کے پہلے سپر اسٹار اور بھابھی صبیحہ خانم پہلی سپر اسٹار فن کارہ رہی ہیں۔

    ایس سلیمان نے خود بھی چائلڈ ایکٹر کے طور پر فلموں میں کام کیا تھا۔ وہ اس صنعت سے بہ طور تدوین کار وابستہ ہوئے تھے اور 1953ء میں بننے والی فلم ’’غلام‘‘میں بہ طور اسسٹنٹ ایڈیٹر پہلی بار کام کیا۔

    1963ء میں ایس سلیمان نے ’’باجی‘‘ نامی ایک بہت ہی لاجواب فلم بنائی تھی۔ اس فلم کے گانے بھی بے حد مقبول ہوئے، جن میں ’’دل کے افسانے‘‘ ’’چندا توری چاندنی‘‘ ’’سجن لاگے توری‘‘ ’’اب یہاں کوئی نہیں آئے گا‘‘شامل تھے۔ ایس سلیمان نے دو پنجابی فلمیں بھی بنائیں۔

    ایس سلیمان کو پہلا نگار ایوارڈ فلم ’’آج اور کل‘‘ کے لیے دیا گیا تھا۔ یہ فلم 1976ء میں ریلیز ہوئی تھی جو جہیز کی فضول اور غیر اسلامی رسم کے خلاف عوام کو زبردست پیغام تھی۔ بہ طور ہدایت کار ان کی آخری ریلیز شدہ فلم ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ تھی، جو 1998ء میں ریلیز ہوئی۔

    پاکستان کے اس معروف ہدایت کار نے 80 برس کی عمر پائی۔ ان کی چند کام یاب ترین فلموں میں ’’اُف یہ بیویاں، آج اور کل، اناڑی، منزل، گلفام، آگ، سبق، زینت، انتظار، ابھی تو میں جوان ہوں شامل ہیں۔

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے خوش خبری، فلم پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے خوش خبری، فلم پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی

    اسلام آباد: پاکستان میں فلمی صنعت کی بحالی کے لیے طویل عرصے سے التوا کی شکار فلم پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے آج اسلام آباد میں فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے وفد نے ملاقات کی جس میں چیئرمین سی پیک عاصم سلیم باجوہ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار، اور سینیٹر فیصل جاوید شریک تھے۔

    وفد کی قیادت ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین جرجیس سیجا کر رہے تھے، شیخ امجد رشید، سنتیش آنند، چوہدری کامران، فضا علی مرزا، عرفان ملک اور بدر اقبال بھی شریک تھے۔

    اس ملاقات میں طویل عرصے سے التوا کی شکار فلم پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی، فلمی صنعت کی بحالی کے لیے تمام تر اقدامات اٹھانے کے عزم کا بھی اعادہ کیا گیا۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں شعبہ فلم کی ترقی اور بحالی حکومت کی ترجیح ہے، حکومت فلموں کی ایکسپورٹ کی حوصلہ افزائی کے لیے پُر عزم ہے، فواد چودھری نے برآمدات کے حوالے سے فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کو فوکل گروپ تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں سعودی عرب اور چین کے ساتھ تعاون و اشتراک سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا حکومت فلمی صنعت کے لیے ٹیکس مراعات اور دیگر مراحل کی منظوری سہل بنانے کے لیے بھی اقدام اٹھا رہی ہے۔

    وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا ہم نے فلمی صنعت کی تنزلی کو ترقی کے سفر میں بدلنا ہے، جس کے لیے بہترین تخلیق، ٹیکنالوجی کے امتزاج، اور اچھے مواد پر توجہ دینا ہوگی۔

  • پاکستان کے نام وَر موسیقار فیروز نظامی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر موسیقار فیروز نظامی کی برسی

    فیروز نظامی پاکستان کے نام ور موسیقار تھے جن کی آج برسی ہے۔ فیروز نظامی 65 سال کی عمر میں 15 نومبر 1975 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    فیروز نظامی 1910 کو لاہور کے ایک فن کار گھرانے میں‌ پیدا ہوئے۔ اسی شہر کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کے دوران انھوں‌ نے موسیقی کے اسرار و رموز بھی سیکھے۔ اس کے لیے وہ اپنے ہی خاندان کے مشہور موسیقار استاد عبدالوحید خان کیرانوی کے زیرِ تربیت رہے اور خود بھی اس فن میں‌ استاد کا درجہ حاصل کیا۔

    1936ء میں جب لاہور سے آل انڈیا ریڈیو نے نشریات کا آغاز کیا تو فیروز نظامی وہاں بطور پروڈیوسر ملازم ہوئے۔ انھو‌ں نے دہلی اور لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشنوں پر بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ تاہم تھوڑے عرصے بعد ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر بمبئی کی فلمی صنعت سے ناتا جوڑ لیا اور وہاں بھی خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    بمبئی میں ان کی ابتدائی فلموں میں بڑی بات، امنگ، اس پار، شربتی آنکھیں اور نیک پروین شامل تھیں۔ فیروز نظامی کی وجہِ شہرت شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو تھی جس میں دلیپ کمار اور نور جہاں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی بدولت فیروز نظامی کے فن و کمال کا بہت چرچا ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فیروز نظامی لاہور لوٹ آئے تھے جہاں انھوں نے متعدد فلموں‌ کے لیے لازوال موسیقی ترتیب دی۔ ان کی فلموں میں سوہنی، انتخاب، راز، سولہ آنے، سوکن اور غلام شامل تھیں۔ نام ور گلوکار محمد رفیع کو فلمی صنعت میں متعارف کروانے کا سہرا بھی فیروز نظامی کے سَر ہے۔

    فیروز نظامی نے سُر اور ساز، دھن اور آواز کی نزاکتوں، باریکیوں اور اس فن پر اپنے علم اور تجربات کو کتاب میں بھی محفوظ کیا جو ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ایسے موسیقار بہت کم ہیں‌ جنھوں‌ نے اس فن کو اگلی نسل تک پہنچانے اور موسیقی و گائیکی کی تعلیم و تربیت کے لیے تحریر کا سہارا لیا۔ ان کی کتابوں‌ میں اسرارِ موسیقی، رموزِ موسیقی اور سرچشمۂ حیات سرِفہرست ہیں۔ فیروز نظامی کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • فوٹو گرافی: سائنسی تجربات کے دوران کیا کچھ ہوا!

    فوٹو گرافی: سائنسی تجربات کے دوران کیا کچھ ہوا!

    1727 میں جرمن سائنس داں ڈاکٹر ہرمیان اسکولرس ایک روز سلور نائٹریٹ میں کھڑیا ملا رہے تھے۔ اس مرکب میں کھڑکی کے ذریعہ سورج کی شعاعیں پڑ رہی تھیں جس سے وہ مرکب آہستہ آہستہ سیاہ ہوتا جارہا تھا۔

    اس کی بدلتی ہوئی رنگت دیکھ کر ڈاکٹر اسکولرس نے اس پر یہ تجربہ کرنا شروع کیا کہ وہ بار بار مرکب کو سورج کی روشنی کے سامنے رکھنے لگے۔ آخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سلور نائٹریٹ اور کھڑیا مٹی کے مرکب پر سورج کی روشنی کا سیدھا اثر پڑتا ہے۔

    کہتے ہیں اس وقت لندن کے ایک سائنس داں لوئی بھی غالبا اسی موضوع پر تحقیق کررہے تھے، لیکن 1781 میں ان تجربات کے تمام کاغذات اور ان کا فارمولا آسٹریلیا کے ایک سائنس داں جوزف ویزوپ کے ہاتھ آگیا۔

    اس موقع پر ان کے معاون چیس ہیوم نے ان کے سامنے فوٹو گرافی کے عمل پر تحقیق کرنے کی تجویز پیش کی۔

    ڈاکٹر ویزوپ کے لڑکے تھامس کو جب اپنے والد کی تحقیق کا علم ہوا تو وہ انھی کے فارمولے کی بنا پر کیمرے کی ایجاد میں مصروف ہوگئے۔

    مسلسل کوشش کے بعد تھامس نے 1799 میں ہوائیاں نامی مرکب ایجاد کیا۔ آج کل تصویروں کو پائیدار اور مستقل بنانے کے لیے اسی کو کام میں لایا جاتا ہے۔

    لگاتار تجربے کرتے رہنے اور کڑی محنت کے باعث تھامس کی صحت گرنے لگی اور 1805 میں صرف 35 سال کی عمر میں یہ عظیم سائنس داں راہیِ ملکِ عدم ہوا۔

    (پریم پال اشک کی کتاب فلم شناسی سے ایک ورق)

  • مسعود پرویز: فلم انڈسٹری کا کام یاب ہدایت کار

    مسعود پرویز: فلم انڈسٹری کا کام یاب ہدایت کار

    ایک دور تھا جب پاکستان میں فلم انڈسٹری نے سنیما کے شائقین کو کوئل، ہیر رانجھا، انتظار، زہرِ عشق جیسی فلموں کے ذریعے متوجہ کیا اور اس وقت کے کئی فن کاروں اور فلمی صنعت کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کے روزگار کا وسیلہ بنی۔ یہ معروف ہدایت کار مسعود پرویز کی یادگار فلمیں‌ ہیں۔ وہ 10 مارچ 2001 کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    1918 میں امرتسر میں پیدا ہونے والے مسعود پرویز کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ مشہور ادیب سعادت حسن منٹو کے قریبی عزیز تھے۔

    مسعود پرویز نے ہدایت کاری کے شعبے میں نام کمانے سے پہلے فلموں میں اداکاری کی۔ تاہم یہ قیامِ پاکستان سے پہلے کی بات ہے۔ اس زمانے میں فلم منگنی میں مسعود پرویز کو ہیرو کا کردار نبھاتے دیکھا گیا اور یوں وہ فلم انڈسٹری سے جڑے۔ بعد میں وہ ہدایت کاری کی طرف آگئے۔

    فلم منگی کے بعد مسعود پرویز دو مزید فلموں غلامی اور میرا بائی میں بھی اداکاری کی، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں فلمیں بننا شروع ہوئیں تو بطور ہدایت کار اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور کام یابی ان کا مقدر بنی۔

    مسعود پرویز کی دیگر یادگار فلموں میں بیلی، مرزا جٹ، منزل، سکھ کا سپنا، جھومر، سرحد، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون شامل ہیں۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ مسعود پرویز نے متعدد نگار ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔