Tag: فلمی موسیقار

  • یومِ‌ وفات: شوخی اور ترنگ او پی نیّر کے گیتوں کی پہچان ہیں!

    یومِ‌ وفات: شوخی اور ترنگ او پی نیّر کے گیتوں کی پہچان ہیں!

    او پی نیّر البیلے موسیقار تھے دلوں میں‌ گداز اور سماعتوں میں رَس گھولنے والی ان کی دھنیں کئی فلموں کی مقبولیت کا سبب بنیں۔ 2007ء میں آج ہی کے دن انھوں نے زندگی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا تھا۔

    ممبئی میں‌ مقیم او پی نیّر 81 سال کے تھے۔ وہ 16 جنوری 1926ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔بالی وڈ کو کئی یادگار گیت دینے والے اس موسیقار کا اصل نام اوم کار پرساد نیّر تھا۔ موسیقی کا جنون ایسا تھا کہ تعلیم بھی مکمل نہ کی اور آل انڈیا ریڈیو، جالندھر سے اپنے کیریئر کا آغاز کردیا۔ محنتی اور بااصول او پی نیّر بعد میں فلم نگری میں آئے تو ’کنیز‘ کے لیے پسِ پردہ موسیقی دی، مگر ان کی پہچان گرودت کی فلم ’ آر پار‘ بنی۔ اس فلم کے نغمے بہت مقبول ہوئے۔ اس کے بعد ان کے پاس گویا فلمیں قطار میں‌ رہنے لگیں، لیکن او اپی نیّر تعداد کو معیار پر ترجیح دینے والوں میں‌ سے نہیں‌ تھے، اور سال میں ایک سے زیادہ فلم کے لیے موسیقی دینے سے گریز کرتے تھے۔

    ’اڑیں جب جب زلفیں تیری‘، ’بابو جی دھیرے چلنا‘ اور ’لے کے پہلا پہلا پیار‘ جیسے نغموں کے اس خالق کی اصول پسندی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے اپنے فن پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا اور کئی لافانی نغمات فلم نگری کو دے گئے۔

    ’تم سا نہیں دیکھا‘، ’ہاوڑا برج‘، ’مسٹر اینڈ مسز 55‘ ، ’کشمیر کی کلی‘، ’میرے صنم‘، ’سونے کی چڑیا‘، ’پھاگن‘، ’باز‘، ’ایک مسافر ایک حسینہ‘ ان کی چند فلمیں تھیں جن کے گیتوں کو بے مثال مقبولیت ملی۔

    ’نیا دور‘ وہ فلم تھی جس کی موسیقی ترتیب دینے پر انھیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    1949ء میں اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے اس موسیقار کی پہچان اُن کے سریلے گیت تھے۔ ان کے ہم عصر موسیقاروں کے برعکس ان کے گیتوں سے شوخی، چلبلا پن اور مستی جھلکتی ہے جس نے شائقینِ سنیما اور سامعین کو بہت محظوظ کیا۔ خود او پی نیّر زندہ دل اور خوش مزاج مشہور تھے۔

  • یومِ وفات: فلمی موسیقی کو نیا رنگ دینے والے ماسٹر غلام حیدر کا تذکرہ

    یومِ وفات: فلمی موسیقی کو نیا رنگ دینے والے ماسٹر غلام حیدر کا تذکرہ

    ماسٹر غلام حیدر کو رجحان ساز موسیقار تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ 9 نومبر 1953ء کو وفات پاگئے تھے۔ پاکستان کے اس مشہور موسیقار ہی نے پہلی بار پنجاب کی لوک دھنوں کو اپنے گیتوں کا حصّہ بنایا تھا۔

    ماسٹر غلام حیدر کا تعلق سندھ کے شہر حیدر آباد سے تھا۔ وہ 1906ء میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے ہارمونیم بجانے میں‌ دل چسپی تھی۔ اسی ساز کی بدولت وہ سُر تال اور موسیقی کی طرف راغب ہوئے اور یہ شوق انھیں لاہور لے گیا جہاں وہ ایک تھیٹر سے وابستہ ہوگئے۔ وہ اپنے وقت کے مشہور موسیقاروں اور ماہر سازندوں کے میل جول کے سبب موسیقی کے فن کی باریکیوں سے واقف ہوتے چلے گئے اور 1932ء میں ایک مشہور ریکارڈنگ کمپنی سے وابستگی کے بعد انھیں اپنے وقت کے باکمال اور ماہر موسیقاروں استاد جھنڈے خان، پنڈت امرناتھ اور جی اے چشتی کی رفاقت نصیب ہوئی جس نے ان کے فن و کمال کو نکھارنے میں مدد دی۔ ماسٹر غلام حیدر کچھ عرصہ استاد جھنڈے خان کے معاون بھی رہے۔

    ماسٹر غلام حیدر کو پرفارمنس کی غرض سے ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کرنے اور کئی اہم موسیقاروں سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ 1933ء میں مشہور فلم ساز اے آر کاردار نے اپنی فلم سورگ کی سیڑھی کے لیے ماسٹر غلام حیدر کی خدمات حاصل کیں اور یوں اس ان کا فلمی سفر شروع ہوا جسے فلم گل بکاؤلی کی موسیقی نے شہرت سے ہم کنار کیا اور انھیں لاہور کے نگار خانوں میں‌ بھی کام ملا۔ ان کی موسیقی یملا جٹ، خزانچی، چوہدری اور خاندان جیسی فلموں میں شامل کی گئی۔

    1944ء میں ماسٹر غلام حیدر بمبئی منتقل ہوگئے جہاں ہمایوں، بیرم خان، جگ بیتی، شمع، مہندی، مجبور اور شہید جیسی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں واپس لاہور آگئے۔ اس زمانے میں انھوں نے فلم بے قرار، اکیلی، غلام اور گلنار سمیت مختلف فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    ماسٹر غلام حیدر کو وفات کے بعد لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • مشہور فلمی موسیقار رحمٰن ورما کی برسی

    مشہور فلمی موسیقار رحمٰن ورما کی برسی

    پاکستان کے معروف موسیقار رحمٰن ورما 11 اگست 2007ء کو وفات پاگئے تھے آج ان کی برسی ہے وہ مشہور فلمی موسیقار جی اے چشتی کے شاگرد اور موسیقار کمال احمد کے استاد تھے۔

    رحمٰن ورما کی پہلی فلم باغی (1956) تھی۔ اس کے بعد انھیں ایک اور فلم ملی اور ان دونوں کی کام یابی نے رحمٰن ورما کو ایکشن اور کاسٹیوم فلموں کے لیے بہترین موسیقار سمجھا جانے لگا۔

    رحمٰن ورما کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا۔ وہ 1927ء میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے انھوں نے موسیقار کی حیثیت سے فلموں کے لیے کام کرنا شروع کردیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان آگئے۔

    پاکستان میں 1955ء میں رحمٰن ورما نے دیار حبیب کے لیے ایک نعت ریکارڈ کروائی جو بہت مقبول ہوئی اور یوں یہاں ان کا فلمی سفر شروع ہوا۔ بطور سولو موسیقار ان کی پہلی فلم ’’باغی‘‘ تھی اور آخری فلم ’’دارا‘‘ 1976ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ انھوں نے مجموعی طور پر 32 فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی، جن میں دربار، آخری نشان، عالم آرا، ایک تھی ماں، بیٹا، کالا پانی، خاندان، نبیلہ، غدار، سسی پنہوں، سرِفہرست ہیں۔