Tag: فلمی نغمہ نگار

  • آج گلزار کی سال گرہ ہے!

    آج گلزار کی سال گرہ ہے!

    سمپورن سنگھ نے اردو، ہندی کے الفاظ کو کچھ اس حُسن و کمال سے باندھا، انسانی جذبات، احساسات اور لطیف کیفیات کو اس وارفتگی سے سمیٹا کہ شعر و سخن کی دنیا میں ان کی پہچان "گلزار” ہو گئی۔

    آج ممتاز فلم ساز، ہدایت کار، ادیب اور مشہور گیت نگار گلزار اپنی 86 ویں سال گرہ منارہے ہیں۔

    انھوں‌ نے تقسیمِ ہند سے قبل پاکستان کے شہر جہلم میں‌ آنکھ کھولی، 1936 میں پیدا ہونے والے گلزار کا نام سمپورن سنگھ رکھا گیا۔ تقسیم کے وقت ان کا خاندان بھارت ہجرت کرگیا جہاں‌ انھوں‌ نے نئی زندگی شروع کی اور فلم نگری میں‌ قدم رکھ دیا۔

    ہندی فلموں‌ کے لیے نغمہ نگاری کا آغاز ہوا تو جیسے شہرت اور مقبولیت ان کی منتظر ہی تھی۔ ان کے لکھے ہوئے گیتوں کا خوب چرچا ہوا اور آج بھی ان کی شہرت اور مقبولیت روزِ اوّل کی طرح برقرار ہے۔

    گلزار کے چند مشہور ترین گیتوں‌ میں‌ ” تیرے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں‌، تجھ سے ناراض‌ نہیں‌ زندگی حیران ہوں‌ میں، آنے والا پَل جانے والا ہے، دل تو بچہ ہے جی، نیناں ٹھگ لیں گے” شامل ہیں۔ ان کے گیت بھارت کے نام ور گلوکاروں‌ نے گائے اور انھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

    ہندوستان کے اس شاعر کی ایک غزل باذوق قارئین کے لیے پیش ہے۔

    شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
    آج پھر آپ کی کمی سی ہے

    دفن کر دو ہمیں کہ سانس آئے
    نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

    کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
    برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے

    وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
    عادت اس کی بھی آدمی سی ہے

    آئیے راستے الگ کر لیں
    یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے

  • امی کو اس کے بنا، کچھ بھی اچھا نہ لگے!

    امی کو اس کے بنا، کچھ بھی اچھا نہ لگے!

    ہندی فلموں کے لیے تخلیق کیے گئے کئی گیتوں کو جب کشور کمار نے اپنی خوب صورت اور رسیلی آواز دی تو وہ یادگار ٹھہرے اور آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ یہاں ہم 1957 کی فلم "مسافر” کا ایک نغمہ پیش کررہے ہیں جس میں شاعر نے ایک انمول اور حسین ترین رشتے کے حوالے سے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

    ایک بچّے اور اس کی ماں کے درمیان اس جذباتی گفتگو کو گیت کا پیراہن مشہور نغمہ نگار شیلندر نے دیا ہے۔ گلوکار کشور کمار ہیں۔ یہ گیت اس دور میں بہت مقبول ہوا۔

    "منّا اور امی”

    منّا بڑا پیارا، امی کا دلارا
    کوئی کہے چاند، کوئی آنکھ کا تارا
    ہنسے تو بھلا لگے، روئے تو بھلا لگے
    امی کو اس کے بنا، کچھ بھی اچھا نہ لگے
    جیو میرے لال، جیو میرے لال
    تم کو لگے میری عمر، جیو میرے لال

    ایک دن وہ ماں سے بولا، کیوں پھونکتی ہے چولھا
    کیوں نہ روٹیوں کا پیڑ ہم لگا لیں
    آم توڑیں، روٹی توڑیں، روٹی آم کھا لیں
    کاہے کلے(کرے) لوج لوج (روز روز) تُو یہ جھمیلا

    امی کو آئی ہنسی، ہنس کے وہ کہنے لگیں
    لال محنت کے بنا، روٹی کس گھر میں پکی
    جیو میرے لال، جیو میرے لال
    تم کو لگے میری عمر، جیو میرے لال

    اک دن یوں چھپا منّا، ڈھونڈے نہ ملا منّا
    بستر کے نیچے، کرسیوں کے پیچھے
    دیکھا کونا کونا سب تھے سانس کھانچے
    کہاں گیا، کیسے گیا سب تھے پریشان
    سارا جگ ڈھونڈ تھکے، کہیں منّا نہ ملا
    ملا تو پیار بھری ماں کی آنکھوں میں ملا
    جیو میرے لال، جیو میرے لال
    تم کو لگے میری عمر، جیو میرے لال

  • ناظم پانی پتی: خوب صورت گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    ناظم پانی پتی: خوب صورت گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا اور چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا… جیسے خوب صورت گیتوں کے خالق ناظم پانی پتی کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

    18 جون 1998 کو پاکستان کےاس معروف فلمی گیت نگار کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا۔ وہ لاہور میں مدفون ہیں۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ 15 نومبر 1920 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے لاہور سے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کی۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام و مقام حاصل کیا۔

    وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔

    انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی گیت نگاری کی اور متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔