Tag: فلمی گیت

  • لازوال گیتوں کے خالق شہریار کا تذکرہ

    لازوال گیتوں کے خالق شہریار کا تذکرہ

    کنور محمد اخلاق دنیائے ادب میں شہریار کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ تدریس سے منسلک رہے، ہندوستان سے تعلق تھا۔

    شہریار نے نظم، غزل اور گیت جیسی اصنافِ‌ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور خوب نام پیدا کیا، انھوں‌ نے اپنے وقت کی کام یاب ترین فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے جو سدا بہار ثابت ہوئے۔

    شہریار کے کلام کا ترجمہ فرانسیسی ،جرمن، روسی، مراٹھی، بنگالی اور تیلگو زبانوں میں ہوا۔ متعدد ادبی اعزازات اپنے نام کرنے والے اس شاعر نے 13 فرروری 2012 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔ یہاں‌ ہم ان کا ایک مشہور فلمی گیت باذوق قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

    یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
    حدِ نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے

    ہر ایک جسم روح کے عذاب سے نڈھال ہے
    ہر ایک آنکھ شبنمی، ہر ایک دل فگار ہے

    ہمیں تو اپنے دل کی دھڑکنوں پہ بھی یقیں نہیں
    خوشا وہ لوگ جن کو دوسروں پہ اعتبار ہے

    نہ جس کا نام ہے کوئی نہ جس کی شکل ہے کوئی
    اک ایسی شے کا کیوں ہمیں ازل سے انتظار ہے

  • کیفی اعظمی: رومان پرور گیتوں‌ سے انقلابی نظموں‌ تک

    کیفی اعظمی: رومان پرور گیتوں‌ سے انقلابی نظموں‌ تک

    مشہور شاعر کیفی اعظمی کے سریلے گیتوں، غزلوں‌ اور لطیف جذبات سے آراستہ نظموں کے دیوانے آج ان کا یومِ پیدائش منا رہے ہیں۔

    سید اطہر حسین رضوی ان کا اصل نام تھا۔ وجہِ شہرت شاعری اور قلمی نام کیفی اعظمی سے معروف ہیں۔

      1919 کو بھارت کے شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے کیفی اعظمی نے 11 برس کی عمر ہی میں شاعری شروع کر دی تھی۔ زندگی کا پہلا مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا تو سبھی کی توجہ حاصل کر لی۔ اس دور میں‌ یہ شعر ان کی شناخت بنا۔

    مدت کے بعد اس نے جو الفت سے نظر کی
    جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

    غور و فکر کی عادت اور مطالعے کے شوق نے انھیں دنیا بھر کا ادب پڑھنے، مختلف نظریات اور تحریکوں سے آگاہی کا موقع دیا اور انھوں نے بامقصد تخلیق کو اہمیت دی۔ جلد ہی اشتراکیت اور کارل مارکس سے شناسائی ہو گئی۔ وہ ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔

    کیفی اعظمی کی غزلیں اور نظمیں جہاں انھیں اردو زبان کے ایک رومان پرور شاعر کے طور پر متعارف کرواتی ہیں، وہیں ان کی شاعری میں انسان دوستی کا رنگ بھی ہے اور ان کے کلام سے ان کی انقلابی فکر کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

    وہ ظلم و جبر کے خلاف اپنی تخلیقات ہی کے ذریعے آواز نہیں اٹھاتے رہے بلکہ میدانِ عمل میں بھی پیش پیش رہے۔ کیفی اعظمی مزدور تحریک کا حصہ بنے، کمیونسٹ پارٹی کے رکن کے طور پر سرگرم رہے اور صحافت بھی کی۔

    فلم کے لیے گیت نگاری کے علاوہ صحافت بھی کیفی اعظمی کا ایک حوالہ ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ جذبات کی فراوانی کے ساتھ خوب صورت الفاظ کا انتخاب اور منفرد لہجہ ہے جس میں انقلابی فکر اور باغیانہ ترنگ بھی شامل ہے۔ کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے کلام سے چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔

    تم  اتنا  جو مسکرا  رہے  ہو
    کیا غم ہے جس کو چھپارہے ہو
    آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر
    کیا حال ہے، کیا  دکھا رہے ہو
    بن جائیں گے زہر پیتے پیتے
    یہ  اشک جو پیتے  جا رہے ہو
    ریکھاؤں  کا  کھیل  ہے  مقدر
    ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

    یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
    دبا دبا سا  سہی دل میں پیار  ہے کہ نہیں
    تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا
    مری طرح ترا دل بے قرار  ہے کہ نہیں
    وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
    اُس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں