Tag: فلمی گیت نگار

  • ناظم پانی پتی:‌ کئی مقبول فلمی گیتوں کا فراموش کردہ شاعر

    ناظم پانی پتی:‌ کئی مقبول فلمی گیتوں کا فراموش کردہ شاعر

    ہندوستان کی فلم نگری اور تقسیم کے بعد پاکستانی فلموں کو کئی بے مثال اور لازوال گیت دینے والے ناظم پانی پتی کو آج شاید ہی کوئی جانتا ہو گا لیکن ایک زمانہ تھا جب ان کے فلمی نغمات کا شہرہ اور بطور شاعر ان کی تعریف بمبئی سے لاہور تک خوب خوب ہوا کرتی تھی۔ ناظم پانی پتی ایک فقیر منش اور سادہ انسان تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ گیت نگار ناظم پانی پتی 18 جون 1998ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    فلمی دنیا میں بطور گیت نگار ان کی فنی عظمت کو سبھی نے تسلیم کیا ہے، اور جب کہ وہ تقسیمِ ہند کے چند برس بعد پاکستان چلے آئے تھے، مگر بھارت کی فلم انڈسٹری میں‌ انھیں یاد کیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ 1952ء میں‌ پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ انھوں نے فلم نگری کو دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا، تیرے پیار نے جیسا مقبول گیت دیا اور ایک خوب صورت لوری چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا بھی انہی کی تحریر کردہ تھی جسے اکثر سنا جاتا تھا۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ پیدائش ان کی لاہور شہر میں‌ ہوئی مگر اپنے والد کی جائے پیدائش کی مناسبت سے پانی پت کو اہمیت دی اور اسے لاحقہ بنایا۔ وہ 15 نومبر 1920 کو پیدا ہوئے۔ ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے ہندوستان اور بعد میں‌ لاہور سے بننے والی فلموں کے لیے کئی مقبول گیت تخلیق کیے۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے ان کے تحریر کردہ گیت بہت مقبول ہوئے۔

    جس گیت نے ناظم صاحب کو فلم بینوں سے بھرپور انداز میں متعارف کرایا وہ محمد رفیع کا گایا ہوا تھا، اس کے بول تھے:

    جگ والا میلہ یار تھوڑی دیر دا
    ہنسدے آں رات لنگے پتا نیئں سویر دا
    جگ والا میلہ یارو….

    یہ فلم ”لچھی” کا وہ گیت ثابت ہوا جس کی وجہ سے فلم سپر ہٹ ہوگئی۔ اس فلم کے بعد ناظم صاحب کو اتنی مقبولیت ملی کہ فلمی دنیا میں ان کا طوطی بولنے لگا۔

    ناظم پانی پتی نے بعد میں اپنے بڑے بھائی ولی کی طرح گرامو فون کمپنیوں کے لیے گیت نگاری شروع کردی تھی۔ یہاں بھی ان کو کام یابی نصیب ہوئی۔ وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    مشہور ہے کہ ناظم پانی پتی ہی تھے جنھوں نے اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر سعادت حسن منٹو کی میّت کو غسل اور کفن دیا۔ ناظم پانی پتی نے زندگی کے آخری سال گمنامی میں گزارے کیوں کہ اس وقت پاکستان میں‌ فلمیں بننا بہت کم ہوگئی تھیں اور نگار خانے ویران پڑے تھے۔ پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔ اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں گیت لکھنے کے ساتھ انھوں نے متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

    ناظم پانی پتی کو لاہور کے ماڈل ٹاؤن قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • مشیر کاظمی: لازوال فلمی گیتوں اور ملّی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    مشیر کاظمی: لازوال فلمی گیتوں اور ملّی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسٹری کو اپنے دورِ عروج میں کئی باکمال اور بہترین فلم ساز، ہدایت کار اور بے مثل اداکار ہی‌ نہیں لاجواب شاعری تخلیق کرنے والے بھی ملے جن میں ایک نام مشیر کاظمی کا ہے وہ اعلیٰ پائے کے ایسے گیت نگار تھے جن کے فلمی گیت اور نغمات پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوئے اور آج بھی انھیں بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    آج مشیر کاظمی کی برسی ہے۔ وہ 8 دسمبر 1975ء میں‌ وفات پا گئے تھے۔ فلمی شاعر مشیر کاظمی کا تعلق ہندوستان کے مشہور شہر انبالہ سے تھا۔ 1915ء میں پیدا ہونے والے مشیر کاظمی کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی تھا۔ ان کے والد پولیس سروس سے وابستہ تھے۔ میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے ایما پر پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی اس ملازمت کو ترک کرکے ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا اور پھر شعر و ادب کی طرف مائل ہوگئے۔ مشیر کاظمی نے وہ دور دیکھا جب تقسیمِ ہند اور انگریزوں کے خلاف تحریکیں عروج پر تھیں اور دوسری طرف ادب اور فلم کے شعبوں میں‌ کئی بڑے نام اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے تھے۔ مشیر کاظمی کو بھی انقلابی ترانے، رومانوی شاعری اور فلم کی دنیا اپنی جانب کھینچنے لگی تھی۔ اس وقت کلکتہ، ممبئی اور لاہور میں بڑی شان دار فلمیں تخلیق ہو رہی تھیں۔ مشیر کاظمی ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور (ضلع مظفر گڑھ) میں آن بسے تھے، مگر یہاں ان کا جی نہ لگا اور علی پور سے لاہور منتقل ہوگئے اور یہیں فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ بطور شاعر وہ اپنا سفر شروع کرچکے تھے اور لاہور میں‌ انھوں‌ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں بننے والی فلموں کے لیے بطور گیت نگار بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار شروع کردیا۔ اس میدان میں کام یابی نے ان کے قدم چومے اور بطور فلمی گیت نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ تھی۔

    فلم دوپٹہ کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ یہ اردو زبان میں وہ پہلی فلم تھی جس کے نغمات ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے۔ مشیر کاظمی کے گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم نے مشیر کاظمی کو بڑا نغمہ نگار بنا دیا۔ وہ چند فلموں میں بطور معاون اداکار بھی نظر آئے۔ بشیرا اپنے وقت کی ایک مشہور فلم تھی جو 1972ء میں ریلیز ہوئی۔ اس میں سلطان راہی نے کام کیا تھا۔ فلم میں‌ مشیر کاظمی کی لکھی ہوئی ایک قوالی بھی شامل تھی۔ فلم میں دکھایا گیا کہ یہ قوالی سننے کے بعد سلطان راہی کا دل بھر آتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیتا ہے۔ اس موقع پر معاون اداکار کے طور پر مشیر کاظمی ہیرو کے قریب ہوتے ہیں اور فلم بینوں کو پردے پر بڑے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

    مشیر کاظمی نے زندگی میں‌ کئی اتار چڑھاؤ بھی دیکھے۔ پہلی فلم اور گلوکارہ نور جہاں‌ سے ملاقات سے متعلق ایک واقعہ ممتاز صحافی ستار طاہر نے اپنی کتاب ’تعزیت نامے‘ میں لکھا ہے: ’وہ ایک عجیب و غریب منظر تھا جب انہیں (مشیر کاظمی کو) پہلی بار نور جہاں کے سامنے بطور شاعر لے جایا گیا۔ تب ان کا لباس بے حد معمولی اور میلا تھا، شیو بڑھا ہوا تھا اور انہیں ایسے کمرے میں بٹھایا گیا تھا جہاں بہت سارے آئینے لگے ہوئے تھے۔ وہ ان آئینوں میں اپنی خستہ حالی کی تصویر دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ یہ اس شخص کی نور جہاں سے پہلی ملاقات تھی، جس کی آواز میں اپنا گیت سننے کے لیے اس نے ملازمت چھوڑ دی تھی۔ خستہ حالی اور فاقہ کشی کو اپنا لیا تھا۔ نور جہاں نے گیت سنا اور فضلی صاحب سے کہا اس شاعر سے گیت لکھوائیں، میں انہی کے گیت گاؤں گی اور یوں ’دوپٹہ‘ کے گیت نگار کی حیثیت سے مشیر کاظمی کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو پوری ہوگئی۔‘

    ان کا شمار اپنے دور کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا تھا۔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، لیکن قومی و ملّی نغمات اور فلمی گیتوں نے مشیر کاظمی کو بے پناہ شہرت اور مقبولیت دی۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے مشیر کاظمی کی شاعری ایک محبِ وطن اور سچّے پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ مشیر کاظمی نے پاکستان اور بھارت کی جنگوں کے دوران روح گرما دینے والے ملّی نغمات لکھے جن کی گونج آج بھی وطن عزیز کی آزاد فضا میں سنائی دیتی ہے۔

    فلمی دنیا میں مشیر کاظمی کے ایک سدا بہار اور مقبولِ عام گیت سے متعلق مشہور ہے کہ ایک رات انھیں بھوک محسوس ہو رہی تھی اور خالی پیٹ نیند نہیں آرہی تھی۔ مشیر کاظمی نے اس وقت یہ مصرع کہا "چاندی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں….تاروں سے کریں باتیں” اور بعد میں مکمل گیت فلم دوپٹہ میں شامل ہوا اور ریکارڈ مقبولیت حاصل کی۔ یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی۔

    مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ ‘اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو’ مشیر کاظمی کا لکھا ہوا مقبول ترین ملّی نغمہ ہے۔ مشیر کاظمی کے چند مشہور فلمی گیتوں میں تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے، ہم چلے اس جہاں سے، دل اٹھ گیا یہاں سے، شکوہ نہ کر گلہ نہ کر یہ دنیا ہے پیارے،

    مشیر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • یومِ‌ وفات:‌ اسد بھوپالی کے تحریر کردہ نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے

    یومِ‌ وفات:‌ اسد بھوپالی کے تحریر کردہ نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے

    فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے دو شوخ گیت کو ایک نسل کا ایسا رومانس کہا جاسکتا ہے، جو سرحد کے دونوں‌ اطراف بستی تھی۔ بولی وڈ کی اس فلم کے گیتوں کو بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی زبردست مقبولیت ملی۔ باکس آفس پر دھوم مچا دینے والی یہ فلم 1998ء میں‌ ریلیز ہوئی تھی اور اس کے مقبول ترین گیت اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے تھے۔

    آج بھارتی گیت نگار اسد بھوپالی کی برسی ہے۔ وہ 1990ء میں‌ انتقال کر گئے تھے۔ فلم کے ہیرو سلمان خان اور ہیروئن بھاگیا شری تھیں۔ اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے گیتوں کے بول تھے، ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ اور ’’کبوتر جا جا جا…‘‘

    اسد بھوپالی 10 جولائی 1921ء کو پیدا ہوئے۔ اپنی جائے ولادت بھوپال کی نسبت سے اسد بھوپالی کہلائے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کرنے والے اسد بھوپالی نے بطور نغمہ نگار وہ شہرت نہیں‌ حاصل کی جو ان کے ہم عصر نغمہ نگاروں کو ملی تھی۔ لیکن ان کے کئی مقبول گیتوں میں فلم ٹاور ہاؤس کا اے میرے دل ناداں تم غم سے نہ گھبرانا، فلم دنیا کا رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آواز نہ دے بھی شامل ہیں جو ان کے فلمی کیریئر کے آغاز کی بات ہے۔ 1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے فلموں کے لیے لگ بھگ 400 نغمات تخلیق کیے۔ اسد بھوپالی کے فلم ”پارس منی“ کے لیے لکھے گئے گیتوں نے بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے جن میں ہنستا ہوا نورانی چہرہ، وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے پھر… شامل ہیں۔

    فلمی گیت نگار اسد بھوپالی نوجوانی میں ممبئی پہنچے تاکہ فلم انڈسٹری میں جگہ بنا سکیں۔ وہ 28 برس کے تھے جب ممبئی چلے گئے اور یہ وہ زمانہ تھا جب معروف شاعر خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، مجروحؔ سلطان پوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر کا نام اور شہرہ تھا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو کام مل گیا۔ 1949ء میں فضلی برادران فلم’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔ اس فلم کے لیے مشہور شاعر آرزو لکھنوی نے دو گیت لکھے اور تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا تو وہ پاکستان ہجرت کرگئے۔ فضلی برادران کا اسد بھوپالی سے رابطہ ہوا تو اس نوجوان کو فلم کے لیے نغمات لکھنے کا موقع ملا۔ پہلی فلم کے دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ یوں اسد بھوپالی کی ممبئی فلم نگری میں کام یابیوں کا آغاز ہوا۔

    1950ء میں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے لیے اسد بھوپالی نے دو گیت لکھے۔ اس کے بعد بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے لیے بھی ان کے تحریر کردہ نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ وہ گیت تھا جس پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ” سے نوازا گیا۔

  • مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں  کا تذکرہ

    مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں کا تذکرہ

    ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں نغمہ نگار راجہ مہدی علی خاں کا نام ان کے معیاری کلام کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔ ان تحریر کردہ گیتوں نے لوگوں کے دلوں پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی ہے۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح کے لیے معروف اور متعدد مقبول گیتوں کے خالق تھے۔ وہ غیرمنقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد کے ایک گاؤں کے زمین دار خاندان میں 22 ستمبر 1915ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ عالم فاضل اور صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ یوں راجہ مہدی علی خان کو شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ راجہ صاحب کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ محض دس برس کے تھے جب بچّوں کے لیے ایک رسالے کا اجرا کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل وہ دہلی آگئے جہاں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی۔ اسی زمانے میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور انہی کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی چلے گئے جہاں فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے۔

    راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔

    راجہ مہدی علی خاں کے بے حد کام یاب فلمی نغموں میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جو آج بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

    انھوں نے اپنے بیس برس کے فلمی سفر میں تقریباً 75 فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ وہ بمبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ یہاں ہم اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کی پرندوں کی میوزک کانفرنس کے عنوان سے لکھی ہوئی ایک نظم پیش کررہے ہیں۔

    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے
    الّو جب مردنگ بجائے کوّا شور مچائے

    ککڑوں کوں کی تان لگا کے مرغا گائے خیال
    قمری اپنی ٹھمری گائے مرغی دیوے تال

    مور اپنی دم کو پھیلا کر کتھک ناچ دکھائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    چڑیا باجی سبھا میں ناچے خوشی سے چھم چھم چھم
    موٹی بطخ چونچ سے ڈھولک پیٹے دھم دھم دھم

    بیا بجائے منجیرے اور بھونرا بھجن اڑائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    بلبل گل کی یاد میں رو رو گائے دیپک راگ
    مست پپیہا دور سے نغموں کی بھڑکائے آگ

    کوئل پہن کے پائل ساری محفل میں اٹھلائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    رنگ برنگی چڑیاں اب چھیڑیں ایسی قوالی
    پتا پتا بوٹا بوٹا تال میں دیوے تالی

    پھوپھی چیل وجد میں آ کر اونچی تان لگائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    انگلستان کا سارس آ کر ناچے راک این رول
    مرغابی سے بولے میڈم انگلش گانا بول

    دیکھو دیکھو کتنی پیاری محفل ہے یہ ہائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

  • اسد بھوپالی کا تذکرہ جن کے لکھے ہوئے فلمی گیت پاک و ہند میں‌ مقبول ہوئے

    اسد بھوپالی کا تذکرہ جن کے لکھے ہوئے فلمی گیت پاک و ہند میں‌ مقبول ہوئے

    ’’میں نے پیار کیا‘‘ 1998ء میں‌ ہندی سنیما کی زینت بنی تھی۔ سلمان خان اور بھاگیا شری کی اس فلم نے باکس آفس پر دھوم مچا دی اور فلم کے لیے اسد بھوپالی کے تخلیق کردہ دو گیتوں کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ اور ’’کبوتر جا جا جا…‘‘ وہ گیت ہیں‌ جو آج بھی ایک نسل کو ان کی نوجوانی کے دنوں‌ کی یاد دلاتے ہیں۔ آج ان گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1990ء میں‌ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    وہ 10 جولائی 1921ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ اسد بھوپائی کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ انھوں نے فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی اور شاعری کا آغاز کیا تو اسد بھوپالی کے نام سے پہچان بنائی۔

    نوجوانی میں انھوں نے ممبئی جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ 28 برس کے اسد بھوپالی ممبئی پہنچے تو یہ وہ زمانہ تھا جب معروف شاعر خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، مجروحؔ سلطان پوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر کا نام اور شہرہ تھا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو اپنی تخلیقی اور فنی صلاحیتوں کو منوانے کا موقع مل گیا۔

    یہ 1949ء کا ذکر ہے جب فضلی برادران فلم’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔ مشہور شاعر آرزو لکھنوی نے اس فلم کے دو گیت لکھے اور پھر تقسیمِ ہند کا اعلان ہوگیا تو وہ پاکستان چلے آئے۔ فضلی برادران کو کسی نے اسد بھوپالی سے ملوا دیا اور یوں ممبئی آنے والے اس نوجوان کو پہلی مرتبہ فلم کے لیے نغمات لکھنے کا موقع مل گیا۔ اس فلم کے دونوں ہی گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے اور یوں اسد بھوپالی کی کام یابیوں کا بھی آغاز ہوگیا۔

    1950ء میں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے لیے بھی انھیں دو گیت لکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے گیت لکھے۔ یہ فلم اور اس کے گیت دونوں سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اسد بھوپالی نے اس فلم کے چھے گیت تحریر کیے تھے۔ 1949ء سے اپنی زندگی کے آخری برس تک اسد بھوپالی نے کم و بیش 400 فلمی گیت تخلیق کیے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ وہ گیت تھا جس پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ” سے نوازا گیا تھا۔

  • خوب صورت ملّی نغمات اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    خوب صورت ملّی نغمات اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    “اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور “یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” وہ ملّی نغمات ہیں جو پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔ حبُ الوطنی کے جذبات، عزم و ہمّت، دلیری اور شجاعت کے احساس کے ساتھ کلیم عثمانی کی یہ شاعری زبان و ادب میں ان کے فن اور مقام کا تعیّن بھی کرتی ہے۔

    جذبۂ حب الوطنی سے سرشار کلیم عثمانی کے کئی قومی اور ملّی نغمات ٹی وی اور ریڈیو سے نشر ہوئے اور انہی نغمات کی وجہ سے ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔ پاکستان کے اس ممتاز شاعر اور نغمہ نگار نے 28 اگست 2000ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ 28 فروری 1928ء کو ضلع سہارن پور، دیو بند میں‌ پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھو‌ں نے پاکستان ہجرت کی اور لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔

    شعر و سخن کی دنیا میں‌ کلیم عثمانی نے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ انھوں نے فلم نگری کے لیے گیت نگاری کا آغاز کیا تو بڑا آدمی، راز، دھوپ چھائوں جیسی کام یاب فلموں‌ کے لیے گیت لکھنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔

    آپ نے فلم راز کا یہ گیت ضرور سنا ہو گا جس کے بول تھے:
    میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا، یہ اپنے وقت کا مقبول ترین گیت تھا جسے کلیم عثمانی نے تحریر کیا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت میں انھوں نے جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین نامی فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے اور خوب شہرت پائی۔

    1973ء میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبول ترین گیت “تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ عطا کیا گیا تھا۔

    مرحوم لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی کی برسی

    معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی کی برسی

    18 جون 1998ء کو معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی وفات پاگئے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان کے اُن تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جن کی فنی عظمت کو سبھی نے تسلیم کیا اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آجانے کے باوجود ان کا نام اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا بھارتی فلم انڈسٹری میں تذکرہ ہوتا رہا۔ انھوں نے فلم نگری کو دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا اور چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا جیسے مقبول گیت دیے تھے۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ 15 نومبر 1920 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے لاہور سے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کی۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام و مقام حاصل کیا۔

    وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی گیت نگاری کی اور متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

    ناظم پانی پتی لاہور میں ماڈل ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • لازوال گیتوں کے خالق شہریار کا تذکرہ

    لازوال گیتوں کے خالق شہریار کا تذکرہ

    کنور محمد اخلاق دنیائے ادب میں شہریار کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ تدریس سے منسلک رہے، ہندوستان سے تعلق تھا۔

    شہریار نے نظم، غزل اور گیت جیسی اصنافِ‌ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور خوب نام پیدا کیا، انھوں‌ نے اپنے وقت کی کام یاب ترین فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے جو سدا بہار ثابت ہوئے۔

    شہریار کے کلام کا ترجمہ فرانسیسی ،جرمن، روسی، مراٹھی، بنگالی اور تیلگو زبانوں میں ہوا۔ متعدد ادبی اعزازات اپنے نام کرنے والے اس شاعر نے 13 فرروری 2012 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔ یہاں‌ ہم ان کا ایک مشہور فلمی گیت باذوق قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

    یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
    حدِ نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے

    ہر ایک جسم روح کے عذاب سے نڈھال ہے
    ہر ایک آنکھ شبنمی، ہر ایک دل فگار ہے

    ہمیں تو اپنے دل کی دھڑکنوں پہ بھی یقیں نہیں
    خوشا وہ لوگ جن کو دوسروں پہ اعتبار ہے

    نہ جس کا نام ہے کوئی نہ جس کی شکل ہے کوئی
    اک ایسی شے کا کیوں ہمیں ازل سے انتظار ہے

  • ناظم پانی پتی: خوب صورت گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    ناظم پانی پتی: خوب صورت گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا اور چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا… جیسے خوب صورت گیتوں کے خالق ناظم پانی پتی کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

    18 جون 1998 کو پاکستان کےاس معروف فلمی گیت نگار کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا۔ وہ لاہور میں مدفون ہیں۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ 15 نومبر 1920 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے لاہور سے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کی۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام و مقام حاصل کیا۔

    وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔

    انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی گیت نگاری کی اور متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔