Tag: فلم انڈسٹری

  • وہ پاکستانی فلم جس نے انڈسٹری کو مایہ ناز فن کار دیے

    وہ پاکستانی فلم جس نے انڈسٹری کو مایہ ناز فن کار دیے

    جب پاکستانی فلمی صنعت کی بنیاد رکھی گئی تو مشہور و معروف فلم سازوں کے ساتھ فن کاروں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی جنھوں نے اس انڈسٹری کو بامِ عروج پر پہنچایا اور اپنے فن اور یادگار فلموں کے سبب بے مثال شہرت سمیٹی۔ اداکاروں کی بات کی جائے تو چند نام ایسے تھے جن کو پہلی ہی فلم نے ملک گیر شہرت اور مقبولیت دی اور وہ دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر راج کرتے رہے۔

    فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کی بات کی جائے تو یہ اس لحاظ سے ایک یادگار فلم ثابت ہوئی کہ اس کی بدولت فلمی انڈسٹری کو اداکار محمد علی، کمال ایرانی اور اداکارہ زیبا اور دیبا جیسے نام ملے جنھوں نے فلمی پردے پر راج کیا۔ 9 مارچ 1962ء کو ریلیز ہونے والی فلم "چراغ جلتا رہا” فضل احمد کریم فضلی کی یاد بھی تازہ کرتی ہے جو اس کے فلم ساز اور ہدایت کار ہی نہیں کہانی نگار بھی تھے۔ انھوں نے کراچی کے علاقہ ناظم آباد میں ایک فلمی ادارہ قائم کیا تھا اور وہیں اس فلم کو بنانے کا اعلان کیا تھا۔ فضلی صاحب نے اپنی فلم میں نئے فن کاروں کو متعارف کروانے کا رسک لیا اور کام یاب بھی ہوئے۔ انھوں نے ناظم آباد کی رہائشی نوجوان لڑکی ’’شاہین‘‘ کو فلم میں ’’زیبا‘‘ کے نام سے بہ طور ہیروئن کاسٹ کیا۔ اس کے ساتھ محمد علی جو ان دنوں تھیٹر اور ریڈیو پر کام کرتے تھے، انھیں بھی چانس دیا۔ فلم کی موسیقی نہال عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی تھی اور میر تقی میر، مرزا غالب کے علاوہ جگر مراد آبادی، ماہر القادری جیسے شعرا کا کلام اس فلم میں‌ شامل تھا۔

    یہ فلم اس لیے بھی پاکستانی فلمی صنعت میں اہمیت رکھتی ہے اور یادگار ہے کہ کراچی کے نشاط سنیما میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اس کی اوّلین نمائش کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ اس فلم کے دو نغمات مشہور بھارتی گلوکار طلعت محمود کی آواز میں‌ ریکارڈ کیے گئے تھے۔

    ایک طرف یہ فضل احمد کریم فضلی کی پہلی کاوش تھی اور دوسری طرف محمد علی اور زیبا بھی پہلی بار بڑے پردے پر نمودار ہوئے۔ بعد میں لیجنڈری اداکار محمد علی کی شادی اداکارہ زیبا سے ہوئی اور اس جوڑی نے بہت عزت اور احترام پایا۔ ٹی وی اور فلم کے معروف اداکار طلعت حسین نے اس فلم میں پہلی بار کام کیا تھا اور وہ اداکارہ دیبا کے چھوٹے بھائی بنے تھے۔

    فلم کا ایک اہم کردار شاکر تھا جس کے گرد فلم کی کہانی گھومتی ہے اور یہ کردار ریڈیو کے فن کار وحید محمود نے ادا کیا تھا۔ وہ ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر بنے تھے، جو نہایت ایمان دار، اصول پرست اور شریف شخص ہوتا ہے۔ اس کہانی میں شاکر (وحید محمود) کو اپنے قصبے کے ایک خود غرض اور لالچی سیاست داں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اپنی بیٹی جمیلہ (زیبا) کی شادی شاکر کے بیٹے جمیل (عارف) سے کرنے کو کہتا ہے اور شاکر کی عزت اور نیک نامی کا فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔ لیکن شاکر انکار کر دیتا ہے اور پھر اسے سیاست داں اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر نوکری سے برخاست کروا دیتا ہے۔ ادھر جمیلہ اور جمال کا رشتہ طے کردیا جاتا ہے، جب کہ شاکر اپنے بیٹے جمیل کو کراچی بھیج کر خود اپنی بیٹی صبا (دیبا) اور منّے (طلعت حسین) کے ساتھ کسی اور گاؤں چلا جاتا ہے۔ اس گاؤں کا نواب محمود (کمال ایرانی) اسے اپنے گاؤں میں رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ یہ کردار دوسروں کو اپنا نام ایاز بتاتا ہے۔ ایاز بن کر وہ لوگوں کے دکھ اور تکلیفوں کا پتہ لگاتا ہے، اور کسی کو علم نہیں ہوتا کہ یہ نواب محمود ہے۔ اسی نواب کا چھوٹا بھائی افسر خان (محمد علی) فطرتاً ایک ہوس پرست شخص تھا، وہ ایک روز شاکر کی بیٹی صبا پر اپنی بری نظر ڈالتا ہے۔ بدقسمتی سے اصول پرست اور خود دار شاکر کی بیگم (صفیہ) ایک لالچی عورت ہوتی ہے، اور افسر خان سے صبا کی شادی پر رضامند ہوجاتی ہے جس کی شاکر مخالفت کرتا ہے۔ بیگم کو افسر خان کا بھائی بھی اس شادی سے منع کرتا ہے، مگر وہ نہیں مانتی اور حالات بدلتے ہیں تو ایک روز افسر خان صبا کو اغوا کرنے کا پروگرام بناتا ہے۔
    شاکر اپنی بیٹی کے اغوا کے بعد کراچی اپنے بیٹے جمیل کے پاس پہنچتا ہے۔ جمیل ایک پبلشر نبی احمد کے پاس رہ رہا ہوتا ہے، وہیں جمیلہ بھی موجود ہوتی ہے۔ افسر خان بھی اسی پبلشر کا مہمان بن کر اس کے گھر میں آتا ہے۔ جمیلہ کو دیکھ کر وہ اسے اپنی بیوی بنانے کا سوچتا ہے، لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ جمیل کو چاہتی ہے، تو افسر خان جمیل کو نوکری دلانے کے چکر میں ڈھاکا بھیج دیتا ہے، تا کہ جمیلہ سے شادی کر سکے۔ شاکر دوبارہ اپنے قصبے کی طرف روانہ ہوتا ہے، جہاں اسٹیشن پر اس کی ملاقات اپنی بیٹی صبا سے ہوتی ہے، جو اسے بتاتی ہے کہ افسر خان نے شادی کا دھونگ رچا کر اس کی عزت برباد کردی ہے، یہ سن کر شاکر افسر خان کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ صبا کو اپنی بیوی تسلیم کرے، ورنہ اسے عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ سن کر افسر خان اپنے تعلقات سے شاکر کو جیل کروا دیتا ہے۔ جب جمیل کو سارے حالات کا پتہ چلتا ہے، تو وہ گاؤں آکر افسر خان کو ختم کرنے جاتا ہے، لیکن وہ اسے پولیس کے ذریعے گرفتار کرا دیتا ہے۔ جیل میں باپ اور بیٹے کی ملاقات ہوتی ہے۔ جمیل شاکر اپنے اچھے کردار کی وجہ سے تمام قیدیوں کی نظر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک روز افسر خان کا ساتھی پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، اور افسر خان کے سارے مظالم سے پردہ ہٹا دیتا ہے۔ افسر خان کو پولیس پکڑ لیتی ہے۔ جمیل اور جمیلہ کی شادی ہوجاتی ہے۔ شاکر کی ساری تکلیفیں دور ہو جاتی ہیں اور ایک نئی صبح کا چراغ جلتا ہے۔

    یہ ایک کام یاب فلم تھی جس کے ہیرو عارف کی اداکاری کو بھی فلم بینوں نے پسند کیا تھا، لیکن وہ دوبارہ بڑے پردے پر نظر نہیں‌ آئے۔

  • عامر خان نے فلم انڈسٹری سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیوں کیا تھا؟ اداکار کا انکشاف

    عامر خان نے فلم انڈسٹری سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیوں کیا تھا؟ اداکار کا انکشاف

    بالی ووڈ انڈسٹری میں 3 دہائیوں تک راج کرنے والے اداکار بالی ووڈ کے مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان نے انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنی فیملی کے سامنے فلموں سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا لیکن بچوں نے ان سے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہا۔

    حال ہی میں بھارتی میڈیا سے گفتگو کے دوران اداکار عامر خان نے فلموں  سے ریٹائرمنٹ کے اعلان اور اس فیصلے پر سابقہ اہلیہ کرن راؤ کے جذباتی ہونے سے متعلق گفتگو کی۔

    عامر خان نے کہا کہ میں نے فلم لال سنگھ چڈھا کی شوٹنگ مکمل ہونے سے پہلے ہی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرلیا تھا، کووڈ کے بعد مجھے احساس ہوا کہ 18سال کی عمر سے شروع ہونے والے کیرئیر میں، میری ساری توجہ سنیما اور فلموں پر ہی مرکوز رہی، اس دوران میں اپنی فیملی کو وقت ہی نہیں دے سکا یہاں تک کے اپنی سابقہ اہلیہ کو بھی وقت نہیں دے سکا۔

    عامر خان نے کہا کہ کووڈ کے دوران میں ایسے جذباتی لمحوں سے گزرا جب میں  نے فیملی کو وقت نہ دینے کے سبب  خود کو مجرم محسوس کیا، میں نے فیصلہ کیا کہ  گزشتہ 35 سالوں کے دوران میں نے متعدد فلمیں کی ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ کچھ وقت فیملی کے ساتھ گزاری جائے۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ مجھے یہ احساس 88 سال کی عمر کے بجائے 57 سال کی عمر میں ہی ہوگیا کیوں کہ تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی۔

    عامر خان نے کہا کہ جب میں ریٹائرمنٹ کی بات فیملی سے کی تو میرے بچوں سے مجھے ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر دوبارہ سوچنے کو کہا اور میری سابقہ اہلیہ کرن راؤ تنہائی میں میرے پاس آئیں اور آبدیدہ ہوگیئں۔

    عامر خان نے بتایا کہ کرن نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ ہمیں چھوڑ رہے ہیں؟ میں نے کہا، نہیں میں آپ کو نہیں بلکہ فلمیں چھوڑ رہا ہوں، جس پت مجھے کرن نے کہا کہ آ] ’ چائلڈ آف سینما‘ ہیں  اگر آپ فلمیں چھوڑ رہے ہیں تو آپ ہمیں چھوڑ رہے ہیں۔

    عامر خان نے مزید بتایا کہ کرن راؤ نہیں چاہتی تھی کہ میں ہر وقت گھر میں رہوں، جس کے بعد میں نے 6 فلمیں اس لیے سائن کی ہیں کیونکہ میں ایک اداکار کے طور پر اپنی  زندگی کے آخری 10 سالوں کو سب سے زیادہ نتیجہ خیز بنانا چاہتا ہوں۔

  • فواد خان کی بھارتی اداکارہ وانی کپور کیساتھ رومانٹک کامیڈی فلم کی تصویر وائرل

    فواد خان کی بھارتی اداکارہ وانی کپور کیساتھ رومانٹک کامیڈی فلم کی تصویر وائرل

    پاکستان شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار و ماڈل فواد خان کی بھارتی اداکارہ وانی کپور کے ساتھ رومانوی تصویر وائرل ہوگئی۔

    پاکستان ڈرامہ و فلم انڈسٹری میں اپنی اداکاری سے مداحوں کے دل میں جگہ بنانے والے اداکار فواد خان کی انتہائی متوقع بالی ووڈ میں واپسی کے حوالے سے تصدیق ہوگئی، پاکستانی اداکار بھارتی اداکارہ وانی کپور کے ساتھ اسکرین شیئر کرنے کے لیے تیار ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)

    گزشتہ کئی ماہ سے فواد خان کی اداکارہ وانی کپور کے ساتھ فلم کے چرچے ہورہے ہیں تاہم اسی کے دوران فواد خان اور وانی کپور کی رومانوی تصویر نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس تصویر میں فواد خان سفید شرٹ پہنے سبز گھاس پر لیٹے ہوئے ہیں جبکہ ان کے کندھے پر وانی کپور آنکھیں بند اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے لیٹی ہوئی ہیں۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق فواد خان اور بالی ووڈ اداکارہ وانی کپور نے لندن میں اپنے آنے والی رومانوی کامیڈی فلم ’عبیر گلال‘ کی شوٹنگ کا باضابطہ آغاز کر دیا ہے، فلم میں دونوں بطور جوڑی نظر آئیں گے۔

    فواد خان کی بھارتی اداکارہ وانی کپور کیساتھ رومانٹک کامیڈی فلم کی تصویر وائرل

    بھارتی میڈیا کے مطابق فلم عبیر گلال کی ہدایتکاری کے فرائض آرتی بگدی نبھائیں گی جس کی کہانی کے حوالے سے انہوں نے انکشاف کیا کہ فلم میں دو لوگ  انجانے میں ایک دوسرے کے زخم پر مرہم رکھنے کا کام کریں گے اور یہی  انکے درمیان محبت ہوجانے کی وجہ بنے گا۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ لندن میں فلم میں شوٹنگ کا آغاز 28 ستمبر کو ہوا، کاسٹ اور عملہ 10 نومبر تک لندن میں شوٹنگ کرے گا، اس دوران اداکارہ و ڈانسر ملائکہ اروڑہ اور ردھی ڈوگرا لندن میں ٹیم کو جوائن کریں گے، اس کے بعد فواد خان پاکستان واپس آجائیں گے جب کہ فلم کی ٹیم ممبئی میں ایک ہفتے تک شوٹنگ دوبارہ شروع کرے گی۔

  • کنگنا رناوت نے بھارتی فلم سینسر بورڈ کو ’بیکار‘ قرار دیدیا

    کنگنا رناوت نے بھارتی فلم سینسر بورڈ کو ’بیکار‘ قرار دیدیا

    ممبئی: بھارت کی متنازع اداکارہ و سیاستدان کنگنا رناوت نے سنسر بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن کو ایک بیکار ادارہ قرار دیدیا۔

    بالی ووڈ کی اداکارہ و سیاستدان کنگنا رناوت ہندی فلم انڈسٹری کا ایک ایسا نام ہیں جو ہمیشہ سرخیوں اور تنازعات میں رہتی ہیں، کبھی اپنی ٹھوس اداکاری کی وجہ سے تو کبھی لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تاہم ان دنوں وہ اپنی متنازعہ فلم ’ایمرجسنی‘ کو لے کر خبروں میں ہیں۔

    فلم ایمرجنسی کو 5 ستمبر کو ریلیز کیا جانا تھا تاہم سکھ برادری کی مخالفت کے باعث ایمرجنسی کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے، پہلے سینسر بورڈ نے کنگنا رناوت کی فلم ایمرجنسی کو پاس نہیں کیا تھا لیکن ان اسے بھارتی فلم سینسر بورڈ نے پاس کردیا ہے۔

     کنگنا رناوت نے بھارتی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں ایک بار پھر اپنی بے باکی کا مظاہرہ کیا ہے اور بھارت میں او ٹی ٹی سنسر شپ کا مطالبہ کیا ہے۔

    کنگنا رناوت نے کہا کہ اس جدید دور میں ہم جس مقام پر کھڑے ہیں سچ پوچھیں تو سنسر بورڈ ایک بے کار ادارہ بن چکا ہے، میں نے گزشتہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی یہی بات اٹھائی تھی۔

    کنگنا نے او ٹی ٹی پر آنے والے کچھ مواد پر سوالات اٹھائے اور اس پر سینسر شپ کا مطالبہ کیا ہے، او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر جاری ہونے والا مواد بھی سنسر بورڈ کے دائرہ کار میں آنا چاہیے۔

    اداکارہ نے کہا ہے کہ آج کل بچے یوٹیوب کا بہت زیادہ استعمال کررہے ہیں اور یہ ایک تشویشناک بات ہے، او ٹی ٹی پر آنے والا مواد بچوں کے لیے خطرناک ہے، ہمارے یہاں ایسا ہوتا ہے او ٹی ٹی والوں کو پیسے دیں اور اپنی پسند کی کوئی بھی چیز دیکھیں، یہ غلط ہے۔

     کنگنا رناوت نے مزید کہا ہے کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارم مواد کو سنسر بورڈ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

    فلم ’ایمرجنسی‘ کی کہانی اداکارہ اور رکن پارلیمنٹ کنگنارناوت کی تحریر کردہ ہے، جسےاداکارہ اورزی اسٹوڈیو نے مشترکہ طور پر پروڈیوس کی ہے۔ فلم کی کہانی 1975 میں اندرا گاندھی حکومت کی جانب سے بھارت میں لگائی گئی ایمرجنسی پر مبنی ہے۔

    کنگنارناوت نے اس فلم میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کا کردار نبھایا ہے، فلم کی کاسٹ میں انوپم کھیر، شریاس تالپڑے، وشک نائر، ماہیما چوہدری اور ملند سومن بھی شامل ہیں۔

  • این ایم خان رپورٹ اور نیفڈیک

    این ایم خان رپورٹ اور نیفڈیک

    1970ء کی دہائی میں نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیف ڈیک) کے نام سے ایک ادارہ ملک میں‌ قائم ہوا جس کا مقصد پاکستان میں فلم کی ترویج اور انڈسٹری کو وسائل مہیا کرکے اسے پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کرنا تھا، لیکن بوجوہ یہ ادارہ اپنے مقصد کی تکمیل میں ناکام ہوگیا۔

    نیف ڈیک کا نام بالخصوص فن کاروں، شوبزنس اور فلم کے مختلف شعبہ جات سے وابستہ افراد جیسے ڈسٹری بیوٹر وغیرہ کے لیے ہرگز نیا نہیں اور دنیا بھر میں ایسے اداروں کی بدولت سرکاری خزانے اور فلم انڈسٹری کی آمدن جاری رہتی ہے۔ یہاں ہم یٰسین گوریجہ جیسے معروف فلمی مؤرخ اور مصنّف کی ایک تحریر (بی بی سی اردو) سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    تین دہائی (اب پچاس برس) پہلے نیشنل فلم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن یا نیفڈیک کا قیام پاکستان کی فلمی صنعت کو ان مشکلات سے نکالنے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا جن سے وہ آج بھی دوچار ہے۔

    نیفڈیک کا قیام کسی شخصی فیصلے کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے پاکستان کی فلمی صنعت کی ترقی کی خواہش اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہونے والی منصوبہ بندی کارفرما تھی۔

    انیس سو اٹھاون سے انیس سو انہتر کے ایوب خان دور میں پہلی بار محسوس کیا گیا کہ فلمی صنعت کو تقویت ملنی چاہیے۔ چنانچہ اس دور میں فلمی صنعت کی بہتری اور بہبود کے لیے ایک جامع رپورٹ تیار کی گئی جسے این ایم خان رپورٹ کہا جاتا ہے۔

    بھٹو دور میں این ایم خان رپورٹ کی بنیاد پر فلم ترقیاتی کارپوریشن اور نیفڈیک کی بنیاد رکھی گئی۔ نیفڈیک کو چلانے کے لیے امریکی فلمسازوں کا ایوب دور میں منجمد شدہ سرمایہ استعمال کیا گیا۔

    ساڑھے چار کروڑ روپے کی منجمد رقم نیفڈیک کو اس شرط پر واگزار کر دی گئی کہ اس رقم کا سود امریکی فلمسازوں کو واپس کیا جائے گا۔

    نیفڈیک جو ملکی فلم انڈسٹری کی ترقی و بہبود کے لیے وجود میں لائی گئی تھی لیکن اسے ایک کاروباری ادارہ بنا دیا گیا اور اس ادارے کو چلانے کے لیے کسی فزیبیلیٹی کے بغیر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دفاتر قائم کیے گئے اور وافر عملہ ملازم رکھ لیا گیا۔ نیفڈیک نے ابتدا میں ہی غلط بخشیاں شروع کر دی۔ مثلاً جمیل دہلوی کو لندن میں ’فائیو ریورز‘ کے نام سے لاکھوں روپے فنانس کر دیے گئے۔ اسی طرح اے جے کاردار کو ’دور ہے سُکھ کا گاؤں‘ بنانے کے لیے خاصی رقم دے دی گئی اور دونوں فلمیں نامکمل رہیں اور تمام سرمایہ ڈوب گیا۔

    اسی طرح ’خاک اور خون‘ کے نام سے ایک فلم مکمل کی گئی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ دو تین پاکستانی فلموں، موم کی گڑیا وغیرہ ڈسٹری بیوشن کے لیے حاصل کی گئیں جو ناکام ہو گئیں۔ اسی دور میں پرائیویٹ چینل پر انگریزی فلموں کی درآمد بند کر کے نیفڈیک نے امریکی فلموں کی تقسیم کا کام شروع کر دیا۔

    اسلام آباد میں غیر آباد جگہ پر دو سنیما بنا لیے اور لاہور میں الفلاح سنیما ٹھیکے پر حاصل کر لیا گیا۔ اسی دور میں وہ تمام سرمایہ برباد کر دیا گیا جو امریکی فلمسازوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ نیفڈیک گھاٹے میں جانے لگی۔

    ضیاءالحق کا دور آیا تو اس میں کچھ اصلاحات پر غور کیا گیا۔ فلمی صنعت کی بہتری کے لیے فلمسازوں کی رجسٹریشن اور نیشنل فلم ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لیکن نیفڈیک کے حالات دن بدن بگڑتے چلے گئے۔ بے نظیر اور نواز شریف کے دونوں ادوار میں نیفڈیک کی اصلاح نہ ہو سکی۔ چنانچہ مشرف دور میں اسے مکمل طور پر بند کر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

    اس دور میں نیفڈیک کے چیئرمین میجر جنرل (ر) عنایت اللہ نیازی کی کوششوں سے فلم انڈسٹری میں بہتری کی کچھ صورت پیدا ہوئی۔ انہوں نے فلم ٹریڈ پر نافذ متعدد ٹیکس ختم کرا دیے۔ تفریحی ٹیکس کو فکس ٹیکس کی شکل دے دی گئی۔ لیکن دیکھا گیا کہ فلمی صنعت یا فلمسازوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔

    یسین گوریجہ مزید لکھتے ہیں کہ نیفڈیک ختم کرنے کے بعد نئی حکومت نے اس کے اثاثے بائیس کروڑ میں فروخت کر دیے گئے۔

  • آنجہانی اداکار نندا نے فلم انڈسٹری میں قدم کیوں رکھا تھا؟

    آنجہانی اداکار نندا نے فلم انڈسٹری میں قدم کیوں رکھا تھا؟

    ممبئی: مشہور اداکارہ نندا نے فلم اداکارہ بننے کے بجائے فوج میں جانا چاہتی تھیں لیکن فلم انڈسٹری میں اداکارہ بنیں اور شائقین کا دل جیتا ہے۔

    مشہور اداکارہ نندا نے اپنی دلکش اداؤں سے تقریباً تین دہائی تک شائقین کا دل جیتا ہے لیکن بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ وہ فلم اداکارہ بننے کے بجائے فوج میں جانا چاہتی تھیں۔

    8 جنوری 1939 کو نندا کی پیدائش ممبئی میں ہوئی، اداکارہ کی فیملی کا تعلق پہلے ہی انڈسٹری سے تھا، ان کے والد ماسٹر ونایک مراٹھی تھیٹر کے مشہور مزاحیہ اداکار تھے۔

    اس کے علاوہ ماسٹر ونایک نے کئی فلمیں بھی بنائیں تھیں، ان کے والد چاہتے تھے کہ نندا فلم انڈسٹری میں اداکارہ بنیں لیکن اس کے باوجود نندا کی دلچسپی اداکاری کی طرف نہیں تھی۔

    بھارتی میڈیا نے ایک روپورٹ میں بتایا ہے کہ آنجہانی نندا عظیم مجاہد آزادی سبھاش چندر بوس سے بے حد متاثر تھیں اور ان کی ہی طرح فوج میں جاکر ملک کی حفاظت کرنا چاہتی تھیں۔

    ایک دن کا واقعہ ہے کہ جب نندا پڑھائی میں مصروف تھیں تب ان کی والدہ نے ان کے پاس آکر کہا تمہیں اپنے بال کٹوانے ہوں گے، کیونکہ تمہارے پاپا چاہتے ہیں کہ تم ان کی فلم میں لڑکے کا رول ادا کرو۔

    ماں کی یہ بات سن کر نندا کو بہت غصہ آیا، پہلے تو انہوں نے بال کٹوانے کےلئے صاف منع کر دیا لیکن ماں کے سمجھانے پر وہ اس بات کےلئے تیار ہو گئیں،  اس فلم کے بننے کے دوران نندا کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا اور وہ فلم بھی ادھوری رہ گئی۔

    نندا کے والد کے انتقال کے بعد ان کی معاشی حالت خراب ہونے لگی، صورتحال اتنی ابتر ہوگئی کہ گھر اور کار تک بیچنے کی نوبت آگئی، خاندان کی معاشی حالت خراب ہونے کی وجہ سے نندا نے اپنے بچپن میں ہی فلموں میں کام کرنا شروع کردیا۔

    فلم ’چھوٹی بہن‘ کی کامیابی کے بعد نندا کو کئی اچھی فلموں کی پیش کش آنا شروع ہوگئیں، دیو آنند کی فلم کالا بازار اور ہم دونوں، بی آر چوپڑا کی فلم قانون قابل ذکر ہیں۔

    1965 نندا کے کیریئر کا اہم سال ثابت ہوا، اس سال ان کی فلم ’جب جب پھول کھلے‘ ریلیز ہوئی،  بہترین موسیقی، نغموں اور اداکاری سے آراستہ اس فلم کی زبردست کامیابی نے نہ صرف اداکار ششی کپور اور نغمہ نگار آنند بکشی اور موسیقار کلیان جی آنند جی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا ساتھ ہی نندا کو بھی ایک بہترین اداکارہ کے طورپر کامیابی دلائی۔

    1965 میں اداکارہ کی ایک اور سپر ہٹ فلم ’ گم نام‘ ریلیز ہوئی اس فلم میں وہ مشہور اداکار منوج کمار کے ساتھ نظر آئیں، 1969 میں ان کی فلم ’اتفاق‘ ریلیز ہوئی، اس فلم میں راجیش کھنہ کے ساتھ ان کی جوڑی کو کافی پسند کیاگیا اور یہ فلم بھی سپرہٹ رہی۔

    1992 میں نندا نے فلم ساز اور ہدایت کار من موہن دیسائی کے ساتھ شادی کرلی لیکن 1994 میں ان کے شوہر کی موت سے نندا کو گہرا صدمہ پہنچا جس کے بعد  25 مارچ 2014 کو نندا نے اس دنیا کو الواع کہہ دیا۔

  • سورن لتا کا تذکرہ جنھیں‌ نذیر کی چاہت نے یکسر بدل کر رکھ دیا تھا

    سورن لتا کا تذکرہ جنھیں‌ نذیر کی چاہت نے یکسر بدل کر رکھ دیا تھا

    سورن لتا نے سکھ مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا تھا۔ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ان کا نیا نام سعیدہ بانو رکھا گیا، لیکن اس وقت تک وہ فلم نگری میں سورن لتا کے نام سے جو پہچان بنا چکی تھیں، اسے کوئی فراموش نہیں کرسکا۔

    سعیدہ بانو المعروف سورن لتا نے 2008ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ وہ برصغیر پاک و ہند میں اپنے وقت کی مقبول ہیروئن تھیں۔ فلم کے علاوہ تعلیمی شعبے میں اپنی خدمات کی وجہ سے سورن لتا نے بڑی پہچان بنائی۔ وہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور تھیں اور لڑکیوں کو پڑھانے کی بڑی حامی تھیں۔ انھوں نے لاہور میں جناح پبلک گرلز اسکول کی بنیاد رکھی اور آخر عمر تک شعبۂ تعلیم کے لیے خدمات انجام دیتی رہیں۔

    سورن لتا 20 دسمبر 1924ء کو راولپنڈی کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 1942ء میں رفیق رضوی کی فلم آواز کے ایک ثانوی کردار سے کیا تھا۔

    1943ء میں سورن لتا نے نجم نقوی کی فلم تصویر میں پہلی مرتبہ ہیروئن کے طور پر کام کیا، اس فلم کے ہیرو اداکار نذیر تھے۔ اگلی فلم لیلیٰ مجنوں تھی اور اس میں بھی وہ اداکار نذیر کے ساتھ نظر آئیں۔ یہ فلم سورن لتا کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی لائی اور انھوں نے اسلام قبول کرکے نذیر سے شادی کرلی۔ ان کی فلمی جوڑی بہت پسند کی جارہی تھی اور نذیر کام یاب ہیرو شمار کیے جاتے تھے۔ اداکار نذیر 1983ء میں وفات پاگئے تھے۔

    نذیر سے شادی کے بعد انھوں نے رونق، رتن، انصاف، اس پار اور وامق عذرا جیسی فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ سورن لتا نے بعد میں اپنے شوہر اور اس وقت کے مقبول ہیرو نذیر کے ساتھ مل کر فلم سچّائی بنائی تھی۔ یہ دونوں اس فلم میں ہیرو اور ہیروئن کے روپ میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ اسی سال پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم پھیرے ریلیز ہوئی۔ اس کے فلم ساز، ہدایت کار اور ہیرو نذیر اور ہیروئن سورن لتا تھیں۔ پھیرے کو زبردست کام یابی ملی اور اس کے بعد اس جوڑے کی پنجابی فلم لارے اور اردو فلم انوکھی داستان ریلیز ہوئیں۔

    1952ء میں نذیر نے شریف نیّر کی ہدایت کاری میں فلم بھیگی پلکیں تیار کی جس میں سورن لتا نے الیاس کاشمیری کے ساتھ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں نذیر نے ولن کا کردار ادا کیا تھا۔ 1953ء میں اداکارہ کی چار مزید فلمیں شہری بابو، خاتون، نوکراور ہیر ریلیز ہوئیں۔ ایک کام یاب فلمی کیریئر کے بعد سورن لتا نے انڈسٹری سے کنارہ کش ہو جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے قائم کردہ تعلیمی ادارے تک محدود ہوگئیں۔

  • نذیر کا تذکرہ جنھوں نے کلکتہ سے لاہور تک اپنے فلمی سفر میں‌ شان دار کام یابیاں سمیٹیں

    نذیر کا تذکرہ جنھوں نے کلکتہ سے لاہور تک اپنے فلمی سفر میں‌ شان دار کام یابیاں سمیٹیں

    پاکستان کے نام ور فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار نذیر نے 26 اگست 1983ء کو اس دارِ‌ فانی سے منزلِ جاودانی کی طرف کوچ کیا۔ انھوں نے 1935ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی فلم ’’چانکیہ‘‘ سے ہندوستان بھر میں بے مثال شہرت پائی تھی۔

    نذیر 1904ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز ایک خاموش فلم سے کیا تھا اور 1933ء میں کلکتہ چلے گئے جو اس زمانے کی فلم انڈسٹری ہونے کی وجہ سے ہر بڑے چھوٹے فن کار کا ٹھکانہ تھا۔ انھیں ان کے فلم ساز دوست کی مدد حاصل تھی اور نذیر کو ’’چانکیہ‘‘ میں‌ اداکاری کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے ثابت کردیا کہ وہ باصلاحیت اور نہایت باکمال فن کارہیں۔ اس فلم نے انھیں‌ شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اسی دور میں ان کی دیگر فلمیں چندر گپت، دہلی کا ٹھگ، پیاس اور اپنی نگریا وغیرہ نمائش پذیر ہوئیں۔

    اداکار نذیر نے 1939ء میں ہند پکچرز کے نام سے اپنا فلمی ادارہ بنا لیا اور سندیسہ، سوسائٹی، آبرو، سلمیٰ، لیلیٰ مجنوں اور وامق عذرا نامی فلموں میں نظر آئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے سورن لتا سے شادی کرلی جن کے ساتھ ان کی فلمی جوڑی بہت پسند کی گئی تھی۔

    قیام پاکستان کے بعد نذیر لاہور آگئے۔ یہاں انھوں نے ’’سچائی‘‘ کے نام سے اپنی پہلی فلم بنائی۔ اس کے بعد فلم ’’پھیرے‘‘ ریلیز ہوئی اور اس نے زبردست کام یابی حاصل کی۔ اس کے بعد نذیر نے انوکھی داستان، خاتون، شہری بابو، ہیر، صابرہ، نورِ اسلام، عظمتِ اسلام جیسی کام یاب فلمیں‌ انڈسٹری کو دیں۔ انھوں نے اداکاری کے علاوہ فلم سازی میں خوب نام و مقام بنایا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کا یہ ہمہ جہت فن کار لاہور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سو رہا ہے۔

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے خوش خبری، فلم پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے خوش خبری، فلم پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی

    اسلام آباد: پاکستان میں فلمی صنعت کی بحالی کے لیے طویل عرصے سے التوا کی شکار فلم پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے آج اسلام آباد میں فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے وفد نے ملاقات کی جس میں چیئرمین سی پیک عاصم سلیم باجوہ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار، اور سینیٹر فیصل جاوید شریک تھے۔

    وفد کی قیادت ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین جرجیس سیجا کر رہے تھے، شیخ امجد رشید، سنتیش آنند، چوہدری کامران، فضا علی مرزا، عرفان ملک اور بدر اقبال بھی شریک تھے۔

    اس ملاقات میں طویل عرصے سے التوا کی شکار فلم پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی، فلمی صنعت کی بحالی کے لیے تمام تر اقدامات اٹھانے کے عزم کا بھی اعادہ کیا گیا۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں شعبہ فلم کی ترقی اور بحالی حکومت کی ترجیح ہے، حکومت فلموں کی ایکسپورٹ کی حوصلہ افزائی کے لیے پُر عزم ہے، فواد چودھری نے برآمدات کے حوالے سے فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کو فوکل گروپ تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں سعودی عرب اور چین کے ساتھ تعاون و اشتراک سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا حکومت فلمی صنعت کے لیے ٹیکس مراعات اور دیگر مراحل کی منظوری سہل بنانے کے لیے بھی اقدام اٹھا رہی ہے۔

    وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا ہم نے فلمی صنعت کی تنزلی کو ترقی کے سفر میں بدلنا ہے، جس کے لیے بہترین تخلیق، ٹیکنالوجی کے امتزاج، اور اچھے مواد پر توجہ دینا ہوگی۔

  • پاکستانی فلموں کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر کی برسی

    پاکستانی فلموں کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر کی برسی

    26 اپریل 2005ء کو فلمی صنعت کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر انتقال کرگئے تھے۔ ان کا شمار ایسے فن کاروں‌ میں ہوتا ہے جو انڈسٹری میں‌ اپنے کام کے ساتھ ساتھ فلمی صنعت کی ترقی، بقا اور استحکام کے لیے بھی سرگرم رہے اور اس حوالے سے مثبت کردار ادا کیا۔ آج پنجابی فلموں‌ کے اس مشہور اداکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    انھوں نے لگ بھگ 150 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، خلیفہ نذیر کی اداکاری میں بے ساختگی ہوتی تھی جو فلم بینوں کو محظوظ کرتی تھی۔ خلیفہ نذیر نے پنجابی فلموں میں مزاحیہ اداکار کی حیثیت سے رنگیلا اور منور ظریف کے بعد بڑی مقبولیت حاصل کی۔

    ان کے فلمی کیریئر کا آغاز 1963ء میں اردو فلم خون کی پیاس سے ہوا تھا تاہم ان کی شہرت کا آغاز 1966ء میں ریلیز ہونے والی فلم زمیندار سے ہوا جس میں وہ ایک منجھے ہوئے مزاحیہ اداکار کے طور سامنے آئے۔ انھوں نے اس فلم کے ولن الیاس کاشمیری کے منشی کے طور پر اردو، پنجابی مکس زبان میں مکالمے بول کر جہاں شائقین کو اس انداز سے محفوظ ہونے کا موقع دیا، وہیں متاثر کن اداکاری بھی کی تھی۔

    خلیفہ نذیر نے زیادہ تر پنجابی فلموں میں ہی کردار نبھائے۔ ان کی مشہور فلموں میں بھائیاں دی جوڑی، انورا، اصغرا، دولت اور دنیا، انتقام، غلام، اک دھی پنجاب دی، بے تاب اور ماں پتر کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے فلم مستانہ میں مرکزی کردار بھی ادا کیا۔