Tag: فلم انڈسٹری

  • کرونا وبا ختم ہوتے ہی شائقین سینما گھروں کا رخ کریں گے: ہمایوں سعید

    کرونا وبا ختم ہوتے ہی شائقین سینما گھروں کا رخ کریں گے: ہمایوں سعید

    کرونا وائرس کی وبا نے جہاں دنیا کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے وہیں فلم انڈسٹری کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے، خصوصاً پاکستانی فلم انڈسٹری جو اس وقت اپنی بحالی کے مرحلے میں تھی اس وبا کے دوران خاصی متاثر ہوئی۔

    معروف اداکار و پروڈیوسر ہمایوں سعید نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ کرونا وائرس کی وبا ختم ہونے کے بعد جب سینما گھر کھلیں گے تو شائقین ضرور واپس آئیں گے۔

    ہمایوں سعید کا کہنا تھا کہ گزشتہ 5 سال سے پاکستانی فلم انڈسٹری کی تعمیر نو جاری تھی، نئے سینما گھر کھل رہے تھے، سرمایہ کار اس طرف راغب ہورہے تھے لیکن کرونا وبا کی وجہ سے ان کوششوں کو خاصا دھچکا پہنچا۔

    انہوں نے کہا کہ اس پورے عرصے کے دوران لوگوں نے سینما گھروں کو بہت مس کیا ہے لہٰذا سینما کھلتے ہی وہ ضرور واپس آئیں گے۔

    ہمایوں کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران نیٹ فلکس اور امیزون پرائم پر ویب سیریز اور مختلف قسم کا مواد دیکھنے کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے، لیکن تب بھی سینما دیکھنے کے لیے فیملی کے ساتھ باہر نکلنا اور درجنوں افراد کے ساتھ بڑی اسکرین پر فلم دیکھنا یہ وہ جادو ہے جو کسی صورت گھر بیٹھے حاصل نہیں ہوسکتا۔

    انہوں نے کہا کہ ان پلیٹ فارمز کی مقبولیت مزید بڑھتی جائے گی اس کے باوجود سینما کی جگہ کوئی نہیں لے سکے گا۔

    ہمایوں سعید نے بتایا کہ سینما گھر کھلتے ہی وہ خود بھی بھرپور انداز میں واپسی کریں گے۔ ان کی فلم لندن نہیں جاؤں گا 60 فیصد تیار ہے، اس کی 40 فیصد شوٹنگ لندن میں ہونی تھی لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے لندن بند ہوگیا۔

    ان کے مطابق جون جولائی تک جیسے ہی لندن میں لاک ڈاؤن ختم ہوگا وہ اس فلم کی شوٹنگ مکمل کریں گے اور ستمبر تک اس فلم کو ریلیز کردیا جائے گا۔

    علاوہ ازیں ان کی مزید فلموں کے اسکرپٹس بھی تیار ہیں جن کی شوٹنگ سال رواں کے وسط میں شروع کردی جائے گی۔

  • مشہور اداکارہ مینا کماری اور مسٹر راز دان

    مشہور اداکارہ مینا کماری اور مسٹر راز دان

    مشہور اداکارہ مینا کماری نے اپنے ایک مضمون میں اردو کے فلمی اخبار نویسوں کے بارے میں اپنے خیالات اور تجربات بڑے دل چسپ انداز میں بیان کیے تھے۔

    ویکلی ’فلم آرٹ‘ دلّی اور ماہنامہ ’شمع‘ کے بمبئی میں مقیم خصوصی نمائندے مسٹر راز دان ایم اے، کے بارے میں اس نے لکھا کہ وہ ایک گھریلو قسم کے شریف انسان ہیں جو دورانِ گفتگو اِس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ بیگانگی کا احساس تک نہیں رہتا، عام فلم جرنلسٹ جن کم زوریوں کا شکار ہیں وہ اُن سے بہت دور ہیں۔

    راز دان صاحب نے مینا کماری سے ہفت روزہ ’فلم آرٹ ‘ کے لیے ایک مضمون لکھنے کی فرمائش کی تو مینا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس عنوان سے، کس نوعیت کا مضمون تحریر کرے۔

    بہرحال اس نے ایک مضمون ’’اور سپنا پورا ہو گیا‘‘ سپردِ قلم کیا اور راز دان کے حوالے کر دیا۔

    مضمون شائع ہوا تو قارئین نے اُسے بہت پسند کیا اور بڑی تعداد میں تعریفی خطوط مینا کماری کے پاس پہنچے جن سے حوصلہ پا کر اُس نے بعد میں اردو میں کئی مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں اشاعت کی غرض سے بھیجے۔

    (وشو ناتھ طاؤس کے قلم سے)

  • فلم ڈائریکٹر نے مشہور اداکار راج کپور کو تھپڑ کیوں مارا؟

    فلم ڈائریکٹر نے مشہور اداکار راج کپور کو تھپڑ کیوں مارا؟

    ’بامبے ٹاکیز‘ نے بیسویں صدی کے 30 ویں عشرے میں ہندوستان کے فلم سازوں اور شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اس بینر تلے بننے والی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ اسی فلم اسٹوڈیو سے دلیپ کمار، مدھوبالا، راج کپور، دیوآنند جیسے فن کاروں کی شہرت کا سفر بھی شروع ہوا۔

    ہندوستانی سنیما کے مشہور اداکار راج کپور نے اسی اسٹوڈیو میں ڈانٹ سنی اور انھیں ایک روز تھپڑ بھی پڑا۔

    فلم ’جوار بھاٹا‘ کی شوٹنگ کی جارہی تھی جس میں راج کپور کا بھی ایک کردار تھا۔ فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کیدار شرما تھے۔

    ایک سین کی عکس بندی کے لیے جب وہ شوٹنگ شروع کرنے کو کہتے تو راج کپور کیمرے کے سامنے آتے اور اپنے بال ٹھیک کرنے لگتے۔ ایسا دو تین بار ہوا اور جب بار بار راج کپور نے یہی حرکت کی تو کیدار شرما برداشت نہ کرسکے اور آگے بڑھ کر انھیں ایک تھپڑ لگا دیا۔

    ڈائریکٹر کی جھڑکیاں اور وہ تھپڑ راج کپور کے کام آیا اور ہندی سنیما کے شائقین نے انھیں بے حد سراہا اور ان کے کام کو پسند کیا، بعد کے برسوں میں راج کپور اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے باکمال فن کاروں کی صف میں‌ کھڑے ہوئے اور ان کی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔

    (ہندوستانی سنیما سے متعلق راج نارائن کی یادداشتوں سے ایک ورق)

  • طلعت محمود کو سگریٹ پینے کی کیا سزا ملی؟

    طلعت محمود کو سگریٹ پینے کی کیا سزا ملی؟

    ایک زمانہ تھا جب اخلاقی قدریں، روایات اور کردار بہت اہمیت رکھتا تھا۔ مختلف شعبہ ہائے حیات میں غیر سنجیدہ طرزِ عمل، منفی عادت اور رویہ یا کوئی معمولی کوتاہی بھی کسی کے لیے مسئلہ بن جاتی تھی۔ ایسی صورتِ حال میں کسی شعبے میں اپنے سینئرز سے رعایت اور درگزر کی امید بھی کم ہی ہوتی تھی۔

    اس کی ایک مثال یہ واقعہ ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    یہ دنیائے موسیقی کی دو نہایت مشہور، باصلاحیت اور قابل شخصیات سے متعلق ہے جن میں سے ایک طلعت محمود ہیں جنھوں نے گلوکاری کے میدان میں خوب نام کمایا اور آج بھی ہم ان کی آواز میں کئی گیت نہایت ذوق و شوق سے سنتے ہیں اور انھیں پسند کرتے ہیں۔

    طلعت محمود نے ریڈیو سے گلوکاری کا سفر شروع کیا تھا اور جلد ہی مشہور فلم سازوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اپنے وقت کے نام ور موسیقاروں نے ان کی آواز کو معتبر اور پُرسوز مانا۔

    ایک وقت آیا کہ فلم انڈسٹری کی قد آور شخصیات اور کام یاب فلم سازوں نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا۔

    طلعت محمود خوب رُو اور پُرکشش شخصیت کے مالک تھے اور مشہور فلم ساز کے کہنے پر اداکاری بھی کی، لیکن درجن سے زائد فلموں میں کام کرنے کے باوجود وہ شائقین کو اس روپ میں متأثر نہ کرسکے۔

    تب وہ اپنی دنیا میں یعنی گلوکاری کی طرف لوٹ آئے اور ان کی آواز میں کئی گانے مشہور ہوئے۔

    طلعت محمود کے بعد ہم ماسٹر نوشاد کا تذکرہ کریں گے جنھیں ہندوستان کا عظیم موسیقار مانا جاتا ہے۔

    ماسٹر نوشاد کی خوب صورت اور دل موہ لینے والی دھنوں کے ساتھ طلعت محمود کی پُرسوز آواز نے ہندوستان میں‌ سنیما کے شائقین کو گویا اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔

    ماسٹر نوشاد ایک وضع دار، اپنی اقدار اور روایات سے محبت کرنے والے، سنجیدہ اور متین انسان تھے۔

    ایک مرتبہ انھوں نے طلعت محمود کو سگریٹ پیتے دیکھ لیا اور اس کے بعد کبھی اس مشہور گلوکار کے ساتھ کام نہیں کیا۔

    کہتے ہیں اس واقعے کے بعد طلعت محمود ایک بار بھی ماسٹر نوشاد کی ترتیب دی ہوئی موسیقی کے لیے کوئی غزل یا گیت ریکارڈ نہیں کروا سکے۔

  • جنگجو ہیرو اور شفیق انسان لالہ سدھیر کی یاد ستا رہی ہے

    جنگجو ہیرو اور شفیق انسان لالہ سدھیر کی یاد ستا رہی ہے

    لالہ سدھیر نے زندگی کی متعدد دہائیاں فلم انڈسٹری کے نام کیں اور سنیما بینوں کے دلوں پر راج کیا۔

    خاص طور پر میدانِ جنگ میں اپنے کردار کو نبھاتے ہوئے انھوں نے اپنے مداحوں کو ایسا متأثر کیا کہ جنگجو ہیرو کے نام سے مشہور ہو گئے۔

    آج اس اداکار کی 23 ویں برسی ہے۔

    پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو کی حیثیت سے نام بنانے والے سدھیر کا اصل نام شاہ زمان تھا، مگر سنیما نے انھیں سدھیر بنا دیا۔ فلم انڈسٹری میں اپنے وقت کے اس باکمال اداکار کو عزت اور احترام سے لالہ سدھیر پکارا جانے لگا۔ وہ نہایت شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے۔

    لاہور میں 1922 کو پیدا ہونے والے سدھیر نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی فلم ہچکولے میں کام کیا اور اس کے بعد فلم دوپٹہ نے انھیں شہرت دی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ نورجہاں نے کام کیا تھا۔ 1956 میں فلم ماہی منڈا اور یکے والی وہ فلمیں تھیں جنھوں نے سدھیر کی شہرت کو گویا پَر لگا دیے۔

    وہ اپنے وقت کی مشہور ایکٹریسوں نور جہاں، مسرت نذیر، صبیحہ خانم، آشا بھوسلے، لیلیٰ، زیبا، دیبا، شمیم آرا، بہار بیگم اور رانی کے ساتھ کئی فلموں میں ہیرو کے روپ میں نظر آئے اور شائقین نے انھیں پسند کیا۔

    کرتار سنگھ، بغاوت، حکومت، ڈاچی، ماں پتر، چٹان، جانی دشمن اور کئی فلمیں ان کی شہرت اور نام وری کا سبب بنیں۔

    19 جنوری 1997 کو لالہ سدھیر نے اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا۔

  • برصغیر کے مشہور گلوکار کی درجن بھر ناکامیوں کی روداد!

    برصغیر کے مشہور گلوکار کی درجن بھر ناکامیوں کی روداد!

    فلم انڈسٹری میں درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع دیے جانے کے باوجود طلعت محمود شائقین کو متأثر نہ کرسکے.

    انھوں‌ نے فلم سازوں کو بھی مایوس کیا، مگر اس میدان میں نامراد اور ناکام طلعت محمود آج بھی سُر اور آواز کی دنیا کا بڑا نام ہیں۔ گلوکار کی حیثیت سے مشہور طلعت محمود کو اس وقت کے نام ور فلم ساز اے آر کاردان نے اداکاری کے میدان میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تھا۔

    برصغیر میں پسِ پردہ گائیکی کے حوالے سے طلعت محمود کا نام شہرت کی بلندیوں پر تھا جب انھوں نے فلم راج لکشمی سائن کی۔ یہ 1945 کی بات ہے۔ وہ بڑے پردے پر ہیرو کے روپ میں نظر آئے۔ اس وقت ممبئی کی فلم نگری میں طلعت محمود کے اس فیصلے کا تو بہت شور ہوا، لیکن بڑے پردے پر اداکار کے روپ میں انہیں پزیرائی نہ ملی۔ پہلی فلم کی ناکامی کے باوجود طلعت محمود کو بڑے بینر تلے مزید فلموں میں رول دیے گئے، لیکن ہر بار ناکامی ان کا مقدر بنی۔

    لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر وہ فلمیں ہیں جن میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

    فلم نگری بہ حیثیت گلوکار ان کی شہرت کا آغاز آرزو نامی فلم کے گیت ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ سے ہوا۔ فلم داغ کے لیے انہوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت گائے اور اپنے فن کو منوایا۔

    طلعت محمود کے والد آل انڈیا ریڈیو پر نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ لکھنؤ کے طلعت کو بچپن ہی سے گانے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا کہ فلم انڈسٹری کے بڑے ناموں اور گائیکوں نے ان کے کمال فن کا اعتراف کیا۔

    1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر اپنی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کروایا تھا۔ بعد میں گلوکاری کے میدان میں کام یابیاں ان کا مقدر بنتی چلی گئیں۔ تاہم اداکاری کے میدان میں بری طرح ناکام رہے۔

  • اداکارہ رانی کی 73 ویں سال گرہ آج منائی جارہی ہے

    اداکارہ رانی کی 73 ویں سال گرہ آج منائی جارہی ہے

    معروف اداکارہ رانی کے مداح آج ان کی سال گرہ منا رہے ہیں۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں رانی کا سفر فلم محبوب سے شروع ہوا۔ ان کا اصل نام ناصرہ تھا، مگر 14 برس کی عمر میں‌ فلم نگری میں داخل ہونے والی ناصرہ نے یہاں‌ رانی کے نام سے اپنی جگہ بنائی.

    اداکارہ نے 8 دسمبر 1946 کو لاہور میں آنکھ کھولی. فلم انڈسٹری میں انھیں‌ ابتدا میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد اس دور کے فلم ساز رانی کو کاسٹ کرنے سے گریز کرنے لگے، لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور انڈسٹری سے ناتا جوڑے رکھا.

    فلم دیور بھابی سائن کرتے ہی گویا رانی کی قسمت کا ستارہ بھی اوج پر چلا گیا۔ اس کے بعد فلم بہن بھائی سپرہٹ ثابت ہوئی اور پھر انھیں‌ انجمن جیسی فلم ملی جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ رانی کے کیریر کی یادگار اور کام یاب ترین فلموں میں ایک گناہ اور سہی، بہارو پھول برساﺅ، ناگ منی اور ثریا بھوپالی شامل ہیں۔

    فلم انڈسٹری اور رانی کے مداح ان کی 73 ویں سال گرہ پر آج پھر انھیں یاد کررہے ہیں۔ بڑے پردے پر اپنی اداکاری سے شائقین کے دلوں میں اتر جانے والی رانی کو فلم انڈسٹری بھی ایک باکمال اداکارہ کے طور پر یاد کرتی رہے گی جس نے اپنے ہر کردار کو نہایت خوبی سے نبھایا اور ان میں حقیقت کا رنگ بھر دیا۔ تیکھے نینوں والی رانی 1993 میں یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئیں۔

  • سلیم رضا اور مشہور  نعتیہ کلام شاہِ مدینہ یثرب کے والی!

    سلیم رضا اور مشہور نعتیہ کلام شاہِ مدینہ یثرب کے والی!

    پاکستان میں گائیکی کے افق کا وہ ستارہ جو آج سے 36 برس پہلے ڈوب گیا تھا، وہ دل رُبا آواز جو ہمیشہ کے لیے روٹھ گئی تھی، اسے مداح، فلم انڈسٹری اور سُر و ساز کی دنیا میں آج برسی کے موقع پر پھر یاد کیا جارہا ہے۔ یہ سلیم رضا کا تذکرہ ہے۔ اس پسِ پردہ گائیک کی آڈیو اور ویڈیو ٹیپ میں محفوظ وہ مرھر آواز ہمارے ذہنوں میں آج پھر تازہ ہو گئی ہے۔

    50 اور 60 کی دہائی میں سلیم رضا کا نام شہرت کی بلندیوں کو چُھو رہا تھا۔ یہ گیت آپ کی یادوں میں آج بھی ضرور محفوظ ہوں گے۔

    اے دل کسی کی یاد میں، ہوتا ہے بے قرار کیوں۔۔
    جانِ بہاراں رشکِ چمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن
    کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا

    سلیم رضا نے 4 مارچ، 1932 کو امرتسر کے ایک مسیحی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان پاکستان منتقل ہوا تو لاہور کو سکونت کے لیے منتخب کیا جہاں سلیم رضا نے ریڈیو پاکستان سے گائیکی کے سفر کا آغاز کیا اور پھر فلم انڈسٹری تک چلے آئے۔ ان کی گائیکی اور رومانٹک گیتوں کا ذکر تو بہت ہوتا ہے، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اسی گلوکار کی آواز میں ایک حمد اور نعت بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ یہ خوب صورت حمدیہ شاعری دیکھیے۔

    کر ساری خطائیں معاف میری تیرے در پہ میں آن گرا
    تُو سارے جہاں کا مالک ہے میرا کون ہے تیرے سوا

    اس حمد کے خالق مشہور شاعر قتیل شفائی ہیں۔ اس کی طرز تصدق حسین نے ترتیب دی تھی جب کہ سلیم رضا نے اسے اپنی پُر سوز آواز میں ریکارڈ کروایا تھا۔

    اردو زبان کے نام ور گیت نگار تنویر نقوی کی یہ نعت کس نے نہیں سنی ہو گی اور کون ہے جس کے لبوں نے ان اشعار کے ذریعے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار نہ کیا ہو؟

    شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ یثرب کے والی
    سارے نبی تیرے در کے سوالی
    جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے
    آباد عالم تیرے کرم سے
    باقی ہر اک شے، نقشِ خیالی
    تیرے لیے ہی دنیا بنی ہے
    نیلے فلک کی چادر تنی ہے
    تُو اگر نہ ہوتا، دنیا تھی خالی
    سارے نبی تیرے دَر کے سوالی
    شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ۔۔۔۔۔

    اس نعتیہ کلام کو دَف کی تال پر موسیقار حسن لطیف نے کمپوز کیا تھا اور سلیم رضا و ہم نوا نے ریکارڈ کرایا تھا۔

  • وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے برطانوی رکن پارلیمنٹ برینڈن لیوس کی ملاقات

    وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے برطانوی رکن پارلیمنٹ برینڈن لیوس کی ملاقات

    اسلام آباد: وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری سے برطانوی رکن پارلیمنٹ برینڈن لیوس نے ملاقات کی، فواد چوہدری نے کہا کہ دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات تاریخی اعتبار سے مضبوط ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے برطانوی رکن پارلیمنٹ سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سرمایہ کاری اور سیاحت کے شعبے میں پوری دنیا کے لیے کھلا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ویزا پالیسی میں بہتری کے ساتھ الیکٹرانک ویزا بھی متعارف کرایا، پاک برطانیہ تعلقات کو عوام کے لیے مزید مضبوط اور فائدہ مند بنانے کے لے پر عزم ہیں۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی میں نمایاں کمی آئی ہے، امن و امان کی صورت حال میں بہتری سے پاکستان میں سیاحت میں نمایاں اضافہ ہوگا۔

    یہ بھی پڑھیں:  فواد چوہدری نے سلطنت برطانیہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیوں کیا؟

    انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی تاریخی ثقافت، پہاڑی سلسلے اپنی مثال آپ ہیں، دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے شمالی علاقہ جات کی خوب صورتی مسحور کن ہے۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ فلم کے ذریعے ثقافت کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، فلم کسی بھی معاشرے کی اقدار اور ثقافت کی عکاسی کا مؤثر ذریعہ ہے، ماضی میں پاکستان دنیا میں فلمیں بنانے والا تیسرا بڑا ملک تھا۔

    یاد رہے کہ 11 اپریل کو وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سلطنت برطانیہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا، وزیر اطلاعات نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ سلطنت برطانیہ جلیانوالہ باغ قتل عام اور قحط بنگال پر پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش سے معافی مانگے۔

  • پاکستان اور سعودی عرب کا فلم ڈراما پروڈکشنز میں تعاون بڑھانے پر اتفاق

    پاکستان اور سعودی عرب کا فلم ڈراما پروڈکشنز میں تعاون بڑھانے پر اتفاق

    ریاض: وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے سعودی وزیر ثقافت سے بات چیت کے دوسرے دور میں دونوں ممالک کے درمیان فلم اور ڈراما پروڈکشنز میں تعاون بڑھانے کے لیے ورکنگ گروپ پر اتفاق ہو گیا ہے۔

    ملاقات میں اس امر پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ پرفارمنگ آرٹ، فیشن ڈیزائننگ اور فن کاروں کی تربیت میں تعاون کیا جائے گا، پاک سعودی ثقافتی تعاون میں مفاہمتی یادداشت کی تفصیلات کو بھی حتمی شکل دی گئی۔

    سعودی وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداللہ بن محمد بن فرحان نے پاکستانی تجربے اور ماہرین سے استفادے کی اہمیت پر زور دیا، فواد چوہدری نے سعودی وزیر ثقافت کا ثقافتی شعبے میں تعاون بڑھانے پر شکریہ ادا کیا اور انھیں پاکستان آنے کی دعوت دی۔

    بعد ازاں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ڈراموں کے فروغ کے لیے سعودی حکام سے بات ہوئی ہے، پاک سعودی کلچر کے فروغ میں تعاون کریں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  حکومت نے سیاحتی و ثقافتی پلان طے کر لیا، خطے کا تین ہزار سالہ تاریخی ورثہ اجاگر کرنے کا فیصلہ

    انھوں نے کہا کہ پاکستانی سعودی عرب کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، ولی عہد کے دورہ پاکستان کے بعد تعاون میں جدت آئی، پاکستان میں سعودی شہریوں کے لیے آن ارائیول ویزے کی سہولت دی گئی ہے، عرب ممالک کے سیاح پاکستانی معیشت میں کردار ادا کریں گے۔

    خیال رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین گزشتہ روز سعودی عرب کے دورے پر ریاض پہنچے تھے جہاں ان کا استقبال ایئر پورٹ پر پاکستان کے سفیر اعجاز راجا اور سعودی کلچرل وزارت کے حکام نے کیا تھا۔