Tag: فلم ایکٹریس

  • شیلا، بمبئی سے خاص طور پر ’’انوکھی‘‘ کے لیے پاکستان آئی تھیں!

    شیلا، بمبئی سے خاص طور پر ’’انوکھی‘‘ کے لیے پاکستان آئی تھیں!

    وہ لوگ جو عمرِ عزیز کی ستّر سے زائد بہاریں‌ دیکھ چکے ہیں، اگر سنیما کا شوق رکھتے تھے تو شیلا رامانی کی یہ فلم ضرور دیکھی ہو گی، جس کا ایک گیت آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس کے بول ہیں، ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے، کہیں‌ دل کا جام نہ چھلکے…‘‘

    ماضی میں پاکستان میں‌ بننے والی کئی فلمیں‌ ایسی تھیں جن میں ٹائٹل رول نبھانے والے اداکاروں‌ کا تعلق بھارت یا دوسرے ممالک سے تھا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے بنائی گئی پاکستانی فلم ’’انوکھی‘‘ تھی جس کے ہدایت کار شاہ نواز تھے۔ اس فلم کی ہیروئن ’’شیلا رامانی‘‘ تھیں‌ جو تقسیم ہند سے قبل صوبۂ سندھ کے ایک شہر میں پیدا ہوئیں، لیکن بھارت جانے کے بعد وہاں‌ فلمی صنعت سے وابستہ ہو گئی تھیں۔

    اس فلم میں ان کے مقابل ہیرو اداکار شاد تھے۔ فلم ’’انوکھی‘‘ کے لیے شیلا رامانی کو خصوصی طور پر بمبئی سے بلوایا گیا تھا۔ یہ فلم 1956 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی جس میں شیلا رامانی نے اپنے کردار کو نہایت خوبی سے نبھایا اور ان کی پرفارمنس یادگار رہی، جب کہ ان پر فلمایا گیا گیت ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے کہیں دل کا جام نہ چھلکے….‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ اس فلمی گیت کو سرحد پار بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ تاہم یہ فلم باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔

    اپنے وقت کی اس مشہور اداکارہ نے 2015ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ وہ 2 مارچ 1932ء کو پیدا ہوئیں۔ چیتن آنند نے انھیں بولی وڈ میں متعارف کرایا اور 1954ء میں جب اداکارہ کی فلم ٹیکسی ڈرائیور نمائش کے لیے پیش کی گئی تو شیلا رامانی کو شائقین نے بہت پسند کیا اور یہی فلم ان کی وجہِ شہرت بنی۔ شیلا رامانی کی ایک سندھی فلم ابانا بھی ان کے کیریئر میں شان دار اضافہ ثابت ہوئی۔

    اس اداکارہ نے زیادہ تر فلموں میں امیر گھرانے کی لڑکی کا کردار نبھایا۔ وہ شادی کے بعد امریکا منتقل ہوگئی تھیں۔ تاہم ان کی زندگی کے آخری ایّام مدھیہ پردیش میں گزرے۔

    انھوں نے بمبئی فلم انڈسٹری کے لیے ٹیکسی ڈرائیور، سرنگ، ریلوے پلیٹ فارم، مینار، جنگل کنگ، آوارہ لڑکی اور دیگر فلموں میں کام کر کے شائقین سے اپنی شان دار اداکاری پر خوب داد سمیٹی۔

  • ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    نیّر سلطانہ کو ملکۂ جذبات کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں اپنے فنِ اداکاری سے نام و مقام بنایا اور ہیروئن سے لے کر کریکٹر ایکٹریس تک ہر کردار کو نہایت خوبی اور کمال سے نبھایا۔ آج نیّر سلطانہ کی برسی ہے۔

    اس اداکارہ کا اصل نام طیّبہ بانو تھا۔ وہ 1937ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ویمن کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آگئیں۔

    نیّر سلطانہ نے فلم انڈسٹری میں اپنے وقت کے نام وَر ہدایت کار انور کمال پاشا کے کہنے پر قدم رکھا جن سے نیّر سلطانہ کی ملاقات لاہور میں ہوئی تھی۔ انور کمال پاشا نے انھیں فلموں‌ میں‌ کام کرنے کی پیش کش کی اور یوں نیّر سلطانہ نے بڑے پردے پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔

    نیّر سلطانہ خوب صورت اور خوش قامت تھیں۔ وہ ایسی فن کار تھیں جنھیں فنونِ لطیفہ خاص طور پر اردو ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ انور کمال پاشا ان کی فن و ادب میں اسی دل چسپی اور ان کی گفتگو سے پہلی ہی ملاقات میں بہت متاثر ہوئے تھے۔ بعد کے برسوں میں ثابت ہوگیا کہ انور کمال پاشا کا انتخاب غلط نہ تھا۔

    اس اداکارہ کی پہلی فلم ’’قاتل‘‘ تھی اور یہ انور کمال پاشا کا پروجیکٹ تھا۔ 1955 میں نیّر سلطانہ نے ہمایوں مرزا کی فلم ’’انتخاب‘‘ میں کام کیا اور پھر اگلی چار دہائیوں‌ تک ان کا یہ سفر جاری رہا۔ 70ء کی دہائی کے آغاز میں انھیں کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے فلم نگری میں‌ کام ملنے لگا اور وہ اپنی اداکاری سے شائقین کو محظوظ کرتی رہیں۔ انھیں المیہ اور طربیہ کرداروں‌ کو نبھانے میں کمال حاصل تھا۔ اسی لیے انھیں ملکہ جذبات کہا جانے لگا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور میں ان کی مشہور فلموں میں ’’اولاد، ایاز، خیبر میل، پہچان، باجی، دیو داس، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ نیر سلطانہ نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں اردو میں 140 فلمیں، 49 پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی یادگار فلموں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں سہیلی، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سامنے آئیں‌ گے۔

    نیّر سلطانہ نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی۔ اس خوب صورت اور باکمال اداکارہ کو سرطان کا مرض لاحق تھا۔ 27 اکتوبر 1992ء کو نیّر سلطانہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔