Tag: فلم ریویو

  • ویب سیریز: اسکویڈ گیم (سیزن 3)

    ویب سیریز: اسکویڈ گیم (سیزن 3)

    چند برسوں سے دنیا بھر میں جنوبی کورین فلمیں اور ویب سیریز شوق سے دیکھی جا رہی ہیں اور کچھ فلموں نے تو مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ویب سیریز اسکویڈ گیم (squid game ) انہی میں سے ایک ہے، جو ناظرین کے دلوں کو چُھو گئی ہے۔ اب تک کروڑوں‌ لوگ اس ویب سیریز کو دیکھ چکے ہیں۔ یہ دنیا کے 93 ممالک میں نیٹ فلکس کے ٹاپ ٹین کے چارٹ میں نمبر ون پوزیشن پر رہی ہے اور اس وقت ہندی ڈبنگ کے ساتھ پاکستان اور انڈیا میں بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔

    27 جون 2025ء کو اسکویڈ گیم کا پریمیئر ہوا ہے اور یہاں ہم اس ویب سیریز کے تیسرے اور آخری سیزن کا ریویو پیش کررہے ہیں۔

    کہانی/ مرکزی خیال/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کی کہانی اور مرکزی خیال ہوانگ ڈونگ ہاؤک کا ہے، جو اس کے ہدایت کار بھی ہیں۔ خیال نیا نہیں ہے، لیکن اس کو ایک نئے انداز میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ ہوانگ ڈونگ ہاؤک کو ایک دہائی پہلے اس کا خیال آیا تو انہوں نے جنوبی کوریا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کو یہ کہانی سنائی، مگر کسی نے اسے لائقِ توجہ نہ سمجھا بلکہ یہ کہا گیا کہ کہانی میں دَم نہیں ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ یہ کہانی نیٹ فلیکس پر اب تک ریلیز ہونے والی ویب سیریز میں سب سے زیادہ مقبول کہانی ہے۔

    کہانی نویس اور ہدایت کار ہوانگ ڈونگ ہاؤک نے جنوبی کوریا میں بچّوں کے ایک کھیل کے ذریعے جس طرح وہاں کے لوگوں کی زندگیوں کا عکاسی کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس ویب سیریز میں یہ بتایا ہے کہ کیسے عام لوگ مالی پریشانی کے ساتھ ذہنی اذیت اور مختلف منفی احساسات کے دباؤ میں آکر اپنی زندگی کو جہنّم بنا لیتے ہیں اور پیسہ کمانے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔

    یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جنہیں ایک کھیل کو انعامی رقم جیتنے سے زیادہ اپنی بقا کے لیے کھیلنا پڑتا ہے۔ انہیں اس کھیل میں حصّہ لینے کا دعوت نامہ اچانک اور پراسرار طریقے سے موصول ہوتا ہے۔ کھیل ایک الگ تھلگ جزیرے پر ہوتا ہے اور شرکاء کو اس وقت تک بند رکھا جاتا ہے جب تک کہ کوئی کھیل کا حتمی فاتح بن کر سامنے نہ آجائے۔ اس کہانی میں 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں کے کوریائی بچوں کے مقبول کھیلوں کو شامل کیا گیا ہے، جیسے اسکویڈ گیم۔ اس میں جرم اور دفاع کے گھناؤنے کھیل کے لیے اسکویڈ کی شکل کا ایک بورڈ استعمال کیا جاتا ہے۔

    ایک ایسا کھیل، جو بظاہر سادہ سا ہے اور اس کے فاتح کو کروڑوں کی رقم بطور انعام دی جائے گی۔ اس مالی لالچ میں بہت سے معصوم لوگ بھی کھیل کھیل میں ایک دوسرے کی زندگیوں سے کھیلنے لگے ہیں۔ جیسے جیسے کھلاڑی جان سے جاتے جائیں گے، ویسے ویسے انعام کی رقم میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ کھیل اسی گھناؤنے اور خوں ریز چکر کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ہر لمحہ میں، مقابلہ کرنے والوں کو اگلی اسٹیج پر جانے سے پہلے، اپنی موت کی طرف دھکیلنے کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ کھلاڑیوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ تیسرے زون میں کم از کم ایک شخص کو مارنے کے بعد، آخر میں جو بھی باقی رہے گا، وہ کروڑوں کی یہ رقم حاصل کرے گا۔ یہ انعامی رقم کس نے حاصل کی، یہ جاننے کے لیے آپ کو ویب سیریز squid game دیکھنا ہوگی۔

    ہدایت کاری اور اداکاری

    فلم کے ہدایت کار ہوانگ ڈونگ ہاؤک نے پہلے دو سیزن میں تو ناظرین پر اپنی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا ایسا جادو جگایا کہ سب دیکھتے رہ گئے، لیکن تیسرے سیزن میں ایسا محسوس ہوا کہ ان کے ذہن میں جو آئیڈیا تھا، اس کا رَس گزشتہ دو سیزن میں نچوڑا جا چکا ہے اور اب تیسرے سیزن کے لیے کچھ باقی نہیں بچا۔ کم از کم تیسرے سیزن کے معیار کو دیکھا جائے یہ اپنے پچھلے دو سیزن کا آدھا بھی نہیں ہے۔ انتہائی مایوس کن ہدایت کاری اور کہانی کا مرکب، جس میں پوری ویب سیریز میں کہیں کلائمکس نہیں دکھائی دے رہا، حتٰی کہ لوکیشنز کے لحاظ سے، سیٹ ڈیزائننگ کے اعتبار سے اور پروڈکشن کے دیگر پہلوؤں سے بھی اس کا جائزہ لیا جائے تو اسے ایک بدترین اور زبردستی بنایا ہوا سیزن تھری کہا جائے گا۔ اس ویب سیریز کو دو سیزن پر ہی ختم ہو جانا چاہیے تھا۔

    اداکاری کی طرف چلیں تو مرکزی اور معاون کرداروں کو سبھی فن کاروں نے بخوبی نبھایا ہے، لیکن تینوں سیزن میں مرکزی کردار ادا کرنے والے لی جانگ جے نے تیسرے سیزن میں بھی اپنی اداکاری کا معیار برقرار رکھا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ اداکاراؤں پارک گیو-ینگ اور کانگ ای شیم کے علاوہ نوجوان اور خوبرو اداکارہ جویوری نے بھی خوب اداکاری کی ہے۔آسڑیلوی اداکارہ کیٹ بلینچٹ بطور مہمان اداکار ویب سیریز کے چند مناظر جلوہ گر ہوئی ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر بھی اداکاری کے لحاظ سے سیزن تھری کو بہتر کہا جاسکتا ہے، البتہ یہ ناکام کہانی اور ناکام ہدایت کاری کا ایک نمونہ ہے۔

    عالمی میڈیا اور مقبولیت کا ڈھونگ

    عام طور پر کسی بھی فلم اور ویب سیریز کی کام یابی کے پیچھے میڈیا، بالخصوص فلم کے ناقدین کا بہت ہاتھ ہوتا ہے، لیکن ویب سیریز اسکویڈ گیم سے متعلق یہ تاثر گہرا ہے کہ اس کی اندھا دھند ستائش کی گئی، مگر جس قدر بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے، وہ معیار اس سیزن تھری میں کہیں دکھائی نہیں دیا بلکہ یہ بہت ہی بچکانہ معلوم ہوا۔ فلموں کی مقبول ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی نے اسے 10 میں سے 8 ریٹنگ دی ہے۔ نیویارک ٹائمز اور ٹائم میگزین نے بھی اس کی ستائش کر رہے ہیں۔ دیگر معروف فلمی ویب سائٹوں میں روٹین ٹماٹوز نے اسے 81 فیصد اور میٹکریٹ نے 66 فیصد بہترین قرار دیا ہے۔

    اب اگر نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں شامل ہونے کی بات کریں‌ تو اس کا پس منظر یہ ہے کہ لوگ وہاں ایک سیریز دیکھ رہے ہیں، اب وہ اچھی ہے یا بری، اس کا فیصلہ ناظرین کی تعداد کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا کہ زیادہ لوگوں نے دیکھا تو کوئی فلم یا ویب سیریز اچھی ہے۔ وہ بری، مایوس کن یا پست معیار کی بھی ہو سکتی ہے۔

    حرفِ آخر

    میری رائے ہے کہ اگر آپ اسکویڈ گیم کا سیزن تھری دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے پہلے دو سیزن ضرور دیکھ لیں جس سے آپ یہ جان سکیں‌ گے کہ کس طرح سیزن تھری تک آتے آتے ویب سیریز نے اپنا معیار کھویا ہے۔ اس کا بنانے والوں کو بھی شاید اندازہ ہے اسی لیے اس کو آخری سیزن بھی قرار دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ گزشتہ دو سیزن کی مقبولیت کو نیٹ فلیکس نے اس تیسرے سیزن میں صرف کیش کیا ہے۔ اس طرح کاروباری سودا تو خوب خوب رہا، مگر معیار کے لحاظ سے یہ پست اور عامیانہ ہے، جسے دیکھنا میرے نزدیک وقت کا ضیاع ہے۔ اس سے کہیں زیادہ بہتر تو ہمارے پاکستانی ڈرامے ہیں، لیکن نیٹ فلیکس ہماری فلموں اور ویب سیریز کو اپنے پلیٹ فارم پر جگہ نہیں دیتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ جنوبی ایشیا (انڈیا) میں پڑوسیوں کی اجارہ داری ہے، کیونکہ نیٹ فلیکس کا جنوب ایشیائی ہیڈ آفس انڈیا میں ہے۔پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے انٹرٹینمنٹ کے اداروں کو متوجہ کرے، کیوں کہ پاکستان بھی نیٹ فلیکس کا بڑا گاہک ہے۔

  • ایڈولیسنس: دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرتی ہوئی ویب سیریز

    ایڈولیسنس: دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرتی ہوئی ویب سیریز

    حال ہی میں نیٹ فلیکس نے ویب سیریز ”ایڈولیسنس“ نشر کی ہے، جو فی الحال چار اقساط پر مشتمل ہے اور اسے دنیا بھر میں دیکھا جارہا ہے۔ اس ویب سیریز میں دو باتیں بہت کمال ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق انسان کے اندر موجود جوہر اور اس کی صلاحیتوں‌ سے ہے اور دوسری تیکنیکی ہے۔

    پہلی بات اس کا ”ون ٹیک فارمیٹ“ پر بنایا جانا ہے۔ یعنی ہر قسط بغیر کوئی سین کاٹے یا ایڈٹ کیے، ایک ہی بار میں شوٹ کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک گھنٹے کی قسط کو ایک ہی مرتبہ پکچرائز کیا گیا ہے، جو ویب سازی کی دنیا میں ایک انقلابی نوعیت کا کام ہے۔

    اس ویب سیریز کی دوسری کمال بات مرکزی کردار نبھانے والے وہ بچہ ہے، جس نے اپنی زندگی میں پہلی بار اداکاری کی اور اس کی پرفارمنس دیکھ کر سب دنگ رہ گئے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بڑے بڑے اداکاروں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لی ہیں۔

    دوستو! ویب سیریز ”ایڈولیسنس“ کا تفصیلی تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    یہ کہانی ایک نفسیاتی جرم کے ارتکاب پر مبنی ہے، جس میں ملزم، جو بعد میں مجرم ثابت ہو جاتا ہے، ایک 13 سالہ بچہ ہے۔ اس ویب سیریز کی آفیشل ٹیم نے اس کہانی اور ویب سیریز کے لیے لفظ ”ڈراما“ استعمال کیا ہے، جو کسی بھی طورپر درست نہیں ہے، کیونکہ یہ کہانی ایک حقیقی واقعہ پر مبنی ہے، جس کا تذکرہ آگے آئے گا، لیکن اس کے ایک خالق جیک تھرون اس بات کا انکار کرتے ہیں۔

    اس ویب سیریز کا مرکزی خیال جیک تھرون اور اسٹفین گراہم نے تشکیل دیا اور اس کو لکھا بھی ہے۔ اس تیرہ سالہ بچے کو جس کا نام جیم ملر ہے۔ پوری کہانی اسی کے گرد گھومتی ہے۔کہانی کے کرداروں کی ترتیب، کہانی آگے بڑھانے کا طریقہ اور اس میں مسلسل تجسس برقرار رکھنے کا ہنر کام یابی سے برتا گیا ہے۔

    یہ ایک ایسے کمسن بچے کی کہانی ہے، جو ایک برطانوی قصبے میں رہائش پذیر ہے۔ وہ اسکول میں پڑھتا ہے اور سوشل میڈیا پر متحرک ہے۔ مغرب میں اکثر اسکولوں میں جس طرح بچوں میں آپس میں تعصب پر مبنی خیالات پائے جاتے ہیں، وہی اس کہانی میں بھی شامل ہیں۔یہ بچہ (جو تیزی سے بلوغت کی طرف بڑھ رہا ہے) کیسے اپنی ایک ہم جماعت کے قتل میں ملوث ہو جاتا ہے، اس کے پیچھے کیا محرکات ہوتے ہیں اور پھر برطانوی نظامِ قانون کیسے اسے اپنے دائرے میں لیتا ہے، ان سب پہلوؤں کو بہت خوبی سے کہانی میں پیش کیا گیا ہے۔

    ویب سازی

    اس ویب سیریز کی سب سے کمال بات اس کا ون ٹیک فارمیٹ پر بنایا جانا ہے۔ اس کی کل چار اقساط ہیں اور ہر قسط ایک گھنٹے کی ہے جسے مسلسل ایک ہی ٹیک میں مکمل کیا گیا ہے۔ اس ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے بظاہر کوئی تکنیکی غلطی بھی نظر نہیں آتی بلکہ کئی جگہوں پر بغیر کیمرہ بند کیے جس طرح کردار سے کردار کو بدلا گیا ہے، وہ لاجواب ہے۔ اس ویب سیریز میں کاسٹنگ کا انتخاب بھی قابل داد ہے۔ اس میں جس طرح ایک نئے بچے کو موقع دیا گیا، اور اس نے اس موقع سے اپنی زندگی بدل دی، یہ قابلِ تعریف ہے۔ یہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں‌ ہوتی کہ یہ بچہ آنے والے وقت کا ایک بڑا اداکار ہے۔

    ایک ہی وقت میں پوری قسط کو شوٹ کرنے کی غرض سے ایک رن تھرو بنایا گیا اور ہر قسط دس بار شوٹ کی گئی اور اس میں سے جو سب سے بہتر شوٹ ہوا، اس کو حتمی شکل دے دی گئی۔ ایک قسط شوٹ کرنے میں تین ہفتے لگے اور چار مہینوں میں اس کا مکمل کام ختم کر لیا گیا۔ یہ ویب سیریز 93 ممالک میں ٹاپ 10 کے چارٹ پر نمبر ون رہی ہے اور یہ بھی اس کا ایک کمال ہی ہے۔ ایڈولیسنس“ کے پروڈیوسروں میں کئی بڑے نام شامل ہیں، جن میں سے ایک امریکی اداکار بریڈ پٹ ہیں۔

    ہدایت کاری اور فن کاروں کا انتخاب

    برطانیہ کے معروف ہدایت کار فلپ بارنٹینی جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اداکاری سے کیا تھا، اب بطور ہدایت کار اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر کے فلم بینوں‌ کو حیران کر دیا ہے۔ اس ویب سیریز میں سنیماٹوگرافی کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس پر تمام کیمرہ مین اور ٹیم بھی قابل داد ہے، جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو بروئے کار لا کر اس ویب سیریز کو یادگار بنا دیا۔

    ویب سیریز کی خاص بات اس بچے کی دریافت ہے، جس نے اس میں مرکزی کردار نبھایا ہے۔ اس کا نام اون کوپر ہے۔ یہ ایک کاسٹنگ ڈائریکٹر شاہین بیگ کی دریافت ہے۔ وہ ایسے اداکاروں اور کمیونٹی کے لیے کام کرتی ہیں، جنہیں کم توجہ ملتی ہے یا جن کے پاس شوبز کی چکا چوند میں نووارد ہونے کی وجہ سے آگے بڑھنے کے راستے کم ہوں۔ شاہین بیگ کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ وہ پاکستانی نژاد ہیں اور چوں کہ اون کوپر شاہین بیگ کی دریافت ہے تو یہ بات پاکستانی کمیونٹی کے لیے بھی باعثِ فخر ہے۔ انہوں نے ویب سیریز ایڈولیسنس“ کے اس مرکزی کردار کے لیے پانچ سو بچوں کے آڈیشن لیے تھے۔

    اداکاری

    ”ایڈولیسنس“ کے شریک خالق اور معروف اداکار اسٹیفین گراہم نے اس ویب سیریز کی تشکیل سے فلم بینوں‌ کو تو حیران کیا ہی مگر بطور اداکار بھی انہوں نے ویب سیریز دیکھنے والوں کے دل موہ لیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی اداکاری نے ہر لمحہ ناظرین کو کہانی سے جوڑے رکھا اور اس ویب سیریز کے جتنے کلائمکس ہیں ان کا بوجھ بھی اسٹیفین گراہم‌ نے ہی اٹھایا ہے۔ ان کے ساتھ نو وارد اور کمسن اون کاپر نے بھی اپنی فطری اداکاری سے ویب سیریز کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ اس ویب سیریز میں دوسرے کم عمر بچے بھی دکھائی دیے ہیں، جنہوں نے اپنا کام بہت اچھے انداز میں کیا ہے، البتہ متذکرہ بالا دو مرکزی کرداروں کے علاوہ اگر کسی نے اپنی اداکاری سے دیکھنے والوں کو ششدر کیا ہے تو وہ ماہر نفسیات کا کردار نبھانے والی اداکارہ ایرن ڈوہرٹی ہیں۔ انہوں نے لاجواب اداکاری کی ہے۔ اس ویب سیریز میں ہمیں کئی پاکستانی اور انڈین نژاد اداکار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ 

    کہانی کا تنازع

    برطانیہ میں اس کہانی کی طرز پر ایک واقعہ کچھ برس پہلے رونما ہوا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ویب سیریز اسی کہانی کے اردگرد گھومتی ہے، جب کہ ویب سیریز کے آفیشلز نے اس سے انکار کیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اصل واقعے میں ملوث کمسن بچہ سیاہ فام تھا جب کہ اس ویب سیریز میں سفید فام بچہ دکھایا گیا ہے، جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک نے نسلی تعصب کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

    کہانی کے پس منظر میں ایسا محسوس بھی ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اس معاشرے میں نسلی امتیاز موجود تو ہے اور اسے ویب سیریز ”ایڈولیسنس“ کی کہانی میں بھی ڈھکے چھپے انداز میں دکھایا گیا ہے۔ خاص طور پر جب ایک سیاہ فام تفتیشی افسر اتفاقاً اپنے بیٹے کے اسکول جاتا ہے، جہاں وہ خوف ناک واقعہ پیش آیا ہے، تو دکھایا گیا ہے کہ اس کا بیٹا کس طرح سے نسلی تعصب کا سامنا کرتا ہے۔ دوسری طرف ایک بڑی بات یہ بھی ہے کہ برطانوی وزیراعظم کو بھی اس ویب سیریز نے بہت متاثر کیا ہے۔ انہوں نے اس کے بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان سے ملاقات کی اور ویب سیریز کی تشہیر میں بھی اپنا حصّہ ڈالا ہے۔

    اختتامیہ

    مذکورہ ویب سیریز موجودہ دور میں بچوں کے زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے نقصانات کا احاطہ کر رہی ہے اور اسے بچوں کو ضرور دکھانا چاہیے۔ ایسے موضوعات کو ان کے حقیقی پہلوؤں کے ساتھ پیش کیا جانا بھی ضروری ہے، یعنی اگر کوئی کہانی کسی سچے واقعہ پر مبنی ہے تو اس میں حقائق کا خیال رکھا جانا چاہیے۔

    قارئین! اگر آپ ایک اچھی کہانی کو اسکرین پر دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو یہ ویب سیریز آپ کے لیے ہی ہے۔ اردو اور ہندی زبان سمجھنے والوں کے لیے اچھی خبر ہے کہ یہ ویب سیریز ہندی ڈبنگ میں بھی دیکھنے کے لیے موجود ہے۔

  • فلم ریویو: کیری آن

    فلم ریویو: کیری آن

     

    فلمی دنیا میں کئی ایسی کہانیاں ہیں، جن پر ایک سے زائد فلمیں بنائی گئی ہیں، لیکن ان میں سے کچھ ہی فلمیں ایسی ہوتی ہیں، جنہوں نے موضوع سے انصاف کیا ہوتا ہے۔ فلم کیری آن کرسمس کے موقعے پر ایئر پورٹ کی سیکورٹی اور اس کے پس منظر میں بنائی گئی ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ امریکا کے ایک شہر میں واقع ایئر پورٹ لاس اینجلس کو سنگین خطرے کا سامنا ہے اور ایک فرض شناس سیکورٹی افسر اپنی جان پر کھیل کر ہزاروں لوگوں کی جان بچاتا ہے۔ فلم اس سیکورٹی افسر کی اس جدوجہد کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔

    نیٹ فلیکس پر ریلیز کی گئی فلم کیری آن مزید کیسے اپنے موضوع سے انصاف کرتی ہے، اس کے لیے مکمل تبصرہ پڑھیے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    امریکی شہر لاس اینجلس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر تعینات ایک سیکورٹی افسر جس کا نام ایتھن کوپیک ہے، اپنے کام سے مخلص اور ایک ذمہ دار شخص ہے۔ اس کی محبوبہ اور ہونے والی بیوی بھی اس کے ساتھ ہی ایئر پورٹ پر کام کرتی ہے۔ ایتھن اور اس کا تعلق نہایت خوش گوار ہے، لیکن اب ان کی زندگی میں کچھ تبدیلیاں متوقع ہیں۔ اس کی محبوبہ اسے اپنا پرانا خواب پورا کرنے کو کہتی ہے اور وہ خواب تھا پولیس کے محکمے میں ملازمت کرنا، جو ایک بار امتحان میں ناکامی کی وجہ سے اب ایک دلبرداشتہ شخص کا شکستہ خواب بن کر رہ گیا ہے۔carry on movie ایتھن ایئر پورٹ پر اپنی پروموشن کے لیے مزید قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سامان کی اسکیننگ کرنے والی مشین پر ڈیوٹی کرنے کی درخواست کرتا ہے، جسے قبول کر لیا جاتا ہے۔ ایک روز ڈیوٹی کے دوران ایتھن کوپیک کو ایک ایئر بڈ (کان میں لگا کر سماعت کرنے کا آلہ) موصول ہوتا ہے، جس کے ذریعے اس کا ایک بے رحم کرائے کے قاتل سے رابطہ ہوتا ہے، اور وہ اسے حکم دیتا ہے کہ ایک مخصوص کیری آن کیس یعنی ایک اٹیچی کیس کو سکینر سے گزرنے دے ورنہ اس کی ہونے والی بیوی نورا کو مار دیا جائے گا۔

    اس کرائے کے قاتل کی پوری ٹیم ایئر پورٹ پر موجود ہوتی ہے، اور کیمروں کی مدد سے ایتھن کی ہر حرکت کی نگرانی کی جارہی ہوتی ہے۔ اس جان لیوا صورتِ حال میں ایتھن کوپیک ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے افسران کو خبردار کر سکے کہ ایئر پورٹ دہشت گردوں کے گھیرے میں ہے۔ دہشت گرد اسے جس سامان کو بغیر رکاوٹ پیدا کیے کلیرنس دینے کا کہتے ہیں، اس میں خطرناک اور مہلک مواد ہوتا ہے، جس سے ہزاروں جانیں جاسکتی ہیں۔ اس تمام صورت حال میں ایئر پورٹ کے کئی افسروں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ دہشت گرد کس طرح یہ سارے کام انجام دیتے ہیں، یہ کہانی اس کو بخوبی بیان کرتی ہے۔ ایتھن اس خوف ناک صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کا پھل پاتا ہے اور اسے اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر بھی مل جاتی ہے۔

    فلم کیری آن کے اسکرپٹ رائٹر ٹی جے فکس مین ہیں، جنہوں نے اس پرانے اور روایتی انداز کے مرکزی خیال کو بالکل نئے پہلو سے لکھا اور سب سے بڑی بات کہانی کی رفتار تیز رکھی، جس کی وجہ سے کہانی میں کہیں دیکھنے والے کی دلچسپی کم نہیں ہو سکتی۔ تیز رفتار ردھم کے ساتھ کہانی معنی خیز ہوتی چلی گئی، جس پر اسکرپٹ نویس تعریف کے مستحق ہیں۔ چونکہ ان کا تعلق لاس اینجلس شہر سے ہی ہے، اس لیے انہوں نے اپنے شہر کے مرکزی ایئر پورٹ کے اردگرد کہانی کا تانا بانا اچھی طرح بُنا ہے۔ معمولی نوعیت کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا جائے تو مجموعی طور پر فلم کی کہانی پُرلطف اور قابلِ تعریف ہے۔

    پروڈکشن ڈیزائن

    اس فلم کا پروڈکشن ڈیزائن بہت اچھا ہے۔ شہر کا انتخاب، ایئرپورٹ کی جگہ، اس سے متعلقہ علاقے، ان کی عکاسی، سینماٹو گرافی کے مختلف زاویے، یونیفارمز، دیگر کرداروں کے لباس اور فلم کی اچھی تدوین اور موسیقی نے کیری آن کو معیاری فلم بنا دیا ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسر ڈیلان کلارک ہیں، جب کہ دو فلم ساز کمپنیوں ڈیلان کلارک پروڈکشن اور ڈریم ورک پکچرز نے مل کر اس کو بنایا ہے۔ مجموعی طور پر چالیس ملین ڈالرز کے بجٹ میں یہ فلم تیار ہوئی اور نیٹ فلیکس پر اس کو ریلیز کیا گیا۔ اس کا ایک شان دار پریمیئر بھی ہوا۔

    ہدایت کاری و اداکاری

    اس عمدہ فلم کے ہدایت کار جوم کولیٹ سیرا ہیں، جو ہسپانوی ہیں۔ امریکی طرز کی ہالی ووڈ فلموں کو اپنے مخصوص مزاج میں بنانے کی مہارت رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے ان نون، نان اسٹاپ، رن آل نائٹ، جنگل کروز وغیرہ بنائیں۔ ان کی ہدایت کاری کا خاصّہ ہے کہ یہ تیز ٹیمپو کی فلمیں بناتے ہیں۔ انہوں نے ولیم جون نیسن کے ساتھ کافی فلمیں بنائیں، اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کے لیے ذہنی ہم آہنگی بھی ضروری چیز ہے، اور جس کے ساتھ ذہن مل جائے، اسی کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کولمبیا کالج، ہالی ووڈ سے فلم کی پیشہ ورانہ تعلیم بھی حاصل کر چکے ہیں۔

    اداکاری کے شعبے میں کوئی دو رائے نہیں کہ مرکزی کردار نبھانے والے ٹیرون ایجرٹن نے اپنے کردار سے انصاف کیا۔ ویلز سے تعلق رکھنے والے اس اداکار نے پوری فلم کا بوجھ، مرکزی کردار کے ذریعے اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور اس میں کامیاب رہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ذیلی کرداروں میں سب سے بہتر کام، فلم میں ولن کا کردار نبھانے والے امریکی اداکار جیسن بیٹمین نے کیا۔ فلم کیری آن میں دیگر اداکاروں نے بھی اپنے حصے کا کام بہتر انداز سے کیا ہے۔ سیکورٹی سے تعلق رکھنے والے سارے کرداروں نے خاص طور پر اپنے کردار بڑی خوبی سے نبھائے ہیں، جس کی وجہ سے فلم میں دلچسپی کا عنصر پیدا ہوا اور ناظرین اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔

    عروج و پسندیدگی

    پسندیدگی اور مقبولیت کا جائزہ لیا جائے، تو فلم کیری آن پاکستان میں ٹاپ ٹین کے چارٹ میں دس سے ہوتی ہوئی چار نمبر تک آگئی اور امید ہے کہ نمبر ون کی پوزیشن جلد حاصل کر لے گی۔ اس کے علاوہ دنیا میں ساٹھ سے زائد ممالک میں یہ نیٹ فلیکس کے چارٹ پر مقبول فلم ثابت ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ریلیز ہونے کے باوجود فلم کیری آن ناظرین کو مسلسل اپنی جانب متوجہ رکھے ہوئے ہے۔ فلموں کی ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی کے مطابق اس کی ریٹنگ دس میں سے چھ اعشاریہ پانچ ہے، جب کہ روٹین ٹماٹوز کی ویب سائٹ پر یہ فلم سو میں سے چھیاسی فیصد مقبولیت حاصل کرنے والی فلم بنی اور اسکرین رینٹ ویب سائٹ پر دس میں سے پانچ اسٹارز حاصل کیے ہیں۔ گوگل کے صارفین کی رائے میں یہ فلم پانچ میں سے ساڑھے تین فیصد شان دار ہے۔ میٹ کریٹیک ویب سائٹ پر اس کی پسندیدگی کا تناسب سو میں سے اڑسٹھ فیصد ہے۔

    حرفِ آخر

    سب سے شان دار بات یہ ہے کہ فلم کی کہانی اتنی تیز ہے کہ دیکھنے والے اس سے اپنا دھیان نہیں ہٹا سکتے اور جب آپ مسلسل توجہ سے اس فلم کو دیکھیں گے تو یہ آپ کو اپنے اندر جذب کر لے گی اور آپ خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگیں گے۔ یہی اس فلم کا کمال ہے۔

    قارئین! آپ کو بھی جب فرصت ملے، فلم کیری آن ضرور دیکھیں۔ یہ آپ کا وقت ضائع نہیں ہونے دے گی۔ ایک روایتی موضوع پر جدید ترین تکنیک سے بنی فلم ایک تحفہ ہے اُن فلم بینوں کے لیے جو اچھی، معیاری اور مضبوط کہانی پر مبنی فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

  • گلیڈی ایٹر 2: ایک اچھی فلم کا بُرا سیکوئل

    گلیڈی ایٹر 2: ایک اچھی فلم کا بُرا سیکوئل

    ہالی وڈ کی کچھ فلمیں جداگانہ تاریخ رکھتی ہیں۔ یہ ایسی فلمیں ہیں‌ جن کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ انہی میں‌ سے ایک گلیڈی ایٹر ہے، جو انیسویں صدی کے اختتام پر ریلیز کی گئی تھی، یعنی سنہ 2000 میں۔ اور اب 24 سال بعد اس فلم کا سیکوئل گلیڈی ایٹر 2 کے نام سے بنایا گیا ہے۔ ان دونوں فلموں میں کیا فرق ہے، اور کیا نئی فلم بھی تاریخ رقم کرسکے گی؟ یہ جاننے کے لیے‌ اس فلم پر یہ تفصیلی تجزیہ اور تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    کہانی/ اسکرین پلے

    اس کہانی کے تناظر میں، پہلی فلم میں مرکزی کردار میکسی مس میریڈیئس کا ہے، جو ایک رومی جنرل ہے۔ وہ روم کے شہنشاہ مارکس اوریلیس کی فوج کا نڈر اور جری سپہ سالار ہے۔ ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ اس بہترین شہنشاہ کا نالائق بیٹا اپنے والد کو قتل کر کے تخت پر قابض ہوجاتا ہے اور ہر اس فرد کی جان کے درپے ہوتا ہے، جو شہنشاہ کا خاص آدمی اور وفادار رہا ہو۔ ان حالات میں یہ سپہ سالار بھی وطن بدر ہوتا ہے اور پھر اس کی واپسی ہوتی ہے ایک گلیڈی ایٹر کی شکل میں۔ وہ تخت پر قابض ہوجانے شہنشاہ کے نالائق بیٹے سے قوم کو نجات دلانے اور شہنشاہ کے قتل کا بدلہ لینے کے ارادے سے لوٹتا ہے۔ اس کشمکش اور جنگ میں آخر کار وہ تمام رکاوٹوں سے گزر کر، ہر ظلم و ستم کو جھیلنے کے بعد فتح یاب ہوتا ہے اور عوام اس کا ساتھ دیتے ہیں۔

    اس فلم کا سیکوئل مذکورہ بالا کہانی کے پس منظر میں ہی ترتیب دیا گیا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اب اس سپہ سالار کی جگہ اس کے بیٹے کو دکھایا گیا ہے، لیکن اسے فلم میں ایک عام دیہاتی کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس کا طرز زندگی سادہ ہے، کیوں کہ بچپن میں اس کی ماں اسے اپنے وطن سے دور کر دیتی ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکے۔ یوں اس کی ساری زندگی پردیس میں کٹتی ہے۔ اب وہ ایک جنگ میں شریک ہو کر، اپنی بیوی کو کھونے کے بعد، قیدی اور غلام کی حیثیت سے واپس روم لایا جاتا ہے، جہاں وہ گلیڈی ایٹر کے طور پر کسی طرح حالات کو اپنے حق میں استعمال کر کے اپنی حقیقی ماں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ روم کے دربار میں محلاتی سازشوں، جان لیوا خونی معرکے سَر کرنے کے بعد وہ آخرکار اپنے دور کے ظالم اور سفاک شہنشاہ برادران اور اس کے سہولت کاروں کو مار ڈالتا ہے۔

    اس کہانی کا تجزیہ کریں تو بلاشبہ پہلی فلم کی کہانی انتہائی شاندار ہے۔ اس کہانی کا مرکزی خیال ڈیوڈ فرانزونی کا تھا، جب کہ تین مختلف اسکرپٹ نویسوں نے اس کو مل کر لکھا تھا، یہی وجہ ہے کہانی میں کئی جہتیں تھیں اور ایک ہی کہانی میں کئی مرکزی کردار باہم اسکرین پر دکھائی دیتے رہے اور فلم بین ان کے سحر سے نکل نہ پائے۔ جب کہ اس دوسری فلم میں مرکزی کہانی کو پچھلی کہانی سے ہی اخذ کیا گیا۔ یعنی پلاٹ پرانا تھا، بس کچھ نئے کرداروں کے ساتھ اس کو پیش کیا گیا، لیکن کہانی طوالت کی وجہ سے ناقص ثابت ہوئی۔ اس میں مرکزی کردار کو انتہائی کمزور انداز میں لکھا گیا اور یہ اس کا ایک اور نقص ہے۔ گلیڈی ایٹر 2 کے اس کردار کو دیکھ کر کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کسی سپہ سالار کا بیٹا ہے اور سب سے بڑھ کر وہ کوئی ایسا جنگجو ہے، جو کسی شہنشاہ کا تختہ الٹ سکے اور ریاست کا نقشہ بدل دے۔ فلم میں اسے بہت بے ڈھنگے انداز میں، ایک زبردستی کا انقلابی دکھایا گیا ہے، جس کے پیچھے عوام اور فوج بغیر کسی کشش کے آنے لگتے ہیں۔ پہلی فلم کی کہانی جس قدر دل کو موہ لینے والی تھی، دوسری فلم کی کہانی اتنی ہی معمولی اور بے لطف ہے۔

    ہدایت کاری

    لیونگ لیجنڈ برطانوی فلم ساز ریڈلی اسکاٹ جنہوں نے سینما کی دنیا میں بہت سی یادگار اور ناقابل فراموش فلمیں تخلیق کی ہیں، انہی کی فلموں میں سے ایک گلیڈی ایٹر بھی ہے۔ نجانے کیوں چند دوسرے بڑے فلم سازوں کی طرح انہیں بھی اس خبط نے گھیر لیا کہ وہ اپنی شہرۂ آفاق فلم کا سیکوئل بنائیں۔ سب سے پہلے تو انہیں اسکرپٹ کی تیاری میں بہت دقت ہوئی، کئی کہانیاں لکھ کر ضائع کر دی گئیں، جو کہانی فائنل ہوئی اس کا حال اوپر میں بیان کر چکا ہوں۔ بطور ڈائریکٹر یہ ان کی ناکامی ہے، کیونکہ اس برے اسکرپٹ پر وہ ایک اچھی فلم تخلیق نہیں کر سکتے تھے اور ایسا ہی ہوا۔ البتہ اگر کسی نے ان کی پہلی فلم گلیڈی ایٹر نہیں دیکھی تو انہیں کسی حد تک یہ دوسری فلم اچھی لگے گی۔ اس بات کو صرف اسکرپٹ نویسی تک محدود نہ رکھیں بلکہ فلم کے دیگر شعبوں میں بھی یہ تنزلی محسوس ہوئی، جن میں سینماٹو گرافی، موسیقی، کاسٹیوم اور فلم کے دیگر پہلو شامل ہیں۔

    ریڈلی اسکاٹ واقعی ایک حیران کر دینے والے فلم ساز ہیں اور کسی حد تک اس فلم میں بھی انہوں نے ایسا کیا، اور اسی لیے فلم کو بہرحال مقبولیت مل رہی ہے، مگر ایک بڑی تعداد ان پر تنقید کررہی ہے اور مجھ سمیت یہ سارے وہ لوگ ہیں، جنہوں نے 24 سال پہلے ریلیز ہونے والی ان کی پہلی شاندار فلم گلیڈی ایٹر دیکھی ہوئی ہے۔ یہاں‌ میں کہوں گا کہ گلیڈی ایٹر 2 ایک اچھی فلم کا برا سیکوئل ہے، بالخصوص کمزور کہانی اور غلط کاسٹ اس کے ناقص ہونے کی بڑی وجوہات ہیں۔ اور اس کے ذمے دار بھی ریڈلی اسکاٹ ہیں۔ شاید اب وہ بوڑھے ہورہے ہیں۔ اسٹیون اسپیل برگ، جو امریکی فلم ساز اور سینما کی دنیا کے ایک سمجھ دار فلم میکر مشہور ہیں، اکثر ریڈلی کو مشورہ دیتے رہتے ہیں جن پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔ ورنہ ریڈلی اسکاٹ کا تخلیقی بڑھاپا ان کی زندگی بھر کی کمائی ضائع کر سکتا ہے۔

    اداکاری

    گلیڈی ایٹر 2 کی سب سے بڑی خرابی اس کی مس کاسٹنگ ہے۔ خاص طور پر مرکزی کردار نبھانے والے اداکار پاؤل میسکل ہیں، جن کا اس میں کوئی قصور نہیں، سوائے اس کے کہ انہیں یہ کردار قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ یہ اندازہ نہ کرسکے کہ اس فلم کے تناظر میں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والا اداکار رسل کرو جو اس کردار سے اپنی زندگی بنا گیا، ایسے شہرۂ آفاق کردار کو یونہی قبول کرلینا سراسر بیوقوفی تھی، جو اس آئرش اداکار پاؤل میسکل نے کی۔ گلیڈی ایٹر کے رکھوالے کے طور پر امریکی اداکار ڈینزل واشنگٹن نے اپنے کیرئیر کی بدترین اداکاری اس فلم میں کی ہے۔ جب کہ پہلی فلم میں یہی کردار جس طرح نبھایا گیا ہے، وہ قابل تقلید ہے۔

    ان کے علاوہ قابل ذکر اداکاروں میں چلی نژاد امریکی اداکار پیدرو پاسکل اور دونوں فلموں میں کام کرنے والی ڈنمارک کی اداکارہ کونی نیلسن قابل ذکر ہیں۔ دونوں نے اپنے کردار بخوبی نبھائے۔ یوگنڈا کے مہاجر خاندان میں پیدا ہونے والے سویڈن کے اداکار علی کریم نے بھی ایک انڈین کا کردار بخوبی نبھایا۔ ویسے تو یورپی فلم ساز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جس خطے کا کردار ہے، اداکار وہیں سے لیناچاہیے لیکن انڈین کردار کے لیے کسی افریقی کو کس پیمانے پر کاسٹ کیا گیا یہ سمجھ نہیں آیا۔ اس فلم میں ایک اسرائیلی اداکار لیوراز اور اداکارہ یوول گونن کو بھی کاسٹ کیا گیا ہے، دونوں نے بس ٹھیک اداکاری کی۔ ان کے کردار بھی مختصر تھے۔ اسی فلم میں ایک مصری نژاد فلسطینی اداکارہ می القلماوی نے بھی ایک انتہائی مختصر کردار نبھایا ہے، لیکن ان دونوں ممالک کا پس منظر رکھنے والے اداکاروں کی ایک ہی فلم میں موجودگی کو بھی معنی خیز انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔

    حرفِ آخر

    وہ فلم بین جنہوں نے اس سلسلہ کی پہلی فلم نہیں دیکھی، وقت گزاری کے لیے اسے ایک بہتر فلم خیال کریں گے، لیکن فلم ساز ان فلم بینوں سے زیادہ توقعات نہیں رکھ سکتے جو پہلی فلم دیکھ چکے ہیں۔ شاید اب برطانوی فلم ساز ریڈلی اسکاٹ تھکاوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے اپنے ہی شاہکار کے قد تک خود کو بخوبی نہیں لاسکے۔ اس کے باوجود وہ میرے نزدیک ایک عظیم فلم ساز ہیں، جنہوں نے ہمیں بہت شاندار فلمیں دی ہیں اور اسی لیے ہمیں یہ فلم دیکھنا چاہیے۔ میں گلیڈی ایٹر 2 دیکھ چکا ہوں اور چاہتا ہوں گا کہ قارئین بھی عظیم فلم ساز ریڈلی اسکاٹ کی حوصلہ افزائی کی غرض سے یہ فلم ضرور دیکھیں، مگر ریڈلی کو چاہیے کہ وہ دوبارہ ایسا کوئی تجربہ نہ کریں۔

     

  • آدو جیویتھم۔ دی گوٹ لائف (فلم ریویو)

    آدو جیویتھم۔ دی گوٹ لائف (فلم ریویو)

    ان دنوں سوشل میڈیا پر، ملیالم زبان میں بننے والی ایک ہندوستانی فلم ”آدو جیویتھم۔دی گوٹ لائف“ کا بہت چرچا ہے۔ اس فلم کا مرکزی کردار نجیب محمد ہے، جو روزگار کی تلاش میں سعودی عرب جاتا ہے۔ وہاں اسے حادثاتی طور پر کن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فلم میں یہ دکھایا گیا ہے۔ لیکن اصل واقعہ پر مبنی اس کہانی کا حقیقی انجام نہیں دکھایا گیا ہے۔ اس لحاظ سے فلم کی کہانی کو تو ادھورا ہی کہا جائے گا، مگر پوری بات سمجھنے اور حقائق جاننے کے لیے اس فلم کا یہ مفصل تجزیہ اور تبصرہ پڑھ سکتے ہیں۔

    مرکزی خیال/ کہانی/اسکرپٹ

    فلم سازوں نے یہ اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ کہانی مضبوط ہوگی تبھی فلم یا ویب سیریز کام یاب ہوسکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جتنا سینما تخلیق ہو رہا ہے، اس میں سے تقریباً پچاس فیصد کہانیوں کا ماخذ کتابیں ہیں۔ مقبول ناولوں اور سوانح عمریوں پر بہت شان دار فلمیں اور ویب سیریز بنائی جا رہی ہیں۔ انڈیا میں بھی مذکورہ فلم ملیالم زبان میں لکھے گئے ناول ”آدو جیویتھم“ سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے، جس کے انگریزی میں لغوی معنی ”گوٹ لائف“ (بکری کی زندگی) ہیں۔

    اس ناول کے خالق بن یامین ہیں، جو ملیالم زبان کے معروف ادیب ہیں۔ اس فلم کے ہدایت کار بلیسی نے جب یہ ناول پڑھا، تو اسی وقت اس پر فلم بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس فلم میں خلیجی ممالک کے باشندوں کی نفسیات اور غیر عرب لوگوں کے ساتھ ان کے رویّے اور ناروا سلوک کو ناول میں مصنف نے بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔ اس باریک بینی اور تفصیل کے پیچھے ناول نگار کا ذاتی مشاہدہ بھی موجود ہے، کیونکہ انہوں نے بحرین میں اپنی زندگی کے کئی سال گزارے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اس کہانی میں تکلیف دہ رویوں اور امتیازی سلوک کی واضح جھلک دیکھنے کو ملی ہیں۔ مذکورہ فلم میں ایک مجبور شخص کی زندگی کو بہت مؤثر طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔

    خلیجی ممالک میں کفیل کا نظام رائج ہے، جس کے تحت وہاں روزگار کے لیے جانے والے غیر ملکیوں کو عرب لوگوں کے زیرِ سرپرستی کام کرنا پڑتا ہے۔ فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک ہندوستانی کس طرح ایک کفیل کے دھوکے میں آ جاتا ہے، جو لوگوں کو غیر قانونی طور پر صحرا میں قید کر کے ان سے جبری مشقت کرواتا ہے۔ یہ ہندوستانی اور دوسرے دو قیدی وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، ان تین میں سے دو افراد صحرا میں سخت گرمی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اور ایک کسی مقامی عرب شخص کی مدد سے زندہ بچ جاتا ہے۔ یہی وہ مرکزی کردار نجیب محمد ہے، جس کی کہانی کو فلم میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک حقیقی واقعہ پر مبنی کہانی ہے، جس کے مطابق متاثرہ فرد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کیا جاتا ہے اور بعد میں اسے باعزّت طریقے سے ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے، جب کہ اس فلم میں کہانی وہیں ختم ہوجاتی ہے، جہاں وہ صحرا سے زندہ نکلنے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔ اس کہانی کے اسکرپٹ رائٹر، مکالمہ نویس اور فلم ساز بلیسی نے بڑی بد دیانتی سے کام لیا اور فلم میں پوری کہانی بیان نہیں کی، جو اس فلم کا سب سے بڑا منفی پہلو ہے۔

    فلم سازی/ ہدایت کاری/ اداکاری

    اس فلم کو سعودی عرب اور دبئی میں فلمانے کی اجازت نہ ملنے کے بعد اسے عراق اور الجزائر کے صحراؤں میں فلمایا گیا ہے۔ اس کی عکس بندی کے لیے انڈیا میں راجستھان کا انتخاب بھی کیا جاسکتا تھا، لیکن فلم ساز نے حقیقت سے قریب تر رہنے کے لیے اسے انڈیا سے باہر عکس بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ فلم کے ہدایت کار 2008 سے اس کہانی پر کام کر رہے تھے۔ جیٹ میڈیا پروڈکشن کے جمی جین لوئس اور اَلٹا گلوبل میڈیا کے اسٹیون ایڈمز نے بھی بلیسی کے اس ویژول رومانس امیج میکرز کی پروڈکشن میں بطور پروڈیوسر شمولیت اختیار کی۔ ان کے ساتھ ساتھ فلم کے مرکزی اداکار پرتھوی راج سوکومران بحیثیت پروڈیوسر بھی اس کا حصہ رہے۔

    اس طرح ایک دہائی سے زیادہ عرصہ انتظار کرنے کے بعد اس فلم پر کام شروع ہوا، جب اس فلم کی شوٹنگ جاری تھی تو دنیا کورونا کی وبا کی لپیٹ میں آگئی جس کی وجہ سے یہ فلم کئی ہفتوں تک عراق میں لوکیشن پر پھنسی رہی اور فلم کی ٹیم کو ہندوستانی حکومت نے خصوصی مشن کے تحت وہاں سے نکالا، اس وجہ سے بھی فلم کی پروڈکشن تاخیر کا شکار ہوئی۔ ریلیز کے بعد باکس آفس پر فلم کو بہت کامیابی ملی ہے۔ یہ ملیالم زبان میں بننے والی معاشی اعتبار سے تین کام یاب ترین فلموں کی فہرست میں شامل ہوگئی ہے۔

    فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس کی ریٹنگ دس میں سے سات اعشاریہ ایک ہے، جب کہ روٹین ٹماٹوز کی ویب سائٹ پر اس کی پسندیدگی کی شرح 100 میں سے 80 فیصد ہے، جو بہت مناسب ہے۔

    فلم کے ہدایت کار بلیسی ایک عمدہ اور باصلاحیت فلم ساز ہیں۔ بطور ہدایت کار ان کا کام متاثر کن ہے۔ فلم کے معیار پر انہوں نے کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ جس انداز میں اس فلم کو بنایا جانا چاہیے تھا، اسی طرح بنائی گئی ہے۔ فلم کی سینماٹوگرافی کے ساتھ ساتھ دیگر تمام تکنیکی شعبوں میں بے حد مہارت سے کام کیا گیا، جو ساؤتھ انڈیا کی فلموں کا خاصا بھی ہے۔ مثلاً فلم کا ایک سین جس میں مرکزی اداکار اپنا چہرہ بکری کی آنکھ میں ایسے دیکھتا ہے، جیسے وہ آئینہ دیکھ رہا ہو، اس منظر کو عکس بند کرنے میں کئی دن لگ گئے، مگر فلم ساز نے ہار نہیں مانی۔

    فلم کی موسیقی شہرۂ آفاق موسیقار اے آر رحمان نے ترتیب دی ہے۔ چار نغمات کے ساتھ پس منظر کی موسیقی میں انہوں نے ایک بار پھر میدان مار لیا۔ شان دار موسیقی سے سماعتوں میں رس گھولتے ہوئے، اس کہانی کے درد کو موسیقار نے بہت اچھے انداز میں اجاگر کیا ہے۔ ٹائٹل سونگ ”مہربان و رحمان“ نے بلاشبہ دل کو چُھو لیا۔اس کے بول پراسون جوشی نے لکھے جب کہ جتھن راج نے اسے گایا ہے۔ اسی گیت کے ملیالم ورژن کو رفیق احمد نے لکھا اور اے آر رحمان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں جتھن راج نے اس ورژن میں بھی اپنی گائیکی سے دل موہ لیے۔ فلم کے دیگر گیت بھی دل کے تاروں کو چھیڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
    فلم کے اداکاروں میں مرکزی کردار نبھانے والے پرتھوی راج سوکومران نے تو اس فلم کے لیے پہلے اپنا وزن بڑھایا اور پھر کم کیا، جس کی وجہ سے ان کی صحت بھی گری۔ شوٹنگ کے دنوں میں سیٹ پر ہر وقت ایک ڈاکٹر موجود رہتا تھا تاکہ ایمرجنسی میں فوری طبّی امداد دے سکے۔ پرتھوی راج نے اپنے کردار سے مکمل انصاف کیا۔ ان کے معاون کرداروں نے بھی ناظرین کو اپنی اداکاری سے متوجہ کیا، جن میں بالخصوص امریکی اداکار جمی جین لوائس (ابراہیم قدیری) عمانی اداکار طالب البلوشی (نجیب کا کفیل) ہندوستانی اداکارہ امالا پاؤل (نجیب کی بیوی) شامل ہیں۔

    یہ بھی کہا گیا کہ کفیل کا کردار ادا کرنے والے عمانی اداکار طالب البلوشی پر سعودی عرب نے پابندی عائد کر دی ہے۔ اس بات میں اگرچہ صداقت نہیں ہے، لیکن کسی بھی ملک کی حکومت کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آخر کار وہ ایک فن کار ہیں، البتہ اس فلم سے متعلق کسی بھی تنازع میں اگر قصور وار کوئی ہے تو وہ فلم ساز بلیسی ہیں، جو تصویر کے دونوں رخ سے واقف تھے۔ ان کی سرزنش ہونی چاہیے جنہوں نے ادھوری کہانی پیش کی، اور عمانی اداکار کو کسی بھی طرح اور کسی بھی سطح پر قصور وار ٹھہرانا سراسر ناانصافی ہو گی۔

    تنازع۔ پس منظر و پیش منظر

    اس فلم کو گزشتہ مہینے ہی نیٹ فلیکس پر ریلیز کیا گیا ہے۔ اپنے حساس موضوع کی وجہ سے یہ سوشل میڈیا پر بہت زیرِ بحث رہی ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد سعودی عرب کے شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی سوشل میڈیا پر تنقید کا جواب دیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سعودی کفیل اپنے ملازمین کے ساتھ تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے لگے جس کا مقصد اپنے ذاتی نوکروں یا اپنے اداروں کے ملازمین کے ساتھ اپنے حسنِ سلوک کو دنیا کے سامنے لانا تھا۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور ایسے دیگر ممالک کے عوام کا بھی اس فلم پر بھرپور ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔

    راقم نے اس سلسلے میں سعودی عرب کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ”سعودی ریسرچ اینڈ مارکیٹنگ گروپ“ کے شعبۂ مارکیٹنگ کے سابق برانڈ منیجر معز مقري سے بات کی، جنہوں نے بتایا کہ 2015 کے بعد کا سعودی عرب ایک مختلف اور مثبت تبدیلیوں والا ملک ہے۔ یہاں کسی بھی غیر ملکی کے ساتھ اس طرح ناانصافی نہیں کی جاسکتی۔ مذکورہ فلم کی کہانی نوے کی دہائی کی ہے، جو تلخ ماضی ہے۔ آج سعودی عرب کی حکومت کے پاس کفالت کے نظام سمیت تمام شعبوں میں ہر چیز کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔ شکایات کا بھی ایک باقاعدہ نظام موجود ہے، جو بہت فعال ہے۔ یہ فلم سعودی عرب کی اکثریت کی عکاسی نہیں کرتی۔

    آخری بات

    دورِ حاضر میں سینما ایک اہم میڈیم ہے، جس کے ذریعے اپنی بات پوری دنیا میں پہنچائی جا سکتی ہے، البتہ پروپیگنڈہ اور حقیقی سینما کا فرق سمجھنا ہوگا، ہر چند کہ اس فلم آدو جیویتھم۔ دی گوٹ لائف میں مکمل حقائق پیش نہیں کیے گئے یا ادھوری حقیقت دکھائی ہے، لیکن جتنی کہانی بیان کی گئی وہ سچّی ہے اور بقول معیز مکھری سعودی عرب کا تلخ ماضی ہے۔

    قارئین! آپ اگر اس پہلو کو ذہن میں رکھ کر یہ فلم دیکھیں گے تو آپ دُکھی نہیں‌ ہوں گے۔ یہ ایک اچھے موضوع پر معیاری فلم ہے، جس کی طوالت تقریباً تین گھنٹے ہے۔ اپنی اوّلین فرصت میں یہ فلم دیکھیں، آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا، کیونکہ یہ فلم بتاتی ہے کہ انسان کیسے مشکل حالات اور مصائب کا سامنا کرنے کے بعد فاتح بنتا ہے۔ اگر اس کے حوصلے بلند ہوں تو پھر اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

    (یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کی ذاتی رائے اور اس کے خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے تعلق نہیں ہے)
  • ہاتھ سے بنائی گئی پہلی پاکستانی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم۔ دی گلاس ورکر

    ہاتھ سے بنائی گئی پہلی پاکستانی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم۔ دی گلاس ورکر

    ان دنوں پاکستان میں زیرِ نمائش فلم "دی گلاس ورکر” کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔ اس فلم کو انگریزی اور اردو میں فلم بینوں کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان، جاپان، امریکا سمیت 50 سے زائد ممالک میں نمائش پذیر ہوئی ہے، جسے فلم بین دیکھ رہے ہیں اور پسند کررہے ہیں۔

    یہ پاکستانی فلمی صنعت میں اس لیے اہم فلم ہے، کیونکہ یہ ہاتھ سے بنائی گئی تصویروں پر مشتمل اینیمیٹیڈ فلم ہے جسے ہدایت کار عثمان ریاض نے تقریباً ایک دہائی کے عرصہ میں مکمل کیا ہے۔ اس فلم کی تکمیل کے لیے کتنی محنت اور جدوجہد کرنا پڑی، یہ آپ اس مفصل تبصرے اور تجزیے میں جان سکتے ہیں۔
    گلاس ورکر فلم

    ہینڈ میڈ اینیمیشن کیا ہوتی ہے

    اینیمیشن سے مراد ڈرائنگ کر کے بنائی جانے والی وہ تصویریں ہوتی ہیں، جن کو متحرک کرکے فلم میں ڈھالا جاتا ہے۔ وہ تصویریں جو کمپیوٹر سے بنائی جاتی ہیں، ان کو "کمپیوٹر جنریٹیڈ امیجری” (Computer-generated imagery) کہا جاتا ہے، جب کہ وہ تصویریں جنہیں ہاتھ سے بنایا جائے، ان کو "ہینڈ میڈ امیجز” کہا جاتا ہے، یعنی انسانی ہاتھ کی بنائی ہوئی وہ تصویر جسے کمپیوٹر کی اسکرین پر لا کر حتمی شکل دی جاتی ہے اور تصویروں کے خاکے بنا کران میں رنگ بھرتے ہیں جس سے فلم تیار کرلی جاتی ہے۔

    یہ پہلی پاکستانی ہینڈ میڈ اینیمیشن فلم کیسے ہے؟

    پاکستانی فلمی صنعت میں اینیمیشن فلموں کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے، ہم اگر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو جن پاکستانی اینیمیٹڈ فلموں کو باکس آفس پر مقبولیت ملی اور وہ "سی جی ای” کی مدد سے بنائی گئیں، ان چند نمایاں فلموں میں دی کرونیکل آف عمرو عیار (2024) اللہ یار اینڈ دی ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ (2023) ڈونکی کنگ (2018) اور تین بہادر سیریز کی تینوں فلمیں اور دیگر شامل ہیں۔ فلم "دی گلاس ورکر” اس لحاظ سے منفرد اور پاکستان کی پہلی فلم ہے، جس کی اینمیشن ہاتھوں سے کی گئی۔
    یہ طریقہ امریکا اور جاپان سے آیا ہے، وہاں اس طرز کی فلمیں اب تک بنائی جاتی ہیں بلکہ "دی گلاس ورکر” کے ہدایت کار عثمان ریاض نے تو برملا جاپانی اینیمیشن سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ وہ جاپان کے "اسٹوڈیو گیبلی” اور اس کے بانیان اور ہینڈ میڈ اینیمیٹیڈ فلموں کے فلم ساز "ہیا اومیازاکی” اور "ایساؤ تاکاہاتا” سے بے پناہ متاثر ہیں۔ یہی وجہ ہے، عثمان ریاض کی اس پہلی فیچر فلم پر اس اسٹوڈیو اور فلم سازوں کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ انہیں امریکی فلم ساز "والٹ ڈزنی” کا کام بھی پسند ہے۔

    فلم سازی

    ہاتھ سے تخلیق کردہ اینیمیشن فلموں کا بجٹ کافی زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے "دی گلاس ورکر” کی ٹیم نے سب سے پہلے امریکا اور جاپان میں متعلقہ فلم سازوں سے رابطے کیے اور ان سے ملنے والی تجاویز کی روشنی میں فیصلہ کیا کہ پاکستان میں ہینڈ میڈ اینیمیشن اسٹوڈیو قائم کیا جائے اور اس کے تحت کام کو آگے بڑھایا جائے۔ عثمان ریاض جو ایک اچھے فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقار بھی ہیں، انہوں نے اپنی اہلیہ مریم ریاض پراچہ اور کزن خضر ریاض کے ساتھ مل کر "مانو اینیمیشن اسٹوڈیوز” قائم کیا۔ اس اسٹوڈیو میں جدید ٹیکنالوجی اور فنی مہارتوں کے حامل تعلیم یافتہ اور نوجوان نسل کے ہنر مندوں کو جمع کیا گیا اور یوں درجنوں اینیمیٹرز نے مل کر اس فلم کے خواب کی تعبیر پانے کی جدوجہد شروع کی۔ اس فلم کے مرکزی پروڈیوسرز میں خضر ریاض (پاکستان) اورمینول کرسٹوبیل (اسپین) شامل ہیں، جب کہ ایگزیکٹیو پروڈیوسرز میں عامر بیگ (پاکستان) اپوروا بخشی (انڈیا)، اظہر حمید (پاکستان)، اطہر ملک (پاکستان)، احمد ریاض (پاکستان) اور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر مریم ریاض پراچہ ہیں۔

    اس فلم کے ابتدائی فنڈز جمع کرنے کے لیے "کک اسٹارٹر” کے فورم سے مدد لی گئی اور اس تناظر میں ایک لاکھ سولہ ہزار ڈالرز کی رقم حاصل ہوئی، جس سے اسٹوڈیو قائم ہوا اور فلم بنانے کی ابتدا ہوئی۔ اس کے بعد کئی پروڈیوسرز بھی اس فلم کا حصہ بنے اور بالآخر فلم پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ اس فلم کو فرانس کے عالمی شہرت یافتہ اینیمیٹیڈ فلموں کے فیسٹیول "اینسی انٹرنیشنل ” کا حصہ بنایا گیا، جہاں یہ آفیشل مقابلے میں تو شامل نہ ہوسکی، لیکن بغیر مقابلہ منتخب کردہ فیچر فلموں کی فہرست میں اسے شامل کر لیا گیا۔ اسی طرح پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ فلم فرانس کے مشہور فلم فیسٹیول "کانز” کا بھی حصہ بنی۔ پروڈکشن کے لحاظ سے عثمان ریاض کی یہ حکمتِ عملی مؤثر رہی کہ انہوں نے عالمی سطح کے نامور لوگوں کو ٹیم کا حصّہ بنایا، جس کی وجہ سے ان کو بین الاقوامی فلمی حلقوں کی توجہ حاصل ہوئی اور وہ اپنی فلم کی شہرت پوری دنیا تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے معروف امریکی فلم ساز اسٹیون اسپیل برگ سے بھی ایک مختصر ملاقات میں اپنی اس فلم کا تذکرہ کیا۔

    یہ سارا منظر نامہ متاثر کن ہے، جو اس فلم کو ایک برانڈ میں تبدیل کرتا نظر آتا ہے۔پاکستان میں البتہ فلم کا پریمئیر، پروموشن ہونی چاہیے تھی، وہ بہت زیادہ مؤثر طریقے سے نہیں ہوئی اور پاکستانی فلم بینوں کو اس فلم کے قریب لانے کی کوششیں کچھ زیادہ نہ ہوسکیں۔ شاید ہدایت کار کی نظر صرف عالمی فلمی حلقوں اور شخصیات پر ہی مرکوز ہو گی۔ بقول عثمان ریاض اس فلمی منصوبے پر لگ بھگ چار سو سے پانچ سو افراد نے کام کیا ہے، جو ایک قابلِ ذکر بات ہے۔

    کہانی/ اسکرین پلے

    اس فلم کی کہانی کے بارے میں عثمان ریاض کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کہانی کو سوچا، کیونکہ یہ کہانی اور اس کے کلیدی ماخذ انہیں اپنے خاندان سے ورثے میں ملے۔ یوں مرکزی خیال تو عثمان ریا ض کا ہے، البتہ اسے فلم کی کہانی میں تبدیل کر کے اسکرپٹ لکھنے کا کام برطانوی اسکرپٹ رائٹر "مویا اوشیا” نے کیا۔ وہ عالمی شہرت یافتہ لکھاری ہیں اور انہوں نے اس کہانی کو بھی چابک دستی سے لکھا ہے۔ جنگ اور محبت کے تناظر میں لکھی گئی یہ کہانی متاثر کن ہے البتہ کچھ چیزوں کا فیصلہ ہدایت کار کو کرنا تھا، جن کی وضاحت اس کہانی میں نہ ہوسکی۔

    عثمان ریاض کے مطابق کہانی کا پس منظر پاکستان ہے، جب کہ فلم دیکھ کر ایسا کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ چند مناظر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستانی پس منظر ہے، مگر فلم میں اس کا تناسب بہت کم اور تاثر بہت مدھم ہے۔ اس کہانی کا مرکزی خیال لکھنے والے اگر اسے پاکستانی پس منظر میں قید کرنے کی کوشش نہ کرتے، تو اچھا تھا اور اگر پاکستانی ثقافت ناگزیر تھی تو پھر اس کو اچھی طرح کہانی، کرداروں اور مکالمات کے ذریعے پیش کرتے۔ اس پہلو سے کہانی ناکام رہی اور فلم دیکھ کر پاکستانی کہانی ہونے کا قطعی احساس نہیں ہوتا، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ فلم "گیبلی اسٹوڈیو” کے فلم ساز "ہیااُو میازاکی” کی فلم "ہاؤلز موونگ کیسل” سے کافی متاثر ہے۔

    اس فلم کی کہانی میں دو مزید خامیاں ہیں۔ پہلی خامی یہ کہ کہانی میں مرکزی کرداروں "ونسنٹ اولیور” اور "ایلیزا امانو” کی تشکیل ادھوری ہے۔ ذیلی کرداروں میں ونسنٹ اولیور کے والد تھامس اولیور (شیشہ گر) اور ایلیزا امانو کے والد (فوجی افسر) کہانی پر زیادہ چھائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے سائے میں مرکزی کردار دب گئے۔ یہ کہانی کی ناکامی ہے اور دوسری خامی کہانی کا برق رفتاری سے آگے بڑھنا ہے۔ کئی مقامات اور کرداروں کے حالات کی وضاحت ہی نہیں ہوسکی، نہ ہی ان کرداروں کو اچھی طرح سے کہانی میں بیان کیا گیا۔ کمزور کرداروں اور ادھورے اور کنفیوز کلائمکس کے ساتھ بہرحال اپنے آرٹ ورک کی وجہ سے یہ کہانی فلم بینوں کو اپنی طرف ضرور متوجہ کرے گی۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس فلم میں کہانی کا شعبہ کمزور ہے۔

    ہدایت کاری

    اس فلم کو کیسے بہت محنت کے ساتھ مختلف مراحل سے گزار کر حتمی شکل میں پیش کیا گیا، یہ آپ یہاں پڑھ چکے ہیں۔ ایک اچھے آرٹ ورک اور پروڈکشن ڈیزائن کی بنیاد پر عثمان ریاض بطور ہدایت کار کامیاب رہے ہیں۔ اتنی بڑی ٹیم، فن کاروں اور اینیمیٹرز کے ساتھ کام کیا لیکن شاید یہ پہلی فلم ہے، اس لیے ان پر جاپانی اینیمیشن کے گہرے اثرات ہیں۔ بطور ہدایت کار ان کو اپنا مختلف انداز اور طرز اپنانا ہو گی، تب ہی وہ تخلیقی طور پر کامیاب سمجھے جائیں گے۔ ورنہ انہیں جاپانی اینیمیشن فلم سازی کی پرچھائیں کے طور پر ہی شناخت ملے گی، جو بالکل مناسب نہیں ہے۔ ہر فلم ساز کی اپنی جداگانہ شناخت ہونی چاہیے۔

    صدا کاری

    انگریزی اور اردو ورژن کے لیے الگ الگ فن کاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ دونوں ورژن میں کام متاثر کن ہے۔ انگریزی میں آرٹ ملک (اطہر ملک) نے بہترین کام کیا ہے۔ پاکستانی نژاد امریکی فن کار نے ہالی ووڈ میں نام پیدا کیا اور دنیا کے مقبول ترین فن کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اس فلم میں بھی انہوں نے عمدہ کام کیا ہے۔ دیگر فن کاروں نے بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔ اسی طرح اردو ورژن میں بھی تمام فن کاروں نے اپنے حصے کا کام اچھی طرح انجام دیا، لیکن خالد انعم نے تو دل چھو لیا۔ انہوں نے کمال صدا کاری کی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس فلم کا میدان اطہر ملک اور خالد انعم نے مار لیا۔

    موسیقی و دیگر پہلو

    اس فلم کی تین خاص باتیں‌ ہیں جن میں سے ایک اس کی مسحور کن موسیقی بھی ہے۔ پہلی خاص بات تو فلم کا آرٹ ورک ہے اور دوسری بہت ساری محنت جو اس فلم کو بنانے میں ہوئی، جس کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے اسے مانو اینیمیشن اسٹوڈیو کے یوٹیوب چینل پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اور تیسری خاص بات یعنی اس کی انتہائی سریلی، مدھر اور دلوں کے تار چھیڑنے والی موسیقی ہے، جس سے آپ فلم دیکھتے ہوئے بے حد لطف اندوز ہوں گے۔ عثمان ریاض چونکہ خود اچھے موسیقار ہیں اور امریکا کے "برکلے کالج آف میوزک” سے تعلیم یافتہ ہیں، تو اس پر انہوں نے خوب توجہ دی ہے۔ اپنے فن سے اور دنیا بھر کے چند اچھے اور منتخب فن کاروں کے کام کو شامل کرکے، ایک یادگار موسیقی تخلیق کی ہے۔ عثمان ریاض کے ساتھ ساتھ اٹلی سے تعلق رکھنے والے موسیقار "کارمین ڈی فلوریو” کی کاوشوں نے فلم کو سُروں سے بھر دیا ہے۔

    پذیرائی و مقبولیت

    اس فلم کو پاکستان میں سمیت دنیا بھر میں پسند کیا جا رہا ہے، جو بہت خوش گوار بات ہے۔ اب تک یہ فلم باکس آفس پر بھی تیس ملین سے زائد کا بزنس کر چکی ہے۔فلموں کی سب سے بڑی ویب سائٹ "آئی ایم ڈی بی” پر اس فلم کی ریٹنگ 10 میں سے 8 اعشاریہ چھ فیصد ہے۔ گوگل کے صارفین کی طرف سے اب تک پسندیدگی کا تناسب سو میں سے اٹھانوے فیصد ہے اور پانچ میں سے چار اعشاریہ آٹھ فیصد ریٹنگ ہے۔ پاکستان میں بھی فلم دی گلاس ورکر کی پسندیدگی کا تناسب کافی بہتر ہے۔
    یہ الگ بات ہے، برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی پاکستان میں اردو سروس پر عثمان ریاض کے ایک انٹرویو کی سرخی میں فلم کا اردو نام میں "شیشہ گر” کے بجائے "شیشہ گھر” لکھا گیا اور شاید اسی غلطی کو دیکھتے ہوئے فلم ساز نے فیصلہ کیا کہ اس کے اردو ورژن کو بھی "دی گلاس ورکر” ہی لکھا جائے تو بہتر ہے۔

    حرفِ آخر

    مانو اینیمیشن اسٹوڈیوز، عثمان ریاض ان کی ٹیم اور وہ سیکڑوں لوگ جنہوں نے اس فلم کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کیا، مبارک باد کے مستحق ہیں مگر اس دنیا میں اپنی الگ اور منفرد شناخت بنانی ہے، تو اسی طرح پاکستانی انداز اپنائیے، جس طرح آپ نے "ای ایم آئی پاکستان” کے لیے، پاکستان کی موسیقی کے سنہرے دور کو اینیمیشن کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اسی طرح اپنی مقامی کہانیاں، اپنے اس شان دار آرٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کر کے مزید مقبولیت اور کام یابیاں سمیٹی جاسکتی ہیں۔
    ایک افسوس ناک بات یہ بھی ہوئی کہ پاکستان میں اس فلم کے تقسیم کار نے عین اس فلم کی نمائش کے موقع پر کراچی شہر کے مرکز میں واقع اپنا سینما اچانک بند کر دیا۔
    پاکستان میں فلمی صنعت اور سینما کے موجودہ حالات کے اس پس منظر میں "دی گلاس ورکر” ایک تازہ ہوا کا جھونکا ضرور ہے۔ فلم بینوں سے کہوں گا کہ آپ ہاتھ سے بنائی گئی پہلی پاکستانی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم دیکھنے سینما ضرور جائیے تاکہ انتھک محنت کے ساتھ ایسی زبردست کاوش پر فلم ساز اور پوری ٹیم کی حوصلہ افزائی ہو اور پاکستانی فلمی صنعت کا یہ نیا شعبہ پھولے پَھلے اور ترقی کرے۔

  • پاکستان کی پہلی علامتی ویب سیریز: برزخ

    پاکستان کی پہلی علامتی ویب سیریز: برزخ

    برزخ ویب سیریز دیکھنے سے پہلے یہ جان لیجیے

    آپ کے لیے جاننا ضروری ہے کہ تجریدیت کیا ہوتی ہے، علامت اور استعارہ کسے کہتے ہیں اور تمثیل کا تخلیقی اظہار کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’سُرریل ازم‘‘ (Surrealism) کیا چیز ہے، کس طرح عالمی ادب اور مصوری میں ان تمام نظریات کا استعمال ہوا۔ بعد میں بین الاقوامی فلمی دنیا نے بھی ان نظریات کو اپنایا۔ عالمی سینما میں ایسے افکار اور نظریات کی بنیاد پر فلمیں اور ویب سیریز بنانے کی روایت اب خاصی پرانی ہوچلی ہے، حتیٰ کہ ہمارے پڑوسی ممالک ہندوستان اور ایران میں بھی ایسے نظریاتی تجربات سے بھرپور فلمیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جنہیں ہم عرف عام میں ’’متوازن سینما‘‘ یا ’’آرٹ فلمیں‘‘ کہتے ہیں۔

    پاکستان میں البتہ ان نظریات کی بنیاد پر تھیٹر، مصوری اور ادب کے شعبوں میں تو کام ہوا، لیکن ہمارا ٹیلی وژن اور سینما اس سے تقریباً محروم رہا۔ نئے فلم سازوں میں کچھ بیدار مغز اور باشعور فلم ساز ان فنی باریکیوں سے واقف ہیں، تو وہ شاید اب کچھ ایسے تجربات کریں، جن کا تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔ تو یوں سمجھیے ایسا ہی ایک تجربہ ویب سیریز کی دنیا میں پاکستان کی طرف سے ہوا ہے، جس کا نام ’’برزخ‘‘ ہے۔ یہ کیسا تجربہ ہے، اس کا فیصلہ آپ ویب سیریز دیکھ کر خود کریں۔ ہم نے اس کو کیسا پایا، اس پر ہمارا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    برزخ کیا ہے؟

    عربی زبان کے اس لفظ بطور مذہبی اصطلاح دیکھنا ہوگا۔ لغوی اعتبار سے برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اس سے مراد، روح اور جسم کے درمیان، موت کے بعد سے قیامت تک کی آڑ یا درمیانی عرصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمام جن و انس حسبِ مراتب برزخ میں رہیں گے۔ عالمِ برزخ سے کچھ تعلق دنیا اور کچھ کا آخرت کے ساتھ ہوتا ہے، جب تک کہ تمام روحیں قیامت کے روز خدا کے حضور پیش نہیں ہو جاتیں۔

    اس اصطلاح کا دنیا کے ساتھ تعلق کچھ یوں ہے، جب انسان مر جاتا ہے، تو اس کے عزیز و اقارب میّت کے ثواب کے لیے صدقہ، خیرات اور ذکر و اذکار کرتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں روحیں قیامت آنے تک رہتی ہیں اور بہت ساری روحیں ایسی بھی ہیں، جو عالمِ ارواح سے باہر بھی آتی جاتی ہیں۔ اس عرصے میں بدن اور روح کا تعلق کسی نہ کسی طرح رہتا ہے، وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو بھی محسوس کرتے ہیں۔

    اس اصطلاح اور اس سے جڑے عقائد کو مزید تفصیل سے سمجھنے کے لیے اسلامی کتب اور متعلقہ ویب سائٹس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کی تسخیر کے لیے جو علوم وجود میں آئے، بھلے وہ اسپیس سائنس ہو یا کوانٹم فزکس، ان سب کے مطابق برزخ عدم ہے یعنی ڈارک انرجی۔ یعنی بزرخ وہ نقطۂ تبدل ہے، جس پہ حالتوں کی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اس طرح ہم مذہبی اور سائنسی دونوں پہلوؤں سے اس لفظ اور اصطلاح کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    مذکورہ ویب سیریز کا مرکزی خیال تو مندرجہ بالا افکار پر ہی محیط ہے، مگر ظاہر ہے، کہانی لکھتے ہوئے ویب نگار نے اس کو اپنے طرز سے بیان کیا ہے، جس میں افسانوی رنگ بھی شامل ہے۔ اس ویب سیریز کی کہانی کے مطابق، ایک پہاڑی وادی ہے، جو حسین درختوں سے لدی پھندی ہے، اس شان دار فطری مظاہر کو بیان کرنے والے گاؤں کا کرتا دھرتا، جس کو چوہدری، وڈیرا، جاگیر دار، سردار اور کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ ’’آقا‘‘ نامی شخص ہے، جس نے اپنے اوائلِ جوانی میں محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی محبوبہ کو بیوی بنایا اور اس کو پتوں کا ہار پہناتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ کمانے کے لیے شہر جائے گا اور اس کے لیے سونے کا ہار بنوا کر لائے گا۔

    وہ جب کئی برسوں کے بعد شہر سے لوٹتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی دنیائے فانی سے کوچ کرچکی ہے۔ اس کے بعد وہ اس کی یاد میں ایک اور شادی کرتا ہے، اور اس عورت کے بطن سے اولاد بھی نصیب ہوتی ہے، مگر وہ پہلی بیوی کو بھول نہیں پاتا جو اس کی محبوبہ بھی تھی، اور آخر کار زندگی کے اختتامی برسوں میں وہ ڈمنشیا نامی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے، جس میں انسان کی یادداشت اور حواس دھیرے دھیرے ختم ہونے لگتے ہیں۔ اب اس بوڑھے کی ضد ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی سے دوبارہ شادی کرے گا، جو عدم سے وجود پائے گی اور ظاہر میں اس سے ملاپ کرنے آئے گی۔ یہ مرکزی کردار ہے، جس کے اردگرد اس کے بھائی، اس کی اولاد، گاؤں کے لوگ اور مقامی پولیس افسر سمیت دیگر کرداروں کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔

    اس گاؤں میں اب یادداشت کھوتا ہوا بوڑھا اپنی شادی کی تیاری کررہا ہے۔ اولاد بھی اس مقصد کے لیے مختلف شہروں سے آچکی ہے۔ گاؤں کے لوگ اس شادی سے خوف زدہ ہیں۔ گاؤں میں چھوٹی کئی بچیاں لاپتا ہوچکی ہیں، جن کے بارے میں ایک عام خیال ہے کہ وہ روحوں کے بلانے پر ان کے ساتھ عالم ارواح میں چلی گئی ہیں۔ اس بوڑھے کی ایک لاڈلی اور معاون بیٹی کا نام شہرزاد ہے، جس کے بارے میں یہ دھندلا تاثر ہے کہ وہ اس کی اُسی پہلی بیوی سے ہے، جس نے اس کو عالمِ ارواح میں جانے کے بعد پیدا کیا اور اسے دنیا میں بھیج دیا۔گاؤں کے لوگوں کا بھی یہی خیال ہے۔

    اب آقا پُرعزم ہے اپنی شادی کے اعادے کے لیے، لاڈلی بیٹی معاونت کررہی ہے جو عالمِ ارواح کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ باقی دو اولادیں اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہی خیال گاؤں کے تھانیدار کا بھی ہے اور گاؤں کے نمبردار کا بھی، جو آقا کا بھائی بھی ہے۔ اب اصل میں ماجرا کیا ہے۔ اجسام اور روح کس طرح اس کہانی میں مل رہے ہیں، ملیں گے بھی یا نہیں اور کیا ہوگا، اس پر کہانی آپ کو متجسس کیے رکھے گی، جس کو توجہ سے دیکھنا ضروری ہے، کیونکہ بہت کچھ علامتوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ بوجھ اٹھائے چلتے ہوئے اجسام، کبوتر، پرانی روایات کی کتاب، لال رنگ کے ملبوسات، گلابی رنگ کا دھواں اور بہت کچھ اس کہانی کو تہ در تہ بیان کر رہا ہے، البتہ اس کہانی میں بہت سارے ایسے تصورات بھی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مذہبِ اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ وہ مصنّف کے ذہن کی اختراع ہے اور انہوں نے اپنی کہانی میں کئی افسانوی رنگ بھرے ہیں۔ اردو اور انگریزی میں بیان کی گئی، اس کہانی کے مصنف عاصم عباسی ہیں۔

    پروڈکشن اور دیگر تخلیقی شعبے

    یہ ویب سیریز پاکستان اور ہندوستان کی مشترکہ پروڈکشن ہے۔ پاکستان سے اس کے مرکزی اور معروف پروڈیوسر وقاص حسن ہیں۔ ہندوستان سے شلجا کجروال اس ویب سیریز کی مرکزی پروڈیوسر ہیں، وہ اس ویب سیریز کے ہدایت کار عاصم عباسی کے ساتھ ماضی قریب میں ’’چڑیلز‘‘ ویب سیریز کے لیے بھی بطور پروڈیوسر کام کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ویب سیریز ’’قاتل حسینوں کے نام‘‘ اور ’’دھوپ کی دیوار‘‘ سمیت پاکستانی فلم ’’لیلیٰ بیگم‘‘ شامل ہیں، جن میں وہ پروڈیوسر کے فرائض نبھا چکی ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ بھی اس ویب سیریز میں دونوں ممالک سے مزید کئی پروڈیوسرز شامل ہیں۔

    مذکورہ ویب سیریز سمیت یہ تمام پروڈکشنز زی زندگی (زی فائیو) کے لیے کی گئی ہیں، جو معروف ہندوستانی اسٹریمنگ پورٹل ہے۔ ہندوستانی پروڈیوسر شلجا کجروال کا پاکستانی فلم سازوں کے ساتھ اس قدر اشتراک حیرت انگیز ہے، جب کہ ابھی تو کئی برسوں سے دونوں ممالک کا ماحول یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی فلمیں اپنے اپنے ملک میں ریلیز نہیں کرسکتے، جس اسٹریمنگ پورٹل پر یہ مشترکہ پروڈکشن کی بنیاد پر سارا پاکستانی کونٹینٹ ریلیز کیا جا رہا ہے، یہ اسٹریمنگ پورٹل تو پاکستان میں کام ہی نہیں کرتا ہے۔ آپ گوگل کرکے دیکھ سکتے ہیں، پھر بھی ہندوستانی پروڈیوسر کی اس قدر دل چسپی قدرے مشکوک بھی ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر تخلیقی منصوبے متنازع بھی ہیں، جس طرح اب ’’برزخ‘‘ جیسی ویب سیریز میں امرد پرستی جیسے قبیح فعل کو بھی کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے، جس کی ضرورت کہانی میں محسوس نہیں ہوتی، مگر یہ اس کا حصہ ہے۔

    مجموعی حیثیت میں یہ ویب سیریز بطور پروڈکشن ڈیزائن اچھی ہے، جس کے پیچھے ایرج ہاشمی کی کوششیں شامل ہیں۔ اس ویب سیریز میں تمام ضروری پہلوؤں کا خیال رکھا گیا ہے، مگر خاص طور پر دو چیزوں نے بہت متاثر کیا، جن میں پہلی چیز بصری اثرات (ویژول ایفکٹس) ہیں، جن میں پاکستان سے محمد عمر اسلم اور ہندوستان سے ششی سنگھ راجپوت نے اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا۔ دوسری اہم چیز موسیقی ہے،جس کو پاکستان کی نئی نسل سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکار اور موسیقار سرمد غفور نے ترتیب دیا ہے، جو قابلِ ستائش ہے۔ سینماٹو گرافی مواعظمی کی ہے، جب کہ اس کے ساتھ دیگر شعبوں، جن میں ایڈیٹنگ، لائٹنگ، کاسٹیوم، آرٹ ڈیزائننگ، آڈیو اور دیگر شامل ہیں۔ ان تمام متعلقہ شعبوں میں پیشہ ورانہ کام دیکھنے کو ملا ہے۔

    ہدایت کاری

    اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عاصم عباسی ایک بہت اچھے ہدایت کار ہیں، جنہوں نے فیچر فلم ’’کیک‘‘ سے مجھے متاثر کیا، میں نے ان کی وہ فلم ریویو بھی کی تھی، لیکن اس کے بعد اب جا کر، اس ویب سیریز سے انہوں نے اپنے خالص تخلیقی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ عاصم عباسی چونکہ مذکورہ ویب سیریز کے مصنّف بھی ہیں، جو کہ میری رائے میں ان کا کمزور شعبہ ہے، اس لیے انہیں صرف اپنی ہدایت کاری پر ہی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم ان کا مزید خوب صورت اور تخلیقی کام دیکھ سکیں۔

    ڈائریکٹر عاصم عباسی

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں سب سے بہترین اداکار جس کا انتخاب کیا گیا، وہ سلمان شاہد ہیں۔ وہ لیونگ لیجنڈ ہیں، اس کے علاوہ مرکزی کرداروں میں فواد خان اور صنم سعید کے علاوہ پوری کاسٹ ہی تقریباً درست انتخاب ہے۔ ان دو باصلاحیت اداکاروں کی جگہ اس کہانی میں نہیں بنتی تھی، نجانے کیوں ان کو کاسٹ کیا گیا، یہ دونوں اپنے کرداروں کو نبھانے میں ناکام رہے۔ ان کے ہاں تصنّع اور جذبات سے عاری اداکاری دیکھنے کو ملی ہے، یہ مس کاسٹنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے مزاج کے لحاظ سے دیگر کئی کرداروں میں متاثر کن کام کرچکے ہیں، خاص طور پر فواد خان تو بہت عمدہ اداکار ہیں، البتہ صنم سعید کو ہماری ڈراما انڈسٹری نے اداکارہ بنا دیا، ورنہ ان کا اصل کیریئر ماڈلنگ تھا، وہ وہیں ٹھیک تھیں۔ اس ویب سیریز میں پس منظر میں آواز یعنی صداکاری کے لیے بھی صنم سعید کا انتخاب کیا گیا، جب کہ ان کی آواز صداکاری کے لیے موزوں نہیں ہے، انھیں سنتے ہوئے محسوس ہوگا کہ وہ ناک میں بول رہی ہیں۔ یہ سب تو ہدایت کار کو دیکھنا ہوتا ہے، ظاہر ہے اس میں اداکاروں کا کوئی قصور نہیں ہے۔

    اسی ویب سیریز میں محمد فواد خان، میثم نقوی اور کلثوم آفتاب جیسے انتہائی شان دار اداکار اور صدا کار موجود ہیں، جنہوں نے اداکاری بھی خوب جم کر کی۔ ان میں سے کسی کی آواز کو استعمال کر کے کہانی کی پڑھنت کو چار چاند لگائے جاسکتے تھے۔

     تیسری قسط میں وہ منظر، جب ایک کردار (کلثوم آفتاب) اپنی بیٹی کی گمشدگی کے بارے میں گاؤں والوں کو بتا کو رہا ہے اور اپنی ممتا کا دکھ بیان کررہا ہے، یہ منظر اور مونو لاگ(خود کلامی)‌ اس ویب سیریز میں صنم سعید کی پوری اداکاری پر بھاری ہے۔

    اب جب روایتی میڈیم اور سنسر بورڈ وغیرہ سے جان چھڑا کر آزاد میڈیم کے لیے چیزیں تخلیق کر ہی رہے ہیں تو برانڈنگ پرفامرز کی بجائے اسٹینڈنگ پرفامر کو موقع دینا ہوگا، جس طرح ہندوستان میں دیا جاتا ہے، ورنہ ہم اسٹریمنگ پورٹلز کی آزاد دنیا میں بھی جلد اپنا اعتبار کھو دیں گے۔ تنقید برائے تعمیر سمجھ کر ان پہلوؤں پر ضرور غور کیا جائے۔

    حرف آخر

    اس ویب سیریز کے تناظر میں سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر کمنٹس میں منفی و مثبت تاثرات پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں کیا سوچا جا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، جو خوش آئند ہے۔ میری حتمی رائے بھی یہی ہے کہ یہ ایک اچھی ویب سیریز ہے، جس پر عاصم عباسی اور ان کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔

    قارئین! اگر آپ علامت، استعارہ، تشبیہ اور تجرید میں دل چسپی لیتے ہوئے ایک ایسی کہانی دیکھنے کے طلب گار ہیں تو یہ ویب سیریز آپ کو لطف دے گی۔ آپ اس ویب سیریز کو یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ معمولی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کوشش کو سراہیے۔ہمیں امید ہے، ہمارے یہ نئے تخلیق کار مستقبل میں مزید متاثر کن کہانیاں دیں گے اور ہمیں حیران کرتے رہیں گے۔

  • ہیرارکی: نوجوان نسل میں مقبول ہوتی جنوبی کوریا کی ویب سیریز

    ہیرارکی: نوجوان نسل میں مقبول ہوتی جنوبی کوریا کی ویب سیریز

    دنیا بھر میں جنوبی کوریا کی فلمیں اور ویب سیریز بے حد پسند کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے، نیٹ فلیکس سمیت کئی بڑے اسٹریمنگ پورٹلز نے اس ملک کی کہانیوں کو اہمیت دیتے ہوئے، ان کی پروڈکشن شروع کی ہے۔ ہمیں اب تواتر کے ساتھ جنوبی کوریا کی ہر موضوع پر، ہر قسم کی فلمیں اور ویب سیریز دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ رواں برس ابھی تک جن کورین ویب سیریز کو بہت توجہ ملی، ان میں سے ایک یہ ویب سیریز "ہیرارکی” ہے، جس کی کہانی نئی نسل کے چند لاابالی نوجوانوں کے جذبات و احساسات کے گرد گھومتی ہے۔

    طبقۂ اشرافیہ اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اسکول کے طالبِ علم آپس میں بھڑ جاتے ہیں، یہ ویب سیریز ان کی کہانی کو بہت دھیمے لیکن عمدہ انداز میں پیش کرتی ہے۔ اردو زبان میں اس ویب سیریز کا مفصل تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    مرکزی خیال/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کے نام سے ہی اس کے موضوع اور کہانی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ "ہیرارکی” انگریزی کا لفظ ہے، جس سے مراد وہ درجہ بندی یا تقسیم کا عمل ہے جو طاقت اور حیثیت کے بل بوتے پر ہوتی ہے۔ مذکورہ ویب سیریز کی کہانی جنوبی کوریا کے ایک ایسے فرضی اسکول "جوشین ہائی اسکول "سے متعلق ہے، جہاں پورے ملک سے صرف ایک فیصد طلبا کو داخلہ ملتا ہے اور ان سب کا تعلق اشرافیہ سے ہوتا ہے۔ ان میں سے معدودے چند کو اسکالر شپ کی بنیاد پر داخلہ دیا جاتا ہے۔ اسکول میں امیر اور غریب کی تقسیم واضح ہے، جسے اسکول انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اب ایسے ماحول میں یہ رئیس زادے اور بڑے کاروباری خاندانوں کے بچّے اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے اور کوئی درجن بھر امیر ترین طلبا کیسے تعلیمی ادارے میں اقدار کو اپنے قدموں تلے روندتے ہیں، اس کہانی میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
    لیکن کہانی میں سنسنی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب یہاں اسکالر شپ پر آئے ہوئے ایک طالب علم کا قتل ہو جاتا ہے۔ اس مقتول طالبِ علم کے بھائی کو اسی اسکول میں اسکالر شپ مل جاتی ہے اور یہاں پہنچ کر وہ اپنے بھائی کے قاتلوں کی تلاش شروع کرتا ہے۔ اس دوران وہ محبت جیسے جذبے سے بھی آشنا ہوتا ہے۔ محبت کا یہی جذبہ اسکول کے چند امیر طلبا کی زندگیوں میں بھی احساسات اور کیفیات کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ موجزن ہے۔ اس سارے منظر نامے میں ان مخصوص طلبا کے ساتھ چند اساتذہ اور اسکول کی پرنسپل کو بھی شریکِ عمل دکھایا گیا ہے۔ کاروباری شخصیات اور امرا کے یہ بچّے زندگی کو کیسے اپنے انداز سے گزارتے ہیں، اور ایک غریب کا بچّہ کس طرح اپنی منزل تک پہنچتا ہے، یہ کہانی اسی کو عمدہ طریقے سے بیان کرتی ہے۔ اسکول میں ہی ان نوجوانوں میں دوستی، محبّت اور انتقام جیسے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور وہ ان کا اظہار کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔

    مجموعی طور پر کہانی اچھی ہے، جس کو سات اقساط میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ پہلا سیزن ہے اور امید ہے کہ اس کا دوسرا سیزن بھی آئے گا۔ ابتدائی طور پر کہانی سست روی کا شکار نظر آتی ہے، لیکن اگلی اقساط میں کہانی رفتار پکڑ لیتی ہے۔ نئی نسل کے لحاظ سے اس کو روایتی انداز میں ہی فلمایا گیا ہے۔ یہ پیشکش بہت اچھوتی تو نہیں، لیکن دیکھنے والوں کو کسی حد تک متاثر ضرور کرے گی۔ اسے چوہائے می نو نے لکھا ہے۔

    پروڈکشن/ ڈائریکشن

    اس ویب سیریز کا پروڈکشن ڈیزائن بہت خوب ہے۔ اسے جنوبی کوریا کے دس شہروں میں فلمایا گیا ہے اور سینماٹوگرافی بہت کمال ہے۔ ملبوسات، لائٹنگ، ایڈیٹنگ اور دیگر تکنیکی امور بخوبی انجام دیے گئے ہیں، البتہ میک اپ کے شعبے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کورین فلم ساز لڑکے لڑکی کا فرق مٹانا چاہتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں ان کا میک اپ اتنا اچھا نہیں ہوتا، خاص طور پر اس سیریز میں مرکزی کرداروں کا میک اپ اضافی معلوم ہوگا۔ اس سے کہانی میں تصنع کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ پس منظر میں موسیقی اور دیگر ضروری باتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ ویب سیریز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہدایت کاری کے فرائض بھی بے ہیوجن نے بخوبی انجام دیے ہیں۔ اس کے موسیقار کم تائی سنگ ہیں۔ ان کی موسیقی نے کہانی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

    اداکاری و دیگر پہلو

    کہانی کچھ سست اور طویل محسوس ہوتی ہے۔ مکالمے بھی زیادہ جاندار نہیں، جس کی وجہ سے اداکاری پر فرق پڑا۔ خاص طور پر مرکزی کردار یعنی ہیرو اور ہیروئن، جن کے نام جونگ جے ای اور کم ری آن ہیں، ان کی اداکاری بہت یکسانیت کا شکار دکھائی دی۔ البتہ اس ویب سیریز کے معاون اداکاروں نے بھرپور طریقے سے اپنے کردار نبھائے، اور انہی کی وجہ سے مجموعی طور پر ویب سیریز دل چسپ ہوگئی، ورنہ ہیرو ہیروئن کی جذبات سے عاری اداکاری اس ویب سیریز کو لے ڈوبتی۔ کانگ ہا اس ویب سیریز کا وہ کردار ہے جس نے سب سے عمدہ اداکاری کی۔ یہ اسکول میں اسکالر شپ پر آنے والا طالبِ علم ہے جس کی وجہ سے ویب سیریز دل چسپ ہوگئی۔

    کہا جارہا ہے اس کا دوسرا سیزن بھی آئے گا، جب کہ اس ویب سیریز کو دیکھنے کے بعد بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ دوسرے سیزن کی ضرورت ہے، لیکن کچھ عرصے سے جنوبی کوریا میں ویب سیریز کے نئے سیزن کا رجحان بڑھ گیا ہے اور چند ویب سیریز ایسی ہیں جن کے نئے سیزنز کا حال ہی میں اعلان کیا گیا ہے۔ ان میں سویٹ ہوم، ہاسپٹل پلے لسٹ، اور یومی کوریائی ڈراموں کی وہ مثالیں ہیں جو متعدد سیزنز پر مشتمل ہیں اور اسکویڈ گیم جیسی مقبول ویب سیریز کا بھی اس سال کے آخر میں دوسرا سیزن پیش کیا جائے گا۔

    ویب سیریز ہیرارکی کو 51 ممالک میں دیکھا گیا۔ یہ نیٹ فلیکس پر ٹاپ ٹین میں شامل رہی۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا میں بھی اسے بہت توجہ ملی، یہ کئی ہفتے ٹاپ ویب سیریز کی فہرست میں پہلی پوزیشن پر رہی اور منفی تبصروں کے باوجود اس نے نئی نسل کو اپنی طرف کھینچا اور لاکھوں ناظرین نے اس ویب سیریز کو دیکھا۔

    حرفِ آخر

    قارئین! اگر آپ رومان، تجسس اور تصورات کی دنیا میں جانا پسند کرتے ہیں اور کسی معاشرے میں طبقاتی تقسیم کے اثرات اور نئی نسل کے خیالات، ان کے جذبات کو جاننا چاہتے ہیں تو پھر یہ ویب سیریز آپ ہی کے لیے ہے۔ یہ بتاتا چلوں کہ کہانی شروع میں آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا کر سکتی ہے، لیکن دھیرے دھیرے یہ آپ کو اپنی جانب کھینچ لے گی اور آپ اسے آخر تک دیکھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ نیٹ فلیکس پر یہ ویب سیریز ہندی ڈبنگ میں آپ کی منتظر ہے۔

  • ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    کسی انسان کی ملاقات اگر اپنے ہم زاد سے ہو جائے تو کیا ہوگا؟ یہ ویب سیریز ڈارک میٹر اسی سوال کا جواب دیتی ہے۔

    کس طرح انسانی باطن پر، کوانٹم فزکس کے اصول لاگو ہوتے ہیں، بے شک تخیل سہی، مگر سوچا جائے تو یہ بہت پُراسرار، حیرت انگیز، عجیب و غریب اور پُرلطف بھی ہے۔ اس وقت دنیا میں دیکھی جانے والی دس اہم ویب سیریز میں، اپنی ریٹنگ کی بنیاد پر، آئی ایم ڈی بی کے پیمانے کے مطابق، یہ تیسرے درجے پر فائز ویب سیریز ہے۔ ایپل پلس ٹیلی وژن کی نو اقساط پر مبنی یہ ویب سیریز آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے گی اور میرا دعویٰ ہے کہ آپ اس کی تمام اقساط دیکھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہی اس کا تخلیقی کمال ہے۔

    سائنس کی دنیا میں "ڈارک میٹر” کیا ہے ؟

    ماہرینِ فلکیات نے ایسے مادّہ کی موجودگی کا پتہ لگایا جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اس کا نام ڈارک میٹر ہے، جسے ہم سیاہ مادّہ بھی کہتے ہیں۔ کسی بھی مادّہ یا کسی شے کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسم روشنی کا اخراج کرتا ہو یا پھر اس روشنی کو جذب کرے۔ سائنس بتاتی ہے کہ جو چیز روشنی کا اخراج کرے گی، وہ ہمیں رنگین نظر آئے گی یا روشنی کو جذب کرے گی تو وہ چیز ہمیں سیاہ نظر آئے گی، لیکن ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ ایسا کچھ نہیں کرتا، البتہ وہ کششِ ثقل کی ایک بڑی مقدار ضرور فراہم کرتا ہے۔

    کششِ ثقل فراہم کرنے کی بنیاد پر ہی ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ مختلف کہکشاؤں کو مربوط رکھے ہوئے ہے۔ اس دنیا اور کائنات میں جو چیز بھی ہم دیکھتے ہیں خواہ وہ ایٹم کے ذرّات ہوں یا اس کائنات میں موجود کہکشائیں، سورج، چاند اور ستارے یہ سب اس کا کائنات کا محض چار سے پانچ فیصد ہیں، باقی 71 فیصد ڈارک انرجی اور بیس سے زائد فیصد ڈارک میٹر پر پھیلا ہوا ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ انہی تصورات کو انسان کی ذات، اس کی نفسیات اور تصورات پر لاگو کریں تو آپ پوری بات سمجھ لیں گے، اور اسی کو مذکورہ ویب سیریز میں بیان کیا گیا ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کا مرکزی خیال ایک ناول "ڈارک میٹر” سے مستعار لیا گیا ہے، جس کے مصنّف امریکا سے تعلق رکھنے والے ولیم بلیک کروچ ہیں۔ ناول نگار تجسس سے بھرپور اور سائنسی تصورات پر مبنی کہانیاں لکھنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ مذکورہ ویب سیریز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی انسان اپنی مادّی دنیا سے نکل کر اس نظر سے کیسے کائنات کو دیکھ سکتا ہے اور اس طرح کیسے سوچ سکتا ہے جیسا مصنّف اپنے ناول میں دکھایا۔ اسی ناول سے متاثر ہوکر یہ ویب سیریز تخلیق کی گئی ہے۔

    ڈارک میٹراب کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔ شکاگو سے تعلق رکھنے والا ایک طبیعیات داں اور استاد جیسن ڈیسن ہے، جو سادہ دل، نرم مزاج اور حساس طبیعت کا مالک ہے اور اپنی بیوی ڈینیلیا ڈیسن اور بیٹے چارلی ڈیسن کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے۔ کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرنے والا یہ ذہین شخص، انسانی طبیعیات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور ایک دن اس کا واسطہ اپنے ہم زاد سے پڑتا ہے، جو مادّی روپ دھار کر اس کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ جیسن ڈیسن کو اس دنیا میں بھیج دیتا ہے، جہاں سے وہ ہم زاد آیا تھا۔ اس دنیا میں وہ ایک خاتون سے محبت کرتا ہے، جس کا نام امانڈا لوکس ہے۔

    ویب سیریز کے اس مرکزی کردار کے ساتھ معاون کرداروں میں اس کے دوست ریان ہولڈر اور لیٹن وینس ہیں، جن سے اس کی دونوں زندگیوں کا تعلق بنا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں سے کہانی مزید گہرائی میں جاتی ہے۔

    ہم اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی شخصیت میں بعض اوقات دو زندگیاں ایک ساتھ بسر کررہے ہوتے ہیں، لیکن دنیا کو صرف ایک زندگی یا وہ روپ دکھائی دے رہا ہوتا ہے، جو ہم اسے دکھانا چاہتے ہیں۔ اس کہانی میں مرکزی کردار کی دونوں زندگیاں یعنی ظاہر و باطن آمنے سامنے ہوجاتے ہیں۔ یہاں کہانی میں پہلا شخص تو بہت ملن سار ہے، جب کہ ہم زاد سخت مزاج، تیکھا اور کسی حد تک سفاک بھی ہے۔

    اب اصل شخصیت کا مالک اپنی مادّی یا ظاہری دنیا سے نکل کر اس دوسری دنیا میں کیسے پہنچتا ہے، وہاں کیا دیکھتا ہے اور پھر واپس اپنی اصل دنیا میں آنے کے لیے کیا جتن کرتا ہے، کس طرح اپنے ہم زاد سے پیچھا چھڑواتا ہے اور اپنی ہنستی بستی زندگی کو اتنی مصیبتیں جھیلنے کے بعد کیسے واپس حاصل کرتا ہے۔ یہ کہانی اسی جدوجہد اور ظاہری و باطنی لڑائی کا عکس پیش کرتی ہے۔ اس جدوجہد کو کہانی اور کرداروں کے ساتھ پیوست کر کے بہت اچھے انداز میں پہلے ناول کی شکل میں پیش کیا گیا تھا اور اب اسے ویب سیریز میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔

    پروڈکشن ڈیزائن اور ہدایت کاری

    اس ویب سیریزکا آرٹ ورک، تھیم اور اس کے مطابق سارے گرافکس اور وی ایف ایکس کا کام انتہائی متاثر کن ہے، جنہوں نے مبہم اور غیر مادی احساسات کو تصویری اور متحرک شکل میں پیش کیا۔ دیگر تمام شعبہ جات سمیت پروڈکشن ڈیزائن پُرکشش ہے، جو ایک بھاری بھرکم موضوع کی بدولت بھی ناظرین کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتا، یہ ایک بہت اہم اور عمدہ بات ہے۔

    اس ویب سیریز کی نو اقساط ہیں اور پانچ مختلف ڈائریکٹرز نے ان کی ہدایات دی ہیں۔ ان کے نام جیکب وربرگین، روکسن ڈوسن، علیک سخاروف، سلین ہیلڈ اور لوجن جارج ہیں، ان ہدایت کاروں کا تعلق بیلجیئم، امریکا، برطانیہ اور روس سے ہے۔ یہ نو اقساط متعدد ہدایت کاروں کے ہاتھوں تکمیل کے مراحل سے گزری ہیں، لیکن خوبی یہ ہے کہ کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہدایت کار تبدیل ہوا ہے۔ تمام اقساط میں تخلیقی سطح یکساں ہے، البتہ مجموعی طورپر کہانی تھوڑی طویل محسوس ہوتی ہے، اور میرا خیال ہے کہ اسے سمیٹا جاسکتا تھا تاکہ وہ ناظرین، جو کوانٹم فزکس اور متبادل کائنات کے تصوّر میں دل چسپی نہیں رکھتے وہ بھی اسے آسانی سے سمجھ سکتے۔ پھر بھی اگر توجہ سے یہ ویب سیریز دیکھی جائے، تو باآسانی تفہیم ہوسکتی ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں بیک وقت ہیرو اور ولن کے کردار میں آسڑیلوی اداکار جوئل ایڈجرٹن نے انتہائی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک مثبت اور دوسرا منفی کردار بخوبی نبھایا ہے۔ متضاد کرداروں کی نفسیات پر خوب گرفت رکھنے والے اس اداکار نے پوری ویب سیریز کا بوجھ گویا اپنے کندھوں پر اٹھایا اور مجموعی طور پر کام یاب بھی رہے۔ ان کے مدمقابل دو حسین اداکارائیں جینیفر کونلی اور ایلس براگا تھیں، جنہوں نے جم کر اداکاری کی اور اسکرین پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ان میں سے اوّل الذکر اداکار کا تعلق امریکا اور دوسری کا تعلق برازیل سے ہے۔ دیگر معاون اداکاروں میں جمی سمپسن (امریکا)، ڈائیو اوکنی (نائیجیریا)، اوکس فیگلی (امریکا) اور امانڈا بروگل (کینیڈا) نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کرتے ہوئے، اس پیچیدہ کہانی کو سمجھنے میں معاونت کی ہے اور ایک اچھا فریم ورک تشکیل پایا۔

    حرفِ آخر

    یہ ویب سیریز گزشتہ چند ہفتوں سے پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے مقبولیت مل رہی ہے۔ ایک پیچیدہ اور مشکل موضوع پر بنائی گئی اس ویب سیریز کو صرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر آپ جم کر کوئی ویب سیریز دیکھ سکتے ہیں، بغیر توجہ ہٹائے، تو یہ کہانی آپ کو تخیلاتی اعتبار سے کسی دوسری اَن دیکھی دنیا میں لے جائے گی۔ اس پوری کیفیت اور کہانی کو اگر میں ایک شعر میں بیان کروں تو بقول رضی اختر شوق:

    اپنی طرف سے اپنی طرف آرہا تھا میں
    اور اس سفر میں کتنے زمانے لگے مجھے!

  • شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    دنیا بھر میں مقبولیت کا نیا اور منفرد ریکارڈ قائم کرنے والی یہ ویب سیریز شوگن ہمیں سترہویں صدی کے جاپان میں لے جاتی ہے جہاں حکمرانی اور اثر و رسوخ کے لیے طاقت کا استعمال دکھایا گیا ہے اور کرداروں کے ذریعے کہانی آگے بڑھتے ہوئے آپ کی توجہ اور دل چسپی سمیٹ لیتی ہے۔

    دنیا بھر میں اس وقت یہ ویب سیریز دیکھی جارہی ہے اور اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ 80 کی دہائی میں اسی کہانی پر ایک مختصر ڈراما سیریز بنی تھی، جس کو پاکستان ٹیلی وژن پر بھی قسط وار دکھایا گیا تھا۔ سترہویں صدی کے جاپان پر مبنی امریکی ویب سیریز کا اردو میں یہ واحد مفصل تجزیہ اور باریک بینی سے کیا گیا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    شوگن کیا ہے؟

    جاپانی تاریخ میں شوگن کی اصطلاح، فوجی سربراہ کے لیے بطور لقب استعمال ہوتی تھی اور یہی ملک کا حقیقی حکمران ہوا کرتا تھا۔ یہ لقب سب سے پہلے ہئین دور میں استعمال ہوا، جو کسی کامیاب جنگی مہم کے بعد متعلقہ جنرل کو دیا گیا۔ جب 1185ء میں میناموتویوری تومو نے جاپان پر فوجی کنٹرول حاصل کیا، تو اقتدار سنبھالنے کے سات سال بعد انہوں نے شوگن کا لقب اختیار کیا۔ جاپان کی قدیم تاریخ میں شوگن سے مراد ملک کا سربراہ اور دھرتی کا سب سے طاقتور فرد ہوا کرتا تھا۔ جاپان میں 1867ء کو سیاسی انقلاب برپا ہونے اور جاگیر دارانہ نظام کے خاتمے تک، یہ لقب اور اس سے جڑے افراد، جاپانی تاریخ کے اصل حکمران اور فوجی طاقت کا محور ہوئے۔ مذکورہ ویب سیریز کی کہانی میں ایسی ہی چند طاقت ور شخصیات کی اس اہم ترین عہدے کو پانے اور قائم رکھنے کے لیے لڑائیاں اور تصادم دکھایا گیا ہے۔

    پرانی ڈراما سیریز شوگن اور نئی ویب سیریز شوگن کا موازنہ

    یہ ذہن نشین رہے کہ پروڈکشن کے شعبے میں ڈراما سیریز کے لیے اب نئی اصطلاح، ویب سیریز ہے۔ اس میں فرق اتنا ہے کہ پہلے کسی بھی کہانی کو اقساط کی صورت میں ٹیلی وژن کے لیے تیار کیا جاتا تھا اور اب اس کو کسی اسٹریمنگ پورٹل کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی کی شوگن اور عہدِ حاضر میں بنائی گئی شوگن میں بڑا فرق کہانی کی طوالت کا ہے۔

    پرانی شوگن محدود اقساط پر مبنی ڈراما سیریز تھی، جب کہ موجودہ شوگن کے تین سیزن تیار کیے جائیں گے۔ ابھی پہلا سیزن بعنوان شوگن ہولو اسٹریمنگ پورٹل پر ریلیز کیا گیا ہے۔ اس مساوی کہانی کے دو مختلف پروڈکشن میں 64 ایسے نکات ہیں، جن کو تبدیل کیا گیا ہے، اس فرق کو سمجھانے کے لیے ہم نیچے ایک لنک دے رہے ہیں جس پر کلک کر کے آپ یہ فرق آسانی سے سمجھ سکیں گے۔

    پروڈکشن اور دیگر اہم تفصیلات

    امریکی پروڈکشن ادارے ایف ایکس نے پرانی کہانی پر ہی دوبارہ شوگن بنانے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس ویب سیریز کی مکمل پروڈکشن چار بڑی کمپنیوں کے اشتراک سے ممکن ہوئی ہے۔ ان چار کمپنیوں کے نام بالترتیب ڈی این اے فلمز، ایف ایکس پروڈکشنز، گیٹ تھرٹی فور پروڈکشنز اور مچل ڈے لوسا ہیں۔ اس کے لیے دس سے زائد پروڈیوسروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، جن میں مذکورہ ویب سیریز میں مرکزی کردار نبھانے والے جاپانی فلمی ستارے ہیروکی سنادا بھی شامل ہیں۔ اس ویب سیریز کی پروڈکشن ٹیم کا بڑا حصہ امریکی اور جاپانی فلم سازوں کے بعد اسکاٹش اور آئرش فلم سازوں پر مشتمل ہے، جو دل چسپ بات ہے۔ اس ویب سیریز کو جاپان اور کینیڈا میں پونے دو سال کے عرصہ میں فلمایا گیا ہے۔ شوگن، امریکی پروڈکشن ہاؤس ایف ایکس کی تاریخ کی سب سے مہنگی پروڈکشن ہے، اور اسے امریکی ٹیلی وژن ایف ایکس کے ساتھ ساتھ اسٹریمنگ پورٹلز اسٹار پلس، ڈزنی پلس اور ہولو پر ریلیز کیا گیا ہے۔

    جاپان سمیت پوری دنیا میں اس ویب سیریز کو بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔ اس ویب سیریز کے پروڈیوسرز میں سے ایک جاپانی پروڈیوسر اور عالمی شہرت یافتہ اداکار ہیروکی سنادا کا کہنا ہے، "ہالی ووڈ میں بیس سال کے بعد، میں ایک پروڈیوسر ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ میں کچھ بھی کہہ سکتا ہوں، کسی بھی وقت۔ میرے پاس پہلی بار ایک ٹیم تھی، لیکن اس سے بھی بڑھ کر، مجھے خوشی تھی۔” انہوں نے شو کو جاپانی تاریخ کے تناظر میں مستند حالات و واقعات سے مربوط رکھنے پر توجہ دی۔ "اگر کہانی میں کچھ غلط ہے تو لوگ ڈرامے پر توجہ نہیں دے سکتے۔ وہ اس قسم کا شو نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہمیں مستند کام کرنے کی ضرورت ہے۔” ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کچھ ڈرے ہوئے تھے کہ نجانے جاپانی ناظرین اسے کس طرح سے دیکھیں گے، لیکن ان کو یہ توقع نہیں تھی کہ جاپانی ناظرین اسے اتنا پسند کریں گے۔ وہ جاپان میں اس مقبولیت پر بے حد مسرور ہیں۔ اس ویب سیریز کے بنیادی شعبوں میں آرٹسٹوں اور ہنرمندوں نے متاثرکن کام کیا ہے، خاص طورپر موسیقی، ملبوسات، صوتی و بصری تاثرات، تدوین اور چند دیگر شعبہ جات اس میں‌ شامل ہیں۔

    مقبولیت کے نئے پیمانے

    فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی درجہ بندی دس میں سے آٹھ اعشاریہ سات ہے۔ فلمی ناقدین کی ویب سائٹ روٹین ٹماٹوز پر اسے 100 میں سے 99 فیصد کے غیرمعمولی تناسب سے پسند کیا گیا ہے اور بہت کم فلموں کے لیے یہ شرح تناسب دیکھنے میں آتا ہے۔ فلم افینٹی جو امریکی و برطانوی فلمی ویب سائٹ ہے، اس نے درجہ بندی میں اس ویب سیریز کو 10 میں سے 7.6 فیصد پر رکھا ہوا ہے۔ گوگل کے صارفین کی بات کریں تو وہاں ویب سیریز کی شرحِ پسندیدگی کا تناسب سو میں سے پچانوے فیصد ہے اور ویب سیریز کی یہ ستائش اور پذیرائی بھی انتہائی غیر معمولی ہے اور تادمِ تحریر یہ ویب سیریز مقبولیت اور پسندیدگی کی بلندیوں کی طرف ہی بڑھ رہی ہے اور لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مقبولیت کی نئی تاریخ رقم ہوگی۔ ویب سیریز کے ناظرین کی پسندیدگی تو ایک طرف، دنیا بھر کے فلمی ناقدین بھی اس ویب سیریز کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔

    ڈائریکشن اور اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کے ڈائریکٹر امریکی فلم ساز ٹم وین پیٹن ہیں، جن کے کریڈٹ پر گیمز آف تھرونز اور سیکس اینڈ سٹی جیسے تخلیقی شاہکار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دی وائر اور بلیک مرر جیسی ویب سیریز کے بھی ہدایت کار رہ چکے ہیں۔ ریچل کوندو اور جسٹن مارکس کے تخلیق کردہ اس شاہکار کو اپنی ہدایت کاری سے انہوں نے گویا چار چاند لگا دیے ہیں۔

    ویب سیریز کی کہانی کا مرکزی خیال 1975ء میں شائع ہونے والے ناول شوگن سے لیا گیا، جس کے مصنف جیمز کلیویل ہیں۔ یہ دوسری عالمی جنگ میں، برطانیہ کی طرف سے سنگاپور میں جاپانیوں سے لڑے اور وہاں جنگی قیدی بھی بنے۔ شاید یہی ان کی زندگی کا موقع تھا، جس کی وجہ سے انہیں جاپانی تاریخ سے دل چسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے جاپان کے تناظر میں چھ ناولوں کی ایک سیریز لکھی، جن میں سے ایک ناول شوگن کے نام سے شائع ہوا۔ اس ناول پر ویب سیریز کا اسکرپٹ لکھنے والوں میں آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے اسکرپٹ رائٹر رونن بینٹ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

    مرکزی خیال و کہانی

    اس ویب سیریز کی کہانی کا آغاز سنہ 1600ء کے جاپان سے ہوتا ہے اور یہ اس کا پہلا سیزن ہے۔ فلم ساز ادارے نے اعلان کیا ہے کہ اس کے مزید دو سیزن بنیں گے، تو میرا یہ اندازہ ہے کہ اس ویب سیریز کی کہانی کو جاپان میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے تک فلمایا جائے گا۔

    پہلے سیزن میں اُس دور کی ابتدا کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اُس وقت کے جاپان کے مرکزی رہنما کی رحلت کے بعد سیاسی طاقت پانچ ایسے نگرانوں‌ میں مساوی تقسیم ہو جاتی ہے، جن کو ریجنٹس کہا گیا ہے، کیونکہ وہ پانچوں اس مرکزی حکمران کے بچے کی حفاظت پر مامور ہیں، جو اوساکا کے شاہی قلعہ میں پرورش پا رہا ہے۔ اس کے بالغ ہونے تک یہ طاقت ان پانچ نگرانوں کے پاس ہے اور وہ ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

    اس منظر نامے میں ایک انگریز ملاح بھی اس وقت شامل ہو جاتا ہے، جب اس کا ولندیزی جہاز، ایک سمندری طوفان کے نتیجے میں بھٹک کر جاپان کے ساحل کی طرف آ نکلتا ہے۔ یہ کردار انگریز جہاز راں ولیم ایڈمز سے منعکس ہے۔ دکھایا گیا ہے کہ اس برطانوی جہاز راں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن وہ جاپان کے سیاسی منظر نامے کی اہم ترین شخصیت اور پانچ نگراں حکمرانوں کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی بعض خوبیوں اور بالخصوص عسکری مہارتوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس حکمران کی قربت حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے یہ وہ نگران حکمران ہے جس کا تعلق ایدو (ٹوکیو کا قدیم نام) سے ہے، اور دوسرے نگراں حکمران اس کے بڑے سخت مخالف ہیں، اور یہ اُن سے نبرد آزما ہے۔ ایدو سے تعلق رکھنے والے اس حکمران کی سپاہ میں بھی جہاز راں کی عسکری مہارتوں کا چرچا ہوتا ہے اور وہ ان کی نظر میں بھی مقام حآصل کرلیتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ اسے ایک اعلٰی عسکری عہدہ سونپ دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ ان کے ساتھ مل کر جنگی مہمات کا حصہ بنتا ہے۔ اس طرح ایک غیر جاپانی کو سمورائی کا درجہ مل جاتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ایدو سے تعلق رکھنے والا یہ پہلا شوگن ہے، جس کی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پہلے سیزن کی کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔


    اس طرح کہانی میں آگے چل کر یہ پانچوں نگراں و مساوی حکمراں، انگریز جہاز راں، پرتگالی تاجر، کیتھولک چرچ کے نمائندے، سیاسی اشرافیہ سے وابستہ دیگر ذیلی کردار شامل ہوتے ہیں اور خاص طور پر ایک جاپانی خاتون کا کردار جو لیڈی تودا مریکو کہلاتی ہے، بھی اس کہانی میں نمایاں ہے اور یہ کردار ناظرین کو اپنے ساتھ اس طرح جوڑے رکھتا ہے کہ دس اقساط کب تمام ہوئیں، معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان حکمرانوں کی کہانی میں جو روانی اور ربط ہے، اس پر اگر اس ویب سیریز کے لکھاری قابل ستائش ہیں، تو اس سے کہیں زیادہ وہ ناول نگار قابلِ تعریف ہے، جس نے جاپان کی تاریخ میں اتر کر، کہانی کو اس کی بنیاد سے اٹھایا۔ کہنے کو تو یہ خیالی کہانی (فکشن) ہے، مگر اس کے بہت سارے کردار اور واقعات جاپانی تاریخ سے لیے گئے ہیں اور وہ مستند اور حقیقی ہیں۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں مرکزی کرداروں کی بات کی جائے تو وہ تعداد میں درجن بھر ہیں۔ ان میں سے جن فن کاروں نے بے مثال کام کیا، ان میں ہیروکی سنادا (لارڈ یوشی توراناگاوا)، کوسمو جارویس (جان بلیک تھرون)، اننا ساوائی (لیڈی تودامریکو)، تادانوبو (کاشی گی یابوشیگے) تاکے ہیرو ہیرا (اشیدوکازوناری) اور دیگر شامل ہیں۔ ذیلی کرداروں میں دو درجن کردار ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی اداکاری سے اس تاریخی ویب سیریز میں انفرادیت کے رنگ بھر دیے ہیں۔برطانوی اداکار کوسمو جارویس اور جاپانی اداکارہ اننا ساوائی کو اس کہانی کا ہیرو ہیروئن مان لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان دونوں کی وجہ سے کہانی میں ناظرین کی دل چسپی برقرار رہتی ہے جب کہ ہیروکی سنادا اور تادانوبو نے بھی ناظرین کو اپنی شان دار اداکاری کی بدولت جکڑے رکھا۔ دو مزید جاپانی اداکاراؤں موئیکا ہوشی اور یوکاکووری نے بھی متاثر کن اداکاری کی ہے۔ ان کو داد نہ دینا بڑی ناانصافی کی بات ہو گی۔ مجموعی طور پر اس ویب سیریز میں سیکڑوں فن کاروں نے حصہ لیا، جن میں اکثریت جاپانی اداکاروں کی ہے۔ سب نے بلاشبہ اپنے کرداروں سے انصاف کیا، یہی وجہ ہے کہ ویب سیریز نے ناظرین کے دل میں گھر کر لیا۔

    حرف آخر

    قارئین، اگر آپ عالمی سینما اور خاص طور پر کلاسیکی سینما کے پسند کرنے والے ہیں اور اس پر مستزاد آپ کو جاپان کی کلاسیکی ثقافت میں بھی دل چسپی ہے تو پھر یہ ویب سیریز آپ کے لیے ہی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے آپ جاپان کی قدیم معاشرت، سیاست، ثقافت اور تہذیب کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھ سکیں گے۔ خوبصورت جاپان کے ساتھ اس ویب سیریز میں آپ جاپانی عورتوں کا حسن و جمال اور خوب صورتی بھی دیکھیں گے۔ ویب سیریز کے اس تعارف اور تفصیلی تبصرے کو میری طرف سے اس عید پر ایک تحفہ سمجھیے۔ اسے ضرور دیکھیے، آپ کی عید کی چھٹیوں کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔