Tag: فلم ساز

  • حقوقِ نسواں اور کلپنا لاجمی کی فلمیں

    حقوقِ نسواں اور کلپنا لاجمی کی فلمیں

    کینسر کے مرض میں‌ مبتلا معروف فلم ساز کلپنا لاجمی 2018ء میں چل بسی تھیں۔ وہ بھارت میں حقوقِ نسواں کی حامی فلم ساز کے طور پر مشہور تھیں‌ اور ان کی فکر اور رجحانات کا گہرا اثر ان کی ذاتی زندگی پر بھی نظر آتا ہے۔

    کم بجٹ میں حقیقی موضوعات پر ان کی فلموں‌ میں مظلوم عورتوں کو پیش کیا گیا جو ان کے بامقصد رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں ہم صفی سرحدی کے مضمون سے اقبتاسات پیش کررہے ہیں جو پاکستان میں فلم اور شوبز کی دنیا کے رسالے مہورت میں شایع ہوا تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    کلپنا لاجمی کا جنم 31 مئی 1954 کو ممبئی میں ہوا۔ اُن کے والد گوپی لاجمی، نیوی میں کیپٹن تھے، جب کہ ماں للیتا لاجمی مشہور مصورہ، اور ایک اسکول میں بطور آرٹ ٹیچر پڑھایا کرتی تھیں۔ للیتا لاجمی، اداکار گرو دت کی بہن تھیں، اس ناتے سے کلپنا لاجمی گرو دت کی بھانجی ہوئیں۔ جب کلپنا لاجمی پیدا ہوئیں، تو اُن کے والد کی مے نوشی کی لت کی وجہ سے، اُن گھر کے مالی حالات دگرگوں تھے، اس لیے کلپنا لاجمی کا بچپن خاصا اذیت ناک گزرا۔

    ان کے ماموں گرو دت کو اُن سے بہت محبت تھی اور وہ انھیں پیار سے”کپوا“ کہتے تھے۔ کلپنا لاجمی جب نو برس کی تھیں، تو گرو دت نے خود کشی کر لی۔ کلپنا لاجمی اپنی دادی وجنتی کے بھی بہت قریب تھیں۔ اُن سے وہ مہا بھارت اور رامائن کے قصے سنتی رہتی تھیں۔

    وہ جب کچھ بڑی ہوئیں، تو”ملز اینڈ بون“ جیسے رومانی ناول پڑھنے لگیں۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ”کنوینٹ آف جیسز اینڈ میری“ اسکول سے حاصل کی۔ وہاں وہ اسکول کے ڈراموں میں حصہ لینے لگیں، لیکن جب سینٹ زیویئرز کالج پہنچیں، تو سائیکالوجی پڑھنے لگیں، وہیں تھیٹر میں بھی دل چسپی لی۔ اس کالج میں اُن کے کلاس فیلوز اداکار انیل کپور، اداکارہ سمیتا پاٹیل اور گلوکارہ کویتا کرشنا مورتی، اور ان سے سینئرز میں شبانہ اعظمی اور فاروق شیخ شامل تھے۔ اِن سینئرز نے انھیں کالج تھیٹر کرنے میں خاصی معاونت کی، بعد میں یہ دونوں کلپنا لاجمی کی پہلی فلم ایک پل میں بھی نظر آئے۔

    1974 میں دیو آنند نے کلپنا لاجمی کو اپنی فلم”ہیرا پنا“ میں کام کرنے کی آفر کی، لیکن کلپنا نے یہ کہہ کر انکار کر دیا، کہ میں خاصی وزنی اور موٹی ہوں، جس کی وجہ سے میں خود کو ادکاری کے لیے موزوں نہیں سمجھتی۔ اُن کے انکار کے بعد، یہ کردار زینت امان نے ادا کیا۔ کلپنا لاجمی نے اپنے کیریئر کا باقاعدہ آغاز 1977 میں معروف فلم ساز شیام بینیگل کی فلم”بھومیکا“ سے بطور اسسٹنٹ کاسٹیوم ڈیزائنر کے طور پر کیا۔

    1983 میں شیام بینگل نے انھیں اپنی فلم”منڈی“ کے لیے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر لیا۔ یہ فلم غلام عباس کی کہانی”آنندی“ پر بنائی گئی ہے، اس میں نصیرالدین شاہ، سمیتا پاٹیل اور شبانہ اعظمی نے کام کیا۔ بالی ووڈ میں بطور ہدایت کار ان کی پہلی فلم ”ایک پل“ 1986 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں شبانہ اعظمی اور نصیرالدین شاہ اور فاروق شیخ مرکزی کرداروں میں نظر آئے۔ کلپنا لاجمی نے اس فلم کا اسکرین پلے گلزار کے ساتھ مل کر لکھا تھا، اور اس فلم کو پروڈیوس بھی خود کیا تھا۔

    فیمینسٹ ہونے کے با وصف، کلپنا لاجمی نے اپنی کم بجٹ کی فلموں میں مظلوم عورتوں کے کرداروں کو لے کر حقیقی موضوعات پر فلمیں بنائیں، جس کے ذریعے وہ سماج میں عورتوں کو مردوں کے ہر طرح کے ظلم کے خلاف بولنے کی ہمت دلاتی رہیں۔ ”رُدالی“ نے انھیں بین الاقوامی پہچان دلائی۔

    کلپنا لاجمی کے اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا، وہ کشمیری پنڈت برہمن تھے، جو کشمیر سے بنگلور اور پھر بنگلور سے بمبئی (ممبئی) آ کر آباد ہو گئے تھے۔

    کلپنا لاجمی کی نجی زندگی کی طرف دیکھا جائے، تو وہ آسام سے تعلق رکھنے والے بھپن ہزاریکا کی چالیس سال تک پارٹنر اور منیجر رہیں۔ کلپنا لاجمی جب بھپن ہزاریکا سے پہلی بار ملیں، تو ان کی عمر 17 سال تھی، اور بھپن کی عمر 45 سال۔ ہزاریکا شادی شدہ تھے، ان کا بیٹا تیج ہزاریکا بھی کلپنا لاجمی سے دو سال بڑا تھا۔ اس کے باوجود کلپنا لاجمی کو ان سے محبت ہو گئی۔ کلپنا لاجمی نے اپنی پسند کا ذکر جب گھر میں کیا، تو ان کے ماں باپ عمروں کے فرق کو لے کر پریشان ہوئے، لیکن کلپنا لاجمی نے صاف کہہ دیا، کہ میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا چاہتی ہوں، تو والدین خاموش ہو گئے۔

    بھپن ہزاریکا نہ صرف ایک بہترین موسیقار تھے، بلکہ وہ ایک گلوکار نغمہ نگار ادیب اور ہدایت کار بھی تھے۔ انھوں نے ہندی اور آسامی زبان کے علاوہ بنگلہ فلموں کے لیے گانے گائے۔ کلپنا لاجمی کو خود مختار بنانے والے بھی بھپن ہزاریکا تھے، جنھوں نے انھیں حوصلہ دیا۔ 1978 میں ان ہی کے کہنے پر کلپنا لاجمی نے اپنا پروڈکشن ہاوس بنایا، اور ڈاکیو منٹری فلمیں بنانے لگیں۔

  • دہلی کے سنگم تھیٹر سے متصل اردو منزل والے بھیا احسان الحق

    دہلی کے سنگم تھیٹر سے متصل اردو منزل والے بھیا احسان الحق

    بھیا احسان الحق سے، جن کے ہاں میں بستی نظام الدین (دہلی) میں مقیم تھا، میرے بزرگوں کے پرانے مراسم تھے۔ ان کا لقب فقیر عشقی نظامی تھا اور عرف عام میں انھیں‌ بھیا جی کہتے تھے۔

    ایک زمانے میں شعر بھی کہتے تھے اور فلسفی تخلص کرتے تھے۔ وہ میرٹھ کے مشہور بھیا خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے تمول اور امارت کا بہت شہرہ تھا۔ اپنے والد کی زندگی میں بھیا احسان الحق میرٹھ میں رہتے تھے، مگر 1918ءمیں ان کے انتقال کے بعد جائیداد اور بعض دوسرے امور کی دیکھ بھال کے سلسلے میں انھیں دہلی میں مستقل سکونت اختیار کرنا پڑی۔

    میرٹھ سے دہلی آکر وہ اس مکان میں قیام پذیر ہوئے جو جامع مسجد کے سامنے اردو بازار میں سنگم تھیٹر سے متصل تھا اور انھیں اپنے والد کے ترکے میں ملا تھا۔ اس مکان کو بھیا احسان الحق نے ”اردو منزل “ کا نام دیا اور اس کا ایک حصہ دس پندرہ سال تک خواجہ حسن نظامی کے لیے وقف رہا۔

    خواجہ صاحب بستی نظام الدین میں اپنے گھر سے روزانہ صبح یہاں آجاتے، دن بھر اپنا دفتر جماتے اور کام کرتے اور رات کو اپنے گھر واپس جاتے۔ ان سے ملنے جلنے والے بھی یہیں آتے۔ اردو منزل میں اکثر و بیش تر علمی و ادبی صحبتیں جمتیں اور نشستیں برپا ہوتیں جن کے باعث اسے دہلی کے ایک اہم ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔

    سردار دیوان سنگھ مفتون نے 1960 میں بھیا احسان الحق کی وفات کے بعد اپنے تعزیتی مضمون میں اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دوپہر کے کھانے، شام کی چائے اور رات کے کھانے پر دس پندرہ افراد کا ہونا روز کا معمول تھا اور سارے اخراجات بھیا احسان الحق اٹھاتے تھے۔

    خواجہ حسن نظامی سے بھیا احسان الحق کی پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی تھی جب وہ کالج کے طالب علم تھے۔ یہ ملاقات تاحیات رفاقت کی بنیاد بن گئی اور بہت جلد خواجہ صاحب کے مقربین خاص میں ملا واحدی کے ساتھ بھیا احسان الحق سرفہرست ہوگئے۔

    بھیا احسان الحق کو شروع ہی سے تصوف، ادب اور صحافت سے بہت دل چسپی تھی۔ وہ وحدتُ الوجود کے قائل اور قول و فعل میں صوفیائے کرام کی انسان دوست تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔ شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور صحافت کے ذریعے قوم کے سماجی شعور کو نکھارنے اور سنوارنے کے خواہش مند تھے۔

    خواجہ حسن نظامی کی شخصیت سے متاثر تھے اور ان کے طرزِ تحریر کو پسند کرتے تھے۔ چنانچہ 1913میں انھوں نے خواجہ غلام الثقلین کی معیت میں ہفت روزہ ”توحید“ نکالا تو اس کی ادارت کے لیے خواجہ حسن نظامی کو میرٹھ بلایا۔ مسجد مچھلی بازار کانپور کی تحریک کے سلسلے میں جو اثر انگیز مضامین اس پرچے میں شائع ہوئے ان کی بنا پر حکومت نے اسے بند کردیا جب تک یہ پرچہ نکلتا رہا، خواجہ حسن نظامی میرٹھ میں بھیا احسان الحق کے مہمان رہے۔


    (معروف افسانہ نگار، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے، یہ سطور ان کے دہلی میں قیام کے دوران اہلِ علم اور صاحبانِ کمال سے ملاقاتوں کے ایک تذکرے سے لی گئی ہیں)

  • فلم ساز سید نور کی آئندہ آنے والی فلم کی شوٹنگ کراچی میں ہوگی

    فلم ساز سید نور کی آئندہ آنے والی فلم کی شوٹنگ کراچی میں ہوگی

    کراچی : نامور پاکستانی فلم ساز سیدنور اپنی آئندہ آنے والی فلم کی شوٹنگ کراچی میں کریں گے.

    تفصیلات کےمطابق معروف پاکستانی فلم ساز سید نور نے کراچی پریس کلب پر کانفرنس کی، میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ30 فیصد فلم کی شوٹنگ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ہوگی ، فلم کی کہانی پانچ بھائیوں پر مبنی ہوگی.

    میڈیا سے بات کرتے ہوئے سید نور کا کہنا تھا کہ پاکستانی سنیما بحالی کی طرف جارہا ہے اور ملک میں فلمیں بنائی جارہی ہیں اور اداکار ان فلموں میں کام کررہے ہیں.

    انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، آپ کو ہر جگہ وحید مراد اور محمد علی لہڑی نہیں ملیں گے، سیدنور کا کنہا تھا جب یہ دونوں اداکار آئے وہ اتنے مشہور نہیں تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا.

    فلم ساز سید نور کا کہنا تھا کہ کراچی فلمی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور ملک میں فلمیں بنائی جارہی ہیں، جس سے سنیماگھروں کی بحالی میں مددمل رہی ہے.

    انہوں نے کہا کہ وہ صرف فلمیں بنانے کےلئے صرف کراچی تک محدود نہیں رہیں گے، اس سلسے میں وہ لاہور اور سوات بھی جائیں گے تاکہ شائقین کو اچھی فلمیں دیکھنے کا موقع ملے.