Tag: فلم ڈائریکٹر

  • جان ہسٹن کا تذکرہ جن کی فلمیں‌ شاہ کار کا درجہ رکھتی ہیں

    جان ہسٹن کا تذکرہ جن کی فلمیں‌ شاہ کار کا درجہ رکھتی ہیں

    جان ہسٹن کو فلمی دنیا میں بحیثیت ڈائریکٹر جو امتیاز اور بے مثال شہرت ملی، وہ بہت کم لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔ وہ غیرمعمولی شخصیت کے مالک تھے جن کی بطور امریکی فلم ڈائریکٹر متعدد فلمیں شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔ جان ہسٹن نے اسکرین رائٹر کے طور پر بھی شان دار کام یابیاں سمیٹیں اور اداکاری بھی کی۔

    جان ہسٹن نے ایک ہنگامہ خیز زندگی بسر کی۔ وہ بگڑے ہوئے نوجوان کی طرح مئے نوشی، رقص و سرود کی محفلوں کے عادی اور جوئے کا شوق پورا کرتے تھے۔ مگر یہ ان کی زندگی کا ایک رخ ہے۔ ہسٹن اپنے کام سے بہت مخلص رہے جب کہ ان کا حال یہ تھا کہ نشے کے عالم میں ان کی اکثر شامیں شور شرابا اور ہلڑ بازی کرتے گزر جاتیں۔ وہ نصف شب کو اپنے آوارہ دوستوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے گھر کی راہ لیتے اور اگلے روز دن ڈھلنے تک سوتے رہتے۔ ظاہر ہے ایسے نوجوان سے کیا توقع کی جاسکتی تھی۔ مگر حیرت انگیز طور پر یہی جان ہسٹن گُھڑ سواری کے ماہر، باکسنگ کے کھلاڑی اور فائن آرٹ کے شوقین بھی تھے۔ فنون لطیفہ میں دل چسپی رکھنے والے جان ہسٹن انگریزی اور فرانسیسی ادب کا مطالعہ بھی کرتے تھے جس نے ان کی فکر کو پختگی اور خیال کو وسعت دی اور تب جان ہسٹن لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ فیچر رائٹنگ اور کہانیوں سے قلمی سفر کا آغاز کیا اور بعد کے برسوں میں ایک باکمال فلم ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر مشہور ہوئے۔

    جان ہسٹن نے فلمی دنیا میں 46 برس کے دوران متعدد بڑے اور نہایت معتبر اعزازات اپنے نام کیے، اور آج اس شعبہ میں آنے والوں کو ان کے نام اور کام کی مثال دی جاتی ہے۔ جان ہسٹن 28 اگست 1987 کو چل بسے تھے۔

    فلم ڈائریکٹر جان ہسٹن کا بچپن اور نوعمری کا دور تنہائی اور کرب کے عالم میں‌ گزرا۔ ان کے والدین میں علیحدگی ہوگئی تھی۔ انھیں بورڈنگ ہاؤس میں رہنا پڑا۔ انہی دنوں دل اور گردے کی مختلف پیچیدگیوں اور امراض نے جان ہسٹن کو گھیر لیا اور بغرضِ علاج انھیں مختلف شہروں میں قیام کرنا پڑا۔ اس دوران انھیں زندگی کے مختلف روپ دیکھنے اور سمجھنے کا موقع بھی ملا اور یہی سب فلمی دنیا میں ان کے بہت کام آیا۔

    وہ امریکا میں 5 اگست 1906 کو پیدا ہوئے تھے۔ نوعمری ہی میں انھیں باکسنگ کا شوق پیدا ہوگیا اور وہ باقاعدہ رِنگ میں اترے اور متعدد مقابلوں میں فاتح بھی رہے۔ البتہ ایک مقابلے میں اپنے حریف کے ہاتھوں ناک تڑوانے کے بعد انھوں نے میدان چھوڑ دیا۔ فائن آرٹ میں دل چسپی اتنی بڑھی کہ باقاعدہ مصوری کرنے لگے۔ پیرس میں کچھ عرصہ قیام کے دوران ہسٹن نے وہاں بطور پورٹریٹ آرٹسٹ بھی کام کیا۔ جان ہسٹن کی مہارت کا شعبہ فلم ڈائریکشن ہے۔ ان کو دو مرتبہ آسکر دیا گیا اور پندرہ مرتبہ اس ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے۔ ہالی وڈ کی فلموں میں ہسٹن نے بطور اداکار بھی کام کیا۔

    ہالی وڈ میں جان ہسٹن کی آمد اسکرپٹ رائٹر کے طور پر ہوئی تھی۔ بعد میں ”وارنرز” کے بینر تلے فلم ڈائریکشن شروع کی۔ جان ہسٹن نے Frankie and Johnny کے عنوان سے اسٹیج پلے لکھا تو اس کا معقول معاوضہ ملا۔ تب اسی کام کو ذریعۂ معاش بنانے کا سوچا۔ اور مزید دو شارٹ اسٹوریز Fool اور Figures of Fighting Men کے نام سے لکھیں جو ایک امریکی میگزین کی زینت بنیں۔ یہ 1929 کی بات ہے۔ اس کے بعد جان ہسٹن فیچر رائٹر کے طور پر دی نیویارک ٹائمز کے صفحات پر جگہ پانے لگے۔

    جان ہسٹن کو مہم جوئی، جنگ و جدل، اجنبی راستوں اور نئی منزلوں کا سفر ہمیشہ متوجہ کرتا رہا اور انہی واقعات کی عکاسی انھوں نے فلموں میں کی۔ ان کی زیادہ تر فلمیں مشہور ناولوں سے ماخوذ ہیں۔ ان کی شان دار فلموں میں The Maltese Falcon، Wise Blood ، The Misfits، The African Queen شامل ہیں۔

    ہسٹن کی ان کام یابیوں کے دوران ایک تکلیف دہ واقعہ یہ پیش آیا کہ ان کی کار سے ٹکرا کر ایک راہ گیر عورت ہلاک ہوگئی۔ مقدمہ چلا تو جان ہسٹن بے قصور قرار پائے، مگر ذہن اور دل پر ایسا بوجھ تھا جس نے برسوں ان کی جان نہ چھوڑی۔ وہ ہمیشہ اس کے لیے ملول رہے۔

  • مسعود پرویز:‌ لالی وڈ کو متعدد یادگار اور معیاری فلمیں دینے والا ہدایت کار

    مسعود پرویز:‌ لالی وڈ کو متعدد یادگار اور معیاری فلمیں دینے والا ہدایت کار

    مسعود پرویز نے بطور ہدایت کار پاکستانی سنیما کو متعدد یادگار فلمیں دیں اور وہ ان ہدایت کاروں میں سے تھے جنھوں نے اپنی فنی صلاحیتوں کو منواتے ہوئے فلم بینوں کو معیاری تفریح فراہم کی۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ ہدایت کار مسعود پرویز 2001ء میں ‌آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ وہ ایک علمی و ادبی گھرانے کے فرد تھے۔ اردو کے معروف افسانہ نگار اور فلم نویس سعادت حسن منٹو کا شمار بھی مسعود پرویز کے قریبی عزیزوں میں ہوتا تھا۔ ہدایت کار مسعود پرویز بھی امرتسر کے باسی تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور بطور ہدایت کار فلمی صنعت سے وابستہ ہوئے۔ 1918ء میں پیدا ہونے والے مسعود پرویز نے قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی فلم منگنی میں بطور ہیرو بھی کام کیا تھا۔ پاکستانی فلمی صنعت میں مسعود پرویز نے کئی برس کے سفر میں اپنی فنی مہارت اور تجربے سے بیلی، انتظار، زہرِ عشق، کوئل، مرزا جٹ، ہیر رانجھا، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون جیسی فلموں کو یادگار بنا دیا۔ انھوں نے اردو زبان میں 13 اور پنجابی میں اٹھ فلمیں بنائیں۔ مسعود پرویز کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ نیف ڈیک نے ان کے فن و تجربہ سے استفادہ کیا۔ یہ وہ ادارہ تھا جس کے تحت قوم میں جذبۂ حب الوطنی ابھارنے اور جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے فلمیں‌ بنائی گئیں۔ اس ادارے کے تحت تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کی کہانی سے ماخوذ فلم 1979 میں‌ خاک و خون کے نام سے بنائی گئی تھی۔

    1957ء میں مسعود پرویز کو بطور ہدایت کار فلم انتظار کے لیے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مجموعی طور پر اس فلم کو 6 صدارتی ایوارڈ دیے گئے تھے جن میں سے ایک مسعود پرویز کے نام ہوا۔

    مسعود پرویز نے فلم ہیر رانجھا اور خاک و خون پر فلم انڈسٹری کا سب سے متعبر نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا جب کہ ان کی ڈائریکش میں دوسری فلمیں بھی نگار ایوارڈ لینے میں کام یاب رہیں۔

    فلم ڈائریکٹر مسعود پرویز نے لاہور میں وفات پائی اور ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • تخلیقی اور جمالیاتی نقطۂ نظر کے حامل چند مشہور فلم ڈائریکٹرز

    تخلیقی اور جمالیاتی نقطۂ نظر کے حامل چند مشہور فلم ڈائریکٹرز

    ہالی وڈ سمیت دنیا بھر کی فلموں کے کئی ہدایت کار اپنے شان دار کام اور بلاشبہ تخلیقی ذہانت کا شاہ کار کہی جانے والی فلموں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان میں کئی نام ایسے ہیں جو کئی برس پہلے ہم سے جدا ہو چکے ہیں، لیکن ان کی لازوال فلموں کے ساتھ ان کا نام بھی ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ ان کی ہدایت کاری کا کمال ان کا تخلیقی نقطہ نظر اور فلم بندی میں جمالیاتی اظہار کی انفرادیت کے ساتھ کچھ تجربات رہے ہیں جو نئے ہدایت کاروں کے لیے مثال ہیں۔

    دنیا کا ہر عظیم ہدایت کار پردے کے پیچھے اپنی زندگی گزار دیتا ہے۔ وہ عام سنیما بینوں‌ کے لیے بس ایک نام ہوسکتا ہے اور فلم ڈائریکٹر کو جانے اور سراہے بغیر یہ عام سنیما بین ان کی فلمیں‌ ایک سے زائد مرتبہ دیکھتے اور ہر بار پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک بہترین ہدایت کار آرٹ کی شکل میں جدت لاتا ہے اور تجربات کو اہمیت دیتا ہے۔ وہ نئی تکنیکوں کے ساتھ رسک لینا جانتا ہے اور پھر اس کی سوچ بچار اور اداکاروں سے لے کر لوکیشنز تک اس کا انتخاب ایک شاہ کار کو جنم دیتا ہے۔ یہاں ہم چند بہترین فلمی ہدایت کاروں کا تذکرہ کررہے ہیں جنھوں نے خاموش اور ناطق فلموں کے ساتھ کامیڈی، ڈرامہ، ویسٹرن، میوزیکل فلمیں بنائیں اور خود کو باکمال ثابت کیا۔

    اکیرا کوروساوا
    اکیرا کروساوا نے 1936 میں فوٹو کیمیکل لیبارٹریز کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا۔ٹوکیو کے اس فلمی ہدایت کار کی اس وقت عمر 25 سال تھی۔ انھوں نے 1943 میں اپنی پہلی فیچر فلم Sanshiro Sugata بطور ہدایت کار سنیما کے لیے تخلیق کی۔ بعد کے برسوں میں ڈرنکن اینجل (1948)، راشو مون (1950)، سیون سامورائی (1954)، ہائی اینڈ لو (1963) اور آخری فلم 1993 میں ریلیز ہوئی تھی۔

    کروساوا ایک ماہر اسکرین رائٹر تھے جن کا کیریئر تقریباً 60 سال پر محیط رہا اور اس میں انھوں نے ٹی وی اور تھیٹر کے لیے بھی کام کیا۔ اکیرا کروساوا نے مغرب میں جاپانی فلموں کو مقبول بنانے میں کردار ادا کیا۔ ان کے کام کو انگمار برگ مین اور کئی بڑے فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے سراہا۔

    بلی وائلڈر
    آسٹریا کے ہدایت کار بلی وائلڈر نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز جرمنی میں بطور اسکرپٹ رائٹر کیا۔ بدقسمتی سے جرمنی میں نازیوں کے ظلم و ستم اور اپنے خاندان کے کئی لوگوں کی ہلاکت کے بعد وائلڈر 1930 کی دہائی میں جرمنی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ وہ اگلے دس برس بعد یعنی 1940 کی دہائی تک ہالی وڈ کے عظیم ہدایت کاروں میں سے ایک مشہور ہوئے۔ وائلڈر نے ڈبل انڈیمنٹی (1944)، سن سیٹ بلیوارڈ (1950)، سبرینا (1954)، وٹنس فار دی پراسیکیوشن (1957)، سم لائک اٹ ہاٹ (1959) جیسی کلاسک کے ساتھ کامیڈی سے لے کر مختلف موضوعات پر فلموں کو مقبول بنایا۔

    انھوں نے 1981 میں اپنی آخری فلم بطور ہدایت کار کی تھی۔ وائلڈر کو 21 آسکرز کے لیے نام زد کیا گیا تھا، جس میں سے چھے آسکرز وہ جیتنے میں کام یاب ہوئے اور دو ایوارڈز بہترین ہدایت کاری کے لیے حاصل کیے۔

    فرینک کیپرا
    کیپرا کی فلمیں اس آئیڈیلزم کو اپنی گرفت میں لاتی ہیں کہ امریکہ کیا ہو سکتا ہے۔ یہ فلمیں اٹ ہیپنڈ ون نائٹ (1934)، مسٹر ڈیڈز گوز ٹو ٹاؤن (1936)، یو کانٹ ٹیک اٹ ود یو (1938)، اٹز اے ونڈر فل لائف (1946) ہیں۔ فرینک کیپرا اس انفرادیت کے ساتھ بطور ڈائریکٹر کیمرے کے پیچھے محنت اور لگن کے ساتھ کام کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ وہ 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اپنے کام کی وجہ سے خوب پہچانے گئے۔ کیپیرا نے پانچ آسکر جیتے اور امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ اور ڈائریکٹرز گلڈ آف امریکہ سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز حاصل کیے۔ ان کی آخری تھیٹر فلم 1961 کی پاکٹ فل آف میرکلز تھی۔

    ژاں لوک گوڈارڈ
    فرانس میں فلمی صنعت میں نئی لہر کے ایک ستون کے طور پر ژاں لوک گوڈارڈ کو سب سے زیادہ بااثر ہدایت کار کہا جاتا ہے۔ وہ سوئس باشندےے تھے، لیکن فرانس میں ان کا وقت فلمی دنیا میں کام کرتے اور نام بناتے ہوئے گزرا۔ گوڈارڈ کی خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے دوسرے ڈائریکٹروں کے مقابلے میں بیانیہ، تسلسل، آواز اور کیمرہ ورک کو بہت اہمیت دی اور اپنی فلموں کو انفرادیت بخشی۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اداکاروں کو موقع دیتے تھے کہ وہ اپنی پرفارمنس کو دریافت کرسکیں۔ وہ جان سکیں کہ کس کردار کے لیے وہ زیادہ موزوں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اکثر نامکمل اسکرپٹ کے ساتھ فلم بندی کرنے والے ہدایت کار بھی مشہور تھے۔ بریتھ لیس (1960)، اور ویک اینڈ (1967) کے علاوہ کئی فلمیں گوڈارڈ کے فن کا کمال ہیں۔ انھیں بڑے فلم سازوں نے بھی سراہا اور ان کے کام کو مثالی قرار دیا ہے۔

    الفریڈ ہچکاک
    الفریڈ ہچکاک نے اپنے کیریئر میں 50 سے زیادہ فلموں کی ہدایت کاری کی۔ انھوں نے سنسنی خیز، سسپنس اور ڈراؤنی کہانیوں کو سنیما بینوں میں مقبول بنایا۔ ہچکاک نے برطانیہ میں اپنے کیرئیر کا آغاز خاموش فلم سے کیا تھا اور ان کی 1929 کی فلم بلیک میل پہلی برطانوی "ٹاکی” تھی۔ 1930 کی دہائی کے آخر میں ہالی ووڈ میں منتقل ہونے کے بعد، ہچکاک نے ریبیکا (1940) بنائی، جس نے انھیں بہترین ہدایت کار کے لیے پانچ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کروایا۔ ہچکاک نے کلاسیکی فلمیں بنائیں جن میں ڈائل ایم فار مرڈر (1954)، ریئر ونڈو (1954)، ٹو کیچ اے تھیف (1955)، ورٹیگو (1958)، سائیکو (1960) شامل ہیں۔

    اسٹینلے کبرک
    کہا جاتا ہے کہ اسٹینلے کبرک کے ساتھ بطور ڈائریکٹر کام کرنا مشکل تھا۔ ڈاکٹر اسٹرینج لو (1964)، اے کلاک ورک اورنج (1971)، فل میٹل جیکٹ (1987) جیسی فلموں کے ساتھ، کبرک نے 13 تھیٹر فلموں کی ہدایت کاری کی اور یہ سب ایک شاہ کار ہیں۔ کبرک کو ان کے کیرئیر میں 13 اکیڈمی ایوارڈز کے لیے نام زد کیا گیا تھا لیکن اپنی ہدایت کاری کے لیے انھوں نے بہت کم ایوارڈ جیتے۔ تاہم ان کی ہدایت کاری کا انداز بہت منفرد رہا، خاص طور پر کیمرہ ورک اور فریمنگ نے بہت سے دوسرے ہدایت کاروں کو متاثر کیا۔ کبرک کی کئی فلموں کو بیسویں صدی میں اہم قرار دیا گیا۔

  • ہدایت کاروں اور فلمی ہیروئنوں کے معاشقے اور شادیاں

    ہدایت کاروں اور فلمی ہیروئنوں کے معاشقے اور شادیاں

    فلم اور شوبز کی دنیا میں محبّت کی شادیاں اور اسکینڈلز ایک عام بات ہے۔ کئی مقبول فلمی جوڑے ایسے ہیں جنھوں نے حقیقی زندگی میں بھی ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما اور شادی کی، لیکن یہ شادیاں‌ ناکام بھی ثابت ہوئیں۔ اپنے وقت کے کام یاب ہیرو اور ہیروئن کے علاوہ فلمی ہدایت کار بھی عشق لڑانے کے معاملے میں پیچھے نہیں رہے۔

    متحدہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری اور پاکستانی فلمی صنعت کی بات کریں تو کئی اداکاراؤں نے ہدایت کاروں سے شادی کی۔ اپنے وقت کے بہت سے نام ور ہدایت کار کیمرے کے پیچھے رہتے ہوئے فلم کی ہیروئن یا کسی ساتھی اداکارہ کی زلفوں کے اسیر ہوئے اور شادی بھی کی۔ لیکن ازدواجی زندگی کا سفر خوش گوار نہ رہا اور بات طلاق پر ختم ہوئی۔

    پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام فلم ساز و ہدایت کار نذیر کا ہے۔ تقسیم ہند سے قبل اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے نذیر کا اپنے دور کی معروف اداکارہ سورن لتا سے عشق اور شادی کا بہت چرچا ہوا تھا۔ اداکارہ نے شادی کے بعد اور پاکستان آکر فلم میں کام جاری رکھا۔ انھوں نے ہیروئن کے طور پر فلم پھیرے، سچائی، انوکھی داستان، ہیر، شہری بابو اور نوکر جیسی سپرہٹ فلمیں کیں۔

    فلم ساز و ہدایت کار انور کمال پاشا نے فلم ’’دو آنسو‘‘ کے لیے بہ طور شریک ہدایت کار کام کیا تھا۔ فلم کی ہیروئن شمیم تھیں جو بھارت میں بہت مقبول تھیں اور انور کمال پاشا سے شادی کے بعد پاکستان آگئی تھیں۔ ہدایت کار انور کمال پاشا اور شمیم کی شادی بڑی کام یاب رہی اور شمیم نے باقی ماندہ زندگی خاتونِ خانہ کے طور پر بسر کی۔

    شاہ نور اسٹوڈیو کے روح رواں شوکت حسین رضوی تھے جو ملکۂ ترنم نور جہاں کی زلفوں کے اسیر ہوئے اور شادی کرلی۔ ہدایت کار شوکت حسین رضوی اور ان کی اداکارہ اور گلوکارہ بیوی پاکستان بننے کے بعد یہاں آگئے اور ان کا فلمی کیریئر خوب چمکا۔ شوکت رضوی نے کام یاب ہدایت کار کے طور پر اور نور جہاں نے گلوکاری کے میدان میں بڑی شہرت اور مقبولیت پائی۔ لیکن یہ تعلق طلاق کی صورت میں ختم ہو گیا۔ اس کے بعد شوکت حسین رضوی نے ایک اور اداکارہ یاسمین سے شادی کرلی۔ شوکت حسین رضوی سے قبل اداکارہ یاسمین ایک اور ہدایت کار جعفر شاہ بخاری کی زوجیت میں رہ چکی تھیں۔

    فلم ساز و ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد نے تقسیم ہند سے قبل اور بعد میں بہت خوب صورت فلمیں‌ انڈسٹری کو دیں۔ اپنے دور کی خوب صورت اداکارہ نینا جو پراسرار نینا کے نام سے مشہور تھی وہ ان کی شریک حیات بنیں۔

    معروف ہدایت کار حسن طارق نے فلم ’’نیند‘‘ سے بہ طور ہدایت کار اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم میں اداکارہ نگہت سلطانہ نے اہم کردار ادا کیا اور انہی سے حسن طارق نے محبت کی شادی کی۔ اداکارہ نے حسن طارق سے شادی کے بعد فلمی زندگی چھوڑ دی، لیکن حسن طارق ایک فلمی رقاصہ ایمی سنوالا کی محبت میں گرفتار ہوئے اور ان سے دوسری شادی کی۔ نگہت سلطانہ کو طلاق دے دی۔ پھر ان کو اداکارہ رانی سے عشق ہوگیا اور ان سے شادی کی۔ ایمی سے ان کا تعلق برقرار رہا جب کہ اداکارہ رانی اور ہدایت کار حسن طارق میں طلاق ہوگئی تھی۔

    اداکار سدھیر کو جنگجو ہیرو کے طور پر آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے بہ طور ہدایت کار فلم ساحل بنائی تھی جس کی خوب صورت ہیروئن شمی سے عشق اور شادی بھی کی۔ ان کے بعد سدھیر نے اپنے وقت کی مقبول ہیروئن زیبا سے شادی کی، جو زیادہ عرصے قائم نہ رہ سکی اور طلاق کے بعد زیبا نے اداکار محمد علی سے شادی کی تھی جو بے حد کام یاب رہی۔

    بھارت میں مسلم سوشل فلموں کے لیے مشہور ہدایت کار ایس ایم یوسف نے بھارتی اداکارہ نگار سلطانہ سے شادی کی تھی۔ لیکن یہ شادی نہ چل سکی۔ ایس ایم یوسف، طلاق کے بعد پاکستان آ گئے۔ یہاں انھوں نے فلم سہیلی بنائی۔

    انہی ایس ایم یوسف کے بیٹے ایک بیٹے نے بھی ہدایت کاری کے میدان میں شہرت پائی۔ ان کا نام اقبال یوسف ہے جو رات کے راہی، دال میں کالا، زمانہ کیا کہے گا، جوش، ان داتا، خدا اور محبت جیسی یادگار اور کام یاب فلموں کے ہدایت کار تھے۔ فلم دال میں کالا کی ہیروئن بہار سے عشق کا نتیجہ شادی کی صورت میں نکلا لیکن اقبال یوسف نے بعد میں‌ اداکارہ مہ پارہ سے دل لگا لیا۔ وہ سندھی فلموں کی مقبول ہیروئن رہی ہیں۔ اقبال یوسف نے بہار کو طلاق دے کر مہ پارہ سے شادی کرلی تھی۔

    پاکستانی فلموں کے انقلابی مصنف، فلم ساز اور ہدایت کار ریاض شاہد نے اپنے زمانے کی مقبول اور کام یاب ہیروئن نیلو سے شادی کی۔ یہ شادی بے حد کام یاب رہی۔

  • اینیمل کے سیکوئل سے متعلق فلم ڈائریکٹر کا بڑا اعلان

    اینیمل کے سیکوئل سے متعلق فلم ڈائریکٹر کا بڑا اعلان

    بھارتی فلم ڈائریکٹر اور اسکرین رائٹرسندیپ ریڈی وانگا کی بلاک بسٹر فلم ’اینیمل‘ کے سیکوئل سے متعلق اہم تفصیلات سامنے آگئیں۔

    سندیپ ریڈی وانگا کی ہدایتکاری میں بننے والی سُپر ہٹ فلم ‘انیمل’ باکس آفس پر کامیاب رہی، اس فلم میں بالی ووڈ رنبیر کپور، رشمیکا مندانا، ترپتی ڈمری اور بوبی دیول مرکزی کردار میں تھے جبکہ انیل کپور نے رنبیر کپور کے والد کا کردار ادا کیا تھا۔

     انیمل کی ریکارڈ توڑ کامیابی کے بعد سندیپ ریڈی وانگا نے فلم کا سیکوئل ’انیمل پارک‘ بنانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد مداح کافی پُرجوش نظر آئے لیکن اب فلمساز نے اس سے متعلق بڑا اعلان کردیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈائریکٹرسندیپ ریڈی وانگا نے ایک ایوارڈ شو میں شرکت کی جہان انہوں نے فلم اینیمل کا سیکوئل بنانے کا اعلان کردیا ہے جس کی شوٹنگ کا باقاعدہ آغاز سال 2026 میں کیا جائے گا۔

    دوران تقریب میزبان کی جانب سے اداکار رنبیر کپورکی فلم ’اینیمل‘ کے سیکوئل ’اینیمل پارک‘ کے بارے میں کچھ تفصیلات بتانے کو کہا گیا جس پر جواب دیتے ہوئے سندیپ کا کہنا تھا کہ فلم 2026 میں فلور پر جائے گی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اینیمل کا سیکویل اینیمل پارک اس سے بڑی اور  اور پرجوش ہوگی۔

  • فلم ’امر سنگھ چمکیلا‘ کے ڈائریکٹر نے راز کی بات بتادی

    فلم ’امر سنگھ چمکیلا‘ کے ڈائریکٹر نے راز کی بات بتادی

    ان دنوں بھارتی پنجابی فلموں کے اداکار اور گلوکار دلجیت سنگھ دوسانجھ کی فلم ’امر سنگھ چمکیلا‘ کی دھوم چاروں جانب مچی ہوئی ہے۔

    ایسے میں فلم کے ڈائریکٹر امتیاز علی نے میڈیا سے گفتگو میں فلم سے متعلق کچھ راز و نیاز کی باتیں شیئر کیں اور فلم کی کاسٹ اور ان کے معاوضے سے متعلق کچھ حقائق بیان کیے۔

    انہوں نے بتایا کہ میں نے فلم میں دلجیت دوسانجھ کو فلم میں اس لیے کاسٹ کیا کیونکہ میں پیسہ کی بچت کرنا چاہتا تھا اور فلم میں ہم ایک اداکار کو ایک کام کے لیے نہیں رکھ رہے تھے، اس لیے اداکار اور گلوکار دلجیت کو کاسٹ کرکے اپنے پیسے بچائے۔

    اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بت مشکل سے فلم میں دلجیت اور پرینیتی کے لیے لائیو گانا ممکن بنایا اس کام کیلئے پورا بینڈ ترتیب دیا گیا، اس لیے وہ اصل میں لائیو گا رہے تھے جسے ہم نے اسکرین پر زندہ کر دیا۔

    امتیاز علی نے بتایا کہ بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ دلجیت اور پرینیتی نے تین چار دن تک گانے گائے اور اس دوران کچھ سین بھی لائیو ریکارڈ کیے گئے۔

    یاد رہے کہ فلم ’امر سنگھ چمکیلا‘ کے مرکزی کردار بھارتی گلوکار و اداکار دلجیت دوسانجھ کو چار کروڑ روپے معاوضہ دیا گیا ہے جبکہ امر چمکیلا کی دوسری بیوی کا کردار ادا کرنے والی پرینیتی چوپڑا کو اس فلم کیلئے 2 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ 12 اپریل کو نیٹ فلیکس پر ہدایت کار امتیاز علی کی بائیوپک ’امر سنگھ چمکیلا‘ ریلیز ہوئی، امتیاز علی نے یہ فلم بھارت میں 80 کی دہائی میں مشہور ہونے والے پنجابی لوک گلوکار امر سنگھ چمکیلا کی زندگی پر بنائی ہے جنہیں ان کی اہلیہ سمیت جوانی میں ہی قتل کردیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں : دلجیت اور پرینیتی نے فلم میں کام کرنے کا کتنا معاوضہ لیا

    اس فلم کی موسیقی آسکر ایوارڈ یافتہ معروف بھارتی موسیقار اے آر رحمان نے ترتیب دی ہے، فلم میں امر سنگھ چمکیلا کے اصل گانے موہت چوہان، اریجیت سنگھ، الکا یاگنک، کیلاش کھیر اور ریچا شرما کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے ہیں اور چند نئی دھنیں بھی پیش کی گئی ہیں۔

  • ایلیا کازان: نام وَر ہدایت کار جسے آسکر ایوارڈ کی تقریب میں سبکی اٹھانا پڑی

    ایلیا کازان: نام وَر ہدایت کار جسے آسکر ایوارڈ کی تقریب میں سبکی اٹھانا پڑی

    ایلیا کازان کو دنیا ایک باکمال ہدایت کار اور بہترین فلم ساز کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہے، لیکن وہ ہالی وڈ میں ایک ایسے تنازع کا سبب بھی بنے تھے جس پر ردعمل تقریباً نصف صدی بعد سامنے آیا اور کازان کو فلمی ستاروں‌ کے جھرمٹ میں‌ خفّت کا سامنا کرنا پڑا۔

    1999ء تک ایلیا کازان کئی شان دار اور یادگار فلمیں‌ انڈسٹری کے نام کرچکے تھے، اور اس سال آسکر ایوارڈ کی جو تقریب سجائی گئی، اس میں لائف ٹائم اچیومنٹ کے لیے ایلیا کازان کا نام پکارا گیا تھا، کیمرے کی آنکھ نے حاضرین کی صفوں میں‌ کشمکش اور اضطراب دیکھا۔ کچھ فن کار جو کازان کے استقبال کے لیے تالیاں بجانے لگے تھے، سینئر فن کاروں کو خاموش اور مضطرب پاکر ان کی طرف دیکھنے لگے۔ عجیب فضا بن گئی تھی اور جلد ہی منتظمین پر تنقید شروع ہوگئی جس سے واضح ہوگیا کہ اس محفل میں ایسے فن کار موجود ہیں جو کازان کو ‘غدار’ سمجھتے ہیں اور اس ایوارڈ کا مستحق نہیں‌ گردانتے۔

    دراصل 1950ء کے عشرے میں ایلیا کازان نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو ہالی وڈ میں اپنے اُن ساتھیوں کے نام بتائے تھے جنھیں وہ کمیونسٹوں کا ہم درد اور امریکا مخالف کارروائیوں میں ملوث سمجھتے تھے۔

    کازان کا بیان ایسے فن کاروں کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کا سبب بنا تھا جس کے بعد ان کی بھرپور مخالفت کی گئی، اور انھیں ‘غدار’ کہا گیا، لیکن کازان کی خوش قسمتی تھی کہ اپنی مخالفت کے باوجود انڈسٹری میں کوئی بھی ان کی کام یابیوں کا راستہ نہیں روک سکا۔ وہ ہالی وڈ کے ایک عظیم ہدایت کار کہلائے اور منفرد فلم ساز کی حیثیت سے پہچان بنائی جو آج بھی قائم ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ اور شوبزنس کی جگمگاتی ہوئی دنیا میں وہ قابلِ تقلید ہدایت کار سمجھے گئے جن کا کام دیکھ کر نوآموز بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

    کازان ’آن دی واٹر فرنٹ‘ اور ’ایسٹ آف ایڈن‘ جیسی مشہور فلموں کے ہدایت کار تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 2003ء میں آج ہی کے دن تمام ہوا۔

    ایلیا کازان کے والدین یونان کے باشندے تھے جنھوں نے 1913ء میں امریکا ہجرت کی۔ کازان نے 9 ستمبر 1909ء کو استنبول (ترکی) میں آنکھ کھولی۔ امریکا ہجرت کے وقت کازان چار سال کے تھے۔ شوبزنس کی چکاچوند اور فلم نگری کی روشنیوں کا حصّہ بننے والے کازان لڑکپن میں تنہائی پسند، گم گو اور شرمیلے تھے۔ اس کا ذکر انھوں نے ’’امریکا، امریکا‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ اس کتاب میں کازان نے اپنا خاندانی پَس منظر، اپنے خاندان کا ذریعۂ معاش، والدین کا تعارف، امریکا ہجرت کرنے کی وجوہ اور زندگی کے مختلف حالات و واقعات رقم کیے ہیں۔

    کازان کے مطابق ان کی والدہ کا گھرانا تجارت پیشہ تھا اور ننھیالی رشتے دار مختلف شکلوں میں روئی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ امریکا پہنچ کر ان کے والد نے قالین کی خرید و فروخت شروع کی اور یہی کاروبار ان کا ذریعۂ معاش رہا۔ والدین کی خواہش تھی کہ کازان خاندانی بزنس سنبھالیں، لیکن انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔ کازان کی یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔

    امریکا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد والدین نے کازان کو نیویارک کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا جہاں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک یونیورسٹی کے شعبۂ فنون میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ڈراما اور اداکاری کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور اس کے بعد اسٹیج پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

    اس راستے میں پہلا پڑاؤ نیویارک گروپ تھیٹر تھا۔ یہ 1932ء کی بات ہے۔ وہ اسٹیج پر بحیثیت اداکار کام کرنے لگے۔ آٹھ سال تک اداکاری کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ پھر براڈ وے پر اسٹیج ڈراموں کے ہدایت کار کی حیثیت سے کام کیا اور اس میدان سے ہالی وڈ کے لیے اڑان بھری جہاں فلم ڈائریکشن کے میدان میں کازان نے اپنا کمال دکھایا اور نئی جہات متعارف کروائیں۔

    ان کا شمار نام وَر فلم سازوں میں ہونے لگا۔ وہ ایسے فلم ساز تھے جو غیرمعروف فن کاروں کی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی فلموں میں نئے چہروں کو بھی آزمایا اور انھیں آگے لائے۔ تاہم اس حوالے سے وہ بہت سوچ بچار کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے تھے۔ کازان کا خیال تھاکہ کسی بھی فلم کے کام یاب یا فلاپ ہوجانے میں نوّے فی صد عمل دخل اس کی کاسٹ کا ہوتا ہے۔ اسٹیج کے بعد کازان نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ بعد میں انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھا۔

    موشن پکچرز میں نووارد فلم ڈائریکٹر ایلیا کازان ابتدائی دنوں میں دو شارٹ موویز کے لیے کیمرے کے پیچھے کام کرتے نظر آئے۔ 1945ء میں ان کی پہلی فیچر فلم اے ٹری گروز ان بروکلین کے نام سے پردے پر سجی۔ یہ فلم دو آسکرز کے لیے نام زد کی گئی، اور ایک ایوارڈ اپنے نام کرسکی۔ یہ کازان کی بڑی کام یابی تھی۔

    1949 ء میں ان کی ایک فلم پنکی منظرِ عام پر آئی جو متنازع ٹھیری۔ اس کا موضوع امریکا میں نسل پرستی تھا۔ یہ فلم تین آسکر ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی، مگر کوئی ایوارڈ نہ جیت سکی۔

    پرفارمنگ آرٹ کے فروغ اور اس شعبے میں ٹیلنٹ کو متعارف کرانے کی غرض سے کازان نے 1947ء میں ایکٹرز اسٹوڈیو کی بنیاد بھی رکھی اور اداکاری اور فلم سازی کی تربیت دیتے رہے۔

    1951ء میں ان کی فلم A Streetcar Named Desire سامنے آئی۔ یہ فلم بارہ آسکر کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے چار اس کا مقدر بنے۔ اس کے بعد بھی ان کی کام یاب فلموں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ ایوارڈ بھی اپنے نام کرتے رہے۔

    اپنے فلمی کیریر میں کازان نے بیسٹ ڈائریکٹر کے دو آسکر اور لائف ٹائم اکیڈمی ایوارڈ جیتے جب کہ مختلف فلمی اعزازات حاصل کیے۔ انھوں نے چار گولڈن گلوب اور تین ٹونی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

    کازان کی زیادہ تر فلمیں سماجی موضوعات اور ایسے نظریات اور سوچ کی عکاس ہیں جن کا کازان کی ذاتی زندگی پر اثر پڑا۔ ان کی ایک فلم کا موضوع امریکی معاشرے میں یہودیوں کے لیے جذبۂ نفرت اور تعصب بھی تھا جس پر خاصی تنقید ہوئی۔

    اس فلم کا مرکزی کردار ایک صحافی ہے جو اپنی نیوز اسٹوری کے لیے نیویارک آتا ہے اور یہاں لوگوں کے درمیان خود کو یہودی ظاہر کرتا ہے۔ یہ کردار ہالی وڈ کے معروف اداکار گریگوری پیک نے ادا کیا تھا۔ یہ کردار امریکیوں کے یہودیوں کے ساتھ نفرت آمیز سلوک اور ان سے تعصب کو قلم بند کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ عام میل جول کے دوران اپنی جعلی شناخت عام کرتا ہے اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ کازان کی یہ فلم آٹھ آسکرز کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے تین اپنے نام کرسکی۔ انہی میں ایک بہترین ڈائریکٹر کا آسکر بھی تھا جو کازان لے اڑے۔ یہ اس شعبے میں ان کا پہلا آسکر تھا۔

    اب بات کریں کازان کے متنازع بیان کی تو اس زمانے میں امریکا میں‌ کمیونسٹوں کی گرفت کی جارہی تھی اور ان پر شک کیا جارہا تھا۔ شک اور تعصب کی اسی فضا میں کازان نے کانگریس کی کمیٹی سے جو بات چیت کی تھی، اس سے فلم انڈسٹری کے چند بڑے ناموں کی شہرت اور ساکھ کو زبردست دھچکا لگا تھا۔

    کازان نے چار ناول بھی لکھے جن میں سے دو ان کی ذاتی زندگی پر مبنی ہیں۔

  • بالی وڈ کے معروف فلم ساز کیدار شرما کا تذکرہ

    بالی وڈ کے معروف فلم ساز کیدار شرما کا تذکرہ

    کیدار شرما بولی وڈ کے باکمال اور کام یاب فلم سازوں میں سے ایک تھے جو 29 اپریل 1999ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ انھوں نے متعدد باصلاحیت فن کاروں کو انڈسٹری میں‌ متعارف کروایا۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور فنونِ‌ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔

    وہ 12 اپریل 1910ء کو ناروال (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ کیدار نے امرتسر میں تعلیم مکمل کی اور روزگار کی تلاش میں ممبئی آ گئے۔ 1933ء میں کیدار کو دیوکی بوس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ”پران بھگت” دیکھنے کا موقع ملا۔ اس فلم نے انھیں بہت متاثر کیا اور کیدار نے فلم نگری میں کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا، اس خواب کی تکمیل کے لیے انھوں نے کولکتہ کا رخ کیا جہاں کسی طرح دیوکی بوس سے ملاقات ہوگئی اور انہی کی سفارش پر نیو تھیٹر میں بطور سنیماٹوگرافر کام ملا۔

    سنیماٹوگرافر کی حیثیت سے کیدار کی پہلی فلم ‘سیتا’ تھی۔ اس کے بعد نیو تھیٹر کی فلم ‘انقلاب’ میں انھیں ایک چھوٹا سا کردار نبھانے کو ملا اور 1936ء میں فلم ”دیو داس” نے انھیں ایک باصلاحیت فن کار ثابت کرتے ہوئے فلمی کیریئر بنانے کا موقع فراہم کیا۔بعد میں‌ انھوں نے بطور ڈائریکٹر اپنی شناخت بنائی۔ "چتر لیکھا” وہ فلم تھی جس نے انھیں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام یاب کیا۔ انھوں نے راج کپور کو پہلی مرتبہ سلور اسکرین پر پیش کیا تھا۔ 1950ء میں کیدار نے فلم ”باورے نین” بنائی اور گیتا بالی کو پہلی مرتبہ بطور اداکارہ کام کرنے کا موقع دیا۔ ان کی ایک فلم ”جوگن” سپر ہٹ ثابت ہوئی جس میں دلیپ کمار اور نرگس نے اہم کردار ادا کیے تھے۔

    کیدار جن فن کاروں کے کام سے خوش ہوتے، انھیں انعام میں‌ کچھ رقم ضرور دیتے تھے۔ راج کپور، دلیپ کمار، گیتا بالی اور نرگس نے بھی ان سے انعام وصول کیا تھا۔ وہ نغمہ نگار بھی تھے اور متعدد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ تقریباً پانچ دہائیوں تک فلمی سفر جاری رکھنے والے کیدار نے سنیما کے شائقین اور ناقدین سے بھی اپنے کمالِ‌ فن اور صلاحیتوں کی داد پائی۔

  • مسعود پرویز: فلم انڈسٹری کا کام یاب ہدایت کار

    مسعود پرویز: فلم انڈسٹری کا کام یاب ہدایت کار

    ایک دور تھا جب پاکستان میں فلم انڈسٹری نے سنیما کے شائقین کو کوئل، ہیر رانجھا، انتظار، زہرِ عشق جیسی فلموں کے ذریعے متوجہ کیا اور اس وقت کے کئی فن کاروں اور فلمی صنعت کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کے روزگار کا وسیلہ بنی۔ یہ معروف ہدایت کار مسعود پرویز کی یادگار فلمیں‌ ہیں۔ وہ 10 مارچ 2001 کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    1918 میں امرتسر میں پیدا ہونے والے مسعود پرویز کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ مشہور ادیب سعادت حسن منٹو کے قریبی عزیز تھے۔

    مسعود پرویز نے ہدایت کاری کے شعبے میں نام کمانے سے پہلے فلموں میں اداکاری کی۔ تاہم یہ قیامِ پاکستان سے پہلے کی بات ہے۔ اس زمانے میں فلم منگنی میں مسعود پرویز کو ہیرو کا کردار نبھاتے دیکھا گیا اور یوں وہ فلم انڈسٹری سے جڑے۔ بعد میں وہ ہدایت کاری کی طرف آگئے۔

    فلم منگی کے بعد مسعود پرویز دو مزید فلموں غلامی اور میرا بائی میں بھی اداکاری کی، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں فلمیں بننا شروع ہوئیں تو بطور ہدایت کار اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور کام یابی ان کا مقدر بنی۔

    مسعود پرویز کی دیگر یادگار فلموں میں بیلی، مرزا جٹ، منزل، سکھ کا سپنا، جھومر، سرحد، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون شامل ہیں۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ مسعود پرویز نے متعدد نگار ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔

  • فلم مشہور، گیت مقبول ترین، لیکن ہدایت کارہ کو معافی مانگنا پڑی!

    فلم مشہور، گیت مقبول ترین، لیکن ہدایت کارہ کو معافی مانگنا پڑی!

    فروزن“ وہ اینیمیٹڈ فلم ہے جس نے سبھی پر گویا جادو کر دیا تھا، بچے تو ایک طرف بڑے بھی ایلسا اور اینا کی اس کہانی میں‌ گویا گُم ہو گئے اور انھوں‌ نے متعدد بار یہ فلم دیکھی۔

    اس کہانی کا مرکزی کردار دو بہنیں ہیں۔ بڑی بہن ایلسا ہے اور چھوٹی کا نام اینا۔ فلم کے دیگر نمایاں کرداروں میں کرسٹوف اور اولاف اہم ہیں۔ اس فلم کی 2013 میں نمائش کی گئی اور اس نے ریکارڈ بزنس کیا۔ شائقین کے ساتھ ناقدین نے بھی فلم کو سراہا اور یہ متعدد ایوارڈز اپنے نام کرنے میں کام یاب رہی۔

    فلم میں اینا کے کردار کو معروف صدا کار کرسٹین بیل نے اپنی آواز دی جب کہ آئی ڈینا مینزل نے ایلسا کے کردار کے مکالمے ادا کیے۔ اس سپر ہٹ شمار کی جانے والی فلم کے ہدایت کار کرس بک جب کہ ڈائریکٹر جینیفر لی ہیں۔

    یہ ایک ایڈونچر فلم تھی جس کی کہانی پر مختصراً نظر ڈالیں تو ایلسا اور اینسا نامی دو بہنیں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتی ہیں، لیکن کہانی میں انھیں کسی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہونا پڑتا ہے۔ بڑی بہن یعنی ایلسا ایسی قوتوں کی مالک ہے جو کسی بھی شے اور منظر کو انگلی کے اشارے سے منجمد کرسکتی ہے یعنی برف میں تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ دونوں عام لڑکیاں نہیں بلکہ شہزادیاں ہیں۔

    اس کی جادوئی اور پُراسرار صلاحیت ایک روز سب پر کھل جاتی ہے اور یوں ایلسا کے لیے مشکلات پیدا ہونے لگتی ہیں۔ تب ایلسا انجانے خدشے کے تحت اپنے محل سے فرار ہو جاتی ہے۔ ادھر اینا بے تابی سے بہن کی واپسی کا انتظار کرتی ہے، مگر دن گزرتے جاتے ہیں اور وہ لوٹ کر نہیں آتی۔ تب وہ فیصلہ کرتی ہے کہ اپنی بہن کو ڈھونڈنے نکلے گی۔ وہ ایک نوجوان لڑکے کی مدد سے بہن کو تلاش کرتے ہوئے برف سے ڈھکے پہاڑی سلسلے میں جا پہنچتی ہے۔ یہاں سے فلم میں مہم جُوئی اور عجیب و غریب واقعات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس فلم نے دو آسکر اپنے نام کیے تھے۔

    فروزن کی مقبولیت اور اعزازات اپنی جگہ، لیکن یہ ایک وقت آیا جب فلم کی ڈائریکٹر جینیفر لی کو خاص طور پر اس گیت پر دنیا سے معذرت کرنا پڑی جسے آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا! اس گیت کے بول تھے، ”لیٹ اِٹ گو“۔
    ڈائریکٹر کی معذرت اور شرمندگی کا سبب وہ والدین تھے جنھوں نے سوشل میڈیا اور دیگر ذرایع سے شکایت کی تھی کہ بچے ہر وقت فلم فروزن کا مقبول ترین گیت گنگناتے اور سنتے رہتے ہیں اور اس کا براہِ راست اثر ان کی صحت اور تعلیم پر پڑ رہا ہے۔

    اس سلسلے میں ڈائریکٹر کا کہنا تھاکہ جہاں جاتی تھی لوگ فروزن کو موضوع بناتے اور ستائش کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا، میں خود بھی بیزار ہوگئی تھی۔ انہی دنوں بعض والدین کی جانب سے شکایات سننے کو ملیں، والدین کا کہنا تھا کہ وہ اس گیت سے بیزار ہوچکے ہیں۔

    فلم ڈائریکٹر نے کہاکہ مجھے یہ سن کر اور پڑھ کر بہت دکھ ہوا، میں سمجھ سکتی تھی کہ یہ ان کے لیے کتنا تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ تب میں نے فیصلہ کیا اور اپنی تعریف کے جواب میں اظہارِ تشکر کے بجائے لوگوں سے معذرت کرنے لگی۔

    جینیفر لی نے ذرایع ابلاغ کے نمائندوں کو اکٹھا کیا اور ایک روز کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر والدین سے معافی مانگ لی۔

    قارئین، "لیٹ اٹ گو” فلم کا وہ گیت ہے جس نے امریکا، لندن سمیت دیگر ممالک میں مقبولیت کا نیا ریکارڈ قائم کیا اور یہ میوزیکل چارٹس پر ہفتوں تک سرِفہرست رہا۔

    اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کیسے ایک نہایت کام یاب فلم کی اعزاز یافتہ ڈائریکٹر حقیقتاً اُن والدین سے معافی مانگنے پر مجبور ہو گئی۔ فروزن کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ 41 زبانوں میں اس کا ترجمہ کرکے شائقین تک پہنچائی گئی۔

    تلخیص و ترجمہ: عارف حسین