Tag: فلم

  • نواب کاشمیری: "وہ اپنے فن کا بادشاہ تھا!”

    نواب کاشمیری: "وہ اپنے فن کا بادشاہ تھا!”

    یوں تو کہنے کو ایک ایکٹر تھا جس کی عزت اکثر لوگوں کی نظر میں کچھ نہیں ہوتی، جس طرح مجھے بھی محض افسانہ نگار سمجھا جاتا ہے یعنی ایک فضول سا آدمی۔ پَر یہ فضول سا آدمی اس فضول سے آدمی کا جتنا احترام کرتا تھا، وہ کوئی بے فضول شخصیت، کسی بے فضول شخصیت کا اتنا احترام نہیں کرسکتی۔

    وہ اپنے فن کا بادشاہ تھا۔ اس فن کے متعلق آپ کو یہاں کا کوئی وزیر کچھ بتا نہ سکے گا مگر کسی چیتھڑے پہنے ہوئے مزدور سے پوچھیں جس نے چونی دے کر نواب کاشمیری کو کسی فلم میں دیکھا ہے تو وہ اس کے گن گانے لگے گا۔ وہ آپ کو بتائے گا (اپنی خام زبان میں) کہ اس نے کیا کمال دکھائے۔

    انگلستان کی یہ رسم ہے کہ جب ان کا کوئی بادشاہ مرتا ہے تو فوراً اعلان کیا جاتا ہے، ’’بادشاہ مر گیا ہے۔۔۔ بادشاہ مر گیا ہے۔۔۔ بادشاہ کی عمر دراز ہو۔‘‘ نواب کاشمیری مر گیا ہے۔۔۔ لیکن میں کس نواب کاشمیری کی درازئ عمر کے لئے دعا مانگوں۔۔۔ مجھے اس کے مقابلے میں تمام کردار نگار پیارے معلوم ہوتے ہیں۔

    نواب کاشمیری سے میری ملاقات بمبئی میں ہوئی۔ خان کاشمیری جو ان کے قریبی رشتہ دار ہیں، ساتھ تھے۔ بمبئے کے ایک اسٹوڈیو میں ہم دیر تک بیٹھے اور باتیں کرتے رہے۔ اس کے بعد میں نے اس کو اپنی ایک فلمی کہانی سنائی لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اس نے مجھ سے بلا تکلف کہہ دیا، ’’ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن مجھے پسند نہیں۔‘‘

    میں اس کی بے باک تنقید سے بہت متاثرہوا۔ دوسرے روز میں نے اسے پھر ایک کہانی سنائی۔ سننے کے دوران میں اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ جب میں نے کہانی ختم کی تو اس نے رومال سے آنسو خشک کرکے مجھ سے کہا، ’’یہ کہانی آپ کس فلم کمپنی کو دے رہے ہیں۔‘‘

    میں نے اس سے کہا، ’’یہ کہانی کوئی پروڈیوسر لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘

    نواب نے کہا، ’’تو لعنت بھیجو ان پر۔‘‘

    نواب مرحوم کو پہلی بار میں نے ’’یہودی کی لڑکی‘‘ میں دیکھا تھا۔ جس میں رتن بائی ہیروئن تھی۔ نواب غدار یہودی کا پارٹ کررہے تھے۔ میں نے اس سے پہلے یہودی کی شکل تک نہیں دیکھی تھی لیکن جب بمبئی گیا تو یہودیوں کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ نواب نے ان کا صحیح سوفیصد صحیح چربہ اتارا ہے۔ جب نواب مرحوم سے بمبئی میں ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ غدار یہودیوں کا پارٹ ادا کرنے کے لیے اس نے کلکتہ میں یہ پارٹ ادا کرنے سے پہلے کئی یہودیوں کے ساتھ ملاقات کی۔ ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھا رہا اور جب اس نے محسوس کیا وہ یہ رول ادا کرنے کے قابل ہوگیا ہے تو اس نے مسٹر بی این سرکار مالک نیو تھیٹر سے ہامی بھر لی۔

    جن اصحاب نے ’’یہودی کی لڑکی‘‘ فلم دیکھی، ان کو نواب کاشمیری کبھی بھول نہیں سکتا۔ اس نے بوڑھا بننے کے لیے اور پوپلے منہ باتیں کرنے کے لیے اپنے سارے دانت نکلوا دیے تھے تاکہ کردار نگاری پر کوئی حرف نہ آئے۔ نواب بہت بڑا کردار نگار تھا۔ وہ کسی ایسی فلم میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں تھا جس میں کوئی ایسا رول نہ ہو جس میں وہ سما سکتا ہو۔ چنانچہ وہ کسی فلم کمپنی سے معاہدہ کرنے سے پہلے پوری کہانی سنتا تھا۔ اس کے بعد گھر جا کر اس پر کئی دن غور کرتا۔۔۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر انپے چہرے پر مختلف جذبات پیدا کرتا تھا۔ جب اپنی طرف سے مطمئن ہو جاتا تو معاہدہ پر دستخط کردیتا۔

    اس کو آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں سے بہت محبت تھی مگر تعجب ہے کہ یہ شخص جو عرصے تک امپریل تھیٹریکل کمپنی کے ڈراموں میں اسٹیج پر آتا رہا اور دادِ تحسین وصول کرتا رہا، فلم میں آتے ہی ایک دم بدل گیا۔ اس کے لب و لہجے میں کوئی تھیٹر پن نہیں تھا۔ وہ اپنے مکالمے اسی طرح ادا کرتا تھا جس طرح کہ لوگ عام گفتگو کرتے ہیں۔جس تھیٹریکل کمپنی میں نے ذکر کیا ہے، اس میں نواب مرحوم نے ’خوب صورت بلا‘ ، ’نورِ وطن‘ اور ’باغ ایران‘ میں اپنی اداکاری کے ایسے جوہر دکھائے کہ اس کی دھاک بیٹھ گئی۔

    نواب کاشمیری لکھنؤ کے بڑے امام باڑے کے سید مفتی اعظم کے اکلوتے لڑکے تھے۔ قدرت کی یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہاں امام باڑے کا مفتی اعظم اور کہاں منڈوہ۔ لیکن بچپن ہی سے اس کو ناٹک سے لگاؤ تھا۔ لکھنؤ میں ایک ناٹک آئی جس کا مالک اگر وال تھا۔ اس کمپنی کے کھیل نواب باقاعدہ دیکھتا رہا اور اس نے محسوس کیا کہ وہ اس سلسلے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، کھیل دیکھ کر گھر آتا تو گھنٹوں اس ڈرامے کے یاد رہے ہوئے مکالمے اپنے انداز میں بولتا۔

    اس ناٹک کمپنی میں چنانچہ ایک مرتبہ خود کو پیش کیا کہ وہ اس کا امتحان لیں۔ ڈائریکٹر نے جب نواب کی ایکٹنگ دیکھی اور مکالمے کی ادائیگی سنی تو حیران و ششدر رہ گیا۔ اس نے فوراً اسے اپنے یہاں ملازم رکھ لیا۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ اس کی تنخواہ کیا مقرر ہوئی۔ اس کمپنی کے ساتھ نواب کلکتہ پہنچے اور اپنے مزید جوہر دکھائے۔ کاؤس جی کھٹاؤ جی نے ان کی اداکاری دیکھی تو ان کو الفریڈ تھیٹرز کمپنی میں لے لیا۔ ان دنوں وہ کیریکٹر ایکٹر مشہور ہوگئے۔

    سیٹھ سکھ لال کرنانی جو الفریڈ تھیٹر کے مالک تھے اور پرلے درجے کے گدھے اور بے وقوف تھے۔ انہوں نے اپنے حواریوں سے سنا کہ ایک ایکٹر جس کا نام نواب ہے، کمال کررہا ہے۔ اس کا کوئی جواب ہی نہیں ہے تو انہوں نے اپنے ٹھیٹ اندازِ گفتگو میں کہا، ’’تو لے آؤ اس سانڈ کو۔‘‘

    وہ سانڈ آگیا اور وہ سانڈ نواب کاشمیری تھا۔ اس کو زیادہ تنخواہ دے کر اپنے یہاں ملازم رکھا۔ وہ دیر تک میرا مطلب ہے دو سال تک کرنانی صاحب کی کمپنی کے کھیلوں میں کام کرتے رہے۔

    مجھے یاد نہیں کون سا سن تھا۔ غالباً یہ وہ زمانہ تھا جب بمبئی کی’’امپریل فلم کمپنی‘‘ نے ہندوستان کا پہلا بولتا فلم ’’عالم آرا‘‘ بنایا تھا۔ جب بولتی فلموں کا دور شروع ہوا تو مسٹر بی این سرکار جو بڑے تعلیم یافتہ اور سوجھ بوجھ کے مالک تھے، انہوں نے جب نیو تھیٹر کی بنیاد رکھی تو نواب کاشمیری کو جس سے وہ اکثر ملتے جلتے تھے، اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ تھیٹر چھوڑ کر فلمی دنیا میں آجائے۔

    بی این سرکار نواب کو اپنا ملازم نہیں محبوب سمجھتے تھے۔ ان کا ذوق بہت ارفع و اعلیٰ تھا۔ وہ آرٹ کے گرویدہ تھے۔ نواب مرحوم کا پہلا فلم ’’یہودی کی لڑکی‘‘ تھا۔ اس فلم کی ہیروئن ’’رتن بائی‘‘ تھی۔ جس کے سر کے بال اس کے ٹخنوں تک پہنچتے تھے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر ایک بنگالی مسٹر اٹھارتی تھے۔ ( جو دنیا تیاگ چکے ہیں) اس ٹیم میں حافظ جی اور میوزک ڈائریکٹر بالی تھے۔ اس تگڑم میں کیا کچھ ہوتا تھا، میرا خیال ہے اس مضمون میں جائز نہیں۔

    مسٹر اٹھارتھی نے جو بہت پڑھے لکھے اور قابل آدمی تھے، مجھ سے کہا کہ نواب ایسا ایکٹر پھر کبھی پیدا نہیں ہوگا۔ وہ اپنے رول میں ایسے دھنس جاتا ہے جیسے ہاتھ میں دستانہ۔ وہ اپنے فن کا ماسٹر ہے۔ حافظ جی بھی اس کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسا اچھا ایکٹر کبھی نہیں دیکھا۔ خیر! ان باتوں کو چھوڑیے۔ میں اب نواب ایکٹر کی طرف آتا ہوں۔

    ایک فلم میں جس کا عنوان غالباً ’’مایا‘‘ تھا، مرحوم کو جیب کترے کا پارٹ دیا گیا۔ اس نے جب ساری کہانی سنی تو انکار کر دیا کہ میں یہ رول ادا نہیں کرسکتا اس لیے کہ میں جیب کترا نہیں ہوں۔ میں نے آج تک کسی کی جیب نہیں کاٹی لیکن وہ کلکتے کے ایک واہیات ہوٹل میں ہر روز جاتا رہا۔ وہاں اس کی کئی جیب کتروں اور اٹھائی گیروں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ سنا ہے کہ ان کے ساتھ اس نے شراب بھی پی۔ حالانکہ اسے اس کی عادت نہیں تھی۔ ایک ہفتے کے بعد وہ مطمئن ہوگیا۔ چنانچہ اس نے فلم کمپنی کے مالک سے کہہ دیا کہ وہ جیب کترے کا رول ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

    اس نے اس دوران میں کئی بد معاشقوں اور کرداروں سے دوستی پیدا کر لی تھی۔ ان کے تمام خصائص اس نے سیکھ لیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس رول میں کامیاب رہا۔

    (سعادت حسن منٹو کی کتاب لاؤڈ اسپیکر میں شامل مضمون سے اقتباس)

  • فلم ریویو:  بلڈ اینڈ گولڈ

    فلم ریویو: بلڈ اینڈ گولڈ

    عالمی سینما میں "جنگ” ایک ایسا موضوع ہے، جس پر ہزاروں فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ ان فلموں میں جنگِ عظیم اوّل اور دوم پر بننے والی فلموں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ اس تناظر میں جب کوئی فلم ساز ایسے مقبول موضوع پر فلم بنائے تو اس کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ وہ کیسے کوئی نیا اور اچھوتا پن اس میں ڈالے اور ایک نئی کہانی تشکیل دے سکے۔ اس مرحلے سے "بلڈ اینڈ گولڈ” کے فلم ساز کو بھی گزرنا پڑا، لیکن وہ اس موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے ہر مرحلے پر کام یاب ہوئے۔

    "بلڈ اینڈ گولڈ” سے متعلق ہماری بنیادی رائے جاننے کے بعد اس کہانی پر ہمارا تبصرہ پیشِ‌ خدمت ہے اور ہمیں‌ امید ہے کہ تبصرہ پڑھ کر آپ  اس دل چسپ فلم کو دیکھنے کے لیے ضرور وقت نکالیں گے۔

    اسکرین پلے/ کہانی

    یہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتامی دنوں کی کہانی ہے، جب موسمِ بہار میں اتحادی فوجوں نے نازی جرمنی پر حملہ کیا تھا۔ نازی فوج کے ایک سفاک اور تجربہ کار لیفٹیننٹ کرنل "وان اسٹینفرڈ” کی قیادت میں ایک فوجی دستہ ایک انوکھے مشن پر روانہ ہوتا ہے۔ اس دوران اس دستے کا ایک فوجی "ہینرک” اپنے مشن سے منحرف ہو کر اس دستے سے الگ ہو جاتا ہے۔ یہ اس کا ناقابلِ معافی جرم تھا۔ نازی بڑی سرگرمی سے فرار ہو جانے والے اس سپاہی کو تلاش کرتے ہیں اور بالآخر اسے پکڑ لیا جاتا ہے۔ اسے پھانسی دے دی جاتی ہے۔ نازی اسے پھندے پر لٹکتا چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن وہاں کی ایک مقامی عورت "ایلسا” اسے بچا لیتی ہے اور اپنے گھر لے آتی ہے۔ نازی فوجی اور بالخصوص وہی فوجی دستہ ایک قریبی گاؤں میں اُس تباہ شدہ گھر کی کھوج میں نکلتے ہے جہاں پہلے یہودی رہتے تھے اور انہوں نے بہت سارا سونا اس گھر میں چھپا رکھا تھا۔ یہ فوجی دستہ اسی سونے کو حاصل کرنے کے مشن پر ہوتا ہے اور یہاں پہنچتا ہے۔

    کہانی کا ایک منظر ہے کہ یہ فوجی دستہ، جو ایس ایس سپاہیوں کا دستہ کہلاتا ہے، ایلسا کے فارم ہاؤس پر آتے ہوئے ایک گاؤں کو لوٹ رہا ہے، اور وہیں ہینرک چھپا ہوا ہے۔

    اس دستے کے فوجیوں کا ایلسا کے بھائی پاول سے آمنا سامنا ہوجاتا ہے، وہ اس کو گالی دیتے ہیں۔ یہ لڑکا "ڈاؤن سنڈروم” نامی بیماری کا شکار ہے۔ پھر وہ ایلسا پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہی وہ موقع تھا جب ہینرک سے رہا نہیں جاتا اور وہ سامنے آجاتا ہے، ان کو بچانے کے لیے۔ اس جھڑپ میں نازی دستے کے فوجیوں کی اکثریت ماری جاتی ہے اور باقی سپاہیوں کو وہاں سے بھاگنا پڑتا ہے۔

    ایلسا کا بھائی فوجی دستے کے کرنل کے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے۔ وہ اس کو گاؤں کے چرچ کے سامنے لاتے ہیں تاکہ اس کو موت کو مقامی لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنایا جائے۔ اس غرض سے اسے چرچ کی چوٹی پر لے جایا جاتا ہے، جب دو سپاہی اسے پھانسی دینے کی تیاری کرتے ہیں۔ تاہم، موقع پاکر پاول ایک کو ٹاور سے دھکیلنے میں‌ کام یاب ہوجاتا ہے اور دوسرے کو گولی مار دیتا ہے۔

    اس کے بعد منحرف سپاہی ہینرک، اسے موت کے منہ سے نکال لانے والی ایلسا اور نازی دستے کے کرنل اور فوجیوں کے درمیان آنکھ مچولی شروع ہوجاتی ہے۔

    ادھر گاؤں میں بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نظر اس سونے پر ہے، جسے یہ سب تلاش کر رہے ہیں۔ گاؤں کا سرکاری سربراہ مقامی لوگوں اور فوجی دستے کے درمیان رابطے کا کام کر رہا ہوتا ہے اور اس تشویش میں مبتلا ہوتا ہے کہ کس طرح حالات پر قابو پائے۔ ہینرک اور ایلسا، آخرکار چھپائے گئے خزانے تک پہنچ جاتے ہیں اور سونا حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔

    دوسری طرف فوجی ایلسا کو پکڑ لیتے ہیں۔ تب، ہینرک سونے کے بدلے ان سے ایلسا کی واپسی چاہتا ہے۔ پھر کس طرح ڈرامائی طور پر حالات بدلتے ہیں اور اس کہانی کا انجام کیا ہوتا ہے، یہ جاننے کے لیے آپ کو فلم دیکھنا ہوگی۔

    بعد میں ہینرک اور ایلسا کو ہیگن شہر پہنچتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، جہاں ہینرک کا اپنی بیٹی کے ساتھ جذباتی ملاپ ہوتا ہے۔ فلم کے اس موڑ پر دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک باپ، جس کا خاندان جنگ کا شکار ہو چکا ہے، اور صرف ایک چھوٹی بیٹی زندہ بچی ہے، وہ اس تک پہنچنے کے لیے موت کو کئی بار چکما دیتا ہے۔ فلم کے اسکرین رائٹر اسٹیفن بارتھ ہیں، جو جرمن سینما میں بطور کہانی نویس اور فلم ساز بھی شہرت رکھتے ہیں۔

    پروڈکشن ڈیزائن/ ہدایت کاری

    بلڈ اینڈ گولڈ میں ان تمام باریکیوں کا خیال رکھا گیا ہے، جو کہانی کو حقیقت سے قریب تر بنانے کے لیے ضروری تھیں۔ یہ فلم جرمنی کی پروڈکشن ہے، جو چار مختلف جرمن پروڈیوسروں نے مل کر بنائی ہے، جن میں کرسٹین بیکر جیسے معروف فلم ساز بھی شامل ہیں۔

    اس فلم کو نیٹ فلیکس کے ذریعے دنیا بھر میں‌ اسٹریم کیا گیا ہے، اور اسی لیے ڈسٹری بیوشن کے حقوق نیٹ فلیکس کے پاس ہیں۔ یہ فلم سو(100) منٹس کے دورانیے پر مشتمل ہے اور اسے جرمنی میں اپریل کے مہینے میں جب کہ نیٹ فلیکس پر مئی کے آخری دنوں میں ریلیز کیا گیا ہے۔ اس وقت یہ فلم پاکستان میں نیٹ فلیکس کے ٹاپ 10 چارٹ میں اوپر نظر آرہی ہے۔ تادمِ تحریر یہ پانچویں نمبر پر تھی۔ فلم کی موسیقی، لوکیشنز، ملبوسات، لائٹنگ، تدوین، سینماٹوگرافی، میک اپ، گرافکس اور دیگر تمام شعبہ جات میں بلاشبہ ہر آرٹسٹ نے بہترین کام کیا ہے اور کسی بھی طرح سے ہالی وڈ سے کم نہیں رہے۔

    یہ فلم بہت عمدہ اور جامع پروڈکشن ڈیزائن کا نمونہ ہے۔ فلم کے ہدایت کار "پیٹر تھورورتھ” نے بھی اپنی فنی مہارت کا خوب مظاہرہ کیا ہے۔

    اداکاری

    اس فلم کے مرکزی کردار "ہینرک ” کو "رابرٹ میسر” نے انتہائی عمدگی سے نبھایا ہے۔ وہ ایک ایسے جرمن اداکار ہیں، جنہوں نے کئی بین الاقوامی فلموں میں کام کیا ہے اور ہالی وڈ سے لے کر انڈین فلموں تک وہ اپنی اداکاری کے جوہر دکھاچکے ہیں، جن میں ٹام کروز کی "مشن امپاسبل، روگ نیشن” اور اجے دیوگن کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم "شیوائے” سمیت دوسری مشہور فلمیں شامل ہیں۔ اس فلم میں دوسرا مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ "مری ہیک” بھی عالمی شہرت یافتہ اداکارہ ہیں، اس فلم میں بھی ان کی پرفارمنس متأثر کن ہے۔

    فلم کا تیسرا مرکزی کردار ایک لیفٹیننٹ کرنل کا ہے جسے نبھانے والے اداکار کا نام "الیگزینڈر شیئر” ہے۔ انہوں نے اپنی اداکاری سے فلم میں جان ڈال دی اور ایک منفی کردار نبھانے کے باوجود آخر تک چھائے رہے۔ یہ بھی ایک جرمن اداکار اور موسیقار ہیں۔ ان کے ساتھ دوسرے اداکاروں نے بھی اپنے اپنے کرداروں کو اچھی طرح نبھایا ہے۔ ان اداکاروں میں جوڈیز ٹرابیل، کونرلونگ، رائے میکری، سائمن رُپ، اسٹیفن گروسمن اور دیگر شامل ہیں۔

    حرفِ آخر

    رواں برس اس فلم کو، جنگ کے موضوع پر اب تک سب سے بہترین فلم کہا جاسکتا ہے، اور توقع ہے کہ یہ کئی اعزازات بھی اپنے نام کرسکے گی اور کچھ بعید نہیں کہ یہ آسکر ایوارڈ کے لیے نام زد کی جائے۔ نیٹ فلیکس پر مقبولیت کے علاوہ بھی یہ فلم مختلف فورمز پر شائقین کی توجہ اور پسندیدگی سمیٹ رہی ہے۔ فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس کی مقبولیت 10 میں سے ساڑھے چھے ہے۔ امریکا اور برطانیہ کی مقبول ترین فلمی ویب سائٹ "فلم ایفینٹی” پر 10 میں سے پانچ اعشاریہ آٹھ ہے۔ ایک اور معروف ویب سائٹ "روٹن ٹماٹوز” کے مطابق اس کی مقبولیت کا تناسب 100 میں 80 فیصد ہے۔

    آپ اگر وار سینما دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں تو یہ معیاری فلم یقیناً آپ کے لیے ہے اور اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ اسے ہالی وڈ نہیں‌ بلکہ جرمن فلم سازوں نے بنایا ہے اور یہ ان کی اپنے ملک پر بنائی ہوئی فلم ہے، اور نظریاتی طور پر بھی اہمیت رکھتی ہے۔ فلم دیکھتے ہوئے آپ یہ فرق واضح طور پر محسوس کریں گے۔

  • دی کوینینٹ (فلم ریویو)

    دی کوینینٹ (فلم ریویو)

    فلم دی کوینینٹ امریکا میں سینما تھیٹرز میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جسے بعد میں معروف اسٹریمنگ پورٹل "ایمازون پرائم ویڈیو” پرریلیز کیا گیا اور اس امریکی اسٹریمنگ پورٹل کے ذریعے یہ فلم دنیا کے ہر خطّے میں‌ بسنے والے فلم بینوں تک پہنچی۔

    یہ اسٹریمنگ پورٹل چند معروف اور مقبول پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے، جس پر دنیا بھر سے فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں فلم بینی کا شوق رکھنے والوں کی بڑی تعداد نیٹ فلیکس پر اپنی پسند کی فلمیں دیکھتی ہے اور ایمازون پرائم ویڈیو اسی کی ٹکر کا اسٹریمنگ پورٹل ہے جو اب پاکستان میں بھی مقبول ہورہا ہے۔

    فلم دی کوینینٹ، ایک عہد کی وہ کہانی ہے جو افغانستان میں اتحادی فوجیوں، اور اُن افغانوں کے گرد گھومتی ہے جو بطور مترجم ان فوجیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہر چند کہ یہ کہانی اور واقعات فرضی ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد، امریکی افواج کے لیے کام کرنے والے سیکڑوں افغان مترجمین کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ دی کوینینٹ اسی پس منظر میں بنائی گئی فلم ہے۔

    کہانی/ اسکرین پلے

    اس فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ افغانستان میں جنگ کے دوران، امریکی فوج کے ماسٹر سارجنٹ جان کنلے اور اس کی یونٹ لشکر گاہ میں معمول کے مطابق گاڑیوں کی چیکنگ میں مصروف ہوتے ہیں کہ طالبان کے حملے میں ان کے ایک مترجم کی جان چلی جاتی ہے۔ اس مترجم کے متبادل کے طور پر جان کنلے کا تعارف احمد عبداللہ سے کرایا جاتا ہے، جو ثابت قدم لیکن ایک ناپسندیدہ ترجمان ہے، اور جس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف اور صرف پیسوں کے لیے کام کرتا ہے۔ ایک خفیہ مشن کے دوران سارجنٹ کنلے کو معلوم ہوا کہ احمد پہلے طالبان سے وابستہ تھا، لیکن تنظیم کے ہاتھوں‌ جب اس کا بیٹا قتل ہوا تو وہ منحرف ہو گیا۔ احمد ایک موقع پر کنلے کی ٹیم کو گھات لگائے ہوئے طالبان سے بھی بچاتا ہے۔

    بگرام ایئر بیس کے شمال میں تقریباً 100 کلومیٹر (62 میل) شمال میں باغیوں کے ممکنہ ہتھیاروں کے بڑے ذخیرے کی تلاش کے لیے ایک اور چھاپے کے دوران، کنلے کے یونٹ پر طالبان کا حملہ ہوتا ہے، جو اس کے اور احمد کے علاوہ سب کو مار ڈالتے ہیں۔ یہ دونوں پیدل فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس حملے میں کئی طالبان جنگجو بھی مارے جاتے ہیں۔ افغان پہاڑی علاقے سے گزرتے ہوئے ایئربیس پر واپس جانے کی کوشش کرتے ہوئے، وہ ایک بار پھر باغیوں کے حملے کی زد میں آتے ہیں اس بار کنلے زخمی ہوجاتا ہے، حملہ کرنے والے مار پیٹ کے دوران اسے رائفل کے بٹ سے معذور کر دیتے ہیں۔ احمد اس حملے میں ملوث طالبان کو مارنے کے بعد کنلے کو واپس ایئر بیس پر لے جانے کا عزم کرتا ہے۔ کچھ ہمدرد افغانوں کی مدد حاصل کر کے، احمد وہاں سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ کئی دن بعد احمد اور کنلے بگرام کے قریب پہنچ جاتے ہیں، لیکن یہاں طالبان جنگجو ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ احمد جنگجوؤں کو مار ڈالتا ہے، لیکن اس کے فوراً بعد اسے امریکی فوجی پکڑ لیتے ہیں۔

    چار ہفتے بعد کنلے، سانتا کلیریٹا، اپنے گھر کیلیفورنیا میں واپس بھیج دیے جاتے ہیں، لیکن کنلے اس بات سے مکمل طور پر بے خبر ہے کہ اسے کیسے بچایا گیا، وہ سمجھتا ہے کہ اس میں احمد نے کردار ادا کیا ہے۔ بعد میں یہ جان کر کہ احمد اور اس کے خاندان کو ان دونوں کی وجہ سے انڈر گراؤنڈ ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، کنلے ان کے لیے امریکی ویزا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کی یہ کوشش بے سود ثابت ہوتی ہے۔ وہ جذباتی اور ایک اذیت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ احمد کا مقروض ہے اور اس کی وفاداری اور اپنی ٹیم کے لیے خدمات پر اس کا حق ادا نہیں کرسکا اور یہی سوچ اسے بے چین و مضطرب رکھتی ہے اور وہ بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے۔ آخر کار کنلے احمد کو اور خود کو بچانے کا عزم کر کے اپنے ایک افسرِ اعلیٰ، لیفٹیننٹ کرنل ووکس کی مدد لیتا ہے تاکہ خفیہ طور پر افغانستان جاسکے اور کسی طرح‌ احمد اور اس کے خاندان کو تلاش کر کے ان کے لیے کچھ کرسکے۔

    اپنے افسرِ اعلیٰ کی مدد سے کنلے افغانستان جانے میں‌ کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے وہ "رون کی” کا نام اپناتا ہے۔ افغانستان واپس جاتے ہوئے، کنلے کی ملاقات پارکر سے ہوتی ہے، جو ایک پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹر ہے، اور پھر کِنلے احمد کے بھائی علی تک پہنچ جاتا ہے جو اسے طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقے تک لے جانے کا انتظام کرتا ہے۔ اس عمل میں، اس کے ہاتھوں‌ سڑک پر قائم ایک چوکی پر دو باغی مارے جاتے ہیں، جس سے طالبان خبردار ہو جاتے ہیں۔ ادھر ووکس، کنلے کو مطلع کرتا کہ ویزا پر کارروائی ہو چکی ہے اور وہ پارکر کے پاس ہیں۔ اور پھر کنلے، احمد کے ٹھکانے پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ اسے خاندان سمیت امریکہ جانے کے لیے قائل کرتا ہے۔

    اس دوران، پارکر یہ اندازہ کر لیتا ہے کہ کنلے کی حقیقیت کچھ اور ہے اور اسے احساس ہو جاتا ہے کہ اب طالبان کے لیے وہ دونوں‌ بڑا خطرہ ہیں، اور اِن کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ گن شپ اور اپاچی ہیلی کاپٹر کا بندوبست کرتا ہے اور حملہ آوروں کا صفایا ہوجاتا ہے۔ پارکر کہتا ہے کہ اگر وہ اپنی شناخت نہ چھپاتا تو وہ دل سے کنلے کے مشن کی حمایت کرتا۔ پھر وہ واپس بگرام لے جائے جاتے ہیں اور پھر اس ہوائی جہاز میں سوار ہو جاتے ہیں جو افغانستان کی فضائی حدود سے پرواز کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔

    اس فلم کا مرکزی کردار یعنی کنلے افغانستان میں دو مشن مکمل کرتا ہے۔ پہلے مشن پر وہ اتحادی فوج کے افسر کی حیثیت سے افغانستان بھیجا گیا تھا اور دوسرا اس کا خود ساختہ مشن تھا جس میں وہ جذبات سے مغلوب ہو کر افغانستان پہنچا تھا، یعنی احمد اور اس کے خاندان کو افغانستان سے بحفاظت نکال کر امریکہ لے جانے کا مشن۔ جہاز میں‌ سوار ہونے کے بعد وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر سَر ہلاتے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ عہد برقرار رکھا گیا ہے۔یہ اس فلم کے اختتامی لمحات ہیں، لیکن اتحادی افواج، ان کا ساتھ دینے والے افغان باشندوں اور طالبان یا باغیوں‌ کے واقعات کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے میں‌ آپ کی دل چسپی ہر بدلتے منظر کے ساتھ بڑھ جائے گی۔ اگر فلم کو امریکی فوجی کِنلے کے دو مشن کی صورت میں‌ دیکھا جائے تو یہ فلم گولہ بارود برسانے اور لاشیں‌ گرانے کے دل دوز واقعات کے ساتھ اُس مشن کی طرف لے جاتی ہے جس کی بنیاد دلی جذبات پر رکھی گئی ہے۔ فلم میں آپ کی دل چسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ اُس ملک کی کہانی ہے جس کے سیاسی اور سماجی حالات سے ہم بھی واقف ہیں۔

    فلم سازی و ہدایت کاری

    اس فلم کے چار مرکزی پروڈیوسرز ہیں، جن میں فلم کے ہدایت کار بھی شامل ہیں۔ایم جی ایم جیسا عہد ساز ادارہ اس فلم کا تقسیم کار ہے، جس نے اسے امریکی سینما تھیٹرز میں نمائش کے لیے پیش کیا، جب کہ اسے اسٹریم کرنے کے لیے ایمازون پرائم ویڈیو کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس فلم کا نام پہلے "دی انٹرپریٹر” تھا، جسے "دی کوینینٹ” سے تبدیل کردیا گیا۔ فلم کے نام کے ساتھ ہدایت کار "گائے رچی” کا نام بھی پیوست ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک پرانی فلم بھی اسی نام سے موجود ہے جس میں تمیز کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔

    اس فلم کی عکس بندی اسپین کے مختلف علاقوں میں کی گئی ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار "گائے رچی” کا تعلق برطانیہ سے ہے جو مشہور‌ گلوکارہ میڈونا کے سابق شوہر بھی ہیں۔ باکس آفس کی بات کی جائے تو اس فلم کو بہت زیادہ پسند نہیں کیا گیا اور یہ اپنی لاگت پوری نہیں کر سکی، لیکن پروڈکشن، کہانی اور عنوان کے لحاظ سے یہ ایک بہتر اور معیاری فلم ہے جسے فلمی ناقدین اور فلم بینوں دونوں نے پسند کیا ہے۔

    ایمازون پرائم ویڈیو کے پورٹل پر پسند کیے جانے کے علاوہ فلم کو مختلف پلیٹ فارمز پر سراہا گیا ہے۔ فلم ویب سائٹ "روٹن ٹماٹوز” پر اسے 84 فیصد کی شرح سے پسندیدگی ملی، جب کہ آئی ایم ڈی بی پر یہ فلم دس میں سے 7.5 فیصد اور ایک اور ویب سائٹ "وودو” پر پانچ میں سے 4.7 فیصد کی پسندیدگی حاصل کر پائی ہے۔ گوگل پر اس فلم کے لیے پسندیدگی کا تناسب پانچ میں سے 4.7 فیصد رہا ہے۔

    دی کوینینٹ پر تبصرے مثبت رہے اور مجموعی طور پر فلم کے تمام شعبوں میں فن کاروں‌ اور آرٹسٹوں کی کارکردگی کو تسلی بخش اور اسے ایک معیاری فلم گردانا گیا ہے۔

    اداکاری

    اس فلم کے مرکزی کرداروں میں معروف امریکی اداکار "جیک جیلن ہو” اور "عراقی اداکار "دار سلیم” شامل ہیں۔ ان دونوں کی اداکاری نے فلم کا معیار بلند کیا ہے، خاص طور پر دار سلیم نے اپنے شان دار اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے ناقدین کو بھی متأثر کیا ہے۔ ان کی پیدائش عراق کے شہر بغداد کی ہے، مگر وہ اپنی والدین کے ہمراہ، چھے سال کی عمر میں‌ ہجرت کر کے ڈنمارک آگئے تھے۔ بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کا رجحان فلم سازی اور اداکاری کی طرف ہوا، انہوں نے ٹیلی وژن اور فلموں کے لیے کام شروع کیا اور بطور خاص ہالی وڈ کی فلموں میں شامل کیے گئے۔ دار سلیم کو فلم بینوں‌ نے پسند کیا اور انہیں زیادہ کام ملنے لگا۔ فلم میں ان کے ساتھی فن کاروں نے بھی خوب کام کیا۔ مجموعی طور پر ان سب کی کارکردگی متأثر کن رہی، اور یہی وجہ ہے کہ فلم بینوں نے بھی اسے پسند کیا ہے۔

    حرفِ آخر

    امریکہ نے دنیا کے مختلف حصّوں میں کئی جنگیں لڑی ہیں جن پر بنائی گئی فلمیں‌ دیکھ کر اُن جنگوں کے اسباب اور اُن حالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو کسی ملک کی تباہی اور بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ افغانستان سے اںخلا کے وقت، وہاں‌ کا ماحول کیا تھا، امریکی فوج اور اتحادیوں کو کن حالات کا سامنا تھا اور ان کے لیے کام کرنے والے افغان باشندوں کی زندگی کس طرح داؤ پر لگ گئی اور کیسے وہ ان حالات میں خود کو اپنے کنبے کو بچا پائے، یہ فلم اِس عکاسی کرتی ہے۔

  • عامر خان بڑے پردے پر واپسی کے لیے تیار، فلم کا نام بھی سامنے آگیا

    عامر خان بڑے پردے پر واپسی کے لیے تیار، فلم کا نام بھی سامنے آگیا

    ممبئی: بالی وڈ کے مسٹر پرفیکٹ اداکار عامر خان کا فلموں سے بریک ختم ہوگیا، انہوں نے اپنے نئے پروجیکٹ کا اعلان کردیا۔

    فلم لال سنگھ چڈھا کی ناکامی کے بعد بالی وڈ کے اداکار عامر خان نے اپنے کام سے بریک لیا تھا تاہم اب انہوں نے اپنی اگلی فلم سے متعلق اعلان کیا ہے، یہ فلم ان کی 2007 کی کامیاب فلم ’ تارے زمین پر‘ کی طرح ہوگی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق عامر خان نے یہ اعلان ممبئی میں ایک تقریب میں کیا جہاں انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ فلم ’ تارے زمین پر‘انہوں نے ایک بچے کی مدد کی تھی، اب اس فلم میں نوجوان لڑکے ہیں جو جذباتی طور پر ان کی مدد کریں گے۔

    عامر خان نے 35 سال کے بعد اداکاری سے بریک لے لیا

    عامر خان نے بتایا کہ اس فلم کا ٹائٹل ’ ستارے زمین پر ‘ ہے، دوسری جانب یہ قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ ڈائریکٹر آر ایس پرسانا اس پروجیکٹ کو سنبھالیں گے لیکن عامر نے اعلان کے دوران کوئی نام ظاہر نہیں کیا۔

    بالی وڈ کے مسٹر پرفیکٹ نے کہا کہ  میں اس بارے میں مزید بات نہیں کرسکتا لیکن میں عنوان بتا سکتا ہوں، فلم کا ٹائٹل ’ستارے زمین پر‘ ہے،  آپ کو میری فلم تارے زمین پر تو یاد ہی ہوگی اور اس فلم کا نام ’’ستارے زمین پر‘‘ ہے کیونکہ ہم اسی تھیم کے ساتھ 10 قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔

    ’تارے زمین پر‘ میں عامر خان کی جگہ پہلا انتخاب کونسا اداکار تھا؟

    انہوں نے مزید کہا کہ  تارے زمین پر ایک جذباتی فلم تھی لیکن  یہ فلم آپ کو ہنسائے گی، اُس فلم نے آپ کو رلا دیا یہ آپ کو تفریح ​​فراہم کرے گی۔

    واضح رہے کہ ’تارے زمین پر‘ ایک ایسے بچے کی کہانی پر مبنی فلم ہے جس کی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت بہت کمزور ہوتی ہے۔ والدین کمزوری کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر اسکول ٹیچر رام شنکر اس کی ذمہ داری لیتے ہیں۔

  • راج کندرا کی گرفتاری اور جیل میں گزارے وقت پر فلم بنانے کا فیصلہ

    راج کندرا کی گرفتاری اور جیل میں گزارے وقت پر فلم بنانے کا فیصلہ

    راج کندرا کی 2 سال قبل فحش فلموں کے کیس میں گرفتاری اور جیل میں گزارے وقت پر فلم بنانے کا فیصلہ ہوا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق دو سال قبل فحش فلموں کے کیس میں ضمانت پر رہا ہونے والے راج کندرا پر فلم بنائی جائے گی، جس میں وہ خود اداکاری کے جوہر دکھائیں گے۔

    رپورٹس میں بتایا گیا کہ فلم میں راج کندرا کی گرفتاری، رہائی اور جیل میں گزارے دنوں سے متعلق ہی کہانی بیان کی جائے گی۔

    واضح رہے کہ راج کندرا اداکارہ شلپا شیٹی کے شوہر ہیں، جنہیں فحش فلمیں بنانے اور ان کی تشہیر کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ 63 روز جیل میں قید رہنے کے بعد انہیں ضمانت پر رہائی ملی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق راج کندرا پر بنائی جانے والی فلم کا اعلان جلد کیا جائے گا۔

  • شاہد کپور کو کس فلم میں اپنا کردار پسند نہیں؟

    شاہد کپور کو کس فلم میں اپنا کردار پسند نہیں؟

    ممبئی: بالی وڈ کے اداکار شاہد کپور نے فلم پدماوت میں اپنے کرداد کے حوالے سے انکشاف کیا کہ اگر مجھے موقع ملا تو مہاراول رتن سنگھ کا کردار دوبارہ کرنا چاہوں گا۔

    بالی وڈ کے معروف اداکار شاہد کپور سے  حالیہ انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے کسی کردار کو دوبارہ دیکھنا چاہیں گے یا انہیں مختلف انداز میں پیش کرنا چاہیں گے؟

    جس پر شاہد کپور نے مہاروال رتن سنگھ کے کردار کا نام لیا، انہوں نے کہا کہ سنجے لیلا بھنسالی کی مشہور فلم پدماوت میں مہاراول رتن سنگھ کے کردار  میں، میں خود کو پسند نہیں کرتا تھا۔

    شاہد کپور نے اس جواب کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کردار میں، میں خود کو پسند نہیں کرتا تھا، میں بہت سخت تھا، ہر وقت تناؤ میں رہنے والا تھا، مجھے لگتا ہے کہ میں اُس شخصیت کے دوسرے پہلوؤں کو سامنے نہیں لاسکا۔

    شاہد کپور نے اقربا پروری کے طعنے پر خاموشی توڑ دی

    انہوں نے کہا کہ میں صاف گو ہوں، شاید بہت سے لوگ ہوں گے جنہوں نے مجھے اس کردار  میں  پسند کیا ہوگا لیکن مجھے میرا یہ کردار نہیں پسند۔

    واضح رہے کہ سنجے لیلا بھنسالی کی فلم پدماوت میں شاہد کپور نے  مہاراول رتن سنگھ کا کردار ادا کیا تھا، جو ایک راست باز آدمی اور گہیلا خاندان کا آخری راجپوت حکمران تھا۔

    پدماوت میں دیپیکا پڈوکون نے شاہد کپور کے مقابل رانی پدماوتی کا کردار ادا کیا تھا جبکہ رنویر سنگھ نے مخالف علاؤالدین خلجی کا کردار ادا کیا تھا۔

     اس فلم کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر یہ فلم ریلیز ہونے میں کامیاب رہی، سلم میں  اداکاروں کی شاندار کارکردگی اور مرکزی اداکاروں کی ناقابل یقین پرفارمنس سے باکس آفس پر راج کیا تھا۔

  • شاہد کپور نے اپنے بچوں کو اپنی فلم نہ دکھانے کی اہم وجہ بتادی

    شاہد کپور نے اپنے بچوں کو اپنی فلم نہ دکھانے کی اہم وجہ بتادی

    بالی وڈ کے اداکار شاہد کپور نے کہا کہ میرے بچوں نے میری ایک فلم دیکھی ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے میری فلمیں دیکھیں۔

    بالی ود کے معروف اداکار شاہد کپور نے اپنے بچوں میشا کپور اور زین کپور کو جب وی میٹ دیکھنے جانے کی وجہ بھی بتائی۔

    2007 میں ریلیز ہونے والی فلم جب دی مٹ جس میں شاہد کپور اور کرینہ کپور نے مرکزی جوڑی کے طور پر اداکاری کی تھی اس سال فروری میں کچھ دنوں کے لیے دوبارہ سینما گھروں میں ریلیز ہوئی، تاہم اداکار نے بتایا کہ ان کی اہلیہ میرا راجپوت چاہتی تھیں کہ ان کے بچے یہ فلم دیکھیں۔

    یاد رہے کہ جب وی میٹ کی ہدایت کاری امتیاز علی نے کی تھی،  رومانوی کامیڈی فلم میں شاہد کپور کو ایک تنہا تاجر، آدتیہ کے طور پر دکھایا گیا جو بنا سوچے سمجھے ٹرین میں سوار ہوجاتے ہیں جہاں ان کی ملاقات گیت (کرینہ) سے ملتے ہیں، جو ایک خوش مزاج مسافر ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Instant Bollywood (@instantbollywood)

    اپنے بچوں کو جب وی میٹ دیکھنے کے بارے میں ایک حالیہ انٹرویو میں بات کرتے ہوئےشاہد کپور نے کہا کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ مجھے زیادہ دیکھیں۔

    انہوں نے کہا کہ میرے بچے مجھے دیکھتے ہے کہ لوگ مل رہے تو ان کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ آپ کے پاس اتنے لوگ کیوں آتے ہیں، انہوں نے کبھی میرا کام نہیں دیکھا۔

    انہوں نے کہا کہ جب وی میٹ ایک فیملی فلم ہے، اس میں ایسی کوئی ایکشن اسٹنٹ یا رومانس نہیں اس لیے میں بھی چاہتا تھا کہ وہ میری یہ فلم دیکھیں۔

  • ماہیما چوہدری فلموں سے کیوں غائب ہوگئی تھیں؟

    ماہیما چوہدری فلموں سے کیوں غائب ہوگئی تھیں؟

    بالی ووڈ کی کئی فلموں میں کام کرنے والی معروف اداکارہ ماہیما چوہدری نے کئی دہائیوں بعد بتایا ہے کہ وہ فلموں سے دور کیوں ہوگئی تھیں۔

    ماہیما چوہدری نے 1997 میں ریلیز ہوئی اپنی پہلی فلم پردیس میں شاہ رخ خان کے مدمقابل خوب مقبولیت حاصل کی تھی، پھر یکے بعد دیگرے ماہیما کو فلمیں ملیں اور وہ اسٹار بن گئیں۔

    ماہیما چوہدری کی 1999 میں اجے دیوگن اور کاجول کے ساتھ کی گئی فلم دل کیا کرے کی شوٹنگ کے دوران خطرناک روڈ حادثہ ہوا، جس میں وہ مرتے مرتے بچیں اور اس حادثے نے ہمیشہ کے لیے ان کی زندگی بدل دی۔

    اداکارہ نے اپنے ایک انٹرویو میں دہائیوں بعد کھل کر مذکورہ حادثے سے متعلق بات کی اور بتایا کہ کس طرح اس حادثے نے ان کی زندگی بدل دی۔

    اداکارہ نے بتایا کہ دل کیا کرے کی شوٹنگ کے دوران جب وہ بنگلور جا رہی تھیں تو ان کی کار خطرناک روڈ حادثے کا شکار ہوگئی اور گاڑی کا فرنٹ شیشہ ٹوٹ کر ان کے چہرے پر آلگا اور وہ بری طرح زخمی ہوگئیں۔

    ماہیما نے حادثے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ نہیں بچیں گی لیکن وہ بچ گئیں اور انہیں کافی دیر بعد اسپتال پہنچایا گیا، جہاں اجے دیوگن اور ان کی والدہ بھی موجود تھے۔

    ماہیما چوہدری نے بتایا کہ ان کے چہرے میں شیشے کے 67 ٹکڑے گھس گئے تھے، جنہیں ڈاکٹرز نے کئی گھنٹوں کی کوششوں کے بعد نکالا اور بعد ازاں ان کے چہرے کی سرجری کی گئی۔

    اداکارہ نے بتایا کہ چہرے کی سرجری کے بعد وہ کئی ماہ تک ایک بند کمرے میں محدود رہیں اور حادثے نے انہیں جسمانی درد کے بجائے نفسیاتی درد زیادہ دیا اور ان کی زندگی بدل کر رہ گئی۔

    اداکارہ نے بتایا کہ حادثے کے بعد انہوں نے کئی ماہ تک آئینہ دیکھنا چھوڑ دیا تھا اور انہوں نے کمرے سے بھی آئینے اتروا دییے تھے اور وہ سورج کی روشنی کے بغیر اندھیرے کمرے میں رہنے لگی تھیں۔

    ماہیما کا کہنا تھا کہ اس وقت لوگوں میں اتنا شعور نہیں تھا اور کوئی بھی کسی کے ساتھ ہونے والے حادثے پر اس کا ساتھ نہیں دیتا تھا بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی، اس لیے انہوں نے بھی خود کو دوسروں سے دور رکھا تھا۔

    اداکارہ کے مطابق اس وقت انہوں نے متعدد فلموں میں کام کرنے کے معاہدے کر رکھے تھے مگر حادثے کی وجہ سے سب ختم ہوگئے اور کافی عرصے تک وہ ڈر کے مارے کیمرے کے سامنے آنے سے بھی گریز کرتی رہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت اس خیال سے بھی کیمرے کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی، کیوں کہ انہیں لگتا تھا کہ اگر وہ باہر گئیں اور کسی نے ان کا چہرہ دیکھا تو وہ انہیں طعنے دے گا کہ ان کا تو چہرہ ہی خراب ہوگیا، ان کے بجائے کسی اور لڑکی کو کاسٹ کرتے ہیں۔

    ماہیما چوہدری نے بتایا کہ حادثے کے ایک سال بعد اکشے کمار ان کے پاس آئے اور انہیں دھڑکن فلم میں کام کرنے کا کہا اور پھر انہوں نے سنہ 2000 کے بعد فلموں میں مختصر کردار ادا کرنا شروع کیے یا پھر وہ گانوں میں دکھائی دینے لگیں۔

  • نئی فلم پر پابندی کا مطالبہ: منوج باجپائی کا کیا کہنا ہے؟

    نئی فلم پر پابندی کا مطالبہ: منوج باجپائی کا کیا کہنا ہے؟

    بھارت کے ورسٹائل اداکار منوج باجپائی نے اپنی نئی فلم صرف ایک بندہ کافی ہے پر قانونی کارروائی سے متعلق ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے تمام واقعات کو نہایت سچائی سے پیش کیا ہے۔

    او ٹی ٹی پر ریلیز ہونے والی یہ فلم اپوروا سنگھ کار کی کی ہدایت کاری میں بنائی گئی ہے تاہم عدالت میں چلنے والے ایک کیس پر مبنی یہ فلم ریلیز سے پہلے ہی قانون کے شکنجے میں پھنس گئی۔

    فلم کے ٹریلر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فلم حقیقی زندگی کے واقعات سے متاثر ہے۔ اس ٹریلر کو شائقین کی جانب سے اچھا رسپانس ملا ہے۔ قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ فلم کا گاڈ مین کوئی اور نہیں بلکہ آسارام باپو ہے۔

    منوج باجپائی نے اس فلم میں پی سی سولنکی کا کردار ادا کیا ہے جو پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل ہے اور انہوں نے آسا رام کے خلاف مقدمہ لڑا تھا جس میں اب آسا رام جیل میں سزا کاٹ رہا ہے۔

    آسا رام باپو چیئرٹیبل ٹرسٹ نے فلم بنانے والوں کو نوٹس جاری کیا ہے جس میں ان کا مؤقف ہے کہ اس فلم کی کہانی آسا رام باپو کی کہانی ہے۔ وہ جنسی جرائم کے خلاف بچوں کے تحفظ (پوسکو) ایکٹ کے تحت ایک نابالغ لڑکی کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ اس پر ایک جعلساز نے جنسی زیادتی کا الزام لگایا ہے۔

    اس میں منوج کو درپیش مشکلات کو دکھایا گیا ہے جب وہ اکیلے ہی ایک نابالغ لڑکی کی عصمت دری کا مقدمہ لڑتا ہے۔

    ٹرسٹ کی جانب سے دیے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ فلم کی ریلیز سے ان کے عقیدت مندوں اور پیروکاروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ ٹرسٹ نے عدالت سے فلم کی تشہیر اور ریلیز پر پابندی لگانے کی استدعا کی ہے۔

    اداکار منوج باجپائی کا کہنا ہے کہ ہمیں فلم پر گفتگو کرتے ہوئے اس کیس سے جڑے لوگوں کے جذبات کا احساس کرنا پڑے گا، اس ظلم کا شکار لڑکی کی عمر صرف 15 یا 16 سال ہے ار اس نے پانچ سال تک خود سے کہیں زیادہ طاقتور لوگوں کے خلاف جنگ لڑی۔

    اداکار کا کہنا تھا کہ اس بچی نے لوگوں کی سوالیہ نظروں کا بہت بے خوفی سے سامنا کیا ہے، اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کا کردار ادا کرنے والی بچی خود بھی بہت کم عمر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ انجانے میں ہم ان کی زندگی سے کھیل جائیں۔

    آسا رام ٹرسٹ نے قانونی نوٹس میں بھارتی وزارت اطلاعات اور سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن کو بھی فریق بنایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ فلم کی ریلیز پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ اس کا ٹریلر بھی انٹرنیٹ سے ہٹایا جائے۔

  • جینیلیا ڈی سوزا 10 سال کے لیے فلموں سے دور کیوں ہوگئیں تھی؟

    جینیلیا ڈی سوزا 10 سال کے لیے فلموں سے دور کیوں ہوگئیں تھی؟

    معروف بھارتی اداکارہ جینیلیا ڈی سوزا نے 10 سال بعد فلم انڈسٹری میں واپسی کو خوشگوار تجربہ قرار دیا ہے، ان کی حال ہی میں نئی فلم وید ریلیز ہوئی ہے جسے خاصی پذیرائی ملی ہے۔

    سنہ 2003 میں فلم تجھے میری قسم سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والی جینیلیا ڈی سوزا نے ابتدا میں ماڈلنگ کی تھی اور پھر تامل فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔

    سنہ 2012 میں انہوں نے معروف مزاحیہ اداکار رتیش دیش مکھ سے شادی کے بعد فلموں سے غیر اعلانیہ کنارہ کشی اختیار کرلی تھی تاہم اس دوران وہ مختلف تشہیری سرگرمیوں میں مصروف رہیں۔

    اب 10 سال بعد فلم وید کے ذریعے ان کی فلموں میں واپسی ہوئی ہے، فلم کو رتیش دیش مکھ نے ڈائریکٹ کیا ہے جبکہ فلم کا ایک مرکزی کردار بھی وہی ادا کر رہے ہیں۔

    اداکارہ نے اس میں ایک ہاؤس وائف کا نہایت سنجیدہ کردار نبھایا ہے۔

    ایک انٹرویو میں اپنے فلمی سفر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے جینیلیا کا کہنا تھا کہ وہ خود سے فلموں کی طرف نہیں آئیں اور نہ انہوں نے اسے بطور کیریئر چنا، بس لوگوں نے انہیں دیکھا اور فلموں کی آفرز کی جس کے بعد وہ آگے بڑھتی گئیں۔

    اداکارہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی خاص قسم کے کردار ان کی ترجیح نہیں البتہ وہ مختلف کام کرنا چاہتی ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ خود سے زیادہ توقعات وابستہ کیے ہوئے نہیں ہیں، تاہم جو بھی کام کرتی ہیں اسے بھرپور محنت سے کرتی ہیں۔

    دسمبر 2022 میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم وید کو ان کے مداحوں کی جانب سے مثبت ردعمل موصول ہوا ہے، 18 لاکھ ڈالر کے بجٹ سے بننے والی فلم نے سینما گھروں میں 94 لاکھ ڈالرز کی کمائی کی ہے۔