Tag: فلکیات

  • جب سائنس دانوں نے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ زمین کا ’’موڈ‘‘ بدل رہا ہے!

    جب سائنس دانوں نے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ زمین کا ’’موڈ‘‘ بدل رہا ہے!

    2023 میں جریدے نیچر میں شائع ہونے والی سائنسی تحقیق نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے، کہ انسانوں کے ہاتھوں زیرِ زمین پانی کے ذخائر کا حد سے زیادہ استعمال زمین کے محور کو تبدیل کر رہا ہے۔ Nature جریدے کے مطابق 1993 سے 2010 کے درمیان زمین، جو اپنے پولز پر لٹو کی طرح گھومتی ہے، اس کا محور شمالی قطب سے تقریباً 31.5 انچ (80 سینٹی میٹر) جنوب مشرق کی جانب سرک چکا ہے۔

    اس بڑی تبدیلی کی اصل وجہ انسانوں کی جانب سے کھیتوں، شہر اور فیکٹریوں کے لیے بے دریغ پانی نکالنا ہے، جس کے باعث زمین کے بڑے پیمانے کے توازن (mass balance) میں فرق پڑا اور پوری دنیا کی گردش کا توازن معمولی سا بدل گیا۔

    زیر زمین پانی زمین کا محور

    زمین کی اس حرکت کی وجہ سے ہماری آب و ہوا، موسموں کے پیٹرنز اور گلیشیئر کے پگھلنے جیسے عمل بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ برف باری میں کمی اور موسمی شدت براہ راست گلوبل وارمنگ یعنی گرین ہاؤس گیسز (کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین وغیرہ) کے اضافے سے ہوتی ہے، مگر زمین کے محور میں اس تبدیلی نے اس عمل کو اور تیز کر دیا ہے۔

    سائنس: قوسِ قزح (Rainbow) کے بارے میں اہم معلومات

    جریدہ Science Advances (2023) کی تحقیق بتاتی ہے کہ زیرِ زمین پانی کے بے دریغ نکالنے سے نہ صرف محور منتقل ہوا، بلکہ اس نے سمندر کی سطح اور سالانہ موسموں کے انداز پر بھی اثر ڈالا ہے۔ نتیجے میں قطب شمال پر برفباری کم ہوئی اور دنیا بھر میں گرمیاں طویل اور شدید ہوتی جا رہی ہیں۔

    ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر عالمی قوتوں نے پانی کے استعمال اور ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہ لیا تو زمین کا یہ بدلتا موڈ مستقبل میں ناقابل تلافی نتائج دے سکتا ہے۔

    عالمی طاقتوں کو اب سنجیدگی سے سوچنے اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا سیارہ محفوظ اور رہنے کے قابل رہ سکے۔

  • زمین سے قریب سے اچانک پراسرا ریڈیو سگنل موصول، ماہرین فلکیات حیران

    زمین سے قریب سے اچانک پراسرا ریڈیو سگنل موصول، ماہرین فلکیات حیران

    آسٹریلوی ماہرین فلکیات نے پراسرار ریڈیو سگنل کا پتا لگایا ہے، جس کے بارے میں پتا چلا کہ وہ زمین کے قریب ہی سے آیا تھا، جس نے ماہرین فلکیات کو پریشانی میں ڈال دیا تھا۔

    سائنس سے متعلقہ ویب سائٹس کی رپورٹس کے مطابق گہری خلا سے ریڈیو سنگلز نکلتے رہتے ہیں جو کسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے متعلق نہیں ہوتے، تاہم گزشتہ برس آسٹریلوی ماہرین نے 13 جون 2024 ایک طاقت ور ریڈیو برسٹ کا پتا لگایا، جس کے بارے میں کی جانے والی تحقیقات حیران کن نکلیں۔

    یہ سگنل اتنا طاقتور تھا کہ چند لمحوں کے لیے آسمان کی ہر چیز سے زیادہ روشن ہوا تھا، سائنس دان پہلے اسے کسی اجنبی خلائی مظہر کا نتیجہ سمجھ بیٹھے تھے لیکن پھر تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ سگنل زمین کے قریب سے آیا تھا۔

    معلوم ہوا کہ یہ سگنلز کسی مشینری سے آئے تھے، یہ نہ صرف ایک اجنبی مشینری سے آئے تھے بلکہ پتا چلا کہ اس کا منبع ناسا کا ایک مصنوعی سیارہ تھا، جس سے توانائی کا اخراج ہوا تھا، یہ مردہ سیٹلائٹ گزشتہ نصف صدی سال سے زیادہ عرصے سے زمین کے مدار میں آوارہ تیر رہا ہے۔


    خلا میں پہلی بار سیٹلائٹ ری فیولنگ مشن انجام، چین نے ایک بار پھر دنیا کو حیران کر دیا


    سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ سگنل کی سمت پرانی امریکی سیٹلائٹ ریلے 2 سے میچ کرتی تھی، ریلے 2 سیٹلائٹ 1964 میں خلا میں بھیجا گیا تھا اور یہ 1967 سے ناکارہ ہے۔ اس ریڈیو سگنل کا پتا آسٹریلوی ’اسکوائر کلومیٹر اری پاتھ فائنڈر (ASKAP)‘ نے لگایا تھا۔

    اس ریڈیو سگنل کو اس لیے قابل ذکر سمجھا جا رہا تھا کیوں کہ عام ریڈیو سگنلز کے مقابلے میں یہ 30 نینو سیکنڈ سے بھی کم وقت کے لیے چمکا تھا، جو کہ زیادہ تر FRBs سے بہت چھوٹا تھا، اور پھر بھی یہ اتنا طاقت ور تھا کہ آسمان سے دوسرے تمام سگنلز مٹ گئے تھے۔

    واضح رہے کہ خلائی ملبہ اب سائنس دانوں کے لیے بڑھتا ہوا چیلنج بنتا جا رہا ہے، خلائی دور کے آغاز سے اب تک 22 ہزار سے زائد سیٹلائٹس خلا میں بھیجے جا چکے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں خلائی ملبے کے سگنلز اور کہکشانی سگنلز میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔

  • آج رواں سال کا طویل ترین دن اور مختصر ترین رات

    آج رواں سال کا طویل ترین دن اور مختصر ترین رات

    کراچی: آج رواں سال 2025 کا طویل ترین دن اور مختصر ترین رات ہوگی۔

    ماہر فلکیات کا کہنا ہے کہ آج دن 13 گھنٹے 41 منٹ کا ہوگا، جب کہ رات 10 گھنٹے 19 منٹ کی ہوگی، یکم جولائی کے بعد دن کا دورانیہ بتدریج کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

    ماہر فلکیات کے مطابق 22 ستمبر کو دن اور رات کا دورانیہ تقریباً برابر ہو جاتا ہے۔

    ادھر آج کراچی میں صبح سویرے ہلکی بوندا باندی کے بعد موسم خوش گوار ہو گیا ہے، محکمہ موسمیات کے مطابق شہر کا موسم ابر الود رہے گا، جب کہ دن کے اوقات میں بھی ہلکی بوندا باندی کا امکان ہے۔

    لاہور میں بادلوں نے ڈیرے ڈال دیے ہیں، ہوا چلنے سے گرمی کی شدت میں کمی آ گئی ہے، راولپنڈی، اسلام آباد اور گرد و نواح میں رات گئے بارش سے گرمی کا زور ٹوٹ گیا۔

    محکمہ موسمیات نے آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران لاہور، سرگودھا، فیصل آباد، جھنگ، سیالکوٹ، نارووال، ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، پشاور، صوابی، مردان میں بارش کی پیشگوئی کی ہے، کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی گرج چمک کے ساتھ باش کا امکان ہے۔

  • زمین پر موجود زندگی کو درپیش ممکنہ خطرات کیا ہیں؟

    زمین پر موجود زندگی کو درپیش ممکنہ خطرات کیا ہیں؟

    تحریر: ملک شعیب

    نظام شمسی کے 8 سیاروں میں سے، زمین ترتیب کے لحاظ سے تیسرا چٹانی سیارہ ہے اور مشاہدہ کائنات میں صرف زمین ہی واحد سیارہ ہے جہاں زندگی موجود ہے۔ زمین پر زندگی کیسے وجود میں آئی، معدنیات کیسے وجود میں آئے، پانی کہاں سے آیا، مقناطیسی میدان کیسے بنا، فضاء کیسے بنی، پہاڑ کیسے بنے، سمندر کیسے وجود میں آئے، آتش فشاں کیسے بنے، دریا کیسے بنے اور جنگلات کیسے وجود میں آئے؟ یہ سب الگ الگ موضوعات ہیں۔

    آج میں اپنے سیارے زمین کو لاحق خطرات اور اس پر پھلنے پھولنے والی زندگی پر بات کروں گا۔

    زمین کو اپنے آغاز ہی سے بہت سی سختیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اپنی ابتدا میں یہ بہت گرم تھی لیکن آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور پھر مختلف موسمی اور ارضیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے اس قابل ہوئی کے زندگی نے اس پر جنم لیا۔ لیکن آج انسانی آبادی میں مسلسل اضافے، سائنسی ترقی اور وسائل کے بے دریغ استعمال کے باعث زمین اپنا قدرتی وجود آہستہ آہستہ کھو رہی ہے۔ قدرت کا ایک ایسا نظام ہے جو توازن برقرار رکھتا ہے اور اس میں خلل ڈالنے والی ہر شے کو تباہ کر دیتی ہے۔

    تاہم، ہماری زمین کو اس وقت متعدد خطرات کا سامنا ہے جو درج ذیل ہیں:

    1۔ ماحولیاتی آلودگی:

    اس وقت زمین کو سب سے زیادہ نقصان ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ بنیادی طور پر فضائی آلودگی، جو مختلف گیسوں پر مشتمل ہوتی ہے، اور انسانی صحت اور ماحولیات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہ آلودگی زمین کی فضا میں موجود اوزون لہر کو کم زور کر رہی ہے اور زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ مزید برآں، آبی اور زمینی آلودگی بھی زمینی نظام کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔

    2۔ موسمیاتی تبدیلی:

    بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ مختلف خطوں کو سمندر کی سطح میں اضافے اور موسم کی تبدیلیوں (جیسے لا نینا اور ال نینو) کی وجہ سے بے وقت بارشوں، طوفانوں اور خشک سالی جیسے خطرات کا سامنا ہے۔

    3۔ جنگلات کی کٹائی:

    جنگلات کی بڑھتی ہوئی کٹائی اور خشک سالی آگ کا باعث بن رہی ہے۔ یہ زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے اور زمین کے ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے والے جنگلی حیات اور پھول دار پودوں کے غائب ہونے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ عمل ماحولیاتی توازن کو تباہ کر رہا ہے۔

    4۔ آبادی میں اضافہ:

    زمین پر آبادی میں مسلسل اضافہ کرہ ارض کے وسائل پر دباؤ ڈال رہا ہے، جس کے نتیجے میں خوراک، پانی اور توانائی جیسے وسائل میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

    5۔ قدرتی وسائل کا استحصال:

    آبادی میں اضافے کی وجہ سے قدرتی وسائل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ پانی کا اندھا دھند استعمال زیر زمین ذخائر کو ختم کر رہا ہے، جس سے ارضیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

    6۔ بڑھتی ہوئی صنعتی اور سائنسی ترقی:

    سائنسی ترقی نے جہاں انسانیت کو فائدہ پہنچایا ہے، وہیں اس سے ماحولیات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ صنعتی آلودگی اور خلا میں بھیجے گئے مختلف خلائی مشنز کا رہ جانے والا ملبہ (جو زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے) زمین پر زندگی کے لیے اہم خطرات کا باعث ہے۔

    7۔ جوہری خطرات:

    جوہری ہتھیاروں کے مسلسل پھیلاؤ اور جوہری توانائی کا استعمال زمین پر موجود ہر طرح کی زندگی کے لیے شدید خطرہ ہے۔

    8۔ شہابیوں کا خطرہ:

    مریخ اور مشتری کے درمیان موجود سیارچوی پٹی میں موجود میٹیورائٹس، جن کا سائز ایک میٹر سے 800 کلومیٹر یا اس سے زیادہ ہے، زمین کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ شہاب ثاقب زمین کے مدار میں داخل ہو سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر کرہ ارض کو تباہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ ماضی میں الکا کے اثرات کی وجہ سے ڈائنوسار کے معدوم ہونے کا ثبوت ہے۔

    زمین پر ان بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے ہمارے سیارے پر زندگی شدید خطرے میں ہے۔ اگر حکومتوں نے ماحولیاتی اور ارضیاتی سائنس دانوں کی طرف سے اجاگر کیے گئے خطرات پر توجہ نہیں دی، تو وہ وقت دور نہیں جب زمین پر موجود زندگی سسك سسك کر ختم ہو جائے گی۔

  • جہاز ہوا میں معلق ہو تو کیا اس کے نیچے موجود مقام آگے بڑھے گا؟

    جہاز ہوا میں معلق ہو تو کیا اس کے نیچے موجود مقام آگے بڑھے گا؟

    تحریر: ملک شعیب

    سوال: جہاز یا ہیلی کاپٹر ایک جگہ کھڑا ہو جائے تو کیا اس کے نیچے سے زمین یا مقام آگے بڑھ جائے گا؟

    ہماری زمین اپنی فضا کے ساتھ سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے اور اپنے محور میں بھی گردش کر رہی ہے۔ زمین کی کشش ثقل ہر چیز کو اپنے مرکز یعنی کور کی جانب کھینچ رہی ہے، جس کی وجہ سے زمین کے اندر موجود ہر شے زمین کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی۔

    جہاز اڑتا ہے لیکن وہ زمین کی فضا کے اندر ہے اور کشش ثقل کی قید میں ہے، لیکن اس میں موجود توانائی جہاز کا توازن قائم رکھے اسے آگے بڑھا رہی ہے، جس کی وجہ سے جہاز زمین پر گرتا نہیں ہے بلکہ آگے بڑھتا ہے۔

    جب تک ہر شے زمین کی کشش ثقل کی قید میں ہوگی تب تک وہ زمین سے باہر نہیں جا سکتی۔

    لہٰذا اس سوال کا جواب یہ ہے کے اگر جہاز ہوا میں معلق ہو جائے تو اس کے نیچے جو مقام ہوگا، وہ آگے نہیں بڑھے گا۔ وجہ پھر وہی ہے کہ ہر شے جو زمین پر ہے یا ہوا میں معلق ہے، وہ ایک ڈوم میں قید ہے۔

    اسی طرح چلتی ہوئی ٹرین یا بس کو بھی ایک ڈوم سمجھیں۔ جب تک ایک ڈرون ٹرین یا بس میں ایک جگہ کھڑا رہے گا، تو اس کے نیچے سے ٹرین یا بس آگے نہیں بڑھ جائے گی بلکہ ڈرون کھڑی حالت میں بھی ٹرین یا بس کے ساتھ ہی آگے بڑھے گا۔

    جیسے ہی ڈرون، ٹرین یا بس کے فریم آف ریفرنس سے باہر نکلے گا تو دونوں کے راستے الگ الگ ہو جائیں گے۔ اسی طرح جو بھی چیز زمین سے باہر نکلے گی اس کے اور زمین کے راستے الگ الگ ہو جائیں گے۔ جس طرح جیمز ویب ٹیلی اسکوپ زمین کی حدود سے باہر ہے لیکن سورج کی کشش ثقل میں مقید ہے۔

  • ڈیڑھ سو سال بعد آج آسمان پر حیرت انگیز نظارہ دکھائی دے گا

    ڈیڑھ سو سال بعد آج آسمان پر حیرت انگیز نظارہ دکھائی دے گا

    آج 24 جون کی رات آسمان پر ایک حیرت انگیز نظارہ دکھائی دے گا، یہ نظارہ 158 سال قبل دکھائی دیا تھا۔

    اگر آپ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر اس ہفتے آسمان پر ایک خوبصورت نظارہ آپ کا منتظر ہوگا، جو صدیوں بعد ہی دکھائی دیتا ہے۔ چاند 5 سیاروں کے ساتھ ایک قطار میں دکھائی دے گا۔

    آج سے زمین کا چاند نظام شمسی کے دیگر 5 ستاروں کے ساتھ ایک ترتیب تشکیل دے رہا ہے، جو اہل زمین کے لیے صدیوں بعد ایک دل نشین و محسور کن منظر پیش کرے گا۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق یہ نظارہ اس سے قبل 158 سال قبل دکھائی دیا تھا، چاند کی اس ترتیب میں 5 سیارے عطارد، زہرہ، مریخ، مشتری اور زحل ایک قطار میں آجائیں گے اور یہ ترتیب اگلے 2 دن یعنی 25 جون تک برقرار رہے گی۔

    سورج کے ساتھ قربت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ پانچوں ستارے ایک دل نشین پریڈ تشکیل دیں گے جو دیکھنے والوں کو حیرت سے گنگ کردینے کے لیے کافی ہے۔

    اس حوالے سے خلائی ماہرین کا کہنا ہے کہ نظام شمسی میں سیاروں کی چاند کے ساتھ یہ ترتیب شاذ و نادر ہوتی ہے، اس سے قبل یہ حیران کن نظارہ 5 مارچ 1864 میں دیکھا گیا تھا۔

    اس مظاہر قدرت میں سب سے شاندار بات تو یہ ہے کہ چاند بذات خود سیارہ نہیں ہے لیکن وہ بھی ان سیاروں کے ساتھ اس قطار کو ترتیب دے گا۔

    جون کے مہنے میں یہ پانچوں سیارے ترتیب پا چکے ہیں تاہم اس ماہ کے آخر تک انہیں واضح طور پر دیکھا جا سکے گا، یہ ترتیب آسمان پر ایک پھیلی ہوئی خم دار کمان کی شکل میں مشرق سے شمال مشرق اور پھر جنوب میں دکھائی دے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دل آویز آسمانی پریڈ میں رات کے وسط تک زحل دکھائی دے گا، پھر بتدریج مشتری اور مریخ، اس کے 30 سے 40 منٹ بعد زہرہ اور طلوع آفتاب سے کچھ دیر قبل عطارد دکھائی دے گا۔

    چاند کی سیاروں کے ساتھ اس ترتیب سے زمین کو بھی اپنی پوزیشن کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔

  • زمین جیسے ماحول والا سیارہ دریافت

    زمین جیسے ماحول والا سیارہ دریافت

    ماہرین فلکیات نے ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جس کا ماحول زمین جیسا ہے، یہ زمین سے 322 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نظامِ شمسی کے باہر موجود ایک انتہائی گرم مشتری کے جیسے سیارے میں، جس کا درجہ حرارت 32 سو ڈگری سیلسیس تک چلا جاتا ہے، حیران کن طور پر زمین کے جیسے ایٹماسفیئر کی تہہ ہے۔

    سوئیڈن اور سوئٹزرلینڈ کا ماہرین نے ہائی ریزولوشن اسپیکٹرواسکوپی کا استعمال کرتے ہوئے نظام شمسی کے باہر موجود سیارے کے پیچیدہ ایٹماسفیئر کے متعلق مزید باتیں دریافت کیں۔

    سنہ 2018 میں وائڈ اینگل سرچ فار پلینٹس کے تحت دریافت کیا گیا کہ یہ گیس کا دیو ہیکل سیارہ، جو زمین سے 322 نوری سال کے فاصلے پر ہے، اپنے مرکزی ستارے کے گرد گھومتا ہے۔

    اب ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ سیارے کا ایٹماسفیئر ایک کاک ٹیل پر مشتمل ہے جس میں ٹائٹینیم آکسائیڈ، آئرن، ٹائٹینیم، کرومیم، وینیڈیم، میگنیشیم اور میگنیز شامل ہیں۔

    اس کو پہلے انتہائی متشدد سیاروں کے طور پر بیان کیا گیا تھا جس کی سطح کا درجہ حرارت اتنا گرم ہے کہ فولاد بھی بخارات میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

    مشتری سے ڈیڑھ گنا بڑے سیارے کا اپنے مرکزی سیارے سے فاصلہ، زمین اور سورج کے درمیان فاصلے کی نسبت 20 گنا کم ہے کیونکہ یہ اپنے مرکزی ستارے سے اتنا قریب ہے اس لیے اس سیارے کا سال 2.7 دن کا ہوتا ہے۔

    اس سیارے کی منفرد خصوصیات کے باوجود ماہرین نے سیارے کے ایٹماسفیئر کا موازنہ زمین سے کیا ہے، کم از کم سطحوں کے اعتبار سے۔ زمین کا ایٹماسفیئر یکساں لفافے کی طرح نہیں ہے لیکن مختلف تہوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں ہر ایک میں علیحدہ خصوصیات ہوتی ہیں۔

  • سورج کی سطح پر دکھائی دینے والے سیاہ دھبوں کا اسرار کیا ہے؟

    سورج کی سطح پر دکھائی دینے والے سیاہ دھبوں کا اسرار کیا ہے؟

    ریاض: اتوار کی صبح سورج کی سطح پر 4 مختلف مقامات پر ایک ہی وقت میں مختلف سیاہ دھبے دکھائی دیے۔ یہ دھبے سعودی عرب سمیت متعدد ممالک میں نمایاں طور پر نظر آئے، جولائی کے بعد یہ اس نوعیت کا دوسرا فلکیاتی مظہر ہے۔

    جدہ میں فلکیاتی سوسائٹی کے صدر انجینیئر ماجد ابو زہرا کا کہنا ہے کہ سورج کے دھبوں کا اچانک ظہور پچیسویں نئے شمسی چکر کی طاقت کی علامت اور انتہائی گہری، کم سے کم حالت سے پچھلے چکر میں باہر نکلنا ہے۔

    ایسا لگتا ہے کہ یہ شمسی چکر شیڈول سے آگے جا رہا ہے۔ جیسا کہ توقع تھی کہ یہ سنہ 2025 میں عروج پر پہنچ جائے گا۔ سابقہ سائنسی نظریات بھی اسی کی تائید کرتے ہیں مگر شمسی چکر کی زیادہ سے زیادہ سرگرمی ایک سال پہلے بھی ہو سکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نیا شمسی چکر سنہ 2020 کے دوسرے نصف حصے میں شروع ہوا، پچھلے مہینوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سورج پر سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔

    ایک خیال ہے کہ یہ گزشتہ چار چکروں کے دوران دیکھی جانے والی شمسی سرگرمی کی کمزوری کو توڑ دے گا اور اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو یہ 2024 میں عروج پر پہنچ سکتا ہے۔

    ابو زہرا کا کہنا تھا کہ اس سال سنہ 2021 کے بقیہ حصے میں اور اگلے سال 2022 کے دوران سورج کی جگہوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ کرنا شروع ہو جائے گا، پھر یہ معلوم ہو جائے گا کہ سولر سائیکل 25 پیش گوئیوں کے مطابق ہے یا مختلف ہے۔

    شمسی سائیکل اب بھی ایک ابھرتی ہوئی سائنس ہے اور اس کے حوالے سے اب بھی بہت سی غیر یقینی صورتحال ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ شمسی سائیکل کی سرگرمی کی پیش گوئی کرنے سے خلائی موسم کے طوفانوں کی تکرار کا اندازہ ہوتا ہے، ریڈیو میں خلل سے لے کر جغرافیائی طوفان اور شمسی تابکاری کے طوفان تک یہ پیش گوئیاں کئی اطراف سے استعمال ہوتی ہیں اور ان سے آنے والے سالوں میں خلائی موسم کے ممکنہ اثرات کا تعین کیا جاتا ہے۔

  • ہمارے نظام شمسی سے باہر پہلی بار اہم دریافت

    ہمارے نظام شمسی سے باہر پہلی بار اہم دریافت

    ماہرین فلکیات نے پہلی بار ہمارے نظام شمسی سے باہر کسی سیارے کا مشاہدہ کیا ہے، نظام شمسی سے باہر سیاروں کو اب تک ان کی ثقلی امواج کے ذریعے دریافت کیا جاتا تھا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ماہرین فلکیات کی جانب سے تاریخ میں پہلی بار نظام شمسی سے باہر کسی سیارے کا براہ راست مشاہدہ کیا گیا ہے اور اس کی اصل تصاویر لی گئی ہیں۔

    اب سے قبل تک نظام شمسی سے باہر کسی سیارے (ایگزو پلینٹ) کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ثقلی امواج یا اس کے اثر سے سیارے کا پتہ لگایا جاتا تھا۔

    جرنل آف ایسٹرونومی اینڈ ایسٹرو فزکس میں گزشتہ روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق نظام شمسی سے باہر یہ سیارہ زمین سے 63 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے جو گیسی ستارے، بیٹا پِکٹورِس سی کے گرد گھوم رہا ہے۔

    یہ سیارہ بہت نوا خیز اور سرگرم ہے جس کی عمر صرف 23 ملین سال ہے، اس سیارے کے گرد گیس اور گرد و غبار اب بھی موجود ہے جس کے ساتھ ساتھ کئی سیارے بھی موجود ہیں، اب تک ایسے دو سیارے دریافت ہو چکے ہیں۔

    ماہرین فلکیات کی جانب سے پہلی بار براہ راست اس کی روشنی اور کمیت بھی نوٹ کی گئی ہے، اپنی نو عمری کی وجہ سے اس پر تحقیق کر کے سیاروں کی تشکیل کو بہت حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔

    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اب تک کسی بھی ایگزو پلینٹ کو براہ راست نہیں دیکھا گیا ہے تاہم اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پہلی بار کسی سیارے کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

  • پاکستان میں سورج کو گرہن لگ گیا، مختلف شہروں میں نماز کسوف ادا کی گئی

    پاکستان میں سورج کو گرہن لگ گیا، مختلف شہروں میں نماز کسوف ادا کی گئی

    کراچی: پاکستان میں سورج کو گرہن لگ گیا، سورج گرہن 8 بج کر37 منٹ پر اپنے عروج پر پہنچا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں سورج کو گرہن لگ گیا ہے، گرہن آٹھ بجکر سینتیس منٹ پر عروج پر پہنچا، گرہن لگنے کا یہ عمل دوپہر ایک بجے کے قریب ختم ہو جائے گا۔

    اس سال سورج گرہن کو رِنگ آف فائر کا نام دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں آخری سورج گرہن 1999 میں دیکھا گیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گرہن لگنے کے دوران سورج کا براہ راست نظارہ نہ کیا جائے، سورج گرہن کو حفاظتی چشمہ لگا کر دیکھا جا سکتا ہے۔

    سورج گرہن کے موقع پر کراچی، کوئٹہ، پشاور، اسلام آباد میں مختلف مقامات پر نماز کسوف ادا کی گئی، نماز کسوف کے بعد ملک کی سلامتی کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ سورج گرہن اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے، ان لمحات میں نماز کسوف ادا کی جائے۔

    یہ بھی پڑھیں:  سورج کو گرہن کب لگے گا؟

    واضح رہے کہ یہ دنیا بھر میں رواں سال کا آخری سورج گرہن ہے جسے پاکستان کے ساحلی علاقوں کراچی اور گوادر میں بھی دیکھا جا سکے گا۔ ماہرین فلکیات کے مطابق پاکستان میں سورج گرہن کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح 7 بج کر 30 منٹ پر ہوا اور 8 بج کر 37 منٹ پر یہ اپنے عروج کو پہنچے گا۔

    ماہرین نے کہا تھا کہ دن کے وقت میں اندھیرا ہو جائے گا کیوں کہ چاند سورج کے بالکل آگے آ جائے گا جس کی وجہ سے اُس کی روشنی کم پڑ جائے گی۔ اس سورج گرہن کو گزشتہ دس سال کا سب سے طاقت ور ترین قرار دیا جا رہا ہے۔