Tag: فلکیات

  • سورج کو گرہن کب لگے گا؟

    سورج کو گرہن کب لگے گا؟

    اسلام آباد: سال 2019 کا آخری مکمل سورج گرہن 26 دسمبر کو ہونے جارہا ہے، مکمل سورج گرہن کا نظارہ یورپ، ایشیا (بشمول پاکستان)، آسٹریلیا، افریقہ، پیسیفک اور انڈین اوشین میں دیکھا جا سکے گا۔

    سنہ 2019 کا آخری سورج گرہن اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ 118 برس بعد ہونے جارہا ہے، یہ گرہن اپنی نوعیت کا منفرد دائرہ نما سورج گرہن ہوگا۔

    آئندہ اس طرح کا سورج گرہن 84 برس بعد سنہ 2102 میں دیکھا جا سکے گا۔ گرہن کا دورانیہ 12 منٹ اور 30 سیکنڈ ہوگا۔

    گرہن پاکستانی وقت کے مطابق صبح 7 بج کر 30 منٹ پر شروع ہوگا، 8 بج کر 37 منٹ پر یہ اپنے عروج پر ہوگا، گرہن دوپہر 1 بج کر 6 منٹ تک مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔

    یہ سورج گرہن رواں برس کا چوتھا سورج گرہن ہے۔ سال 2019 میں پہلا سورج گرہن 6 جنوری کو ہوا تھا جو جزوی تھا۔

    سال کا دوسرا اور تیسرا مکمل سورج گرہن 2 اور 3 جولائی کو ہوا تھا۔ پہلے تینوں سورج گرہن کا نظارہ پاکستان میں نہیں دیکھا گیا تھا۔

    سورج گرہن کے دوران مندرجہ ذیل احتیاطیں کی جانی ضروری ہیں:

    گرہن کے دوران زیادہ دیر تک سورج کی طرف نہ دیکھیں اور سولر فلٹر استعمال کریں ورنہ آنکھوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سورج گرہن کے دوران سیلفی لینے کی کوشش نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

    عام سن گلاسز کے بجائے خصوصی ڈیزائن کردہ سولر فلٹر گلاسز استعمال کیے جائیں جو مہلک شعاعوں کو روکتے ہیں۔

    کیمرے کے لینس کے لیے بھی خصوصی طور پر تیار کردہ فلٹر استعمال کیا جائے۔

  • زحل کے گرد موجود حسین حلقے زیادہ عرصہ نہیں رہیں گے

    زحل کے گرد موجود حسین حلقے زیادہ عرصہ نہیں رہیں گے

    ہمارے نظامِ شمسی کے سیارہ زحل کو اس کے گرد موجود خوبصورت چھلے اسے منفرد بناتے ہیں، لیکن ہم یہ نظارہ زیادہ عرصے تک دیکھ کرمحظوظ نہیں ہوسکیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی ادارے ناسا نے انکشاف کیا ہے کہ زحل کے گرد موجود چھلے آہستہ آہستہ تحلیل ہورہے ہیں اورآئندہ دس کروڑ سال میں یہ مکمل طور پر غائب ہوجائیں گے۔

    جی ہاں ! آپ نے صحیح پڑھا ، اس سارے عمل میں دس کروڑ سال کا عرصہ لگے گا ، ہمارے سننے میں یہ عرصہ شاید زیادہ ہو لیکن زحل جس کی کل عمر چار ارب سال سے زائد ہے ، اس کے لیے یہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہے۔

    امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق یہ انکشاف رواں سال زحل کی سطح پر اپنا 13 سالہ طویل سفر ختم کرنے والے خلائی جہاز’کیسینی‘ سے موصول ہونے والے ڈیٹا پر تحقیق کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔

    اس تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ گیس سے بنے اس سیارے کے گرد موجود یہ خوبصورت حلقے جو کہ بنیادی طور پر منجمد برف سے بنے ہوئے ہیں، سیارے کی کشش ِ ثقل کا شکار ہورہا ہے اور زحل کی سطح پر اس حلقے سے ہونے والی بارش کا پانی جمع ہورہا ہے۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق زحل کی کشش ثقل اپنے حلقے سے اتنا پانی کشید کررہی ہے کہ جس مقدار سے آدھے گھنٹے میں ایک بڑا سوئمنگ پول بھرجائے۔ یہ اندازہ تحقیق کے سربراہ جیمز او ڈونوغ نے لگایا ہے۔

    خیال رہے کہ ماہرین کا ماننا تھا کہ زحل کے حلقے اس کےساتھ ہی وجود میں آئے تھے لیکن اب نئی تحقیق کے بعد وہ یقین کرنے لگے ہیں یہ حلقے عارضی مدت کے لیے تھے اور اب رفتہ رفتہ یہ ختم ہوجائیں گے۔

    اگر آپ نے زحل کے حلقوں کا دوربین سے ابھی تک مشاہدہ نہیں کیا ہے تو جلدی سے کسی خلائی مرکز تشریف لے جائیں، جہاں سے ان حلقوں کا نظارہ ممکن ہو، اس سے قبل کہ وہ ختم ہوجائیں۔

  • پانچ قرآنی آیات جنہوں نے سائنسدانوں کو حیران کردیا

    پانچ قرآنی آیات جنہوں نے سائنسدانوں کو حیران کردیا

    آج کی جدید سائنس ایسے ایسے میدان سر کررہی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ، آج انسانی ایجادات خلا کی وسعتوں کو چیرتے ہوئے نظامِ شمسی سے باہر نکل چکی ہیں اور بہت جلد ہی یہ انسان پڑوسی سیارے پر آباد ہونے کی تیاری کررہا ہے۔

    آج سے ایک صدی پہلے تک یہ سب خواب و خیال کی باتیں تھی اور اگر کوئی ایسے نظریات پیش کرتا تو اسے دیوانہ تصور کیا جاتا تھا، لیکن آج کی دنیا میں یہ سب حقیقت ہے۔

    سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ایک صدی پہلے تک یہ سب دیوانگی سمجھا جارہا تھا تو آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے صحرا میں ہمارے نبی ﷺ مدینے کی مسجد کے منبر سے افلاک کی وسعتوں کے بارے میں ایسی آیات مسلمانوں کو حفظ کرارہے تھے جن کے بارے میں صدیوں ابہام رہا اور اب انسانی ارتقاء کی اس جدید ترین صدی میں ان کی تصدیق ممکن ہوئی ہے۔

    یہاں ہم پیش کررہے ہیں کچھ ایسی آیات جو کہ کائنات کی وسعتوں پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو بھی حیران کیے ہوئے ہیں۔


    جب کوئی نہیں جانتا تھا کہ چاند اور سورج ایک مقررہ حساب سے اپنا کام انجام دے رہیں تب سورہ رحمان کی آیت پانچ میں قرآن کہتا ہے

    [bs-quote quote=”والشمس والقمر بحسبان

    آفتاب اور مہتاب (مقررہ) حساب سے ہیں

    ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    سورہ رحمان کی آیت 19 اور 20میں خالق ِ کائنات زمیں پر موجود نمکین اور میٹھے پانی کے فرق کو بیا ن کرتا ہے۔

    [bs-quote quote=”مرج البحرین یلتقیان۔ بینھما برزخ لا یبغن

    اور اس نے دو دریا جاری کردیے جو آپس میں مل جاتے ہیں ۔ ان دونوں کے درمیان برزخ) ہے کہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔

    ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    قدیم زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد طواف کرتا ہے، ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ سورج اپنی جگہ ساکن ہے ، لیکن قرآن نے دونوں نظریات سے ہٹ کر سورہ یس کی آیت نمبر 38 میں بیان کیا کہ

    [bs-quote quote=”والشمس تجری لمستقر لھا ۔ ذلک تقدیر العزیز العلیم

    اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالٰی کا” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    آج سائنس داں جانتے ہیں کہ سورج جسے ساکن تصور کیا جاتا ہے درحقیقت اپنے پورے نظامِ شمسی اور اس سے بڑھ کر یہ پوری کہکشاں ایک نامعلوم سمت میں رواں دواں ہے۔

    آج سے14 سو سال قبل جب عرب میں اسلام ، محمد عربی ﷺ کے زیر سایہ نمو پارہا تھا ، اس زمانے کے ماہرینِ فلکیات سمجھتے تھے کہ چاند ، سورج اور ستارے درحقیقت آسمان میں لٹکے ہوئے چراغ ہیں اور اپنی جگہ ساکن ہیں لیکن قرآن نے سورہ یس کی آیت نمبر 40 میں انکشاف کیا کہ

    [bs-quote quote=”لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر والا اللیل سابق النھار۔ وکل فی فلک یسبحون

    نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    آسمان کے لیے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ اپنی جگہ پر جامد ہے لیکن جب جدید سائنس نے انسان کو اس آسمان یعنی خلا کی وسعتوں تک رسائی دی تو انکشاف ہوا کہ یہ مسلسل پھیل رہی ہے، اس امر کو اللہ قرآن کی سورہ الذریات کی آیت نمبر 47 میں کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ

    [bs-quote quote=”والسما بنینا ہا باید وانالموسعون

    اس آسمان کو ہم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم اسے مسلسل پھیلاتے چلے جارہے ہیں” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]


    یقیناً بحیثیتِ مسلم ہمارے لیے یہ امر قابلِ ا فتخار ہے کہ آج جو کچھ سائنس دریافت کررہی ہے اس کے اشارے ہمیں قرآن نے 14 صدیوں قبل ہی دے دیے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ امر بھی ہمارے لیے قابلِ غور ہے کہ یہ قرآن ہمارے لیے ہی نازل کیا گیا تھا۔ ہمارے رب نے اسے انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ حیات قرار دے کر ہم سے کہا تھا کہ اس ( قرآن ) میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

    کیا ہی اچھا ہو کہ ہم محض غیر مسلموں کی دریافتوں کو قرآن سے سند عطا کرنے کے بجائے خود آگے بڑھیں اور علم و تحقیق کی دنیا میں ایسے ایسے کام کرجائیں کہ دنیا قرآن کا مطالعہ کرکے ایک دوسرے سے کہیں،  کہ دیکھو! مسلمانوں کو ان کے رب نے جو نشانی قرآن میں بتائی تھی وہ انہوں نے دریافت کر ڈالی ہے۔

    آج کی دنیا علم و فن کی دنیا ہے، تیز رفتار سائنسی ترقی کی دنیا ہے اگر ہم نے اس میدان کی جانب توجہ نہیں دی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا حشر بھی ویسا ہی ہو، جیسا کہ ہم سے اگلوں کا ہوا اور ان کے قصے بھی اسی قرآن میں ہمیں کھول کھول کر بیان کیے گئے ہیں کہ ہم ہدایت حاصل کرسکیں۔

  • آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش آج ہوگی

    آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش آج ہوگی

    آسمان سے مینہ برستے تو ہم سب آئے روز دیکھتے رہتے ہیں مگر آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جو صدیوں سے انسان کے تجسس کو بھڑکائے ہوئے ہے اور قدیم تہذیبوں میں اس حوالے سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں مگر موجودہ دور میں سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں روز افزوں پیش رفت کی بدولت یہ گتھی انسان نے سلجھا لی ہے، آج کی رات وہ علاقے جہاں مصںوعی روشنیاں کم اور مطلع صاف رہے گا وہاں آسمان سے گرتے ان پتھروں کا مشاہدہ کیا جاسکے گا۔

    یہ پتھر دراصل فلکیاتی چٹانیں ( راکس) ہیں جو پوری کائنات اور ہمارے نظام ِ شمسی میں آوارہ گردی کر رہے ہیں ۔ جنھیں’می ٹیور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ پتھر اِدھر اُدھر بھٹکتے ہوئے جب سیارۂ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو ہوا کی رگڑ ان کا اندرونی درجۂ حرارت بڑھا دیتی ہے،جس کے باعث یہ بھڑک اٹھتے ہیں اور زمین سے دیکھنے پر یہ روشن پتھروں کی بارش معلوم ہوتی ہے جسے ’می ٹیور شاور ‘ کہا جاتا ہے ۔ عموما ََ می ٹیور شاورز کا مشاہدہ اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی دم دار ستارہ زمین کے پاس سے گزرتا ہے ۔ چونکہ دم دار ستارے بھی سورج ہی کے گرد محو ِ گردش ہیں ۔لہذاٰ انکی دم سے خارج ہونے والی ’ڈسٹ ‘ یا چھوٹے چھوٹے چٹانی پتھر دھار کی صورت میں پیچھے رہ جاتے ہیں جنھیں ’شوٹنگ سٹار ‘یا ’فالنگ سٹار ‘ بھی کہا جاتا ہے ۔

    یہ دراصل خلا میں ہر جانب بکھری ہوئی چٹانیں یا کنکریاں ہیں جو سائز میں نسبتا ََ بڑی ہو تی ہیں اور لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے 70 سے 100 کلومیٹر کی بلندی پر گرتے نظر آتے ہیں ، لیکن ان میں سے کوئی شاذو نادر ہی زمین پر آگرتا ہے کیونکہ ہوا سے مسلسل رگڑ کے باعث زمینی ماحول میں یہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں ۔ اگرچہ ایک شاور میں یہ پتھر ہر جانب سے گرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اگر ان کے راستے کی خط کشی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ سارے پتھر خلا کے ایک مخصوص علاقے یا مقام سے آرہے ہوتے ہیں ۔لہذا ٰ ہر می ٹیورشاور کا نام ’کانسٹی لیشن‘ یا برج ( ستاروں کا جھرمٹ ) کے نام کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے ۔

    سنہ 2018 میں نظر آنے والے چند اہم می ٹیور شاورز مندرجہ ذیل ہیں ۔

    پرسیڈ می ٹیورشاور: دنیا بھر سے فلکیات کے شائقین نے 13 اگست 2018 کی رات کو شہابیوں کے گرنے کی جس بارش کا مشا ہدہ کیا تھا اسے پر سیڈ می ٹیور شاور کہا جاتا ہے۔ جو 20 اگست تک ہر رات دیکھا گیا تھا مگر اس میں 13 اگست کی رات شدت تھی جس میں پتھروں کے گرنے کی تعداد 80 فی گھنٹہ تھی۔ اس شاور کا باعث بننے والے دم دار ستارے کا نام سوفٹ ٹرٹل ہے جس کا سورج کے گرد ایک چکر133 سال میں مکمل ہوتا ہے ۔ چونکہ 13 اگست کی رات چاند کی دو تاریخ تھی لہذا ٰ چاندنی بالکل نہ ہونے کے باعث اسے 30 سے 40 ڈگری کے زاویئے پر بہت واضح دیکھا گیا تھا۔ اس می ٹیور شاور میں گرنے والے پتھر ایک دوسرے سے اتنے کم فاصلے پر تھے کہ گرتے ہوئے کسی دھار یا روشن لکیرکی طرح معلوم پڑتے تھے۔ یہ بارش کو پرسیڈ شاور کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ یہ پرشس کانسٹی لیشن کی جانب سے ہوتی ہے اور جس مقام سے یہ گرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اسے فلکیات میں ‘ ریڈینٹ ‘ کہا جاتا ہے۔ اس شاور کو سب سے پہلے 1865 میں مشاہدہ کیا گیا تھا جس میں مکمل شدت سے پہلے ایک دفعہ پتھروں کے گرنے میں ہلکی شدت آتی ہے اور پھر کچھ وقفے کے بعد وہ زیادہ تعداد میں گرنے لگتے ہیں۔ پرسیڈ می ٹیور کا مشاہدہ 17 جولائی 2018 کی رات کو بھی کیا گیا تھا۔

    اورینائڈ می ٹیور شاور: آسمانی پتھروں کی یہ بارش ہیلی کی دم دار ستارے کے زمین کے قریب سے گزرنے کے باعث دکھائی دیتی ہے۔ چونکہ یہ بارش اورین کانسٹی لیشن کی جانب سے ہوتی ہے اس لیئے اسے اورینائڈ می ٹیور شاور کہا جاتا ہے۔ اکتوبر 2018 میں 16 سے 30 اکتوبر کی راتوں میں اورینائڈ می ٹیور شاور ہر رات دیکھا گیا ۔ جس میں شدت 21 اکتوبر کی رات میں تھی اور اس رات فی گھنٹہ 25 شہابیئے گرتے ہوئے دیکھے گئے۔ جو آسمان پر 30 سے 40 ڈگری کے فاصلے پر واضح دکھائی دیئے۔ مگر 21 اکتوبر کو چاند کی 12 تاریخ ہونے اور بھرپور روشنی ہونے کے باعث آسمانی پتھروں کی یہ بارش اتنی واضح نہیں تھی۔

    ٹورڈ می ٹیور شاور: فلکیات کے شائقین نے 5 نومبر 2018 کی رات کو آسمان سے پتھروں کی جس بارش کا مشاہدہ کیا اسے ٹورڈ می ٹیور شاور کہا جاتا ہےجو ٹورس کانسٹی لیشن کی جانب سے ہو تی ہے۔ اور اس کے باعث گرتے ہوئے می ٹیور کو 30 نومبر تک دیکھا جاسکے گا ۔ جو 2 پی اینکل دم دار ستارے کے زمین کے قریب سے گزرنے کے باعث ہوگی۔ 5 نومبر کی رات گرنے والے شہابیوں کی رفتار فی گھنٹہ دس تھی اور چونکہ اس رات چاند کی 27 تاریخ تھی تو چاند کی روشنی نہ ہو نے کے باعث اس بارش کو 14 ڈگری شمال یا اس سے دور 30 سے 40 ڈگری کے زاویوں پر بہت واضح دیکھا گیا تھا۔

    لیو نائڈ می ٹیورشاور: شوٹنگ یا فالنگ سٹارز کی بارش کبھی بھی محض ایک رات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ عموما ََ یہ ہفتوں تک گرتے نظر آتے رہتے ہیں ہر برس 17 اور 18 نومبر کی درمیانی شب لیو کانسٹی لیشن کی جانب سے لیونائڈ می ٹیور شاور کا مشاہدہ کیا جاتا ہے ۔کیونکہ ان راتوں میں ہماری زمین دم دار ستارے ٹیمپل ٹر ٹل کے بیضوی مدار میں سے ہوتی ہوئی گزرتی ہے ۔ دم دار ستارہ ٹیمپل ٹر ٹل 1865میں دریافت ہوا تھا اور اس کا سورج کے گرد ایک چکر تینتیس سال میں مکمل ہوتا ہے سو لیونائڈ شاور اس حوالے سے منفرد ہے کہ فلکیات کے شائقین اتنے ہی برس بعد دوبارہ اس نظارے سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ چونکہ یہ بارش لیو کانسٹی لیشن کی جانب سے ہوتی ہے اس لیئے اسے لیونائڈ می ٹیور شاور کا نام دیا گیا ہے۔ 2018 میں انہی راتوں میں لیونائڈ می ٹیور شاورچاند کی بھرپور روشنی ہونے کے باعث زیادہ واضح نہیں دیکھا جا سکا۔ ۔ اس رات فی گھنٹہ دس سے پندرہ می ٹیور گرتے ہوئے دکھائی دیئے ۔ اگرچہ پتھروں کے گرنے میں 17 نومبر کی رات شدت تھی مگر 18 نومبر کی رات انھیں زیادہ واضح نہیں دیکھا جاسکا۔

    جیمی نائڈ می ٹیور شاور: سنہ 2018 کی آخری می ٹیور شاور سے فلکیات کے شیدائی 14-13 دسمبر کی رات لطف اندوز ہو سکتے ہیں جسے جمینی کانسٹی لیشن کی مناسبت سے جیمی نائڈ شاور کا نام دیا گیا ہے۔ اسے علی الصبح تین سے چار بجے کے درمیان بہت واضح دیکھا جا سکے گا ۔ اس می ٹیور شاور کی سال کی بہترین بارش کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نا صرف بہت واضح ہوتا ہے بلکہ پتھروں کی گرنے کی رفتار بھی زیادہ اور بہت تیز ہوتی ہے۔2018 میں ان کے گرنے کی رفتار مزید تیز ہوگی اور فی گھنٹہ 100 شہابیے گرنے کی توقع ہے۔ جن کو دیکھنے کا بہترین وقت آدھی رات ہے۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق جیمی نائڈ می ٹیور شاور قدیم زمانے سے مشاہدے کیے جارہے ہیں اور سب سے پہلے 1833 میں اسے دیکھ کر باقاعدہ ریکارڈ بھی جمع کیا گیا ۔ اور یہ مشاہدہ کیا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں پتھروں کے گرنے کی رفتار بڑھتی جارہی ہے کیونکہ مشتری کی گریویٹی ان چھوٹے چھوٹے اجسام کے منبع ایسٹی رائڈ 3200 فائی تھون کو کئی صدیوں سے آگے زمین کی طرف دکھیلتی رہی ہے۔ یہ ایسٹی رائڈ تقریبا 1 سال 4 ماہ میں سورج کے گرد اپنا چکر مکمل کرتا ہے۔

    لہذاٰ اگر آپ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں نومبر اور دسمبر کی راتوں میں آسمانی پتھروں اور چٹانوں کی بارش دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو آپ کو اس کے لیے آبادی اور روشن علاقوں سے دور ایسے مقامات کا رخ کرنا ہوگا جہاں مصنوعی روشنی بالکل نہ ہو اور آپ با آسانی متعلقہ کانسٹی لیشن کی طرف رخ کر سکیں ۔می ٹیور شاوزر کا سادہ آنکھ سے بھی با آسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے قطعا دور بین یا مخصوص فلکیاتی گلاسز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ پاکستان میں ابھی بھی دو بار ٹیور شاورز کا با آسانی مشاہدہ کیا جاسکے گا۔ سو ابھی سے اپنے کیلنڈرز کو مارک کرلیں ۔

  • پندرہ سال بعد آج رات پھر مریخ زمین کے قریب تر آ جائے گا

    پندرہ سال بعد آج رات پھر مریخ زمین کے قریب تر آ جائے گا

    ناسا: امریکی وفاقی اسپیس ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ آج پندرہ سال بعد ایک بار پھر سرخ سیارہ زمین کے قریب تر آ جائے گا جسے رات کے وقت دیکھا جا سکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق آج رات زمین کے ایک طرف آسمان پر سورج اور دوسری طرف مریخ براجمان ہوگا، جو ایک سیدھے خط میں نظر آئیں گے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے کم ترین فاصلے پر ہوں گے، یہ پھر بھی ایک دوسرے سے 57.6 ملین کلو میٹر (5 کروڑ 76 لاکھ کلو میٹر) دوری پر ہوں گے۔

    کہا جا رہا ہے کہ یہ اکتوبر 2020 تک زمین اور مریخ کے درمیان قریب ترین فاصلہ ہوگا، تاہم آج جس طرح سرخ سیارہ واضح طور پر نظر آئے گا اس طرح یہ صرف ہر پندرہ سے سترہ سال کے بعد ہی نظر آیا کرتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو 27 جولائی کو چاند گرہن دیکھ رہے تھے، آسمان میں مریخ کو بھی دیکھ سکیں گے، تاہم یہ آسٹریلیا، جنوبی افریقا اور جنوبی امریکی ممالک ہی میں بہتر طور پر دکھائی دے گا۔

    مریخ پر مائع پانی کی جھیل مل گئی، سائنس دانوں کا دعویٰ

    ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ ہم مریخ کو ستمبر تک دیکھ سکیں گے تاہم یہ ہر گزرتے روز کے ساتھ چھوٹا ہوتا جائے گا کیوں کہ یہ زمین کے قریب ترین مدار کو چھوڑ دے گا۔

    خیال رہے کہ اگر چہ مریخ پندرہ سال بعد زمین کے قریب تر آ رہا ہے اور یہ بہت سارے لوگوں کے لیے ایک نیا اور شان دار منظر ہوگا تاہم جن لوگوں نے اسے 2003 میں دیکھا ہے ان کے لیے یہ منظر نیا نہیں۔

    ناسا نے مریخ پر ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کردیا

    2003 میں مریخ زمین سے ’محض‘ 56 ملین کلو میٹر کے فاصلے پر آ گیا تھا، ناسا کے مطابق یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو 60 ہزار سال کے عرصے میں پیش نہیں آیا تھا اور سال 2287 تک دوبارہ پیش نہیں آئے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • کالی بلا ہمارے سورج کو آہستہ آہستہ کھائے جارہی ہے، ماہرین فلکیات کا انکشاف

    کالی بلا ہمارے سورج کو آہستہ آہستہ کھائے جارہی ہے، ماہرین فلکیات کا انکشاف

    سڈنی: آسٹریلوی ماہرین فلکیات نے انکشاف کیا ہے کہ ایک منحوس بلیک ہول ہمارے سورج کو ہر دو دن بعد آہستہ آہستہ کھاتا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین فلکیات نے کہا ہے کہ معلوم کائینات میں یہ سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا قدیم ترین بلیک ہول ہے جس کی جسامت بیس ارب سورجوں جتنی ہے، جو ہردودن میں ایک درندے کی طرح ہمارے سورج کو کھا کر تابکاری کا ایک طوفان خارج کررہا ہے۔

    فلکیات اور خلائی طبیعیات سے متعلق آسٹریلوی قومی یونی ورسٹی کے محقق کرسچن وولف نے کہا کہ یہ بلیک ہول تیز رفتاری سے بڑھنے کی وجہ سے  ایک پوری کہکشاں سے بھی ہزاروں گنا زیادہ طاقت کے ساتھ چمک رہا ہے، جس کی وجہ وہ گیسیں ہیں جو یہ روزانہ نگلتا ہے اور اس کے نتیجے میں بے پناہ حرارت اور رگڑ پیدا ہوتی ہے۔

    برطانوی میگزین ’آسٹرونامی ناؤ‘ کے مطابق اگر یہ عفریت ہماری کہکشاں کے ملکی وے کے وسط میں ہو تو یہ ایک پورے چاند سے دس گنا زیادہ چمکتا دکھائی دے گا۔ اس کی چمک اتنی حیرت انگیز ہوگی کہ آسمان کے تمام ستارے فنا ہوجائیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کہکہشاں کا تھری ڈی نقشہ

    اس بلیک ہول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کائینات کی تشکیل کے ابتدائی زمانے میں بنا تھا، جب ماہرین فلکیات نے اسے پایا تو اس وقت یہ بارہ ارب نوری سال کے فاصلے پر تھا اور اس کی جسامت بیس ارب سورجوں جتنی تھی۔ یہ عظیم الجثہ بلیک ہول بالا بنفشی شعاعیں اور ایکس رے توانائی خارج کرتا ہے جسے یہ گیس اور دھول کی صورت میں نگلتا ہے اور پھر اتنی غضب کی حرارت پیدا کرتا ہے جس سے کوئی بھی مہمان کہکشاں تباہ ہوسکتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  مارس مشن 2020: زندگی کی تلاش میں جانے والا روبوٹ ٹیسٹنگ کے لیے تیار

    وولف کا کہنا تھا کہ اگر یہ ملکی وے میں ہوتا تو زمین پر ایکس ریز کی وجہ سے زندگی ممکن ہی نہ ہوتی۔ اس بلیک ہول کی نشان دہی اسکائی میپر ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کی گئی ہے۔ کئی ماہ کی اس تلاش میں یورپی خلائی ایجنسی کے سیٹلائٹ گایا نے بھی مدد کی جو فلکیاتی اجسام کی معمولی سی حرکت کو بھی معلوم کرلیتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دوسرے سیاروں پر زندگی حقیقت؟ زمین جیسے 7 نئے سیارے دریافت

    دوسرے سیاروں پر زندگی حقیقت؟ زمین جیسے 7 نئے سیارے دریافت

    ماہرین فلکیات کی زمین کے جیسے قابل رہائش سیارے کی طویل تلاش رنگ لے آئی اور خلا میں زمین کے جیسے 7 سیارے دریافت کر لیے گئے۔ سائنس دانوں کے مطابق ان سیاروں میں سے 3 پر پانی کی موجودگی کا امکان ہے جن کے باعث یہ سیارے قابل رہائش ہوسکتے ہیں۔

    ناسا کے مطابق ساتوں سیارے لگ بھگ زمین ہی کی جسامت اور ہجم جیسے ہیں اور ان کا زیادہ تر علاقہ پتھریلا ہے۔ یہ سیارے ایک ہی ستارے کے گرد گھوم رہے ہیں، گویا یہ زمین کے نظام شمسی جیسا نیا نظام ہے۔

    discovery-2

    ماہرین نے اس نظام کو ٹریپسٹ 1 نظام کا نام دیا ہے۔ یہ زمین سے 39 نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے اور یہ زون یا علاقہ نہ تو اتنا گرم ہے جہاں پانی فوراً بھاپ بن جائے اور نہ ہی اتنا سرد ہے کہ ہر چیز منجمد ہوجائے۔ گویا یہ زندگی کے لیے نہایت سازگار ماحول ہے۔

    دریافت کے متعلق شائع ہونے والے مضمون کے مصنف بیلجیئم یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل گلن کا کہنا ہے کہ جس ستارے کے گرد یہ سیارے گھوم رہے ہیں وہ ستارہ کافی چھوٹا (اسے بونا ستارہ کہا جاسکتا ہے) اور سرد ہے، جس کی وجہ سے صرف امکان ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ ان سیاروں پر پانی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ زندگی بھی موجود ہو۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق اگر اس میں اوزون کے آثار ملتے ہیں تو یہ بات ان سیاروں پر زندگی کے آثار کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

    دوسری جانب یونیورسٹی آف کیمبرج کے سائنسدان اماؤری ٹرائیوڈ نے دریافت سے متعلق کہا کہ ہم نے زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار کی کھوج لگانے سے متعلق اہم قدم اٹھا لیا ہے۔

    ان کے خیال میں اب مزید کسی سیارے کی دریافت ضروری نہیں ہے، کیونکہ اب صحیح ہدف حاصل کرلیا گیا ہے۔

    تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ سیارے دیگر سیاروں کی طرح ناقابل رہائش نکلتے ہیں تو یہ بہت مایوس کن بات ہوگی کہ کائنات میں صرف زمین ہی ایسا سیارہ ہو جو قابل رہائش ہو۔

    ماہر فلکیات کے مطابق ان سیاروں کا مشاہدہ ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔