Tag: فلیگ شپ ریفرنس

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    آج کی سماعت میں بھی نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری رہے۔

    خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ الدار آڈٹ کے بعد حسین نواز پہلی مرتبہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوئے، الدار رپورٹ ناکافی دستاویزات ہیں۔ 30 مئی 2017 کو حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی گزشتہ سماعت

    انہوں نے کہا کہ کیس میں حسین نواز 5 مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، جے آئی ٹی نے حسین نواز کو ہل میٹل کی ادائیگیوں کی تفصیلات لانے کو کہا۔ استغاثہ نے اتنی کوشش نہیں کی کہ الدار رپورٹ کی باضابطہ تصدیق کرواتے۔

    وکیل نے کہا کہ جن دستاویزات کی بنیاد پر رپورٹ تیار ہوئی وہ حاصل نہیں کیے گئے، الدار آڈٹ سے کسی تصدیق کے لیے جے آئی ٹی نے رابطہ ہی نہیں کیا۔ استغاثہ سے پوچھیں ہل میٹل سے متعلق انہوں نے کیا تفتیش کی؟ ہل میٹل کتنے میں بنی، باقی تفصیلات اب بھی انہیں معلوم نہیں۔

    جج ارشد ملک نے دریافت کیا کہ نواز شریف نے کہیں اور یہ مؤقف اپنایا کہ العزیزیہ سے تعلق نہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ سی ایم اے 7244 میں نواز شریف نے یہ مؤقف اپنایا ہے، نواز شریف نے کہیں بھی یہ مؤقف نہیں لیا کہ ان کی جائیداد ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تحقیق نہیں کی کہ العزیزیہ کا منافع عباس شریف کو منتقل ہوا۔ تحقیق نہیں کی گئی العزیزیہ کی فروخت کے بعد حاصل رقم تقسیم ہوئی۔ جے آئی ٹی کا اخذ کردہ نتیجہ قابل قبول شہادت نہیں۔

    اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ حسین نواز، نواز شریف کے زیر کفالت نہیں تھے۔ طارق شفیع میاں شریف کے بے نامی دار تھے۔ گلف اسٹیل ملز کے 75 فیصد شیئرز فروخت کیے، گلف اسٹیل ملز کا نام بدل کر اہلی اسٹیل ملز کردیا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ نواز شریف نے کاروبار میں حصہ نہیں لیا، کاروبار میاں محمد شریف چلاتے تھے، نوازشریف کا تعلق نہیں تھا۔ نواز شریف گلف اسٹیل سے متعلق کسی ٹرانزکشن کا حصہ نہیں رہے۔ میاں محمد شریف، حسین، حسن اور دیگر پوتوں کو رقم فراہم کرتے تھے۔

  • فلیگ شپ ریفرنس : نوازشریف کا مزید دستاویزات عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ

    فلیگ شپ ریفرنس : نوازشریف کا مزید دستاویزات عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف نے فلیگ شپ ریفرنس میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو مزید دستاویزات پیش کروں گا، مجھ پرلگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ہیں، میرا کسی قسم کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت ہوئی، نوازشریف نے مزید دستاویزات عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا، ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں کمپنیوں کی فروخت کاریکارڈ حاصل کرنے کی درخواست دے دی گئی ہے، یو کے اتھارٹی سے ہسٹوریکل کاپیاں حاصل کرنے کیلئےدرخواست دی ہے، ریکارڈ موصول ہوتے ہی دستاویزات پیش کردوں گا۔

    اس موقع پر نوازشریف نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ کی طرح فلیگ شپ ریفرنس میں بھی اپنا دفاع پیش کرنے سے انکار کردیا، ان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف بنائے گئے مقدمات بدنیتی پر مبنی ہیں، استغاثہ کسی جرم میں میرا تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہا، سرزمین پاکستان کا بیٹا ہوں، مجھےاس کے ذرے ذرے سے پیار ہے۔

    مجھے فخر ہے3دفعہ پاکستان کا وزیر اعظم بنا، پاکستانی عوام کا مشکور ہوں جنہوں نےمجھ پر اعتماد کیا، سیاست میں میرے خاندان اور کاروبار کو نشانہ بنایا گیا، مجھ پرلگائے گئے سارے الزامات بےبنیاد ہیں، میرا کسی قسم کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔

    نوازشریف نے دوران بیان اپنے اثاثے گنوانے شروع کر دیئے، انہوں نے کہا کہ یہاں حالات موزوں نہیں رہے تو والد نےبیرون ملک کاروبارکیا، صنعتی سرگرمیوں کا تعلق اسی وقت سے ہے جب میں سیاست میں نہیں تھا، سیاست میں آنے کے بعد میں کاروباری سرگرمیوں سے الگ ہوگیا،22کروڑ عوام میں سے صرف دو بیٹوں اور ایک والد کو نشانہ بنایا جارہا ہے، شاید ہی کسی کا اس طرح کا احتساب ہوا ہو۔

    نوازشریف کا مزید کہنا تھا کہ یہ تسلیم کیا گیا کہ بیرون ملک پیسہ نہیں گیا پھر بھی مقدمہ چل رہا ہے، ہمارے خاندان اور کاروبارپر جو کچھ گزری یہ ایک ناقابل یقین حقیقت ہے، استغاثہ نے4باتیں ثابت کرنی ہوتی ہیں، جائیداد کا قبضہ اور بےنامی کامقصد بھی استغاثہ نے ثابت کرنا ہوتا ہے، استغاثہ کو قانونی تقاضے پورےکرنے چاہئےتھے جو نہیں کئے گئے۔

    نواز شریف نے کہا کہ افسوس ہے سچائی کے معاملے کو بد عنوانی رنگ دینے کی کوشش کی گئی، بیرون ملک بہت سی پاکستانی کاروباری شخصیات ہیں، کیا ان سب سمندر پار پاکستانیوں کو کٹہرے میں کھڑا کردینا چاہیے؟

  • العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف نے کبھی قطری خطوط پرانحصارنہیں کیا‘ خواجہ حارث

    العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف نے کبھی قطری خطوط پرانحصارنہیں کیا‘ خواجہ حارث

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز پرسماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز پرسماعت کررہے ہیں۔

    سابق وزیراعظم آج دوپہر دو بجے عدالت پہنچیں گے جبکہ معاون وکیل زبیر خالد 342 کا بیان جمع کرائیں گے۔ نواز شریف فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس میں اپنے بیان پر دستخط کریں گے۔

    العزیزیہ ریفرنس : خواجہ حارث کے حتمی دلائل


    احتساب عدالت میں سماعت کے دوران سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل کی ملکیت پرسوال اٹھایا گیا، نوازشریف کوبے نامی دارمالک کہا گیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ بے نامی دارسے متعلق ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا، العزیزیہ اسٹیل ملز2001 میں قائم ہوئی، حسین نواز29 برس کے تھے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ بیٹے کے نوازشریف کے زیرکفالت ہونے سے متعلق ثبوت پیش نہیں کیا گیا، نیب کا کیس ہے نواز شریف نے بے نامی کے طورپرجائیدادیں بنائیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ بے نامی ٹرانزیکشن سے متعلق استغاثہ کوئی ثبوت نہ لاسکا، بیٹے نے ہل میٹل کی رقوم نوازشریف کو بھیجیں، صرف اس بات سے بے نامی کے تمام اجزا پورے نہیں ہوتے۔

    انہوں نے کہا کہ العزیزیہ سے کوئی رقوم نوازشریف کو نہیں بھیجی گئیں، نوازشریف کا پہلے دن سے ایک ہی مؤقف رہا، ہل میٹل کی رقوم سے متعلق جے آئی ٹی نے کوئی تحقیقات نہیں کیں۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف کوبے نامی مالک کہہ دیا گیا لیکن شواہد پیش نہیں کیے گئے، العزیزیہ اسٹیل کے قیام کے وقت نوازشریف کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ سوال یہ ہے قانون کے مطابق بے نامی کی تعریف کیا ہے؟، قانون کے مطابق بےنامی وہ ہوتا ہے جو کسی اورکی جائیداد اپنے پاس رکھے۔

    انہوں نے کہا کہ تعریف کے مطابق جائیداد کی ملکیت کسی اورکے پاس ثابت ہونا ضروری ہے، جائیداد کی ملکیت کا تعلق ملزم سے ثابت ہونا ضروری ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ ملزم کوصرف اس جائیداد سے کوئی فائدہ ملنا اسے مالک نہیں بنا دیتا، کہا گیا کہ گلف اسٹیل کا معاہدہ جعلی نکلا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف نے کبھی گلف اسٹیل کی فروخت پرانحصارنہیں کیا، نوازشریف کے پاس توگلف اسٹیل کی براہ راست معلومات نہیں تھی۔

    انہوں نے کہا کہ جےآئی ٹی نے خود اپنی رپورٹ میں لکھا گلف اسٹیل سے متعلق سنی سنائی باتیں ہیں، قطری خطوط کے بارے میں کہا گیا ان کی کوئی حقیقت نہیں۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف نے خود تو کبھی قطری خطوط پرانحصارنہیں کیا، احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ آپ کا نقطہ ہے کہ قطری خطوط صرف حسین نواز کا موقف تھے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جی قطری خطوط صرف حسین نوازکی جانب سے ہی تھے، شواہد کےمطابق العزیزیہ کے 3 شیئرہولڈرز تھے۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ روز نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر نے حتمی دلائل مکمل کرلیے تھے۔

    العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوشن کے دلائل مکمل


    معزز جج محمد ارشد ملک کا کہنا تھا کہ العزیزیہ کی دستاویزات کیوں پیش نہیں کیں، سپریم کورٹ نے طلب کی تھیں تو وہاں دستاویزات پیش کردیتے، اس سوال کا جواب دینا ہوگا۔

    احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیے تھے کہ العزیزیہ کے قیام کی وضاحت آگئی تو ہل میٹل کا معاملہ خود حل ہوجائے گا۔

  • العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: نیب پراسیکیوٹرکل بھی حتمی دلائل دیں گے

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: نیب پراسیکیوٹرکل بھی حتمی دلائل دیں گے

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز پر سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں معزز جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کی۔

    نیب نے مقدمے میں شہادتیں مکمل ہونے سے متعلق عدالت کوآگاہ کردیا ، ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل نیب سردارمظفرنے شہادتیں مکمل ہونے کا بیان دیا۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے آج کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر کے حتمی دلائل


    نیب پراسیکیوٹرواثق ملک نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس وائٹ کالرکرائم کا ہے،عام کیس نہیں، یہ بڑے منظم طریقے سے کیا گیا جرم ہے۔

    معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کا بیان کل یوایس بی میں فراہم کر دیں گے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آپ نےکل بھی یہ ہی کہنا ہے کہ مکمل نہیں ہوسکا۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ یوایس بی میں عدالت کو بیان فراہم کرنے کا مقصد ٹائم بچانا ہے۔

    نیب وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اور خاندان کے بیرون ملک اثاثوں کا علم پاناما لیکس کے بعد ہوا، سپریم کورٹ میں کیس سے پہلے اثاثوں کو ظاہرنہیں کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ ملزمان کو سپریم کورٹ ، جے آئی ٹی اور نیب میں وضاحت کا موقع ملا، ملزمان کی طرف سے پیش کی گئی وضاحت جعلی نکلی۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ کیس میں جس جائیداد کا ذکر ہے وہ تسلیم شدہ ہے، ملزم نے بے نامی دار کے
    ذریعے اثاثے چھپائے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کیس کی تحقیقات میں یہ سوال اٹھایا گیا یہ اثاثے بنائے کیسے گئے، 2001 میں العزیزیہ کی ویلیو6 ملین ڈالراور2005میں ہل میٹل کی ویلیو5 ملین پاؤنڈ بتائی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ 2010 سے2017 میں 187.1ملین کی رقم نوازشریف کوبھیجی گئی، کسی بھی جگہ پرملزمان کی طرف سے ان سوالوں کا جواب نہیں دیا گیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ بیرون ممالک سے بھی تعاون اس طرح سے نہیں ملا جوملنا چاہیے تھا، ریاست ماں کی طرح ہے، اسے سوال پوچھنے کا حق حاصل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہرفورم پرملزمان کا موقف بدلتا رہا، کیس کو نیارخ دینے کی کوشش کی گئی، حکمرانوں کے پاس اتنی زیادہ دولت اکٹھی ہوجائے توسوال پوچھا جاتا ہے۔

    پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ حکمرانوں سے سوال پوچھنے کی روایت خلفائے راشدین کے دورسے چلی آ رہی ہے، جج محمد ارشد ملک نے ریمارکس دیے کہ یہاں بھی توجواب ہی دیا ہے کہ ہماری طرف سے جواب ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے کہا کہ اس کیس میں ملزم نے ہرپلیٹ فارم پرالگ رخ سے بیان دیا، اس کیس کی تفتیش 2 اگست 2017 سے شروع ہوئی۔

    واثق ملک نے کہا کہ کیس کے تفتیشی افسرمحبوب عالم تھے، 3ملزمان ہیں، یہ ریفرنس 15 ستمبر 2017 کو دائرہوا، اس کیس میں چارج فریم 19 اکتوبر2017 کو ہوا۔

    انہوں نے کہا کہ اس کسی میں ضمنی ریفرنس 14 فروری 2018 کو دائر ہوا، اس ریفرنس میں ٹوٹل 26 گواہان تھے، 22 کا بیان ریکارڈ ہوا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ کیس بینفشل آنراوربےنامی دارسے متعلق ہے، یہ وہ کیس نہیں کہ اس کا کوئی مالک نہیں، اس کیس سے جڑے تمام افراد کواپنے دفاع کے لیے مواقع ملے۔

    واثق ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ملزمان کودفاع میں ثبوت دینے کے لیے موقع دیا، پھربات جےآئی ٹی تک آ گئی اورنیب میں وضاحت پیش کرنے کا موقع ملا۔

    انہوں نے کہا کہ اس کیس میں جومنی ٹریل پیش کی گئی وہ غلط ثابت ہوئی، اس کیس میں تمام اثاثے مانے گئے ہیں کہ ہمارے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس کیس میں اصل مالک کوچھپایا گیا ہے، یہ کیس ملزم نوازشریف کے خلاف ہے، کیس اس کے خلاف ہے جو 3 مرتبہ وزیراعظم، 2 بار وزیراعلی، وزیرخزانہ اور اپوزیشن لیڈر رہا۔

    واثق ملک نے بتایا کہ گواہ جہانگیراحمد نے تینوں ملزمان کا 1996 سے 2016 کا ٹیکس ریکارڈ پیش کیا جبکہ گواہ طیب معظم نے نوازشریف کے 5 اکاؤنٹس کا ریکارڈ پیش کیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ اکاؤنٹس پاکستانی روپےاورغیرملکی کرنسی کے تھے، ان اکاؤنٹس سے پتہ چلتا ہے کتنی رقم آئی اور گئی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یاسرشبیرنے نوازشریف اورمریم کے اکاؤنٹ کی تفصیلات پیش کیں جبکہ سدرہ منصور نے مہران رمضان ٹیکسٹائل کا ریکارڈ پیش کیا۔

    واثق ملک نے کہا کہ نورین شہزادی نے نوازشریف، حسین نوازکے اکاؤنٹ اوپننگ فارم پیش کیے، حسین نواز کے اکاؤنٹ میں ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سےترسیلات کا ریکارڈ دیا۔

    انہوں نے کہا کہ گواہ شیراحمد خان نے ملزمان کے اکاؤنٹس کی جائزہ رپورٹ پیش کی، ہل میٹل کا 97 فیصد منافع پاکستان بھجوایا گیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جب مل کم منافع کما رہی تھی توبھی زیادہ پیسے بھجوائے جا رہے تھے، معزز جج محمد ارشد ملک نے استفسار کیا کہ نیب نے ان رقوم کو منجمد کیا یا کچھ بھی نہیں؟۔

    معزز جج نے سوال کیا کہ کیا یہ رقوم اب بھی بینک میں موجود ہیں؟ نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ اب تو اکاؤنٹس میں بہت کم رقوم موجود ہیں ، منجمد نہیں کی گئی۔

    نیب کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں 3 پٹیشن دائر کی گئیں، ایک پٹیشن عمران خان، دوسری شیخ رشید اور تیسری سراج الحق نے دائرکی۔

    واثق ملک نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشن دائر ہوئیں تو ملزمان کی جانب سےسی ایم ایزجمع کرائی گئیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزمان کی جانب سے ایک سی ایم اے جے آئی ٹی کے بعد فائل کی گئی، سپریم کورٹ نے 20 اپریل 2017 کو فیصلہ دیا اور جے آئی ٹی بنائی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کوسوالات دیے گئے جن کی معلومات حاصل کرنی تھی، جے آئی ٹی نے 2 ماہ میں رپورٹ جمع کرانی تھی۔

    واثق ملک نے کہا کہ ملزمان نےعدالت اورتحقیقاتی کمیٹی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، ملزمان دسمبر 2000 میں سعودی عرب منتقل ہوئے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پاکستان سے جانے کے کچھ عرصے بعد العزیزیہ اسٹیل قائم کی گئی، ملزمان خود کہتے ہیں پاکستان سے خالی ہاتھ سعودی عرب گئے۔

    احتساب عدالت نے ریمارکس دیے کہ جلدی سے اپنے دلائل ختم کریں ، پھروکیل صفائی کے دلائل سننے ہیں، دونوں کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سوال وجواب کا سیشن ہوگا۔

    پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف نے خطاب میں کہا العزیزیہ کے لیے سعودی بینکوں سے قرض لیا، نوازشریف نے کہا العزیزیہ کچھ عرصے کے بعد فروخت کردی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ ناجائزذرائع سے پیسہ کمانے والے اپنے نام کمپنیاں نہ اثاثے بناتے ہیں، نوازشریف کے بیان کوبچوں کے کفالت میں ہونے کے تناظرمیں پیش کرتا ہوں۔

    معزز جج نے ریمارکس دیے کہ نا جائزدولت ہوتی تو حسین نوازاپنے نام پرکمپنی نہ بناتے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف نےکہا العزیزیہ مل 64 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔

    واثق ملک نے کہا کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ پاناماکیس کے آخرمیں ظاہر کی گئی، سعودی عرب سے آنے والی رقوم سے متعلق سوال پرایچ ایم ای کو ظاہر کیا گیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف کے قومی اسمبلی میں خطاب کے وقت صرف ایون فیلڈ فلیٹس کا معاملہ تھا، حسین نوازکا انٹرویواثاثوں سے متعلق تھا۔

    انہوں نے کہا کہ حسین نوازنے بتایا العزیزیہ فروخت ہوئی تو ایون فیلڈ فلیٹس خریدے، حسین نواز نے کہا 2005 میں اثاثوں کی تقسیم کے بعد والد کا کاروبارسے تعلق نہیں۔

    واثق ملک نے کہا کہ حسین نوازکے بیان سے ظاہرہے 2005 سے پہلے نوازشریف کا کاروبار سے تعلق تھا، حسین نوازنے کہا کہ شرعی طورپرمیرا سارا کچھ میرے والد کا ہے۔

    فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو سوال نامہ فراہم کر دیا گیا


    عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کو تحریری سوال نامہ فراہم نہ کرنے اور پہلے دفاع کو حتمی دلائل دینے کی درخواست کی تھی تاہم عدالت نے نیب کی دونوں درخواستوں کومسترد کردیا تھا۔

    احتساب عدالت کی جانب سے گزشتہ روز نواز شریف کو 342 کے تحت بیان قلمبند کروانے کے لیے سوال نامہ فراہم کردیا گیا تھا۔ نواز شریف کو دیا گیا سوال نامہ 62 سوالات پر مشتمل ہے۔

  • فلیگ شپ ریفرنس: خواجہ حارث کی تفتیشی افسر پرجرح

    فلیگ شپ ریفرنس: خواجہ حارث کی تفتیشی افسر پرجرح

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف احتساب عدالت میں پیشی کے بعد روانہ ہوگئے، جبکہ ان کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسر محمد کامران پر جرح کی۔

    تفتیشی افسر محمد کامران نے عدالت کو بتایا کہ ایم ایل اے کے جواب میں لینڈ رجسٹری کی کاپی ظاہر شاہ سے لی تھی، لینڈ رجسٹری میں ظاہر نمبر دو الگ الگ پراپرٹیزکی تھیں۔

    وکیل صفائی خواجہ حارث نے گزشتہ سماعت کے دوران تفتیشی افسرمحمد کامران پر جرح مکمل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

    دوسری جانب فلیگ شپ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کو بیان کے لیے آج سوال نامہ دیا جانے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں حتمی دلائل منگل کو دیے جائیں گے۔

    نوازشریف کی آج حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست منظور


    یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر نوازشریف کے وکیل کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ کلثوم نوازکے لیے فاتحہ خوانی، دعائیہ تقریب رکھی ہے، آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی جائے۔ معزز جج نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظورکی تھی۔

  • نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ ڈی جی نیب نے7نومبر کو ہی معاملہ نیب ہیڈ کوارٹر ز بھیجا، مجاز اتھارٹی کی منظوری 8 نومبر کو موصول ہوئی۔

    استغاثہ کے گواہ محمد کامران نے کہا کہ نئی دستاویزات پیش کرنے پرمجاز اتھارٹی کی منظوری کا خط موجود ہے۔

    معزز جج ارشد ملک نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ غیرضروری باتیں نہ لکھوائیں، جو سمجھ میں آگیا کافی ہے، اہم اورمتعلقہ باتیں لکھوائیں۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ ایم ایل اے سے متعلق میں نے متعلقہ افراد کے بیان ریکارڈ نہیں کیے، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے 21 اگست2017 خط کی کاپی ڈی جی نیب لاہورکوبھیجی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ میں نے ایکریڈیشن خط کی کاپی ڈپٹی ڈائریکٹرامورخارجہ اورڈی جی نیب کوبھیجی، خواجہ حارث نے کہا کہ جن لوگوں کویہ خط بھیجے گئے وہ اب بھی نیب کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

    محمد کامران نے کہا کہ جی وہ لوگ ابھی بھی نیب کے ساتھ کام کر رہے ہیں، نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے 21 اگست2017 کے خط میں دیگرخطوط کا حوالہ نہیں ہے۔

    تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ درست ہے دیگر خطوط کا حوالہ نہیں البتہ ایم ایل اے کا ریفرنس نمبر موجود ہے۔

    معزز جج ارشد ملک اور خواجہ حارث میں مکالمہ


    احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ میاں نوازشریف کا بیان آج ہی قلمبند کرلیتے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کل نوازشریف کا بیان قلمبند کرنا شروع کردیتے ہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ سوالات پیچیدہ ہیں لیکن ہمیں اس پراعتراض نہیں، بیان کے لیے تمام ریکارڈ دیکھنا پڑرہا ہے، کل تک کا وقت دیں۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کا 342 کا بیان کل قلمبند کیا جائے گا۔

    محمد کامران نے سماعت کے دوران کہا کہ نیب کی تحقیقات کا اپنا طریقہ کاراور ایس او پی ہوتا ہے، تحقیقاتی ٹیم تفتیشی افسر، کیس افسر اور لیگل کنسلٹنٹ پرمشتمل ہوتی ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں تحقیقاتی ٹیم مجازاتھارٹی کی جانب سے بنائی گئی، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اس ریفرنس کی تحقیقاتی ٹیم میں کون کون شامل تھا۔

    تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ میں اس ریفرنس کا تفتیشی تھا، نذیرجونیجو کیس افسر تھے، ریفرنس میں لیگل کنسلٹنٹ محمد عرفان تھے۔

    محمد کامران نے کہا کہ ریفرنس دائرکرنے کے بعد تفتیش میں نئی پراپرٹیزسے متعلق پتہ لگایا، حسن اور حسین نوازکوبیرون ملک ایڈریس پرکال اپ نوٹس نہیں بھجوایا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسن اورحسین نوازکا بیرون ملک پتہ معلوم تھا، حسن نوازنے2007 میں برطانوی شہریت حاصل کی جبکہ حسین نواز2000 سے پاکستان میں رہائش پذیرنہیں ہیں۔

    تفتیشی افسر نے بتایا کہ جےآئی ٹی رپورٹ سے پتہ چلا دونوں پاکستان کےغیرمستقل شہری ہیں، کال اپ نوٹسزمیں نے تیارکیے، کال اپ نوٹسزپرحسن اور حسین نوازکے بیرون ملک ایڈریس نہیں لکھے۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے آغاز پر معزز جج نے خواجہ حارث سے استفسار کیا تھا کہ نواز شریف اپنا 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے تیار ہیں؟۔

    خواجہ حارث نے جواب دیا تھا کہ جی نہیں، نوازشریف آج بیان کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    نوازشریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہمارے پچھلے بیان پرکچھ اعتراضات ہیں وہ ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، جج ارشد ملک نے کہا تھا کہ اعتراضات اگر لکھے ہوئے ہیں تو دے دیں۔

    احتساب عدالت کے جج نے کہا تھا کہ اعتراضات علیحدہ سے لکھوا کرحصہ بنا لیتے ہیں، خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ دو تین چیزیں ہیں وہ لکھوا دیتے ہیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز نمٹانے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں صرف 4روز باقی

    نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز نمٹانے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں صرف 4روز باقی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کے کرپشن ریفرنسزنمٹانے کے لیے احتساب عدالت کو دی جانے والی ڈیڈ لائن میں صرف 4 روز باقی رہ گئے ہیں، ٹرائل مکمل کرنے کی مدت میں توسیع کے لئے پھر رجوع کیے جانے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لئے احتساب عدالت کو دی جانے والی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں 4 روز باقی رہ گئے ہیں۔

    العزیزیہ ریفرنس میں استغاثہ کے شواہد مکمل ہوچکے ہیں جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں آخری گواہ پر جرح کے بعد استغاثہ شواہد مکمل کرے گا، نوازشریف کی آج پیشی پر عدالت میں بیان قلمبند کرائے جانے کا امکان ہے، نواز شریف کے بیان کے بعد استغاثہ اور وکیل صفائی حتمی دلائل دیں گے۔

    احتساب عدالت کی جانب سے ٹرائل مکمل کرنے کی مدت میں توسیع کے لئے پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیے جانے کا امکان ہے۔

    خیال رہے ملزم نواز شریف اور ان کے وکیل کے تاخیری حربوں میں تیزی آگئی ہے، العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف نے تین سو بیالیس کا بیان قلمبند نہ کرایا۔ وکیل نےعذر پیش کردیا، حالانکہ گزشتہ سماعت پر پچاس سوالوں پر مشتمل سوال نامہ ملزم کو دیا جا چکا ہے۔

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس کی نواز شریف کیخلاف ریفرنس نمٹانے کیلئےاحتساب عدالت کو 17 نومبر تک کی مہلت

    یاد رہے سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لئےاحتساب عدالت کو سترہ نومبر تک کی مزید مہلت دی تھی، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی سترہ نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے یہ وہ کیس ہے جس نے دو بھائیوں میں تلخی پیدا کی، خواجہ حارث نے کہا کہ ایک بار تو میری بات بھی مان لیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیشہ آپکی بات مانی لیکن یہی تاثر دیا گیا کہ ہم نے آپ کی بات نہیں مانی۔

    واضح رہے کہ نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے دی جانے والی ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کی مہلت پانچویں بار ختم ہوگئی، جس کے بعد احتساب عدالت نے مزید مہلت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ ریفرنسز مکمل کرنے کے لیے پہلے ہی 4 بار مہلت میں توسیع کرچکی ہے، گزشتہ ماہ عدالتِ عظمیٰ نے نے 26 اگست تک ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو 6 ہفتوں کا وقت دیا تھا۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی، خواجہ حارث کل بھی تفتیشی افسر پر جرح جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر معزز جج نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ نواز شریف اپنا 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے تیار ہیں؟۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ ہمارے پچھلے بیان پرکچھ اعتراضات ہیں وہ ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، جج ارشد ملک نے کہا کہ اعتراضات اگر لکھے ہوئے ہیں تو دے دیں۔

    احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ اعتراضات علیحدہ سے لکھوا کرحصہ بنا لیتے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ دو تین چیزیں ہیں وہ لکھوا دیتے ہیں، ابھی جرح شروع کرلیتے ہیں بعد میں سپریم کورٹ بھی جانا ہے۔

    خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی نہیں، نوازشریف آج بیان کے لیے تیار نہیں ہیں، وکیل صفائی استغاثہ نے آخری گواہ تفتیشی افسرمحمد کامران پر جرح کی۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ نیب میں پہلے شکایت کا جائزہ لیا جاتا ہے، یہ درست ہے کہ مجاز اتھارٹی شکایت کا جائزہ لیتی ہے۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ شکایت کا جائزہ لیا جاتا ہےکہ کارروائی کرنی ہے یا نہیں جبکہ شکایت پر مزید کارروائی کا فیصلہ چیئرمین نیب کرتے ہیں۔

    محمد کامران نے کہا کہ چیئرمین کبھی کسی ڈی جی کوبھی فیصلےکا اختیار دے دیتے ہیں، پہلے مرحلے میں شکایت کی تصدیق کی جاتی ہے، دوسرے مرحلے میں انکوائری شروع ہوتی ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ چیئرمین یا ڈی جی نیب تفتیشی افسرکوانکوائری کا کہتے ہیں، شواہد حاصل کر کے رپورٹ مجازاتھارٹی کے سامنے رکھی جاتی ہے۔

    تفتیشی افسرنے کہا کہ میں نے 28 جولائی 2017 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا تھا، سپریم کورٹ نے فلیگ شپ کا ریفرنس دائرکرنے کا کہا تھا۔

    محمد کامران نے کہا کہ درست ہےعدالتی فیصلے کے بعد ریفرنس دائرکرنے کے علاوہ آپشن نہیں تھا، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانونی نوعیت کے سوالات تفتیشی افسرسے نہیں پوچھے جاسکتے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ تفتیشی افسرقانونی ماہرنہیں ان سے ایسے سوالات نہیں پوچھے جاسکتے، تفتیشی افسر نے کہا کہ میری تفتیش کی بنیاد پریہ ریفرنس دائرکیا گیا۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی، خواجہ حارث کل بھی تفتیشی افسر پر جرح جاری رکھیں گے۔

    احتساب عدالت نےنیب کونئی دستاویزات پیش کرنےکی اجازت دے دی

    عدالت میں گزشتہ سماعت پر نواز شریف کو بیان قلم بند کرانے کے لیے 50 سوالات دیے گئے تھے۔ العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں استغاثہ کے تمام گواہوں کے بیان ریکارڈ ہو چکے ہیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

    احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    تفتتیشی افسر کامران احمد کا بیان قلمبند کیا گیا جبکہ نوازشریف کی جانب سے معاون وکیل نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ آج بیگم کلثوم نوازکے لیے دعا، قرآن خوانی ہے، نوازشریف نہیں آسکتے۔

    حسن نوازکی آف شورکمپنیوں کی اسٹیٹمنٹ عدالت میں پیش کردی گئیں، تفتیشی افسر نے بتایا کہ آف شورکمپنیوں کا ریکارڈ کمپنیز ہاؤس لندن سے حاصل کیا گیا ہے۔

    نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک ایم ایل اے معصول ہوا ہے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

    معاون وکیل نے عدالت میں کہا کہ خواجہ حارث اس پردلائل دیں گے، یہ کوئی طریقہ نہیں تفتیشی افسر کے بیان کے دوران نئی درخواست آگئی۔

    خواجہ حارث کے وکیل نے کہا کہ خواجہ حارث یہاں موجود بھی نہیں ہیں، نیب پراسیکیوٹرسردار مظفرعباسی نے کہا کہ آپ درخواست پربحث کرلیں یا پھراپنا وکالت نامہ واپس لے لیں۔

    معاون وکیل محمد زبیر نے کہا کہ یہ طریقہ نہیں ہمیں وکالت نامے واپس لینے کا مشورہ دیتے ہیں، ہمیں کوئی پیشگی نوٹس نہیں دیا گیا۔

    معزز جج نے معاون وکیل کو ہدایت کی کہ خواجہ حارث سے رابطہ کریں ان کوبلالیں، پہلے بیان جاری رکھیں درخواست بعد میں دیکھتے ہیں۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران کامران احمد کا کہنا تھا کہ کمپنیز ہاؤس لندن میں حسن نواز کی کمپنیوں کے ریکارڈ کے لیے درخواست دی۔

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کی فراہمی کے لیے ادا کی گئی فیس ضمنی ریفرنس کا حصہ ہے۔ کمپنیز ہاؤس میں حسن نواز کی 10 کمپنیوں کے ریکارڈ کے لیے درخواست دی۔

    کامران احمد نے نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز کی کمپنیوں کی ملکیتی جائیداد کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ حسن نواز کی 18 کمپنیوں کے نام پر 17 فلیٹس اوردیگرپراپرٹیز ہیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • فلیگ شپ ریفرنس: نیب کے تفتیشی افسرکا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے

    فلیگ شپ ریفرنس: نیب کے تفتیشی افسرکا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک کررہے ہیں۔

    سابق وزیر اعظم احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ فلیگ شپ ریفرنس کے تفتیشی افسر کامران کا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے۔

    خواجہ حارث احتساب عدالت نہ پہنچ سکے، ان کے معاون وکیل زبیر خالد اور شیر افگن کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

    تفتیشی افسر کامران احمد نے بتایا کہ 2016 سے نیب راولپنڈی میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات ہوں، سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ریفرنس دائر کیا، ریفرنسز سے متعلق تمام ریکارڈ اکٹھا کیا۔

    تفتیشی افسر کے بیان پرخواجہ حارث کے معاون وکیل نے اعتراض کیا جس پر جج محمد ارشد ملک نے کہا کہ باربار اتنے لمبےاعتراضات نہیں لکھواؤں گا۔

    احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ بیان کے دوران بھی اعتراضات کرتے ہیں، وہی اعتراضات جرح میں بھی دہراتے ہیں، بے شک خواجہ حارث کوبلا لیں میں ان سے بات کروں گا۔

    تفتیشی افسر نے بتایا کہ ڈی جی نیب راولپنڈی نے ریفرنس کی تفتیش مجھے سونپی جبکہ سپریم کورٹ نے نیب ریفرنسز تیار کر کے دائرکرنے کی ہدایت کی۔

    کامران احمد نے کہا کہ ایف آئی اے اورنیب ہیڈکوارٹرسے اثاثوں کی تفصیلات کا ریکارڈ مانگا، ایف آئی اے نے جواب میں کہا ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ نیب ہیڈکوارٹرسے کوئی جواب موصول نہیں ہوا، متعلقہ عدالتی آرڈرز کا جائزہ لیا، جے آئی ٹی رپورٹ کا بھی جائزہ لیا۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ ایف بی آر اور چوہدری شوگر مل سے ملزمان کا ٹیکس ریکارڈ طلب کیا، ایف بی آر اور چوہدری شوگر مل سے قرض کی تفصیلات طلب کیں۔

    انہوں نے بتایا کہ کال اپ نوٹس کے ذریعے ملزمان کو طلب کیا، ملزمان کو 18 اگست کونیب کے سامنے پیش ہونے کے لیے طلب کیا۔

    تفتیشی افسر کے بیان پر لمبے اعتراضات پر جج نے نوازشریف کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اتنا بیان نہیں ہوتا جتنا اعتراض لکھوا دیتے ہیں۔

    معزز جج نے کہا کہ غیر ضروری اعتراضات لکھوانے کی اجازت نہیں دوں گا، وکیل صفائی کی جرح بھی تواعتراض ہی ہوتا ہے۔

    عدالت میں گزشتہ روز نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح مکمل کرلی تھی۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ حسن نواز نے کمپنیوں کے ماڈل سے متعلق وضاحت دی تھی، نواز شریف نے بتایا وہ 2001 سے 2008 تک پاکستان میں نہیں تھے۔

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے 2001 سے 2008 کے دوران انکم ٹیکس نہیں دیا۔

    عدالت میں نواز شریف کے بیان کے لیے ان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے سوال نامہ فراہم کرنے کی استدعا کی تھی۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سوالنامہ فراہم کردیں تو اگلے دن جواب جمع کروا دیں گے۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔