Tag: فلیگ شپ ریفرنس

  • نواز شریف نے 2001 سے 2008 کے دوران انکم ٹیکس نہیں دیا: واجد ضیا

    نواز شریف نے 2001 سے 2008 کے دوران انکم ٹیکس نہیں دیا: واجد ضیا

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیر اعظم احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ فلیگ شپ ریفرنس کے تفتیشی افسر کامران بھی عدالت میں موجود تھے۔

    عدالت میں سماعت کے دوران واجد ضیا نے کہا کہ حسن نواز نے کمپنیوں کے ماڈل سے متعلق وضاحت دی تھی، نواز شریف نے بتایا وہ 2001 سے 2008 تک پاکستان میں نہیں تھے۔

    مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیا نے بتایا کہ نواز شریف نے 2001 سے 2008 کے دوران انکم ٹیکس نہیں دیا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسن نواز نے کمپنیوں کے ماڈل سے متعلق وضاحت دی تھی، حسن نواز نے بتایا ماڈل میں ہر کمپنی ایک مقصد کے تحت قائم کی جاتی ہے۔

    واجد ضیا نے بتایا کہ ماڈل میں بنائی گئی کمپنیوں سے ٹیکس کی مد میں بچت ہوتی ہے، ماڈل کے تحت خریدار جائیداد خریدنے کے بجائے وہ ملکیتی کمپنی خرید لیتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کمپنی خریدنے سے ساری جائیداد کی الگ الگ اسٹمپ ڈیوٹی نہیں ادا کرنی پڑتی، حسن نواز نے کہا کہ انہوں نے کاروبارشروع کیا تو کئی بینک اکاؤنٹ کھولے۔

    واجد ضیا نے مزید کہا کہ حسن نواز نے بتایا وہ جس بینک سے قرض طلب کرتے تو ذاتی اکاؤنٹ کھولنے کا کہا جاتا۔

    عدالت میں نواز شریف کے بیان کے لیے ان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے سوالنامہ فراہم کرنے کی استدعا کردی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سوالنامہ فراہم کردیں تو اگلے دن جواب جمع کروا دیں گے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کو سوالنامہ فراہم کیے جانے پر ہمارا اعتراض ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ پراسیکیوشن کو سوالنامہ فراہم کیا گیا ہے تو ہمیں بھی ملنا چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا پراسیکیوشن کو سوالنامہ فراہم کیا گیا ہے۔

    اس سے قبل عدالت میں گزشتہ سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ واجد ضیا کا کہنا تھا کہ حسن نواز نے 2001 سے یو کے میں مستقل سکونت حاصل کی۔

    انہوں نے بتایا تھا کہ حسن نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا وہ یو کے کم عمری میں چلے گئے تھے، تعلیم کے بعد بزنس شروع کیا اور وہیں رہے۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ درست ہے فلیگ شپ کے قیام کے وقت حسن نواز کی عمر 25 سال تھی، حسن نواز نے بتایا انہوں نے وکیل کرنے کی اتھارٹی دی۔

    استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ حسن نواز نے بتایا حسن اور حسین نواز کے نام سے پیش اتھارٹی لیٹر نہیں دیکھے، حسن نواز نے بتایا کہ فلیگ شپ اور دیگر 12 کمپنیاں ایک ہی دور میں بنیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس پرسماعت پیرتک ملتوی

    احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس پرسماعت پیرتک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے نوازشریف کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی جوعدالت نے منظور کرلی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ حسن نواز نے 2001 سے یو کے میں مستقل سکونت حاصل کی۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ حسن نوازنے جےآئی ٹی کو بتایا وہ یوکے کم عمری میں چلے گئے تھے، حسن نوازنے بتایا تعلیم کے بعد بزنس شروع کیا اور وہیں رہے۔

    واجد ضیاء نے بتایا کہ درست ہے فلیگ شپ کے قیام کے وقت حسن نواز کی عمر 25 سال تھی، حسن نوازنے بتایا انہوں نے وکیل کرنے کی اتھارٹی دی۔

    احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس کے تفتیشی افسر کو پیرکے روز طلب کرلیا، خواجہ حارث نے کہا کہ پیرکوجرح جلدی مکمل کرلوں گا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسن نوازنے بتایا حسن، حسین نوازکے نام سے پیش اتھارٹی لیٹرنہیں دیکھے، حسن نوازنے بتایا فلیگ شپ اوردیگر12کمپنیاں ایک ہی دورمیں بنیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ حسن نوازنے بتایا ان کا کاروبار جائیداد کی خرید اوربہتربنا کرفروخت کرنا تھا، حسن نوازنے بتایا کوئنٹ پیڈنگٹن کےعلاوہ دیگرکمپنیاں منافع کما رہی تھیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی کے مشاہدے کے مطابق حسن نوازکی یہ بات درست نہیں تھی۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کردی۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کررہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف عدالت میں موجود ہیں جبکہ ان کے وکیل استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء پر آج بھی جرح کررہے ہیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تسلی کرلی قطر سے آنے والاخط حماد بن جاسم کا ہی ہے، 15 جون 2017 سے پہلے10 گواہان کے بیان ریکارڈ کیے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسن، حسین نواز، طارق شفیع ، سعید احمد اورعمر چیمہ شامل تھے، 10 گواہان میں سے کسی نے سوالنامہ پہلے بھیجنے کی درخواست نہیں کی۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ قطری کی جانب سے سوالنامہ پہلے بھیجنے کی فرمائش کی گئی، جے آئی ٹی کا فیصلہ تھا پیشگی سوالنامہ کسی کونہیں بھیجا جائے گا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کوخط لکھا تھا حماد بن جاسم بیان کے لیے راضی ہیں، واجد ضیاء نے کہا کہ یہ بات درست ہے جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کوخط لکھا تھا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ عدالت نے جواب دیا جے آئی ٹی فیصلہ کرے بیان کہاں ریکارڈ کرنا ہے، حماد بن جاسم نے سوال نامہ پہلے فراہم کرنے کوکہا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا کسی کوسوال نامہ پہلے فراہم نہیں کریں گے۔

    عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ایم ایل اے میں یو اے ای حکام سے قانونی سوالات پوچھے تھے۔ خواجہ حارث نے دریافت کیا تھا کہ کیا یہ درست ہے پہلا سوال کوئی قانونی نہیں بلکہ حقائق سے متعلق تھا۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ جی یہ درست ہے پہلے سوال میں صرف حقائق پوچھے تھے۔ دوسرا سوال بھی حقائق سے متعلق تھا۔ قانونی سوالات باہمی قانونی تعاون کے تحت خط وکتابت کے تناظر میں کہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے دریافت کیا تھا کہ نیب قوانین کی کس شق کے تحت آپ نے یہ ایم ایل اے بھیجا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح کر رہے ہیں۔

    سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

    سماعت میں متحدہ عرب امارات حکام کو لکھا گیا ایم ایل اے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیا نے کہا کہ ایم ایل اے میں یو اے ای حکام سے قانونی سوالات پوچھے تھے۔ وکیل نے دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے پہلا سوال کوئی قانونی نہیں بلکہ حقائق سے متعلق تھا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ جی یہ درست ہے پہلے سوال میں صرف حقائق پوچھے تھے۔ دوسرا سوال بھی حقائق سے متعلق تھا۔ قانونی سوالات باہمی قانونی تعاون کے تحت خط و کتابت کے تناظر میں کہے۔

    خواجہ حارث نے دریافت کیا کہ نیب قوانین کی کس شق کے تحت آپ نے یہ ایم ایل اے بھیجا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسے سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔

    واجد ضیا نے بتایا کہ حکومت نے جے آئی ٹی کو ایم ایل اے بھیجنے کی اتھارٹی دے رکھی تھی۔ وزارت قانون و انصاف نے ایم ایل اے لکھنے کا اختیار دیا تھا۔ سیکشن 21 کے تحت ایم ایل اے لکھنے کا اختیار دیا گیا۔

    جج نے وکیل سے کہا کہ خواجہ صاحب آپ صرف حقائق سے متعلق سوال پوچھیں تو بہتر ہے۔ کس قانون میں کیا ہے یہ سوالات گواہ سے کیا پوچھنے ہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ میں نے پہلے سیکشن 21 پڑھا تھا۔ یہ وکیلوں والے سوالات ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانونی نکات سے متعلق سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔ واجد ضیا ہمارے گواہ ہیں کوئی قانونی ماہر نہیں۔

    عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کا اعتراض منظور کرتے ہوئے خواجہ حارث کو گواہ سے صرف متعلقہ سوالات پوچھنے کی ہدایت کردی۔

    واجد ضیا نے مزید کہا کہ 13 مئی 2017 کو حماد بن جاسم کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا خط لکھا، حماد بن جاسم نے پاکستان آ کر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کیا۔

    انہوں نے کہا کہ حماد بن جاسم نے لکھا آپ لوگ دوحہ آ کر بیان ریکارڈ کریں۔ حماد بن جاسم نے خط کے جواب میں کہا سوالنامہ پہلے فراہم کریں۔ ہم نے 24 مئی 2017 کو ایک اور خط حماد بن جاسم کو لکھا۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ حماد بن جاسم نے پھر پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کر دیا۔ بعد میں قطری شہزادے نے قطر میں ملاقات پر مشروط رضا مندی ظاہر کی۔ سوالنامہ پہلے بھیجنے پر جے آئی ٹی رضا مند نہ ہوئی۔

    اس سے قبل 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت میں وکیل زبیر خالد نے اخبار کی خبر پر نوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ منسٹر ہے جو آپ اور نواز شریف کی گرفتاری سے متعلق بیان دے رہا ہے۔

    معاون وکیل زبیر خالد نے کہا تھا کہ عدالت کو سو موٹو لینا چاہیئے۔ جج ارشد ملک نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں، آپ پر 302 کا کیس ہو تو آپ بھی کہنا شروع کردیں بری ہوجائیں گے۔

    بعد ازاں احتساب عدالت نے نواز شریف کے وکلا کو باقاعدہ درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

  • نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی

    نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت پیرتک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت سے قبل وکیل زبیرخالد نے اخبار کی خبرپرنوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ منسٹر ہے جو آپ اورنوازشریف کی گرفتاری سے متعلق بیان دے رہا ہے۔

    معاون وکیل زبیرخالد نے کہا کہ عدالت کو سوموٹو لینا چاہیے، جج ارشد ملک نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں، آپ پر302کا کیس ہو تو آپ بھی کہنا شروع کردیں بری ہوجائیں گے۔

    احتساب عدالت نے نوازشریف کے وکلا کو باقاعدہ درخواست دائرکرنے کی ہدایت کردی۔

    واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ گلف اسٹیل کے معاہدے میں طارق شفیع اور محمد حسین شراکت دارتھے، محمد حسین کا انتقال معاہدے پرعملدرآمد سے پہلے ہی ہوگیا۔

    انہوں نے کہا کہ طارق شفیع نے کہا وہ محمد حسین کے بعد بیٹے شہزاد حسین سے ملے تھے، ہم نے محمد حسین کے بیٹے شہزاد حسین کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ طارق شفیع کے مطابق محمد حسین مرحوم برطانوی شہری تھے، طارق شفیع سے پوچھا تھا ان کے پاس شہزاد حسین کا رابطہ نمبرہے؟۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ طارق شفیع نے کہا ان کے پاس شہزاد حسین کا کوئی رابطہ نمبر نہیں، یہ کہنا غلط ہوگا کہ طارق شفیع کے بیان سے متعلق غلط بیانی کر رہا ہوں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ محمدعبداللہ آہلی کو شامل تفتیش نہیں کیا، 14اپریل 1980 کے معاہدے کی تصدیق کے لیے عبداللہ سے رابطہ نہیں کیا، ہمارے نوٹس میں آیا معاہدے کے گواہان میں عبدالوہاب کا نام شامل ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے فواد چوہدری کے نوازشریف کو سزا دینے سے متعلق بیان کا اخباری تراشہ اور قانونی نکات پیش کیے۔

    معاون وکیل نے کہا کہ عدالت کواپنے وقارکے دفاع کا مکمل قانونی اختیارہے، معاملے پرہمیں پارٹی بننے کی ضرورت نہیں، دونوں فریقین معاملے پرعدالت کی معاونت کریں گے۔

    احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ معاملے پردرخواست دینے سے متعلق آپ مشاورت کرلیں جس پر معاون وکیل نے کہا کہ پیرکودرخواست سے متعلق مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل نیب نے کہا کہ ہمارا توکیس ہی نوازشریف کوسزا دلوانا ہے، ٹی وی چینل پربیانات دینا وزرا کا ذاتی معاملہ ہے۔

    احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت پیرتک ملتوی کردی۔

    عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ حسن نوازسے فنانشل اسٹیٹمنٹ کے بارے میں پوچھا تھا، حسن نوازنے کہا تھا فنانشل اسٹیٹمنٹ ان کےاکاؤنٹینٹ نے تیارکیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا تھا کہ حسن نوازنے کہا فنانشل اسٹیٹمنٹ پوری طرح نہیں پڑھی، کوئنٹ پنڈگٹن کی فنانشل اسٹیٹمنٹ کس نے تیارکی یہ نہیں پوچھا۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ حسن نوازکے کسی اکاؤنٹینٹ کوشامل تفتیش نہیں کیا، حسن نوازنے کہا کیپٹل ایف زیڈ ای کے لیے رقم کا انتظام انہوں نے کیا، حسن نوازکے مطابق یہی رقم بعد میں کوئنٹ پنڈگٹن کودی گئی۔

    چیف جسٹس کی نواز شریف کےخلاف ریفرنس نمٹانے کیلئےاحتساب عدالت کو 17 نومبر تک کی مہلت

    یاد رہے کہ 12 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لیےاحتساب عدالت کو سترہ نومبر تک کی مزید مہلت دی تھی۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی سترہ نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔

  • یہ کہنا غلط ہے جفزا سے حاصل دستاویزات میں جعلسازی کی گئی‘ واجد ضیاء

    یہ کہنا غلط ہے جفزا سے حاصل دستاویزات میں جعلسازی کی گئی‘ واجد ضیاء

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ان کے وکیل خواجہ حارث جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پرمسلسل چوتھے روز جرح کی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ حسن نوازسے فنانشل اسٹیٹمنٹ کے بارے میں پوچھا تھا، حسن نوازنے کہا فنانشل اسٹیٹمنٹ ان کےاکاؤنٹینٹ نے تیارکیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ حسن نوازنے کہا فنانشل اسٹیٹمنٹ پوری طرح نہیں پڑھی، کوئنٹ پنڈگٹن کی فنانشل اسٹیٹمنٹ کس نے تیارکی یہ نہیں پوچھا۔

    انہوں نے کہا کہ حسن نوازکے کسی اکاؤنٹینٹ کوشامل تفتیش نہیں کیا، حسن نوازنے کہا کیپٹل ایف زیڈ ای کے لیے رقم کا انتظام انہوں نے کیا، حسن نوازکے مطابق یہی رقم بعد میں کوئنٹ پنڈگٹن کودی گئی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جفزا دستاویزات کے مطابق نوازشریف کیپٹل ایف زیڈ ای کے ملازم تھے، نوازشریف کیپٹل ایف زیڈ ای میں بورڈ چیئرمین ملازمت کرتے تھے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ گورنیکا سے حاصل سورس دستاویزات کی اصل کاپیاں پیش کیں، دستاویزات پر واضح لکھا ہے یہ سورس دستاویزات ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ خواجہ حارث بتائیں اس میں کہاں ٹمپرنگ ہے جس پر نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ آپ نے جو اصل کام کیا ہے وہ بھی بتائیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ ٹمپرنگ کا لفظ آپ کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے توضرورلکھیں، اصل دستاویزات کی جگہ فوٹوکاپیاں حقائق چھپانے کے لیے نہیں لگائیں۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے جفزا سے حاصل دستاویزات میں جعلسازی کی گئی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیاء کچھ ناراض نظرآرہے ہیں ، میں معذرت خواہ ہوں، ہمیشہ سخت سوال سے پہلے گواہ سے معذرت کرلیتا ہوں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ نوازشریف 2006 سے 2014 کے دوران کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازم رہے، ایک دستاویزمیں نوازشریف کا عہدہ منیجرمارکیٹنگ درج ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ دیگر2 ملازمت کے معاہدوں میں نوازشریف کا عہدہ چیئرمین بورڈ ہے۔

    احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

    عدالت میں گزشتہ روزسماعت کے دوران واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی ٹیم نے تحریری طورپرکچھ نہیں لکھا تھا، خواجہ حارث نے سوال کیا تھا کہ جفزا اتھارٹی سے کون کون سے دستاویزات حاصل کیے؟۔

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ جودستاویزات جفزا سے حاصل کیے پہلے لکھوا چکا ہوں، گورنیکا انٹرنیشنل کی تصدیق اصل دستاویزات کی کاپیاں ہیں۔

    استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی نے گورنیکا کے کسی ممبرکو شامل تفتیش نہیں کیا، کیپٹل ایف زیڈ ای ٹریڈنگ لائسنس کاپی کے لیے جفزا کو درخواست نہیں دی۔

    چیف جسٹس کی نواز شریف کےخلاف ریفرنس نمٹانے کیلئےاحتساب عدالت کو 17 نومبر تک کی مہلت

    یاد رہے کہ 12 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لیےاحتساب عدالت کو سترہ نومبر تک کی مزید مہلت دی تھی۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی سترہ نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔

  • نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پرجرح کی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جےآئی ٹی ٹیم نے بتایا دستاویزکے لیے جفزا اتھارٹی سے رابطہ کیا، کیا جے آئی ٹی ٹیم نے تحریری طورپر رابطہ کیا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی ٹیم نے تحریری طورپرکچھ نہیں لکھا تھا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ جفزا اتھارٹی سے کون کون سے دستاویزات حاصل کیے؟۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جودستاویزات جفزا سے حاصل کیے پہلے لکھوا چکا ہوں، گورنیکا انٹرنیشنل کی تصدیق اصل دستاویزات کی کاپیاں ہیں۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جےآئی ٹی نے گورنیکا کے کسی ممبرکو شامل تفتیش نہیں کیا، کیپٹل ایف زیڈ ای ٹریڈنگ لائسنس کاپی کے لیے جفزا کو درخواست نہیں دی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈای کے کاروبارسے متعلق معلومات کی فراہمی کا نہیں کہا، مالک کیپٹل ایف زیڈای، ڈائریکٹرومجازدستخط کنندہ کی معلومات نہ لیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسی دستاویز نہیں لی جس سے ظاہرہو کیپٹل ایف زیڈای کب قائم کی گئی، یہ درست ہے ایون فیلڈریفرنس بیان کے وقت میں نے مختلف والنٹیئرکیا تھا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ میں نے کہا تھا جے آئی ٹی ممبران کیپٹل ایف زیڈ ای کا ریکارڈ لینے جفزا گئے، دبئی جانے والے جے آئی ٹی ممبران کوجفزا حکام کے نام خط دیا تھا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ خط میں خاص طورپرٹریڈنگ لائسنس کے بارے میں نہیں لکھا تھا، جے آئی ٹی ممبران نے واپسی پربتایا جفزا حکام کو زبانی درخواست کی گئی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ حسن نواز3 جولائی2017 کو تیسری بارجے آئی ٹی میں پیش ہوئے، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے حسن نوازسے پوچھا کیپٹل ایف زیڈ ای کا کاروبار کیا ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ پوچھا کیپٹل ایف زیڈای کی ملکیت کسی اورکے پاس تونہیں؟ جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ ملکیت سے متعلق حسن نوازسے کوئی سوال نہیں پوچھا۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    عدالت میں گزشتہ روزسماعت کے دوران واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ایک معاملہ کیپیٹل ایف زیڈ ای کی اصل ملکیت جاننا بھی تھا، فاضل جج نے فیصلے میں اضافی نوٹ لکھا کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملکیت واضح نہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ درست ہے دروان تفتیش ایک معاملہ کیپٹل ایف زیڈ ای کا تھا، جج نے کہا تھا کیپیٹل ایف زیڈ ای پرمزید وضاحت کی ضرورت ہے۔

    استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ کیپٹل ایف زیڈای کا بینک کولکھا خط دبئی جانے والی ٹیم کے پاس تھا، درست ہے تینوں دستاویزات پردبئی کی اتھارٹی کی تصدیق نہیں۔

    چیف جسٹس کی نواز شریف کےخلاف ریفرنس نمٹانے کیلئےاحتساب عدالت کو 17 نومبر تک کی مہلت

    یاد رہے کہ 12 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لیےاحتساب عدالت کو سترہ نومبر تک کی مزید مہلت دی تھی۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی سترہ نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔

  • نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کررہے ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف آج احتساب عدالت میں موجود ہیں جبکہ وکیل صفائی خواجہ حارث جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پرجرح کررہے ہیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ ایک معاملہ کیپیٹل ایف زیڈ ای کی اصل ملکیت جاننا بھی تھا، فاضل جج نے فیصلے میں اضافی نوٹ لکھا کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملکیت واضح نہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ درست ہے دروان تفتیش ایک معاملہ کیپٹل ایف زیڈ ای کا تھا، جج نے کہا تھا کیپیٹل ایف زیڈ ای پرمزید وضاحت کی ضرورت ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ حسن نوازنے کہا کمپنی01-2002 کے درمیان بنی جب خاندان جلا وطن تھا، حسن نوازنے کنفرم کیا 6 لاکھ 50 ہزارپاؤنڈ کی ٹرانزیکشن کیپیٹل ایف زیڈ ای کوکی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ حسن نوازکے مطابق مخصوص حالات کے باعث قرض اسی رات واپس دیا گیا، حسن نوازنے کہا کوئنٹ پنڈگٹن کی پراپرٹی خسارے میں فروخت کرنا پڑی۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ حسن نوازنے کہا کوئنٹ پنڈگٹن نے کیپیٹل ایف زیڈای کوقرض واپس نہیں کیا، حسن نوازنے کہا وہ دبئی میں جائیداد خریدنا چاہتے تھے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ دبئی میں جائیداد کے لیے کیپیٹل ایف زیڈ ای کو6 لاکھ 50 ہزارپاؤنڈ دیے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ صفحات دیکھیں تو گواہ ہمارے ساتھ گیم کھیل رہے ہیں، واجد ضیاء کے ازخود بیان سے متعلق سوال پوچھ رہا ہوں۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ جوشخص 3 صفحات کو 100 صفحات بنا دے وہ کیا نہیں کرسکتا، صفحات سے متعلق ایسی بات کرنے پرمعذرت خواہ ہوں۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ میں نے حقائق بتا دیے ہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈسکرپشن سے متعلق سوال فضول سی بات لگ رہی ہے، آپ کا یہ سوال بنتا ہی نہیں اگلا سوال پوچھیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ میں سوال پوچھوں گا تو بات واضح ہوگی، احتساب عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک بات پرآپ 6 سوال پوچھ رہے ہیں۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ میں نے سوال پوچھنا ہی پوچھنا ہے نہ پوچھوں گا توکیا ہوگا، واجد ضیاء نے کہا کہ یہ درست نہیں کہ ڈسکرپشن دی ہوئی ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جوبات آپ کی جیب یا بیگ میں ہے وہ بھی نکلواؤں گا جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ پہلے آپ یہاں کی بات توبتائیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ اس دستاویزپر پہلے بھی پورا ایک دن جرح کرچکے ہیں، خواجہ حارث اس جرح کو دیکھ کر سوال کررہے ہیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ سورس دستاویزات میں 2 ٹریڈنگ لائسنس شامل ہیں، دونوں ٹریڈنگ لائسنس یکم اکتوبر2001 کو جاری ہوئے، دونوں ٹریڈنگ لائسنس کی مدت 30ستمبر 2013 تک تھی۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ یہ درست ہے ایک تیسرا ٹریڈنگ لائسنس بھی تھا، یہ درست ہے تیسرے لائسنس کورپورٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کے اسسٹنٹ رجسٹرارکا بینک کولکھا خط بھی ہے، جےآئی ٹی ٹیم تصدیق کے لیے ٹریڈنگ لائسنس دبئی لے کرگئی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ رپورٹ کاحصہ بنائے گئے 2 میں سے ایک لائسنس دبئی لے کر گئے، تیسرا لائسنس جے آئی ٹی رپورٹ کا حصہ نہیں وہ بھی لے کر گئے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈای کا بینک کولکھا خط دبئی جانے والی ٹیم کے پاس تھا، درست ہے تینوں دستاویزات پردبئی کی اتھارٹی کی تصدیق نہیں۔

    عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران خواجہ حارث نے سوال کیا تھا کہ آپ نے جبل علی فری ذون اتھارٹی سے کوئی سرٹیفکیٹ حاصل کیا کہ نوازشریف نے تنخواہ لی ؟ جس پر واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ میں نے جو دستاویز پیش کی ہے کہ وہ یہی ہے کہ تنخواہ لی گئی ہے۔

    عدالت میں گزشتہ روز فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی کمپنی سے تنخواہ کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں ملا۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ہمارے نوٹس میں آیا تھا کہ کیپٹیل ایف زیڈ ای کی دستاویز متحدہ عرب امارات میں کسی قونصلیٹ سے تصدیق شدہ نہیں ہیں۔

    چیف جسٹس کی نواز شریف کےخلاف ریفرنس نمٹانے کیلئےاحتساب عدالت کو 17 نومبر تک کی مہلت

    یاد رہے کہ 12 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لیےاحتساب عدالت کو سترہ نومبر تک کی مزید مہلت دی تھی۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی سترہ نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کل تک ملتوی

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ سماعت میں استغاثہ کے اہم گواہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا بیان مکمل ہونے کے بعد ان پرجرح کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ کےحکم پر معطل سینیٹر سعدیہ عباسی احتساب عدالت پہنچیں۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا پر جرح کی۔

    جرح کے دوران واجد ضیا نے کہا کہ نوٹس میں آیا کیپیٹل ایف زیڈ ای دستاویز کسی قونصلیٹ سے تصدیق شدہ نہیں، درست ہے دستاویز پر نواز شریف کا نام بھی مختلف انداز میں لکھا تھا۔ نواز شریف کے انگلش اور عربی والے نام میں فرق تھا۔

    انہوں نے کہا کہ عربی والے کالم میں پورا نام محمد نواز شریف محمد لکھا تھا، اسکرین شاٹ سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے یہ نام غلط لکھا ہے۔ اسکرین سامنے ہو تو کلک کرنے سے پورا نام سامنے آجاتاہے۔

    واجد ضیا نے کہا کہ کسی بھی سافٹ ویئر کو کھول کر دیکھ لیں، پورا نام صرف نام والے خانے پر کلک کرنے سے ہی سامنے آتا ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے کمپیوٹر کی تربیت کہاں سے لی؟ واجد ضیا نے بتایا کہ میں نے ہالینڈ سے کمپیوٹر کورس کیا تھا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کیا آپ کمپیوٹر ایکسپرٹ ہیں؟ جس پر واجد ضیا نے کہا کہ کمپیوٹر ایک بڑی فیلڈ ہے میں خود کو ایکسپرٹ نہیں کہہ سکتا، کمپیوٹر کی بنیادی تربیت لے رکھی ہے۔

    وکیل نے پوچھا کہ آپ کی ٹیم کو ایسی ہدایت تھی اسکرین شاٹ کے وقت نام پر کلک نہیں کرنا؟ جس پر واجد ضیا نے کہا کہ جی نہیں ایسی کوئی ہدایات نہیں تھیں۔ وکیل نے پوچھا کیا یہ ممکن ہے اسکرین شاٹ لینے سے کچھ معلومات پوشیدہ رہ سکتی ہیں؟ جس پر واجد ضیا نے کہا کہ اسکرین پر جو بھی ہو وہ اسی صورت میں تصویر بن جاتی ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ آپ کے اسکرین شاٹ پر ناموں کے کتنے باکس بنے ہیں؟ واجد ضیا نے کہا کہ یہ تو میں گن کر ہی بتا سکتا ہوں۔

    جج نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب پلیز، کیا سوال کر رہے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ انہوں نے خود یہ بات شروع کی پتہ تو چلے یہ دستاویز ہے کیا۔ انہوں نے مزید پوچھا کہ آپ کے نوٹس میں آیا تھا کسی بھی خانے میں نواز شریف کا نام موجود نہیں؟

    واجد ضیا نے کہا کہ اتنا اندازہ تھا کہ تمام دستاویزات نواز شریف سے متعلق ہی ہیں۔ کمپنی مالک نے تمام ادائیگیوں سے متعلق جافزا حکام کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔

    خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا آپ نے جافزا اتھارٹی سے سرٹیفکیٹ حاصل کیا کہ تنخواہ لی گئی جس پر انہں نے کہا کہ میں نے جو دستاویز پیش کیں وہ یہی ہے کہ نواز شریف نے تنخواہ لی۔

    احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس پر مزید سماعت گواہ واجد ضیا کی استدعا پر کل تک ملتوی کردی گئی۔

    اس سے قبل سماعت میں واجد ضیا نے اپنا بیان مکمل کروا دیا تھا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حمد بن جاسم کے 2 خطوط سی ایم ایز کے ساتھ لگائے گئے۔ ورک شیٹ میں سرمایہ کاری، اخراجات اور منافع کی تفصیل ہے۔ 8 ملین ڈالرکی ادائیگی اور التوفیق کمپنی کا نام ورک شیٹ میں ظاہر کیا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ 2001 سے 2003 میں 5041 ملین ڈالر کی 3 ٹرانزیکشن ہوئیں، تینوں ٹرانزیکشن حسین نواز کے نام پر دکھائی گئیں۔ ورک شیٹ میں دکھائی گئی ٹرانزیکشنز کی کوئی رسید نہیں دی گئی۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے کہا کہ اسٹیٹمنٹ حسن نواز کو دکھائی تھی، حسن نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا انہوں نے کبھی یہ ورک شیٹ دیکھی نہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا ورک شیٹ پر انحصار کر رہے ہیں، ورک شیٹ پیش کرنے والے کو کبھی بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ التوفیق کمپنی سے کیا گیا لین دین اس کیس سے متعلق نہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ ورک شیٹ میں ایون فیلڈ کے 8 ملین ڈالر کی ایڈجسٹمنٹ دکھائی گئی، حسین نواز نے بتایا 2006 کی سیٹلمنٹ کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں۔ حسین نواز نے بتایا 1980 میں 12 ملین درہم کی سرمایہ کاری کا تحریری معاہدہ نہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نواز کا بیان قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز کبھی اس عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ ورک شیٹ مصنوعی تھی۔ مصنوعی ورک شیٹ منی ٹریل میں ربط پیدا کرنے کے لیے گھڑی گئی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ قطری شہزادے کے خطوط محض کہانی تھے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا کی ذاتی رائے قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے حمد بن جاسم کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کیں۔

    انہوں نے کہا کہ قطری شہزادے نے کاوشوں کے جواب میں تاخیری حربوں سے کام لیا۔ قطری شہزادے نے پہلے بیان دینے سے ہی انکار کیا، قطری شہزادے نے گارنٹی مانگی کہ انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جائے گا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حسن نواز فلیگ شپ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے، حسن نواز نامعلوم ذرائع سے آنے والی رقم کمپنیوں کو بطور قرض دیتے رہے۔ فلیگ شپ کے نیچے قائم کی گئی کمپنیوں کی فنانشل اسٹیٹمنٹ کا جائزہ لیا۔ کمپنیوں کے قرضے، منافع، نقصان اور ٹرانزکشنز پر 2 چارٹ مرتب کیے۔

    انہوں نے کہا کہ ٹرانزکشنز سے حسن نواز کی کمپنیوں اور برطانیہ سے باہر رقوم کا پتہ چلا، ٹرانزکشنز سے دو کمپنیوں کے درمیان فنڈز اور لون کا تبادلہ ظاہر ہوتا ہے۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2008 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو 615000 پاؤنڈ کا قرضہ دیا۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2009 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو اتنا ہی دوبارہ قرضہ دیا۔

    واجد ضیا کے مطابق جفزا کی دستاویزات کے مطابق 09-2008 میں نواز شریف چیئرمین تھے، کومبر کی جانب سے کیو ہولڈنگ کو 2007 میں 1.7 ملین پاؤنڈ کا قرضہ دیا گیا۔ کومبر کمپنی حسین نواز کی ملکیت میں ہے۔ حسن نواز نے 10-2009 میں چوہدری شوگر مل کو 87 ملین کا قرضہ دیا۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس حتمی مراحل میں داخل

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس حتمی مراحل میں داخل

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس حتمی مراحل میں داخل ہوگیا۔ استغاثہ کے اہم گواہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا بیان فلیگ شپ ریفرنس میں بھی مکمل ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔

    سماعت میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا چوتھے روز بھی بیان ریکارڈ کیا گیا۔

    سماعت کے دوران 17 جولائی 2017 کا قطری شہزادے حمد بن جاسم کو لکھا گیا خط بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا سپریم کورٹ کو خط اور مظہر عباس کا 16 مارچ 2017 کو واجد ضیا کو لکھا ہوا خط بھی پیش کردیا گیا۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے تہمینہ جنجوعہ کے خط پر اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ تہمینہ جنجوعہ کیس میں نہ ہی گواہ ہیں نہ ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حمد بن جاسم کے 2 خطوط سی ایم ایز کے ساتھ لگائے گئے۔ ورک شیٹ میں سرمایہ کاری، اخراجات اور منافع کی تفصیل ہے۔ 8 ملین ڈالرکی ادائیگی اور التوفیق کمپنی کا نام ورک شیٹ میں ظاہر کیا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ 2001 سے 2003 میں 5041 ملین ڈالر کی 3 ٹرانزیکشن ہوئیں، تینوں ٹرانزیکشن حسین نواز کے نام پر دکھائی گئیں۔ ورک شیٹ میں دکھائی گئی ٹرانزیکشنز کی کوئی رسید نہیں دی گئی۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے کہا کہ اسٹیٹمنٹ حسن نواز کو دکھائی تھی، حسن نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا انہوں نے کبھی یہ ورک شیٹ دیکھی نہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا ورک شیٹ پر انحصار کر رہے ہیں، ورک شیٹ پیش کرنے والے کو کبھی بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ التوفیق کمپنی سے کیا گیا لین دین اس کیس سے متعلق نہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ ورک شیٹ میں ایون فیلڈ کے 8 ملین ڈالر کی ایڈجسٹمنٹ دکھائی گئی، حسین نواز نے بتایا 2006 کی سیٹلمنٹ کا کوئی تحریری معاہدہ نہیں۔ حسین نواز نے بتایا 1980 میں 12 ملین درہم کی سرمایہ کاری کا تحریری معاہدہ نہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نواز کا بیان قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز کبھی اس عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ ورک شیٹ مصنوعی تھی۔ مصنوعی ورک شیٹ منی ٹریل میں ربط پیدا کرنے کے لیے گھڑی گئی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ قطری شہزادے کے خطوط محض کہانی تھے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا کی ذاتی رائے قابل قبول شہادت نہیں جس پر واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے حمد بن جاسم کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کیں۔

    انہوں نے کہا کہ قطری شہزادے نے کاوشوں کے جواب میں تاخیری حربوں سے کام لیا۔ قطری شہزادے نے پہلے بیان دینے سے ہی انکار کیا، قطری شہزادے نے گارنٹی مانگی کہ انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جائے گا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ حسن نواز فلیگ شپ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے، حسن نواز نامعلوم ذرائع سے آنے والی رقم کمپنیوں کو بطور قرض دیتے رہے۔ فلیگ شپ کے نیچے قائم کی گئی کمپنیوں کی فنانشل اسٹیٹمنٹ کا جائزہ لیا۔ کمپنیوں کے قرضے، منافع، نقصان اور ٹرانزکشنز پر 2 چارٹ مرتب کیے۔

    انہوں نے کہا کہ ٹرانزکشنز سے حسن نواز کی کمپنیوں اور برطانیہ سے باہر رقوم کا پتہ چلا، ٹرانزکشنز سے دو کمپنیوں کے درمیان فنڈز اور لون کا تبادلہ ظاہر ہوتا ہے۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2008 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو 615000 پاؤنڈ کا قرضہ دیا۔ کیپٹل ایف زیڈ ای نے 2009 میں کوئنٹ پیڈنگٹن کو اتنا ہی دوبارہ قرضہ دیا۔

    واجد ضیا کے مطابق جفزا کی دستاویزات کے مطابق 09-2008 میں نواز شریف چیئرمین تھے، کومبر کی جانب سے کیو ہولڈنگ کو 2007 میں 1.7 ملین پاؤنڈ کا قرضہ دیا گیا۔ کومبر کمپنی حسین نواز کی ملکیت میں ہے۔ حسن نواز نے 10-2009 میں چوہدری شوگر مل کو 87 ملین کا قرضہ دیا۔

    جج نے ریمارکس دیے کہ حسن نواز پہلے قرضہ لیتے رہے پھر دینا شروع کردیا۔ واجد ضیا نے بتایا کہ حسن نواز نے 2001 سے 2004 میں کمپنیوں کو 4.2 ملین کا قرضہ دیا۔

    احتساب عدالت میں جاری فلیگ شپ ریفرنس میں واجد ضیا کا بیان مکمل ہوگیا۔

    سماعت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے آج حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جسے منظور کرلیا گیا۔