Tag: فنون

  • شاہ صاحب سے ملاقاتیں

    شاہ صاحب سے ملاقاتیں

    محمد کاظم ایک قد آور علمی و ادبی شخصیت تھے قدیم اور جدید عربی ادب پر گہری نظر رکھنے والے محمد کاظم ایک شاعر، بلند پایہ محقق، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

    اردو زبان و ادب، تاریخ و فلسفہ کے شیدا اور باذوق قارئین سیّد علی عباس جلال پوری کے نام سے بھی واقف ہوں گے، جو ایک نادرِ‌ روزگار شخصیت تھے۔ سیّد علی عباس جلال پوری بھی ایک محقّق، مؤرخ اور نقّاد تھے اور فلسفہ کے ماہر اور استاد کے طور پر ممتاز ہوئے۔ محمد کاظم کی یہ تحریر اسی نابغۂ روزگار سے متعلق ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "سیّد علی عباس جلال پوری سے میرا غائبانہ تعارف اردو رسالے ”ادبی دنیا“ کے صفحات پر ہوا۔”

    "مولانا صلاح الدّین احمد کی زیرِ ادارت نکلنے والے اس رسالے میں خاصے معیاری علمی مضامین اور ادب شائع ہوتا تھا اور اس کے ٹائٹل پر دی ہوئی عبارت کے مطابق یہ اس وقت ”دنیا کا سب سے ارزاں اور اردو کا سب سے درخشاں“ رسالہ تھا۔ یہ بات بڑی حد تک صحیح تھی، اس لیے کہ تین ساڑھے تین سو صفحات کے اس رسالے کی قیمت صرف ایک روپیہ تھی۔ اس رسالے میں علّامہ اقبال پر، نیز فلسفے اور خرد افروزی کے موضوع پر سید علی عباس کے بیشتر مضامین پڑھ کر میرے ذہن پر ان کے مطالعے کی وسعت اور ان کے علمی تبحّر کا گہرا نقش بیٹھا۔”

    ” ”ادبی دنیا“ ابھی اپنے آخری دور میں تھا کہ ادھر جناب احمد ندیم قاسمی نے اپنا ادبی رسالہ ”فنون“ جاری کیا۔ (رسالے کا اجرا یقیناً کسی ساعتِ سعید میں ہوا ہو گا کہ بہت سے نشیب و فراز اور مالی دشواریوں کے باوجود یہ اللہ کے فضل سے ابھی تک زندہ ہے۔) اب شاہ صاحب ”فنون“ میں لکھنے لگے اور زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ ”فنون“ کے دفتر میں ان سے گاہے بگاہے ملاقات بھی رہنے لگی۔ ”

    "میں نے جب ان کو پہلی بار دیکھا تو ان کی شخصیت مجھے ان کے مقالات کی طرح سنجیدہ، رکھ رکھاؤ والی اور گمبھیر لگی۔ وہ عموماً کوٹ پتلون پہنتے اور ٹائی لگاتے اور سَر پر گہرے چاکلیٹی رنگ کی قراقلی ٹوپی رکھتے تھے۔ گندمی رنگت اور موزوں ناک نقشے کے ساتھ وہ جوانی میں خاصے قبول صورت رہے ہوں گے۔ ان کے نقوش میں سب سے نمایاں ان کی غلافی آنکھیں تھیں جو ان کے چہرے کو پُرکشش تو بناتی ہی تھیں، اس کے ساتھ ان کے وقار میں بھی اضافہ کرتی تھیں۔ نکلتے ہوئے قد اور اکہرے تنے ہوئے جسم کے ساتھ وہ تیر کی طرح سیدھا چلتے تھے۔ ان کی آواز میں نئے سکّے کی سی کھنک تھی اور ان کے بات کرنے کے انداز میں ایسا تیقّن اور اعتماد ہوتا تھا کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات بھی ہلکی یا بے مقصد نہیں لگتی تھی۔ وہ اگر روزمرہ کی گپ شپ بھی کر رہے ہوتے تو یوں لگتا جیسے ان کی بات سوچ کے عمل سے گزر کر باہر آئی ہے۔”

    "”فنون“ کا دفتر جب تبدیل ہو کر انار کلی کے اندر بمبئی کلاتھ ہاؤس کے سامنے ایک چوبارے پر آگیا تو یہاں رسالے میں لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کی محفل جمنے لگی۔ یہ پہلے تو کچھ بے قاعدہ رہی، پھر یہ باقاعدگی کے ساتھ ہر جمعہ کے روز ہونے لگی۔ اس روز دفتروں اور کالجوں میں آدھے دن کی چھٹی ہوا کرتی تھی اور ہم سب ”فنون“ کے دفتر میں آجاتے۔”

    "مدیر ”فنون“ کی ایک بڑی سی جہازی میز کے بائیں طرف کرسیوں پر سید علی عباس جلالپوری، رشید ملک، راقمُ الحروف، محمد خالد اختر اور کبھی کبھی پروفیسر شریف کنجاہی بیٹھے ہوتے۔ میز کے سامنے بھی آٹھ دس نشستیں ہوتی تھیں، جن پر شعراء و ادباء کی نئی نسل کے افراد ٹکے رہتے۔ ادیبوں اور شاعروں کی اس محفل میں ہر طرح کے موضوع زیرِ بحث آتے، جدید و قدیم ادب پر اظہارِ خیال ہوتا۔ ”فنون“ میں اور دوسرے رسالوں میں چھپنے والی چیزوں پر رائے زنی ہوتی اور شاہ صاحب کی موجودگی اس بات کی ضمانت ہوتی کہ مجلس میں سنجیدگی کا اعتبار قائم رہے گا۔ اگر کسی متنازع معاملے میں تبادلۂ خیالات کرتے ہوئے حاضرین میں اختلافات کی صورت پیدا ہو جاتی اور بحث میں کچھ گرمی آجاتی تو لوگ شاہ صاحب کی طرف دیکھتے اور وہ اپنی رائے ایسے اِذعان و یقین کے ساتھ دیتے کہ مسئلہ زیرِ بحث پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہتی…. سہ پہر کو جب یہ محفل برخاست ہوتی تو نیچے اتر کر شاہ صاحب میری گاڑی میں اگلی نشست سنبھال لیتے اور ہم لوگ ان کو چھوڑنے کرشن نگر سے گزر کر ساندہ جا نکلتے، جہاں ان کا گھر تھا۔ شاہ صاحب کے ساتھ ہفتہ وار ملاقات کا یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا۔”

    "ہمارے اس ملک میں صحیح معنوں میں کثیرُالمطالعہ لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ہم جانتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا انکشاف ہمیں ان کی تحریریں پڑھ کر ہوتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ سیّد علی عباس جلال پوری ان کثیرُالمطالعہ لوگوں کی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت پڑھا تھا اور جو پڑھا تھا اس کے بارے میں سوچ بچار کیا تھا ور اس کو ہضم کر کے اپنی ذہنی و فکری وجود کا جزو بنایا تھا۔”

  • زندگی کے پُر تموّج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک

    زندگی کے پُر تموّج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک

    فنون وہ ادبی مجلّہ تھا جو ممتاز ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کے زیرِ ادارت پاکستان بھر میں مقبول ہوا اور اس مجلّے کی بدولت کئی تخلیق کار اور اہلِ قلم سامنے آئے۔ اس مجلّے کو شروع ہی سے صف اوّل کے ادیبوں اور شاعروں کا تعاون حاصل رہا اور قاسمی صاحب نے بڑی فراخ دلی سے نئے لکھنے والوں کو بھی اس میں جگہ دی۔

    محمد خالد اختر اردو کے معروف ادیب ہیں‌ جو اپنے ناول چاکیواڑہ میں وصال کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ یہاں ہم احمد ندیم قاسمی سے ان کی رفاقت اور اپنے تخلیقی سفر سے متعلق محمد خالد اختر کی یادوں سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ’’1962ء میں ایک روح فرسا ملازمت کی بیڑیاں پہنے جن کے لیے میں بالکل نااہل تھا۔ صحّت، امنگ اور ذوقِ زیست میں لٹا ہوا، شدید خود رحمی اور خوف کا شکار، زندگی کے پُر تموج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک، میں لاہور آیا۔

    ندیم سے ملاقاتیں ہونے لگیں، گو آغازِ دوستی کا وہ پہلا والہانہ شعلہ پھر نہ جلا۔ ندیم اپنی معاش کی کٹھن آزمائشوں کے باوجود میرے بارے میں حقیقتاً مُشَوَّش تھا۔ وہ ہر ممکن طور پر میرے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتا۔ وہ میری حالت پر افسوس کرتا اور رحم کا اظہار کرتا۔ کوئی آدمی کتنا ہی تباہ و برباد ہو، رحم کھایا جانا پسند نہیں کرتا اور اپنے اس ہمدرد، حوصلہ مند اور خلیق دوست کا میرے لیے تردّد مجھے بعض اوقات ناگوار گزرتا۔ ایسا رحم، میں سمجھتا ہوں، ایک طرح کی بے رحمی ہے۔

    یہاں میرے بھارت بلڈنگ کے دفتر میں ایک دن ندیم میرے پاس آیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے ایک ادبی مجلّہ ”فنون“ نکالنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کا ڈیکلریشن لے لیا گیا ہے۔ دفتر کے کمرے کا بندوبست بھی ہو گیا ہے اور اس کا پہلا نمبر دو مہینے کے اندر اندر اشاعت پذیر ہو جائے گا۔ اس نے مجھ سے ”فنون“ کے لیے کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ میں کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ پچھلے پانچ چھے سال اپنی گھونٹ دینے والی مایوسی میں، میں نے اردو کی ایک سطر نہیں لکھی تھی۔ خط تک نہیں۔ اپنے فیک (fake) ہونے کو جانتے ہوئے میں نے مصنّف بننے کی خواہش کسی افسوس کے بغیر ترک کر دی تھی، لیکن اتنے اچھے ہمدم سے میں کیونکر انکار کرتا، جب کہ یہ اس کی دلی خواہش تھی کہ میں ”فنون“ کے لیے لکھوں۔

    میں نے اس سے کچھ لکھنے کا وعدہ کرلیا۔ اس وقت سے میں باقاعدگی سے ”فنون“ میں لکھتا رہا ہوں۔ تبصرے، مزاحیہ مضمون، کہانیاں، اور اس مجلّے کے چند ہی شمارے ایسے ہوں گے جن میں میرا نام نہ چھپا ہو۔ ندیم نے ہمیشہ اپنی تعریف سے میری ہمّت بندھائی اور جو چیز بھی میں نے ”فنون“ کے لیے بھجوائی، اس میں شائع ہوئی۔ ان تبصروں اور مضامین کو کوئی دوسرا ایڈیٹر آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا، وہ ایک مربیانہ انداز اختیار کرتا اور زبان و بیان کی خامیوں کی طرف میری توجہ دلاتے ہوئے انہیں لوٹا دیتا۔ ”فنون“ میں میں جو چاہتا تھا لکھتا تھا۔ میرے بعض تبصرے ندیم کو اچھے اور متوازن نہیں لگے ہوں گے۔ تاہم وہ کسی قطع و برید اور ایک لفظ کے حذف کے بغیر چھپے۔ اس طرح میرے ادبی کیریئر کا پھر سے آغاز ہوا۔ میں اپنے فیک ہونے کی دل شکستگی کو بھول گیا۔ اپنے نام کو چھپا ہوا دیکھنے کی مسرّت کافی تھی۔

    میری صحت اسی طرح خراب تھی، میرے معدے کا نظامِ ہضم درست نہ ہوا۔ مگر ندیم کے ”فنون“ نے مجھے منزل بہ منزل گرنے اور اپنے فطری ملکے (instinct) کی مکمل معدومی سے بچا لیا۔‘‘