Tag: فنکار انتقال

  • سال 2024 میں وہ نامور فنکار جو اپنے مداحوں کو سوگوار کرگئے

    سال 2024 میں وہ نامور فنکار جو اپنے مداحوں کو سوگوار کرگئے

    سال 2024 کا سورج اپنے سفر کے اختتام تک آچکا ہے ہر سال کی طرح اس سال بھی بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے، ان میں پاکستان شوبز انڈسٹری کی وہ معروف فنکار بھی ہیں جن کا انتقال ہوا اور ہمیں داغ مفارقت دے گئیں۔

    اگر ان افسوسناک واقعات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستانی شوبز انڈسٹری کے کئی نامور فنکار اس دار فانی سے کوچ کرگئے، یہ تمام فنکار پاکستان کے روشن ستارے تھے، جن کے خلاء کو پُر نہیں کیا جاسکتا۔

    اداکار خالد بٹ

    خالد بٹ

    سال 2024 پہلے ماہ جنوری میں شوبز انڈسٹری کے سینئر فنکار خالد بٹ اپنے مداحوں کو روتا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملے، خالد بٹ نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز پی ٹی وی سے کیا اور اپنی لازوال اداکاری سے بہت جلد خود کو منوالیا، انہوں نے مختلف ڈراموں اور فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ جن میں سرفہرست لنڈا بازار، دلی گیٹ، اندھیرا اجالا سمیت کئی ڈرامے شامل ہیں۔

    اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں سے سبب اسپتال میں زیر علاج تھے اور دوران علاج گیارہ جنوری کو اس دنیا کو خیرباد کہ دیا اور انتقال کرگئے۔

    اداکار طلعت حسین

     Talat Hussain

    اپنے منفرد انداز اور بے مثال ٹیلنٹ کے سبب مداحوں کے دلوں پر راج کرنے والے ستارہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ یافتہ اداکار طلعت حسین طویل علالت کے بعد 26مئی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    انتہائی باوقار اداکاری کے فن میں کمال رکھنے والے طلعت حسین نے 70کی دہائی میں اپنے فن کا آغاز پاکستان ٹیلی ویژن سے کیا انہیں اپنی منفرد انداز اداکاری سے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھرپور پذیرائی ملی۔

    معروف کامیڈین سردار کمال

    Sardar Kamal

    اسٹیج اور ٹی وی کے معروف مزاحیہ اداکار سردار کمال کا اچانک انتقال ان کے مداحوں کو سوگوار کرگیا۔

    اپنے فنی کیرئیر کے دوران انہوں نے 30 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں ، اس کے علاوہ وہ ہندوستانی پنجابی فلموں کا بھی حصہ رہے۔ سردار کمال ماہ جولائی میں 52 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔

    اداکار مظہر علی

    Passed Away

    عروسہ، افشاں اور دیمک جیسے کئی مشہور ڈراموں کا حصہ رہنے والے پی ٹی وی کے نامور اداکار مظہر علی مختصر علالت کے بعد کراچی کے مقامی اسپتال میں انتقال کرگئے وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں امریکہ سے وطن واپس آگئے تھے۔

    انہوں نے لاتعداد ڈراموں میں اپنی اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے، اداکار مظہر علی اکتوبر 2024میں پھیپھڑوں اور دل کی بیماری کے باعث دوران علاج خالق حقیقی سے جاملے۔

    اداکار عابد کشمیری

    Abid Kashmiri

    پاکستانی سینما اور ٹی وی کے معروف اداکار عابد کشمیری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، عابد کشمیری بھی ماہ اکتوبر میں طویل علالت کے بعد 74 برس کی عمر میں اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ امریکا منتقل ہوگئے تھے لیکن حال ہی میں پاکستان واپس آگئے تھے۔

    استاد طافو

    King Tafu

    فن موسیقی کا بڑا نام استاد طافو بھی اسی سال 26 اکتوبر کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ کئی لازوال فلموں کی موسیقی دینے والے استاد طافو کو فن موسیقی میں نمایاں مقام حاصل تھا۔

    استاد طافو خان گزشتہ کئی ماہ سے علیل تھے ان کو گردوں کا مرض لاحق تھا، ان کا ترتیب دیا ہوا پنجابی گانا جو میڈم نورجہاں نے گایا، سن وے بلوری اکھ والیاں، بہت مشہور ہوا۔

    گلوکارہ اور گٹارسٹ ہانیہ اسلم

    Haniya Aslam

    سال 2009ء میں کوک اسٹوڈیو سے شہرت حاصل کرنے والے میوزک بینڈ ’زیب اینڈ حنیا‘سے وابستہ 39 سالہ معروف پاکستانی گلوکارہ اور گٹارسٹ ہانیہ اسلم دل کا دورہ پڑنے سے 11 اگست کو انتقال کر گئی تھیں۔

    شیف ناہید انصاری

    Naheed Ansari

    پاکستان کی معروف شیف ناہید انصاری المعروف ناہید آپا گزشتہ 35 برس سے پکوان اور گھر کی سجاوٹ کے شعبے سے منسلک تھیں۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کے دوران مختلف چینلز کے لیے کئی کوکنگ شوز بھی کئے، ناہید انصاری کینسر سے جنگ لڑتے ہوئے آخرکار 06 جولائی کو زندگی کی بازی ہار گئیں۔

    یہ سال شوبز کی دنیا کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ثابت ہوا، جہاں ان عظیم شخصیات کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔

  • فنونِ لطیفہ کی دنیا میں ممتاز اور باکمال رفیع پیر کا تذکرہ

    فنونِ لطیفہ کی دنیا میں ممتاز اور باکمال رفیع پیر کا تذکرہ

    پاکستان میں فنونِ لطیفہ کے مختلف اہم شعبوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا مظاہرہ کرنے والی ممتاز ترین شخصیت رفیع پیرزادہ کی ہے اور بعد میں اسی گھرانے کی شخصیات تھیٹر اور فلم، ڈراما، رقص، موسیقی اور پتلی تماشے کے فن میں نمایاں ہوئیں۔

    رفیع پیرزادہ 1898ء میں بنّوں میں پیدا ہوئے جہاں ان کے دادا، پیر قمر الدّین پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے تعینات تھے۔ ان کے بزرگ کشمیر سے گجرات میں آ کر آباد ہوئے اور وہاں سے پیر قمر الدّین لاہور چلے گئے۔ وہ علاّمہ اقبال کے گہرے دوستوں میں شامل تھے اور اُن کے صاحب زادے، پیر تاج الدّین نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک برطانوی خاتون سے شادی کر لی تھی۔ یوں رفیع پیرزادہ نے خالصتاً علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولی اور فنونِ لطیفہ سے اوائلِ عمری ہی میں واقف ہوگئے۔

    کہتے ہیں کہ جب رفیع پیرزادہ اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، تو ہندوستان کی ایک مشہور تھیٹر کمپنی، دادا بھائی ٹھوٹھی ان کے شہر میں تھیٹر پیش کرنے آئی۔ رفیع پیر بھی شو دیکھنے گئے اور وہاں انھیں‌ بہت لطف آیا، اگلے روز پھر شو دیکھنے پہنچے اور معلوم ہوا کہ تھیٹر کا یہ آخری دن ہے اور اب یہ لوگ دلّی روانہ ہو رہے ہیں۔ کم عمر رفیع پیرزادہ کے دل میں کیا آیا کہ کچھ نہ دیکھا اور کمپنی کے ساتھ دلّی جا پہنچے۔ ادھر اہلِ خانہ ان کی گُم شدگی پر سخت پریشان تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ دلّی پہنچ کر جب وہاں تھیٹر کے منتظمین نے شو کا آغاز کیا تو جس مہمانِ خصوصی کو مدعو کیا، وہ رفیع پیر کے دادا کے دوست تھے۔ ان کی نظر اس بچّے پر پڑ گئی اور اسے پہچان لیا، پوچھنے پر آگاہ ہوئے کہ رفیع پیر نے تھیٹر کے شوق میں کیسی حرکت کی ہے۔ فوراً اس کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور یوں وہ چند روز بعد لاہور پہنچا دیے گئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رفیع پیر اداکاری کے کس قدر دیوانے تھے۔

    رفیع پیر نے جب گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا، تو اُس وقت تحریکِ خلافت زوروں پر تھی اور وہ اس کے سرگرم رکن بن گئے۔ ان کے دادا کے دیرینہ رفیقوں میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے اور رفیع ان کے زورِ خطابت اور شعلہ بیانی سے بہت متاثر تھے۔ اکثر جلسوں میں آگے آگے رہتے اور قائدین کے ساتھ ساتھ وہ بھی پولیس کی نظروں میں آ گئے۔ تب اہلِ خانہ نے رفیع پیر کو اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ 1916ء میں وہ قانون کی تعلیم کی غرض سے اوکسفرڈ میں داخل ہوگئے۔ انگریز راج سے نفرت اور قابض انتظامیہ کو ناپسند کرنے والے رفیع پیر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور 1919ء میں جرمنی چلے گئے، جہاں ایک جامعہ کے شعبۂ فلاسفی میں داخلہ لیا، جو اُن کا پسندیدہ مضمون تھا۔ بعد میں‌ برلن گئے جو پورے یورپ میں فن و ثقافت کا مرکز تھا۔ جرمن عوام موسیقی، ڈرامے اور تھیٹر کے رسیا تھے اور یہ دنیا رفیع پیر کے لیے طلسماتی دنیا تھی۔انھوں نے کسی طرح برلن تھیٹر کے معروف ڈائریکٹر، فٹز لانگ کی توجہ حاصل کر لی تھی جس نے انھیں برلن تھیٹر سے وابستہ ہونے کا موقع دیا اور وہاں خاصا کام کیا اور اس عرصے میں معروف فن کاروں کے درمیان رہنے اور سیکھنے کا موقع بھی ملا۔ جرمنی میں‌ قیام کے دوران رفیع پیر نے ایک جرمن خاتون سے شادی کر لی تھی۔

    اسی زمانے میں جرمنی میں نازی برسرِ اقتدار آ گئے اور ہٹلر سے نفرت اور کچھ معاملات کے سبب چند سال بعد رفیع پیر وہاں سے ہندوستان پہنچ گئے، لیکن خطرات کے پیشِ نظر اہلیہ اور اپنی اکلوتی بیٹی کو وہیں چھوڑ آئے۔ ان کی اہلیہ برلن پر اتحادی افواج کی بم باری کے دوران ماری گئیں جب کہ بیٹی بچ گئی اور طویل عمر پائی۔

    رفیع پیر 1930ء کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان واپس آئے تھے اور وہ تھیٹر کی جدید تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے واحد ہندوستانی فن کار تھے۔ یہاں انھوں نے ’’انڈین اکیڈمی آف آرٹس‘‘ قائم کی، جس کے تربیت یافتہ فن کار آگے چل کر فلم اور تھیٹر کی دُنیا کے نام وَر اداکار ثابت ہوئے۔ اسی زمانے میں رفیع پیر زادہ نے پنجابی کا مشہور ڈراما، ’’اکھیاں‘‘ تحریر اور اسٹیج کیا اور بعد ازاں ان کے شاگردوں نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ اُسی زمانے میں ان کے نظر ثانی شُدہ اسکرپٹ پر چیتن آنند نے اردو فلم، ’’نیچا نگر‘‘ بنائی، جو قیامِ پاکستان سے قبل ریلیز ہوئی اور اس نے 1948ء کے کانز فلم فیسٹیول میں سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس فلم میں رفیع پیر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

    ہندوستان آنے کے بعد رفیع پیر کی لاہور بھی آمد و رفت رہتی تھی۔ ایک بار لاہور آئے، تو والدہ نے ان کی شادی کروا دی۔ 1947ء میں وہ اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔

    برلن سے لوٹنے کے بعد ہندوستان میں بمبئی، کلکتہ اور دہلی کی فلم نگری میں ان کی صلاحیتوں اور فن کی دھوم مچ گئی تھی۔ انھوں نے تھیٹر کمپنی کے ساتھ کئی ڈرامے اسٹیج کیے۔ رفیع پیر نے لکھنے، پڑھنے کا کام آخری دَم تک جاری رکھا۔

    رفیع پیر پاکستان کے ایسے نام وَر ڈراما نگار، صدا کار اور اداکار تھے جن کی موت پر بھارت میں بھی علمی و ادبی حلقوں اور فن و ثقافت کی دنیا کے بڑے ناموں نے افسوس کا اظہار کیا اور اسے فن کی دنیا کا بڑا نقصان قرار دیا۔ ان کی یاد میں مختلف پروگرام پیش کیے گئے اور ان کے فن کی جھلکیاں پیش کی گئیں۔

    رفیع پیر 1974ء کو آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔