Tag: فنکار

  • آج دنیا بھر میں موسیقی کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    آج دنیا بھر میں موسیقی کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج موسیقی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ورلڈ میوزک ڈے کا آغاز انتیس سال پہلے فرانس کے شہر پیرس سے ہوا۔ چند سالوں سے یہ دن پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے۔

    موسیقی کی روایت برصغیر میں بہت پرانی ہے اور برصغیرکی کلاسیکل موسیقی سننے والوں پر مختلف کیفیات طاری کرتی ہے۔ اس کے علاوہ غزل ، گیت ، فوک اور پلے بیک سنگنگ وغیرہ بھی یہاں کے لوگوں میں انتہائی مقبول ہے۔

    قیام پاکستان کے بعد نورجہاں، مہدی حسن، احمد رشدی، مسعود رانا اور دیگر متعدد افراد نے اپنے سریلے گیتوں سے کروڑوں افراد کو اپنا دیوانہ بنایا۔مثال کے طور پر جیسے گیتوں کو کون بھول سکتا ہے۔

    بھارت کی بات کی جائے تو وہاں لتا منگیشکر، محمد رفیع، کشور کمار اور مکیش جیسے گلوکار موسیقی کی دنیا میں دھوم مچاتے رہے اور ان کے گائے ہوئے گیت برسوں بعد بھی بالکل تازہ محسوس ہوتے ہیں، مگر موجودہ عہد پاپ اور دیگر جدید طرز موسیقی کا ہے جس پر امریکہ و برطانیہ کے گلوکار چھائے ہوئے ہیں۔

    مائیکل جیکسن سے شروع ہونے والا یہ سفر اب لیڈی گاگا، جسٹن بائبر اور کیٹی پیری جیسے سنگرز تک پھیل چکا ہے جنھیں دنیا بھر میں انتہائی مقبولیت حاصل ہے۔

    ورلڈ میوزک ڈے دنیا بھر میں بسنے والے لوگوں کو موسیقی کے ذریعے امن ، محبت اور بھائی چارے کی زنجیر میں باندھنے کی ایک خوبصورت کوشش ہے۔

  • پاکستانی فنکار کے لیے بین الاقوامی اعزاز

    پاکستانی فنکار کے لیے بین الاقوامی اعزاز

    استنبول: پاکستانی فنکار غلام محمد کے خطاطی کے فن پاروں کو استنبول میں جمیل پرائز 4 سے نوازا گیا۔

    استنبول کے پیرا میوزیم میں منعقد ہونے والی تقریب میں غلام محمد کے 5 فن پاروں کو بہترین فن پارے قرار دیا گیا۔ غلام محمد لفظوں اور مختلف زبانوں سے کاغذ پر مشتمل فن پارے تخلیق کرتے ہیں۔ ان کے فن پاروں کو شاندار اسلامی آرٹ کے زمرے میں اعزاز سے نوازا گیا۔

    جمیل انٹرنیشنل کمیونٹی کے صدر فیڈی جمیل نے غلام محمد کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ان کے فن پارے نئے معنیٰ تخلیق کرتے ہیں اور اسلامی آرٹ کے ورثے کا بہترین شاہکار ہیں۔

    انعام یافتہ فن پارہ
    انعام یافتہ فن پارہ

    ان کے مطابق جمیل پرائز کا مقصد ان فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو اپنے فن کے ذریعے روایتی اسلامی تشخص کو پیش کرتے ہیں۔

    غلام محمد استعمال شدہ کتابوں سے منفرد اور پیچیدہ طریقے سے اپنے فن پارے تخلیق دیتے ہیں۔ وہ کاغذ پر الفاظ لکھ کر انہیں کاٹتے ہیں اور پھر اس ننھی کٹنگ کو اپنے طریقے سے دوسرے کاغذ پر چسپاں کرتے ہیں۔ ان کے کام کو دیکھ کر میر کا یہ مصرعہ ذہن میں آتا ہے۔۔

    !لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

    جمیل پرائز ایک بین الاقوامی ایوارڈ ہے جو اسلامی روایات سے متاثر شدہ آرٹ اور ڈیزائن پر دیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کا مقصد اسلام اور فن و ثقافت کے تعلق کو دنیا کے سامنے لانا اور اسلامی تہذیب کو فن کے ذریعے پیش کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

    اس ایوارڈ کا آغاز محمد عبداللطیف جمیل اور ان کے بیٹے فیڈی جمیل کی جانب سے کیا گیا جو سعودی عرب کے ایک سماجی کارکن ہیں۔ لندن کا وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم بھی اس ایوارڈ میں شراکت دار ہے۔ 25 ہزار ڈالرز کی مالیت کا یہ ایوارڈ ہر 2 سال بعد دیا جاتا ہے۔ پہلا ایوارڈ 2009 میں دیا گیا۔ غلام محمد یہ اعزاز جیتنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔

  • سوکھے پتوں سے خوبصورت کارڈز

    سوکھے پتوں سے خوبصورت کارڈز

    فطرت سے دلچسپی رکھنے والی ایک آرٹسٹ للی سائن نے سوکھے پتوں سے خوبصورت کارڈز تشکیل دیے ہیں۔

    للی کا کہنا ہے کہ اسے فطرت سے بہت محبت ہے۔ وہ ہر سال خزاں کا انتظار کرتی ہے اور سوکھے پتوں کو جمع کر کے ان سے یہ کارڈز بناتی ہے۔

    card-11

    card-10

    card-9

    card-8

    للی کے مطابق اسے ایک کارڈ بنانے میں کافی وقت لگتا ہے لیکن وہ اس کام کے ایک ایک مرحلہ سے لطف اندوز ہوتی ہے

    card-7

    card-6

    card-5

    card-3

    card-1

    وہ کہتی ہے، ’فطرت مجھے خود اعتمادی اور کام کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اگر میں یہ کام نہ کروں تو میری زندگی بہت بے رنگ ہوجائے گی‘۔

  • جذبات کو رنگوں کی زبان دینے والا مصور

    جذبات کو رنگوں کی زبان دینے والا مصور

    کینیڈا سے تعلق رکھنے والا الفریڈو کارڈینس مصوری اور فوٹوگرافی کا شوقین تھا۔ اسے فطرت کے قریب رہنا اور اس کا مشاہدہ کرنا اچھا لگتا تھا اور اسی عادت نے اسے ایک منفرد مصور بنادیا۔

    الفریڈو کے مطابق جب وہ جنگل میں وقت گزارا کرتا تھا تو اسے مختلف رنگ نظر آتے۔ سورج اور چاند کی حرکت کے ساتھ ساتھ جنگل اور درختوں کے رنگ بھی بدلتے جاتے جو اسے بہت خوبصورت لگتے۔

    مزید پڑھیں: رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    اسے خیال آیا کہ انسانی جذبات بھی انہی رنگوں کی طرح ہیں جو بدلتے رہتے ہیں اور اسی خیال سے اسے انسانی چہروں کو ایک نئے انداز سے رنگنے کا خیال سوجھا۔

    art-1

    art-2

    art-3

    art-4

    art-5

    art-6

    art-7

    art-8

    الفریڈو نے ان رنگوں کے ذریعے انسانی جذبات کی عکاسی کی کوشش کی ہے۔ اپنی پینٹنگز میں اس نے ایشیائی، افریقی اور مغربی تمام چہروں کو موضوع بنایا ہے۔

  • رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، خواتین کی نمائندگی کے بغیر ادھورا ہے۔ کسی شعبہ میں اگر خواتین کی آواز نہیں ہوگی تو اس کا مطلب ہے ہم دنیا کی نصف سے زائد آبادی کے خیالات جاننے سے محروم ہیں۔

    فن و ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اردو شاعری پر یہ الزام ہے کہ اس میں خواتین صرف نسوانی جذبات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے روشناس بھی اسی صورت میں کرواتی ہیں جب ان کا تعلق صنف نازک سے ہو۔

    شاید اس کی وجہ یہ ہے عورت فطرتاً نرم دل اور حساس ہے۔ وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی بات تلاش کرلیتی ہے۔ جب زندگی پہلے ہی مصائب سے گھری ہو، ہر طرف دکھ و الم ہو، بم دھماکے ہوں اور خون خرابہ ہو، تو ایسے میں جذبوں سے متعلق بات کرنا مزید مصیبت سے بچا لے گا۔

    ایسا ہی کچھ اظہار کرن شاہ، زینب مواز اور شاہانہ منور نے بھی اپنی پینٹنگز کے ذریعے کیا۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے پڑھنے اور پڑھانے والی تینوں فنکارائیں اپنے فن کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔

    اپنے فن کے بارے میں بتاتے ہوئے زینب مواز کہتی ہیں کہ پینٹنگ اپنے جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ جب میں چھوٹی تھی تو خیالی دنیا میرے رہنے کی پسندیدہ جگہ تھی۔ تب میرے والدین اور ٹیچرز نے فیصلہ کیا کہ آرٹ کے ذریعے میں اپنی اس خیالی دنیا کو حقیقت میں لے آؤں۔

    ان کے کچھ فن پارے تجریدی آرٹ کا نمونہ ہیں۔ یہ دیکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس کے کیا معنی لیتا ہے۔

    ایک فنکار اپنے ارد گرد کے حالات کا اظہار کیسے کرتا ہے؟ اس کا جواب زینب مواز کا وہ فن پارہ ہے جس میں انہوں نے ایک کوے کو ایک پرندے سے نوالہ چھینتے ہوئے دکھایا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’کوا خودغرضی، لالچ اور بدفطرتی کی ایک مثال ہے۔ جب قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا تو اس نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔ انسانوں کی اس بدفطرتی کو علامتی اظہار میں پیش کرنے کے لیے مجھے کوے سے بہتر اور کوئی چیز نہیں لگی۔‘

    البتہ شاہانہ منور اس بات کی نفی کرتی ہیں۔

    ان کے خیال میں زندگی میں بے شمار دکھ، بے شمار مسائل ہیں، تو اپنی ذاتی زندگی کے مسائل کا آرٹ کے ذریعے اظہار کر کے دوسروں کے مسائل میں اضافہ کرنا نا انصافی ہے۔ کیوں نہ انہیں رنگوں کی خوبصورتی دکھائی جائے تاکہ وہ چند لمحوں کے لیے ہی سہی، لیکن خوشی محسوس کر سکیں۔

    زینب اپنی ایک پینٹنگ کے ذریعے لوگوں کی فطرت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے، ’لوگ بے رحم حد تک نکتہ چیں ہوتے ہیں۔ وہ منصفی کی ایک خود ساختہ کرسی پر بیٹھ کر ہر شخص کو جج کرتے ہیں۔‘ ان کی اس پینٹنگ میں ایک عورت طوطے کو ہاتھ پر بٹھا کر فرصت سے اس میں خامیاں تلاش کر رہی ہے۔

    شاہانہ منور اپنی پینٹنگز میں عورت کی خوبصورتی کو بیان کرتی ہیں۔ ان کے فن پارے ’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘ کی عملی تصویر نظر آتے ہیں۔ گہرے اور شوخ رنگوں سے انہوں نے لفظ’عورت‘ میں قید رنگینی، خوبصورتی اور دلکشی کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    گہرے رنگوں کو استعمال کرنے والی کرن شاہ اپنے فن کے بارے میں بتاتی ہیں، کہ ان کا مزاج بدلتا رہتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے فن پارے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

    ایک طرف وہ ان فن پاروں کے ذریعے انسانی فطرت کی بدصورتی کو اجاگر کر رہی ہیں تو دوسری طرف شوخ رنگوں سے مزین یہ فن پارے زندگی کے روشن رخ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

    یہ تینوں مصورات اپنے اپنے تصورات اور تخیلات کے سہارے فن مصوری کی نئی جہتوں اور نئے جہانوں کی تلاش میں ہیں اور ان کی تصویروں میں استعمال ہونے والے رنگوں کا اعتماد بتاتا ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ تینوں اپنی منزل ضرور حاصل کرلیں گی۔

  • جاپان میں چیری بلوسم کا خوبصورت نظارہ

    جاپان میں چیری بلوسم کا خوبصورت نظارہ

    جاپان میں چیری بلوسم کے موسم میں جن جگہوں پر یہ درخت پائے جاتے ہیں وہ جگہیں گلابی ہوجاتی ہیں۔ مارچ اور اپریل کے درمیان مختصر دورانیے کے لیے کھلنے والے یہ پھول اس جگہ کو الگ ہی خوبصورتی عطا کرتے ہیں۔

    ایک فوٹوگرافر ڈنیلو ڈنگو نے اس موسم کو اپنے کیمرے میں قید کیا۔ اس نے سال کے بہترین مناظر کو فلمایا۔ ان خوبصورت تصاویر کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ڈرون کیمروں کا استعمال کیا۔

    آئیے آپ بھی اس موسم کی خوبصورتی دیکھیئے۔

    cb-2

    cb-3

    cb-4

    cb-5

    cb-6

  • کاغذ سے بنا ہوا آرٹ

    کاغذ سے بنا ہوا آرٹ

    آپ نے آرٹ کے بے شمار نمونے دیکھے ہوں گے۔ آئیے آپ کو ایسے ہی ایک اور منفرد آرٹ سے روشناس کرواتے ہیں۔

    سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی سیسیلا لیوی نے پرانی کتابوں کو خوبصورت آرٹ کے نمونوں میں ڈھال دیا۔ ابتدا میں اسے کتابوں سے محبت کرنے والے افراد کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

    pa-1

    pa-4

    pa-2

    pa-3

    pa-5

    سیسیلا کا کہنا ہے کہ جب ان کی تصاویر دیکھیں گے تو آپ حیران رہ جائیں گے اور اپنی تنقید بھول جائیں گے۔

  • شام کے تاریخی شہر پالمیرا میں روسی آرکیسٹرا کا انعقاد

    شام کے تاریخی شہر پالمیرا میں روسی آرکیسٹرا کا انعقاد

    شام کے تاریخی شہر پالمیرا میں جنگ کے غم بھلانے کے لیے روسی آرکیسٹرا پہنچ گیا۔ موسیقی سے امید کے نئے چراغ روشن کرنے کی کوشش کی گئی۔

    پالمیرا کے لیے دعا کے نام سے منعقدہ موسیقی کی محفل میں روسی اور شامی فوجیوں سمیت سول سوسائٹی نے شرکت کی۔ آرکیسٹرا کا انعقاد پالمیرا کے رومن تھیٹر میں کیا گیا۔

    روسی آرکیسڑا نے موسیقی کے ذریعے جنگ میں جان دینے والوں کو یاد کیا۔ شدت پسندی سے متاثرہ افراد کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ منتظمین کا کہنا تھا کہ موسیقی کے ذریعے امید کے نئے چراغوں کو روشن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ شام کے تاریخی شہر پالمیرا کو مارچ میں داعش سے واگزار کروایا گیا تھا۔ دس ماہ تک شہر پر قابض رہنے کے دوران داعش نے متعدد تاریخی عمارتوں کو تباہ کر دیا تھا۔

  • عام تصویروں کو فلم کے پوسٹر میں بدلنے والا فنکار

    عام تصویروں کو فلم کے پوسٹر میں بدلنے والا فنکار

    اگر آپ اپنی کسی تصویر کو کسی فلم کے پوسٹر میں بدلنا چاہتے ہیں تو پھر خوش ہوجائیے کیونکہ آپ کے مطلب کا آرٹسٹ مل گیا ہے۔

    چھوٹا سا امریکی بچہ جسے اب ریڈیٹر کہا جاتا ہے مختلف اشیا سے عام تصویروں کو فلم کے پوسٹر میں بدل دیتا ہے۔

    آئیے آپ بھی جانیئے کیسے۔۔

    poster-3

    poster-1

    poster-4

    poster-2

    poster-7

    poster-6

    poster-5

    poster-8

  • فنکار کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں، علی ظفر

    فنکار کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں، علی ظفر

    لاہور: اداکار و گلوکار علی ظفر نے کہا ہے کہ فنکار کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔

    اداکار و گلوکار علی ظفر نے کہا ہے کہ فنکار کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ، فن اور فنکار کو سرحدوں کے اندر قید نہیں کیاجاسکتا ،جہاں اچھا اورمعیاری کام ملے گا فنکار ادھر کار خ ضرور کریگا ۔

    ایک انٹرویو کے دوران علی ظفر نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا مستقبل بہت روشن ہے اور وطن عزیز میں معیاری اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ پروڈکشن کی بدولت انڈسٹری روز بروز ترقی کی منازل طے کررہی ہے جو بڑی حوصلہ افزا بات ہے ۔