Tag: فنکار

  • رنگین روشنیوں سے جگمگاتی خوبصورت تصاویر

    رنگین روشنیوں سے جگمگاتی خوبصورت تصاویر

    روشنی ہماری دنیا کی تیز رفتار ترین شے ہے جسے قید کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے، تاہم 2 تخلیق کاروں نے اپنے کیمرے کے ذریعے یہ کمال کر دکھایا ہے۔

    کم ہینری اور ایرک پیئر نامی دو تخلیق کاروں نے فوٹوگرافی کے شاہکار تخلیق کیا ہے۔

    ایرک ایک فوٹوگرافر ہے جبکہ کم ڈانسر ہے۔ ایرک نے کم کے ساتھ ٹیوب لائٹس کے استعمال سے فوٹوگرافی کا شاہکار تخلیق کیا ہے۔

    ایرک کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک سیکنڈ کا وقت ہوتا ہے جس میں صحیح منظر ملتا ہے۔ اس ایک سیکنڈ کے لیے مجھے کافی دیر محنت کرنی پڑتی ہے۔

    ایرک کا کہنا تھا کہ وہ کم کے پیچھے کھڑا ہو کر ٹیوب لائٹس کو مستقل گھماتا ہے جس کے بعد ہی صحیح منظر ملتا ہے۔

    مختلف رنگین روشنیوں کے ساتھ کم کے مختلف انداز مل کر ان تصاویر کو نہایت خوبصورت بنا دیتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بے روزگاری نے فنکار بنا دیا

    بے روزگاری نے فنکار بنا دیا

    کہتے ہیں خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہے۔ فارغ بیٹھنا اور کچھ نہ کرنا دماغ میں شیطانی خیالات کو جنم دیتا ہے اور دماغ مختلف منفی منصوبے بناتا ہے۔

    لیکن قازقستان سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے اس مقولے کو غلط ثابت کردیا۔ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ کے رہائشی کانت نامی اس شخص کا آرٹ سے کوئی تعلق نہیں اس کے باوجود اس نے آرٹ کے شاہکار تخلیق کر ڈالے۔

    بقول کانت، اس نے کبھی آرٹ کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ اپنی بیچلرز کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بے روزگار تھا تب ہی اسے کچھ نیا سیکھنے اور کچھ مختلف کرنے کا خیال آیا۔

    پہلے اس نے سیب پر مختلف اشکال تخلیق کر ڈالیں۔ اس کے لیے اسے کافی محنت اور پریکٹس کرنی پڑی لیکن آہستہ آہستہ وہ اس فن میں طاق ہوتا گیا۔

    1

    5

    2

    3

    اس کے بعد اس نے کاغذ پر مختلف شکلیں بنا کر انہیں مختلف طرح سے ترتیب دے ڈالا جس کے بعد وہ نہایت خوبصورت آرٹ کے نمونوں میں تبدیل ہوگئیں۔

    9

    10

    11

    12

    13

    7

    تو پھر کیا خیال ہے؟ اگر آپ بھی بے روزگار ہیں تو اس وقت سے فائدہ اٹھائیں اور اس فنکار کی طرح آپ بھی کچھ نیا تخلیق کر ڈالیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سنہری مجسمے جو پانی کا خوبصورت عکس دیتے ہیں

    سنہری مجسمے جو پانی کا خوبصورت عکس دیتے ہیں

    پولینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک مجسمہ ساز ملگورزاتا منفرد اور شاندار مجسمے تخلیق کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ اس بار انہوں نے ایک قدم اور اٹھاتے ہوئے نہایت منفرد مجسمے تشکیل دیے ہیں۔

    یہ مجسمہ ساز گزشتہ 30 برس سے اس فن سے منسلک ہیں۔ اس دوران وہ بے شمار مجسمے بنا چکی ہیں۔

    حالیہ پروجیکٹ کے تحت بنائے گئے ان کے مجسمے فواروں کی طرح ہیں جن سے پانی بہتا ہے۔

    سنہری رنگ سے تخلیق کیے ہوئے مجسموں سے جب پانی نکلتا ہے تو دیکھنے والوں کو مبہوت کردیتا ہے ہیں۔ آئیں آپ بھی ان مجسموں کو دیکھیں۔

    s5

    s4

    s3

    s2

    s1


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    کیا آپ آئزک اسیموو کو جانتے ہیں؟ آئزک اسیموو ایک امریکی مصنف اور پروفیسر ہیں جنہوں نے سائنس فکشن پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کتابوں کی تعداد 500 سے زائد ہے، جی ہاں 500۔

    آئزک کی تحریروں کی تعداد اس قدر ہے کہ اگر آپ ان کی تحاریر کا شمار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو 25 سال تک ہر دو ہفتے بعد ایک مکمل ناول لکھنا ہوگا۔ آئزک نے اپنی خود نوشت سوانح حیات بھی لکھی جس کا نام ہے، ’اچھی زندگی گزری‘۔

    شاید یہ ہمارے لیے ایک حیرت انگیز بات ہو کیونکہ ہم میں سے بہت سے افراد کتاب لکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کون سا موضوع اور کون سا خیال چنیں جسے پھیلا کر ایک کتاب کی شکل دی جاسکے۔

    کچھ باعلم افراد اپنی زندگی میں ایک، 2 یا 5 کتابیں بھی لکھ لیتے ہیں لیکن 500 کتابیں لکھنے کا خیال ان کے لیے بھی کافی مشکل ہوگا۔

    لیکن فکر نہ کریں، آئزک نے اپنی سوانح میں ان رازوں سے آگاہی دی ہے جن کے ذریعہ وہ اتنی بڑی تعداد میں کتابیں لکھنے میں کامیاب ہوئے۔ آئزک کا کہنا ہے کہ کوئی بھی تخلیقی کام، شاعری، مصوری، قلم کاری یا موسیقی تخلیق کرتے ہوئے تخلیق کار یکساں کیفیات و مراحل سے گزرتے ہیں۔

    آئیے آپ بھی وہ راز جانیں جنہوں نے آئزک کو ایک بڑا مصنف بنایا۔


    سیکھنا مت چھوڑیں

    آئزک اسیموو ویسے تو ایک سائنس فکشن رائٹر کے طور پر مشہور ہیں۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے طبیعات، قدیم تاریخ، حتیٰ کہ انجیل پر بھی ایک کتاب لکھ ڈالی۔

    تو آخر انہوں نے اتنے متنوع موضوعات پر کتابیں کیسے لکھ لیں؟

    اس بارے میں وہ بتاتے ہیں، ’مختلف موضوعات پر کتابیں میں نے اس بنیادی معلومات کی بنا پر نہیں لکھیں جو میں نے اسکول میں حاصل کیں۔ میں ان تمام موضوعات پر ساری زندگی پڑھتا رہا‘۔

    آئزک کی لائبریری میں ہر موضوع پر کتابیں موجود ہیں۔ وہ تاریخی، خلائی اور سائنسی میدان میں ہونے والی اصلاحات، تحقیقات اور نئی دریافتوں سے خود کو آگاہ رکھتے تھے اور مستقل مطالعہ کرتے رہتے تھے۔


    جمود سے مت لڑیں

    آئزک کہتے ہیں کہ ہر عام انسان کی طرح اکثر اوقات وہ بھی جمود کا شکار ہوگئے اور کئی بار لکھنے کے دوران وہ خود کو بالکل خالی الدماغ محسوس کرنے لگے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ کوئی موضوع آپ کا کتنا ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو، آپ اسے لکھنے کے دوران بھی جمود کا شکار ہوسکتے ہیں اور آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ کے خیالات ختم ہوگئے ہیں۔

    اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے آئزک نہایت شاندار تجویز دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایسے موقع پر وہ مذکورہ کام کو ادھورا چھوڑ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتے تھے۔ کسی دوسرے موضوع پر لکھنا، یا مطالعہ یا کوئی بالکل متضاد کام۔

    تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد ان کے جمود کی کیفیت ختم ہوجاتی تھی اور جب وہ اس ادھورے کام کو مکمل کرنے کے لیے واپس پلٹتے تھے تو اس بار ان کا دماغ توانائی اور نئے خیالات سے بھرپور ہوتا تھا۔


    رد کیے جانے کا خوف

    آئزک کا کہنا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار، مصور، شاعر، قلم کار، مصنف حتیٰ کہ اپنے کاروبار میں نئے نئے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے والا بزنس مین بھی اس خوف کا شکار ہوتا ہے کہ جب اس کا آئیڈیا حقیقت کا روپ دھارے گا تو کیا لوگ اسے قبول کریں گے؟

    لکھنے والے افراد اکثر اس تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ آیا جو انہوں نے لکھا وہ پڑھے جانے کے قابل بھی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پڑھنے والے کو یہ سب بے ربط اور غیر منطقی لگے۔

    آئزک کے مطابق یہ خوف ایک مثبت شے ہے، کیونکہ اس خوف کی وجہ سے تخلیق کار اپنی تخلیق کی نوک پلک بار بار درست کرتا ہے اور اسے بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

    لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس خوف کو اس قدر حاوی نہ کیا جائے کہ تخلیق کار کا تخلیقی خیال اس کے اندر ہی گھٹ کر مر جائے اور صرف اس خوف کی وجہ سے دنیا کے سامنے نہ آسکے کہ یہ پسندیدگی کا درجہ نہیں پاسکے گی۔


    معیار کو پست کریں

    اپنی سوانح میں آئزک لکھتے ہیں کہ کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی مصور اپنی پہلی ہی کوشش میں مونا لیزا جیسی شہرہ آفاق پینٹنگ تخلیق کر ڈالے۔ ان کا ماننا ہے کہ جب آپ اپنے تخلیقی کام کا آغاز کریں تو اسے شاہکار کی صورت پیش کرنے کا خیال دل سے نکال دیں اور اپنے معیارات کو نیچے لے آئیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ اپنی ابتدائی تخلیق کو سادہ لیکن اچھا پیش کریں۔ جب تک آپ کو تجربہ نہ ہوجائے اسے بہت شاندار یا شاہکار بنانے سے گریز کریں۔ یہ امر آپ کی تخلیق (شاعری، مصوری، ناول) کو بگاڑ دے گا۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کوئی مضمون لکھ رہے ہیں تو اس میں دنیا جہاں کی معلومات دینے کے بجائے صرف وہ معلومات شامل کریں جن کے بارے میں آپ 100 فیصد پریقین ہوں اور وہ ہر حال میں درست ہوں۔ اس مضمون کے پھیلاؤ کو کم کریں اور کسی ایک موضوع تک محدود کریں تاکہ آپ پوری طرح اس کا حاطہ کرسکیں۔

    یاد رکھیں کہ ایک تخلیق کار کبھی اپنی تخلیق سے نفرت نہیں کرسکتا۔ آپ کی ابتدائی تخلیق ہوسکتا ہے کہ آپ کے ہم پیشہ کسی تجربہ کار شخص کے لیے خاص نہ ہو، لیکن وہ ان افراد کے لیے ضرور دلچسپی کا باعث ہوگی جو اس موضوع کے بارے میں بہت کم یا بالکل معلومات نہیں رکھتے۔


    خیال کو طاری کرلیں

    آئزک اسیموو سے ایک بار کسی نے پوچھا، ’تم اپنی کتاب کے لیے اتنے سارے آئیڈیاز کیسے سوچ لیتے ہو‘؟

    آئزک کا جواب تھا، ’میں سوچتا رہتا ہوں، سوچتا رہتا ہوں اور ایک خیال، ایک آئیڈیے سے نئے آئیڈیاز نکلتے جاتے ہیں‘۔

    وہ بتاتے ہیں کہ تنہا راتوں میں، میں ایک خیال پر سوچتا رہتا ہوں۔ اس میں موجود خوشی کے واقعات پر خوش ہوتا ہوں، اور اداس واقعات پر روتا ہوں۔ اس طرح ایک خیال سے کئی خیالات وجود میں آجاتے ہیں۔

    تو پھر کیا خیال ہے آپ کا؟ آئزک اسیموو کے یہ راز آپ کی تخلیقی صلاحیت کو مہیز کرنے میں کتنے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    تخلیقی ذہن کے افراد ہر چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسے اپنی تخلیق میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہانی کار اور مصنف روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے کہانی تخلیق کرتے ہیں۔ مصور روزمرہ کی چیزوں کو دیکھ کر انہیں اپنے خیالات اور رنگوں میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔

    روس کی ایسی ہی ایک ڈیزائنر لیلیا ہڈیاکووا نے ایسے لباس تخلیق کیے جو فطرت سے متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں فطرت سے قریب رہنا پسند ہے اور اسی لیے انہوں نے اپنے ڈیزائن کردہ لباسوں میں فطرت کو اجاگر کیا۔

    گو کہ کسی قدرتی منظر کو انسانی تخلیق میں ڈھالنے میں کچھ تبدیلیاں آجاتی ہیں لیکن لیلیا نے حیرت انگیز طور پر فطرت کا رنگ برقرار رکھا ہے۔

    ان کے لباسوں میں قدرتی مناظر، پھول، باغ، پہاڑ اور تاریخی عمارتوں کا خوبصورت اور حیرت انگیز اظہار دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    8

    4

    5

    1

    6

    7

    11

    12

    17

    18

    19

    20

    21

    22


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ممتاز اداکار طلعت حسین سے جڑی کچھ دل چسپ باتیں، کچھ مہکتی یادیں

    ممتاز اداکار طلعت حسین سے جڑی کچھ دل چسپ باتیں، کچھ مہکتی یادیں

    صاحبو، آج تھیٹر کا عالمی دن ہے،ایک قدیم فن سے جڑا دن، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان کی اپنے ذوق سلیم کی تسکین کے لیے کچھ انوکھا کرگزرنے کی چاہ ہزاروں برس قدیم ہے۔

    شاید اِس خواہش کا آغاز تب ہوا تھا، جب انسان خوف اور بھوک کے عفریت پر کچھ حد تک قابو پاچکا تھا اور تہذیب کی تعمیر کی جانب پہلا قدم بڑھا رہا تھا۔

    آج کے روز یہ موزوں ہے کہ پاکستانی تھیٹر سے جڑے ایک ایسے فن کار کو یاد کیا جائے، جس نے کتنے ہی یادگار کردار نبھائے۔ اپنی آواز، مخصوص انداز سے ہزاروں کو گرویدہ بنایا۔ اداکاری کا علم نئی نسل میں منتقل کیا۔ سوچتا ہوں؛ اگر یہ صاحب نہ ہوتے، تو پاکستانی ڈراما شاید ادھورا رہ جاتا!

    [bs-quote quote=”پیشہ ورانہ سفر کا آغاز سینما میں گیٹ کیپر کے طور پر کیا۔ بعد میں جب سینما کے مالک کو اُن کی انگریزی بولنے کی قابلیت کا علم ہوا، تو انھیں گیٹ بکنگ کلرک بنا دیا۔” style=”style-2″ align=”right” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/03/Tala60x60.jpg”][/bs-quote]

    یہ معروف فن کار طلعت حسین کا ذکر ہے، جن سے کبھی تو اُس روزنامہ کے دفتر میں، جس سے میں بہ طور انٹرویوکار ایک عشرے منسلک رہا، ملاقاتیں ہوئیں، کبھی آرٹس کونسل کے چائے خانے میں سامنا ہوا، کبھی ناپا کے سامنے موجود ریسٹورنٹ میں، جو اب نہیں رہا۔ اور ہر بار یہ تجربہ پرمسرت اور یادگار رہا۔

    اُنھوں نے ہوائیں، کشکول، گھوڑا گھاس کھاتا ہے، طارق بن زیاد اور ٹائپسٹ جیسے یادگار ڈرامے کیے۔ انسان اور آدمی، گم نام ، لاج اور جناح جیسی فلموں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ہندوستانی فلم سوتن کی بیٹی اور برطانوی سیریز ٹریفک میں بھی خود کو منوایا۔ کئی ملکی و بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے۔

    طلعت حسین نے تھیڑ میں خاصا کام کیا۔ لندن میں قیام کے دوران وہ اس فن کے اوج پر نظر آئے۔ اس کلاکار کی زندگی کے کئی پہلو خاصے دل چسپ ہیں۔ آئیں، ایسے ہی چند گوشوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

    1945 دہلی میں پیدا ہونے والے اس فن کار کے اہل خانہ نے بٹوارے کے سمے ہجرت کی۔ ان کی والدہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھیں۔ وہ ان کے ریڈیو کی سمت آنے کے خلاف تھیں، ان کی شدید خواہش تھی کہ بیٹا سول سروس میں جائے، مگر قسمت کو کچھ اور منظو تھا۔ انھوں نے ریڈیوآڈیشن پاس کیا۔ ”اسکول براڈ کاسٹ“ نامی پروگرام سے اپنا فنی سفر شروع کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

    پیشہ ورانہ سفر کا آغاز سینما میں گیٹ کیپر کے طور پر کیا۔ بعد میں جب سینما کے مالک کو اُن کی انگریزی بولنے کی قابلیت کا علم ہوا، تو انھیں گیٹ بکنگ کلرک بنا دیا۔

    ڈرامے ”ارجمند“ سے 1967میں ٹی وی کی دنیا میں قدم رکھا۔ پہلے ڈرامے کے فوراً بعد گاڑی خرید لی تھی۔ پھر وہ لندن چلے گئے۔ ایکٹنگ کی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔

    [bs-quote quote=”لندن سے لوٹ کر انھوں نے ایک روزنامے میں بہ طور سب ایڈیٹر کام کیا۔ ٹی وی پر بہ طور نیوزکاسٹر بھی نظر آہے، جس کے ماہانہ 200 روپے ملا کرتے۔” style=”style-2″ align=”left” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/03/Tala_60x60.jpg”][/bs-quote]


    لندن میں قیام کے دوران بی بی سی کے لیے بھی کام کیا۔ وہاں کی پاکستانی کمیونٹی میں خاصے مقبول تھے، مگر گزر بسر کے لیے انھیں دیگر ملازمتیں بھی کرنی پڑیں۔ وہاں بہ طور ویٹر بھی کام کیا۔

    لندن سے لوٹ کر انھوں نے ایک روزنامے میں بہ طور سب ایڈیٹر کام کیا۔ ٹی وی پر بہ حیثیت نیوزکاسٹر بھی نظر آہے، جس کے ماہانہ 200 روپے ملا کرتے۔

    طلعت حسین ادب پر بھی بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔ لٹریچر کے موضوع پر جم کر گفتگو کرتے ہیں۔ کتابوں سے ان کا پرانا ناتا ہے۔ کراچی کے چند کتب فروش اپنے اس مستقبل گاہک کو خوب پہچانتے ہیں۔

    وہ قرة العین حیدر کو اردو کی نمایندہ فکشن نگارسمجھتے ہیں۔ شوکت صدیقی بھی انھیں پسند ہیں۔ بین الاقوامی ادیبوں میں چیخوف، گورکی، ہیمنگ وے کو سراہتے ہیں۔ طلعت حسین نے افسانے بھی لکھے، جو مختلف جرائد میں چھپے۔ انھیں کتابی شکل دینے کا ارادہ ہے۔

    کلاسیکی شعرا میں وہ میر کے مداح ہیں۔ اس خیال سے متفق ہیں کہ ہر اچھا شعر، میر کا شعر ہے۔ فیض کو بنیادی طور پر جدید اور معروف معنوں میں رومانوی شاعر ٹھہراتے ہیں۔ جالب، ان کے مطابق پکے انقلابی تھے، ان کے ہاں نعرے بازی تھی۔ قمرجمیل کی شاعری کے معترف ہیں۔


    تھیٹرکا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ان معروف اداکاروں کے اصل نام جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    ان معروف اداکاروں کے اصل نام جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    ٹی وی پر آنے والے اداکاروں کو ہم جس نام سے جانتے ہیں وہ اکثر اوقات ان کے اصل نام نہیں ہوتے۔ اداکار اپنے فلمی نام ایسے رکھتے ہیں جو آسان اور گلیمرس معلوم ہوں۔

    آج ہم آپ کو لالی ووڈ، بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کے چند ایسے فنکاروں کے اصل نام بتانے جارہے ہیں جنہیں جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔

    ریما ۔ ثمینہ خان


    شان ۔ ارمغان شاہد


    صبا قمر ۔ صباحت قمر زمان


    وینا ملک ۔ زاہدہ ملک


    نور ۔ سونیا مغل


    نبیل ۔ ندیم ظفر


    عائزہ خان ۔ کنزہ خان


    سمیع خان ۔ منصور اسلم خان


    کترینہ کیف ۔ کترینہ ٹرکٹ


    اکشے کمار ۔ راجیو اوم بھاٹیہ


    رجنی کانت ۔ شیوا جی راؤ گائکواڑ


    اجے دیوگن ۔ وشال دیوگن


    ملکہ شراوت ۔ ریما لامبا


    جان ابراہم ۔ فرحان ابراہم


    سنی لیون ۔ کرن جیت کور وہرہ


    ٹام کروز ۔ تھامس کروز میپوتھر


    کیٹی پیری ۔ کیٹی ہڈسن


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عربی سے نابلد ہونے کے باوجود آپ ان الفاظ کا مطلب جان جائیں گے

    عربی سے نابلد ہونے کے باوجود آپ ان الفاظ کا مطلب جان جائیں گے

    لفظوں کو ان کے لغوی معنوں میں ڈھلتے دیکھنا ایک نہایت ہی دلچسپ مرحلہ ہوگا جو یقیناً لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔

    مثال کے طور پر لفظ ’بلی‘ کو اگر آپ کے سامنے ایسی صورت میں پیش کیا جائے کہ پہلی نظر میں وہ آپ کو دیکھنے پر ایک بلی ہی معلوم ہو، تو یہ یقیناً ایک خوشگوار اور دلچسپ تجربہ ہوگا۔

    ایک عربی فنکار محمد السید نے ایسا ہی کچھ دلچسپ فن تخلیق کیا۔

    اس نے مختلف عربی الفاظ کو ان کے لغوی معنوں کی تصویر میں اس طرح ڈھالا کہ عربی سے نابلد افراد اسے دیکھتے ہی اس لفظ کا مطلب جان جائیں۔

    اس نے ان تصاویر کے ساتھ ان کا تلفظ اور انگریزی مطلب بھی پیش کیا۔

    محمد نے اس طرح کے 40 الفاظ کو رنگوں اور تصاویر میں ڈھالا۔ ان میں سے کچھ ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

    6

    3

    2

    1

    5

    7

    10

    11

    13

    14

    4

    15

    12

    9

    8


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کتابوں میں چھپی خفیہ مصوری

    کتابوں میں چھپی خفیہ مصوری

    کتاب یوں تو معلومات کا ذخیرہ ہوتی ہے اور پڑھنے والے کے علم میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے، لیکن اگر کتاب کو مصوری کی صنف کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو وہ فن کا شاہکار بن جاتی ہے۔

    انسانی تہذیب کے آغاز کے ساتھ ساتھ جہاں ہمیں ہر شعبے میں مختلف اور اپنے زمانے کے لحاظ سے جدید تکنیکیں نظر آتی ہیں وہیں فن مصوری میں بھی بے شمار جہتیں نظر آتی ہیں۔

    ایسی ہی ایک جہت فور ایڈج پینٹنگ ہے جو کتاب کے صفحوں کے بالکل کناروں پر کی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: آرٹ گیلری میں قوس قزح

    یہ تصاویر کتاب کو ایک خاص زاویے پر رکھنے کے بعد ہی نظر آسکتی ہیں۔ اگر کتاب کو بند کردیا جائے یا مکمل کھولا جائے تب ان پینٹنگز کو دیکھنا ناممکن ہے۔

    انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا کہنا ہے کہ اس فن کا آغاز یورپی قرون وسطیٰ کے دور میں ہوا مگر یہ سترہویں سے انیسویں صدی کے درمیان اپنے عروج پر پہنچا۔

    امریکی شہر بوسٹن کی پبلک لائبریری میں ایسی ہی کئی کتابوں کو مختلف مقامات سے لا کر جمع کیا گیا ہے جن پر مصوری کی یہ صنف کی گئی ہے۔

    آئیے آپ بھی یہ حیرت انگیز تصاویر دیکھیں۔

    art-1

    art-2

    art-3

    art-5

    art-4

    اور اب دیکھیں کہ یہ پینٹنگز بنائی کس طرح جاتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مصوری کے فن پارے جیسا رنگوں بھرا گھر

    مصوری کے فن پارے جیسا رنگوں بھرا گھر

    امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک گھر کو اس قدر رنگوں سے رنگا گیا ہے، کہ اس کو دیکھ کر آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ نے رنگوں سے سجے کسی تخیلاتی فن پارے میں قدم رکھ دیا ہے۔

    15

    18

    8

    کیلی فورنیا کے پام اسپرنگ کے علاقے میں واقع اس گھر کے مالکان نے جب اسے خریدا تو یہ بالکل سادہ عام سا گھر تھا۔

    2

    6

    14

    اسے خریدنے والا جوڑا سیاح تھا اور انہوں نے دنیا بھر کی ثقافت، آرٹ اور رنگوں کو اس گھر میں یکجا کردیا۔

    4

    13

    11

    گھر میں 2 بیڈرومز اور لونگ رومز موجود ہیں۔ گھر کا کچن بھی سبز رنگوں سے مزین بہت خوب ہے۔

    9

    16

    17

    سوئمنگ پول کے ساتھ خوبصورت پتھروں کا فرش موجود ہے جبکہ آس پاس پہاڑوں اور جنگل کا منظر دیکھنے والوں پر سحر طاری کردیتا ہے۔

    10

    5

    3

    اس خوبصورت گھر کی قیمت پاکستانی روپوں میں 5 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

    7

    1

    12

    کیا آپ ایسے خوبصورت رنگوں بھرے گھر میں رہنا چاہیں گے؟

    مزید پڑھیں: امریکی مصور نے قوس قزح بنا ڈالی


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔