اگر آپ کتاب پڑھنے کے شوقین ہیں تو یقیناً آپ ہر وقت اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے ہوں گے تاکہ آپ کو جہاں وقت اور موقع ملے آپ اسے پڑھنا شروع کردیں۔
لیکن امریکی شہر فلاڈلفیا سے تعلق رکھنے والی یہ آرٹسٹ کتاب کے کسی بھی دیوانے سے دو ہاتھ آگے ہے۔ یہ کتابوں کو گلے میں آویزاں کرنا چاہتی ہے اسی لیے اس نے یہ ننھی منی کتابیں تخلیق کر ڈالیں۔
اس کے لیے اس نے استعمال شدہ صوفوں کے کور، پرانے لیدر بیگ اور بٹووں کو استعمال کیا اور ان کے ذریعہ یہ منی ایچر نوٹ بکس بنا ڈالیں۔
یہ نوٹ بکس ان افراد کے لیے خاص طور پر دلچسپی کا باعث ہیں جو منفرد اور عجیب و غریب زیورات سے خود کو آراستہ کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔
لیکن ساتھ ہی کچھ لوگ اسے شو پیس کے طور پر بھی استعمال کر رہے ہیں۔
لکھنے کے مقصد کے لیے انہیں خریدنے والے پر منحصر ہے کہ وہ ان ننھی منی نوٹ بکس پر کیا لکھتا ہے۔
آپ ان منی ایچر نوٹ بکس کو کیسے استعمال کریں گے؟
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
منی ایچر یعنی ننھا منا آرٹ نہایت خوبصورت لگتا ہے لیکن اسے بنانے کے لیے نہایت محنت اور مہارت درکار ہے۔
ایسے ہی چند ماہر فنکاروں نے امریکی شہر نیویارک میں ایک ننھا منا سا میگا سٹی تشکیل دیا ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں دنیا بھر میں موجود تاریخی مقامات اور یادگاریں بنائی گئی ہیں۔
نیویارک کے ٹائمز اسکوائر پر 49 ہزار اسکوائر فٹ پر پھیلے اس ننھے لیکن عظیم شہر میں دنیا کے 50 ممالک کے یادگار اور خوبصورت مقامات موجود ہیں۔
اس شہر کا نام مشہور افسانوی کردار گلیورز کے نام پر رکھا گیا ہے جو اپنے سفر کے دوران اسی طرح کی ایک ننھی منی سی دنیا دریافت کر بیٹھتا تھا۔
گلیورز گیٹ نامی اس شہر میں معمولی معمولی سی باریکیوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔
یہاں ساحل سمندر، گھر، گاڑیاں، عمارتیں، پہاڑ، جنگلات، ریلوے ٹریکس اور ان سب کے درمیان چہل قدمی کرتے لوگ بھی بنائے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ سڑک پر بنائی جانے والی زیبرا کراسنگ بھی نمایاں ہیں۔
اس پروجیکٹ کی سربراہی ایک اسرائیلی ریٹائرڈ فوجی نے کی ہے اور اس کے ساتھ ایک سو فنکاروں نے اس پر کام کیا ہے۔
ننھے منے میگا سٹی کی تعمیر پر 4 کروڑ ڈالرز خرچ ہوئے ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
جیسے جیسے دنیا آگے بڑھ رہی ہے کتاب پڑھنے کا رواج ختم ہورہا ہے اور اس کی جگہ اسمارٹ فونز اور ای بکس نے لے لی ہے۔
ایسی کتابیں جو بہت زیادہ پرانی ہوجائیں، خستہ حال اور پڑھنے کے قابل نہ ہوں انہیں عموماً ردی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی کتابوں کو دوبارہ قابل توجہ بنانے کے لیے ایک فرانسیسی نژاد آرٹسٹ نے نہایت انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔
گائے لارامی نامی یہ آرٹسٹ پرانی کتابوں کو جمع کر کے انہیں مشہور مقامات کی شکل میں تراش دیتا ہے۔
وہ بہت سی کتابوں کو جمع کر کے انہیں کاٹ کر کسی مشہور تاریخی مقام (نقل) کی شکل دے دیتا ہے۔ ان کتابوں پر وہ قدیم قلعے، پہاڑ، دیواریں اور میدان تراشتا ہے۔
لارامی نے اردن کے تاریخی مقام پیٹرا، دیوار چین اور بدھ مت کی قدیم عبادت گاہوں سمیت بے شمار تاریخی مقامات کو تخلیق کیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ ان کتابوں کو خوبصورت شکل میں ڈھال لیتے ہیں تو لوگ اسے بہت شوق سے خریدتے ہیں۔ ’لیکن پرانی کتابوں کو کوئی نہیں خریدنا چاہتا‘۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
ماہرین کے مطابق جیسے جیسے ہماری زمین پر غیر فطری عوامل جیسے کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے کرہ ارض پر رہنے والے ہر جاندار کی بقا خطرے میں پڑ رہی ہے۔
اسی صورتحال کی طرف توجہ دلانے کے لیے ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک آرٹسٹ اینڈریاس لی نے جنگلی حیات کی دہری عکسی تصاویر تخلیق کی ہیں۔ جنگلی حیات کی تصاویر کی نمائش کا مرکزی خیال گلوبل وارمنگ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کلائمٹ چینج کے باعث جنگلی حیات کی کئی اقسام کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے اور انہوں نے اسی خطرے کو اجاگر کرنے کا سوچا۔
انہوں نے اپنی نمائش میں 5 ایسے جانوروں کی دہرے عکس میں تصاویر پیش کیں جنہیں ماہرین خطرے کا شکار قرار دے چکے ہیں۔ ان جانوروں کو بدلتے موسموں کے باعث معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
بارہ سنگھا۔
برفانی ریچھ۔
چیتا۔
اینڈریاس نے ان جانوروں کی شبیہہ میں انہیں لاحق خطرات کو ایک اور عکس کی صورت میں پیش کیا۔
ہاتھی۔
برفانی چیتا۔
واضح رہے کہ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجودایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ اس سے قبل کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل بھی معدوم ہوچکی ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
کیا آپ جانتے ہیں فن مصوری ایک تھراپی یا علاج کی صورت میں بھی استعمال ہوتا ہے؟
جی ہاں، ماہرین کا کہنا ہے چونکہ آرٹ یا کوئی بھی تخلیقی کام جیسے شاعری، مصنفی، موسیقاری یا مصوری وغیرہ کے لیے مخصوص ذہنی رجحان چاہیئے اور یہ دماغی کیفیت سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا ان فنون سے ہم اپنے دماغ کی کیفیات کو بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کا علاج کر سکتے ہیں۔
مصوری میں مختلف اشکال بنانا اور رنگوں سے کھیلنا آپ کی ذہنی کیفیت میں فوری طور پر تبدیلی کرسکتا ہے۔ یہاں ہم آپ کو مصوری کے کچھ ایسے طریقہ بتا رہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ اعصابی و ذہنی سکون حاصل کرسکتے ہیں۔
اگر آپ تھکے ہوئے ہیں، تو کسی کاغذ پر پھولوں کی تصویر کشی کریں۔ پھولوں کی تصویر کشی آپ کے دماغ کو توانائی فراہم کرے گی اور آپ کے دماغ پر چھائی دھند ختم ہوجائے گی۔
اگر آپ کسی جسمانی تکلیف کا شکار ہیں تو کوئی پزل حل کریں۔ اس سے آپ کا دماغ تکلیف کی طرف سے ہٹ کر اس پزل کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔
اگر آپ غصہ میں ہیں تو لکیریں کھینچیں۔ یہ کسی بھی قسم کی لکیریں ہوسکتی ہیں، سیدھی، آڑھی ترچھی ہر قسم کی۔
اگر آپ خوفزدہ ہیں تو کاغذ پر کسی ایسی چیز کی تصویر کشی کریں جس سے آپ کو تحفظ کا احساس ہو۔
بور ہورہے ہیں تو تصویروں میں رنگ بھریں۔ رنگ آپ کے دماغ کو ہلکا پھلکا کرتے ہیں۔
اگر آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو مختلف اشکال بنائیں۔
اگر آپ پریشان ہیں تو کاغذ پر گڑیا بنائیں۔
اگر آپ کسی معاملہ پر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں تو رنگین جیومیٹری پیٹرن بنائیں۔
اگر آپ کو کسی چیز کا انتخاب کرنے میں مشکل کا سامنا ہے تو کاغذ پر لہریں اور گول دائرے بنائیں۔ یہ آپ کے ذہن کو کسی چیز کا انتخاب کرنے میں مدد دیں گی۔
اگر آپ اداس ہیں تو قوس قزح بنائیں اور اس میں رنگ بھریں۔
اگر آپ مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہیں تو کسی کا پورٹریٹ یا کوئی پینٹنگ بنائیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
آپ نے مختلف ماہر فوٹوگرافرز کو دیکھا ہوگا جو مختلف زاویوں سے تصویریں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ماہر تصویریں کھینچنے کے لیے مختلف طریقہ کار استعمال کرتے ہیں۔
ایک معروف طریقہ گلاس یا کسی شیشے کے پار سے تصویریں کھینچنے کا بھی ہے۔ لیکن آپ نے یہ طریقہ پہلی بار دیکھا ہوگا جس میں انگوٹھی پر عکسی تصویر کھینچی جارہی ہے۔
اس طریقے کا بانی آسٹریلیا کا پیٹر ایڈمز شان ہے جو اس سے پہلے آنکھ کی پتلی پر عکسی تصاویر کھینچ چکا ہے۔ اس بار وہ صرف نئے شادی شدہ جوڑوں کی تصاویر کھینچ رہا ہے۔
اس کا کہنا ہے وہ تصویر کھینچنے سے پہلے انگوٹھی پر فوکس کرتا ہے اور جوڑے کو ایسے کھڑا کرتا ہے کہ وہ انگوٹھی میں نظر آئیں۔
مستقبل میں ایڈمز کا ارادہ ہے وہ پانی کے بلبلے پر عکسی تصاویر کھینچے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
آپ نے یوں تو آرٹ کے کئی نمونے دیکھے ہوں گے لیکن آج جو نمونہ ہم آپ کو دکھانے جارہے ہیں وہ اپنی نوعیت کا منفرد آرٹ ہے۔
یہ کارنامہ ایک چھوٹے سے آرٹسٹ کا ہے جو نہ صرف معروف فلم ساز الفریڈ ہچکاک کا دیوانہ ہے بلکہ یہ ان کی 70 اور 80 کی دہائی میں آنے والے فلموں کے کاغذی منی ایچرز بنا رہا ہے۔
وہ نہ صرف فلموں کے سین بلکہ اپنے آس پاس کے مختلف مناظر، خواب اور اپنے تصورات کو بھی منی ایچرز کی شکل میں ڈھالتا ہے۔
یاد رہے کہ الفریڈ ہچکاک ہالی ووڈ کے مشہور فلم ساز اور ہدایت کار تھے جو پراسراریت پر مبنی اور پر تجسس فلمیں بنانے کے لیے مشہور تھے۔
سائیکو
الفریڈ ہچکاک کی فلم سائیکو 60 کی دہائی میں آئی جو سسپنس سے بھرپور ہے۔
اس میں ایک ذہنی مریض کی کہانی بیان کی گئی ہے، لیکن وہ کون ہوتا ہے، اس کا اندازہ سب کو آخر میں جا کر ہوتا ہے۔
ورٹیگو
ہچکاک کی ایک اور فلم ورٹیگو پراسراریت پر مبنی ہے اور یہ فلم ہر دور کی بہترین فلم مانی جاتی ہے۔
اس میں ایک جاسوس کا واسطہ ایک ایسے دولت مند سے پڑتا ہے جو اپنی بیوی کو اس کے ذریعے مرواتا ہے، لیکن آخر میں کھلتا ہے کہ اس دولت مند شخص نے اپنی مردہ بیوی کی موت کو باقاعدہ منظر عام پر لانے کے لیے کسی دوسری عورت کی شکل میں یہ سارا ڈرامہ رچایا۔
ریئر ونڈو
یہ فلم بھی الفریڈ ہچکاک کی ہدایت کاری میں بنائی گئی ہے جسے اس آرٹسٹ نے منی ایچر میں ڈھالا۔
اس فلم میں ٹانگوں سے معذور ایک فوٹو گرافر اپنے پڑوسیوں کی کھڑکی سے نظر آنے والے مختلف مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتا ہے۔ تاہم اس وقت فلم میں ایک ڈرامائی موڑ آجاتا ہے جب وہ ایک قتل کی واردات کو عکس بند کر لیتا ہے۔
دی برڈز
ہچکاک کی فلم دی برڈز پرندوں کے تباہ کن حملے پر مبنی ہے۔
اس میں 2 معصوم سے پرندے اچانک خونخوار ہوجاتے ہیں اور وہاں موجود لوگوں پر حملہ کردیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ حملہ آور پرندے پورے شہر میں پھیل جاتے ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ چند دہائی قبل تک شوق سے دیکھے جانے والے کارٹونز جنہیں 2 ڈی اینی میشن کہا جاتا ہے، کیسے بنائے جاتے تھے؟
آج کل تو 3 ڈی اینی میٹڈ کارٹونز کا زمانہ ہے جو کمپیوٹر سے تخلیق کرنا بے حد آسان ہے۔ لیکن چند دہائی پہلے تک بنائے جانے والے کارٹونز کو پہلے کاغذ پر بنایا جاتا تھا، اس کے بعد کاغذوں پر بنائی گئی مختلف تصاویر کو اکٹھا کر کے انہیں فلم کی شکل دی جاتی تھی۔
مثال کے طور پر مشہور زمانہ ٹام اینڈ جیری کارٹون میں جب ٹام جیری کا پیچھا کرتا ہے تو اس بھاگ دوڑ کے لیے تخلیق کاروں کو ٹام کی مختلف حرکات پر مبنی سینکڑوں تصاویر بنانی پڑتی تھیں تب کہیں جا کر ایک منظر مکمل ہوتا تھا۔
اب اسی تکنیک کو آزماتے ہوئے ایک اور منفرد فلم بنائی گئی ہے جو پینسل سے تیار شدہ تصاویر پر مبنی نہیں، بلکہ انیسویں صدی کے مشہور مصور وان گوگ کی شاہکار پینٹنگز کو دوبارہ تخلیق کر کے بنائی جارہی ہے۔
اور پینٹنگز میں موجود کرداروں کو حرکت کرتا دکھانے کے لیے، کیا آپ جانتے ہیں کتنے فن پارے تخلیق کیے گئے؟ 65 ہزار فن پارے، جی ہاں جنہیں دنیا بھر کے 100 مختلف مصوروں نے تخلیق کیا۔
فلم کا نام لونگ ونسنٹ ہے جو دراصل انیسویں صدی کے مصور وان گوگ کا اصل نام تھا۔
اس آئیڈیے کی خالق اور فلم کی پروڈیوسر ڈوروٹا کوبیلیا کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام اکیلی سرانجام نہیں دے سکتی تھیں ورنہ اس میں انہیں 80 سال لگ جاتے۔
ابتدا میں 7 منٹ کی شارٹ فلم کے آئیڈیے پر مبنی یہ فلم فیچر فلم میں تبدیل ہوگئی ہے جس میں مصور وان گوگ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا جائے گا۔
پروجیکٹ پر کام کرنے والے مصوروں کے مطابق فلم کا ایک ایک شاٹ اور ایک ایک فریم، آئل پینٹ سے تخلیق کی گئی پینٹنگ پر مشتمل ہے اور ان کا انداز ہو بہو وان گوگ کی پینٹنگز جیسا ہے۔
مرینہ جوپک بھی پروجیکٹ میں شامل مصوروں میں سے ایک ہیں۔
وہ ایک گھر کا منظر دکھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ مجھے یہاں ایک عورت کو حرکت کرتے ہوئے دکھانا تھا۔ ’اس عورت کی حرکت کے لیے مجھے 12 مختلف مراحل میں لاتعداد پینٹنگز اس طرح بنانی پڑیں کہ آہستہ آہستہ عورت کا ایک کندھا غائب ہوتا اور دوسرا دکھائی دیتا نظر آئے‘۔
فلم کی باقاعدہ تخلیق سے قبل اصل اداکاروں کو بھی لیا گیا اور ان سے اداکاری کروائی گئی، بعد ازاں ان کے ریکارڈڈ مناظر کو پینٹنگز کی شکل میں ڈھالا گیا۔
فلم میں مرکزی کردار وان گوگ کا کردار ادا کرنے والے اداکار رابرٹ گل زک کا کہنا ہے کہ جب وہ ان مصوروں سے ملے تو انہوں نے کہا، ’اوہ! ہم تمہیں گزشتہ 6 ماہ سے پینٹ کر رہے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اس منفرد ترین فلم کا حصہ بننا ان کی زندگی کا شاندار اور یادگار ترین تجربہ ہے۔
پینٹنگز پر مشتمل دنیا کی پہلی فیچر فلم اگلے ماہ ریلیز کردی جائے گی۔
فلم کا ٹریلر دیکھیں
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
مختلف ٹھوس اشیا پر رنگین دھاگوں سے خوبصورت نقش تخلیق کرنا جنوبی چین کا نہایت خوبصورت فن ہے جسے چینی ثقافت میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔
اس خوبصورت دستکاری کا آغاز 17 ویں صدی کے وسط سے ہوا تھا اور یہ چین کے جنوبی صوبوں ژائی من، کانگ ژو اور فیوجان میں نہایت مقبول ہے۔
چین میں 300 سال قبل کے گوتم بدھ کے ایسے مجسمے موجود ہیں جنہیں دیدہ زیب بنانے کے لیے ان پر خوبصورت رنگین نقش نگاری کی گئی تھی۔
مزید آگے جا کر اس فن میں جدت پیدا ہوئی۔ اب بدھا کے مجسموں پر کپڑے کے ٹکڑوں یا دھاگوں کو خوبصورت انداز میں جوڑ کر نہایت دلکش فن پارے تیار کیے جانے لگے۔
ان میں بعض اوقات سونے کی تاروں یا سونے سے رنگے دھاگوں کو بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
جدید چین میں اب یہ فن صرف بدھا کے مجسموں تک محدود نہیں رہا۔ اب مختلف اقسام کے برتن، گلدان اور آرائشی اشیا بھی اس دستکاری میں ڈھال کر پیش کی جاتی ہیں جو بیش قیمت ہونے کے باوجود ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔
خوبصورت ہونے کے ساتھ یہ نقش نگاری نہایت محنت اور وقت طلب بھی ہے اور ایک فن پارے کی تکمیل میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
معروف پرتگالی فٹبالر کرسچیانو رونالڈو کی ایک معذور مداح نے پاؤں سے ان کی شاندار تصویر بنا ڈالی۔
ایران سے تعلق رکھنے والی باصلاحیت فنکارہ فاطمہ حمامی دماغی کمزوری کا شکار ہے۔ اسے مصوری کا بے حد شوق ہے اور اپنے شوق کی تکمیل کے لیے اس نے اپنی معذوری کو آڑے نہیں آنے دیا۔
طویل ریاضت کے بعد اب وہ اپنے پاؤں کی انگلیوں سے برش پکڑ کر مصوری کرتی ہے اور اس میں نہایت مہارت حاصل کر چکی ہے۔
فاطمہ فٹ بال کی بھی بے حد شوقین ہے اور اس نے اپنے پسندیدہ کھلاڑی رونالڈو کی نہایت خوبصورت تصویر بنائی ہے جسے انٹرنیٹ پر بے حد پسند کیا جارہا ہے۔
وہ اس سے قبل اپنے ایک اور پسندیدہ ایرانی فٹ بالر علی داعی کی تصویر بھی بنا چکی ہے جسے خود علی داعی نے بے حد پسند کیا اور فاطمہ کے حوصلے کی تعریف کی۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔