Tag: فنکار

  • مرنے کے بعد رنگین ٹیٹو زدہ جلد نمائش کے لیے فروخت

    مرنے کے بعد رنگین ٹیٹو زدہ جلد نمائش کے لیے فروخت

    جلد پر ٹیٹو بنانا تو ایک عام سی بات ہے اور آپ نے بیشتر افراد کی جلد پر ٹیٹو دیکھا ہوگا۔ یہ ٹیٹو (تصاویر) کسی بھی قسم کی ہوسکتی ہیں، اور یہ تمام رنگوں میں اور ہر سائز کے ہوسکتے ہیں۔

    لیکن سوئٹزر لینڈ کے ایک شہری نے اپنی جلد پر اس قدر وسیع اور رنگین ٹیٹو بنوایا کہ اسے محفوظ رکھنے کے لیے اس نے اپنی جلد کو فروخت کردیا تاکہ مرنے کے بعد اس کی ٹیٹو زدہ جلد کو یادگار کے طور پر محفوظ کرلیا جائے۔

    tattoo-2

    زیورخ کا ٹم اسٹینر کچھ عرصہ قبل تک خود بھی ایک ٹیٹو پالر کا نگران تھا جہاں ٹیٹو بنائے جاتے تھے۔ یہ کام کرتے اور دیکھتے ٹم کو خود بھی ٹیٹو کا شوق ہوگیا نتیجتاً اس نے اپنی پیٹھ کی پوری جلد پر رنگین ٹیٹو بنوا ڈالا جو کسی طور آرٹ کے کسی شاہکار سے کم نہیں۔

    ٹم کا یہ ٹیٹو بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے ایک مصور نے بنایا ہے۔

    تاہم اب ٹم کے خیال میں اس کے مرنے کی صورت میں اس کی جلد، جو اب ایک فن پارے میں تبدیل ہوچکی ہے، مٹی کا حصہ بن جائے گی اور اس کے حل کے لیے اس نے اپنی جلد کو ایک جرمن آرٹ کلیکٹر کے ہاتھ ڈیڑھ لاکھ یوروز میں فروخت کردیا۔

    tattoo-6

    ٹم نے اس سے معاہدہ کیا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی جلد کو جسم سے علیحدہ کر کے فریم کروا کر کسی آرٹ گیلری میں رکھ دیا جائے گا۔

    ٹم کا کہنا ہے کہ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اسے کسی حد تک بھیانک خیال کیا۔ ’آپ کسی فن پارے کو دیکھنے کے لیے رکیں اور آپ کو علم ہو کہ یہ کوئی کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک انسانی جلد ہے تو یقیناً آپ کا خوف و کراہیت سے برا حال ہوجائے گا‘۔

    لیکن ٹم کے خیال میں اگر وہ ایسا نہ کرتا تو وہ آرٹ کے ایک خوبصورت فن پارے کو ضائع کردیتا۔

    لیکن اس سے قبل اس معاہدے کے تحت ٹم ایک اور کام کے لیے مجبور ہے۔ اسے اپنی بقیہ تمام زندگی آرٹ کی نمائشوں میں اپنی جلد کی نمائش بھی کرنی ہے۔ ٹم اسے ’زندہ کینوس‘ بننے کا نام دیتا ہے۔

    معاہدے کی اس شق کے تحت ٹم سال میں 3 بار کسی بڑی آرٹ کی نمائش میں، اسٹول پر مجسمے کی طرح ساکت بیٹھ جاتا ہے۔ یوں اس کی ٹیٹو زدہ جلد بھی فن پاروں میں شمار ہوتی ہے۔

    tattoo-3

    tattoo-4

    وہ بتاتا ہے کہ لوگ پہلے پہل اسے مجسمہ سمجھتے ہیں، لیکن جب وہ حرکت کرتا ہے اور لوگوں کو اس حکمت عملی کا علم ہوتا ہے تو وہ بہت حیران ہوتے ہیں۔

    tattoo-5

    tattoo-7

    ٹم کا کہنا ہے کہ یہ بہت دقت طلب اور اکتا دینے والا کام ہے، ’کئی گھنٹوں تک ایک ہی پوزیشن پر بیٹھے رہنا، اس دوران لوگ مجھے چھوتے بھی ہیں اور میرے بارے میں ہر قسم کی آرا کا اظہار کرتے ہیں‘۔

    گو کہ آرٹ کے دلدادہ ٹم کے لیے یہ سب کافی مشکل ہے لیکن وہ فن و مصوری کی ترویج کے لیے یہ مشکل کام بھی کر رہا ہے۔

  • پریوں کی گزر گاہ ننھے منے دروازے

    پریوں کی گزر گاہ ننھے منے دروازے

    واشنگٹن: امریکی ریاست مشی گن میں ایک چھوٹا سا قصبہ ایسا ہے جہاں جانے والوں کو ایک حیرت انگیز اور کسی حد تک پراسرار شے نظر آتی ہے۔

    یہ پراسرار شے قصبہ میں جا بجا بکھرے ننھے منے سے دروازے ہیں جنہیں پریوں کا دروازہ یا فیری ڈور کہا جاتا ہے۔

    5

    10

    4

    یہ ننھے منے دروازے دراصل مختلف ریستورانوں، دکانوں یا عمارتوں میں بنائے جاتے ہیں۔ ان کے بنانے کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا۔ یہ خوبصورتی اور وہاں موجود بچوں کو بہلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور دیکھنے میں یہ بند دروازے کسی فریم کی طرح لگتے ہیں۔

    7

    9

    بعض دروازوں کے اندر ننھی منی سیڑھیاں بھی بنائی گئی ہیں اور یہ سیڑھیاں ایک اور بند دروازے پر منتج ہوتی ہیں، اور دیکھنے میں یوں لگتا ہے کہ اس دروازے کے پیچھے واقعی کوئی پری چھپی بیٹھی ہے۔ یہ دیکھنے والے کو ایک پراسرار سے سحر میں مبتلا کردیتا ہے۔

    6

    مشی گن کے قصبے این آربر میں بنائے جانے والے یہ دروازے دراصل ایک رہائشی جوناتھن بی رائٹ نامی فنکار نے بنائے ہیں۔

    2

    اسے اپنے گھر میں بھی ایک ایسا ہی ننھا سا دروازہ ملا تھا جو اس گھر کی تعمیر کے وقت بنایا گیا تھا۔ اس نے اس دروازے کو بے حد خوبصورتی سے سجایا اور ساتھ ہی قصبے کے نمایاں مقامات پر بھی یہ دروازے بنانے کا کام شروع کردیا۔

    3

    کچھ عرصے بعد رہائشیوں نے ان دروازوں کو وشنگ ویل یا خواہشات کے دروازے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔

    8

    ان کا عقیدہ ہے کہ یہاں سچ مچ پریاں آتی ہیں۔ وہ خیر سگالی کے طور پر یہاں ان کے لیے سکے، ڈارئنگز اور دیگر اشیا رکھتے ہیں، اس امید پر کہ شاید ان پریوں کو ان کا تحفہ پسند آجائے اور وہ اپنی جادوئی چھڑی گھما کر ان کا بگڑا ہوا کام بنا دیں۔

  • صادقین ۔ رباعی کا شاعر، خطاطی کا امام

    صادقین ۔ رباعی کا شاعر، خطاطی کا امام

    پاکستان کے معروف خطاط، مصور اور شاعر صادقین کو آج ہم سے بچھڑے 30 برس گزر گئے۔ فرانس کے آرٹ سرکلز میں پاکستانی پکاسو کے نام سے یاد کیے جانے والے صادقین نے پاکستان میں فن خطاطی کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فن مصوری ادھورا ہے۔

    سنہ 1930 میں سید صادقین احمد نقوی امروہہ کے جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ خاندان اپنے فن خطاطی کے حوالے سے نہایت مشہور تھا۔ صادقین کے دادا خطاط تھے، جبکہ ان کے والد باقاعدہ خطاط تو نہ تھے، البتہ نہایت خوشخط تھے۔

    امروہہ میں ابتدائی تعلیم اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو صادقین اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آبسے۔

    صادقین بچپن ہی سے گھر کی دیواروں پر مختلف اقسام کی خطاطی و تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ ان کی تصاویر کی پہلی نمائش جس وقت منعقد ہوئی اس وقت ان کی عمر 24 برس تھی۔

    پاکستان کی فن مصوری اور خصوصاً فن خطاطی کو بام عروج پر پہنچانے والے مصور صادقین کا ذکر کرتے ہم شاعر صادقین کو بھول جاتے ہیں۔ وہ شاعر بھی اتنے ہی عظیم تھے جتنے مصور یا خطاط۔

    صادقین کے بھتیجے سلطان احمد نقوی جو کراچی میں مقیم ہیں، اور صادقین اکیڈمی کے امور کے نگران ہیں، بتاتے ہیں کہ صادقین کے اندر چھپا فنکار پہلے شاعر کی شکل میں ظاہر ہوا۔

    سلطان احمد کے مطابق صادقین 16 سال کی عمر میں باقاعدہ شاعر بن چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزو بوسیدہ‘ کے نام سے موجود ہے جس میں صادقین کی اوائل نوجوانی کے ایام کی شاعری موجود ہے۔

    اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں

    اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں

    اجسام میں اختلاف، میرے تیرے

    ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں

    صادقین نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصناف سخن کی سب سے مشکل صنف یعنی رباعی کا انتخاب کیا۔ ان کی لکھی گئی رباعیات کی تعداد ڈھائی ہزار سے 3 ہزار کے قریب ہے اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔

    ان کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات صادقین خطاط اور رباعیات صادقین نقاش کے نام سے موجود ہے، جبکہ ان کے پوتے سبطین نقوی نے بھی ان کی رباعیات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔


    صادقین کی خطاطی ۔ ضیا الحق کے دور کا جبر؟

    بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ صادقین کی خطاطی دراصل ضیا الحق کے اسلامائزیشن کے دور کا ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ اس دور میں صادقین کے اندر کا فنکار اسلامی خطاطی کے لبادے میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔

    لیکن سلطان احمد اس خیال کو لوگوں کی لاعلمی قرار دیتے ہیں۔ ’صادقین پشت در پشت خطاط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تو ان کے خون میں شامل تھی۔ انہوں نے اس فن میں نئی جہتوں کو روشناس کروایا۔ یہ کام جبر یا بے دلی سے نہیں ہوسکتا‘۔

    قرطاس پہ ہاں جلوے دکھاتا ہے یہ کون؟

    پردے میں مرے نقش بناتا ہے کون؟

    یہ سچ ہے کہ مو قلم گھماتا ہوں میں

    لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    سلطان احمد کا کہنا ہے کہ وہ خطاطی کا آغاز اور اس میں اپنا ارتقا بہت پہلے سے کر چکے تھے، ’اس وقت تو ضیا الحق کی حکومت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا‘۔

    فن مصوری و خطاطی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ خطاطی کا ارتقا 3 مراحل سے گزرا ہے۔ پہلا مرحلہ صرف حروف یا سطور کو قلم بند کرنے کا تھا۔ اس کے بعد اسے سیاہ روشنائی سے مزین کیا گیا۔ تیسرا مرحلہ اس میں رنگوں کی آمیزش کا تھا اور اس کا سہرا بلاشبہ صادقین کے سر ہے۔

    صادقین کی خطاطی کی ایک ندرت یہ بھی ہے کہ انہوں نے آیات کے ساتھ اس کی تصویری تشریح (السٹریشن) بھی پیش کی۔ یہ روایت صادقین نے شروع کی تھی اور اس سے فن خطاطی میں نئی جدت پیدا ہوئی۔ انہوں نے یہ کام اس لیے بھی کیا تاکہ قرآنی آیات کو سمجھنے میں آسانی ہو اور ہر خاص و عام اسے سمجھ سکے۔

    ان کی خطاطی کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے رسم الخط کو ملحوظ خاطر رکھتے خطاطی میں جدت پیش کی۔ نئے آنے والے خطاطوں نے جدت وانفرادیت کو پیش کرنے کے لیے حروف و الفاظ کی بنیادی شکل تبدیل کردی جس سے خطاطی کے روایتی اصول برقرار نہ رہ سکے۔ صادقین نے جدت کے ساتھ حروف اور الفاظ، اور خطاطی دونوں کے تقدس کو برقرار رکھا۔

    اگر یہ کہا جائے کہ خطاطی کو باقاعدہ فن کے طور پر متعارف کروانے، اور اسے آرٹ کے نصاب میں بطور مضمون شامل کروانے کا سہرا صادقین کے سر ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔


    صادقین کی مصوری میں نمایاں حاشیے

    معروف فنکار انور مقصود کہتے ہیں کہ صادقین کی مصوری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے ہر فن پارے میں ’لکیر‘ نمایاں ہے۔ ’ایک مصور کی پینٹنگ میں پینٹ یا رنگوں کو نمایاں ہونا چاہیئے، لیکن صادقین کی لکیر ان کی پہچان ہے۔

    صادقین وہ خوش نصیب مصور تھے جن کی مصوری ایک خاص طبقے سے نکل کر عام افراد تک پہنچی اور عوام نے بھی اس ہیرے کی قدر و منزلت کا اعتراف کیا۔

    سنہ 1960 میں 30 برس کی عمر میں صادقین کو ان کے فن کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے اگلے ہی برس انہیں فرانس کے اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا گیا۔ سنہ 1962 میں تمغہ حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس)، سنہ 1985 میں ستارہ امتیاز جبکہ آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ثقافتی ایوارڈ کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔

    صادقین کے فن پاروں کی کئی نمائشیں مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں بھی منعقد کی گئیں جہاں ان کے فن کو بے حد سراہا گیا۔ ان کے فن کی نمائش کا سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔

    انور مقصود کہتے ہیں، ’عجیب بات ہے کہ صادقین کا کام ان کی زندگی میں اتنا نہیں ہوا جتنا ان کی موت کے بعد ہوا۔ بے شمار لوگوں نے ان کے فن پاروں کی نقل بنا کر، یا پینٹنگز کو صادقین کے نام سے منسوب کر کے بیچا‘۔


    صادقین جس طرح کے منفرد فنکار تھے، اپنے فن کے بارے میں بھی وہ ایسے ہی منفرد خیالات رکھتے تھے۔

    ان کے بھتیجے سلطان احمد سے جب اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے یاد گزشتہ میں جھانکتے ہوئے بتایا، ’صادقین کہتے تھے، خدا کا شکر ادا کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے اور ہر شخص اس کے لیے اپنا طریقہ اپناتا ہے۔ میرا فن خدا کا اظہار تشکر کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘۔

    وہ مانتے تھے کہ ہر انسان میں موجود صلاحیت دراصل خدا کی نعمت ہے، اور اس نعمت کا اظہار کرنا اور اس کو بروئے کار لانا، اس صلاحیت کا احسان ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی صلاحیت کا استعمال نہیں کرتا، تو دراصل وہ کفران نعمت کرتا ہے۔

    گویا صادقین کے لیے ان کا فن ایک مقدس عمل، طریقہ عبادت اور شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔

    یہی وہ خیال تھا جس کی وجہ سے صادقین نے کبھی اپنا کام فروخت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بے شمار فن پارے دوست، احباب اور عزیز و اقارب کو تحفتاً دے دیے، مگر کبھی ان کی قیمت وصول نہیں کی۔ بقول خود ان کے، ان کا فن شکرانہ خدا ہے، برائے فروخت نہیں۔ کوئی اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتا۔

    اسی وجہ سے سنہ 1974 میں جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد، اور بعد ازاں ملکہ ایران فرح دیبا نے ان سے ذاتی حوالے سے کام کے لیے کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔

    یہ خام نگاہی کا اڑاتی ہے مذاق

    ہاں ظل الہٰی کا اڑاتی ہے مذاق

    یہ میری برہنگی بھی جانے کیا ہے

    جو خلعت شاہی کا اڑاتی ہے مذاق


    صادقین کے فن پارے

    دنیا بھر میں اپنے کام کی وجہ سے معروف صادقین نے بے انتہا کام کیا اور لاتعداد فن پارے تخلیق کیے۔ انہوں نے اپنا پہلا میورل (قد آدم تصویر) کراچی ایئر پورٹ پر بنایا۔

    اس کے علاوہ جناح اسپتال کراچی، منگلا ڈیم پاور ہاؤس، لاہور میوزیم، فریئر ہال کراچی، پنجاب یونیورسٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دیواروں پر ان کے شاہکار میورل کنندہ ہیں۔

    پاکستان سے باہر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پیرس کے مشہور زمانہ شانزے لیزے پر صادقین کے منقش فن پارے ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ان کا ایک عظیم فن پارہ ’وقت کا خزانہ ۔ ٹریژر آف ٹائم‘ کے نام سے میورل کی شکل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کی لائبریری میں ثبت ہے جس میں انہوں نے تمام مفکرین بشمول یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین، اور یورپی سائنسدانوں کی تصویر کشی کے ذریعے ہر عہد کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقا کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

    یہ میورل سنہ 1961 میں تخلیق کیا گیا۔

    انہوں نے غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کو بھی انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں تحریر کیا۔

    صادقین نے فرانسیس مفکر و مصنف کامو کی تصنیف ’دا آؤٹ سائیڈر‘ کی السٹریشن بھی پیش کی۔

    اپنے انتقال سے قبل صادقین کراچی کے فریئر ہال میں ایک میورل پر کام کر رہے تھے۔ وہاں موجود ارض و سماوات یعنی زمین و آسمان ان کا آخری منصوبہ تھا جو ادھورا رہ گیا۔

    سنہ 1987 میں ان کے انتقال کے بعد اس مقام کو ان سے منسوب کر کے صادقین گیلری کا نام دے دیا گیا۔

    صادقین 10 فروری 1987 کو انتقال کر گئے۔ ان کی آخری آرام گاہ سخی حسن قبرستان میں واقع ہے۔

    آخر میں ان کی کچھ رباعیات جو ان کے متنوع خیالات اور انداز فکر کی عکاس ہیں۔ صادقین نے عشق مجازی، حسن و محبت، جلاد، مقتل، مذہب سب ہی کچھ اپنی رباعیات میں شامل کیا۔

    ہم اپنے ہی دل کا خون بہانے والے
    اک نقش محبت ہیں بنانے والے
    عشرت گہ زردار میں کھینچیں تصویر؟
    ہم کوچہ جاناں کے سجانے والے

    کب مسلک کفر میں ہے کچا کافر
    دیتا نہیں ایمان کا غچا کافر
    میری تو نظر میں ہے بہت ہی بہتر
    اک جھوٹے مسلمان سے سچا کافر

    یہ سایا ڈراؤنا ابھرتا کیوں ہے؟
    خونخوار ہے رہ رہ کر بپھرتا کیوں ہے؟
    تو کون ہے؟ پوچھا تو یہ آئی آواز:
    مجھ سے، میں تری روح ہوں ڈرتا کیوں ہے؟

    جاناں کے قدم چوم کے آ پہنچے ہیں
    ہم چاروں طرف گھوم کے آ پہنچے ہیں
    غائب ہے کدھر؟ ہم سر مقتل جلاد
    لہراتے ہوئے جھوم کے آ پہنچے ہیں

    ہم جنس سے اس حد کی رقابت کیوں تھی؟
    اور جنس مخالف پہ طبیعت کیوں تھی؟
    قابیل نے ہابیل کو مارا کیوں تھا؟
    اور آدم و حوا میں محبت کیوں تھی؟

    ہو ہی ابھی مقتل میں کہا تھا یارو!
    اک وار میں پھر خون بہا تھا یارو!
    سر میرا کٹ پڑا تھا، لیکن پھر بھی
    حق حق لب سے نکل رہا تھا یارو!

    میں کھینچ کے شہکار ہوں ننگا یارو
    لکھ کر خط گلزار ہوں ننگا یارو
    تم کونوں بچالوں ہی میں ہوتے ہو فقط
    اور میں سر بازار ہوں ننگا یارو

  • کاغذ سے تصویر اور تکمیل کا مرحلہ

    کاغذ سے تصویر اور تکمیل کا مرحلہ

    کاغذ پر تصویر کی تشکیل اور پھر اس کی تکمیل تک کا مرحلہ کوئی آسان عمل نہیں، تخلیق کار کی تخلیق کا سارا کرب اس دوران ان کاغذوں پر بکھر آتا ہے، اور پھر یہ کرب فن پارے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

    انہی تینوں مراحل کے نام سے اپنی نمائش منعقد کرنے والے 3 فنکار افشر ملک، انور سعید اور محبوب شاہ نے اپنے فن میں اسی کرب کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹ سے تعلیم حاصل کرنے والے اور زندہ دلان کے شہر میں رہنے والے ان فنکاروں نے اپنے فن کی نمائش کے لیے اس بار کراچی کو چنا۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں لوگوں کی بڑی تعداد نے متضاد خیالات کے حامل فن پاروں کی نمائش کو سراہا۔

    افشر ملک نے اپنے فن پاروں میں زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کیا۔

    afshar-1

    afshar-2

    afshar-3

    انور سعید کے اس فن پارے کا عنوان ہے’ جسم اور اس کے اندر رہنے والی چیزیں‘۔ وہ چیزیں جذبات، احساسات اور خیالات ہیں۔

    anwar-1

    محبوب شاہ نے مختلف تصاویر کو ایک نئے زاویہ نظر سے پیش کیا۔

    mehboob-1

    mehboob-2

    mehboob-4

    نمائش کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں مزید چند روز تک جاری رہے گی۔

  • برطانوی بحری فوج میں ’خودکش بمبار‘ شامل کرنے کا اشتہار

    برطانوی بحری فوج میں ’خودکش بمبار‘ شامل کرنے کا اشتہار

    لندن: لندن کے طول و عرض میں عجیب و غریب اشتہاری پوسٹر نے شہریوں کو خوف اور اچھنبے میں مبتلا کردیا جس میں انہیں ’خود کش بمبار‘ بننے کی دعوت دی گئی ہے۔

    پوسٹر میں برطانیہ کی بحری فوج کا نشان ثبت ہے جبکہ اس میں فوج کے یونیفارم میں ملبوس 3 فوجیوں کو دکھایا گیا ہے۔ پوسٹر میں مزید معلومات کے لیے بحری فوج کی آفیشل ویب سائٹ بھی دی گئی ہے۔

    bomber-4

    یہ پوسٹر دراصل ایک برطانوی آرٹسٹ ڈیرن کلن نے شاہی (برطانوی) بحری فوج کی ہجو میں بنایا ہے۔ پوسٹر میں فوج میں شامل جوہری آبدوز کے عملے میں نوکری حاصل کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ نوکری خودکش بمبار بننے کے مترادف ہے۔

    پوسٹر میں لکھا گیا ہے، ’ہماری جوہری آبدوزیں ایک خودکش مہم پر ہیں۔ ان آبدوزوں سے میزائل لانچ کرنے کا مطلب ہے یقینی موت۔ نہ صرف اس شخص کی جس نے میزائل لانچ کیا، بلکہ اس کے ساتھ ان لاکھوں معصوم لوگوں کی بھی جو اس میزائل کے نشانے پر ہوں گے‘۔

    اسے بنانے والے آرٹسٹ نے صرف ایک پوسٹر بنا کر اسے شہر میں لگایا، اور تھوڑی ہی دیر بعد شہریوں نے اس کی کئی کاپیاں بنا کر پورے لندن میں آویزاں کردیں۔

    bomber-3

    آرٹسٹ کا کہنا ہے کہ جوہری بموں کا استعمال اپنے آپ کو قتل کیے بغیر ممکن نہیں۔ ’جس طرح دہشت گرد خود پر بم باندھ کر ہزاروں معصوم افراد کو مار دیتے ہیں، بالکل یہی کام ہم خود بھی کر رہے ہیں‘۔

    اس عجیب و غریب پوسٹر اور اس پر لکھے پیغام نے پہلے تو لندن کے شہریوں کو ہراساں کیا، اس کے بعد جب انہیں اس کے پس منظر کا علم ہوا تو انہوں نے خود بھی اس پیغام کی تشہیر شروع کردی۔

  • جاپانی فنکار کا دنگ کردینے والا فن

    جاپانی فنکار کا دنگ کردینے والا فن

    ننھا منا یا منی ایچر آرٹ تخلیق کرنا ایک دقت طلب کام ہے۔ مختلف ننھی منی چیزوں پر کام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مناظر میں تبدیل کرنا نہایت محنت اور توجہ کا متقاضی ہے۔

    جاپانی آرٹسٹ تتسویا تناکا بھی گزشتہ کئی سالوں سے منی ایچر آرٹ تخلیق کر رہا ہے۔ وہ مختلف اشیا کو اپنی مرضی سے مختلف ننھے منے مناظر میں تبدیل کردیتا ہے۔

    اس کے فن کو دیکھ کر خدائے سخن میر تقی میر کا یہ مصرعہ بے اختیار زبان پر آجاتا ہے،

    لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام!

    آپ بھی یہ حیرت انگیز فن دیکھیں۔

    . 7.19 sun "Search” . 「ちょっとまってね今調べるから」 . . #Google先生 #本棚

    A photo posted by 田中達也 Tatsuya Tanaka (@tanaka_tatsuya) on

    . 7.24 fri "Lazy-river” . 「安心してください、はいてますよ。」 . . #サンダル #とにかく明るい安村

    A photo posted by 田中達也 Tatsuya Tanaka (@tanaka_tatsuya) on

    . 1.18 wed “Beef Beach” . ビーフビーチ . #牛肉 #浜辺 #食品サンプル #Beef #Beach #BBQ .

    A photo posted by 田中達也 Tatsuya Tanaka (@tanaka_tatsuya) on

    . 12.21 wed “Zoo” . 見ざる、言わざる、水切りざる . #ざる #動物園 #猿 #Strainer #Zoo #monkey #申年もあとわずか .

    A photo posted by 田中達也 Tatsuya Tanaka (@tanaka_tatsuya) on

  • چین کے نیشنل میوزیم میں پہلا پاکستانی فن پارہ

    چین کے نیشنل میوزیم میں پہلا پاکستانی فن پارہ

    کراچی: معروف پاکستانی مصور جمی انجینیئر کا شاہکار فن پارہ بیجنگ کے نیشنل آرٹ میوزیم کو عطیہ کیا گیا ہے۔

    میوزیم کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پہلی بار میوزیم میں کسی پاکستانی فنکار کے فن پارے کو جگہ دی گئی ہے۔ یہ فن پارہ پاک چین دوستی اور تعلقات کو اور بھی مضبوط کرے گا۔

    art-2

    میوزیم میں رکھے جانے والے جمی کے فن پارے کا عنوان ’انٹرنیشنل آرکی ٹیکچرلر کمپوزیشن‘ ہے۔

    بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانہ بہت جلد ایک نمائش کا ارادہ بھی رکھتا ہے جس میں جمی انجینئر کا فن پارہ بھی رکھا جائے گا۔

    واضح رہے کہ جمی انجینئر ایک معروف مصور اور سماجی کارکن ہیں جو اپنے فن پاروں میں مختلف معاشرتی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔

    art-9

    ان کا زیادہ تر کام پاکستانی ثقافتی اور تاریخی ورثے کو پیش کرتا ہے۔

    art-4

    art-3

    وہ نہ صرف اپنے فن بلکہ اپنی سماجی سرگرمیوں کے اعتراف میں بے شمار اعزازات اور ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں جن میں امریکا کا نیشنل انڈومنٹ آف دا آرٹس ایوارڈ 1988، روٹری کلب آف پاکستان کی جانب سے گولڈ میڈل اور ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کی جانب سے ہیومن رائٹس میڈل شامل ہے۔

    سنہ 2005 میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا جبکہ انہیں چائنا ورلڈ پیس فاؤنڈیشن کی جانب سے 2016 میں پیس ایمبسڈرز کا میڈل عطا کیا گیا۔

  • شام کے تباہ ہوتے ثقافتی ورثے کو بچانے کی کوشش میں سرگرداں فنکار

    شام کے تباہ ہوتے ثقافتی ورثے کو بچانے کی کوشش میں سرگرداں فنکار

    دمشق: شام کی جنگ نے جہاں لاکھوں افراد کو موت سے ہمکنار کردیا، اور اس سے کہیں زیادہ تعداد کو بے گھر ہو کر دربدر پھرنے پر مجبور کردیا وہیں اس جنگ نے شام کی تاریخ و ثقافت کو بھی بے حد نقصان پہنچایا۔

    شام کے طول و عرض پر پھیلے کئی تاریخی مقامات فضائی و زمینی حملوں کے باعث تباہ و برباد ہوگئے۔ شام میں 6 مقامات ایسے ہیں جو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس میں پالمیرا کے کھنڈرات، حلب، اور دمشق وغیرہ شامل ہیں۔

    اپنے ملک کے ایسے تاریخی ورثے کی تباہی کو دیکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شام سے تعلق رکھنے والے فنکار اس ورثے کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔

    یہ فنکار جنگ کو تو نہیں روک سکتے، تاہم وہ اس گم گشتہ ثقافت کی ایک جھلک کو اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ضرور محفوط کر سکتے ہیں، اور وہ یہ کام بہت جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں۔

    اردن میں پناہ گزین ایسے ہی کچھ فنکار بھی اپنے ثقافتی ورثے کو بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے شام کے تباہ شدہ تاریخی مقامات کی نقل بنانی شروع کی۔

    8

    2

    اردن کے زاتاری کیپ میں پناہ گزین ان شامیوں نے اپنے پروجیکٹ کو ’آرٹ فرام زاتاری‘ کا نام دیا۔

    اس پروجیکٹ کے تحت انہوں نے شام کے قابل ذکر تاریخی مقامات کی مختصر شبیہیں بنانی شروع کیں۔ ان منی ایچر ماڈلز کو بنانے کے لیے ان فنکاروں نے چکنی مٹی اور سیخوں کا استعمال کیا۔

    6

    5

    4

    3

    ان فنکاروں نے دمشق کی مسجد امیہ، حلب کا قدیم قلعہ، نوریاز نامی کنویں کی قدیم رہٹ، پالمیرا کے کھنڈرات اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا مجسمہ تخلیق کیا ہے۔

    ان فنکاروں میں سے ایک محمد حریری کہتے ہیں کہ یہ کام نہ صرف ان کی خوبصورت مگر برباد شدہ ثقافت کو کسی طرح حد تک محفوظ کر رہا ہے بلکہ اس سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں بھی نکھار آرہا ہے۔

    7

    حریری کا کہنا ہے کہ ان کا یہ کام آئندہ آنے والی نسلوں کو بتائے گا کہ جنگ زدہ شام ایک زمانے میں نہایت خوبصورت اور تاریخی ثقافت سے مالا مال تھا۔

    واضح رہے کہ شام کے لوگ پچھلے 5 سال سے خانہ جنگی کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ سے زائد شامی ہلاک ہوچکے ہیں۔

  • مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو زمین کے سبزے اور اس کی خوبصورتی کو بچانے کے لیے دیوانہ وار کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ پوری دنیا کو، زمین کو لاحق ان مسائل کی طرف متوجہ کرنے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈتے ہیں، اور اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک دیوانہ معروف اطالوی پیانو نواز لڈووکو اناڈی تھا جس نے قطب شمالی کے سمندر میں برفانی گلیشیئرز کے سامنے بیٹھ کر پیانو کی پرفارمنس پیش کی۔

    اس پرفارمنس کا مقصد دنیا کو متوجہ کرنا تھا کہ برفانی علاقوں کی برف تیزی سے پگھل کر دنیا کو کن خطرات سے دو چار کرنے والی ہے۔

    لارا جونز بھی ایسی ہی ایک مصورہ ہیں جو اپنے فن پاروں کے ذریعہ دنیا کو مونگے کی بے رنگ ہوتی چٹانوں کی طرف متوجہ کرنا چاہ رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں موجود رنگ برنگی مونگے یا مرجان کی چٹانیں اپنی رنگت کھو رہی ہیں جسے بلیچنگ کا عمل کہا جاتا ہے۔

    7

    اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی رنگ برنگی چٹانوں کا سلسلہ جو گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کہلاتا ہے آسٹریلیا کے سمندر میں موجود ہے۔ یہاں موجود ایک تہائی سے زیادہ چٹانیں اپنی رنگت کھو چکی ہیں یا کھو رہی ہیں۔

    یہ دنیا کا واحد سب سے بڑا سمندری ڈھانچہ ہے جو زندہ اجسام نے بنایا ہے اور ان رنگ برنگی چٹانوں کو اربوں ننھے اجسام نے ترتیب دیا ہے جو کورل یعنی مونگے یا مرجان کہلاتے ہیں۔

    سنہ 1981 میں گریٹ بیرئیر ریف کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    6

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان چٹانوں کی رنگت اڑنے کی وجہ سمندروں کی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندروں کا پانی بھی گرم ہورہا ہے جس کے باعث یہ چٹانیں بے رنگ ہورہی ہیں۔

    لارا جونز انہی مرتی ہوئی خوبصورت چٹانوں کو اپنے فن پاروں میں پیش کر رہی ہیں۔

    ان کے فن پارے دیکھ کر آپ کو یوں لگے گا جیسے آپ خود سمندر میں موجود ہیں اور اپنی آنکھوں سے ان چٹانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

    2

    4

    3

    5


     

  • سیاہ رنگ سے شوخ رنگوں کی تخلیق

    سیاہ رنگ سے شوخ رنگوں کی تخلیق

    آپ کے خیال میں ایک شوخ رنگوں کا منظر کینوس پر پینٹ کرنے کے لیے کیا چیز ضروری ہے؟

    آپ کا جواب ہوگا کہ قدرتی مناظر کے لیے اس منظر کا سامنے موجود ہونا اہم ہے، یا رنگوں میں ملبوس کسی شخص کی تصویر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص خود بھی انہی رنگوں میں ملبوس ہو۔

    مصوری پر مضامین پڑھیں:

    رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    حسن ۔ کاملیت اور توازن یا بصیرت کے اظہار کا نام؟

    جذبات کو رنگوں کی زبان دینے والا مصور

    لیکن ایک مصور اس خیال سے متفق نہیں ہوگا۔ ہر تخلیق کار چاہے وہ شاعر ہو، ادیب، مصور یا کچھ اور، عدم موجود عناصر کو اپنی ذہنی پرواز کی بدولت موجود کردیتا ہے۔

    ایک مصور کسی سیاہ و سفید یا بے رنگ شے کو دیکھتے ہوئے جب اسے اپنے کینوس پر منتقل کرے گا تو ہوسکتا ہے وہ نہایت ہی شوخ رنگوں سے کوئی شے ہو۔

    اس کی بہترین مثال فرانسیسی مصور ہنری میٹیز کا یہ شاہکار فن پارہ ہے۔

    black-2

    کہا جاتا ہے کہ جب اس نے یہ تصویر بنائی تو تصویر میں موجود خاتون سیاہ رنگ میں ملبوس تھیں۔

    ہنری میٹیز انیسویں صدی کا ایک مصور تھا۔ وہ مصوری کے ساتھ ساتھ نقشہ نویسی اور مجسمہ سازی بھی کیا کرتا تھا لیکن اسے شہرت دوام اس کی مصوری نے بخشی۔

    black-4

    black-6

    میٹیز، تجریدی آرٹ کو عروج پر پہنچانے والے پابلو پکاسو کے عہد کا مصور تھا۔ ان دونوں مصوروں نے پلاسٹک آرٹ کو ایک نئی جہت دی جس سے آرٹ کی اس قسم کو بے حد عروج ملا۔

    ان دونوں نے مصوری کی ایک قسم فاوازم کا آغاز کیا تھا جس میں انہوں نے گہرے رنگوں سے اپنے فن کا اظہار کرنے کا آغاز کیا۔

    black-5

    black-3

    زیر نظر تصویر بعض مؤرخین کے مطابق اس کی اہلیہ کی ہے۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ جب اس نے اپنی اہلیہ کی یہ تصویر بنائی اس وقت اس نے کون سا رنگ زیب تن کیا ہوا تھا، تو میٹیز کا جواب تھا، ’ظاہر ہے سیاہ‘۔

    سیاہ رنگوں سے شوخ رنگ تخلیق کرنے کا اس سے شاندار مظاہرہ کیا آپ نے پہلے کبھی دیکھا ہوگا؟