Tag: فنگس

  • ناخنوں سے فنگس کا چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    ناخنوں سے فنگس کا چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے ناخن حفاظت مانگتے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت ہاتھوں کی انگلیوں کی حفاظت تو کرتی ہیں تاہم پیروں اور اس کے ناخنوں پر اتنی توجہ نہیں دیتی، جس کے نتیجے میں کئی مسائل جنم لیتے ہیں ان ہی میں ناخنوں میں فنگس کا ہونا شامل ہے۔

    پیر عموماً جرابوں اور جوتوں میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے یہ اکثر پسینے کے سبب گیلے رہتے ہیں اور اس طرح ان میں کئی طرح کے جراثیم پنپنے لگتے ہیں جو ان میں فنگس کا سبب بنتے ہیں۔

    فنگس کی وجہ سے جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان میں ناگوار مہک لیے مادے کا اخراج، پیر کے ناخنوں کے رنگ میں تبدیلی ہونا شامل ہیں۔

    اسی لیے ضروری ہے کہ اس فنگس کا فوری علاج کیا جائے، یہاں پر اس فنگس کے لیے قدرتی گھریلو علاج پیش کیا جا رہا ہے جو نقصان دہ کیمیکلز سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ فائدہ مند بھی ہے۔

    اشیا

    ڈراپر: 1 عدد

    اینٹی سیپٹک ماؤتھ واش: 3 کپ

    سیب کا سرکہ: 3 کپ

    ٹی ٹری آئل

    تھائیم کا تیل

    زیتون کا تیل

    ٹوتھ برش

    ایک بڑے ٹب میں 3 کپ اینٹی سیپٹک ماؤتھ واش اور 3 کپ سیب کا سرکہ ڈالیں، پیروں کو ٹب میں 30 منٹ تک ڈبو کر رکھیں۔

    ٹب سے پیروں کو نکال کر صاف تولیہ کا استعمال کرتے ہوئے اچھی طرح خشک کریں۔

    اب تھائیم آئل، ٹی ٹری آئل اور زیتون کے تیل کے برابر حصے کو ڈراپر میں ڈال کر اچھی طرح مکس کریں۔ ڈراپر کی مدد سے ناخنوں پر تیل لگائیں اور 15 منٹ تک لگا رہنے دیں۔

    ناخنوں میں تیل کے مکسچر کو آہستہ سے صاف کرنے کے لیے ٹوتھ برش کو استعمال کریں، اس عمل کو اس وقت تک جاری رکھیں جب تک کہ فنگس مکمل طور پر صاف نہ ہو جائے۔

  • بھارت میں ایک اور رنگ کے فنگس کا پہلا کیس سامنے آ گیا

    بھارت میں ایک اور رنگ کے فنگس کا پہلا کیس سامنے آ گیا

    بھوپال: بھارت میں مختلف رنگوں والی بیماری عروج پر ہے، ایک اور رنگ کا فنگس سامنے آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں سیاہ، سفید اور زرد رنگ کے بعد اب ’سبز فنگس‘ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، اس کے پہلے کیس کی تصدیق کے بعد ڈاکٹروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

    ریاست مدھیہ پردیش میں کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے ایک شخص کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ ’گرین فنگس‘ سے متاثر ہے، حکام کا کہنا ہے کہ یہ ملک میں سبز فنگس کا پہلا کیس ہے۔

    ریاست کے شہر اندور کے سری اربندو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (سیمز) کے ڈیپارٹمنٹ آف چیسٹ ڈیزیز کے سربراہ ڈاکٹر روی دوشی نے بتایا کہ یہ نئی بیماری ایک ایسپرگلوسس انفیکشن ہے، اس فنگس کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے، ایسپرگلوسس کوئی عام انفیکشن نہیں ہے، کیوں کہ یہ پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔

    بھارت کو سیاہ فنگس کے بعد سفید فنگس نے گھیر لیا

    حکام کا کہنا ہے کہ ایک 34 سالہ شخص کرونا وائرس انفیکشن سے 2 ماہ تک متاثر رہا تھا، صحت یاب ہونے کے بعد بخار کے ساتھ ساتھ اس کی ناک سے خون آنے لگا، جس پر یہ شک ظاہر کیا گیا کہ وہ بلیک فنگس کا شکار ہوا ہے، تاہم تجزیے کے بعد وہ گرین فنگس نکلا۔

    ماہر امراض سینہ ڈاکٹر روی دوشی نے بتایا کہ یہ گرین فنگس کا ملک میں رپورٹ ہونے والا ممکنہ طور پر پہلا کیس ہے، فنگس نے مریض کے پھیپھڑوں اور خون پر اثر ڈالا، کرونا سے ٹھیک ہونے والا مریض گھر چلا گیا تھا، اور 10 سے 15 دنوں کے اندر اس کی ناک سے خون آیا اور اسے بخار کی شکایت ہوئی۔

    ڈاکٹر دوشی کے مطابق مریض کے ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ وہ گرین فنگس کی زد میں ہے، جس کے بعد علاج کے لیے مریض کو ممبئی کے لیے ایئر لفٹ کیا گیا۔

    انھوں نے کہا گرین فنگس کی دوا بلیک فنگس سے الگ ہے، اس لیے وائرس کے الگ الگ رنگوں کی کوڈنگ ضروری ہے۔ دوسری طرف ایمس کے ڈائریکٹر نے گزشتہ مہینے فنگس کے رنگ کے حوالے سے منتبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے میں گمراہ کن معلومات نہیں پھیلائی جانی چاہیے۔

  • پاکستان میں پلاسٹک کھانے والی پھپھوندی دریافت

    پاکستان میں پلاسٹک کھانے والی پھپھوندی دریافت

    اسلام آباد: وطن عزیز کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایسی پھپھوندی دریافت ہوئی ہے جو پلاسٹک کو کھا سکتی ہے۔

    وفاقی دارالحکومت کے ایک کچرے کے ڈھیر سے اتفاقاً دریافت ہونے والی اس پھپھوندی کا نام اسپرگلس ٹیوبی جینسس ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ زمین میں تلف نہ ہوسکنے والی پلاسٹک کو چند ہفتوں میں توڑ سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ دریافت دراصل اس پھپھوندی کی نہیں، بلکہ اس کی پلاسٹک کھانے والی خاصیت کی ہے جو حال ہی میں دریافت ہوئی ہے۔

    مذکورہ پھپھوندی پلاسٹک کے مالیکیولز کو توڑ کر انہیں الگ کردیتی ہے جس کے بعد ان کی تلفی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ یہ عموماً مٹی میں پائی جاتی ہے اور اکثر اوقات پلاسٹک کی اشیا کے اوپر ملتی ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ اس پھپھوندی کو پانی میں اور زمین پر کچرے کے ڈھیر کی صورت میں موجود پلاسٹک کی اشیا کو تلف کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    اس سے قبل برطانوی ماہرین نے بھی ایسی سنڈی دریافت کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو پلاسٹک کو کھا سکتی تھی۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق سنہ 2014 میں 31 کروڑ ٹن سے بھی زائد پلاسٹک بنایا گیا۔

    پلاسٹک خصوصاً اس سے بنائی گئی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کے ان نقصانات سے آگاہی ہونے کے بعد دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں آہستہ آہستہ اس پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔