Tag: فن لینڈ

  • جدید ٹیکنالوجی سے جانوروں پر ظلم کے نئے طریقے دریافت

    جدید ٹیکنالوجی سے جانوروں پر ظلم کے نئے طریقے دریافت

    ذرا اس تصویر کو غور سے دیکھیئے۔

    یہ آپ کو کون سا جانور لگتا ہے؟ شاید اسے کوئی بیماری ہے، بیمار سا لگ رہا ہے، آنکھوں میں بھی بے بسی کے تاثرات ہیں۔

    یہ جانور برفانی لومڑی یا آرکٹک فاکس کہلاتا ہے۔ کیا آپ اس کی اصل تصاویر دیکھنا چاہیں گے؟ ذرا دیکھیئے۔

    اور اب اس بیمار لومڑی کی مکمل حالت ملاحظہ فرمائیں۔

    کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس معصوم اور بے ضرر جانور کی یہ حالت کس نے اور کیوں کی؟ یقیناً جاننا چاہیں گے۔

    دعا دیجیئے ہماری جدید ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم کو، جس نے حضرت انسان کو اپنے فائدے کے لیے جانوروں پر ظلم کے ایسے ایسے طریقے دریافت کروا دیے، کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

    دراصل اس لومڑی میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جینیاتی تبدیلیاں کردی گئی ہیں، چنانچہ اس کے جسم پر موجود فر میں اضافہ ہوگیا جو عمر کے ساتھ ساتھ مزید جاری ہے۔

    اس اضافی فر نے ایک طرف تو اس جانور کو بد ہیئت بنا دیا، دوسری جانب اسے بے انتہا جسمانی تکلیف میں بھی مبتلا کردیا۔ غیر فطری تبدیلیوں سے گزرنے والی حیات یقیناً کسی صورت صحت مند نہیں رہ سکتی۔

    یہ کام یورپی ملک فن لینڈ میں سر انجام دیا گیا جہاں اس نرم فر کی خرید و فروخت نہایت منافع بخش صنعت ہے اور ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    جانوروں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے چھپ کر ان کی ویڈیو بنائی جس کے بعد یہ لرزہ خیز ظلم سامنے آیا۔

    فن لینڈ یورپ میں فر کا سب سے بڑا پیداوار کنندہ ہے اور سنہ 2014 میں اس فر کے حصول کے لیے 18 لاکھ سے زائد لومڑیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

    گو کہ مختلف ممالک میں مختلف تنظیمیں فر کی مصنوعات خصوصاً لباسوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان خوبصورت لومڑیوں کا قتل عام رکوانے کی کوششیں کر رہی ہیں، تاہم یورپ کے کئی ممالک میں یہ کام قانونی یا غیر قانونی طور پر جاری ہے۔

    برطانیہ میں سنہ 2010 میں ان لومڑیوں کی اس ظالمانہ فارمنگ پر پابندی عائد کردی گئی، تاہم بیرون ملک سے فر کی درآمد تاحال جاری ہے۔

    تنظیم کے مطابق ایک عام آرکٹک لومڑی جو 3 سے 4 کلو وزنی ہوتی ہے، جینیاتی تبدیلی کے بعد اضافی فر کی وجہ سے 20 کلو وزنی ہوجاتی ہے۔

    یہ لومڑی اس قدر وزن اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی، چنانچہ اسے سانس لینے اور دیکھنے میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے نازک پاؤں بھی اس کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوجاتے ہیں جس کے باعث یہ بہت کم اپنی جگہ سے حرکت کر پاتی ہے۔

    جینیاتی تبدیلیوں کرنے کے بعد لومڑی کی 3 سال تک اذیت ناک پرورش کرنے کے بعد بجلی کے کرنٹ کے ذریعے اس کے منہ یا بڑی آنت کے نچلے حصے (جہاں سے فضلے کا اخراج ہوتا ہے) سے ایک ہی جھٹکے میں سارا فر کھینچ لیا جاتا ہے تاکہ فر بے داغ رہے اور اس پر کوئی خراش نہ آئے۔

    اس لرزہ خیز اور درد ناک ظلم کی داستان سننے کے بعد کیا آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرمندگی تو محسوس نہیں ہو رہی؟

    تصاویر بشکریہ: ڈیلی میل

  • فن لینڈ:تدریسی نظام میں‌ انقلابی اصلاحات کا فیصلہ

    فن لینڈ:تدریسی نظام میں‌ انقلابی اصلاحات کا فیصلہ

    فن لینڈ کا تدریسی نظام دنیا کا بہترین نظام ہے جس کا شمار بین الاقوامی معیار کے لحاظ سے ہمیشہ 10 سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے اس کے باوجود بہتر سے بہتر اصلاحات کے لیے کوشاں فن لینڈ حکام نے اپنے تدریسی نظام میں انقلابی تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔

    محکمہ تعلیم کے سربراہ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسکولوں کے نصاب میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہیں ہم ابھی تک 1900 کے مطابق تدریس دے رہے ہیں جب کہ 2000 کاہدف کچھ اور ہے۔

    اس حوالے سےایسا تدریسی نظام لایا جا رہا ہے جسں میں روایتی درسی کتابوں کے بجائے ایسے مضامین پڑھائے جائیں گے جو مستقبل میں بھی کار آمد ہو اور روزگار میں مددگار ثابت ہو سکے۔

    مضامین کے بجائے موضوع اور عنوانات پڑھائے جائیں گے

    نئے تدریسی نظام کے تحت فزکس، ریاضی، ادب، تاریخ اور جغرافیہ کے بجائے موضوعات پڑھائے جائیں گے جیسے نیوٹن کے مشہور قانون حرکت کو مظاہر کے طور پر پڑھایا جائے گا اور اس میں تاریخ، سائنس اور ریاضی ذیلی مضمون بن کے آجائیں گے۔

    اہم عالمی واقعات بہ طور موضوعات پڑھائے جائیں گے

    نئے تدریسی نظام میں اہم عالمی واقعات کو زیر مطالعہ لایا جائے گا جیسے جنگ عظیم دوئم کو بہ طور موضوع کے طور پر پڑھایا جائے گا اور اس کا  تاریخ، معیشت پر اثر اور جغرافیہ بیان کیا جائے گا جس ایک عنوان کے اندر تین مضمون خود بہ خود زیر مطالعہ آجائیں گے۔

    کسی تقریب یا مظاہر کے ذریعے تدریس

    اسی طرح کیفے ٹیریا میں ملازمت کے عنوان میں انگریزی زبان، کمینیوکیشن اسکلز اور معیشت پڑھائی جائے گی جس سے طالب علموں میں نہ صرف یہ کہ مندجہ بالا مضامین سے آگاہی حاصل ہو پائے گی بلکہ یہ دورانِ روزگار بھی مدد گار ثابت ہو گی جس سے طالب علم کے اعتماد میں اضافہ ہوگا ۔

    طالب علموں کو عنوانات منتخب کرنے کا حق حاصل ہوگا

    نئے تدریسی نظام کے تحت طالب علموں کو حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنی مرضی اور پسندیدگی کے لحاظ سے عنوانات، واقعات یا مظاہر منتخب کر سکیں گے جو طالب علموں کی ذہنی استعداد کے مطابق ہو گی اور مستقبل میں روزگار کے حصول اور ترقی میں کار آمد ثابت ہوں گی۔

    کلاس روم کی ہیئت میں تبدیلی

    نئے تدریسی نظام میں جہاں موضوعات کی تبدیلی عمل میں لائی گئی وہیں طریقہ کار میں روایت سے بغاوت کا اظہار ہے اس طرح طالب علم ڈیسکوں پر بیٹھ کر استاد کا لیچر سننے کے بجائے تین تین طالب علموں پر مشتمل گروپس کی شکل میں راؤنڈ ٹیبل میں بیٹھ کر عنوان پر بحث و مباحثہ کریں۔

    سولہ سال سے زائد بچوں کے لیے مرتب کیا گیا یہ نصاب محکمہ تعلیم کے مطابق 2020 تک مکمل ہوجائے گا اس تدریسی نظام کے تحت جہان مفید ثمرات دیکھنے میں آئیں گے وہیں ماہر اساتذہ کی کمی کا سامنا بھی رہے گا جس کے لیے 70 فی صد اساتذہ تربیت حاصل کر چکے ہیں اور اپنی مہارت کے لیے زیادہ معاوضہ بھی حاصل کرپائیں گے۔

  • نوکیا کا اینڈرائڈ اسمارٹ فون پیش کرنے کا فیصلہ

    نوکیا کا اینڈرائڈ اسمارٹ فون پیش کرنے کا فیصلہ

    جدید دور میں نت نئے موبائل فون کی دوڑ میں نوکیا نے بھی آگے آنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور بہت جلد نوکیا اپنے اینڈرائڈ فونز مارکیٹ میں پیش کردے گا۔

    فن لینڈ سے تعلق رکھنے والی اس کمپنی کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق گوگل کے اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم پر مشتمل نوکیا کے اسمارٹ فون جلد جاری کردیے جائیں گے۔

    واضح رہے کہ نوکیا بہت زیادہ فروخت ہونے والا موبائل تھا تاہم اینڈارئڈ فونز کی آمد کے بعد نوکیا کا بزنس کم ہوگیا تھا۔ نوکیا کے فون کو مائیکرو سافٹ نے خرید لیا تھا جس کے بعد اس کا نام لومیا کردیا گیا تھا۔

    lumia

    مائیکرو سافٹ نے نوکیا ایکس فونز کی جگہ جدید اینڈرائڈ فون بھی لانچ کیا تھا لیکن یہ تجربہ خاص مقبولیت حاصل نہیں کرسکا۔

  • کس ملک کے طلبا سب سے زیادہ ذہین ہیں؟

    کس ملک کے طلبا سب سے زیادہ ذہین ہیں؟

    دنیا کی بیشتر آبادی اس وقت کسی نہ کسی قسم کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ خواندگی کی تعریف کے مطابق ہر وہ شخص جو تھوڑا سا لکھ اور پڑھ سکتا ہو خواندہ کہلایا جائے گا۔

    لیکن دنیا کی ترقی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی مرہون منت ہے۔ جن ممالک میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد زیادہ ہوگی، یقیناً وہ ہر شعبہ میں ایک ترقی یافتہ ملک ہوگا۔

    دنیا کی عظیم درسگاہ آکسفورڈ کی سیر کریں *

    تاہم حال ہی میں تنظیم برائے معاشی تعاون اور ترقی او ای سی ڈی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کن ممالک کے طلبا سب سے زیادہ ذہین اور فعال ہوتے ہیں۔

    رپورٹ میں شامل فہرست کے مطابق جاپان کے طلبا سب سے زیادہ ذہین اور مستعد ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کے لیے طلبا کے تعلیمی امتحانات اور ان کی عملی زندگی میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا جائزہ لیا گیا۔

    فہرست میں شامل دیگر ممالک یہ ہیں۔

    فن لینڈ
    نیدرلینڈز
    آسٹریلیا
    ناروے
    بیلجیئم
    نیوزی لینڈ
    انگلینڈ
    امریکا
    چیک ری پبلک

    اس فہرست میں وہ ممالک شامل نہیں جن کی جامعات بین الاقوامی معیار کی اور دنیا کی بہترین جامعات میں سے ایک تصور کی جاتی ہیں جیسے سنگا پور اور جنوبی کوریا۔ ان دونوں ممالک میں خواندگی کی شرح بھی 96 فیصد سے زائد ہے تاہم یہ اس فہرست میں جگہ بنانے میں ناکام رہے۔

    ماہرین کے مطابق اس فہرست نے دنیا کے بہترین تعلیمی نظام کا دعویٰ کرنے والے ممالک کی اہلیت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔

    پاکستان میں 2 کروڑ بچے تعلیم سے محروم *

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈگری تو کہیں سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن اہم یہ ہے کہ وہ ڈگری طلبا کو زندگی میں کیا دے سکتی ہے؟

    اس فہرست میں دنیا میں 100 فیصد شرح خواندگی رکھنے والا یورپی ملک انڈورا بھی شامل نہیں۔ مزید یہ کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ شرح خواندگی رکھنے والے سرفہرست 10 ممالک میں سے صرف 2 ممالک فن لینڈ اور ناروے ہی اس فہرست میں شامل ہوسکے۔

    japan-2

    ان دونوں ممالک میں شرح خواندگی 100 فیصد ہے اور او ای سی ڈی کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق ان دونوں ممالک کے طلبا نہایت ذہین پائے گئے ہیں۔

  • دنیا کے انوکھے ترین ریستوران

    دنیا کے انوکھے ترین ریستوران

    اگر آپ کھانے پینے کے شوقین ہیں تو اپنے شہر کے بہترین کھانوں کے مقامات سے ضرور واقف ہوں گے۔ اگر آپ نے دوسرے شہروں میں سفر کیا ہے تو وہاں جاتے ہی سب سے پہلے آپ بہترین طعام کی جگہیں ڈھونڈتے ہوں گے اور وہاں کے مشہور کھانے کھاتے ہوں گے۔

    لیکن کیا آپ نے دنیا کے ان عجیب وغریب اور انوکھے ریستورانوں کے بارے میں سنا ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔ ان ریستوارنوں کی انفرادیت ان کا محل وقوع ہے۔

    غاروں، برفانی پہاڑوں، اور جھیلوں کے نزدیک واقع اور مخصوص طرز پر بنائے گئے یہ خوبصورت ریستوران دنیا بھر میں مشہور ہیں اور ہر سیاح یہاں کا دورہ کرنا چاہتا ہے۔

    آپ نے قطب شمالی کی حیران کن روشنیوں کے بارے میں تو ضرور سنا ہوگا؟ اگر آپ ان کو صحیح سے دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بہترین جگہ آئس لینڈ میں واقع یہ نادرن لائٹس بار ہے جہاں سے ان روشنیوں کا حسین نظارہ دکھائی دیتا ہے۔

    4

    5

    کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں واقع ایک ریستوران جراف مینور جہاں کی خاص بات یہ ہے کہ آپ وہاں زرافوں کے ساتھ ناشتہ کرسکتے ہیں۔

    9

    giraffe-5

    اٹلی میں واقع یہ ریستوران ایک قدیم غار میں قائم ہے۔ غار کے نیچے ایک خوبصورت دریا بہتا ہے۔

    1

    2

    3

    نیوزی لینڈ میں مشہور تصوراتی فلم ’دی ہوبٹ‘ کی طرز پر بنا ہوا گرین ڈریگن پب۔

    12

    11

    13

    انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں واقع تساوو لائن نامی ریستوران جہاں آپ شیروں کے ساتھ ڈنر کر سکتے ہیں۔ لیکن فکر مت کریں آپ کے اور شیر کے درمیان شیشے کی دیوار ہوگی۔

    32

    31

    بورا بورا نامی جزیرے پر آپ کو نیلے سمندر میں بیٹھ کر کھانے کی پیشکش کی جاتی ہے۔

    20

    فن لینڈ میں بنایا جانے والا برفانی محل جس کے ریستوران میں جانے کے لیے آپ کو سخت سردیوں کا انتظار کرنا ہوگا۔

    19

    18

    17

    مالدیپ میں زیر سمندر قائم ایک ریستوران، جہاں آپ کے سر پر شارک سمیت مختلف آبی حیات حرکت کر رہی ہوں گی۔

    10

    فلپائن کا یہ ریستوران آپ کو بہتی آبشار کے درمیان بیٹھ کر کھانے کا موقع دیتا ہے۔

    22

    21

    کینیا میں واقع علی باربرز نامی ایک اور غار ریستوران۔ یہاں موم بتیوں کے ذریعہ روشنیاں کی جاتی ہیں۔

    14

    15

    فرانس میں پہاڑ کی چوٹی پر واقع اس ریستوران میں کھانا کھانا بھی ایک لائف ٹائم تجربہ ہوسکتا ہے۔ یہاں بیٹھ کر آپ کو کھڑکیوں سے بلند و بالا پہاڑ اور بادل دکھائی دیں گے۔

    8

    7

    untitled-1

    نیوزی لینڈ میں درختوں پر بنائے گئے یہ چھوٹے چھوٹے کمرے دراصل ریستوران ہیں جنہیں ریڈ ووڈ ٹری ہاؤس کہا جاتا ہے۔

    26

    25

    جاپان میں ایلس ان ونڈر لینڈ کی طرز پر بنایا گیا ’بھول بھلیوں میں ایلس‘ نامی ریستوران۔

    23

    24

    مشہور اینی میٹڈ فلم ریٹاٹوئی کی طرز پر بنایا گیا ریستوران جو پیرس میں واقع ہے۔

    30

    29

    نیدر لینڈز کا ہوائی غبارے میں موجود ریستوران۔

    28

    27

    چین میں جیل کی طرز پر بنایا گیا ’پریزن آف فائر‘ نامی ریستوران۔ یہاں پہنچ کر آپ خود کو ایک خطرناک مجرم محسوس کریں گے جسے کھڑکیوں کے ذریعہ کھانا دیا جارہا ہوگا۔

    33

    34

  • شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    ایک جنگ زدہ علاقہ میں، جہاں آسمان سے ہر وقت موت برستی ہو، کھانے کے لیے اپنوں کی جدائی کا جان لیوا غم اور پینے کے لیے صرف خون دل میسر ہو، وہاں بچوں کو کھیلنے کے لیے، اگر وہ جنگ کے ہولناک اثرات میں دماغی طور پر اس قابل رہ جائیں، بھلا تباہ شدہ عمارتوں کی مٹی اور پتھر کے علاوہ اور کیا میسر ہوگا؟

    جنگ زدہ علاقوں میں جہاں اولین ترجیح اپنی جان بچانا، اور دوسری ترجیح اپنے اور اپنے بچے کھچے خاندان کے پیٹ بھرنے کے لیے کسی شے کی تلاش ہو وہاں کس کو خیال آئے گا کہ بچوں کی معصومیت ابھی کچھ باقی ہے اور انہیں کھیلنے کے لیے کھلونے درکار ہیں۔

    یقیناً کسی کو بھی نہیں۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    تب مشرق کے سورج کی طرح ابھرتا دور سے آتا ’کھلونا اسمگلر‘ ہی ان بچوں کی خوشی کا واحد ذریعہ بن جاتا ہے جو سرحد پار سے ان کے لیے کھلونے ’اسمگل‘ کر کے لاتا ہے۔

    toy-2

    بچوں میں ’ٹوائے انکل‘ کے نام سے مشہور یہ اسمگلر دراصل 44 سالہ رامی ادھم ہے جو فن لینڈ کا رہائشی ہے لیکن اس کی جڑیں یہیں جنگ زدہ علاقوں میں مٹی کا ڈھیر بنی عمارتوں کے نیچے کہیں موجود ہیں، تب ہی تو یہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرناک طریقے سے سرحد عبور کر کے ان بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے آتا ہے۔

    toy-6

    سنہ 1989 میں اچھے مستقبل کی تلاش کے لیے فن لینڈ کا سفر اختیار کرنے والے 44 سالہ رامی کا بچپن حلب کی ان ہی گلیوں میں گزرا جو اب اپنے اور بیگانوں کی وحشیانہ بمباری کا شکار ہے۔

    رامی بتاتا ہے، ’جب بچے مجھے آتا دیکھتے ہیں تو دور ہی سے ’ٹوائے انکل‘ کے نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں۔ میری آمد کی خبر لمحوں میں یہاں سے وہاں تک پھیل جاتی ہے اور جب میں تباہ حال شہر کے مرکز میں پہنچتا ہوں تو سینکڑوں بچے چہروں پر اشتیاق سجائے میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں‘۔

    اس کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے سبز بیگ میں سے کھلونے نکال کر بچوں میں تقسیم کرتا ہے اس وقت ان بچوں کی خوشی ناقابل بیان ہوتی ہے۔

    toy-3

    رامی ان کھلونوں کے لیے فن لینڈ میں عطیات جمع کرتا ہے۔ وہ لوگوں سے ان کے بچوں کے پرانے کھلونے دینے کی بھی اپیل کرتا ہے۔ پچھلے 2 سال سے چونکہ شام کی سرحد کو بند کیا جاچکا ہے لہٰذا وہ قانونی طریقہ سے شام تک نہیں جاسکتا اور مجبوراً اسے اسمگلنگ کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔

    لیکن یہ اسمگلنگ ایسی ہے جو غیر قانونی ہوتے ہوئے بھی غیر انسانی نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک زندہ سلامت ہے اور کامیابی سے اس اسمگلنگ کو  جاری رکھے ہوئے ہے۔ رامی کے مطابق فن لینڈ اور ترکی میں اس کے کچھ واقف کار ہیں جو اسے بحفاظت سرحد پار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ اسے ’جوائے اسمگلر‘ یعنی خوشی کے اسمگلر کا نام دیتے ہیں۔

    toy-4

    پچھلے 5 سال سے جاری شام کی خانہ جنگی کے دوران رامی 28 مرتبہ بڑے بڑے تھیلوں میں بچوں کے لیے خوشی بھر کر لاتا ہے۔ اس دوران اسے 6 سے  7 گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ کئی بار اس کے شام میں قیام کے دوران جھڑپیں شروع ہوجاتی ہیں جن کے دوران اسے گولیوں سے بچنے کے لیے ادھر ادھر بھاگنا اور چھپنا بھی پڑتا ہے۔

    رامی بتاتا ہے، ’شام کے لوگوں کا بیرونی دنیا سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان پر ٹوٹنے والے اس عذاب میں ساری دنیا شامل ہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی شناخت بھی بھول چکے ہیں‘۔

    رامی نے فن لینڈ میں ایک ’گو فنڈ می‘ نامی مہم بھی شروع کر رکھی ہے جس کے تحت وہ شام میں اسکول قائم کرنے کے لیے عطیات جمع کر رہا ہے۔ وہ یہ اسکول جنگ و جدل سے دور ترکی کی سرحد کے قریب بنانا چاہتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اپنے حالیہ دورے میں وہ ایک اسکول کا بنیادی ڈھانچہ قائم کرچکا ہے۔

    toy-5

    اس رقم سے وہ اب تک حلب کے 4 اسکولوں کی بھی امداد کر چکا ہے جو مختلف تباہ شدہ عمارتوں اور سڑکوں پر قائم ہیں۔

    شامی نژاد رامی خود بھی 6 بچوں کا باپ ہے اور اس کا عزم ہے کہ جب تک شامی بچوں کو اس کی ضرورت ہے وہ ان کے لیے یہاں آتا رہے گا۔ ’میں اپنے مشن سے کبھی نہیں رکوں گا، نہ کوئی مجھے روک سکتا ہے‘۔

    مزید پڑھیں: خدارا شام کے مسئلہ کا کوئی حل نکالیں

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی 5 سالہ خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ شامی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 15 ہزار کے قریب بچے بھی شامل ہیں۔ شام اور عراق میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جو جنگی علاقوں میں محصور ہیں اور تعلیم و صحت کے بنیادی حقوق سے محروم اور بچپن ہی سے نفسیاتی خوف کا شکار ہیں۔

  • صومالیہ کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار

    صومالیہ کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار

    موغا دیشو: افریقی ملک صومالیہ میں رواں برس صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ ان انتخابات میں ایک خاتون فڈومو ڈیب بھی امیدوار ہیں۔ اگر وہ صدر منتخب ہوگئیں تو صومالیہ کی پہلی خاتون صدر کہلائی جائیں گی۔

    فڈومو صومالیہ کے ایک خاندان سے تعلق رکھتی ہیں تاہم ان کی پیدائش کینیا میں ہوئی۔ ان کے والد ایک ٹرک ڈرائیور تھے۔ 1989 میں جب کینیا اور صومالیہ کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی تو اس خاندان کو کینیا سے ڈی پورٹ کردیا گیا اور وہ واپس صومالیہ جا کر رہنے پر مجبور ہوگئے۔

    somali-3

    اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’میں اس وقت کو کبھی نہیں بھول نہیں سکتی۔ ذلت، بے بسی اور دوسرے درجہ کا شہری ہونے کا احساس جو مجھے ساری عمر یاد رہے گا‘۔

    اس کے بعد جب صومالیہ میں خانہ جنگی شروع ہوگئی تو بالآخر اس خاندان نے ہجرت کی اور وہ فن لینڈ میں آ بسے۔

    فڈومو 14 برس کی عمر تک صرف پڑھ سکتی تھیں لیکن انہوں نے فن لینڈ میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ اب ان کے پاس ہارورڈ یونیورسٹی سمیت مختلف یونیورسٹیوں سے حاصل کردہ 3 ڈگریاں ہیں۔

    حالات بہتر ہونے کے بعد انہوں نے صومالیہ جانا شروع کردیا۔ انہوں نے وہاں اقوام متحدہ کے لیے بھی کام کیا اور اب وہ صدارتی انتخاب کی امیدوار ہیں۔

    فڈومو اب شادی شدہ ہیں اور ان کے 4 بچے بھی ہیں لیکن وطن سے محبت کی خاطر وہ اپنے بچوں کو فن لینڈ میں ہی چھوڑ کر واپس اپنے ملک جا رہی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’مجھے نہیں پتہ کہ واپس آؤں گی یا نہیں۔ لیکن میں نے اپنے بچوں سے کہہ رکھا ہے کہ اگر میں واپس نہ آؤں تو وہ اپنی تعلیم مکمل کریں اور اپنی مقاصد کی تکمیل کریں‘۔

    فڈومو کو قتل کی دھمکیاں بھی دی جاچکی ہیں لیکن وہ اپنے عزم پر ڈٹی ہوئی ہیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    ان کی جدوجہد کو دیگر افریقی ممالک میں بھی پذیرائی مل رہی ہے اور یوگنڈا اور کینیا وغیرہ کے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ صومالیہ اپنی پہلی خاتون صدر منتخب کرے۔

  • دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کے سب سے زیادہ ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    ماحولیاتی کارکردگی کی فہرست مرتب کرنے والا ادارہ ای پی آئی اے دو شعبوں میں کارکردگی دیکھتے ہوئے اپنی فہرست مرتب کرتا ہے۔ ایک انسانی صحت کے تحفظ اور دوسرے ماحول یا ایکو سسٹم کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات۔

    اس فہرست میں 4 یورپی ممالک فن لینڈ، آئس لینڈ، سوئیڈن اور ڈنمارک ابتدائی 4 پوزیشنز پر ہیں البتہ ان ممالک کا پڑوسی ملک ناروے اپنے بے تحاشہ کاربن اخراج اور زراعت میں فرسودہ طریقوں کے باعث پیچھے ہے۔

    finland-4

    فہرست میں دسویں نمبر پر فرانس ہے۔ نویں پر مالٹا، آٹھویں پر یورپی ملک ایسٹونیا، ساتویں پر پرتگال، چھٹے پر اسپین اور پانچویں پر سلووینیا شامل ہے۔

    چوتھے نمبر پر ڈنمارک ہے جو اپنے ماحول کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی معیشت میں بہتری لا رہا ہے جسے گرین گروتھ کا نام دیا گیا ہے۔

    تیسرے نمبر پر موجود ملک سوئیڈن میں پینے کے پانی کو محفوط کرنے اور استعمال شدہ پانی کو ٹھکانے لگانے کی بہترین حکمت عملیوں پر عمل ہورہا ہے۔

    دوسرے نمبر پر آئس لینڈ ہے جو اپنی توانائی کی تمام ضروریات قابل تجدید ذرائع (ری نیو ایبل) جیسے شمسی ذرائع سے پورا کرتا ہے۔

    finland-2

    فہرست کے مطابق دنیا کا سب سے زیادہ ماحول دوست ملک فن لینڈ ہے۔

    فن لینڈ نے ماحولیاتی شعبہ میں بے حد ترقی کی ہے جس کی بنیاد کاربن سے پاک ملک بنانے کے لیے اقدامات تھے۔ ان اقدامات سے فن لینڈ کی صحت، توانائی اور ماحولیات کے شعبہ میں بہتری آئی، آبی حیات، جنگلی حیات اور ان کی پناہ گاہوں کو محفوظ بنانے میں مدد ملی جبکہ فضائی آلودگی میں کمی اور آبی ذخائر میں اضافہ ہوا۔

    رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بڑی عالمی معیشتیں جو صنعتی شعبہ میں روز بروز ترقی کر رہی ہیں اس فہرست میں بہت نیچے ہیں کیونکہ ان ممالک کا ماحول بدترین خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کی ایک مثال چین ہے جو فہرست میں 109ویں درجہ پر ہے۔

    finland-3

    اس سے قبل عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں فضائی آلودگی کے باعث ایک لاکھ کی آبادی میں سے 164 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ چین اپنی ایندھن کی ضروریات زیادہ تر کوئلے سے پوری کرتا ہے اور یہی اس کی فضائی آلودگی اور بدترین ماحولیاتی خطرات کی بڑی وجہ ہے۔

  • فن لینڈ ۔ جہاں 23 گھنٹے کا روزہ ہے

    فن لینڈ ۔ جہاں 23 گھنٹے کا روزہ ہے

    پاکستان میں روزے کا مجموعی دورانیہ لگ بھگ 16 گھنٹے کے قریب ہے لیکن دنیا میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں افطار اور سحری کے درمیان محض ایک گھنٹے سے بھی کم وقت ہوتا ہے یعنی 23 گھنٹے کا روزہ۔

    دنیا بھر کی طرح فن لینڈ میں بھی رمضان المبارک کا آغاز جون کے مہینے میں ہوا ہے۔ جون وہ مہینہ ہے جب شمالی فن لینڈ میں سورج غروب ہونا چھوڑ دیتا ہے یعنی 23 سے چوبیس گھنٹے دن کی روشنی موجود رہتی ہے۔

    fl-1

    fl-2

    بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے محمد اور ان کی فیملی سورج کی روشنی میں ہی سحری کرتی ہے اور ان کو سورج کی روشنی میں ہی افطار کرنا پڑتا ہے۔ محمد اور ان کی فیملی کو روزہ کھولنے اور دوبارہ سحری کرنے میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت ملتا ہے بلکہ اکثر وہ سحری اور افطاری ایک ساتھ ہی کرتے ہیں۔

    شمالی فن لینڈ میں 8 جولائی کے بعد سورج کی روشنی کا دورانیہ کم ہونا شروع ہوگا لیکن محمد اور ان کی فیملی کو پورا رمضان اسی طرح گزارنا پڑے گا۔

    fl-3

    fl-4

    فن لینڈ میں گرمیوں کے موسم میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ ان دنوں یہاں رات میں بھی سفید سی روشنی پھیلی رہتی ہے جسے آدھی رات کا سورج یعنی ’مڈ نائٹ سن‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد سارا دن سورج چمکتا رہتا ہے۔ اسی طرح سردیوں میں یہاں سورج بالکل بھی نہیں نکلتا اور ساری سردیاں اندھیرے میں گزرتی ہیں۔