Tag: فن مصوری

  • عسکری میاں ایرانی: پاکستان میں منی ایچر آرٹ کا بڑا نام

    عسکری میاں ایرانی: پاکستان میں منی ایچر آرٹ کا بڑا نام

    فنِ مصوّری کا ایک معروف نام عسکری میاں ایرانی کا ہے، جن کا خاص موضوع منی ایچر آرٹ رہا ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل عسکری میاں ایرانی نے اس میڈیم میں خوب جم کر کام کیا اور ان کے فن پارے آج بھی مختلف آرٹ گیلریز کی زینت ہیں۔ آج عسکری میاں ایرانی کی برسی ہے۔

    مصوری کی دنیا میں عسکری میاں ایرانی کا نام ایسے پاکستانی کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں نے منی ایچر آرٹ کو بڑی لگن اور سنجیدگی سے آگے بڑھایا اور فن پارے تخلیق کیے۔ اس فن سے متعلق محققین کا خیال ہے کہ گیارھویں اور بارھویں صدی عیسوی میں کتابوں میں شامل تصویروں سے جس مصوری کا آغاز ہوا تھا وہ آگے چل کر مِنی ایچر آرٹ کی شکل میں سامنے آئی۔ ہندوستان میں مغلیہ دور اور پھر برطانوی راج میں بھی مصوری کی اس صنف یعنی مِنی ایچر آرٹ پر توجہ نہیں‌ دی گئی، جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی 1980ء میں جا کر نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر پیٹنگز کو عجائب گھروں سے آرٹ گیلریوں تک پہنچانا شروع کیا تھا۔ 1982ء میں پہلی مرتبہ نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر آرٹ کا ڈیپارٹمنٹ قائم کیا۔ اس فن کے استاد بھی بہت اس زمانے میں‌ گنے چنے تھے۔

    عسکری میاں ایرانی 10 جنوری 2004ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا اصل نام عسکری میاں زیدی تھا۔ 30 جنوری 1940ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد عسکری میاں ایرانی لاہور میں رائل پارک کے علاقے میں آن بسے۔ اس دور میں فلمی دنیا میں بڑے بڑے ہورڈنگز اور پوسٹروں کا رواج تھا اور کئی چھوٹے فن کار ہی نہیں ماہر مصور بھی یہ کام کرتے تھے۔ ان کے ساتھ اکثر وہ لوگ بھی ہاتھ بٹاتے تھے جو فنِ مصوّری سیکھنا چاہتے تھے۔ عسکری میاں ایرانی بھی اکثر فلمی پینٹرز کو ہورڈنگ بناتے دیکھتے۔ یہیں سے ان کو مصوّری کا شوق ہوا۔ ابتدائی کوششوں اور اس فن میں دل چسپی لینے کے بعد میں انھوں نے نیشنل کالج آف آرٹس سے باقاعدہ مصوّری کی تعلیم حاصل کی اور پھر بسلسلۂ روزگار کراچی چلے گئے۔ اس شہر میں ان کا فنی سفر بھی جاری رہا اور عسکری میاں ایرانی نے 1976ء میں نیشنل کالج آف آرٹس میں تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ وہ سنہ 2000ء تک اس ادارے میں فنِ مصوّری کی تعلیم دیتے رہے اور نئے آرٹسٹوں کی تربیت کی۔ عسکری میاں ایرانی ایک ماہر خطاط بھی تھے۔ فنِ مصوّری میں ان کا خاص موضوع تو منی ایچر پینٹنگ ہی رہا لیکن اسی فن کو اسلامی خطاطی سے ہم آمیز کر کے انھوں نے شہرت بھی پائی۔ 1984ء سے 1992ء تک عسکری میاں ایرانی کے فن پاروں کی نمائش’’نقش کہنہ برنگِ عسکری‘‘ کے نام سے ہوتی رہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے عسکری میاں ایرانی کو 2002ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی دیا اور بعد از مرگ 2006ء میں محکمۂ ڈاک نے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ عسکری میاں ایرانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اسلامی عہد میں‌ کتب کے مصوّر نسخے

    اسلامی عہد میں‌ کتب کے مصوّر نسخے

    ادب و قصص کی کتب کی تصاویر کا سلسلہ یوں تو ابتدائی اسلامی عہد میں شروع ہوگیا تھا مگر ان کے قدیم ترین نسخے، جو ہمیں ملتے ہیں وہ زیادہ تر چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے ہیں۔ اتفاق سے قابوس نامہ کا مصوّر نسخہ امریکہ میں ایک پرانی اشیا کے تاجر کے ذریعہ حال ہی ملا ہے، جسے راقم نے بھی دیکھا ہے۔

    دراصل قابوس بن دشمگیر نے دسویں صدی عیسوی میں اسے بطور پند و نصائح لکھا تھا مگر مصور نسخے کے متعلق مختلف آرا ہیں کہ آیا یہ مصوّر نسخہ صحیح ہے یا جعلی ہے۔ اگرچہ ابھی تک زیادہ قیاس یہی ہے کہ یہ جعلی ہے۔ بہرحال یہ نسخہ ۴۱۳ھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کی رنگین تصویریں قابل مطالعہ ہیں۔ میرے نزدیک یہ نسخہ ضرور مشکوک ہے۔

    بغداد میں عہد دولتِ عباسیہ میں علوم و فنون کو بہت فروغ ہوا تھا۔ یہاں الف لیلہ اور کلیلہ و دمنہ جیسے علمی اور ادبی شہ پارے بھی مصوّر کیے گئے تھے جو اس عہد کی یادگار سمجھے جاتے ہیں۔ البتہ کلیلہ و دمنہ کے مصوّر نسخے اب نہیں ملتے ہیں۔ خدیویہہ کتب خانۂ مصر میں عربی کی مشہور کتاب آغانی کا مصوّر نسخہ بھی موجود ہے، جس کے جمالیاتی حسن سے عربوں کی ثقافت اور فن کا عروج نظر آتا ہے۔ حسنِ اتفاق سے میونخ جرمنی کی نمائش ۱۹۱۴ء میں چند اوراق الف لیلیٰ کے بھی رکھے گئے تھے، جن میں اس گھڑی کا نقشہ تھا جسے ہارون رشید نے چارلس پنجم کو تحفتاً ارسال کیا تھا۔ اوراق میں اس زمانے کے بازاروں کے مناظر اور بعض علم موسیقی سے متعلق بہت اہم یادداشتیں تھیں۔

    چونکہ عام طور پر کلیلہ و دمنہ کو ہندی الاصل کتاب ہتھوپدیش کا چربہ شمار کیا جاتا ہے، جو عبداللہ بن مقفع کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ اسے مصور کرنے کی طرف بہت توجہ کی گئی تھی۔ اس کا ایک نسخہ نمائش ۱۹۱۴ء میں پیرس میں آیا تھا۔ جو ۶۳۲ھ کا لکھا ہوا تھا جس میں یہی تصاویر بھی تھیں۔ مگر ان کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ یہ زیادہ عراقی دبستانِ مصوری سے تعلق رکھتی تھیں۔ ایک اور مصور نسخہ پیرس میں ۷۳۳ھ کا لکھا ہوا معلوم ہوتا تھا، جو بغداد میں لکھا گیا تھا مگر اسی عہد میں مقاماتِ حریری کے مصوّر نسخے تیار ہوئے کیونکہ مدارسِ اسلامیہ میں یہ کتابیں باقاعدہ پڑھاتی جاتی تھیں اور اس طرح قدرے سریعُ الفہم تصور کی جاتی تھیں۔ انسان ان کتابوں میں جمالیاتی صورت سے بھی خوب حظ اٹھا سکتا تھا۔

    چنانچہ ان کتب کے کافی مصوّر نسخے یورپ کے کتب خانوں مثلاً برٹش میوزم لنڈن، کتب خانہ ملّی پیرس اور وائنا میں موجود ہیں جنہیں راقم نے بھی دیکھا ہے۔ پیرس کا نسخہ بھی امین محمود الوسطی نے مصوّر لکھ کر ۶۳۴ھ میں تیار کیا تھا مگر لنڈن کا نسخہ جو ۷۲۳ھ کا لکھا ہوا ہے اسے ابوالفضل بن ابی اسحاق نے مصوّر کیا ہے۔ یہ تینوں نسخے خالصتاً عراقی دبستانِ مصوری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر کسی قسم کا چینی یا ایرانی اثر نہیں ہے۔ اسی طرح مصوّر نسخہ مجمع التواریخ رشید الدین کا اڈنبرا یونیورسٹی کتب خانے میں ہے، جو ۷۵۵ھ کا لکھا ہوا ہے، اس میں کافی تصاویر ہیں مگر اسی تاریخ کے مصوّر نسخے جن کو کسی قدر اس نسخہ کا حصہ تصور کرنا چاہیے، ہند میں کتب خانۂ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی اور رام پور کے کتب خانے میں ہیں، جن کو راقم نے بھی دیکھا ہے۔ ان میں واضح طور پر وسط ایشیائی ماحول ہے۔ اسی لیے ہم ان کی مصوری کو وسطِ ایشیائی دبستان کی مصوری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور ان تصاویر پر کسی قدر چینی مصوری کے اثرات بھی ہیں۔

    وسطِ ایشیاء میں فردوسی کے شاہنامہ نے اسلامی مصوری میں ایک نیا رزمیہ رنگ پیدا کر دیا تھا، اس کو مصوروں نے ہر دور میں مصور کیا ہے۔ یہ کتاب جو سلطان محمود غزنوی کے عہد کا ایک زرین علمی کارنامہ ہے، مصوروں کے لیے جولانئ طبع کا مرکز رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصوروں کو اس میں وہ واقعات ملے جس کے لیے مصور سہارا تلاش کرتا ہے کہ مصور کرنے میں سہولت ہو۔ اس میں بنے بنائے موضوعات ملتے ہیں۔ دوسرے یہ ایرانی ثقافت کا ایک بہترین نمونہ ہے یعنی ایرانی قوم کی یہ مصور تاریخ ہے۔

    یہ ماننا پڑے گا کہ مصوری کے معیار کے ساتھ ساتھ ہمارا جمالیاتی نقطۂ نگاہ بھی اسی طرح ترقی کرتا رہا۔ چنانچہ آٹھویں صدی ہجری کے اخیر میں، فنون میں کافی ترقی ہوچکی تھی اور خاص کر ایرانی مصوری میں شاہنامۂ فردوسی کے علاوہ دوسرے مستند شعرا کے کلام کو مصور کرنے کی طرف بھی مصوروں نے توجہ کی، جس میں نظامی کی کلیات، خواجہ کرمانی وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، جن کو ایرانی مصوروں نے مصور کر کے جمالیاتی اعتبار سے دنیا میں مسلمانوں کا ایک خاص امتیاز قائم کر دیا۔

    (ممتاز پاکستانی مصوّر عبدالرحمٰن چغتائی کے مضمون سے اقتباسات)

  • اکبرِ‌ اعظم کی آرٹ اکیڈمی

    اکبرِ‌ اعظم کی آرٹ اکیڈمی

    جلال الدّین محمد اکبر ہندوستان کے وہ مغل بادشاہ ہیں جو تاریخ میں ’اکبرِ اعظم‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ جلال الدّین اکبر کا عہد حکومت علم و فنون کی سرپرستی کے لیے بھی مشہور ہے۔ اکبر کے دربار میں کئی اہلِ‌ علم اور فن کار موجود رہے اور بادشاہ نے ان کی بڑی قدر اور عزّت افزائی کی۔

    اکبر کے عہدِ حکومت پر بہت سے کتابیں لکھی گئیں، جن میں ابوالفضل کی اکبر نامہ، محمد حسین آزاد کی دربارِ اکبری اور سرسید احمد خان کی آئینِ اکبری سرِفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ غیرملکی مؤرخین اور سیّاحوں نے بھی اکبر کی شخصیت اور اس کے دربار کا احوال رقم کیا ہے۔ عبدالمجید سالک نے سیموئل نسنسن اور ولیم اے ڈی وٹ کی کتاب کے ترجمے میں لکھا ہے کہ ’اگرچہ اکبر اَن پڑھ تھے، لیکن ان کو علوم و فنون کی امداد اور سرپرستی کا خاص شوق تھا۔ بڑے بڑے شعرا، مصور، موسیقار، معمار اور دوسرے با کمال اس کی بخشش اور قدر دانی سے مالا مال ہوتے رہتے تھے اور اس کا دربار دور و نزدیک کے ماہرین فن کا مرکز بن گیا تھا۔ یہاں‌ ہم پاکستان کے ممتاز مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی کے ایک مضمون بعنوان "مصّوری” سے یہ پارہ نقل کررہے ہیں‌ جو بادشاہ اکبر کی اس فن میں دل چسپی اور سرپرستی کا عکاس ہے۔ چغتائی صاحب لکھتے ہیں:

    "اکبر کی عمر ابھی قریب چودہ برس کی تھی کہ تیموری تاج اس کے سرپر رکھا گیا۔ اس کے اتالیق منعم خاں اور بیرم خاں تھے۔ اس کی عملداری کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ کی۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو اکبر کے نازک شانے تنہا حکومت کے بارِ گراں کو نہ اٹھا سکتے۔ انہوں نے اپنے آقا کی ذمہ داریوں کو اپنے سر لے لیا۔ اکبر نے ابتدائی مہموں سے فرصت حاصل کر کے فوراً علوم و فنون کی طرف توجہ کی۔ بچپن ہی سے اسے مصوری اور قصے سننے کی طرف رغبت تھی۔ اور میر سید علی تبریزی اور خواجہ عبدالصمد شیریں قلم برابر اپنا کام کر رہے تھے۔ اگرچہ وہ ابتدا میں کچھ ملول تھے مگر نوجوان بادشاہ کو ان کے فن سے دلچسپی نے ان کی ہمتیں بڑھا دیں۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے داستانِ امیر حمزہ کو مصور کیا، جس کی پوری تفصیل اس عہد کی تاریخ میں ملتی ہے۔ بلکہ اکبر کی اکیڈمی مصوری میں ان دو ایرانی مصوروں کے علاوہ کئی ہندو مصور بھی بطور تلمیذ شریک ہوئے۔”

    "اکبر کو جمالیاتی کیفیات کا صحیح اندازہ کرنے اور ان سے حظ اٹھانے میں قدرت نے کامل طور پر ملکہ عطا کیا تھا اور دینی معاملات اور ملکی مصلحتوں کی بنا پر نہایت درجہ وسیع۔ اس نے اپنے اس رویہ سے ہر فرقہ کو اپنی کم عمری سے مسخر کر لیا تھا اور خاص کر راجپوتوں کو قرب حاصل ہوا۔ آرٹ اکیڈمی میں سب قسم کے لوگ مل کر کام کرتے تھے۔ ابوالفضل نے ایک ہندو مصور کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک کہار کا لڑکا تھا۔ اکبرؔ نے اپنی دور رس جمالیاتی نگاہ سے اس کو دیکھا، جب کہ وہ ابھی کمسن بچہ ہی تھا اور ایک دیوار نقش و نگار کر رہا تھا، جیسا عام طور پر بچے تیار کرتے ہیں لیکن اکبر کی مردم شناسی تاڑ گئی کہ اس لڑکے میں اعلیٰ مصور بننے کے جوہر موجود ہیں۔”

    "چنانچہ اس نے اسے خواجہ عبدالصمد کے سپرد کیا تو اس کی تعلیم سے وہ بے مثال مصور نکلا مگر وہ اپنے فطری جذبۂ مصوری میں اس قدر پیش پیش آیا کہ وہ نوجوانی ہی میں دماغی توازن کھو کر ختم ہوگیا۔ اس کے کارنامے بجائے خود اس کے اعلیٰ فن کار ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ اکبر کو مصوری کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے فتح پور سیکری میں دیواروں پر ان مصوروں سے تصاویر بنوائیں، جن کے نشان آج تک باقی ہیں اور اکبر، مصوّری کے جمالیاتی پہلو سے اس قدر متاثر ہوا کہ دلائل کے ذریعہ ہمیشہ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا کہ مصوری اسلام کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے بلکہ معرفتِ الٰہی حاصل کرنے کے جہاں اور دوسرے طریقے ہیں وہاں ایک یہ بھی ہے۔

    چنانچہ ایک مرتبہ اس نے جب کہ سعادت مند لوگ انجمن خاص میں موجود تھے، فرمایا کہ بہت سے لوگ مصوری کے پیشے کو برا بتلاتے ہیں، مجھے یہ گوارا نہیں، میرے خیال میں مصور خدا شناسی میں دوسروں سے بڑھ کر ہے۔ جب وہ کبھی جانور کی تصویر بناتا ہے اور حصّے کو الگ الگ کھینچتا ہے مگر روح اور جسم میں رابطہ پیدا کرنے سے عاجز ہے تو وہ خالقِ حقیقی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے عجز سے معرفتِ الٰہی حاصل کرتا ہے۔ یعنی اللہ کو ہی واحد خالق سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔”

    "اکبر نے اپنی سرپرستی میں علاوہ داستانِ امیر حمزہ کے سنسکرت کتابوں کے فارسی میں ترجمے کروا کر ان کو مصوّر بھی کرایا جس کے اکثر مصوّر نسخے آج بھی ملتے ہیں۔ اور دیگر کتب بابر نامہ، انوار سہیلی وغیرہ جیسی کتابوں کو مصوّر کرایا۔ اس عہد کے امراء میں عبدالرحیم خان خاناں خاص طور پرقابلِ ذکر ہے جس نے اپنے ہاں الگ ایک شعبہ قلمی اور مصور کتابوں کے تیار کرنے کا قائم کیا ہوا تھا اور اکثر فن کار اس کے ہاں کام کرتے تھے، جن میں میاں قدیم اور عبدالرحیم عنبرین قلم قابلِ ذکر ہیں۔”

  • جمیل نقش: ‘وہ آرٹ کے لیے جیے!’

    جمیل نقش: ‘وہ آرٹ کے لیے جیے!’

    آرٹ کے ناقد قدوس مرزا کہتے ہیں کہ ‘اگر ہم جمیل نقش کی زندگی اور آرٹ کو دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے زندگی اور آرٹ میں کوئی فرق نہیں تھا، وہ آرٹ کے لیے جیے۔’ آج جمیل نقش کی برسی ہے۔

    جمیل نقش کو فنِ مصوّری کے ایک لیجنڈ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جن کے فن پاروں سے آرٹ میں مصوّر کی مقصدیت، نئی فکر اور اس کے سیاسی اور سماجی شعور کا بھی اظہار ہوتا ہے۔

    پاکستان کے اس نام ور آرٹسٹ کے نزدیک فنِ مصوّری ایک بامقصد اور نہایت سنجیدہ کام رہا جس کے ذریعے وہ اپنی فکر کا اظہار اور سوچ کے مختلف زاویوں کو ہر خاص و عام تک پہنچا سکتے تھے۔ جمیل نقش نے پینٹنگز کے ساتھ خطّاطی کے شاہکار بھی تخلیق کیے اور متعدد کتابوں کے سرورق بنائے۔ ان کی مصوّری میں استعاروں کی خاص بات بامعنیٰ اور نہایت پُراثر ہونا ہے۔ فن پاروں کے منفرد انداز کے علاوہ جمیل نقش نے اسلامی خطاطی میں بھی جداگانہ اسلوب وضع کیا۔ ان کے شان دار کام کی نمائش پاکستان اور بھارت کے علاوہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہوئی۔ جمیل نقش ایک مصوّر ہی نہیں شعر و ادب کا ذوق بھی رکھتے تھے اور وسیع مطالعہ کے ساتھ بلند فکر انسان تھے۔ وہ مشہور ادبی جریدے سیپ کے لیے بھی پینٹنگز بناتے رہے۔ جمیل نقش نے 1970ء سے 1973ء تک پاکستان پینٹرز گلڈ کی صدارت کا منصب بھی سنبھالا تھا۔

    خداداد صلاحیتوں کے مالک جمیل نقش 1939 میں کیرانہ انڈیا میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد لاہور میں رہائش اختیار کر لی۔ جمیل نقش نے میو اسکول آف آرٹ لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد میں وہ اپنی طرز کے منفرد مصوّر کہلائے اور اپنے تخلیقی ذہن سے اس فن میں بڑا کمال حاصل کیا۔ ان کے موضوعات ناقدین کی نظر میں اہمیت رکھتے ہیں اور قابلِ‌ ذکر ہیں۔

    جمیل نقش 2019ء میں آج ہی کے دن لندن میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 80 سال تھی۔ حکومت پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا اور جمیل نقش کے نام پر میوزیم لاہور میں ان کے فن پارے محفوظ ہیں۔ جمیل نقش نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور فنِ مصوری کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

    جمیل نے جن موضوعات کا چناؤ کیا ان کی اہمیت کئی لحاظ سے ہے۔ ان کے فن پاروں میں‌ گھوڑے، عورت اور کبوتر کو نمایاں دیکھا جاسکتا ہے۔ برہنہ عورت اور محوِ پرواز پرندے ان کا خاص موضوع رہے۔ ان اجسام کو انھوں نے بار بار پینٹ کیا اور انھیں‌ زندگی بخشی۔

  • بابائے فطرت استاد اللہ بخش کی برسی

    بابائے فطرت استاد اللہ بخش کی برسی

    استاد اللہ بخش کو بابائے فطرت اور ثقافتی مصوّر بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے اس نام وَر مصوّر کی زندگی کے اوراق 1978ء میں آج ہی کے دن بے رنگ ہوگئے تھے۔

    استاد اللہ بخش کو ماڈرن لینڈ اسکیپ اور تشبیہی نقّاشی (Figurative painting) کا ماہر جانا جاتا ہے۔ وہ انتہائی باصلاحیت تھے اور فنِ مصوّری میں مہارت و کمال ان کی توجہ، دل چسپی اور ریاضت و مشق کا نتیجہ تھا۔ البتہ مصوّری میں بنیادی تعلیم منی ایچر پینٹنگ کے ماہر استاد عبد اللہ سے حاصل کی تھی۔

    ابتدائی عمر میں انھوں نے تشہیری بورڈ پینٹ کرنے کا کام کیا تھا اور بعد میں بمبئی، کلکتہ میں مختلف اداروں سے وابستہ رہے اور پینٹنگ اور سینری بنانے کا کام کرتے رہے۔ اس طرح انھوں نے رنگوں اور برش کو سمجھا اور تجربہ حاصل کیا۔ لاہور لوٹنے پر ایک اخبار میں کمرشل آرٹسٹ کے طور پر کام کرنا شروع کردیا اور پھر ایک مصوّر کی حیثیت سے پنجاب کی دیہاتی زندگی اور ثقافت کو کینوس پر اتارنے کا وہ سلسلہ شروع کیا جس نے انھیں دنیا بھر میں شہرت دی۔

    انھوں نے پنجاب کی رومانی داستانوں کے لافانی کرداروں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں کو اپنے مصوّرانہ تخیل سے چار چاند لگا دیے۔

    استاد اللہ بخش وزیر آباد میں 1895ء میں پیدا ہوئے تھے۔ استاد اللہ بخش کے والد کرم دین محکمہ ریلوے کی ورک شاپ میں رنگ ساز تھے اور ریل گاڑیوں پر رنگ کیا کرتے تھے، اور اس طرح وہ شروع ہی سے رنگ اور برش سے واقف تھے۔ وہ قدرتی مناظر اور دیہات کے سادہ اور روایتی ماحول میں‌ پلے بڑھے جس کی کشش نے انھیں فن کار بنا دیا۔

    وہ آبی، روغنی ، ٹیمپرا اور پوسٹر رنگوں کے علاوہ چاک وغیرہ میں بھی بڑی مہارت سے کام کرتے تھے۔ پنجاب کے دیہات کی روزمرّہ زندگی کی تصویر کشی کے علاوہ انھوں نے زرخیز میدانی علاقوں اور وہاں کی لوک داستانوں کو اپنے فن میں پیش کیا۔ ان کی حقیقت سے قریب تر پینٹنگز رنگوں، زندگی اور جیتے جاگتے لوگوں سے بھرپور تھیں، جس نے دیکھنے والوں کو بہت متاثر کیا۔

    1919ء میں انھیں شملہ فائن آرٹس سوسائٹی کی جانب سے انعام سے نوازا گیا تھا اور اخبارات نے انھیں بمبئی کا ماسٹر پینٹر کہا، مگر اس حوصلہ افزائی کے باوجود وہ سب کچھ چھوڑ کر لاہور واپس آگئے۔ وہ سیلانی طبیعت کے سبب کسی ایک جگہ جم کر کام نہیں کر پائے۔ 1924ء میں مہاراجہ جموں کشمیر نے انھیں کورٹ پینٹر کی ملازمت کی پیشکش کی، جہاں وہ تقریباً 1938ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے بہت سی تصاویر بنائیں اور 1928ء میں ممبئی میں ہونے والی تصویری نمائش میں ان کے ایک شاہ کار کو اوّل انعام دیا گیا۔ لوگ ان کے فن پاروں سے بہت متاثرہوئے اور ان کا کام مشہور مصوّروں میں زیرِ بحث آیا۔

    استاد اللہ بخش کے لاہور میوزیم میں کئی فن پارے رکھے گئے ہیں جو شائقین کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔

    استاد اللہ بخش کو حکومت پاکستان کی طرف سے ’تمغہ حسن کارکردگی‘ سے نوازا گیا تھا۔

  • مشہور پاکستانی مصّور استاد شجاع اللہ کی برسی

    مشہور پاکستانی مصّور استاد شجاع اللہ کی برسی

    20 اپریل 1980ء کو پاکستان کے مشہور مصور استاد شجاع اللہ وفات پاگئے تھے۔ وہ جامعہ پنجاب کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل کالج آف آرٹس میں استاد رہے اور منی ایچر پینٹنگز میں اپنے کمالِ فن کے سبب پہچانے گئے۔

    استاد شجاع اللہ کی پیدائش الور کی ہے جہاں ان کے بزرگ دہلی سے آکر بسے تھے۔ انھوں نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے دوران انھیں‌ مصوّری کا شوق ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے والد بھی اچھے مصوّر تھے اور انھیں دیکھ کر استاد شجاع کو بھی اس فن میں دل چسپی پیدا ہوئی۔

    شجاع اللہ کو ان کے والد نے منی ایچر پینٹنگ بنانے کے ساتھ اس پینٹنگ کے لیے خصوصی کاغذ، جسے وصلی کہا جاتا ہے، تیّار کرنے کی بھی تربیت دی۔ قیامِ پاکستان کے بعد استاد شجاع اللہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور راولپنڈی میں‌ سکونت اختیار کی، بعد میں لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں‌ وفات پائی۔

    استاد شجاع اللہ منی ایچر پینٹنگ کے مختلف اسالیب جن میں دکنی اور مغل شامل ہیں، ان کے ماہر تھے۔ انھیں پاکستان میں حاجی محمد شریف کے بعد منی ایچر پینٹنگ کا سب سے بڑا مصوّر تسلیم کیا جاتا ہے۔

  • ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘

    ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘

    کمال الدین بہزاد ایران کا نام وَر مصوّر تھا جس کے فن کا برصغیر ہی نہیں‌ دنیا بھر میں‌ شہرہ ہوا۔ اس کا سنِ پیدائش 1450 بتایا جاتا ہے۔ بہزاد نے متعدد درباروں سے وابستگی کے دوران شاہانِ وقت اور امرا سے اپنے فنِ مصوّری کی داد وصول کی اور ان کی سوانح و تواریخ کو اپنے فن سے آراستہ و زیبا کیا۔

    اردو کے نام وَر ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے اس باکمال مصوّر کو ایک کردار کے طور پر پیش کرتے ہوئے فنِ مصوّری اور تخلیق سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    استاد بہزاد جب آرٹ گیلری میں داخل ہوا تو اس کا پہلا تاثر روحانی آسودگی کا تھا۔ چار طرف رنگوں اور خطوں کی چھاؤنی چھا رہی تھی اور رنگ اور خط ہی تو ایک مصور کا سرمایہ حیات ہوتے ہیں۔ پھر اس نے گیلری کے وسط میں رکھے ہوئے ایک بنچ پر ابتدائی انسان کا ایک مجسمہ رکھا دیکھا۔ اللہ اللہ! گزشتہ صدیوں میں آرٹ نے کتنی بے حدود ترقی کی ہے! اِس مجسمے میں اتنی زندگی ہے جیسے یہ ابھی اُٹھ کر چلنے لگے گا اور بہزاد دم بخود رہ گیا جب ابتدائی انسان کا یہ مجسمہ سچ مچ اُٹھ کر چلنے لگا۔

    جلد ہی بہزاد نے اپنی حیرت پر قابو پایا اور سوچا کہ یہ وہ صدی ہے جس میں آوازیں پورے کرۂ ارض کا سفر کر کے مشرق و مغرب کے گھر گھر میں سنی جا سکتی ہیں اور جس میں چلتی پھرتی تصویریں ہوا کا سفر کرتی ہوئی آتی ہیں اور گھروں میں سجے ہوئے شیشے کے پردوں پر منعکس ہو جاتی ہیں۔

    اگر ایسی صدی میں آرٹسٹ کا تراشا ہوا ایک مجسمہ، عام انسانوں کی طرح چلنے پھرنے لگے تو اس پر حیرت کا اظہار اپنی جہالت کا اعلان ہو گا۔ پھر استاد بہزاد نے دیکھا کہ ابتدائی انسان کا وہ مجسمہ پلٹا اور اس کے پاس آ کر اس کے سامنے رک گیا اور بولا۔

    ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘ تو یہ مجسمہ نہیں ہے، آرٹسٹ ہے! حسن کے اس تخلیق کار نے اپنی شخصیت کو حسن سے کیوں محروم کر رکھا ہے؟ اس کے بال اتنے بے ہنگم کیوں ہیں؟ کیا اسے معلوم نہیں کہ انسان نے جب کھیتی باڑی کرنا سیکھا تھا تو وہ حجامت بنانا بھی سیکھ گیا تھا! آخر آج کا آرٹسٹ، تصویر بنانے سے زیادہ اپنے آپ کو بنانے میں اتنا وقت کیوں ضائع کرتا ہے؟ اس مصور کے بالوں اور لباس کی یہ بے ترتیبی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ بے ترتیبی اس نے بڑی ترتیب سے پیدا کی ہے تاکہ وہ مصوّر نظر آئے۔

    مصوّر جب مصوّر دکھائی دینے کی، اور شاعر، شاعر دکھائی دینے کی کوشش کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی مصوّری اور شاعری میں کوئی ایسی کمی ہے جس کا خود مصور اور شاعر کو بھی احساس ہے۔ بہزاد نے سوچا کہ مصور اور شاعر اپنی اس کمی کو دور کرنے کی بجائے اسے اپنی شخصیت کی رومانیت میں کیوں چھپاتا ہے؟ اس طرح تو وہ دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش میں اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے اور اپنے آپ کو دھوکا دینے والا انسان تو کبھی بڑا آرٹسٹ نہیں بن سکتا۔

    مصوّر نے اپنے سوال کو دہرایا تو استاد بہزاد بولا ’’میں پرانے خیال کا آدمی ہوں۔ صدیوں کی فصلیں کاٹ کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں کہ آج کے آرٹ کا اسلوب کیا ہے۔ میں آپ کا ماڈل بننے کو تیار ہوں مگر پہلے مجھے اس آرٹ گیلری کی سیر تو کرائیے تاکہ میرے دل میں یہ اعتماد پیدا ہو سکے کہ آپ کا ماڈل بن کر آپ کا اور اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا۔‘‘

    مصور نے بہزاد کو بازو سے پکڑا اور ایک تصویر کے پاس لے گیا۔ تصویر پر مصور نے اپنے دستخط بھی انگریزی میں کیے تھے اور نیچے ایک گوشے میں تصویر کا نام بھی انگریزی میں درج تھا۔ بہزاد حواس باختہ سا نظر آیا تو مصور سمجھ گیا کہ بدنصیب کو انگریزی نہیں آتی، چنانچہ اس نے تصویر کے نام کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا ’’ذات کی شکست۔‘‘

    ’’مگر یہ بنائی کس نے ہے؟‘‘ بہزاد نے پوچھا۔ مصوّر تن کر بولا ’’میں نے۔ مگر نہیں۔ میں نے اسے بنایا نہیں ہے بلکہ اس نے خود کو مجھ سے بنوایا ہے۔ میرے اندر کوئی ایسی قوت ہے جسے آپ میری چھٹی حس کہہ لیجیے۔ وہی مجھ سے یہ تصویریں بنواتی ہے۔ اس میں میرا شعور، میرا ارادہ قطعی شامل نہیں ہوتا۔ ایک بار آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو میں نے محسوس کیا کہ اگر میں یہ تصویر نہیں بناؤں گا تو مر جاؤں گا، چنانچہ تصویر آپ کے سامنے ہے۔‘‘

    بہزاد نے تصویر کو بغور دیکھا۔ پھر مصوّر کی طرف دیکھ کر بولا ’’معذرت چاہتا ہوں مگر فن کی دیانت مجھے یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہے کہ کاش اس رات آپ مر ہی گئے ہوتے تاکہ فن اس آلودگی سے محفوظ رہتا جو آپ نے اس تصویر کی صورت میں فن کے منہ پر دے ماری ہے۔ اوّل تو آپ نے اس تصویر کے اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں تک ریت کے اڑتے ہوئے جو ذرات دکھائے ہیں، وہ ذرات کی بجائے مکئی اور جوار کے دانے معلوم ہوتے ہیں۔ پھر اس میں سے ’’ذات‘‘ غائب ہے۔ صرف شکست ہی شکست ہے، اور شکست کو تو مثبت ہونا چاہیے کیونکہ جب کچھ ٹوٹتا ہے تو کچھ بنتا بھی ہے۔

    اور آپ نے ذات کو توڑنے تاڑنے کے بعد اس پر اپنے دستخط جڑ دیے ہیں، یہ جو تصویر کے کونے میں ایک لمبا سا کیڑا پڑا بل کھا رہا ہے تو یہ آپ کے دستخط ہی ہیں نا؟ اور یہ بھی انگریزی ہی میں ہیں نا؟ پھر جب آپ اپنی زبان میں دستخط تک نہیں کر سکتے تو اپنی بے چاری ذات کے ساتھ کیا انصاف کریں گے۔ معاف کیجیے گا، میں آپ کا ماڈل بننے کو تیار نہیں ہوں، قدرت نے مجھے ایک خاص سلیقے سے بنایا ہے۔ میں آپ کے سپرد ہو کر قدرت کے معیاروں کی ہتک کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ بہزاد نے یہ کہا اور مصوّر کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔

  • مصوّرِ مشرق عبدالرّحمٰن چغتائی کا یومِ وفات

    مصوّرِ مشرق عبدالرّحمٰن چغتائی کا یومِ وفات

    17 جنوری 1975ء کو پاکستان کے ممتاز مصور عبدالرّحمٰن چغتائی وفات پا گئے۔ انھیں مصورِ مشرق بھی کہا جاتا ہے۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی 21 ستمبر 1897ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق شاہجہاں کے دور کے مشہور معمار خاندان سے تھا۔ 1914ء میں میو اسکول آف آرٹس لاہور سے امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے استاد میراں بخش سے فنِ مصوری میں استفادہ کیا۔ پھر میو اسکول ہی میں تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔

    1919ء میں لاہور میں ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش منعقد ہوئی جس نے عبدالرحمن چغتائی کو اپنا باقاعدہ فنی سفر شروع کرنے پر آمادہ کیا اور اس کے بعد انھوں نے اپنی تصاویر کلکتہ کے رسالے ماڈرن ریویو میں اشاعت کے لیے بھیجیں۔ ان کی یہ تصاویر شایع ہوئیں اور چغتائی صاحب کا فن شائقین اور ناقدین کے سامنے آیا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔

    عبدالرّحمن چغتائی نے اسی زمانے میں فنِ مصوّری میں اپنے اس جداگانہ اسلوب کو اپنایا جو بعد میں‌ چغتائی آرٹ کے نام سے مشہور ہوا اور ان کی پہچان و شناخت بنا۔

    1928ء میں مرقعِ چغتائی شایع ہوا جس میں عبدالرّحمٰن چغتائی نے غالب کے کلام کی مصوری میں تشریح کی تھی۔ گویا انھوں نے شاعری کو رنگوں سے آراستہ کردیا۔ یہ اردو میں اپنے طرز کی پہلی کتاب تھی جس کی خوب پذیرائی ہوئی۔

    1935ء میں غالب کے کلام پر مبنی ان کی دوسری کتاب نقشِ چغتائی شایع ہوئی۔ یہ کتاب بھی بے حد مقبول ہوئی۔ اس کے بعد ہندوستان اور ہندوستان سے باہر عبدالرّحمٰن چغتائی کے فن پاروں کی متعدد نمائشیں منعقد ہوئیں اور وہ صاحبِ اسلوب آرٹسٹ کے طور پر پہچان بناتے چلے گئے۔ فن کے قدر دانوں اور آرٹ کے ناقدین نے ان کی پزیرائی کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد عبدالرّحمٰن چغتائی نے نہ صرف پاکستان کے ابتدائی چار ڈاک ٹکٹوں میں سے ایک ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیا بلکہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے مونوگرام بھی انہی کے تیار کردہ تھے جو آج بھی ان کے فن کی زندہ یادگار ہیں۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی موقلم ہی نہیں‌ قلم بھی تھامے رہے اور افسانہ نگاری کی۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے لگان اور کاجل شایع ہوئے۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی نے مغل دور اور پنجاب کو اپنے فن پاروں میں‌ پیش کیا اور ان کی بنائی ہوئی تصویریں دنیا کی مختلف آرٹ گیلریوں میں سجائی گئیں۔

  • فنِ مصوّری کی ناز برداری کرنے والے شاہی دربار

    فنِ مصوّری کی ناز برداری کرنے والے شاہی دربار

    مغل فنِ مصوّری نے کئی تاریخی مراحل طے کیے اور کئی خاندانوں کے ہاتھوں ترقّی کے ان مدارج کو پہنچی۔ منگولوں سے اگر فنِ مصوّری کا آغاز ہوا تو تیموروں نے اسے اپنے خون سے سینچا اور ایران کے صفوی بادشاہوں نے اس کی ناز برداری کی۔

    14 ویں صدی سے 16 ویں صدی تک ایران کا فنِ مصوری تزئین کاری تک محدود تھا، کیوں کہ درباروں میں کتابوں کی تزئین کا رواج عام تھا۔ اس دور میں ہرات اور بخارا اس کا مرکز رہے۔ عباسی خاندان کے حکم رانوں نے اس فن کو آگے بڑھایا۔ منگولوں کے متواتر حملوں سے علوم و فنون کی ترویج میں بڑی رکاوٹ آئی، سیاسی انتشار نے لوگوں کے سکون کو درہم برہم کر دیا، لیکن جلد ہی ان کی تلواریں نیام میں چلی گئیں۔

    درباروں میں فنون پر دسترس رکھنے والے جمع ہوئے اور پھر ایک بار سمرقند اور بخارا ماہرینِ فن سے بھر گیا۔

    بابر فنونِ لطیفہ کا بڑا دلدادہ تھا۔ شاعری، مصوّری اور فلسفے میں اسے بڑی دل چسپی تھی۔ تزک بابری میں اس نے ایران کے مشہور مصوّر بہزاد کی بڑی تعریف کی ہے۔

    بابر کا یہ ذوق موروثی تھا۔ تیمور کی طرح وہ بھی جلال و جمال کا پرستار تھا۔ افسوس کہ زندگی کی رزم آرائیوں نے اسے مہلت نہیں دی اور جب ماہرینِ فن کی سرپرستی کا وقت آیا تو اس نے صدائے اجل پر لبّیک کہا۔

    ہمایوں بھی اپنے والد بابر کی طرح جمالیات کا دلدادہ تھا۔ ایک دن ایک خوب صورت سی فاختہ کہیں سے آ نکلی۔ شہنشاہ نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور مصوّروں کو بلوا کر اس کی تصویر بنائی اور پھر اسے آزاد کر دیا۔

    ایران کے دورِ اقامت میں ہمایوں کی کئی نام وَر مصوّروں سے ملاقات ہوئی جو بعد میں ان کی دعوت پر ہندوستان آئے اور یہیں سے مصوّری کے ایک نئے اسکول کی ابتدا ہوئی ہے جو بعد میں مغل فنِ مصوری کے نام سے مشہور ہوئی۔

    ایرانی مصوّروں نے مصوّری کے ایسے معجزے دکھائے کہ اگر حادثاتِ زمانہ اور انقلاباتِ وقت سے محفوظ رہ جاتے تو لوگوں کو محوِ حیرت بنائے رہتے۔ میر سیّد علی اور عبدُالصّمد نے چاول کے دانے پر چوگان کا پورا میدان دکھایا جس میں تماشائیوں سمیت کھلاڑیوں اور گھوڑوں کی شبیہیں تھیں۔ عبدُالصّمد نے ہندوستانی مصوّروں کی مدد سے داستانِ امیر حمزہ کی تزئین کا کام سَر انجام دیا اور بادشاہ سے نادرُالعصر کا خطاب حاصل کیا۔

    بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں فنِ مصوری کی بھی تجدید ہوئی۔ ایرانی اور ہندوستانی مصوروں کی اتنی بڑی تعداد اس سے قبل کبھی کسی دربار میں اکٹھا نہیں ہوئی تھی۔ دو مختلف مزاج کے مصوّر جب مل بیٹھے تو ان کے قلم میں یکسانیت آئی اور اکبر کا دربار فنِ مصوری کا گہوارہ بن گیا۔

    اکبر کے عہد کی معروف کتاب آئینِ اکبری میں اس کا مفصّل ذکر ہے۔ اکبر نے درباری مصوروں کو اپنے دادا کی کتاب بابر نامہ کی تزئین کا کام سپرد کیا اور تزئین کاری کو فروغ دیا۔ رزم نامہ، تیمور نامہ، خمسہ نظامی اور بہارستان کی تزئین کاری اکبری عہد کا انمول خزانہ ہیں۔

    (تاریخ نویس اور علمی و ادبی محقّق سلمیٰ حسین کے مضمون سے انتخاب)

  • نامور مصور جمیل نقش لندن میں انتقال کر گئے

    نامور مصور جمیل نقش لندن میں انتقال کر گئے

    لندن: نامور مصور جمیل نقش لندن میں انتقال کر گئے، جمیل نقش کی نماز جنازہ اور تدفین لندن میں کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے معاصر آرٹسٹ جمیل نقش آج 16 مئی کو برطانیہ کے سینٹ میری اسپتال میں 80 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    جمیل نقش کو نمونیا کا مرض لاحق ہو گیا تھا، اسپتال میں ان کا علاج جاری تھا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے، ان کی نماز جنازہ اور کفن دفن کے معاملات لندن ہی میں ادا کیے جائیں گے۔

    جمیل نقش 1939 میں بھارت کے شہر کیرالہ میں پیدا ہوئے تھے، انھیں فن مصوری میں خدمات پر مختلف ایوارڈز دیےجا چکے ہیں۔

    جمیل نقش کو 1989 میں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا، 2009 میں حکومت پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا۔

    معروف مصور کے انتقال پر فن کار برادری نے افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا فن کیوبزم کے عمدہ نمونوں کا عکاس رہا۔ انھوں نے عورت اور کبوتر کو اپنی مصوری کا اہم موضوع بنایا اور دونوں کو ایک ساتھ اس طرح پیش کیا کہ اس امتزاج سے عورت ذات کے مختلف پہلو نمایاں ہوئے۔

    آرٹ کی معروف نقاد مارجری حسین نے جمیل نقش کے بارے میں لکھا کہ انھوں نے فن کے لیے زندگی گزاری، اپنی مسرت کے لیے پینٹنگز بنائیں، وہ ٹیکسچر، روشنی اور اسپیس کے ماسٹر تھے، یہی ان کی منفرد پینٹنگز کا موضوعاتی پس منظر رہا۔

    جمیل نقش کے بے مثال کام کی نمایش پاکستان، بھارت، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہوئی، 1960 سے 1968 کے درمیان وہ مشہور ادبی جریدے سیپ کے شریک مدیر بھی رہے۔

    جمیل نقش نے 1970 سے 73 تک پاکستان پینٹرز گلڈ کی صدارت کا منصب بھی سنبھالا۔

    نامور مصور جمیل نقش کی پینٹنگ موہٹہ پیلس میوزیم میں بھی رکھی گئی جو ایک زندہ آرٹسٹ کے لیے انوکھا اعزاز تھا۔