Tag: فن و ثقافت

  • جب طوائفوں کی شان و شوکت ختم ہوئی

    جب طوائفوں کی شان و شوکت ختم ہوئی

    برصغیر کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے میں‌ طوائفوں‌ کے کردار کو بھی ایک خاص اہمیت دی جاتی ہے اور مشاہیر کی کتب میں اس پر کئی تحریریں‌ پڑھنے کو ملتی ہیں۔ طوائفوں‌ کی شان و شوکت انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے تک برقرار رہی مگر بعد میں‌ سماجی تبدیلیوں‌ اور دوسرے عوامل کی وجہ سے وہ نہ صرف بے وقعت بلکہ بدنام ہوگئیں۔

    ہندوستان میں‌ طوائفوں‌ کو ان کے فن، زبان و اردو ادب میں‌ ان کی دل چسپی اور خاص طور پر ان کے ذوقِ شاعری کے سبب بڑا امتیاز حاصل تھا۔ وہ نوابوں اور شرفا کی تفریح طبع کا سامان کرنے کے ساتھ ایک طرح‌ سے فن و ادب کو فروغ دینے کے لیے مشہور تھیں۔ اس حوالے سے لکھنؤ اپنے دور میں تہذیب و ثقافت اور فن کا بڑا مرکز رہا ہے جس سے متعلق ممتاز مؤرخ اور مصنّف ڈاکٹر مبارک علی کے مضمون سے یہ سطریں‌ پیشِ‌ خدمت ہیں۔

    لکھنؤ کے نوابی عہد میں لکھنؤ کی طوائف تہذیب و تمدن کی علامت بن گئی تھی۔ لکھنؤ کے حکمراں اور امرا ان کی سرپرستی کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ بے انتہا دولت مند ہو گئی تھیں۔

    قیمتی جائیداد کے علاوہ ان کے پاس سونے چاندی کے زیورات، ہیرے موتی اور پُرتکلف ملبوسات کی کمی نہ تھی۔ محمد باقر شمس نے اپنی کتاب ’تاریخ لکھنؤ‘ میں طوائفوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ’لکھنؤ کی طوائفیں تہذیب، سخن سنجی، حسن و جمال اور کمالِ فن میں مشہور تھیں۔ ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ہر مشہور یا خاندانی طوائف صاحبِ جائیداد اور دولت مند تھی اس وجہ سے معمولی آدمی بھی ان کے یہاں جاتے تھے۔ ’بعض شعرا سے بھی ان کے روابط تھے، کیونکہ وہ خود شعر کہتی تھیں اور شعرا کی قدردان تھیں ۔ ۔ ۔ رئیس زادے پہلے سے اطلاع کر دیتے تھے کہ ہم فلاں دن، فلاں وقت آئیں گے۔ اس دن اگر کسی اور سے وعدہ نہ ہوا تو وہ کہتیں، ’زہے نصیب کہ سرکار کنیز کو سرفراز فرمائیں،‘ اور وہ جب تشریف لاتے تو سرو قد تعظیم کے لیے کھڑی ہو جاتیں اور کمر تک جھک کے سات سات تسلیمیں بجا لاتیں، اپنی جگہ سے ہٹ کے انہیں صدر مسند پر بٹھاتیں اور خود دوسری طرف فرش کے کونے پر بیٹھتیں۔

    ’پاندان اٹھا کے ان کے آگے رکھ دیا جاتا، وہ پان لگا کے خاصدان میں دونوں ہاتھوں پر رکھ کے پیش کرتیں اور اگر گانے کی فرمائش کی تو سازندے آتے اور جھک جھک کر تسلیمیں کر کے بیٹھ جاتے۔ گانا شروع ہوتا، تعریف پر اٹھ اٹھ کر تسلیمیں کرتیں۔ یہ گھنٹہ آدھ گھنٹہ کی صحبت ہوتی جس میں سیکڑوں روپیہ ان کو انعام میں مل جاتا۔ سرِ شام سے چوک میں ہجوم ہو جاتا اور سازوآہنگ کی آوازوں سے فضا گونج اٹھتی۔‘

    صورت حال میں اس وقت تبدیلی آئی جب 1856 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اودھ کی ریاست کو ختم کر کے واجد علی شاہ کو جلاوطن کر دیا۔ اس کی وجہ سے لکھنؤ کی طوائفیں نہ صرف شاہی سرپرستی سے محروم ہو گئیں بلکہ جاگیردار اور تعلقہ دار بھی مالی طور پر دولت مند نہ رہے۔ اس کی وجہ سے طوائفوں کی شان و شوکت والی زندگی متاثر ہو گئی۔ پھر 1857 میں جب انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی اور حضرت محل نے لکھنؤ میں کمپنی کے خلاف محاذ قائم کیا تو طوائفوں نے بھی باغیوں کی مالی مدد کی۔ اس کی ایک وجہ حب الوطنی تو تھی ہی لیکن مادّی وجہ یہ تھی کہ وہ بھی حکومت کی پالیسی سے متاثر ہوئی تھیں۔
    یہی سبب ہے کہ بغاوت کے خاتمے کے بعد حکومت نے ان کی جائیدادیں ضبط کر لیں، جس کی وجہ سے اُن کی سابقہ حیثیت ختم ہو گئی اور طوائفوں کا کوٹھا جو تہذیب و فنون لطیفہ کا مرکز تھا، اس کا خاتمہ ہو گیا۔

  • عام لوگ اور کلچر

    عام لوگ اور کلچر

    انسان جب اپنی عقل کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کسی خیال یا نتیجے تک پہنچنے کے لیے تحریک دیتا ہے تو اس پر کئی انکشافات ہوتے ہیں اور بعض ایسی باتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ وہ چونک اٹھتا ہے

    اگر اس حوالے سے علمِ سائنس اس کے ماہرین کے بجائے ادبی دنیا میں اہلِ قلم اور خاص طور پر نقّادوں کی بات کریں تو وہ بھی اسی طرز پر اپنے عہد کے معاشرتی حالات کا مطالعہ کرتے ہوئے فرد کے خیالات، احساسات اور طرزِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں اور معاشرے اور اس کی ثقافت اور معاشرے میں بسنے والوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے علاوہ ان کی ذہنی سطح اور طرزِ‌ فکر سے متعلق اکثر کئی دل چسپ باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔

    کلیم الدّین احمد اردو تنقید کا بڑا نام تھا جن کی ایک تحریر اس پس منظر میں قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔ وہ لکھتے ہیں؛

    انسان بالطبع کاہل واقع ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ آسان راستہ پسند کرتا ہے۔ وہ فطری طور پر تہذیب و کلچر کی دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا پسند نہیں کرتا۔

    اگر بچّوں کو اپنی راہ پر چھوڑ دیا جائے تو بڑے ہو کر وہ نرے وحشی نظر آئیں گے، وہ اپنے فطری میلات کو کبھی نہ روکیں گے بلکہ اپنی ہر خواہش کو واقعہ بنانا چاہیں گے۔ خود غرضی ان کا شیوہ ہوگا اور دوسروں کی بھلائی کے لئے وہ اپنی خواہشوں کا خون نہیں ہونے دیں گے۔ غرض ان کے جذبات و خیالات، تعلیم و تہذیب، تربیت، کلچر کی خوبیوں سے بے بہرہ ہوں گے۔ انسان کو تہذیب کے زینوں پر چڑھنے میں کاوش سے کام لینا پڑتا ہے۔ اسے ہمیشہ ہوشیار رہنا ہوتا ہے۔ جہاں غفلت کی، پھر ساری محنت رائیگاں گئی۔ پھر ازسرِ نو محنت کرنی ہوگی۔ آج کل انسان کچھ اسی قسم کی غفلت کا شکار ہو رہا ہے۔ وہ آسان راستہ پسند کرتا ہے۔ دماغی اور جذباتی کلفتیں اس کے لئے سوہان روح ہیں۔ اس لئے وہ ان کلفتوں سے اپنا دامن بچائے رہنا چاہتا ہے۔ یہ فطرت کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ وہی چیزیں جو تہذیب کی نشانی ہیں وہی تہذیب و کلچر کے مٹانے پر تلی ہوئی ہیں۔

    بہر کیف اس بات سے کسی کو انکار نہ ہوگا کہ عام لوگوں کی دماغی اور جذباتی سطح کچھ زیادہ بلند نہیں۔ عموماً ایسے لوگوں کی پسند کسی معیار کا سہارا نہیں ڈھونڈتی اور ان کا فنی معیار، ان کا ادبی مذاق بہت بلند نہیں ہوتا۔ اگر انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے، اگر ان کے لئے صرف انہی کی پسند کی چیزیں مہیا کی جائیں تو پھر ان کے مذاق میں کوئی لطافت اور پاکیزگی نہیں آسکتی۔ انہیں کسی بلند فنی معیار کا احساس نہیں ہوسکتا، وہ ہمیشہ اپنی پست ذہنی دنیا میں مگن رہیں گے۔ انہیں کسی دوسری بہتر اور اعلیٰ دنیا کی تلاش نہ ستائے گی۔ اگر انہیں کسی زیادہ اچھی اور حسین دنیا کی طرف بلایا بھی جائے تو وہ اس کی طرف شاید متوجہ نہ ہوں گے، مثلاً سستے ناولوں، رومانوی افسانوں، جاسوسی قصوں کو لیجیے۔ کتنے لوگ ان چیزوں کو پڑھتے ہیں اور ان سے اپنا دل بہلاتے ہیں۔ ان چیزوں میں فنی خوبیاں کچھ بھی نہیں ہوتیں اور نہ کسی کو فنی خوبیوں کی جستجو ہوتی ہے۔

    بات یہ ہے کہ دنیا میں ہمارے میلانات، ہماری خواہشیں پھلتی پھولتی نہیں۔ جو دل چاہتا ہے وہ ہو نہیں پاتا، شکستِ امید ہماری بے اطمینانی کا سبب ہوتی ہے اور ہم اس بے اطمینانی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ نجات ہمیں رومانی افسانوں، جاسوسی قصوں کی مدد سے مل جاتی ہے۔ ان کی مدد سے ہم ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ہمارے میلانات، ہماری خواہشوں، امنگوں اور امیدوں کو ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ اسی لئے ہمیں اس دنیا میں ایک مسرت، ایک روحانی سکون محسوس ہوتا ہے اور اس سکون کے آگے فنی خوبیوں کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ یہ سکون مضر ہے اور ادبی حسن کی کمی ہمارے مذاق کو پست سے پست تر بنا دیتی ہے۔

    اگر یہ سستی کتابیں صرف دل بہلانے کا ذریعہ ہوتیں، اگرایک جماعت ان کتابوں کی مدد سے فرصت کی گھڑیاں آسانی اور دل چسپی کے ساتھ گزار سکتی اور بس، تو پھر شاید کسی کو بھی ان کتابوں کی مذمت کرنے کا حق نہ ہوتا لیکن مشکل یہ آپڑتی ہے کہ یہ کتاب تفریح کے ساتھ ہمارے مذاق کو بگاڑ دیتی ہیں۔ جس کی طبیعت ان سے مانوس ہو جاتی ہے پھر اسے دوسری چیزیں خصوصاً ایسی چیزیں جو ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں، بالکل ناپسند ہوتی ہیں۔ اڈگر والس کے آگے شیکسپئر کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ جو اچھا، ستھرا، سنجیدہ مذاق رکھتے ہیں، جو ناقدانہ اوصاف کے حامل ہیں وہ بھی جاسوسی افسانوں اور ناولوں سے شوق کرنے کے بعد سنجیدہ کتابوں کی طرف رجوع کرنے میں ایک قسم کی رکاوٹ محسوس کرتے ہیں اور جو ناقدانہ اوصاف کے حامل نہیں جو اچھا ستھرا، سنجیدہ مذاق نہیں رکھتے اور زیادہ تعداد اسی قسم کے لوگوں کی ہوتی ہے۔ انہیں تو جاسوسی یا رومانی افسانوں اور ناولوں کا ایسا چسکا پڑ جاتا ہے کہ وہ کسی سنجیدہ کتاب کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے۔

    معاشیات کا ایک اصول ہے کہ جن چیزوں کی مانگ ہوتی ہے تو ان چیزوں کے مہیا کرنے کا سامان بھی ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں رومانی اور جاسوسی قصوں کی مانگ ہے اور اس ضرورت کی وجہ سے مختلف قسم کے ذرائع پیدا ہو گئے ہیں۔ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد پیدا ہو گئی ہے جن کی زندگی کا مقصد بس اسی قسم کے قصوں کا لکھنا ہے، اسی کو انہوں نے اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ یہی ان کا اچھا خاصا ذریعۂ معاش ہے۔ یہ قصے تجارتی اصول پر لکھے یا لکھوائے جاتے ہیں یعنی جس طرح سگریٹ، سگار، لپ اسٹک، پیٹنٹ دواؤں کی تجارت ہوتی ہے، اسی طرح اس قسم کی کتابوں کی تجارت ہوتی ہے اور تجارت کا اصل الاصول ہے نفع۔

    یہاں بھی نفع کا خیال سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لکھنے والے نفع میں ہوتے ہیں اور لکھنے والوں سے زیادہ پبلشرز دولت جمع کر لیتے ہیں۔ اگر نقصان میں کوئی رہتا ہے تو بیچارہ پڑھنے والا۔ وہ فوری، ناپائیدار مسرت کے لئے اپنے ذہن کو ہمیشہ کے لئے مجروح و معطل بنا لیتا ہے۔

  • پریم چند: آدمی یا دیوتا!

    پریم چند: آدمی یا دیوتا!

    اردو ادب میں پریم چند اور فراق گورکھپوری دونوں کو ان کی تخلیقات کی بدولت بلند مقام و مرتبہ، شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ فراق عہد ساز شاعر اور نقّاد تھے اور پریم چند اردو اور ہندی کے افسانہ نگار تھے جن کی تحریریں جیسے جادوئی اسلوب کی حامل تھیں۔ فراق بھی پریم چند کی تخلیقات سے بہت متاثر ہوئے اور بعد میں اُن سے تعلق بھی استوار ہوا۔

    یہ فراق کی تحریر ہے جس میں انھوں نے پریم چند سے اوّلین تعارف، پہلی ملاقات اور تعلقِ خاطر کو بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہندوستان میں لگ بھگ ہر سال پندرہ سو کہانیاں یا مختصر افسانے لکھے جاتے تھے۔ اور اردو میں تو ایک ہی آدمی تھا جس نے کہانی لکھنے کے لئے پہلے پہل قدم اٹھایا اور وہ تھے پریم چند۔

    جاڑوں کے دن تھے، ہمارے یہاں گھر پر ’’زمانہ‘‘ کا تازہ شمارہ آیا تھا جو بزرگوں کے دیکھنے کے بعد ہمارے بھی ہاتھ لگا۔ اس میں پریم چند کی ایک کہانی چھپی تھی ’’بڑے گھر کی بیٹی۔‘‘ جیسے جیسے وہ کہانی میں پڑھتا گیا، میرے دل کی دھڑکن اور سانسوں کی رفتار تیز ہوتی گئی اور پلکیں بھیگتی گئیں۔ پریم چند سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ آج تک کسی کہانی کا مجھ پر وہ اثر نہ ہوا تھا جیسا کہ اس کہانی کا ہوا تھا۔

    اس کے بعد لگ بھگ ہر مہینہ ’’زمانہ‘‘ میں پریم چند کی کہانی چھپتی اور میں اسے کلیجے سے لگا کر پڑھتا۔ ہر مہینہ پریم چند کی نئی کہانی ’’زمانہ‘‘ میں چھپنا دنیائے ادب کا ایک واقعہ تصور کیا جاتا۔ یہ کہانیاں لڑکوں، لڑکیوں، سب کو ایک طرح متاثر کرتی تھیں۔ کہانیوں کو پڑھ کر مولانا شبلی جیسے عالم کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور وہ کہہ اٹھتے تھے کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں ایک بھی ایسا سحر نگار نہیں ہے۔ لوگ سوچتے تھے کہ پریم چند آدمی ہیں یا دیوتا۔

    کچھ سال بیت گئے۔ میں امتحانوں میں کامیابی حاصل کرتا ہوا بی۔ اے میں آچکا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں الہ آباد سے اپنے وطن گورکھپور آ گیا تھا۔ ایک دن شام کو گورکھپور میں ایک بڑے بینک کی بلڈنگ میں سیر کرنے کے لئے نکل گیا تھا۔ وہاں میرے ایک دوست مہابیر پرساد پود دار ملے، جن کے ساتھ ایک صاحب اور تھے۔ وہ بظاہر ایک بہت ہی معمولی آدمی معلوم ہوتے تھے، گھٹنوں سے کچھ ہی نیچے تک کی دھوتی، کرتا، جو عام کرتوں سے بہت چھوٹا کٹا ہوا تھا، پیروں میں معمولی جوتا۔ میں پود دار سے نئی کتابوں کے بارے میں باتیں کرنے لگا۔ ان کے ساتھی بھی گفتگو میں شریک ہوگئے اور بات پریم چند کی آگئی۔

    پود دار نے مجھ سے پوچھا کہ تم پریم چند سے ملنا چاہتے ہو؟ مجھے ایسا معلوم ہوا گویا وہ مجھ سے پوچھ رہے ہوں، دنیا بھر کی دولت پر قبضہ کرنا چاہتے ہو؟ اس خوش نصیبی پر یقین ہی نہیں آتا تھا کہ پریم چند کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں گا۔ میں نے ان کا بالکل نہ یقین کرنے کے لہجہ میں پوچھا، ’’پرم چند سے ملنا! کیسے، کہاں اور کب؟’‘ دونوں آدمی ہنسنے لگے اور پود دار نے بتایا کہ ان کے ساتھ جو صاحب ہیں وہی پریم چند ہیں۔ میری سانس اندر کی اندر اور باہر کی باہر رہ گئی، بلکہ انتہائی مسرت کے ساتھ میری کچھ دل شکنی سی ہوئی۔ اس لئے کہ پریم چند بہت معمولی صورت شکل کے آدمی نظر آئے اور میں سمجھے بیٹھا تھا کہ اتنا بڑا ادیب معمولی شکل کا آدمی نہیں ہوسکتا۔ پھر بھی پریم چند کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔

    یہ جان کر تو میں خوشی سے جھوم گیا کہ پریم چند گورکھپور میں میرے مکان سے آدھے فرلانگ پر نارمل اسکول کے ایک بنگلہ میں مستقل طور پر مقیم رہیں گے۔ میں اور پریم چند تو فوراً گھل مل گئے۔ ہم دونوں ایک ہی مزاج کے تھے۔ دوسرے دن سے تیسرے پہر پریم چند کے گھر جانا میرا روز کا معمول بن گیا۔ پریم چند نارمل اسکول کے سکینڈ ماسٹر اور بورڈنگ ہاؤس کے سپریٹنڈنٹ تھے، اپنے چھوٹے سے بنگلے کے صحن میں چند درختوں کے سائے میں تیسرے پہر چند کرسیاں ڈال لیتے تھے، ایک چھوٹی سی میز بھی لگا لیتے تھے۔ اسی صحن میں ہر تیسرے پہر ملنا میرا روز کا معمول بن گیا تھا۔ شاعری، ادب، کتابیں، مصنف، فلسفہ ہماری گفتگو کے موضوع تھے۔ کبھی کبھی ان لوگوں کا بھی ذکر چھڑ جاتا، جو ذکر کے قابل نہیں ہوتے تھے۔ ایسے بھی مواقع آجاتے جب کہ وہ اپنے بچپن کا حال یا خاندان کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ اس طرح ان کی زندگی کاپورا کردار میرے سامنے آ گیا۔

    ان کی باتوں میں بڑی معصومیت ہوتی تھی، بڑی سادگی، بڑی بے تکلفی۔ اس طرح باتوں کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان کے بچپن کے زمانے میں جب ان کے والد ڈاک خانے کے ملازمت کے سلسلے میں گورا دور میں رہتے تھے، اسکول میں پریم چندکی دوستی ایک تمباکو بیچنے والے کے لڑکے سے تھی۔ اسکول سے واپسی کے وقت اس لڑکے کے گھر پر پریم چند جاتے تھے۔ وہاں بزرگوں میں حقہ کے کش جاری رہتے تھے اور ’’طلسمِ ہوش رُبا‘‘ روزپڑھا جاتا تھا۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ سنتے سنتے بچپن میں ہی پریم چند کی خوابیدہ خیالی دنیا جاگ اٹھی جیسے ’’الف لیلہ‘‘ پڑھ کر مشہور ناول نگار ڈکنس کا سویا ہوا شعور فن جاگ اٹھا تھا۔ پھر اردو نثر کی روانی بھی پریم چند کے اندر گرج اٹھی۔

    پریم چند کا بچپن بہت غریبی میں گزرا۔ باپ کی تنخواہ بیس بچیس روپے تھے۔ پھر ماں سوتیلی تھی۔ تیرہ چودہ سال کی عمر میں چار پانچ روپے کے ٹیوشن کے لئے تین میل جانا اور تین میل آنا پڑتا تھا۔ ایک بار ایسا گھر ملا کہ اسی گھر کے اصطبل میں سائیس کے ساتھ رہنا پڑتا تھا۔ سیکڑوں مواقع ایسے آئے کہ ایک پیسے کے چنے بھنا کر اسی کو کھا کر دن کاٹ دیا۔ اسی زمانے میں ایک ہیڈ ماسٹر نے انہیں ذہین سمجھ کر کچھ سہولیتں بہم پہنچائیں اور اس طرح وہ انٹرنس پاس کر کے کسی اسکول میں بیس بائیس روپے پر ٹیچر ہوگئے۔ ان کے والد نے اسی زمانے میں پریم چند کی شادی بھی کر دی تھی۔ ایسی شادی کہ دوچار ہفتوں بعد ہی بیوی سے جدا ہونا پڑا۔ اسی حالت میں باپ بھی چل بسے۔ سوتیلی ماں اور سوتیلے بھائی کا بوجھ بھی پریم چند کے کندھوں پر آرہا۔

    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دس بارہ سال کی عمر سے لگ بھگ بیس بائیس سال کی عمر تک جیسی تلخ زندگی پریم چند کی تھی، اردو یا کسی زبان کے ادیب کی زندگی شاید ہی اتنی پُر الم رہی ہو۔ ہم اور آپ تو شاید ایسے امتحان میں مٹ کر رہ جاتے۔ اسی دور میں پریم چند نے پرائیویٹ طور پر ایف۔ اے، بی۔ اے اور بی۔ ٹی کے امتحانات بھی پاس کئے۔ محکمۂ تعلیم میں انہیں ملازمت مل گئی۔ وہی زمانہ زندۂ جاوید تخلیقات کا ابتدائی دور ہے جنہیں آج لاکھوں آدمی کلیجہ سے لگائے پھرتے ہیں۔

    پریم چند اب اپنی اردو تخلیقات کو ہندی میں بھی شائع کرنے لگے تھے لیکن اسے اگر اردو زبان اور ادب کا جادو نہ کہیں تو کیا کہیں کہ ہندی میں ان کی پہلی ہی کتاب چھپی تھی کہ وہ ہندی کے سب سے بڑے ادیب مان لئے گئے اور اگر وہ اردو نہ جانتے ہوتے اور صرف ہندی جانتے تو اتنی شان دار اور منجھی ہوئی زبان نہ لکھ پاتے۔ یہ وقت لگ بھگ ۱۹۱۹ء کا ہے۔ اسی زمانے میں میں نے آئی۔ سی۔ ایس کی نوکری چھوڑی اور پریم چند نے بھی، جن کی نوکری ایک ہزار روپے تک جاتی۔ عدم تعاون کی تحریک کے سلسلہ میں میرے ساتھ ہی اپنی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کے بعد وہ پندرہ سولہ سال اور زندہ رہے۔ اس عرصے میں لگ بھگ دس ناول اور سو کہانیاں ان کے قلم سے نکلیں۔

    یہ ہیں وہ یادیں جو پریم چند کے متعلق میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ پریم چند کی قبل از وقت موت نے اردو ہندی ادب اور ادیبوں کو یتیم کردیا۔ جو ادب درباروں اور رئیسوں کی محفلوں کی چیز تھی، اس زبان و ادب کو پریم چند نے کروڑوں بیگھے لہلہاتے کھیتوں میں اور کسانوں کے جھونپڑوں میں لا کر کھڑا کر دیا۔ ہماری ہزاروں سال کی تہذیب میں بھارت ورش کی دیہاتی زندگی کی آنکھ کھول دینے والی تصویر کشی ہندوستان کے کسی زبان کے کسی ادیب نے نہیں کی تھی۔

  • ازبکستان کے تین قدیم شہروں کا فنِ تعمیر اور ثقافت

    ازبکستان کے تین قدیم شہروں کا فنِ تعمیر اور ثقافت

    وسط ایشیائی ممالک میں ازبکستان بھی اپنی خوب صورت مذہبی اور تاریخی عمارات، بادشاہوں کے محلّات، حویلیاں اور قدیم دور کی عبادت گاہوں، مزارات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے ساتھ ازبکستان کا جدید طرزِ تعمیر بھی قابلِ دید ہے، لیکن اس ملک کے تین عظیم شہروں سمر قند، بخارا اور تاشقند کے تاریخی و ثقافتی مقامات خاص شہرت کے حامل ہیں۔

    ازبکستان کا فنِ تعمیر مختلف روایات کے امتزاج سے نہایت حسین اور قابلِ‌ ذکر ہے جس میں اسلامی طرزِ تعمیر کے ساتھ فارس اور سلطنتِ روس کے زمانے کے طرز کی گہری جھلک نظر آتی ہے۔ آئیے اس ملک کے چند بڑے شہروں‌ کی تعمیرات اور ثقافت پر نظر ڈالتے ہیں۔

    سمر قند
    تیمور اعظم نے فارس اور بغداد کو فتح کرکے اناطولیہ اور ہندوستان کو زیر کیا تھا۔ سمر قند میں سب سے تعمیرات تیمور اور ان کے پوتے الغ بیگ کے دور کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ اس زمانے کا سب سے زیادہ متاثر کن تعمیراتی میٹ ڈیزائن، سمرقند میں پایا جاتا ہے۔ مختلف شکلوں کے دہرے گنبد اور ان پر خوبصورت کاشی کے رنگ اپنی جانب متوجہ کرلیتے ہیں۔ تیمور نے اپنے دارالحکومت کو مذہبی یادگاروں اور باغات سے بھر دیا تھا، جس میں پتھر کی دیواریں، سنگِ مرمر کا فرش اور ان پر سونے اور ریشم کے بیل بوٹے دل آویز نقوش سامنے لاتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج یہ سب خستہ حالی کا شکار ہے۔ اس شہر میں تیموری طرز تعمیر کا نمونہ ایک رصد گاہ اور مدرسہ ہے‌ جسے الغ بیگ نے 1428ء میں تعمیر کروایا تھا۔

    بخارا
    بخارا ازبکستان کا دوسرا قدیم شہر ہے جہاں قدیم و جدید عمارات شان دار تعمیراتی انفرادیت کی حامل ہیں۔ یہ تاریخی لحاظ سے تہذیب و تمدن کا اہم مرکز رہا ہے۔ ابتدائی ادوار کے تعمیراتی مواد میں اینٹوں کا آرائشی طور پر استعمال اور اس کاشی گری و خطاطی کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان عمارتوں کو ماہر خطاط، مصور آیات و ابیات سے سجاتے تھے اور ان پر مختلف بیل بوٹے اس دور کے فنِ مصوری کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ بخارا تاریخ و آثارِ قدیمہ کے طالب علموں کے لیے ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتا ہے جہاں وہ عظمتِ رفتہ کے نشان اور ثقافتی دل چسپی کے نمونے دیکھ سکتے ہیں۔

    تاشقند
    تاشقند ایک اہم جغرافیائی مقام کا حامل شہر ہے اور قدیم دور سے مختلف ملکوں کے مابین تجارت و رابطے کا رستہ رہا ہے۔ یہاں آپ کو کارواں سرائے، مسافر خانے اور مزارات اپنے قدیم تعمیراتی فن کی وجہ سے ایک شاہ کار کی طرح نظر آئیں گے۔ تاہم اب ان کی جگہ جدید اور نئے دور کا تعمیراتی کام نمایاں ہورہا ہے جس میں‌ ماہرینِ‌ تعمیرات کی کوشش یہی ہے کہ وہ قدیم اور ثقافتی طرز کو بھی جگہ دیں تاکہ اس شہر کی تاریخ اور فن و ثقافت کا اثر قائم رہے اور وہ اپنے ماضی سے جڑے رہیں۔

  • افغان امیر شیرعلی خان اور فارسی محاورہ

    افغان امیر شیرعلی خان اور فارسی محاورہ

    ہندوستان میں‌ برطانوی راج میں سول سرونٹ کے طور پر خدمات انجام دینے والوں میں ایک نام جی ای سی ویکفیلڈ کا تھا۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنّف تھے۔ ”پچاس برس کی یادداشتیں“ ان کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے ایک دل چسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔

    پہلے مسٹر ویکفیلڈ کا مختصر تعارف پیش ہے۔ جی ای سی ویکفیلڈ کا پورا نام جارج ایڈورڈ کیمبیل (George Edward Campbell Wakefield) تھا۔ وہ مسٹر ویکفیلڈ مشہور تھے۔ ان کا تعلق ملتان سے تھا جہاں انھوں نے ایک برطانوی جوڑے کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ ویکفیلڈ کا سنہ پیدائش 1873 اور وفات کا سال 1944 ہے۔ ویکفیلڈ کی دادی ہندوستانی تھیں جنھوں نے عیسائی مذہب قبول کیا تھا۔

    مسٹر ویکفیلڈ برصغیر میں نصف صدی تک مختلف محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے جن میں مالیات، زراعت شامل ہیں، انھوں نے نظامِ دکن کے لیے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ اس دوران ویکفیلڈ کو کئی دل چسپ تجربے ہوئے اور انھوں نے بعض ناقابلِ یقین اور حیرت انگیز واقعات بھی دیکھے اور ان کو ویکفیلڈ نے خاص طور پر قلم بند کیا۔ ان میں عام لوگوں کے علاوہ شہزادوں اور مہاراجوں کے حالات اور واقعات شامل ہیں۔

    مسٹر ویکفیلڈ نے اپنی کتاب میں ایک دل چسپ واقعہ کچھ یوں‌ درج کیا ہے۔ ”افغان امیر شیر علی خان ہندوستان کے دورے پر آئے تو ابّا جان نے ایک مقام پر اُن کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ رخصت ہوتے وقت امیر نے اُنہیں بُلا بھیجا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میرے آرام کی خاطر اچھے انتظامات کیے۔ ابّا جان نے معروف فارسی محاورے کے مطابق کہہ دیا کہ یہ سب آپ ہی کا ہے۔ اس پر امیر نے خیمے کے اندر موجود ہر چیز باندھنے کا حکم دیا اور وہ ساری اشیا واقعی افغانستان لے گیا جن میں ایک پیانو بھی شامل تھا۔ بعد میں مالیات کے حکام برسوں ابّا جان کے پیچھے پڑے رہے کہ آپ نے اتنی قیمتی اشیا امیر کو مفت پیش کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔“

  • ’گاندھی جی‘ کا مجسمہ اور ”ایلفی“

    دارالخلافہ اسلام آباد ابھی پاکستان کے نقشہ پر نہیں ابھرا تھا اور کراچی ہی ’دارالخون خرابا‘ تھا۔

    کراچی کا نقشہ ہی نہیں، تلفظ اور اِملا تک گنوارو سا تھا۔ زکام نہ ہو تب بھی لوگ کراچی کو ’کرانچی‘ ہی کہتے تھے۔

    چیف کورٹ کے سامنے ’گاندھی جی‘ کا ایک نہایت بھونڈا مجسمہ نصب تھا، جس کی کوئی چیز گاندھی جی سے مشابہت نہیں رکھتی تھی۔ سوائے لنگوٹی کی سلوٹوں کے۔ گوانیر جوڑے وکٹوریہ گاڑی میں بندر روڈ پر ہوا خوری کے لیے نکلتے اور نورانی شکل کے پیرانِ پارسی شام کو ایلفنسٹن اسٹریٹ کی دکانوں کے تھڑوں پر ٹھیکی لیتے۔ ایلفنسٹن اسٹریٹ پر کراچی والوں کو ابھی پیار نہیں آیا تھا اور وہ ”ایلفی“ نہیں کہلاتی تھی۔

    سارے شہر میں ایک بھی نیو سائن نہ تھا۔ اس زمانے میں خراب مال بیچنے کے لیے اتنی اشتہار بازی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ نیپئر روڈ پر طوائفوں کے کوٹھے، ڈان اخبار کا دفتر اور اونٹ گاڑیوں کا اڈّا تھا۔ یہاں دن میں اونٹ گاڑیوں کا اوّل الذکر حصّہ کلیلیں کرتا اور رات کو تماش بین۔ اہلِ کمال اس زمانے میں بھی آشفتہ حال پھرتے تھے۔ کچھ ہماری طرح تھے کہ محض آشفتہ حال تھے۔ شریف گھرانوں میں جہیز میں سنگر مشین، ٹین کا ٹرنک اور بہشتی زیور دیا جاتا تھا۔

    اردو غزل سے معشوق کو ہنوز شعر بدر نہیں کیا گیا تھا اور گیتوں اور کجریوں میں وہی ندیا، نِندیا اور نَندیا کا رونا تھا۔ میٹھانیوں اور اونچے گھرانوں کی بیگمات نے ابھی ساریاں خریدنے اور ہندوستانی فلمیں دیکھنے کے لیے بمبئی جانا نہیں چھوڑا تھا۔ ڈھاکا اور چٹاگانگ کے پٹ سن کے بڑے تاجر ”ویک اینڈ“ پر اپنی آرمینین داشتاؤں کی خیر خیریت لینے اور اپنی طبیعت اور امارت کا بار ہلکا کرنے کے لیے کلکتے کے ہوائی پھیرے لگاتے تھے۔

    کیا زمانہ تھا، کلکتے جانے کے لیے پاسپورٹ ہی نہیں، بہانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ آم، کیلا اور شاعر ہندوستان سے اور لٹھا جاپان سے آتا تھا۔ بینکوں میں ابھی ایئرکنڈیشنر، میز پر فنانشل ٹائمز، ایرانی قالین، سیاہ مرسیڈیز کار، قلم چھوڑ ہڑتال، رشوت، آسٹن ریڈ کے سوٹ، مگرمچھ کی کھال کے بریف کیس اور اتنی ہی موٹی ذاتی کھال رکھنے کا رواج نہیں ہوا تھا۔ فقیر ابھی ہاتھ پھیلا پھیلا کر ایک پیسہ مانگتے اور مل جائے، تو سخی داتا کو کثرت اولاد کی ’بد دعا‘ دیتے تھے۔ اور یہ فقیر پُرتقصیر اپنی اوقات کو نہیں بھولا تھا۔ کنڈوں کی آنچ پر چکنی ہانڈی میں ڈوئی سے گھٹی ہوئی ارد کی بے دھلی دال چٹخارے لے لے کر کھاتا اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا تھا۔

    میں اپنے شہر (کراچی) کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گِلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ رہا ہے… اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بُتِ ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھہرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔)

    (از قلم: مشتاق احمد یوسفی)

  • محمد حیات گھڑی ساز اور جنّات

    محمد حیات گھڑی ساز اور جنّات

    اردو کے ممتاز ادیبوں، معروف اہلِ قلم اور مشہور روحانی شخصیات کی کتابوں‌ میں‌ ہمیں‌ ماورائے عقل واقعات، ناقابلِ فہم اور حیرت انگیز قصائص پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کئی روایات اور ایسے واقعات کو بھی مشاہیرِ ادب نے اپنی کتابوں میں‌ جگہ دی ہے جو سینہ گزٹ سے زیادہ کچھ نہیں‌ اور یہ قارئین میں تو بہت مقبول ہیں، مگر انھیں مستند یا مصدقہ نہیں‌ کہا جاتا۔

    یہاں ہم ملتان سے تعلق رکھنے والے ادیب ڈاکٹر سید زاہد علی واسطی خود نوشت ‘‘بیتی یادیں’’ سے ایک واقعہ نقل کررہے ہیں۔ اس ماورائے عقل اور حیرت انگیز واقعے کے راوی کی حیثیت سے مصنّف لکھتے ہیں:

    ایک مرتبہ سعید الدّین سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں پھر حیدرآباد دکن کا ذکر نکل آیا۔ چار مینارحیدرآباد کی نادر الوجود عمارتوں سے ایک ہے۔ سعید الدین صاحب گویا ہوئے ‘‘ان کے اندر کے راز میں آپ کو بتاتا ہوں۔ پہلی منزل پر مدرسہ تعلیم القرآن اور طلبہ کا دارالاقامہ ہے، دوسری منزل پر مسجد ہے۔ یہیں دو چھوٹے چھوٹے کمرے محمد حیات گھڑی ساز کی تحویل میں تھے۔ ایک میں اس کی رہائش تھی دوسرے میں ملازم رہتا تھا، محمد حیات ظاہراً گھڑیال کی نگہداشت کرتا اور مرمت وغیرہ پر مامور تھا۔

    یہ بات مشہور تھی کہ چار مینار والے محمد حیات کے تابع جنات ہیں اور اس کے سب کام وہی کرتے ہیں، حتیٰ کہ ان کی ڈیوٹی جس میں گھڑیالوں کی صفائی ستھرائی، وقت کے مطابق مشینوں کو چالو رکھنا۔ مزید برآں ان کے کمرے کی صفائی کے علاوہ کھانا پینا سب کچھ انہی کے سپرد تھا۔ رات کے اوقات میں روزانہ تلاوت قرآن کی آوازیں دونوں حجروں سے سالہا سال سے آتی ہیں۔’’

    سعید الدّین صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ اپنے والد صاحب کے ساتھ پہلی مرتبہ محمد حیات کے پاس گئے۔ والد صاحب نے جب محمد حیات کو اپنی باتیں بتائیں تو انہوں نے آنکھیں بند کیے رکھیں اور صرف ہونہہ کہا، پھر بولے انہیں سب معلوم ہو گیا۔ پھر کسی کا نام لیا کہ یہ آدمی ہے جس کی وجہ سے آپ پریشان ہیں۔ مطمئن رہیں دو دن بعد یہ آدمی یہاں سے چلا جائے گا۔ اس دوران ایک پستہ قد ملازم ایک پلیٹ میں انگور لے کر آگیا اور رکھ کر چلا گیا۔ سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے ہم نے دریافت کیا کہ ابا جی سردیوں میں انگور ہم نے پہلے کبھی نہیں کھائے، یہ ملازم کہاں سے لایا….؟

    اس کے بعد انہوں نے ایک اور واقعہ سنایا جو ان کے والد کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ‘‘ایک شخص اندر کوٹ کے محلے میں رہتا تھا۔ ایک دن وہ ان کے والد کے پاس آگیا اور کوئی بات کرنے کے بعد بہت دیر تک روتا رہا تو والد صاحب اس شخص کو محمد حیات کے پاس لے گئے۔ شام کو جب والد صاحب گھر واپس آئے تو والدہ کے ساتھ میں بھی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے والدہ مرحومہ کو تفصیل سناتے ہوئے بتایا کہ پڑوسی نے سال سوا سال پہلے یہ مکان کرائے پر لیا تھا۔ یہ مکان مدتوں سے خالی پڑا ہوا تھا۔ مالک مکان نے کرایہ دار کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ مکان میں جن رہتے ہیں مگر مکان کا بہت معمولی کرایہ تھا اور خود جسمانی طور پر صحت مند ہونے کی وجہ سے وہ مکان اس شخص نے لے لیا۔ دونوں میاں بیوی اس مکان میں رہنے لگے۔

    یہ شخص کسی بنیے کی دکان پر ملازم تھا جہاں سے وہ رات کو کافی دیر سے فارغ ہوتا اور گھر لوٹتا تھا۔ پہلی رات سوتے وقت انہیں محسوس ہوا کہ مکان کے صحن میں چہل پہل ہو رہی ہے۔ سخت سردی کا موسم تھا اور صحن میں کسی کے موجود ہونے کی توقع نہ تھی۔ پھر بھی انہوں نے کوٹھری کا دروازہ کھول کر باہر دیکھا تو صحن سے بچوں کے شور مچانے کی آوازیں آرہی ہیں۔ مگر انہیں دکھائی کچھ نہیں دیا۔ اس وقت تو وہ دونوں دروازہ بند کر کے سو گئے مگر صبح اٹھتے ہی انہوں نے مالک کو سب بیان کر دیا مگر اس نے کوئی حوصلہ افزا جواب نہ دیا۔

    ایک دن اس شخص کی بیوی نے شوہر کو بتایا کہ تمہارے چلے جانے کے بعد کمروں اور غسل خانے کے دروازے خودبخود کھلنے اور بند ہونے لگے اور دھڑا دھڑ کی آوازیں آنے لگیں جیسے شدید آندھی چل رہی ہو۔

    اس کے بعد اس قسم کے واقعات روز ہی ہونے لگے۔ کبھی ڈلیا میں سے روٹیاں غائب ہو جاتیں کبھی ہانڈی کے اندر سے بوٹیاں۔ ایک دن وہ صحن میں جھاڑو دے رہی تھی تو اسے ایسا لگا کہ جیسے کوئی باورچی خانے کے برتن پھینک رہا ہو۔ جب وہ ڈرتے ڈرتے باورچی خانے میں گئی تو سب برتن زمین پر گرے پڑے تھے۔ وہ ڈر کے مارے اندر کوٹھری میں جا چھپی۔

    یکایک اس کا ٹین کا صندوق زمین پر سے خودبخود اٹھا اور چھت سے جا لگا۔ کوئی نادیدہ قوت اسے اوپر اٹھا رہی تھی۔ پھر وہ صندوق فرش پر گر پڑا اور اس میں سے سب کپڑے نکل کر اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ بے ہوش ہو گئی۔ جب اسے ہوش آیا تو شام ہو رہی تھی اور ڈر اور خوف کی وجہ سے وہ اس قابل نہ تھی کہ روٹی ہانڈی کر سکتی۔

    اس پڑوسی کو لے کر والد صاحب محمد حیات کے پاس گئے تھے تاکہ اس کا یہ مسئلہ حل ہوسکے۔ اس نے محمد حیات کو سب واقعات سنائے۔ انہوں نے تسلی دی اور اس شخص کے ساتھ اپنا ملازم بھیجاکہ جا کر دیکھے دراصل کیا معاملہ ہے….؟

    محمد حیات کا ملازم اس پڑوسی کے گھر آیا اور کوٹھری میں جا کر دو چھتی پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اسے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آوازیں دیر تک سنائی دیتی رہیں۔ گھنٹہ بھر کے بعد ملازم خاموشی سے اُتر کر گھر سے چلا گیا۔ اس کے بعد انہیں کبھی کوئی شکایت نہ ملی نہ کسی قسم کا نقصان ہوا۔

  • جہانگیر کوارٹرز کا Oracle

    جہانگیر کوارٹرز کا Oracle

    وہ سلیم احمد کا زمانہ تھا۔ کراچی میں ادب اور شعر لکھنے والوں کے لیے سب رستے جہانگیر کوارٹرز کو جاتے تھے۔

    ہم نے اپنی زندگی کی دوسری یا تیسری نظم لکھی تھی اور دوستوں کو سنائی تھی۔ دوستوں نے دانش مندی سے سَر ہلائے تھے اور کہا تھا کہ اسد محمد خاں اب وقت آگیا ہے، تمہیں جہانگیر کوارٹرز لے جا کر سلیم احمد سے ملوا دیا جائے۔

    سید سلیم احمد ان سب کے لیے Oracle کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہیں دوست اور بھائی تو اس لیے کہا جاتا تھا کہ اُس وقت تک اُن کے لیے کوئی مناسب لفظ کُوائین نہیں کیا جا سکا تھا۔ اس لیے سلیم احمد کی اتھاہ محبت سے اشارہ پا کر سب انہیں سلیم بھائی کہنے لگے۔ پھر آپا مرحومہ نے اپنی شفقتوں کا سایہ پھیلا کر اس رشتے کو وہ تصدیق عطا کردی جسے بخشنے پر صرف مائیں قادر ہوتی ہیں۔

    مگر وہ بھائی اور دوست سے آگے کے کسی منصب پر فائز تھے۔ ڈیلفی کے سروشِ غیبی کی طرح وہ جہانگیر کوارٹرز کے Oracle تھے۔

    اب خیال ہوتا ہے کہ اگر کسی نے آریکل کے قریب ترین کوئی لفظ استعمال کیا تھا تو سعید الکریم نگار صہبائی نے استعمال کیا تھا۔ وہ سلیم احمد کو ’استاد‘ کہتے تھے۔ ہر چند کہ یہ غریب لفظ تھا اور از کارِ رفتہ تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ نامکمل تھا۔ سلیم احمد کے سوا کسی نے اس لفظ کو منہ بھی نہیں لگایا تھا۔ مگر اب خیال ہوتا ہے کہ عامیانہ اور از کارِ رفتہ اور غریب اور نامکمل سہی مگر ایک یہی لفظ تھا جو سلیم احمد کی زندگی میں اُن کے لیے تقریباً درست استعمال کیا گیا۔

    سلیم احمد اپنے ہم عصروں اور چھوٹوں اور بعض حالتوں میں اپنے بڑوں کے بھی گرو اور ہادی تھے۔ اور وہ دارُالاستخارہ تھے جہاں سے روشنی اور مشورے اور پیش گوئیاں طلب کی جاتی تھیں۔ کچھ بھی کہنے اور لکھنے کے بعد انہیں سنا کر یا پڑھوا کر اُن کے چہرے کی طرف دیکھا جاتا تھا۔

    سلیم احمد نے ایک عجب چکر چلا رکھا تھا۔ انہوں نے بہت سے ذہین و فطین اور خطرناک آدمیوں کو Talent Hunting کے لیے شہر میں چھوڑ رکھا تھا۔ یہ اُن کے Talent Scouts تھے جو باہر کے اندھیرے پر کڑی نظر رکھتے تھے اور جیسے ہی کوئی جگنو اپنی دُم چمکاتا ہوا نظر آتا تھا یہ پکڑ کر اُسے اپنی ٹوپی میں چھپا لیتے تھے اور گرو کے حوالے کر دیتے تھے۔

    جی ہاں، ہم نے زندگی کی دوسری یا تیسری نظم لکھی تھی اور اطہر نفیس اور ساقی فاروقی کو سنائی تھی۔ انہوں نے دانش مندی میں سر ہلائے تھے اور کہا تھا اب وقت آگیا ہے کہ تمہیں سلیم احمد سے ملوا دیا جائے۔ چنانچہ شام کے وقت یہ دونوں ہمیں جہانگیر کوارٹرز لے گئے اور سلیم احمد کو ہمارا نام بتا دیا۔ انہوں نے ہمارے شانے پر ہاتھ رکھا۔ بڑے پیار اور نرمی اور بے زاری سے اپنی آنکھیں نیم وا کر کے ہمارے ’جوہرِ قابل‘ پر نظر ڈالی۔ ہماری تینوں نظمیں سن لیں اور داد دی۔ پھر انہوں نے اطہر یا ساقی کو گمبھیرتا سے گھورتے ہوئے کوئی سگنل دیا۔ اطہر یا ساقی نے، اب یاد نہیں کہ دونوں میں سے کس نے سگنل ریسیو کیا اور جواب میں کوئی سگنل دیا، پھر یہ دونوں سلیم احمد کے دائیں بائیں جا بیٹھے اور زور و شور سے کسی ایسے کی غیبت شروع کر دی جسے ہم اُس وقت نہیں جانتے تھے۔

    ہم رات کے گیارہ بجے تک سلیم بھائی کے گھر بیٹھے رہے۔ مگر اُس دن ہماری تینوں ’لازوال‘ نظموں پر یا کائنات میں ہماری موجودگی سے جو خوب صورت اضافہ ہوا ہے اُس پر جہانگیر روڈ کے اُس مکان میں اور کوئی بات نہ ہوئی۔

    ہمارا پہلا تاثر مایوسی کا تھا جس کا اظہار ہم نے دوسرے دن اطہر اور ساقی سے کر دیا۔
    ہمیں اعتراض تھا کہ سلیم احمد ہماری تینوں نظمیں سن کر یوریکا یوریکا کہتے ہوئے گھر سے باہر کیوں نہ نکل پڑے۔ وہ نسبتاً خاموش کیوں رہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ہماری اس شاعرانہ حیثیت کو (جس کا قیام پچھلے ڈھائی تین مہینوں کے دوران عمل میں آچکا ہے) تسلیم نہیں کرتے۔ ہم جاننا چاہتے تھے کہ سلیم احمد ہماری اُن بے مثال نظموں کو اردو شاعری میں کیا مقام دیتے ہیں اور اگر کوئی مقام نہیں دیتے تو اطہر اور ساقی سے ہمارا سوال تھا کہ تم لوگ آخر ہمیں ایسی جگہ لے کیوں گئے؟

    اطہر نفیس کو پانی پیتے ہوئے اُچُھّو ہوگیا۔ ساقی فاروقی ہنستے ہنستے کرسی سے گر گیا پھر اُس نے دری پر لوٹیں لگانی شروع کر دیں۔ آخر وہ اٹھا، بہ مشکل کرسی پر بیٹھا اور جیسا کہ اس خبیث کی عادت ہے مالوے بندیل کھنڈ کے ایک شہر میں پیدا ہونے والے پٹھانوں کے بارے میں غیر پارلیمانی بلکہ Un printable الفاظ استعمال کرتے ہوئے ان کی اجتماعی عقل و فہم سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنے لگا۔

    اس بات کو سال ہا سال گزر چکے ہیں۔ بندیل کھنڈ مالوے کے اس شہر میں پیدا ہونے والے اس کم تاب کو جہانگیر کوارٹرز کے سیّد نے کس کس طرح نوازا اور نہال کیا یہ بہت کمال کی کہانی ہے….توفیق ہوئی تو لکھیں گے۔

    خاص طور پر مخاطب کیے بنا سیّد نے اس خاکسار کو سمجھایا کہ اپنے قامت سے ناانصافی کیے بغیر، بے برادر! انکسار اور فروتنی اختیار کر اور فلاں ابنِ فلاں کی طرح لاف زنی کو وتیرہ نہ بنا اور پڑھ اور پڑھ اور پڑھ اور اے عزیز! دونوں ہاتھوں سے لکھ اس لیے کہ تو غریب گھر میں پیدا ہوا ہے اور زمین سے اکھڑا ہوا شجر ہے، سو اپنے سیدھے ہاتھ سے وہ لکھ جو تیری muse اور تیرا مقدر تجھ سے لکھائے اور اپنے الٹے ہاتھ سے وہ لکھ جو سیٹھ تجھ سے لکھائے۔ تاہم اِن دونوں لکھتوں میں confusion پیدا نہ ہونے دے۔ سیٹھ کے لیے دیانت داری سے اور پوری تجارتی معاملہ داری سے لکھ اور کچھ ایسا کر کہ تیرا گاہک بار بار تیرے ہی پاس آوے اور جب تو اپنے لیے لکھ رہا ہو تو اے برادر اپنے ادبی ضمیر کے سوا کسی کو رہ نما نہ بنا۔ علاقے کا ایس ایچ او خفا ہوتا ہے خفا ہونے دے۔ بال بچے ناراض ہوتے ہیں، پروا مت کر۔

    کس لیے کہ لکھنے والے کا ایک الگ یومِ حساب ہوتا ہے، جہاں عجب نفسا نفسی کا عالم ہے اور کوئی سفارش کام نہیں آتی۔ بس تیرے اعمال کام آتے ہیں۔ یعنی وہ بے ریا عبادت جو تو سادہ صفحہ پر سَر جھکائے کر رہا ہوتا ہے۔ اور اے پسرِ عشق بیاموز اور اے بھائی وقت کو غنیمت جان اسے ضائع نہ ہونے دے اور اے عزیز خدا کرے کہ کتاب سے تیری محبت کبھی کم نہ ہو مگر ایک بات یاد رکھیو کہ فلاں ابنِ فلاں کو کتاب دینے میں احتیاط کر۔ کس لیے کہ وہ ایک بار لے جاتا ہے تو لوٹاتا نہیں۔ پس اے میرے بھائی! میں نے نہیں کیا تو حذر بکنید۔

    یہ ساری باتیں سید سلیم احمد نے مختلف تقریروں میں نہیں کیں۔ کبھی چھٹے سہ ماہے ایک آدھ فقرے میں چلتے چلتے کچھ کہہ دیا تو کہہ دیا ورنہ وہ تو اپنے گھر کے باہر کے کمرے میں ایک زندگی گزاررہے تھے۔ شفاف شیشے کی طرح جس کے آر پار دیکھا جاسکتا تھا۔ اور وہ لفظ برت رہے تھے جو ہر قسم کے ذہنی تحفظات سے پا ک ہوتے تھے اور ان کے شب و روز منافقت اور خوف اور حزن سے آزاد تھے۔ ہر آدمی کی طرح گھر چلانے کے لیے انہیں بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ کسبِ معاش کررہے تھے اور اپنی محنت میں پھل پھول رہے تھے اور معاش کے اس کوچے میں چل اس طرح رہے تھے جیسے للی پٹ جزیرے میں گُلیور اپنے پورے قامت سے چل پھر رہا ہو۔ احتیاط سے پھونک پھونک کر قدم دھرتے ہوئے کہ کہیں کوئی پیروں تلے آکرروندا نہ جائے۔

    سلیم احمد کے بارے میں افواہیں اُڑانے کا موقع کبھی کسی کو نہ مل سکا۔ کیوں کہ جو آدمی ٹرانسپیرنٹ مٹیریل سے بنا ہو اور چوپال میں زندگی گزاررہا ہوں اور اپنے لفظوں کو کسی مکر چاندنی میں اور کونوں کھدروں میں ٹانگنے کی بجائے انہیں تیز دھوپ میں پھیلا پھیلا کر بات کرتا ہو اس کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے۔ بہت سے تنازعات البتہ سلیم احمد سے منسوب ہوئے۔ تو یہ بات سلیم احمد خود بھی چاہتے تھے کیوں کہ منمناتی ہوئی بَھلمَنسی اور جماہیاں لیتی دفع الوقتی میں نہ کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے نہ حل ہوتا ہے۔ سلیم احمد ادب میں مسائل اٹھانے، انہیں حل کرنے یا کم سے کم ان کی Anatonmy سمجھنے کے قائل تھے انہیں متنازع تو بننا ہی تھا۔

    مگر ایک بات اب متنازع نہیں ہے۔ وہ یہ کہ سلیم احمد برگد کا چھتنار تھے۔ کتنی ہی یادوں کے محیط میں تادیر وہ اپنی چھاﺅں پھیلاتے رہیں گے۔ رہے نام سائیں کا۔

    (از: اسد محمد خان)

  • "ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے!”

    "ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے!”

    اردو ادب میں ڈاکٹر داؤد رہبر کا نام ایسے قلم کار کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی عمر کا کم و بیش سارا شعوری حصّہ علم و ادب کی تحصیل، جمع و تدوین، تخلیق، تشریح و وضاحت میں گزرا۔ وہ دیارِ غیر میں رہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنی مٹّی اور یہاں تمدن کے ساتھ اقدار اور ثقافت کے حوالے سے تشنگی بھی ان کی تحریروں سے جھلکتی ہے۔

    اردو زبان کے اس نام ور ادیب، ماہرِ موسیقی اور شاعر نے امریکا میں رہتے ہوئے جب اپنی کتاب پراگندہ طبع لوگ پیش کی تو اس میں ’’مہاجرت‘‘ کا دکھ بھی ظاہر ہوگیا۔ یہاں جو اقتباس ہم پیش کررہے ہیں، وہ اسی دکھ اور حسرت کا اظہار ہے۔

    ” امریکا میں جس چیز کو میں ترسا ہوا ہوں، وہ ہے گرمیِ قلب۔ سچی بات کیوں نہ کہہ دوں، یورپ کی اقوام نے (جن میں اہلِ امریکا شامل ہیں) صاحب دماغی تو ایسی دکھائی ہے کہ قدرت بھی انگشت بدنداں ہے، لیکن صاحب دلی ان اقوام میں کم یاب ہے، مجھے انگلستان اور امریکا میں مسلسل یہ محسوس ہوا کہ میرے مغربی ہم نشینوں کے دلوں کی بیٹریاں کمزور ہیں اور اہلِ مشرق کے دلوں سے تار جوڑ کر یہ اپنی بیٹریاں چارج کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔”

    "انصافاً یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ اہلِ مشرق کی روحانی بیٹریوں کی طاقت بھی اب جواب دینے کو ہے، تاہم ہمارے ہاں دل اب بھی گرم ہیں، سرد نہیں ہوئے۔ ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے۔”

    "میرا تو اب یہ حال ہے کہ ہر ہم جنس کو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ معانقہ آمادہ آدمی ہے یا دھکا آمادہ؟ جو نگاہ مجھ سے کہے دفع ہو جا، میں اس کی طرف اپنی نگاہ دوسری بار کیوں اُٹھاؤں، انگریز دو سو سال ہندوستان پر قابض رہا، میرا گمان غلط نہیں کہ دو سو سال میں ہمارے دیس کے لوگوں اور انگریزوں کے درمیان دو سو معانقے بھی نہ ہوئے ہوں گے۔”

  • سوانح عمری اور آپ بیتی لکھنے کا فن

    سوانح عمری اور آپ بیتی لکھنے کا فن

    اردو ادب میں سوانح عمری لکھنے کی روایت پرانی ہے۔ حالی کی یادگارِ غالب، حیاتِ جاوید، شبلی نعمانی کی سیرۃُ النّبی، الفاروق، المامون، النّعمان ،الغزالی، سوانح مولانا روم، مولانا سیّد سلیمان ندوی کی حیاتِ شبلی ، سیرتِ عائشہ سوانحی حالات و کوائف سے بھری ہوئی مکمل سیرتیں ہیں۔

    ناقدوں کی رائے ہے کہ خود نوشت سوانح حیات انسانی زندگی کی وہ روداد ہے، جسے وہ خود رقم کرتا ہے اور اس میں سوانح حیات کی کسی دوسری شکل سے زیادہ سچائی ہونا چاہیے، اگر کوئی کسر رہ جائے یا مبالغہ در آئے تو وہ اچھی خود نوشت قرار نہیں پاتی۔

    خود نوشت سوانح کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ صرف ناموں کی کتھونی نہ ہو، اس میں تاریخ، سماج اور ادب کی آمیزش بھی نظر آئے، حقیقت دل کش پیرایہ میں بیان ہو، فنِ اظہار ذات کا دوسرا نام ہے، خود نوشت کا تعلق انسان کے گہرے داخلی جذبات سے ہے۔

    لہٰذا اسے فن کی اعلیٰ قدروں کا حامل ہونا چاہیے، اسی لیے خود نوشت لکھنا سوانح لکھنے سے زیادہ مشکل فن مانا جاتا ہے۔ ایک معیاری خود نوشت کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف کسی فرد کے بارے میں بیان نہ کرے، اس کے ماحول، عہد، اس دور کے رجحانات و میلانات اور معاشرتی، معاشی، ادبی اور تہذیبی پہلوؤں کو بھی سامنے لائے تاکہ اس عہد کا پورا منظر نامہ سامنے آ جائے جس میں شخص مذکور نے اپنی زندگی گزاری اور اس کی شخصیت تشکیل پائی، اس کے برعکس خود پر توجہ مرکوز کرنے سے بات نہیں بنتی، خود نوشت نگاری کا یہ بڑا نازک مقام ہوتا ہے کہ کوئی فرد اپنی شخصیت کو خود سے جدا کر کے معروضیت سے کام لے اور بے لاگ پیرایہ میں اپنی زندگی کی داستان بیان کر دے۔

    یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں خود نوشت یا آپ بیتیاں کم سپردِ قلم کی گئیں اور جو لکھی گئیں ان میں سے بیشتر مذکورہ شرائط پر پوری نہیں اترتیں۔ اردو سے پہلے فارسی میں آپ بیتی کی روایت موجود تھی۔ بادشاہوں کے حالاتِ زندگی اور صوفیائے کرام کے ملفوظات میں آپ بیتی کے ابتدائی نقوش مل جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ شیخ حزیں، میر تقی میر نے بھی فارسی میں آپ بیتی لکھی ہے۔ لیکن اردو میں آپ بیتی کے فن کو 1857ء کے خونی انقلاب کے بعد فروغ ملا۔ جب اس معرکہ کے مجاہدوں اور سپاہیوں نے اپنی یادداشتیں لکھیں، ان کے علاوہ جعفر تھانیسری کی آپ بیتی ‘تواریخِ عجیب’ (کالا پانی)، نواب صدیق حسن خاں کی ‘البقاء لمن بالقا المحن’، ظہیر دہلوی کی ‘داستانِ غدر’ اور عبدالغفور نساخ کی ‘حیات نساخ’ سپردِ قلم کی گئیں۔ جن میں ‘حیات نساخ ‘ کو اردو ادب کی پہلی آپ بیتی تسلیم کیا جاتا ہے۔

    آزادی کے بعد حسرت موہانی کی ‘قیدِ فرنگ’ مولانا ابوالکلام آزاد کی ‘تذکرہ’ دیوان سنگھ مفتون کی ‘ناقابلِ فراموش’ معیاری خود نوشتوں میں شمار کرنے کے لائق ہیں۔

    ‘کاروانِ زندگی’ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی خود نوشت کئی جلدوں پر محیط اور اپنے پورے عہد کی معلومات فراہم کرتی ہے۔ ‘کاروانِ حیات’ قاضی اطہر مبارکپوری کی خود نوشت مختصر اور کتابی شکل میں غیر مطبوعہ ہے جو ماہنامہ ‘ضیاء الاسلام’ میں شائع ہوئی ہے۔ خواجہ حسن کی نظامی کی ‘آپ بیتی’، چودھری فضلِ حق کی ‘میرا افسانہ، بیگم انیس قدوائی کی ‘نیرنگیٔ بخت’، مولانا حسین احمد مدنی کی ‘نقشِ حیات’، رضا علی کی ‘اعمال نامہ’، کلیم الدین احمد کی ‘اپنی تلاش میں’، یوسف حسین خاں کی ‘یادوں کی دنیا’ بھی قابلِ ذکر خود نوشتیں ہیں۔

    رشید احمد صدیقی کے باغ و بہار قلم نے ‘آشفتہ بیانی میری’ میں بچپن کے حالات، ابتدائی تعلیم، خاندان کی معلومات تو کم لکھیں، اپنے وطن جونپور کی تاریخ و تہذیب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کا نصف سے زیادہ حصہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے زمانۂ تعلیم کی سرگرمیوں پر مشتمل ہے جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین، اقبال سہیل، ثاقب صدیقی جیسی شخصیات سے ان کے رشتہ پر روشنی پڑتی ہے۔

    ان کے علاوہ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی ‘یادوں کا جشن’ میں ان کے خاندانی احوال، فارغ البالی، رئیسانہ مشاغل کا تفصیلی بیان ہے۔ وزیر آغاز کی ‘شام کی منڈیر سے’ ان کی نجی زندگی کے ساتھ پورے عہد کے اہم واقعات پر محیط ہے۔ رفعت سروش کی ‘ممبئی کی بزم آرائیاں’ میں ان کی زندگی، نوکری اور ترقی پسند تحریک کے حوالے کافی معلومات فراہم کی گئی ہے۔ اخترُ الایمان کی ‘اس آباد خرابے میں’ زندگی کے واقعات و مسائل کے بیان میں جس صداقت سے کام لیا گیا ہے وہ کم خود نوشتوں میں ملتا ہے۔

    (عارف عزیز کے مضمون سے چند پارے، مصنّف کا تعلق بھارت کے شہر بھوپال سے ہے)