Tag: فن و ثقافت

  • ٹوکیو میں فنکاروں  کے بغیر بین الاقوامی فلمی میلے کا آغاز

    ٹوکیو میں فنکاروں کے بغیر بین الاقوامی فلمی میلے کا آغاز

    ٹوکیو: کرونا وبا کے باعث محدود پیمانے پر ایشیا کے سب سے بڑے فلمی میلے ٹوکیو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کا آغاز ہوگیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق اس سال ٹوکیو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول عالمی وبا کے باعث ریڈ کارپٹ پر اداکاروں اور ہدایتکاروں کے عمومی جلوہ افروز ہوئے بغیر شروع ہوا۔

    33 ویں ٹوکیو انٹرنیشنل فلم فیسٹول کی افتتاحی تقریب ٹوکیو انٹرنیشنل فورم میں منعقد ہوئی، اس تقریب کو کافی حد تک محدود کیا گیا، جہاں فنکاروں نے پرستاروں کے ایک بڑے ہجوم کے سامنے بھرپور انداز میں نمودار ہونے کے بجائے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے خیرسگالی جذبات کا اظہار کیا۔

    منتظمین کے مطابق اس سال گرانڈ پرکس مقابلہ منعقد نہیں کیا جائے گا کیونکہ عالمی وبا کی وجہ سے بیرونِ ملک سےانعامی مقابلوں کے ججز شرکت نہیں کر سکتے، حاضرین کے ووٹوں کے ذریعے 32 فلموں میں سے انتخاب کیے جانے والا آڈیئنس ایوارڈ اس میلے کا واحد انعام ہو گا، میلہ 9 نومبر تک جاری رہے گا۔ آڈیئنس ایوارڈ کا اعلان آخری روز کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ ٹوکیو میلے کا سب سے پہلے 1985 میں انعقاد کیا گیا اور 1991 تک ہر دوسال بعد انعقاد کیا جاتا تھا تا ہم اب اس میلے کا ہر سال انعقاد کیا جاتا ہے۔

  • نئی اینیمیٹڈ فلم نے اربوں روپے کمالئے

    نئی اینیمیٹڈ فلم نے اربوں روپے کمالئے

    ٹوکیو: جاپان میں اینیمیٹڈ فلم ڈیمن سلیئر نے باکس آفس پر ریکارڈ قائم کرتے ہوئے دس روز میں 10 ارب ین کمالئے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یہ فلم ایک مشہور مانگا سیریز سے ماخوذ ہے جو ایک ایسے لڑکے کے بارے میں ہے جو جاپان میں ایک صدی قبل جنات سے لڑتا ہے۔

    کِمیتسُو نو یائیبا یا ’ڈیمن سلیئر‘ نامی فلم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس فلم نے دوہزار ایک میں پیش کی گئی تصوّراتی اینیمیٹڈ فلم اِسپریٹیڈ اوے کا سب سے زیادہ بزنس کرنے کیا ریکارڈ پاش پاش کردیا ہے، اِسپریٹیڈ اوے نے پچیس روز میں دس ارب ین کا کاروبار کیا تھا، مگر ڈیمن سلیئر نے یہ ریکارڈ توڑ بزنس صرف دس روز میں حاصل کرلیا ہے۔Demon Slayer Season 2 is on its way! Release date,plot,cast and all other  recent updates are here . - Finance Rewindاس فلم کے منتظمین کا کہنا ہے کہ سولہ سے پچیس اکتوبر کے دوران اس فلم کو تقریباً 80 لاکھ افراد نے سینما گھروں میں دیکھا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً 9 کروڑ 50 لاکھ ین کمالئے گئے ہیں۔

    منتظمین نے اس فلم کی کامیابی کی وجہ تمام عمر کے لوگوں میں اصل کومِک بُک کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ ایک مشہور ٹی وی سیریز کو قرار دیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ یہ فلم اس وجہ سے بھی کامیاب ہوئی ہے کہ اسے سینما گھروں کی بڑی تعداد میں دکھایا جا رہا ہے کیونکہ کرو نا وائرس کی عالمی وبا کے باعث نسبتاً چند فلمیں ہی سینما گھروں میں دستیاب ہیں۔

  • ایوارڈ یافتہ جاپانی اداکارہ گھر میں مردہ پائی گئیں

    ایوارڈ یافتہ جاپانی اداکارہ گھر میں مردہ پائی گئیں

    ٹوکیو: ایوارڈ یافتہ جاپانی اداکارہ یوکو ٹیکوچی ٹوکیو میں اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائی گئیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق جاپانی اداکارہ یوکو ٹیکوچی اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائی گئیں ہیں، پولیس نے تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے شبہ ظاہر کیا ہے کہ 2 بچوں کی ماں ٹیکوچی نے خود کشی کی ہے۔

    میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اداکارہ کی لاش سب سے پہلے ان کے شوہر نقابایشی نے دیکھی تھی، جس پر انھوں نے پولیس کو اطلاع دی اور پھر اسپتال منتقلی کے بعد ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔

    واضح رہے کہ حال ہی میں متعدد جاپانی فلمی اسٹارز خود کشی کر چکے ہیں، تاہم ٹیکوچی کی موت کے بارے میں ابھی خود کشی کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے، جاپانی میڈیا کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں اداکارہ سی اشینہ، جولائی میں اداکار ہروما میورا اور مئی میں ریسلنگ اسٹار ہانا کمورا نے بھی خود کشی کی تھی۔

    جاپانی اداکارہ یوکو ٹیکوچی

    یوکو ٹیکوچی کی پروموشن ایجنسی نے ان کی موت کی خبر کو حیران کن اور غمگین قرار دیا،اداکارہ کی عمر 40 برس تھی، انھوں نے 2004 سے 2007 کے درمیان لگاتار تین سال تک جاپان کے اکیڈمی ایوارڈز میں بہترین اداکارہ کا اعزاز حاصل کیا۔

    1998 میں جب ان کی جاپانی ڈراؤنی فلم ’رنگو‘ ریلیز ہوئی تو ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے، ہالی ووڈ نے بھی اس فلم کو 2002 میں دی رنگ کے ٹائٹل سے پروڈیوس کیا۔ یوکو ٹٰیکوچی 2018 میں مس شرلاک سیریز میں بھی لیڈی شرلاک ہومز کا کردار نبھا چکی ہیں، جس سے ان کی شہرت امریکا سمیت دیگر ممالک میں پھیل گئی۔

    خیال رہے کہ جاپان میں خود کشی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے لیکن عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2015 میں انسدادی اقدامات متعارف کرائے جانے کے بعد جاپان میں خود کشی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔

  • اینا مولکا: پاکستان میں مصوری کے شعبے کا اہم نام

    اینا مولکا: پاکستان میں مصوری کے شعبے کا اہم نام

    اینا مولکا کا نام پاکستان میں مصوری اور یہاں فائن آرٹ کے شعبے میں تعلیم کے آغاز اور اسے فروغ دینے کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    آج پاکستان کی اس نام ور مصورہ کا یومِ وفات ہے۔ اینا مولکا نے 1917 میں ایک یہودی جوڑے کے گھر میں آنکھ کھولی جو ان دنوں لندن میں مقیم تھا۔ بعد میں اینا مولکا نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی زندگی پاکستان میں گزری۔

    اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ابتدائی تعلیم کے بعد اینا مولکا کی زندگی میں اس وقت اہم موڑ آیا جب انھوں نے رائل کالج آف آرٹس، لندن میں داخلہ لیا۔ یہ 1935 کی بات ہے۔ یہیں ان کی ملاقات شیخ احمد سے ہوئی جو خود بھی مصور تھے اور ان کا تعلق متحدہ ہندوستان سے تھا۔

    1939 میں اینا مولکا نے کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے اسی ہم جماعت شیخ احمد سے شادی کرلی اور اینا مولکا احمد بن کر ان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں۔ شیخ احمد کے ساتھ لاہور میں رہتے ہوئے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فنونِ لطیفہ کی بنیاد رکھی۔ اینا مولکا 1940 سے 1972 تک اس شعبے کی چیئرپرسن رہیں۔

    فن کی دنیا میں اس وقت کے باذوق افراد اور ناقدین نے ان کے کام کو سراہا اور ان اسے شہرت ملی، ان کے ہاں یورپی مصوروں طرزِ فن نظر آتا ہے جس میں برش کے چھوٹے چھوٹے اسٹروکس سے تصویر مکمل کی جاتی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اینا مولکا کو مصوری کے شعبے میں خدمات کے اعتراف کے طور پر تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    20 اپریل 1995 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ انھیں‌ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔

    2006 میں پاکستان کے دس بہترین مصوروں کی یاد میں جاری کیے گئے ٹکٹ میں اینا مولکا بھی کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

  • فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    روزنامہ امروز کی ادارت کے دنوں میں ڈاکٹر فقیر صاحب سے آئے دن میری ملاقات رہتی تھی۔

    وہ ایک وجہیہ انسان تھے اور ان کے باطن میں لہریں لیتی ہوئی محبت، ان کے چہرے پر ایک مستقل میٹھی مسکراہٹ کی صورت میں موجود رہتی تھی۔

    جب میں نے ان کی زبان سے ان کا کلام سنتا تو اندازہ ہوتا کہ یہ شخص کیسے ڈوب کر شعر کہتا ہے اور اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ بلاغت کی شعاعیں بکھیرتا محسوس ہوتا ہے۔

    پنجابی ہونے کے باوجود مجھے ان کے اشعار کے بعض الفاظ کے معنیٰ سمجھنے میں دقت ہوتی تھی اور میں برملا اپنی اس مشکل کا اظہار کر دیتا تھا۔

    وہ کھل کر مسکراتے اور مجھے ان الفاظ کے معنیٰ بتاتے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتے چلے جاتے تھے کہ یہ لفظ گوجرانوالہ کے علاقے میں تو اسی طرح بولا جاتا ہے جیسا میں نے استعمال کیا ہے، مگر شیخوپورہ، سیالکوٹ، گجرات، لائل پور (فیصل آباد)، جھنگ اور منٹگمری (ساہیوال) اور ملتان میں اس کا تلفظ بھی مختلف ہے اور اس کے معنیٰ میں بھی ہلکا ہلکا پیاز کے چھلکے کے برابر اختلاف ہے۔

    کسی ایک لفظ کے بارے میں میرا استفسار ان سے پنجابی زبان اور روز مرہ سے متعلق باقاعدہ ایک بلیغ تقریر برآمد کروا لیتا تھا اور مجھے اپنی معلومات میں اس اضافے سے تسکین محسوس ہوتی تھی۔

    مولانا عبدالمجید سالک جیسے اردو کے اتنے بڑے ادیب اور اخبار نویس اور شاعر کی پنجابی دوستی کا اصل محرک ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی شخصیت تھی۔

    ڈاکٹر صاحب کے پا س پنجابی الفاظ کا بے حد ذخیرہ تھا۔ وہ جب بھی گفتگو فرماتے تھے یا اپنا کلام مجھے سناتے تو مجھے سید وارث شاہ کا شاہ کار یاد آجاتا۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور محقق فقیر محمد فقیر کو خاص طور پر پنجابی ادب اور زبان کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان کے بارے میں یہ سطور مشہور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ایک مضمون سے منتخب کی گئی ہیں)

  • خوشی کا ماسک…

    خوشی کا ماسک…

    میں بندرگاہ کے کنارے کھڑا ان سمندری پرندوں کو دیکھ رہا تھا جو بار بار پانی میں غوطہ لگاتے اور بھیگتے ہوئے جسموں سے پانی جھاڑنے کے لیے اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے تھے۔

    ان کے پروں سے پانی پھولوں پر شبنم کی طرح ٹپک رہا تھا۔ میں محویت سے ان کا یہ کھیل دیکھ رہا تھا۔ سمندر کی سطح پر پھیلے ہوئے تیل نے سطح کو مزید چمک دار اور گہرا بنا دیا تھا۔ اردگرد کوئی جہاز نہیں تھا۔

    بندرگاہ پر کھڑی زنگ آلود کرینیں خاموش دکھائی دیتی تھیں۔ ساحلی عمارتوں پر سنسان ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ ویرانی کا یہ عالم کہ چوہے بھی اندر داخل ہوتے ہوئے گھبرائیں، لگتا تھا اس ساحل پر غیر ملکی جہازوں کی آمدورفت پر قد غن ہے۔

    یکایک ایک پرندہ ڈبکی لگا کر پھڑ پھڑاتا ہوا اڑا اور فضا میں بلند ہوکر دوبارہ سمندر میں غوطہ زن ہوا۔ لمحہ بھر بعد اس نے پھر گردن تک غوطہ لگایا اور پَر پھڑپھڑا کر، اپنا بدن ہولے ہولے تولتے ہوئے پرواز کی تیاری کرنے لگا۔

    میں نے محسوس کیا کہ اسے پانی سے چھیڑ چھاڑ میں مزہ آرہا ہے۔ اس وقت اسے خوراک کی طلب ہورہی تھی۔ جب تک سانس اس کا ساتھ دیتا، وہ پانی میں گردن ڈالے رکھتا لیکن اس کی چونچ شکار سے محروم رہتی۔ وہ ہمت نہ ہارتا۔

    میں دل میں سوچنے لگا کہ کاش میرے پاس اس وقت ڈبل روٹی کا ٹکرا ہوتا تو میں اسے یوں تھکنے، بھٹکنے اور تڑپنے نہ دیتا لیکن میں بذات خود بھوک سے بے تاب اور اس پرندے کی طرح بے بس تھا۔

    میں نے اپنے ہاتھ خالی جیبوں میں ڈال لیے اور اپنی خواہش دل میں دبا لی۔ دفعتاً کسی نے میرے کندھے پر زور سے اپنا ہاتھ رکھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، وہ ایک پولیس والا تھا۔

    مجھے اس کی یہ دخل اندازی بری لگی۔ جی چاہا اس کا ہاتھ جھٹک دوں اور دوبارہ معصوم پرندے کا نظارہ کرنے لگوں۔ اس وقت تک، جب تک اس پرندے کی چونچ میں خوراک کا کوئی ٹکڑا نہ آجائے لیکن اب تو میں خود اس سپاہی کے شکنجے میں شکار کی طرح پھنسا ہوا تھا۔

    ”کامریڈ“! اس نے میرے کندھے پر دباؤ ڈال کر کہا۔

    ”جی جناب!“ میں نے عاجزی سے جواب دیا۔

    ”جناب؟ جناب کوئی لفظ نہیں، یہاں سب لوگ کامریڈ ہیں۔“ اس کی آواز میں واضح طنز تھا۔

    ”آپ نے مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے؟ کیا مجھ سے کوئی جرم سرزد ہوگیا ہے؟“

    وہ مسکرایا۔”تم مغموم نظر آتے ہو۔“ اس کی بات سن کر میں کھلکھلا کر ہنسا۔

    ”اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟“ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا۔

    میں سوچ رہا تھا کہ شاید وہ اس وقت بیزاریت کا شکار ہے اس لیے غصہ دکھا رہا ہے۔ آج شاید ساحل پر اسے کوئی شکار نہیں ملا۔ نہ کوئی نشے میں دھت مئے نوش اور نہ کوئی جیب تراش۔ لیکن چند لمحوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ واقعی غصّے میں ہے۔

    اب اس نے دوسرا ہاتھ بھی بڑھایا اور مجھے قابو کرلیا۔ اس وقت میری حالت اس پرندے جیسی تھی جو جال میں پھنس گیا ہو اور نکلنے کے لیے پھڑپھڑا رہا ہو۔ اس کی گرفت میں پھنسے ہوئے سمندر کو اپنی نظروں میں سمویا اور اپنے صیاد کے پہلو میں چلنے لگا۔

    پولیس کی گرفت میں آنے کا مطلب یہی ہے کہ اب لمبے عرصے کے لیے تاریکی میں دھکیل دیا جائے۔ جیل کا خیال آتے ہی میں اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آگیا اور ہکلاتے ہوئے کہا۔

    ”کامریڈ، میر اقصور تو بتائیے؟“

    ”قصور! اس ملک کا قانون یہ ہے کہ ہر شخص ہر وقت خوش نظر آئے۔“

    ”لیکن میں تو بے حد مسرور ہوں۔“ میں نے پورے جوش و جذبے سے جواب دیا۔
    ”بالکل غلط ۔“

    ”لیکن میں تو ملک میں رائج اس قانون سے ناواقف ہوں۔“

    ”کیوں؟ اس قانون کا اعلان چھتیس گھنٹے پہلے ہوا ہے۔ تم نے کیوں نہیں سنا؟ چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد ہر اعلان قانون میں بدل جاتا ہے۔“

    وہ اب بھی مجھے اپنے ساتھ گھسیٹے جارہا تھا۔ شدید سردی کے سبب میں بری طرح کانپ رہا تھا۔ بھوک نے الگ ستا رکھا تھا۔ میرا لباس جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا، شیو بڑھی ہوئی تھی، جب کہ اعلان کے مطابق ہر آدمی پر لازم تھا کہ وہ ہشاش بشاش نظر آئے۔

    تو یہ تھا میرا جرم……!

    تھانے جاتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ہر راہ گیر نے خوشی کا ماسک منہ پر چڑھا رکھا ہے۔ ہمیں دیکھ کر کئی راہ گیر رک جاتے۔ سپاہی ہررک جانے والے کے کان میں کچھ کہتا تو اس کا چہرہ مسرت سے چمکنے لگتا حالاں کہ مجھے لگ رہا تھا کہ ہر کوئی بولایا بولایا پھر رہا ہے۔

    صاف لگ رہا تھا کہ ہر کوئی پولیس والے کی نظروں سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

    ایک چوراہے پر ہماری ایک بوڑھے سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ وہ حلیے سے کوئی اسکول ماسٹر لگ رہا تھا، ہم اس کے اتنا قریب پہنچ چکے تھے کہ وہ بچ نکلنے سے قاصر تھا۔

    قاعدے کے مطابق اس نے بڑے احترام سے سپاہی کو سلام کیا اور میرے منہ پر تین بار تھوک کر کہا۔

    ”غدار کہیں کا۔“ اس کی اس حرکت سے قانون کے تقاضے تو پورے ہو گئے، مگر مجھے صاف محسوس ہوا کہ اس فرض کی ادائیگی سے اس کا گلا خشک ہوگیا ہے۔

    میں نے آستین سے تھوک صاف کرنے کی جسارت کی تو میری کمر پر زور دار مکّا پڑا۔ میں نے اپنی سزا کی طرف قدم بڑھا دیا۔

    اسکول ماسٹر تیز قدموں سے چلتا ہوا کہیں غائب ہوگیا۔ آخر ہم تفتیش گاہ پہنچ گئے۔ یکایک بیل بجنے کی آواز آئی جس کا مفہوم یہ تھا کہ سب مزدور اپنے اپنے کام چھوڑ دیں اور نہا دھوکر، صاف لباس پہن کر خوش و خرم نظر آئیں۔

    قانون کے مطابق فیکٹری سے باہر نکلنے والا ہر مزدور خوش نظر آرہا تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ اس خوشی سے یہ تاثر ملے کہ وہ کام سے چھٹکارا پاکر بغلیں بجارہا ہے۔

    میری خوش بختی کہ بگل دس منٹ پہلے بجا دیا گیا۔ شکر ہے یہ دس منٹ مزدوروں نے ہاتھ منہ دھونے میں صرف کیے ورنہ قاعدے کے مطابق میں جس مزدور کے سامنے سے گزرتا، وہ تین مرتبہ میرے منہ پر تھوکتا۔

    مجھے جس عمارت میں لے جایا گیا تھا وہ سرخ پتھروں کی بنی ہوئی تھی۔ دو سپاہی دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ انہوں نے بھی میری پیٹھ پر اپنی بندوقوں کے بٹ رسید کیے۔

    اندر ایک بڑی سی میز تھی جس کے پاس دو کرسیاں پڑی تھیں اور میز پر ٹیلی فون پڑا تھا، مجھے کمرے کے وسط میں کھڑا کردیا گیا۔

    میز کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اور ایک اور شخص خاموشی سے اندر آیا اور اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ وہ سادہ لباس پہنے ہوئے تھا، جب کہ دوسرا فوجی وردی میں ملبوس تھا۔ اب مجھ سے تفتیش شروع ہوئی۔

    ”تم کیا کرتے ہو؟“

    ”ایک عام کامریڈ ہوں۔“

    ”تاریخِ پیدائش۔“

    یکم جنوری، 1901ء“

    ”یہاں کیا کررہے ہو؟“

    ”جی، میں ایک جیل میں قید تھا۔“ میرا جواب سن کر دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے۔

    ”کس جیل میں؟“

    ”جیل نمبر 12، کوٹھری نمبر 13۔ میں نے کل ہی رہائی پائی ہے۔“

    ”رہائی کا پروانہ کہاں ہے؟“ میں نے رہائی کے کاغذات نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے۔

    ”تمہارا جرم کیا تھا؟“

    ”جی میں ان دنوں خوش خوش دکھائی دے رہا تھا۔“ وہ دونوں پھر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

    ”کھل کر بات کرو۔“

    ”اس روز ایک بہت بڑا سرکاری افسر انتقال کر گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اعلان ہوا کہ سب لوگ سوگ میں شامل ہوں گے۔

    مجھے اس افسر سے کوئی دل چسپی نہ تھی اس لیے الگ تھلگ رہا۔ ایک پولیس والے نے مجھے یہ کہہ کراندر کروا دیا کہ میں سوگ میں ڈوبے عوام سے الگ تھلگ خوشیاں منا رہا تھا۔“

    ”تمہیں کتنی سزا ہوئی؟“

    ”پانچ سال قید…“ جلد ہی میرا فیصلہ سنا دیا گیا۔

    اس بار دس سال قید کی سزا ہوئی تھی۔

    جی ہاں! خوشی سے کھلا ہوا چہرہ میرے لیے پانچ سال قید کا موجب بنا اور اب میرے مغموم چہرے نے مجھے دس سال کی سزا دلا ئی تھی۔

    میں سوچنے لگا کہ جب مجھے رہائی نصیب ہوگی تو شاید میرا کوئی چہرہ ہی نہ ہو۔

    نہ خوش و خرّم، نہ مغموم اور اداس چہرہ۔

    (یہ کہانی جرمن ادیب ہینرخ بوئل کی تخلیق ہے، اس کا اصل عنوان ” خلافِ ضابطہ” ہے)

  • دستاویز

    دستاویز

    ہمارا خاندان نسلوں سے نیو یارک میں آباد ہے۔ میرا نام انتھونی پورٹر ہے، یہ نام میرے دادا کے نام پر رکھا گیا تھا۔

    21 دسمبر 1820 کی بات ہے۔ ویرک اسٹریٹ پر واقع مورٹیئر ہاؤس، چارلٹن کے آخری گوشے میں منتقل کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ اب نیو یارک کے وسط میں آگیا ہے۔ منتقلی کے موقع پر میرے دادا انتھونی پورٹر نے اپنے ملازموں کی خدمات مستعار دی تھیں۔

    اس پرانی حویلی کو ایک اعزاز حاصل تھا، یہ جون 1776 سے ستمبر 1776 تک جارج واشنگٹن کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کی گئی تھی۔ منتقلی کے موقع پر باورچی خانے کی چمنی کی ایک اینٹ اکھڑی ہوئی تھی، اس کے پیچھے سے ایک خط ملا تھا۔

    یہ خط لیفٹیننٹ جنرل سر ولیم ہوو کے نام تحریر کیا گیا تھا۔ خط پر 29 جولائی 1776 کی تاریخ پڑی تھی۔ سَر ولیم ان برطانوی فوجوں کے کمانڈر تھے جو نیویارک کے اطراف میں جمع تھیں۔

    نامعلوم وجوہ سے وہ انگریز قاصد یہ خط نکالنے سے قاصر رہا جو اسے خفیہ مقام سے نکال کر منزل تک پہنچانے کا ذمے دار تھا، اس طرح یہ خط کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکا۔

    میرے آبا و اجداد یہ خط ایک یادگار کے طور پر محفوظ کیے ہوئے تھے مگر بعد کی نسلیں ماضی کے بجائے مستقبل پر زیادہ نگاہ رکھتی تھیں۔ لہٰذا خاندان کے دیگر اہم کاغذات کے ساتھ اس خط پر بھی مٹی جمتی رہی۔

    میں چوں کہ اپنی نسل کا آخری فرد تھا اور میں نے شادی بھی نہیں کی تھی اس لیے میرا شجرہ آگے بڑھنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اسی بنا پر میری دل چسپی اپنے بزرگوں کے ادوار اور ان کی نشانیوں سے بڑھتی رہی۔

    پہلی ہی بار اس خط کے متن نے مجھے متاثر بھی کیا تھا اور الجھن میں بھی ڈال دیا تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا۔

    عزت مآب، عالی جناب جنرل صاحب!

    جب یہ خط آپ تک پہنچے گا آپ اس خط کی ایک اہم اطلاع سے با خبر ہوچکے ہوں گے یعنی ہمارا دشمن جارج واشنگٹن مرچکا ہوگا اس کے مرنے کے بعد ان کی فوج کی حیثیت ایک ایسی ناگن جیسی رہ جائے گی جس کا سر قلم کردیا گیا ہو۔

    دشمن کو کچلنے کے لیے طاقت استعمال کرنی پڑے گی لیکن اس میں کیا مضائقہ ہے۔ امید ہے، سورج غروب ہونے تک دشمن کا بالکل صفایا کردیا جائے گا۔ اس وقت تک میں بھی مرچکا ہوں گا لیکن یہ بات میرے اور میرے خاندان کے سوا کسی کے لیے اہم نہیں ہوگی۔

    میں جنرل واشنگٹن کے ادارے میں باورچی کی حیثیت سے ملازم ہوں اور پہلے بھی آپ کو باغیوں کے منصوبوں اور ان کی صف بندی کے بارے میں خبریں بھیجتا رہا ہوں اور یہ میرے اور میری نسلوں کے لیے باعثِ صد افتخار ہے کہ مجھے تاجِ برطانیہ کے لیے ایک انتہائی اہم خدمت انجام دینے کا موقع میسر آرہا ہے۔

    جنرل واشنگٹن ایک تنہائی پسند شخص ہے اور اپنے دانتوں کی تکلیف کی وجہ سے اکثر تنہا کھانا کھاتا ہے۔ حال میں سردی لگنے سے اس کے سر میں بھی تکلیف شروع ہوگئی، سر درد نے اس کے ذائقے کی حس بری طرح متاثر کی ہے۔

    آج رات کے کھانے میں، میں نے اس کے لیے بچھیا کا گوشت پیاز اور آلو پکائے ہیں اور ساتھ ہی اپنا ایک خاص جزو بھی کھانے میں شامل کیا ہے۔ یہ ایک لال پھل ہے جو نائٹ شیڈ فیملی کے ایک زہریلے پودے پر اُگتا ہے۔

    جناب والا کو اندازہ ہوگا کہ یہ ایک بے حد مشکل کام ہے، میں ایک باعزت آدمی ہوں، میں نے آج تک کسی کو چوری چھپے یا عیاری سے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اس کے علاوہ میری دانست میں جنرل واشنگٹن ایک عظیم راہ نما ہے، اس کے بلند مرتبے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

    خطرات میں ہوش مندی سے کام لینا اس کا شیوہ ہے، اس کی دیانت داری کی داستانیں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں، اس کی ہمت اور باتدبیری سے آپ خود بھی بہ خوبی واقف ہیں لیکن …… لیکن چوں کہ وہ میرے ملک معظم تاج دار برطانیہ عظمیٰ جارج کی خداداد حکومت کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اس لیے تاج شاہی کے ایک ادنیٰ وفادار کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ میں اپنے طور پر جب بھی مناسب موقع میسر آئے اس کا قصہ پاک کردوں۔

    مجھے ہر چند افسوس بھی ہے کہ میں جارج واشنگٹن، ایک بڑے آدمی کی موت کا ذمے دار ہوں گا، لیکن یہ احساس میرے افسوس پر غالب آجائے گا کہ میں نے یہ کام خدا، ملکِ معظم اور اپنے عظیم ملک کے لیے انجام دیا ہے۔

    یہاں سے چند سطریں خالی تھیں جیسے خط نا مکمل چھوڑ دیا گیا ہو۔ اس کے بعد خط دوبارہ لکھا گیا تھا۔

    شکر ہے میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ میں نے جنرل کی موت اس کے خاص خادم کے ہاتھوں میں پہنچا دی ہے اور اس طرح میں نے اپنے بادشاہ (خدا اسے تا قیامت سلامت رکھے) سے کیا ہوا عہد پورا کر دیا ہے۔ اب مجھے اپنے کام کا آغاز کرنا ہے۔ میں یہ خط مقرر کردہ جگہ پر رکھ دوں گا۔

    چوں کہ مجھے جنرل کے حامیوں کی جانب سے وحشیانہ انتقام کا خطرہ ہے چناں چہ اپنی جان خود لے رہا ہوں۔ زہر کھانے پر میری طبیعت مائل نہیں ہے۔ اپنے فربہ جسم کی وجہ سے میں گلے میں پھندا ڈال کر لٹکنے سے بھی قاصر ہوں البتہ چاقو کے استعمال میں مجھے خاصی مہارت حاصل ہے لہٰذا اسی کو ترجیح دے رہا ہوں۔

    الوداع، میری درخواست ہے کہ میرے بعد میرے بیوی بچوں کو کوئی مشکل پیش نہ آنے پائے۔ میں انھیں تاج دار برطانیہ جارج کی سخاوت کے نام پر اور سر ولیم آپ کی پناہ میں چھوڑے جارہا ہوں۔ میرے بعد میری شہرت اس بات کا ثبوت ہوگی کہ میں نے آپ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، میں بہ صمیم قلب و دماغ اپنے ملک، اپنے بادشاہ اور آپ کی اقبال مندی کے لیے دعا گو ہوں۔

    مجھے فخر ہے کہ میں ہمیشہ آپ سب کا وفادار رہا ہوں۔

    آپ کا حقیر ترین تابع
    جیمز بیلی

    اس خط میں جولیس سیزر کے قتل کی تاریخ کے سب سے اہم قتل کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں لیکن مشکل یہ تھی کہ یہ واقعہ کبھی پیش نہیں آیا، ہم سب جانتے ہیں کہ جارج واشنگٹن اس کے بعد پورے تئیس برس یعنی 1799 تک زندہ رہا اور اس بات کا کہیں کوئی نشان نہیں ہے کہ 1776 میں اس کی جان لینے کی کوئی ناکام کوشش بھی کی گئی ہو۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جیمز بیلی نے اس مفروضہ قتل کی انتقامی کارروائی کے خوف اور ندامت کے باعث خود کو ہلاک کرلیا تھا۔

    اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے جرم کی سزا دے ڈالی جو اس نے کیا ہی نہیں تھا، میں نے خود کو اس تناقص کی توجہیہ کے لیے وقف کردیا کب کوئی قتل، قتل نہیں ہوتا؟

    یہ سوال بچوں کی پہیلیوں کے مانند میرے ذہن میں گردش کرتا رہاکہ کب کوئی زہر، زہر نہیں ہوتا؟ پھر میں نے اپنی توجہ اس پھل پر مرکوز کردی جس کا تذکرہ جیمز بیلی نے اپنے خط میں کیا تھا۔

    لال پھل؟ میری نگاہ میں یہی ایک کلید تھی، میں نے اپنی تحقیق کا آغاز اسی سے کیا۔

    آخر میں نائٹ شیڈ فیملی کا ایک ایسا پودا اور دریافت کرنے میں کام یاب ہوگیا جس پر لال پھل اُگتے تھے۔

    امریکا میں یہ پھل 1882 تک زہریلا سمجھا جاتا تھا۔ یہ پھل جب بھی موجود تھا اور آج بھی دنیا کے ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔ اسے ہم سب ٹماٹر کے نام سے جانتے ہیں۔

    (رچرڈ ایم گورڈن کی اس کہانی کو رابعہ سلطانہ نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے)

  • تھیٹر کا عالمی دن: زندگی کو پردے پر پیش کرنے والا فن

    تھیٹر کا عالمی دن: زندگی کو پردے پر پیش کرنے والا فن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تھیٹر کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تھیٹر پر ہونے والے ڈرامے، رقص اور موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں نظریات، خیالات اور موضوعات کا تبادلہ کرنا ہے۔

    تھیٹر ڈرامے کو ناٹک رچانا، سوانگ بھرنا یا تمثیل نگاری بھی کہا جاتا ہے۔ انسان اس بات سے لاعلم ہے کہ تاریخ انسانی کا پہلا ڈرامہ کب پیش کیا گیا تاہم دنیا کی تمام تہذیبوں، رومی، یونانی، چینی، جاپانی اور افریقی تہذیبوں میں تھیٹر کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے۔

    برصغیر کا تھیٹر

    برصغیر میں تھیٹر کی ابتدا سنسکرت تھیٹر سے ہوئی۔ اس وقت بادشاہوں کے زیر سرپرستی مذہبی داستانوں پر مبنی کھیل پیش کیے جاتے تھے جن کا مقصد تفریح اور تعلیم دونوں تھا۔ اس زمانے کا ایک معروف نام کالی داس کا ہے جن کے لکھے گئے ڈرامے شکنتلا نے ہر دور اور تہذیب کے ڈرامے پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    سنہ 1855 میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے آغا حسن امانت کا تحریر کردہ ڈرامہ اندر سبھا اسٹیج کیا۔ یہ ایک پری جمال اور شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی منظوم ڈرامہ تھا۔

    بعد ازاں اس تھیٹر نے پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی جو تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر راج کرتا رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ برطانوی راج کے دور میں تھیٹر داستانوں اور تصوراتی کہانیوں سے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کے مصائب کو پیش کرنے لگا۔

    پارسی تھیٹر کے دور کا ایک مشہور و معروف نام آغا حشر کاشمیری ہیں۔ انہیں اردو زبان کا شیکسپئیر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے منظوم ڈرامے لکھے جن میں سے بیشتر فارسی، انگریزی ادب اور ہندو دیو مالا سے متاثر تھے۔

    بیسویں صدی کے وسط میں تھیٹر میں امتیاز علی تاج، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، رفیع پیر اور اپندرناتھ اشک کے ڈرامے پیش کیے جانے لگے۔ سنہ 1932 میں امتیاز علی تاج کا تحریر کردہ ڈرامہ انار کلی اردو ڈرامے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    موجودہ دور میں پاکستان میں ہونے والا تھیٹر اپنے منفرد موضوعات، ہدایت کاری، لائٹنگ، اور پیشکش کے حوالے سے باشعور شائقین کے لیے کشش رکھتا ہے۔