Tag: فن و شخصیت

  • جب مولانا عبد السلام نیازی نے دہریے اور ایک حاجی کی خبر لی!

    جب مولانا عبد السلام نیازی نے دہریے اور ایک حاجی کی خبر لی!

    مولانا عبد السلام نیازی اپنے وقت کے ایک بڑے مفکر و عالم، محقق، اور بزرگ شخصیت گزرے ہیں۔ مولانا سید ابو الاعلٰی مودودی، خواجہ حَسن نظامی، بابا غوث محمد یوسف شاہ تاجی اور جوش ملیح آبادی جیسی علمی، مذہبی و ادبی شخصیات نے ان سے استفادہ کیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد، جواہر لعل نہرو، میر عثمان آف حیدر آباد دکن اور سر مسعود جیسے اکابر شرف یابی کے متمنی رہتے مگر کسی کو درخورِ اعتنا نہ گردانتے۔

    دنیا جہاں کے علوم گھوٹ پی رکھے تھے۔ متروک، غیر متروک زبانوں کے عالمِ بے بدل، حکمت، دین، تصوف، فقہ، ریاضی، ہیئت، تقویم، تنویم، موسیقی، راگ داری، نجوم، علم الانسان، علم الاجسام، علم البیان، معقول و منقول، علم الانساب، عروض و معروض ایسا کون سا علم تھا جہاں وہ حرفِ آخر نہ تھے۔

    جوش صاحب تو مولانا نیازی کے منظور نظر رہے ہیں۔ جوش صاحب خود بھی مولانا کے بہت نیازمند ہوا کرتے تھے۔ مگر جب وہ الحاد کی باتیں کرنے لگتے تو مولانا کا ناریل چٹخ جاتا، کہتے کہ ’’جوش تمہارا دماغ شیطان کی کھڈی ہے۔‘‘

    ایک مرتبہ ایک صاحب نے باقاعدہ اپنی دہریت کا اعلان کر دیا۔ اب مولانا نیازی کا ناریل بڑے زور سے چٹخا۔ بولے ’’دہریہ آدمی یوں نہیں بن جاتا۔ اس کو بہت عالم فاضل ہونا چاہیے، تم کو نہ فلسفہ سے مس ہے، نہ منطق سے آشنا ہو۔ جاہلِ مطلق ہو، تم کیسے دہریے بن جاؤ گے۔ یہاں سے سدھاریے۔

    لوگوں کو معلوم تھا کہ مولانا کا ناریل جب چٹختا ہے تو دو تین بار سدھاریے کہتے ہیں اور پھر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ تو قبل اس کے کہ یہ مرحلہ آئے وہ صاحب سر پہ پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

    خواجہ حسن نظامی نے ایک مرتبہ ان سے فرمائش کی کہ تصوف پر کتاب لکھیے۔ انھوں نے یہ پیش کش قبول کی اور دل لگا کر تصوف پر پوری کتاب لکھ ڈالی۔ خواجہ صاحب کو کتاب بہت پسند آئی مگر چھپنے کے سلسلہ میں شرط یہ پیش کی کہ کتاب میرے نام سے چھپے گی۔ بس مولانا کا ناریل چٹخ گیا۔ انھوں نے مسوّدہ لے کر چاک کیا اور ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ پھر بولے، خواجہ خدا تمہیں خوش رکھے۔ اب تم ہمیں چائے پلواؤ۔

    خلیق انجم اپنے مضمون میں بتاتے ہیں کہ ایک صاحب حج سے واپس آنے کے بعد مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا کو بتانے والوں نے بتایا تھا کہ ان صاحب کی دو کنواری بیٹیاں گھر بیٹھی ہیں۔ یہ قرض لے کر حج پر گئے اور حج کے بعد بھی وہاں خاص وقت گزارا۔ اب واپس آئے ہیں۔ مولانا اس پر ناخوش تھے کہ گھر میں دو جوان بیٹیاں شادی کی منتظر ہوں اور باپ اس فرض کو فراموش کر کے قرض لے کر حج پر چلا جائے۔ یہ غیر شرعی عمل ہے۔

    مولانا نے ان صاحب سے کہا کہ آپ قرض لے کر حج پر گئے جب کہ آپ کی دو بیٹیاں شادی کی منتظر بیٹھی ہیں اور پھر حج کے بعد بھی وہاں اپنے قیام کو اتنا طول دیا۔

    ان صاحب نے جواب دیا، حضرت جب شمع جل رہی ہو تو پروانہ روشنی سے کنارہ کر کے اندھیرے کی طرف کیسے جائے۔

    بس پھر کیا تھا۔ مولانا کا ناریل چٹخ گیا۔ ’’بولے، سالے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اندھیرے میں رہتے ہیں۔ تو قرض لے کر اس روشنی میں گیا تھا۔ چل نکل یہاں سے۔ بس وہ صاحب فوراً ہی رفو چکر ہو گئے۔

    (معروف ادیب، ناول نگار اور کالم نویس انتظار حسین کی ایک تحریر سے اقتباسات)

  • جب فیض‌ کی گاڑی ایک گھر کی دیوار سے جا ٹکرائی!

    جب فیض‌ کی گاڑی ایک گھر کی دیوار سے جا ٹکرائی!

    فیض کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جن کے انقلابی ترانے اور نظمیں آج بھی مقبول ہیں۔

    اپنی فکر اور نظریے کی وجہ سے فیض‌ ہر خاص و عام میں یکساں‌ مقبول ہیں۔ فیض کی زندگی میں بھی ان کے چاہنے والے بے شمار تھے اور آج بھی ان کے فن اور شخصیت کے پرستار ہر سال ان کی یاد میں‌ فیض میلہ سجاتے اور دوسری تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔ کسی کو فیض کی شخصیت میں کشش محسوس ہوتی ہے تو کوئی ان کی نظموں کا اسیر ہے۔ کسی کو ان کی انسان دوستی سے پیار ہے تو کوئی غزلوں کا دیوانہ ہے.

    اردو زبان کے اس عظیم شاعر کے فن اور شخصیت کے علاوہ ان کی زندگی کے کئی اہم اور بعض دل چسپ پہلو بھی مختلف کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ واقعہ جو ہم آپ کے لیے پیش کر رہے ہیں، فیض احمد فیض کی شخصیت کا ایک شگفتہ اور خوش گوار پہلو ہمارے سامنے لاتا ہے۔

    ایک رات فیض خیام سنیما، کراچی کی سڑک سے اپنے گھر لوٹ رہے تھے یا تو ان کی آنکھوں میں نیند ہوگی یا اس وقت ان پر کوئی شعر نازل ہورہا ہوگا۔ ان کی موٹر کی رفتار اچانک تیز ہوگئی، عین اسی وقت ایک طرف سے ایک گدھا گاڑی فراٹے بھرتی نمودار ہوئی، فیض کو فوراً تصفیہ کرنا تھا کہ اپنی موٹر گدھا گاڑی سے ٹکرائیں یا کسی گھر کی دیوار سے؟

    گدھے کو بچانے کی خاطر فیض نے موٹر دیوار سے ٹکرا دی، دیوار کا کچھ حصہ منہدم ہوگیا، اہل خانہ کو معلوم ہوا کہ یہ فیض احمد فیض ہیں تو وہ اپنی دیوار گرنے سے بہت خوش ہوئے کہ کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں۔ دوسرے دن انھوں نے فیض کو کھانے پر مدعو کیا، کلام سنا اور کہا.

    جی تو یہ چاہتا ہے کہ یہ دیوار اسی طرح رہنے دیں کیوں کہ اسے فیض کی موٹر سے ٹکر کھانے کا شرف حاصل ہوا ہے مگر بدنما معلوم ہوگی، اس لیے آپ کی تشریف آوری کی خوشی میں ہم خود یہ دیوار بنوالیں گے آپ زحمت نہ کریں۔