Tag: فن

  • جذبات کو رنگوں کی زبان دینے والا مصور

    جذبات کو رنگوں کی زبان دینے والا مصور

    کینیڈا سے تعلق رکھنے والا الفریڈو کارڈینس مصوری اور فوٹوگرافی کا شوقین تھا۔ اسے فطرت کے قریب رہنا اور اس کا مشاہدہ کرنا اچھا لگتا تھا اور اسی عادت نے اسے ایک منفرد مصور بنادیا۔

    الفریڈو کے مطابق جب وہ جنگل میں وقت گزارا کرتا تھا تو اسے مختلف رنگ نظر آتے۔ سورج اور چاند کی حرکت کے ساتھ ساتھ جنگل اور درختوں کے رنگ بھی بدلتے جاتے جو اسے بہت خوبصورت لگتے۔

    مزید پڑھیں: رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    اسے خیال آیا کہ انسانی جذبات بھی انہی رنگوں کی طرح ہیں جو بدلتے رہتے ہیں اور اسی خیال سے اسے انسانی چہروں کو ایک نئے انداز سے رنگنے کا خیال سوجھا۔

    art-1

    art-2

    art-3

    art-4

    art-5

    art-6

    art-7

    art-8

    الفریڈو نے ان رنگوں کے ذریعے انسانی جذبات کی عکاسی کی کوشش کی ہے۔ اپنی پینٹنگز میں اس نے ایشیائی، افریقی اور مغربی تمام چہروں کو موضوع بنایا ہے۔

  • رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، خواتین کی نمائندگی کے بغیر ادھورا ہے۔ کسی شعبہ میں اگر خواتین کی آواز نہیں ہوگی تو اس کا مطلب ہے ہم دنیا کی نصف سے زائد آبادی کے خیالات جاننے سے محروم ہیں۔

    فن و ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اردو شاعری پر یہ الزام ہے کہ اس میں خواتین صرف نسوانی جذبات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے روشناس بھی اسی صورت میں کرواتی ہیں جب ان کا تعلق صنف نازک سے ہو۔

    شاید اس کی وجہ یہ ہے عورت فطرتاً نرم دل اور حساس ہے۔ وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی بات تلاش کرلیتی ہے۔ جب زندگی پہلے ہی مصائب سے گھری ہو، ہر طرف دکھ و الم ہو، بم دھماکے ہوں اور خون خرابہ ہو، تو ایسے میں جذبوں سے متعلق بات کرنا مزید مصیبت سے بچا لے گا۔

    ایسا ہی کچھ اظہار کرن شاہ، زینب مواز اور شاہانہ منور نے بھی اپنی پینٹنگز کے ذریعے کیا۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے پڑھنے اور پڑھانے والی تینوں فنکارائیں اپنے فن کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔

    اپنے فن کے بارے میں بتاتے ہوئے زینب مواز کہتی ہیں کہ پینٹنگ اپنے جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ جب میں چھوٹی تھی تو خیالی دنیا میرے رہنے کی پسندیدہ جگہ تھی۔ تب میرے والدین اور ٹیچرز نے فیصلہ کیا کہ آرٹ کے ذریعے میں اپنی اس خیالی دنیا کو حقیقت میں لے آؤں۔

    ان کے کچھ فن پارے تجریدی آرٹ کا نمونہ ہیں۔ یہ دیکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس کے کیا معنی لیتا ہے۔

    ایک فنکار اپنے ارد گرد کے حالات کا اظہار کیسے کرتا ہے؟ اس کا جواب زینب مواز کا وہ فن پارہ ہے جس میں انہوں نے ایک کوے کو ایک پرندے سے نوالہ چھینتے ہوئے دکھایا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’کوا خودغرضی، لالچ اور بدفطرتی کی ایک مثال ہے۔ جب قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا تو اس نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔ انسانوں کی اس بدفطرتی کو علامتی اظہار میں پیش کرنے کے لیے مجھے کوے سے بہتر اور کوئی چیز نہیں لگی۔‘

    البتہ شاہانہ منور اس بات کی نفی کرتی ہیں۔

    ان کے خیال میں زندگی میں بے شمار دکھ، بے شمار مسائل ہیں، تو اپنی ذاتی زندگی کے مسائل کا آرٹ کے ذریعے اظہار کر کے دوسروں کے مسائل میں اضافہ کرنا نا انصافی ہے۔ کیوں نہ انہیں رنگوں کی خوبصورتی دکھائی جائے تاکہ وہ چند لمحوں کے لیے ہی سہی، لیکن خوشی محسوس کر سکیں۔

    زینب اپنی ایک پینٹنگ کے ذریعے لوگوں کی فطرت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے، ’لوگ بے رحم حد تک نکتہ چیں ہوتے ہیں۔ وہ منصفی کی ایک خود ساختہ کرسی پر بیٹھ کر ہر شخص کو جج کرتے ہیں۔‘ ان کی اس پینٹنگ میں ایک عورت طوطے کو ہاتھ پر بٹھا کر فرصت سے اس میں خامیاں تلاش کر رہی ہے۔

    شاہانہ منور اپنی پینٹنگز میں عورت کی خوبصورتی کو بیان کرتی ہیں۔ ان کے فن پارے ’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘ کی عملی تصویر نظر آتے ہیں۔ گہرے اور شوخ رنگوں سے انہوں نے لفظ’عورت‘ میں قید رنگینی، خوبصورتی اور دلکشی کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    گہرے رنگوں کو استعمال کرنے والی کرن شاہ اپنے فن کے بارے میں بتاتی ہیں، کہ ان کا مزاج بدلتا رہتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے فن پارے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

    ایک طرف وہ ان فن پاروں کے ذریعے انسانی فطرت کی بدصورتی کو اجاگر کر رہی ہیں تو دوسری طرف شوخ رنگوں سے مزین یہ فن پارے زندگی کے روشن رخ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

    یہ تینوں مصورات اپنے اپنے تصورات اور تخیلات کے سہارے فن مصوری کی نئی جہتوں اور نئے جہانوں کی تلاش میں ہیں اور ان کی تصویروں میں استعمال ہونے والے رنگوں کا اعتماد بتاتا ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ تینوں اپنی منزل ضرور حاصل کرلیں گی۔

  • اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو شاعری میں کلاسک کی حیثیت رکھنے والے اس شعر کے خالق حسرت موہانی کی آج 66 ویں برسی ہے۔

    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
    ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

    قیام پاکستان سے قبل جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار، انگریزوں کی غلامی کا دور اور اس کے بعد تحریک پاکستان کا غلغلہ اٹھا تو اردو شاعری حسن و عشق کے قصوں کو چھوڑ کر قید و بند، انقلاب، آزادی اور زنجیروں جیسے موضوعات سے مزین ہوگئی۔ غزل میں بھی انہی موضوعات نے جگہ بنالی تو یہ حسرت موہانی ہی تھے جنہوں نے اردو غزل کا ارتقا کیا۔

    البتہ اس وقت کے بدلتے ہوئے رجحانات سے وہ بھی نہ محفوط رہ سکے اور ان کی شاعری میں بھی سیاست در آئی۔ وہ خود بھی سیاست میں رہے۔ پہلے کانگریس کے ساتھ تھے پھر کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔

    حسرت موہانی ایک صحافی بھی تھے۔ 1903 میں انہوں نے علی گڑھ سے ایک رسالہ اردو معلیٰ بھی جاری کیا۔ 1907 میں ایک حکومت مخالف مضمون شائع ہونے پر انہیں جیل بھی بھیجا گیا۔

    ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
    اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

    ان کا یہ مشہور زمانہ شعر اسی دور کی یادگار ہے۔

    علامہ شبلی نعمانی نے ایک بار ان کے لیے کہا تھا۔ ’تم آدمی ہو یا جن؟ پہلے شاعر تھے پھر سیاستدان بنے اور اب بنیے ہو گئے ہو۔‘ حسرت موہانی سے زیادہ متنوع شاعر اردو شاعری میں شاید ہی کوئی اور ہو۔

    حسرت کی شاعری سادہ زبان میں عشق و حسن کا بہترین مجموعہ ہے۔ ان کی شاعری کو ہر دور میں پسند کیا جاتا ہے۔ حسرت کا شمار بیسویں صدی کے بہترین غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے۔

    بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں
    ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

    اردو غزل کو نئی زندگی بخشنے والا یہ شاعر 13 مئی 1951 کو لکھنؤ میں انتقال کر گیا۔

  • جاپان میں چیری بلوسم کا خوبصورت نظارہ

    جاپان میں چیری بلوسم کا خوبصورت نظارہ

    جاپان میں چیری بلوسم کے موسم میں جن جگہوں پر یہ درخت پائے جاتے ہیں وہ جگہیں گلابی ہوجاتی ہیں۔ مارچ اور اپریل کے درمیان مختصر دورانیے کے لیے کھلنے والے یہ پھول اس جگہ کو الگ ہی خوبصورتی عطا کرتے ہیں۔

    ایک فوٹوگرافر ڈنیلو ڈنگو نے اس موسم کو اپنے کیمرے میں قید کیا۔ اس نے سال کے بہترین مناظر کو فلمایا۔ ان خوبصورت تصاویر کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ڈرون کیمروں کا استعمال کیا۔

    آئیے آپ بھی اس موسم کی خوبصورتی دیکھیئے۔

    cb-2

    cb-3

    cb-4

    cb-5

    cb-6

  • پالمیرا کے تاریخی کھنڈرات ۔ داعش کے ہاتھوں تباہی سے قبل اور بعد میں

    پالمیرا کے تاریخی کھنڈرات ۔ داعش کے ہاتھوں تباہی سے قبل اور بعد میں

    شام کے تاریخی شہر پالمیرا کی تباہی نے تاریخ و ثقافت سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے دل کو دکھ سے بھر دیا۔ دنیا کی قدیم ثقافت کے کھنڈرات اور ایک تاریخ داعش کے حملوں میں اجڑ گئی۔

    داعش نے قبضہ کرنے کے بعد نہ صرف خود بھی اس میں تباہی مچائی بلکہ داعش کو شکست دینے کے لیے جن اتحادی طیاروں نے وہاں بمباری کی ان کی وجہ سے بھی اس تاریخی خزانے کو بہت نقصان پہنچا۔

    پالمیرا کو حال ہی میں داعش کے قبضے سے چھڑا لیا گیا۔ اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر نے وہاں کا دورہ کیا اور تصاویر لیں۔ وہ 2 سال پہلے بھی وہاں گئے تھے جب داعش کا وجود نہیں تھا۔ انہوں نے اس وقت کی اور اب کی تصاویر کا موازنہ کیا جس نے ہر حساس دل کو دکھا دیا۔

    اس بارے میں شام کے ثقافتی ڈائریکٹر مومن عبدالکریم کا کہنا ہے کہ وہ تباہ شدہ حصوں کی بحالی پر کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یونیسکو سے بھی مدد لی گئی ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کے تاریخ دانوں کو دعوت دی کہ وہ پوری انسانیت کی اس تاریخ کی بحالی میں ان کی مدد کریں۔

    syria-5

    syria-2

    syria-3

    syria-4

  • کاغذ سے بنا ہوا آرٹ

    کاغذ سے بنا ہوا آرٹ

    آپ نے آرٹ کے بے شمار نمونے دیکھے ہوں گے۔ آئیے آپ کو ایسے ہی ایک اور منفرد آرٹ سے روشناس کرواتے ہیں۔

    سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی سیسیلا لیوی نے پرانی کتابوں کو خوبصورت آرٹ کے نمونوں میں ڈھال دیا۔ ابتدا میں اسے کتابوں سے محبت کرنے والے افراد کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

    pa-1

    pa-4

    pa-2

    pa-3

    pa-5

    سیسیلا کا کہنا ہے کہ جب ان کی تصاویر دیکھیں گے تو آپ حیران رہ جائیں گے اور اپنی تنقید بھول جائیں گے۔

  • شام کے تاریخی شہر پالمیرا میں روسی آرکیسٹرا کا انعقاد

    شام کے تاریخی شہر پالمیرا میں روسی آرکیسٹرا کا انعقاد

    شام کے تاریخی شہر پالمیرا میں جنگ کے غم بھلانے کے لیے روسی آرکیسٹرا پہنچ گیا۔ موسیقی سے امید کے نئے چراغ روشن کرنے کی کوشش کی گئی۔

    پالمیرا کے لیے دعا کے نام سے منعقدہ موسیقی کی محفل میں روسی اور شامی فوجیوں سمیت سول سوسائٹی نے شرکت کی۔ آرکیسٹرا کا انعقاد پالمیرا کے رومن تھیٹر میں کیا گیا۔

    روسی آرکیسڑا نے موسیقی کے ذریعے جنگ میں جان دینے والوں کو یاد کیا۔ شدت پسندی سے متاثرہ افراد کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ منتظمین کا کہنا تھا کہ موسیقی کے ذریعے امید کے نئے چراغوں کو روشن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ شام کے تاریخی شہر پالمیرا کو مارچ میں داعش سے واگزار کروایا گیا تھا۔ دس ماہ تک شہر پر قابض رہنے کے دوران داعش نے متعدد تاریخی عمارتوں کو تباہ کر دیا تھا۔

  • عام تصویروں کو فلم کے پوسٹر میں بدلنے والا فنکار

    عام تصویروں کو فلم کے پوسٹر میں بدلنے والا فنکار

    اگر آپ اپنی کسی تصویر کو کسی فلم کے پوسٹر میں بدلنا چاہتے ہیں تو پھر خوش ہوجائیے کیونکہ آپ کے مطلب کا آرٹسٹ مل گیا ہے۔

    چھوٹا سا امریکی بچہ جسے اب ریڈیٹر کہا جاتا ہے مختلف اشیا سے عام تصویروں کو فلم کے پوسٹر میں بدل دیتا ہے۔

    آئیے آپ بھی جانیئے کیسے۔۔

    poster-3

    poster-1

    poster-4

    poster-2

    poster-7

    poster-6

    poster-5

    poster-8