Tag: فن

  • صادقین: لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    صادقین: لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    آج پاکستان کے معروف خطاط، مصور اور شاعر صادقین کی سالگرہ ہے۔ فرانس کے آرٹ سرکلز میں پاکستانی پکاسو کے نام سے یاد کیے جانے والے صادقین نے پاکستان میں فن خطاطی کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فن مصوری ادھورا ہے۔

    سنہ 1930 میں سید صادقین احمد نقوی امروہہ کے جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ خاندان اپنے فن خطاطی کے حوالے سے نہایت مشہور تھا۔ صادقین کے دادا خطاط تھے، جبکہ ان کے والد باقاعدہ خطاط تو نہ تھے، البتہ نہایت خوشخط تھے۔

    امروہہ میں ابتدائی تعلیم اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو صادقین اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آبسے۔

    صادقین بچپن ہی سے گھر کی دیواروں پر مختلف اقسام کی خطاطی و تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ ان کی تصاویر کی پہلی نمائش جس وقت منعقد ہوئی اس وقت ان کی عمر 24 برس تھی۔

    پاکستان کی فن مصوری اور خصوصاً فن خطاطی کو بام عروج پر پہنچانے والے مصور صادقین کا ذکر کرتے ہم شاعر صادقین کو بھول جاتے ہیں۔ وہ شاعر بھی اتنے ہی عظیم تھے جتنے مصور یا خطاط۔

    صادقین کے بھتیجے سلطان احمد نقوی جو کراچی میں مقیم ہیں، اور صادقین اکیڈمی کے امور کے نگران ہیں، بتاتے ہیں کہ صادقین کے اندر چھپا فنکار پہلے شاعر کی شکل میں ظاہر ہوا۔

    سلطان احمد کے مطابق صادقین 16 سال کی عمر میں باقاعدہ شاعر بن چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزو بوسیدہ‘ کے نام سے موجود ہے جس میں صادقین کی اوائل نوجوانی کے ایام کی شاعری موجود ہے۔

    اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں

    اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں

    اجسام میں اختلاف، میرے تیرے

    ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں

    صادقین نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصناف سخن کی سب سے مشکل صنف یعنی رباعی کا انتخاب کیا۔ ان کی لکھی گئی رباعیات کی تعداد ڈھائی ہزار سے 3 ہزار کے قریب ہے اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔

    ان کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات صادقین خطاط اور رباعیات صادقین نقاش کے نام سے موجود ہے، جبکہ ان کے پوتے سبطین نقوی نے بھی ان کی رباعیات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔


    صادقین کی خطاطی ۔ ضیا الحق کے دور کا جبر؟

    بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ صادقین کی خطاطی دراصل ضیا الحق کے اسلامائزیشن کے دور کی ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ اس دور میں صادقین کے اندر کا فنکار اسلامی خطاطی کے لبادے میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔

    لیکن سلطان احمد اس خیال کو لوگوں کی لاعلمی قرار دیتے ہیں۔ ’صادقین پشت در پشت خطاط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تو ان کے خون میں شامل تھی۔ انہوں نے اس فن میں نئی جہتوں کو روشناس کروایا۔ یہ کام جبر یا بے دلی سے نہیں ہوسکتا‘۔

    قرطاس پہ ہاں جلوے دکھاتا ہے یہ کون؟

    پردے میں مرے نقش بناتا ہے کون؟

    یہ سچ ہے کہ مو قلم گھماتا ہوں میں

    لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    سلطان احمد کا کہنا ہے کہ وہ خطاطی کا آغاز اور اس میں اپنا ارتقا بہت پہلے سے کر چکے تھے، ’اس وقت تو ضیا الحق کی حکومت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا‘۔

    فن مصوری و خطاطی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ خطاطی کا ارتقا 3 مراحل سے گزرا ہے۔ پہلا مرحلہ صرف حروف یا سطور کو قلم بند کرنے کا تھا۔ اس کے بعد اسے سیاہ روشنائی سے مزین کیا گیا۔ تیسرا مرحلہ اس میں رنگوں کی آمیزش کا تھا اور اس کا سہرا بلاشبہ صادقین کے سر ہے۔

    19

    17

    16

    صادقین کی خطاطی کی ایک ندرت یہ بھی ہے کہ انہوں نے آیات کے ساتھ اس کی تصویری تشریح (السٹریشن) بھی پیش کی۔ یہ روایت صادقین نے شروع کی تھی اور اس سے فن خطاطی میں نئی جدت پیدا ہوئی۔ انہوں نے یہ کام اس لیے بھی کیا تاکہ قرآنی آیات کو سمجھنے میں آسانی ہو اور ہر خاص و عام اسے سمجھ سکے۔

    ان کی خطاطی کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے رسم الخط کو ملحوظ خاطر رکھتے خطاطی میں جدت پیش کی۔ نئے آنے والے خطاطوں نے جدت وانفرادیت کو پیش کرنے کے لیے حروف و الفاظ کی بنیادی شکل تبدیل کردی جس سے خطاطی کے روایتی اصول برقرار نہ رہ سکے۔ صادقین نے جدت کے ساتھ حروف اور الفاظ، اور خطاطی دونوں کے تقدس کو برقرار رکھا۔

    اگر یہ کہا جائے کہ خطاطی کو باقاعدہ فن کے طور پر متعارف کروانے، اور اسے آرٹ کے نصاب میں بطور مضمون شامل کروانے کا سہرا صادقین کے سر ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔


    صادقین کی مصوری میں نمایاں حاشیے

    معروف فنکار انور مقصود کہتے ہیں کہ صادقین کی مصوری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے ہر فن پارے میں ’لکیر‘ نمایاں ہے۔ ’ایک مصور کی پینٹنگ میں پینٹ یا رنگوں کو نمایاں ہونا چاہیئے، لیکن صادقین کی لکیر ان کی پہچان ہے‘۔

    post1

    post2

    14

    صادقین وہ خوش نصیب مصور تھے جن کی مصوری ایک خاص طبقے سے نکل کر عام افراد تک پہنچی اور عوام نے بھی اس ہیرے کی قدر و منزلت کا اعتراف کیا۔

    سنہ 1960 میں 30 برس کی عمر میں صادقین کو ان کے فن کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے اگلے ہی برس انہیں فرانس کے اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا گیا۔ سنہ 1962 میں تمغہ حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس)، سنہ 1985 میں ستارہ امتیاز جبکہ آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ثقافتی ایوارڈ کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔

    صادقین کے فن پاروں کی کئی نمائشیں مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں بھی منعقد کی گئیں جہاں ان کے فن کو بے حد سراہا گیا۔ ان کے فن کی نمائش کا سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔

    انور مقصود کہتے ہیں، ’عجیب بات ہے کہ صادقین کا کام ان کی زندگی میں اتنا نہیں ہوا جتنا ان کی موت کے بعد ہوا۔ بے شمار لوگوں نے ان کے فن پاروں کی نقل بنا کر، یا پینٹنگز کو صادقین کے نام سے منسوب کر کے بیچا‘۔


    صادقین جس طرح کے منفرد فنکار تھے، اپنے فن کے بارے میں بھی وہ ایسے ہی منفرد خیالات رکھتے تھے۔

    ان کے بھتیجے سلطان احمد سے جب اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے یاد گزشتہ میں جھانکتے ہوئے بتایا، ’صادقین کہتے تھے، خدا کا شکر ادا کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے اور ہر شخص اس کے لیے اپنا طریقہ اپناتا ہے۔ میرا فن خدا کا اظہار تشکر کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘۔

    وہ مانتے تھے کہ ہر انسان میں موجود صلاحیت دراصل خدا کی نعمت ہے، اور اس نعمت کا اظہار کرنا اور اس کو بروئے کار لانا، اس صلاحیت کا احسان ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی صلاحیت کا استعمال نہیں کرتا، تو دراصل وہ کفران نعمت کرتا ہے۔

    گویا صادقین کے لیے ان کا فن ایک مقدس عمل، طریقہ عبادت اور شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔

    یہی وہ خیال تھا جس کی وجہ سے صادقین نے کبھی اپنا کام فروخت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بے شمار فن پارے دوست، احباب اور عزیز و اقارب کو تحفتاً دے دیے، مگر کبھی ان کی قیمت وصول نہیں کی۔ بقول خود ان کے، ان کا فن شکرانہ خدا ہے، برائے فروخت نہیں۔ کوئی اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتا۔

    اسی وجہ سے سنہ 1974 میں جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد، اور بعد ازاں ملکہ ایران فرح دیبا نے ان سے ذاتی حوالے سے کام کے لیے کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔

    یہ خام نگاہی کا اڑاتی ہے مذاق

    ہاں ظل الہٰی کا اڑاتی ہے مذاق

    یہ میری برہنگی بھی جانے کیا ہے

    جو خلعت شاہی کا اڑاتی ہے مذاق


    صادقین کے فن پارے

    دنیا بھر میں اپنے کام کی وجہ سے معروف صادقین نے بے انتہا کام کیا اور لاتعداد فن پارے تخلیق کیے۔ انہوں نے اپنا پہلا میورل (قد آدم تصویر) کراچی ایئر پورٹ پر بنایا۔

    اس کے علاوہ جناح اسپتال کراچی، منگلا ڈیم پاور ہاؤس، لاہور میوزیم، فریئر ہال کراچی، پنجاب یونیورسٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دیواروں پر ان کے شاہکار میورل کنندہ ہیں۔

    10

    11

    پاکستان سے باہر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پیرس کے مشہور زمانہ شانزے لیزے پر صادقین کے منقش فن پارے ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ان کا ایک عظیم فن پارہ ’وقت کا خزانہ ۔ ٹریژر آف ٹائم‘ کے نام سے میورل کی شکل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کی لائبریری میں ثبت ہے جس میں انہوں نے تمام مفکرین بشمول یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین، اور یورپی سائنسدانوں کی تصویر کشی کے ذریعے ہر عہد کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقا کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

    1

    2

    یہ میورل سنہ 1961 میں تخلیق کیا گیا۔

    انہوں نے غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کو بھی انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں تحریر کیا۔

    18

    8

    صادقین نے فرانسیس مفکر و مصنف کامو کی تصنیف ’دا آؤٹ سائیڈر‘ کی السٹریشن بھی پیش کی۔

    اپنے انتقال سے قبل صادقین کراچی کے فریئر ہال میں ایک میورل پر کام کر رہے تھے۔ وہاں موجود ارض و سماوات یعنی زمین و آسمان ان کا آخری منصوبہ تھا جو ادھورا رہ گیا۔

    3

    5

    6

    4

    7

    سنہ 1987 میں ان کے انتقال کے بعد اس مقام کو ان سے منسوب کر کے صادقین گیلری کا نام دے دیا گیا۔

    صادقین 10 فروری 1987 کو انتقال کر گئے۔ ان کی آخری آرام گاہ سخی حسن قبرستان میں واقع ہے۔

    آخر میں ان کی کچھ رباعیات جو ان کے متنوع خیالات اور انداز فکر کی عکاس ہیں۔ صادقین نے عشق مجازی، حسن و محبت، جلاد، مقتل، مذہب سب ہی کچھ اپنی رباعیات میں شامل کیا۔

    ہم اپنے ہی دل کا خون بہانے والے
    اک نقش محبت ہیں بنانے والے
    عشرت گہ زردار میں کھینچیں تصویر؟
    ہم کوچہ جاناں کے سجانے والے

    کب مسلک کفر میں ہے کچا کافر
    دیتا نہیں ایمان کا غچا کافر
    میری تو نظر میں ہے بہت ہی بہتر
    اک جھوٹے مسلمان سے سچا کافر

    یہ سایا ڈراؤنا ابھرتا کیوں ہے؟
    خونخوار ہے رہ رہ کر بپھرتا کیوں ہے؟
    تو کون ہے؟ پوچھا تو یہ آئی آواز:
    مجھ سے، میں تری روح ہوں ڈرتا کیوں ہے؟

    جاناں کے قدم چوم کے آ پہنچے ہیں
    ہم چاروں طرف گھوم کے آ پہنچے ہیں
    غائب ہے کدھر؟ ہم سر مقتل جلاد
    لہراتے ہوئے جھوم کے آ پہنچے ہیں

    ہم جنس سے اس حد کی رقابت کیوں تھی؟
    اور جنس مخالف پہ طبیعت کیوں تھی؟
    قابیل نے ہابیل کو مارا کیوں تھا؟
    اور آدم و حوا میں محبت کیوں تھی؟

    ہو ہی ابھی مقتل میں کہا تھا یارو!
    اک وار میں پھر خون بہا تھا یارو!
    سر میرا کٹ پڑا تھا، لیکن پھر بھی
    حق حق لب سے نکل رہا تھا یارو!

    میں کھینچ کے شہکار ہوں ننگا یارو
    لکھ کر خط گلزار ہوں ننگا یارو
    تم کونوں بچالوں ہی میں ہوتے ہو فقط
    اور میں سر بازار ہوں ننگا یارو


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ہیری پوٹر کو اس انداز میں آپ نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا

    ہیری پوٹر کو اس انداز میں آپ نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا

    معروف جادوئی فلم سیریز ہیری پورٹر بچوں اور بڑوں سب ہی کو یکساں طور پر پسند ہے اور اس کی مقبولیت دنیا کے ہر شعبے کے افراد میں ہے۔

    فرانس کی ایک مصورہ شارلٹ لبرٹن بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ شارلٹ بچپن ہی سے اپنی پسندیدہ فلم کے کرداروں کو مختلف رنگوں اور شکلوں میں ڈھالنے کی عادی ہے۔

    وقت کے ساتھ ساتھ اس کے فن میں جدت اور نکھار آتا گیا۔ اب شارلٹ اپنے پسندیدہ کرداروں کو ڈیجیٹل 2 ڈی اور 3 ڈی پورٹریٹ میں ڈھال دیتی ہے۔

    اس نے اسی تکنیک سے ہیری پوٹر فلم کے کرداروں کو بھی تبدیل کردیا ہے جو نہایت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔

    ہیری پوٹر کے علاوہ اس نے اور بھی کئی کرداروں کا ڈیجیٹل پورٹریٹ بنایا ہے جیسے ونڈر ویمن اور اوینجرز سیریز کی کردار گمورا۔

    اس نے اپنی پسندیدہ میکسیکن مصورہ فریڈا کاہلو کا پورٹریٹ بھی بنایا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • رنگین روشنیوں سے جگمگاتی خوبصورت تصاویر

    رنگین روشنیوں سے جگمگاتی خوبصورت تصاویر

    روشنی ہماری دنیا کی تیز رفتار ترین شے ہے جسے قید کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے، تاہم 2 تخلیق کاروں نے اپنے کیمرے کے ذریعے یہ کمال کر دکھایا ہے۔

    کم ہینری اور ایرک پیئر نامی دو تخلیق کاروں نے فوٹوگرافی کے شاہکار تخلیق کیا ہے۔

    ایرک ایک فوٹوگرافر ہے جبکہ کم ڈانسر ہے۔ ایرک نے کم کے ساتھ ٹیوب لائٹس کے استعمال سے فوٹوگرافی کا شاہکار تخلیق کیا ہے۔

    ایرک کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک سیکنڈ کا وقت ہوتا ہے جس میں صحیح منظر ملتا ہے۔ اس ایک سیکنڈ کے لیے مجھے کافی دیر محنت کرنی پڑتی ہے۔

    ایرک کا کہنا تھا کہ وہ کم کے پیچھے کھڑا ہو کر ٹیوب لائٹس کو مستقل گھماتا ہے جس کے بعد ہی صحیح منظر ملتا ہے۔

    مختلف رنگین روشنیوں کے ساتھ کم کے مختلف انداز مل کر ان تصاویر کو نہایت خوبصورت بنا دیتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بے روزگاری نے فنکار بنا دیا

    بے روزگاری نے فنکار بنا دیا

    کہتے ہیں خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہے۔ فارغ بیٹھنا اور کچھ نہ کرنا دماغ میں شیطانی خیالات کو جنم دیتا ہے اور دماغ مختلف منفی منصوبے بناتا ہے۔

    لیکن قازقستان سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے اس مقولے کو غلط ثابت کردیا۔ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ کے رہائشی کانت نامی اس شخص کا آرٹ سے کوئی تعلق نہیں اس کے باوجود اس نے آرٹ کے شاہکار تخلیق کر ڈالے۔

    بقول کانت، اس نے کبھی آرٹ کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ اپنی بیچلرز کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بے روزگار تھا تب ہی اسے کچھ نیا سیکھنے اور کچھ مختلف کرنے کا خیال آیا۔

    پہلے اس نے سیب پر مختلف اشکال تخلیق کر ڈالیں۔ اس کے لیے اسے کافی محنت اور پریکٹس کرنی پڑی لیکن آہستہ آہستہ وہ اس فن میں طاق ہوتا گیا۔

    1

    5

    2

    3

    اس کے بعد اس نے کاغذ پر مختلف شکلیں بنا کر انہیں مختلف طرح سے ترتیب دے ڈالا جس کے بعد وہ نہایت خوبصورت آرٹ کے نمونوں میں تبدیل ہوگئیں۔

    9

    10

    11

    12

    13

    7

    تو پھر کیا خیال ہے؟ اگر آپ بھی بے روزگار ہیں تو اس وقت سے فائدہ اٹھائیں اور اس فنکار کی طرح آپ بھی کچھ نیا تخلیق کر ڈالیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مصوری کے شاہکار جیسے چاول کے کھیت

    مصوری کے شاہکار جیسے چاول کے کھیت

    دنیا کی اہم معاشی طاقت چین میں چاول سب سے اہم زرعی فصل ہے۔ چین کے نصف زرعی رقبے پر چاول اگایا جاتا ہے اور یہ مقدار دنیا بھر میں اگائے جانے والے چاولوں کا 30 فیصد حصہ ہے۔

    دنیا میں چاول کی سب سے زیادہ پیداوار کرنے والے چین میں سالانہ 207 ملین ٹن چاول اگائے جاتے ہیں۔

    جن علاقوں میں چاول اگائے جاتے ہیں وہاں کا موسم مرطوب ہے اور بے تحاشہ بارشیں ہوتی ہیں۔ بعض مقامات پر موسمی و جغرافیائی حالات اس قدر موافق ہیں کہ ایک ہی زمین کے کھیت میں دو موسموں کی فصل اگائی جاسکتی ہے۔

    تاہم چاولوں کی یہ فصل معمولی فصل نہیں۔ اگر آپ ان کھیتوں کا فضائی جائزہ لیں تو آپ کو لگے گا کہ آپ کسی وسیع و عریض فن مصوری کے شاہکار کو دیکھ رہے ہیں۔

    دراصل چین کے دہقان چاولوں کو مختلف انداز اور رنگوں سے مزین کر کے پیٹرنز کی شکل میں بوتے ہیں، اس کے بعد جب چاولوں کی فصل تیار ہوتی ہے تب یہ آرٹ کے کسی شاہکار کی طرح لگتے ہیں۔

    ان پیٹرنز میں زیادہ تر قدیم چین کے بہادر جنگجوؤں، تاریخی کرداروں، مذہبی دیوتاؤں اور خوبصورت مناظر کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔

    مختلف رنگوں اور تصاویر سے مزین یہ کھیت دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں جو چین کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سنہری مجسمے جو پانی کا خوبصورت عکس دیتے ہیں

    سنہری مجسمے جو پانی کا خوبصورت عکس دیتے ہیں

    پولینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک مجسمہ ساز ملگورزاتا منفرد اور شاندار مجسمے تخلیق کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ اس بار انہوں نے ایک قدم اور اٹھاتے ہوئے نہایت منفرد مجسمے تشکیل دیے ہیں۔

    یہ مجسمہ ساز گزشتہ 30 برس سے اس فن سے منسلک ہیں۔ اس دوران وہ بے شمار مجسمے بنا چکی ہیں۔

    حالیہ پروجیکٹ کے تحت بنائے گئے ان کے مجسمے فواروں کی طرح ہیں جن سے پانی بہتا ہے۔

    سنہری رنگ سے تخلیق کیے ہوئے مجسموں سے جب پانی نکلتا ہے تو دیکھنے والوں کو مبہوت کردیتا ہے ہیں۔ آئیں آپ بھی ان مجسموں کو دیکھیں۔

    s5

    s4

    s3

    s2

    s1


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    کیا آپ آئزک اسیموو کو جانتے ہیں؟ آئزک اسیموو ایک امریکی مصنف اور پروفیسر ہیں جنہوں نے سائنس فکشن پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کتابوں کی تعداد 500 سے زائد ہے، جی ہاں 500۔

    آئزک کی تحریروں کی تعداد اس قدر ہے کہ اگر آپ ان کی تحاریر کا شمار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو 25 سال تک ہر دو ہفتے بعد ایک مکمل ناول لکھنا ہوگا۔ آئزک نے اپنی خود نوشت سوانح حیات بھی لکھی جس کا نام ہے، ’اچھی زندگی گزری‘۔

    شاید یہ ہمارے لیے ایک حیرت انگیز بات ہو کیونکہ ہم میں سے بہت سے افراد کتاب لکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کون سا موضوع اور کون سا خیال چنیں جسے پھیلا کر ایک کتاب کی شکل دی جاسکے۔

    کچھ باعلم افراد اپنی زندگی میں ایک، 2 یا 5 کتابیں بھی لکھ لیتے ہیں لیکن 500 کتابیں لکھنے کا خیال ان کے لیے بھی کافی مشکل ہوگا۔

    لیکن فکر نہ کریں، آئزک نے اپنی سوانح میں ان رازوں سے آگاہی دی ہے جن کے ذریعہ وہ اتنی بڑی تعداد میں کتابیں لکھنے میں کامیاب ہوئے۔ آئزک کا کہنا ہے کہ کوئی بھی تخلیقی کام، شاعری، مصوری، قلم کاری یا موسیقی تخلیق کرتے ہوئے تخلیق کار یکساں کیفیات و مراحل سے گزرتے ہیں۔

    آئیے آپ بھی وہ راز جانیں جنہوں نے آئزک کو ایک بڑا مصنف بنایا۔


    سیکھنا مت چھوڑیں

    آئزک اسیموو ویسے تو ایک سائنس فکشن رائٹر کے طور پر مشہور ہیں۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے طبیعات، قدیم تاریخ، حتیٰ کہ انجیل پر بھی ایک کتاب لکھ ڈالی۔

    تو آخر انہوں نے اتنے متنوع موضوعات پر کتابیں کیسے لکھ لیں؟

    اس بارے میں وہ بتاتے ہیں، ’مختلف موضوعات پر کتابیں میں نے اس بنیادی معلومات کی بنا پر نہیں لکھیں جو میں نے اسکول میں حاصل کیں۔ میں ان تمام موضوعات پر ساری زندگی پڑھتا رہا‘۔

    آئزک کی لائبریری میں ہر موضوع پر کتابیں موجود ہیں۔ وہ تاریخی، خلائی اور سائنسی میدان میں ہونے والی اصلاحات، تحقیقات اور نئی دریافتوں سے خود کو آگاہ رکھتے تھے اور مستقل مطالعہ کرتے رہتے تھے۔


    جمود سے مت لڑیں

    آئزک کہتے ہیں کہ ہر عام انسان کی طرح اکثر اوقات وہ بھی جمود کا شکار ہوگئے اور کئی بار لکھنے کے دوران وہ خود کو بالکل خالی الدماغ محسوس کرنے لگے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ کوئی موضوع آپ کا کتنا ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو، آپ اسے لکھنے کے دوران بھی جمود کا شکار ہوسکتے ہیں اور آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ کے خیالات ختم ہوگئے ہیں۔

    اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے آئزک نہایت شاندار تجویز دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایسے موقع پر وہ مذکورہ کام کو ادھورا چھوڑ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتے تھے۔ کسی دوسرے موضوع پر لکھنا، یا مطالعہ یا کوئی بالکل متضاد کام۔

    تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد ان کے جمود کی کیفیت ختم ہوجاتی تھی اور جب وہ اس ادھورے کام کو مکمل کرنے کے لیے واپس پلٹتے تھے تو اس بار ان کا دماغ توانائی اور نئے خیالات سے بھرپور ہوتا تھا۔


    رد کیے جانے کا خوف

    آئزک کا کہنا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار، مصور، شاعر، قلم کار، مصنف حتیٰ کہ اپنے کاروبار میں نئے نئے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے والا بزنس مین بھی اس خوف کا شکار ہوتا ہے کہ جب اس کا آئیڈیا حقیقت کا روپ دھارے گا تو کیا لوگ اسے قبول کریں گے؟

    لکھنے والے افراد اکثر اس تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ آیا جو انہوں نے لکھا وہ پڑھے جانے کے قابل بھی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پڑھنے والے کو یہ سب بے ربط اور غیر منطقی لگے۔

    آئزک کے مطابق یہ خوف ایک مثبت شے ہے، کیونکہ اس خوف کی وجہ سے تخلیق کار اپنی تخلیق کی نوک پلک بار بار درست کرتا ہے اور اسے بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

    لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس خوف کو اس قدر حاوی نہ کیا جائے کہ تخلیق کار کا تخلیقی خیال اس کے اندر ہی گھٹ کر مر جائے اور صرف اس خوف کی وجہ سے دنیا کے سامنے نہ آسکے کہ یہ پسندیدگی کا درجہ نہیں پاسکے گی۔


    معیار کو پست کریں

    اپنی سوانح میں آئزک لکھتے ہیں کہ کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی مصور اپنی پہلی ہی کوشش میں مونا لیزا جیسی شہرہ آفاق پینٹنگ تخلیق کر ڈالے۔ ان کا ماننا ہے کہ جب آپ اپنے تخلیقی کام کا آغاز کریں تو اسے شاہکار کی صورت پیش کرنے کا خیال دل سے نکال دیں اور اپنے معیارات کو نیچے لے آئیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ اپنی ابتدائی تخلیق کو سادہ لیکن اچھا پیش کریں۔ جب تک آپ کو تجربہ نہ ہوجائے اسے بہت شاندار یا شاہکار بنانے سے گریز کریں۔ یہ امر آپ کی تخلیق (شاعری، مصوری، ناول) کو بگاڑ دے گا۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کوئی مضمون لکھ رہے ہیں تو اس میں دنیا جہاں کی معلومات دینے کے بجائے صرف وہ معلومات شامل کریں جن کے بارے میں آپ 100 فیصد پریقین ہوں اور وہ ہر حال میں درست ہوں۔ اس مضمون کے پھیلاؤ کو کم کریں اور کسی ایک موضوع تک محدود کریں تاکہ آپ پوری طرح اس کا حاطہ کرسکیں۔

    یاد رکھیں کہ ایک تخلیق کار کبھی اپنی تخلیق سے نفرت نہیں کرسکتا۔ آپ کی ابتدائی تخلیق ہوسکتا ہے کہ آپ کے ہم پیشہ کسی تجربہ کار شخص کے لیے خاص نہ ہو، لیکن وہ ان افراد کے لیے ضرور دلچسپی کا باعث ہوگی جو اس موضوع کے بارے میں بہت کم یا بالکل معلومات نہیں رکھتے۔


    خیال کو طاری کرلیں

    آئزک اسیموو سے ایک بار کسی نے پوچھا، ’تم اپنی کتاب کے لیے اتنے سارے آئیڈیاز کیسے سوچ لیتے ہو‘؟

    آئزک کا جواب تھا، ’میں سوچتا رہتا ہوں، سوچتا رہتا ہوں اور ایک خیال، ایک آئیڈیے سے نئے آئیڈیاز نکلتے جاتے ہیں‘۔

    وہ بتاتے ہیں کہ تنہا راتوں میں، میں ایک خیال پر سوچتا رہتا ہوں۔ اس میں موجود خوشی کے واقعات پر خوش ہوتا ہوں، اور اداس واقعات پر روتا ہوں۔ اس طرح ایک خیال سے کئی خیالات وجود میں آجاتے ہیں۔

    تو پھر کیا خیال ہے آپ کا؟ آئزک اسیموو کے یہ راز آپ کی تخلیقی صلاحیت کو مہیز کرنے میں کتنے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    فطرت کے رنگ اجاگر کرتے لباس

    تخلیقی ذہن کے افراد ہر چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسے اپنی تخلیق میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہانی کار اور مصنف روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے کہانی تخلیق کرتے ہیں۔ مصور روزمرہ کی چیزوں کو دیکھ کر انہیں اپنے خیالات اور رنگوں میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔

    روس کی ایسی ہی ایک ڈیزائنر لیلیا ہڈیاکووا نے ایسے لباس تخلیق کیے جو فطرت سے متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں فطرت سے قریب رہنا پسند ہے اور اسی لیے انہوں نے اپنے ڈیزائن کردہ لباسوں میں فطرت کو اجاگر کیا۔

    گو کہ کسی قدرتی منظر کو انسانی تخلیق میں ڈھالنے میں کچھ تبدیلیاں آجاتی ہیں لیکن لیلیا نے حیرت انگیز طور پر فطرت کا رنگ برقرار رکھا ہے۔

    ان کے لباسوں میں قدرتی مناظر، پھول، باغ، پہاڑ اور تاریخی عمارتوں کا خوبصورت اور حیرت انگیز اظہار دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    8

    4

    5

    1

    6

    7

    11

    12

    17

    18

    19

    20

    21

    22


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عربی سے نابلد ہونے کے باوجود آپ ان الفاظ کا مطلب جان جائیں گے

    عربی سے نابلد ہونے کے باوجود آپ ان الفاظ کا مطلب جان جائیں گے

    لفظوں کو ان کے لغوی معنوں میں ڈھلتے دیکھنا ایک نہایت ہی دلچسپ مرحلہ ہوگا جو یقیناً لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔

    مثال کے طور پر لفظ ’بلی‘ کو اگر آپ کے سامنے ایسی صورت میں پیش کیا جائے کہ پہلی نظر میں وہ آپ کو دیکھنے پر ایک بلی ہی معلوم ہو، تو یہ یقیناً ایک خوشگوار اور دلچسپ تجربہ ہوگا۔

    ایک عربی فنکار محمد السید نے ایسا ہی کچھ دلچسپ فن تخلیق کیا۔

    اس نے مختلف عربی الفاظ کو ان کے لغوی معنوں کی تصویر میں اس طرح ڈھالا کہ عربی سے نابلد افراد اسے دیکھتے ہی اس لفظ کا مطلب جان جائیں۔

    اس نے ان تصاویر کے ساتھ ان کا تلفظ اور انگریزی مطلب بھی پیش کیا۔

    محمد نے اس طرح کے 40 الفاظ کو رنگوں اور تصاویر میں ڈھالا۔ ان میں سے کچھ ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

    6

    3

    2

    1

    5

    7

    10

    11

    13

    14

    4

    15

    12

    9

    8


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کتابوں میں چھپی خفیہ مصوری

    کتابوں میں چھپی خفیہ مصوری

    کتاب یوں تو معلومات کا ذخیرہ ہوتی ہے اور پڑھنے والے کے علم میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے، لیکن اگر کتاب کو مصوری کی صنف کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو وہ فن کا شاہکار بن جاتی ہے۔

    انسانی تہذیب کے آغاز کے ساتھ ساتھ جہاں ہمیں ہر شعبے میں مختلف اور اپنے زمانے کے لحاظ سے جدید تکنیکیں نظر آتی ہیں وہیں فن مصوری میں بھی بے شمار جہتیں نظر آتی ہیں۔

    ایسی ہی ایک جہت فور ایڈج پینٹنگ ہے جو کتاب کے صفحوں کے بالکل کناروں پر کی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: آرٹ گیلری میں قوس قزح

    یہ تصاویر کتاب کو ایک خاص زاویے پر رکھنے کے بعد ہی نظر آسکتی ہیں۔ اگر کتاب کو بند کردیا جائے یا مکمل کھولا جائے تب ان پینٹنگز کو دیکھنا ناممکن ہے۔

    انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا کہنا ہے کہ اس فن کا آغاز یورپی قرون وسطیٰ کے دور میں ہوا مگر یہ سترہویں سے انیسویں صدی کے درمیان اپنے عروج پر پہنچا۔

    امریکی شہر بوسٹن کی پبلک لائبریری میں ایسی ہی کئی کتابوں کو مختلف مقامات سے لا کر جمع کیا گیا ہے جن پر مصوری کی یہ صنف کی گئی ہے۔

    آئیے آپ بھی یہ حیرت انگیز تصاویر دیکھیں۔

    art-1

    art-2

    art-3

    art-5

    art-4

    اور اب دیکھیں کہ یہ پینٹنگز بنائی کس طرح جاتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔