Tag: فن

  • ٹھوس اشیا پر رنگین دھاگوں سے نقش نگاری کا خوبصورت فن

    ٹھوس اشیا پر رنگین دھاگوں سے نقش نگاری کا خوبصورت فن

    مختلف ٹھوس اشیا پر رنگین دھاگوں سے خوبصورت نقش تخلیق کرنا جنوبی چین کا نہایت خوبصورت فن ہے جسے چینی ثقافت میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔

    اس خوبصورت دستکاری کا آغاز 17 ویں صدی کے وسط سے ہوا تھا اور یہ چین کے جنوبی صوبوں ژائی من، کانگ ژو اور فیوجان میں نہایت مقبول ہے۔

    چین میں 300 سال قبل کے گوتم بدھ کے ایسے مجسمے موجود ہیں جنہیں دیدہ زیب بنانے کے لیے ان پر خوبصورت رنگین نقش نگاری کی گئی تھی۔

    مزید آگے جا کر اس فن میں جدت پیدا ہوئی۔ اب بدھا کے مجسموں پر کپڑے کے ٹکڑوں یا دھاگوں کو خوبصورت انداز میں جوڑ کر نہایت دلکش فن پارے تیار کیے جانے لگے۔

    ان میں بعض اوقات سونے کی تاروں یا سونے سے رنگے دھاگوں کو بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

    جدید چین میں اب یہ فن صرف بدھا کے مجسموں تک محدود نہیں رہا۔ اب مختلف اقسام کے برتن، گلدان اور آرائشی اشیا بھی اس دستکاری میں ڈھال کر پیش کی جاتی ہیں جو بیش قیمت ہونے کے باوجود ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔

    خوبصورت ہونے کے ساتھ یہ نقش نگاری نہایت محنت اور وقت طلب بھی ہے اور ایک فن پارے کی تکمیل میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • رونالڈو کے لیے معذور ایرانی مداح کا انوکھا تحفہ

    رونالڈو کے لیے معذور ایرانی مداح کا انوکھا تحفہ

    معروف پرتگالی فٹبالر کرسچیانو رونالڈو کی ایک معذور مداح نے پاؤں سے ان کی شاندار تصویر بنا ڈالی۔

    ایران سے تعلق رکھنے والی باصلاحیت فنکارہ فاطمہ حمامی دماغی کمزوری کا شکار ہے۔ اسے مصوری کا بے حد شوق ہے اور اپنے شوق کی تکمیل کے لیے اس نے اپنی معذوری کو آڑے نہیں آنے دیا۔

    طویل ریاضت کے بعد اب وہ اپنے پاؤں کی انگلیوں سے برش پکڑ کر مصوری کرتی ہے اور اس میں نہایت مہارت حاصل کر چکی ہے۔

    فاطمہ فٹ بال کی بھی بے حد شوقین ہے اور اس نے اپنے پسندیدہ کھلاڑی رونالڈو کی نہایت خوبصورت تصویر بنائی ہے جسے انٹرنیٹ پر بے حد پسند کیا جارہا ہے۔

    وہ اس سے قبل اپنے ایک اور پسندیدہ ایرانی فٹ بالر علی داعی کی تصویر بھی بنا چکی ہے جسے خود علی داعی نے بے حد پسند کیا اور فاطمہ کے حوصلے کی تعریف کی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ماضی کی تلاش میں سرگرداں حال

    ماضی کی تلاش میں سرگرداں حال

    ماضی کی خوشگوار یادیں کسی صورت ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہم چاہے زندگی میں کتنے ہی مشہور، دولت مند یا کامیاب کیوں نہ ہوجائیں، ہمیں ہمارا ماضی ہمیشہ بہترین دکھائی دیتا ہے۔

    ماضی کے ایسے ہی سحر میں گرفتار نوجوان مصورہ رزین روبن نے فن کے ذریعے اپنے ماضی کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کی ہے۔

    کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں جاری آرٹ کی نمائش میں رزین کی تصاویر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں اور انہیں ان کے اپنے ماضی کی یاد دلا رہی ہے۔

    وہ ماضی جہاں بچپن تھا، بچھڑنے والے تھے، اور سکھ تھا۔

    رزین کا بچپن صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں گزرا۔ سنہ 2013 میں وہ کراچی آبسیں۔ مگر اس دوران وہ اپنے والدین سے جدائی کا صدمہ اٹھا چکی تھیں اور بہت کچھ کھو چکی تھیں۔

    اپنی اس نمائش میں انہوں نے ماضی سے اسی انسیت اور لگاؤ کو پیش کیا ہے جو ہر شخص کی زندگی میں بہر صورت موجود ہوتا ہے۔

    کراچی میں جاری اس نمائش میں 13 نوجوان مصوروں کے فنی شاہکاروں کو پیش کیا گیا ہے۔ اس نمائش کا مقصد خاص طور پر ان مصوروں کا کام پیش کرنا ہے جو ابھی اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔

    آمنہ رحمٰن، ارسلان ناصر، ارسلان فاروقی، فہد سلیم، حیدر علی، حسن رضا، حیا زیدی، نعمان صدیقی، انیز تاجی، رزین روبن، صفدر علی، سمیعہ عارف اور سفیان بیگ نامی ان فنکاروں نے نہایت خوبصورتی سے اپنے فن کا اظہار کیا ہے۔

    نمائش کو عدیل الظفر نے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے فنکاروں کے کام کو پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نئی نسل دنیا کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتی ہے اور انہیں اپنے انداز میں کس طرح پیش کرتی ہے۔

    نوجوان مصور نعمان صدیقی کے کام میں سب سے نمایاں وہ لولی پاپس ہیں جو بقول ان کے قوم کو دی جارہی ہیں۔

    نعمان کا کہنا ہے کہ علامتی طور پر ان لولی پاپس کو پیش کیے جانے کا مطلب اس وقت ہماری قوم کے مزاج کی نشاندہی کرنا ہے۔

    انہوں نے مثال دی کہ ملک کے تمام مسئلے دہشت گردی، شدت پسندی، غربت اور جہالت کو چھوڑ کر پاناما کی لولی پاپ میں پھنسا دیا گیا ہے کہ لو اب اس کو کھاتے رہو۔ اس کی وجہ سے ملک کے تمام اصل مسائل پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔

    ان کے کام کی ایک اور انفرادیت گوشت کے وہ ٹکڑے ہیں جو انہوں نے مختلف رنگوں میں رنگ کر پیش کیے ہیں۔

    مختلف اقسام کی پلیٹس میں ان ٹکڑوں کو پیش کر کے نعمان نے ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات میں رائج بد دیانتی کے مختلف طریقوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔

    وہ کہتے ہیں، ’جس کو جہاں اور جس طرح موقع ملتا ہے وہ وہاں کرپشن کرتا ہے۔ ہر طبقہ کرپشن اور بددیانتی بھی اپنی حیثیت کے مطابق کرتا ہے‘۔

    ایک اور مصورہ سمیعہ عارف نے اپنی پینٹنگ میں مقتول خواتین قندیل بلوچ اور سبین محمود کو خراج تحسین پیش کیا۔


    صفدر علی نے لکڑی اور مختلف دھاتوں سے بنا ہوا ایک خوبصورت رنگین فن پارہ پیش کیا۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں جاری یہ نمائش 12 اگست تک جاری رہے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کے گلی کوچوں کو نئی نگاہ سے دیکھیں

    پاکستان کے گلی کوچوں کو نئی نگاہ سے دیکھیں

    گھر میں رہتے ہوئے ہر شخص گھر اور اس کی چیزوں کا عادی ہوجاتا ہے اور وہ اس کی زندگی اور معمول کا حصہ بن جاتی ہیں۔

    جب کسی شے کی عادت ہوجائے تو عموماً ہم اسے نئے زاویوں سے دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں اور یوں وقت کے ساتھ بدلتے اس کے حسن کو نہیں دیکھ پاتے۔

    اندرونی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں رہنے والے لوگ بھی وہاں کی زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں۔ وہاں کے مناظر، صبح و شام کا ڈھلنا، مختلف لوگ، جانور وغیرہ سب کچھ ان کے لیے یکساں حیثیت اختیار کرجاتا ہے اور وہ اس میں نئی جہت ڈھونڈنے میں ناکام رہتے ہیں۔

    لیکن یہ نیا پن اس شخص کو دکھائی دے جاتا ہے جو پہلی بار ان علاقوں میں جائے، یا ایک عرصے پہلے ان گلیوں کو چھوڑ آیا ہو اور پھر لوٹ کر وہاں جائے۔

    در وسیم بھی ایسی ہی مصورہ ہیں جو امریکا سے پلٹ کر اپنے ماضی کی طرف آئیں تو انہیں پرانی یادوں کے ساتھ بہت سی نئی جہتیں بھی دیکھنے کو ملیں۔

    لاہور کی پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد وہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں جا بسیں جہاں انہوں نے اپنے شعبے سے متعلق مزید تعلیم حاصل کی اور مختلف اداروں میں کام بھی کیا۔

    اب اپنی وطن واپسی کے بعد اس کی تصویر کشی کو انہوں نے وزیٹنگ ہوم کا نام دیا ہے، اور اس میں پاکستان کو انہوں نے جس طرح پیش کیا، یقیناً وہ رخ ان لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگا جو ہمیشہ سے یہیں رہتے آئے ہیں۔

    آئیں آج ان کی نگاہ سے مختلف گلی کوچوں کو دیکھیں۔

    مری کا ایک منظر

    لاہور کی تاریخی ٹولنگٹن مارکیٹ

    اسلام آباد میں واقع گاؤں سید پور کی محرابی گزر گاہیں

    لاہور کا بھاٹی گیٹ

    ڈھلتی شام میں رکشے پر سواری

    سید پور کا ایک منظر

    اندرون لاہور میں ایک سرد سہ پہر

    ریلوے کا پھاٹک

    ٹھیلے پر فروخت ہوتے کیلے

    سید پور کا ایک اور منظر

    مری میں قائم ایک کھوکھا

    خزاں کی ایک شام

    پاکستان کے گلی کوچوں کو ایک نئے زاویے سے پیش کرتی آرٹ کی یہ نمائش کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں 13 جولائی تک جاری ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کافی کے کپ میں وین گوف کا شاہکار

    کافی کے کپ میں وین گوف کا شاہکار

    آپ نے کافی آرٹ کی بے شمار اقسام دیکھی ہوں گی جو پاکستان سمیت مختلف ممالک میں کی جاتی ہیں، تاہم جنوبی کوریا کے اس فنکار کا کافی آرٹ دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے جو بے حد انوکھا ہے۔

    جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول کا رہائشی فنکار لی کنگ بن کافی کے کپ میں معروف مصوروں کے منی ایچر شاہکاروں کی نقل تخلیق کر رہا ہے جو دیکھنے والوں کو دنگ کردیتا ہے۔

    نیدر لینڈز کے معروف مصور وین گوف کی شہرہ آفاق پینٹنگ ’ستاروں بھری رات‘ اور ناروے کے مصور ایڈورڈ منچ کی پینٹنگ ’چیخ‘ کو کافی کے کپ میں اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ دیکھنا ایک نہایت ہی شاندار اور منفرد تجربہ ہوسکتا ہے۔

    مصوری کے ان شاہکاروں کو تخلیق کرنے کے لیے لی کنگ برش اور چمچوں سے فوڈ کلرز کے مختلف اسٹروکس استعمال کرتا ہے۔

    صرف 15 منٹ میں تیار کیے جانے والے ایک کافی کے کپ کی قیمت 10 ہزار ون (کورین سکہ) ہے جسے خریدنے کے لیے شائقین کی ایک لمبی قطار موجود ہے۔

    لی کنگ کا کہنا ہے کہ ابتدا میں وہ شوقیہ طور پر اپنی کافی میں کریم اور جھاگ کو مختلف انداز سے ترتیب دیا کرتا تھا۔ بعد ازاں اسے یہ کام اتنا پسند آیا کہ وہ ایک کافی مشین خرید کر گھر لے آیا اور تجارتی بنیادوں پر یہ کام شروع کردیا۔

    مزید پڑھیں: آپ کی پسندیدہ کافی آپ کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟

    آرٹ کا شاہکار یہ کافی خریدنے والے افراد لی سے اپنی پسند کے مصوروں کی پینٹنگ بنانے کی بھی فرمائش کرتے ہیں۔

    پینٹنگ کے ساتھ ساتھ لی مختلف کارٹون کرداروں اور مناظر کو بھی کافی پر تخلیق کرتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گھر میں استعمال کی جانے والی ننھی منی خوبصورت اشیا

    گھر میں استعمال کی جانے والی ننھی منی خوبصورت اشیا

    منی ایچر یعنی ننھا منا آرٹ نہایت خوبصورت لگتا ہے لیکن اسے بنانے کے لیے نہایت محنت اور مہارت درکار ہے۔

    مختلف ننھی منی چیزوں پر کام کرنا اور انہیں اپنی مرضی کے مناظر میں تبدیل کرنا نہایت محنت اور توجہ کا متقاضی ہے۔

    لیکن اس انوکھے فن کو تخلیق کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔

    اب نیدر لینڈز کی اس باصلاحیت فنکارہ کو ہی دیکھ لیں جو صرف 2 سینٹی میٹر کے ننھے منے فن پارے تخلیق کر رہی ہے۔

    آلما نامی یہ فنکارہ گھریلو استعمال کی روز مرہ کی اشیا تخلیق کرتی ہے، اور ایسا تخلیق کرتی ہے کہ انہیں دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

    آئیں آپ بھی دیکھیں۔

    Hand soap

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #cupcakes for breakfast #miniature #dollhouse #handmade #oneinchscale

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    I am working on @domestikatethis cheese board but i got hungry and eat the epoisses

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    Itty bitty jam #miniature #dollhouseminiatures #dollhouse #oneinchscale #handmade #fimo

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #miniature #cupcakes #dollhouse #handmade #fimo #oneinchscale #polymerclay

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    #lavender is ❤️ #miniature #shabbychicbathroom #oneinchscale #handmade #dollhouseaccessories

    A post shared by Alma (@almadejonge) on

    کیسا لگا آپ کو یہ انوکھا فن؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج سے بچانے کے لیے دیو قامت ہاتھ

    کلائمٹ چینج سے بچانے کے لیے دیو قامت ہاتھ

    روم: اٹلی کے خوبصورت ترین پانیوں کے شہر وینس میں ایک تاریخی عمارت کو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے بچانے کے لیے پانی سے دیو قامت ہاتھوں نے نمودار ہو کر عمارت کو سنبھال لیا۔

    یہ دیو قامت ہاتھ دراصل سرامکس سے بنائے گئے ہیں جو ایک اطالوی فنکار نے تخلیق کیے ہیں۔

    ان ہاتھوں کا مقصد دنیا کو کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اگر اس عمل کے باعث سطح سمندر میں اضافہ جاری رہا تو وینس کا خوبصورت شہر اور اس میں موجود تمام تاریخی عمارتیں ڈوب جائیں گی۔

    وینس کی گرینڈ کنال میں جس مقام پر یہ ہاتھ نصب کیے گئے ہیں وہاں 14 ویں صدی کا ایک تاریخی ہوٹل موجود ہے اور ان ہاتھوں کو بنانے والے فنکار کا کہنا ہے کہ یہ ہاتھ دراصل علامتی طور اس ہوٹل کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    کوئن نامی یہ فنکار کہتا ہے، ’یہ دیو قامت ہاتھ انسانی ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو دنیا کو تباہ کر سکتے ہیں، لیکن یہی ہاتھ ہماری زمین کو بچانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں‘۔

    وہ کہتا ہے کہ دنیا بھر کے موسموں میں تغیر یعنی کلائمٹ چینج اس وقت ہماری بقا کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس پر فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    وینس میں ہونے والی آرٹ کی ایک نمائش کے تحت نصب کیے جانے والے یہ دیو قامت ہاتھ 26 نومبر تک نصب رہیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چین میں رنگوں و روشنیوں بھری ڈیجیٹل نمائش

    چین میں رنگوں و روشنیوں بھری ڈیجیٹل نمائش

    بیجنگ: جاپانی ڈیجیٹل آرٹ کے ذریعے جنگل اور آبشاروں کی چین میں نمائش کی گئی جس نے شرکا کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

    جاپان میں تیار کیے جانے والے منفرد ڈیجیٹل آرٹ کے نمونوں نے چینیوں کو دنگ کردیا۔ پل بھر میں رنگ، ڈیزائن اور انداز بدلتے یہ نمونے نہایت خوبصورت دکھائی دیے۔

    لیونگ ڈیجیٹل اسپیس اینڈ فیوچر پارک نامی یہ نمائش بیجنگ میں منعقد کی جارہی ہے۔

    نمائش میں ڈیجیٹل گارڈن، جنگل، پھولوں اور کرسٹل یونیورس کو پیش کیا گیا۔

    سائنس اور آرٹ کے امتزاج کی اس انوکھی نمائش میں شرکا اپنے ارد گرد روشنیوں کو اپنے موبائل سے کنٹرول بھی کر سکتے ہیں۔

    نمائش میں آنے والے بچوں کے لیے اسکیچ ٹاؤن اور ڈیجیٹل پلے گراؤنڈ کا بھی اہتمام کیا گیا جہاں بچوں نے اپنی ڈرائنگ کو تھری ڈی میں تبدیل ہوتے دیکھا۔

    رنگوں اور روشنیوں کی یہ نمائش 10 اکتوبر تک جاری رہے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گول پتھروں سے تعمیر شدہ فرش کیسے تیار کیا جاتا ہے؟

    گول پتھروں سے تعمیر شدہ فرش کیسے تیار کیا جاتا ہے؟

    معاشی طور پر خوشحال اور فن و ادب کی سرپرستی کرنے والے ممالک میں فن کی نئی جہتیں سامنے آتی ہیں۔

    یہ آج کا نہیں صدیوں پرانا رواج ہے، تاریخ میں خوشحال و زرخیز خطوں نے ہی فن و ادب کی سرپرستی کی اور اس شعبے میں بڑے بڑے نام پیدا کیے۔

    ایسا ہی ایک فن فرش پر کندہ کاری کا ہے جس میں ہر دور میں نئی جہت سامنے آئی۔ کبھی فرش پر ٹھوس اشیا کو نصب کیا گیا، کبھی ان پر کندہ کاری کی گئی، اور کبھی خوبصورت نقش و نگاری سے فرش بنائے گئے۔

    path-6

    قدیم یونان میں فرش کو سجانے کے لیے چکنے گول پتھروں کا استعمال کیا جاتا تھا جو مختلف رنگوں اور ڈیزائن کے ہوتے تھے۔ انہیں ایک خاص ترتیب کے ساتھ فرش میں نصب کر کے نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب فرش تیار کیے جاتے تھے جن کے آثار آج بھی ماہرین کو کھدائیوں کے دوران ملتے ہیں۔

    بعض اوقات ان پتھروں کے ذریعے فرش پر کسی خاص واقعے کا پورا منظر بھی تشکیل دیا جاتا تھا۔

    path-7

    اس فن کا آغاز ساتویں اور آٹھویں صدی قبل مسیح میں ہوا تھا تاہم پانچویں صدی قبل مسیح تک یہ فن اتنا مقبول ہوچکا تھا کہ فنکار باقاعدہ اس کی تربیت اور تعلیم حاصل کر کے اس میں نئی جہتیں اور نئے طریقہ کار معارف کرواتے۔

    لیکن یہ فن کوئی آسان نہیں تھا۔ اس کے لیے سخت مشقت، صبر اور مہارت درکار ہوتی تھی جس سے نہ صرف ایک خوبصورت فرش تیار ہوتا بلکہ یہ اپنے اوپر چہل قدمی کرنے والوں کے لیے بھی کسی الجھن کا باعث نہیں بنتا۔

    path-2

    یہ فن آج بھی دنیا بھر میں رائج ہے اور آپ کو مختلف مقامات پر اس طرح کے گول پتھروں سے تعمیر کیے ہوئے فرش دکھائی دیں گے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ فرش کس طرح تعمیر کیا جاتا ہے؟

    path-3

    ایک یونانی فنکار اسٹیلیو گریکوس نے اس فرش کی تعمیر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی جسے دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے۔

    آنکھوں کو دیدہ زیب دکھنے والا یہ فرش نہایت محنت سے تیار کیا جاتا ہے جس کی ایک جھلک آپ بھی دیکھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    جامشورو: مہران یونیورسٹی برائے انجینیئرنگ و ٹیکنالوجی میں شعبہ فنون کے طلبا نے آرٹ کی خوبصورت نمائش کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    مہران یونیورسٹی کے شعبہ آرٹ اور ڈیزائن کے طلبا نے فن پاروں کی سالانہ نمائش میں آرٹ سے اپنی محبت اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    طلبا نے آرٹ کی مختلف جہتوں پر مبنی خوبصورت پوسٹرز اور خطاطی پر مشتمل فن پارے پیش کیے۔

    تخلیقی ذہنیت کے حامل طلبا نے ڈی وی ڈی کورز، لیٹر ہیڈز، مگ، وزیٹنگ کارڈز اور لفافوں پر بھی خوبصورت نقش و نگار تخلیق کر کے انہیں فن پاروں میں بدل دیا۔

    طلبا نے بیسویں صدی کے اوائل میں چلنے والی آرٹ کی دو بڑی تحریکوں ڈاڈا ازم اور سریئل ازم کو اپنے فن پاروں میں پیش کیا۔

    یہ دنوں تحریکیں سنہ 1920 میں سامنے آئی تھیں جب مصوروں نے حقیقی زندگی کی ناانصافیوں، جنگوں اور تصادم کو نظر انداز کر کے تصوراتی فن تخلیق کرنا شروع کیا۔

    مزید پڑھیں: سریئل ازم کے زیر اثر آرٹ

    ان تحریکوں کے زیر اثر وجود پانے والے آرٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بالکل ماورائی اور عقل سے بالاتر فنی اظہار تھا جس میں تخیل اور لاشعور میں جنم لینے والے خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

    طلبا اور اساتذہ کا گروپ

    مہران یونیورسٹی کی اس نمائش کا سرکاری حکام نے بھی دورہ کیا اور طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔