Tag: فن

  • مسخ شدہ مجسموں کی تھری ڈی پرنٹنگ سے بحالی

    مسخ شدہ مجسموں کی تھری ڈی پرنٹنگ سے بحالی

    شام کے قدیم تاریخی شہر پالمیرا میں داعش کے ہاتھوں تباہ شدہ مجسموں کو تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعہ ان کی اصل حالت میں تقریباً واپس لے آیا گیا۔

    گزشتہ برس داعش نے شام کے شہر پالمیرا پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ شہر 2 ہزار قبل مسیح سال قدیم ہے اور یہاں بے شمار تاریخی کھنڈرات موجود تھے جنہیں داعش نے بے دردی سے تباہ کر دیا۔

    مزید پڑھیں: پالمیرا کے کھنڈرات داعش سے قبل اور بعد میں

    داعشی جنگجوؤں نے سینکڑوں قدیم عمارتوں کو مسمار اور مجسموں کو توڑ دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد اتحادی فوجوں نے شہر کو داعش سے تو آزاد کروا لیا، لیکن تب تک شہر اپنا تاریخی ورثہ کھو چکا تھا۔

    یہاں سے ملنے والے مسخ شدہ مجسموں کو مختلف ممالک میں بھیجا گیا جہاں ان کی بحالی و مرمت کا کام جاری ہے۔

    ایسے ہی کچھ مجسموں کو روم میں تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے کسی حد تک ان کی اصل حالت میں واپس لایا جا چکا ہے۔

    statue-5

    داعش کے جنگجوؤں نے ان مجسموں کے چہروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا تھا اور ان پر بھاری اوزاروں سے ضربیں لگائیں تھی۔

    روم میں ماہرین نے ان مجسموں کے چہرے کے بچ جانے والے حصوں کی لیزر سے اسکیننگ کی۔ بعد ازاں چہرے کو مکمل کرنے کے لیے ان سے مطابقت رکھتے ہوئے نئے حصے بنائے گئے۔

    statue-3

    نئے ٹکڑوں کو مقناطیس کی مدد سے نصب کیا گیا۔

    statue-4

    statue

    بحالی کے بعد ان مجسموں کو اب کچھ دن بعد واپس شام بھجوا دیا جائے گا جہاں انہیں دمشق کے میوزیم میں رکھا جائے گا۔

  • آلودگی سے پریشان جنگجو حکمران

    آلودگی سے پریشان جنگجو حکمران

    ماضی اور حال کا ایک ساتھ چلنا گو کہ مشکل لگتا ہے تاہم تخیل کی دنیا ہر حد سے ماورا ہوتی ہے، اور اس میں وقت کے کئی ادوار بیک وقت چل سکتے ہیں۔

    ایک فنکار کا فن اور تخیل حدود و قیود سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کا فن وقت کے گم گشتہ اوراق بھی دکھا سکتا ہے، اور اگر وقت گزشتہ کو حال کے ساتھ ملادیا جائے تو بعض اوقات نہایت ہی حیرت انگیز شے سامنے آتی ہے جو کسی عام انسان کی قوت تخیل سے پرے ہوتی ہے۔

    ایسے ہی دو فنکار آصف احمد اور محمد عاطف خان اپنی قوت تخیل کو نہایت شاندار انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ دونوں فنکاروں کے فن پاروں کی نمائش کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں ’خاموش گفتگو‘ کے نام سے جاری ہے۔

    آصف احمد اپنے فن پاروں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ماضی کی روایات و شخصیات ہمیشہ سے ان کے فن کا موضوع رہا ہے۔ وہ ان کے ساتھ دور جدید کی روایات و زندگی کو ملا کرمنفرد فن پارے تخلیق کرتے ہیں۔

    نمائش میں رکھے جانے والے ان فن پاروں کا موضوع ’ایک دور کا اختتام‘ ہے۔

    اپنی تصاویر میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ماضی کے جنگجو حکمران اور بادشاہ اگر آج کے دور میں ہوتے تو سب سے پہلے انہیں اپنے لیے ایک ماسک کی ضرورت پڑتی تاکہ وہ آلودہ و زہریلی فضا سے خود کو بچا سکیں۔

    01-asif-ahmed-2017-end-of-an-era-gouache-on-wasli-paper-5-5-x-5-5-inches-approx

    02-asif-ahmed-2017-end-of-an-era-gouache-on-wasli-paper-5-5-x-5-5-inches-approx

    03-asif-ahmed-2017-end-of-an-era-gouache-on-wasli-paper-5-5-x-5-5-inches-approx

    یہ تصاویر اس جانب بھی اشارہ کرتی ہیں کہ اپنے دور کے مضبوط، جنگجو، عزم و ہمت کا پیکر اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والے بادشاہ فضائی آلودگی کے ہاتھوں سخت پریشان ہوتے، گویا انسان کی پیدا کردہ فضائی آلودگی ان بہادر بادشاہوں سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔

    دوسرے فنکار محمد عاطف خان بھی تاریخی و دور جدید کے مختلف پہلوؤں کی آمیزش کر کے رنگین و خوبصورت فن پارے تخلیق کرتے ہیں۔

    اس سے قبل اے آر وائی نیوز کو دیے جانے والے ایک خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے فن پاروں میں مختلف تصاویر کے مختلف پہلوؤں کو شامل کر لیتے ہیں۔

    وہ پرانی تصاویر جو کسی اور نے بنائیں، پاکستانی ٹرک آرٹ، یہاں تک کہ کتابوں، پوسٹرز اور کرنسی نوٹوں تک پر چھپے نقوش کی اپنی تصاویر میں آمیزش کر کے انہیں نئے سرے سے تخلیق کرتے ہیں جن کے بعد یہ فن پارے نئے مطالب وا کرتے ہیں۔

    10-atif-khan-2017-fragmentation-2-archival-inkjet-print-on-hahnemuhle-paper-24-5-x-22-inches-edition-1-of-9

    15-atif-khan-2017-landscape-3-archival-inkjet-print-on-hahnemuhle-paper-18-x-24-inches-edition-1-of-9

    11-atif-khan-2017-fragmentation-1-archival-inkjet-print-on-hahnemuhle-paper-24-5-x-22-inches-edition-1-of-9

    عاطف خان کے مطابق ان کی تصاویر کو ’ری سائیکلنگ‘ کہا جاسکتا ہے۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں یہ نمائش مزید چند روز جاری رہے گی۔

  • ہاتھ کے اشارے سے رنگ بکھیرتا جادوئی کینوس

    ہاتھ کے اشارے سے رنگ بکھیرتا جادوئی کینوس

    مصوروں کے لیے اپنے فن اور تخیل کو وجود میں لانا ایک دقت طلب مرحلہ ہے جس میں ان کے جسم اور دماغ کی پوری توانائی صرف ہوجاتی ہے۔

    لیکن کیا ہی اچھا ہو، کہ اگر مصور صرف اپنے ہاتھ کو حرکت دے، اور اس کی مطلوبہ تصویر رنگوں کے ساتھ کینوس پر بکھر جائے؟ گو کہ یہ کسی جادوئی فلم میں دکھائی جانے والی صورتحال لگتی ہے مگر مائیکرو سافٹ نے اسے حقیقت میں تبدیل کر دکھایا، آخر سائنس بھی تو جادو ہی کا دوسرا نام ہے۔

    گزشتہ برس اکتوبر میں جاری کیا جانے والا مائیکرو سافٹ کا آل ان ون ونڈوز 10 ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر سرفیس اسٹوڈیو ایسی ہی جادوئی صلاحیت کا حامل ہے جو مصوروں کے تخیل کو ان کی ایک جنبش انگشت سے وجود میں لاسکتا ہے۔

    surface-6

    surface-7

    surface-2

    ایلومینیم سے تیار کردہ اس کمپیوٹر کی اسکرین 28 انچ کی پکسل سنس ڈسپلے ٹچ اسکرین ہے جس کی موٹائی محض 12.5 ملی میٹر ہے۔

    surface-4

    surface-5

    surface-3

    اس کے ساتھ ایک سرفیس ڈائل بھی موجود ہے جو ٹریک پیڈ کی طرح کام کرتا ہے، اور اسے اسکرین پر رکھ کر اس سے رنگوں اور تصاویر کا انتخاب یا تصویروں کی تشکیل بھی کی جاسکتی ہے۔

  • رومی میوزک فیسٹول اگلے ماہ کراچی میں

    رومی میوزک فیسٹول اگلے ماہ کراچی میں

    کراچی: 3 روزہ عالمی رومی موسیقی میلے کا انعقاد کراچی میں کیا جائے گا۔ یہ میلہ مارچ کی 10، 11 اور 12 تاریخ کو منعقد ہوگا۔

    کراچی کے انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس میلے کا مقصد عظیم صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی کی شاعری اور موسیقی کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔

    rumi-2

    میلے میں دنیا بھر سے مختلف میوزک بینڈ شرکت کریں گے۔ میلے میں موسیقی کے ساتھ آرٹ اور دستکاری کی نمائش اور مختلف مباحثے بھی منعقد ہوں گے۔

    رومی کون؟

    مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت افغانستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن رومی کے زمانے میں یہ ایک مذہبی دارالخلافہ تھا اور بدھوں اور فارسی ادب کا مرکز تھا۔

    بعض مؤرخین کے مطابق بلخ نامی ایک اور علاقہ موجودہ تاجکستان میں بھی موجود تھا اور رومی وہیں پیدا ہوئے۔ منگول جنگجو چنگیز خان نے بھی 1221 میں اس پر حملہ کیا تھا۔

    منگولوں کے حملے کے دوران رومی نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔

    مزید پڑھیں: رومی تمہارا نہیں ہے، افغانی سیخ پا ہوگئے

    یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔

    شمس تبریزی اور رومی کا ساتھ 2 برس تک رہا۔ اس کے بعد شمس تبریزی پراسرار طور پر غائب ہوگئے۔ بعض مؤرخین کے مطابق انہیں قتل کردیا گیا تاہم ان کی موت کے بارے میں حتمی معلومات دستیاب نہیں۔ ان کا مزار ایران کے شہر خوئے میں ہے جسے اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے۔

    رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری کا بے شمار زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ رومی کا مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جہاں رومی کی رباعیات پر کیا جانے والا صوفی رقص پوری دنیا میں مشہور ہے۔

    :رومی پر ہالی ووڈ فلم

    ہالی وڈ کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’گلیڈی ایٹر‘ کے مصنف ڈیوڈ فرنزونی رومی کی زندگی اور شاعری پر فلم بنانے جارہے ہیں۔

    اس حوالے سے ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ وہ جو فلم بنانے جا رہے ہیں وہ مغربی سنیما میں مسلمانوں کے بارے میں غلط تصورات کو ختم کردے گی۔ ’رومی ایک ایسا شاعر ہے جو لوگوں کی زندگیوں اور معاشروں پر اثرانداز ہوا۔ ایسے عظیم افراد کی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ کھوجنے کی ضرورت ہے‘۔

    فلم میں رومی کا کردار آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو ادا کریں گے جبکہ شمس تبریزی کا کردار رابرٹ ڈاؤننگ جونیئر ادا کریں گے۔ فلم کی کاسٹ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

  • مرنے کے بعد رنگین ٹیٹو زدہ جلد نمائش کے لیے فروخت

    مرنے کے بعد رنگین ٹیٹو زدہ جلد نمائش کے لیے فروخت

    جلد پر ٹیٹو بنانا تو ایک عام سی بات ہے اور آپ نے بیشتر افراد کی جلد پر ٹیٹو دیکھا ہوگا۔ یہ ٹیٹو (تصاویر) کسی بھی قسم کی ہوسکتی ہیں، اور یہ تمام رنگوں میں اور ہر سائز کے ہوسکتے ہیں۔

    لیکن سوئٹزر لینڈ کے ایک شہری نے اپنی جلد پر اس قدر وسیع اور رنگین ٹیٹو بنوایا کہ اسے محفوظ رکھنے کے لیے اس نے اپنی جلد کو فروخت کردیا تاکہ مرنے کے بعد اس کی ٹیٹو زدہ جلد کو یادگار کے طور پر محفوظ کرلیا جائے۔

    tattoo-2

    زیورخ کا ٹم اسٹینر کچھ عرصہ قبل تک خود بھی ایک ٹیٹو پالر کا نگران تھا جہاں ٹیٹو بنائے جاتے تھے۔ یہ کام کرتے اور دیکھتے ٹم کو خود بھی ٹیٹو کا شوق ہوگیا نتیجتاً اس نے اپنی پیٹھ کی پوری جلد پر رنگین ٹیٹو بنوا ڈالا جو کسی طور آرٹ کے کسی شاہکار سے کم نہیں۔

    ٹم کا یہ ٹیٹو بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے ایک مصور نے بنایا ہے۔

    تاہم اب ٹم کے خیال میں اس کے مرنے کی صورت میں اس کی جلد، جو اب ایک فن پارے میں تبدیل ہوچکی ہے، مٹی کا حصہ بن جائے گی اور اس کے حل کے لیے اس نے اپنی جلد کو ایک جرمن آرٹ کلیکٹر کے ہاتھ ڈیڑھ لاکھ یوروز میں فروخت کردیا۔

    tattoo-6

    ٹم نے اس سے معاہدہ کیا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی جلد کو جسم سے علیحدہ کر کے فریم کروا کر کسی آرٹ گیلری میں رکھ دیا جائے گا۔

    ٹم کا کہنا ہے کہ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اسے کسی حد تک بھیانک خیال کیا۔ ’آپ کسی فن پارے کو دیکھنے کے لیے رکیں اور آپ کو علم ہو کہ یہ کوئی کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک انسانی جلد ہے تو یقیناً آپ کا خوف و کراہیت سے برا حال ہوجائے گا‘۔

    لیکن ٹم کے خیال میں اگر وہ ایسا نہ کرتا تو وہ آرٹ کے ایک خوبصورت فن پارے کو ضائع کردیتا۔

    لیکن اس سے قبل اس معاہدے کے تحت ٹم ایک اور کام کے لیے مجبور ہے۔ اسے اپنی بقیہ تمام زندگی آرٹ کی نمائشوں میں اپنی جلد کی نمائش بھی کرنی ہے۔ ٹم اسے ’زندہ کینوس‘ بننے کا نام دیتا ہے۔

    معاہدے کی اس شق کے تحت ٹم سال میں 3 بار کسی بڑی آرٹ کی نمائش میں، اسٹول پر مجسمے کی طرح ساکت بیٹھ جاتا ہے۔ یوں اس کی ٹیٹو زدہ جلد بھی فن پاروں میں شمار ہوتی ہے۔

    tattoo-3

    tattoo-4

    وہ بتاتا ہے کہ لوگ پہلے پہل اسے مجسمہ سمجھتے ہیں، لیکن جب وہ حرکت کرتا ہے اور لوگوں کو اس حکمت عملی کا علم ہوتا ہے تو وہ بہت حیران ہوتے ہیں۔

    tattoo-5

    tattoo-7

    ٹم کا کہنا ہے کہ یہ بہت دقت طلب اور اکتا دینے والا کام ہے، ’کئی گھنٹوں تک ایک ہی پوزیشن پر بیٹھے رہنا، اس دوران لوگ مجھے چھوتے بھی ہیں اور میرے بارے میں ہر قسم کی آرا کا اظہار کرتے ہیں‘۔

    گو کہ آرٹ کے دلدادہ ٹم کے لیے یہ سب کافی مشکل ہے لیکن وہ فن و مصوری کی ترویج کے لیے یہ مشکل کام بھی کر رہا ہے۔

  • پریوں کی گزر گاہ ننھے منے دروازے

    پریوں کی گزر گاہ ننھے منے دروازے

    واشنگٹن: امریکی ریاست مشی گن میں ایک چھوٹا سا قصبہ ایسا ہے جہاں جانے والوں کو ایک حیرت انگیز اور کسی حد تک پراسرار شے نظر آتی ہے۔

    یہ پراسرار شے قصبہ میں جا بجا بکھرے ننھے منے سے دروازے ہیں جنہیں پریوں کا دروازہ یا فیری ڈور کہا جاتا ہے۔

    5

    10

    4

    یہ ننھے منے دروازے دراصل مختلف ریستورانوں، دکانوں یا عمارتوں میں بنائے جاتے ہیں۔ ان کے بنانے کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا۔ یہ خوبصورتی اور وہاں موجود بچوں کو بہلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور دیکھنے میں یہ بند دروازے کسی فریم کی طرح لگتے ہیں۔

    7

    9

    بعض دروازوں کے اندر ننھی منی سیڑھیاں بھی بنائی گئی ہیں اور یہ سیڑھیاں ایک اور بند دروازے پر منتج ہوتی ہیں، اور دیکھنے میں یوں لگتا ہے کہ اس دروازے کے پیچھے واقعی کوئی پری چھپی بیٹھی ہے۔ یہ دیکھنے والے کو ایک پراسرار سے سحر میں مبتلا کردیتا ہے۔

    6

    مشی گن کے قصبے این آربر میں بنائے جانے والے یہ دروازے دراصل ایک رہائشی جوناتھن بی رائٹ نامی فنکار نے بنائے ہیں۔

    2

    اسے اپنے گھر میں بھی ایک ایسا ہی ننھا سا دروازہ ملا تھا جو اس گھر کی تعمیر کے وقت بنایا گیا تھا۔ اس نے اس دروازے کو بے حد خوبصورتی سے سجایا اور ساتھ ہی قصبے کے نمایاں مقامات پر بھی یہ دروازے بنانے کا کام شروع کردیا۔

    3

    کچھ عرصے بعد رہائشیوں نے ان دروازوں کو وشنگ ویل یا خواہشات کے دروازے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔

    8

    ان کا عقیدہ ہے کہ یہاں سچ مچ پریاں آتی ہیں۔ وہ خیر سگالی کے طور پر یہاں ان کے لیے سکے، ڈارئنگز اور دیگر اشیا رکھتے ہیں، اس امید پر کہ شاید ان پریوں کو ان کا تحفہ پسند آجائے اور وہ اپنی جادوئی چھڑی گھما کر ان کا بگڑا ہوا کام بنا دیں۔

  • صادقین ۔ رباعی کا شاعر، خطاطی کا امام

    صادقین ۔ رباعی کا شاعر، خطاطی کا امام

    پاکستان کے معروف خطاط، مصور اور شاعر صادقین کو آج ہم سے بچھڑے 30 برس گزر گئے۔ فرانس کے آرٹ سرکلز میں پاکستانی پکاسو کے نام سے یاد کیے جانے والے صادقین نے پاکستان میں فن خطاطی کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فن مصوری ادھورا ہے۔

    سنہ 1930 میں سید صادقین احمد نقوی امروہہ کے جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے، وہ خاندان اپنے فن خطاطی کے حوالے سے نہایت مشہور تھا۔ صادقین کے دادا خطاط تھے، جبکہ ان کے والد باقاعدہ خطاط تو نہ تھے، البتہ نہایت خوشخط تھے۔

    امروہہ میں ابتدائی تعلیم اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو صادقین اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آبسے۔

    صادقین بچپن ہی سے گھر کی دیواروں پر مختلف اقسام کی خطاطی و تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ ان کی تصاویر کی پہلی نمائش جس وقت منعقد ہوئی اس وقت ان کی عمر 24 برس تھی۔

    پاکستان کی فن مصوری اور خصوصاً فن خطاطی کو بام عروج پر پہنچانے والے مصور صادقین کا ذکر کرتے ہم شاعر صادقین کو بھول جاتے ہیں۔ وہ شاعر بھی اتنے ہی عظیم تھے جتنے مصور یا خطاط۔

    صادقین کے بھتیجے سلطان احمد نقوی جو کراچی میں مقیم ہیں، اور صادقین اکیڈمی کے امور کے نگران ہیں، بتاتے ہیں کہ صادقین کے اندر چھپا فنکار پہلے شاعر کی شکل میں ظاہر ہوا۔

    سلطان احمد کے مطابق صادقین 16 سال کی عمر میں باقاعدہ شاعر بن چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزو بوسیدہ‘ کے نام سے موجود ہے جس میں صادقین کی اوائل نوجوانی کے ایام کی شاعری موجود ہے۔

    اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں

    اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں

    اجسام میں اختلاف، میرے تیرے

    ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں

    صادقین نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اصناف سخن کی سب سے مشکل صنف یعنی رباعی کا انتخاب کیا۔ ان کی لکھی گئی رباعیات کی تعداد ڈھائی ہزار سے 3 ہزار کے قریب ہے اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔

    ان کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات صادقین خطاط اور رباعیات صادقین نقاش کے نام سے موجود ہے، جبکہ ان کے پوتے سبطین نقوی نے بھی ان کی رباعیات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔


    صادقین کی خطاطی ۔ ضیا الحق کے دور کا جبر؟

    بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ صادقین کی خطاطی دراصل ضیا الحق کے اسلامائزیشن کے دور کا ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ اس دور میں صادقین کے اندر کا فنکار اسلامی خطاطی کے لبادے میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔

    لیکن سلطان احمد اس خیال کو لوگوں کی لاعلمی قرار دیتے ہیں۔ ’صادقین پشت در پشت خطاط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تو ان کے خون میں شامل تھی۔ انہوں نے اس فن میں نئی جہتوں کو روشناس کروایا۔ یہ کام جبر یا بے دلی سے نہیں ہوسکتا‘۔

    قرطاس پہ ہاں جلوے دکھاتا ہے یہ کون؟

    پردے میں مرے نقش بناتا ہے کون؟

    یہ سچ ہے کہ مو قلم گھماتا ہوں میں

    لوحوں پہ مرا ہاتھ گھماتا ہے کون؟

    سلطان احمد کا کہنا ہے کہ وہ خطاطی کا آغاز اور اس میں اپنا ارتقا بہت پہلے سے کر چکے تھے، ’اس وقت تو ضیا الحق کی حکومت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا‘۔

    فن مصوری و خطاطی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ خطاطی کا ارتقا 3 مراحل سے گزرا ہے۔ پہلا مرحلہ صرف حروف یا سطور کو قلم بند کرنے کا تھا۔ اس کے بعد اسے سیاہ روشنائی سے مزین کیا گیا۔ تیسرا مرحلہ اس میں رنگوں کی آمیزش کا تھا اور اس کا سہرا بلاشبہ صادقین کے سر ہے۔

    صادقین کی خطاطی کی ایک ندرت یہ بھی ہے کہ انہوں نے آیات کے ساتھ اس کی تصویری تشریح (السٹریشن) بھی پیش کی۔ یہ روایت صادقین نے شروع کی تھی اور اس سے فن خطاطی میں نئی جدت پیدا ہوئی۔ انہوں نے یہ کام اس لیے بھی کیا تاکہ قرآنی آیات کو سمجھنے میں آسانی ہو اور ہر خاص و عام اسے سمجھ سکے۔

    ان کی خطاطی کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے رسم الخط کو ملحوظ خاطر رکھتے خطاطی میں جدت پیش کی۔ نئے آنے والے خطاطوں نے جدت وانفرادیت کو پیش کرنے کے لیے حروف و الفاظ کی بنیادی شکل تبدیل کردی جس سے خطاطی کے روایتی اصول برقرار نہ رہ سکے۔ صادقین نے جدت کے ساتھ حروف اور الفاظ، اور خطاطی دونوں کے تقدس کو برقرار رکھا۔

    اگر یہ کہا جائے کہ خطاطی کو باقاعدہ فن کے طور پر متعارف کروانے، اور اسے آرٹ کے نصاب میں بطور مضمون شامل کروانے کا سہرا صادقین کے سر ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔


    صادقین کی مصوری میں نمایاں حاشیے

    معروف فنکار انور مقصود کہتے ہیں کہ صادقین کی مصوری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے ہر فن پارے میں ’لکیر‘ نمایاں ہے۔ ’ایک مصور کی پینٹنگ میں پینٹ یا رنگوں کو نمایاں ہونا چاہیئے، لیکن صادقین کی لکیر ان کی پہچان ہے۔

    صادقین وہ خوش نصیب مصور تھے جن کی مصوری ایک خاص طبقے سے نکل کر عام افراد تک پہنچی اور عوام نے بھی اس ہیرے کی قدر و منزلت کا اعتراف کیا۔

    سنہ 1960 میں 30 برس کی عمر میں صادقین کو ان کے فن کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اس کے اگلے ہی برس انہیں فرانس کے اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا گیا۔ سنہ 1962 میں تمغہ حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس)، سنہ 1985 میں ستارہ امتیاز جبکہ آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ثقافتی ایوارڈ کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔

    صادقین کے فن پاروں کی کئی نمائشیں مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں بھی منعقد کی گئیں جہاں ان کے فن کو بے حد سراہا گیا۔ ان کے فن کی نمائش کا سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری رہا۔

    انور مقصود کہتے ہیں، ’عجیب بات ہے کہ صادقین کا کام ان کی زندگی میں اتنا نہیں ہوا جتنا ان کی موت کے بعد ہوا۔ بے شمار لوگوں نے ان کے فن پاروں کی نقل بنا کر، یا پینٹنگز کو صادقین کے نام سے منسوب کر کے بیچا‘۔


    صادقین جس طرح کے منفرد فنکار تھے، اپنے فن کے بارے میں بھی وہ ایسے ہی منفرد خیالات رکھتے تھے۔

    ان کے بھتیجے سلطان احمد سے جب اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے یاد گزشتہ میں جھانکتے ہوئے بتایا، ’صادقین کہتے تھے، خدا کا شکر ادا کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے اور ہر شخص اس کے لیے اپنا طریقہ اپناتا ہے۔ میرا فن خدا کا اظہار تشکر کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘۔

    وہ مانتے تھے کہ ہر انسان میں موجود صلاحیت دراصل خدا کی نعمت ہے، اور اس نعمت کا اظہار کرنا اور اس کو بروئے کار لانا، اس صلاحیت کا احسان ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی صلاحیت کا استعمال نہیں کرتا، تو دراصل وہ کفران نعمت کرتا ہے۔

    گویا صادقین کے لیے ان کا فن ایک مقدس عمل، طریقہ عبادت اور شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔

    یہی وہ خیال تھا جس کی وجہ سے صادقین نے کبھی اپنا کام فروخت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بے شمار فن پارے دوست، احباب اور عزیز و اقارب کو تحفتاً دے دیے، مگر کبھی ان کی قیمت وصول نہیں کی۔ بقول خود ان کے، ان کا فن شکرانہ خدا ہے، برائے فروخت نہیں۔ کوئی اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتا۔

    اسی وجہ سے سنہ 1974 میں جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ خالد، اور بعد ازاں ملکہ ایران فرح دیبا نے ان سے ذاتی حوالے سے کام کے لیے کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔

    یہ خام نگاہی کا اڑاتی ہے مذاق

    ہاں ظل الہٰی کا اڑاتی ہے مذاق

    یہ میری برہنگی بھی جانے کیا ہے

    جو خلعت شاہی کا اڑاتی ہے مذاق


    صادقین کے فن پارے

    دنیا بھر میں اپنے کام کی وجہ سے معروف صادقین نے بے انتہا کام کیا اور لاتعداد فن پارے تخلیق کیے۔ انہوں نے اپنا پہلا میورل (قد آدم تصویر) کراچی ایئر پورٹ پر بنایا۔

    اس کے علاوہ جناح اسپتال کراچی، منگلا ڈیم پاور ہاؤس، لاہور میوزیم، فریئر ہال کراچی، پنجاب یونیورسٹی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دیواروں پر ان کے شاہکار میورل کنندہ ہیں۔

    پاکستان سے باہر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پیرس کے مشہور زمانہ شانزے لیزے پر صادقین کے منقش فن پارے ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ان کا ایک عظیم فن پارہ ’وقت کا خزانہ ۔ ٹریژر آف ٹائم‘ کے نام سے میورل کی شکل میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کی لائبریری میں ثبت ہے جس میں انہوں نے تمام مفکرین بشمول یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین، اور یورپی سائنسدانوں کی تصویر کشی کے ذریعے ہر عہد کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقا کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

    یہ میورل سنہ 1961 میں تخلیق کیا گیا۔

    انہوں نے غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کو بھی انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں تحریر کیا۔

    صادقین نے فرانسیس مفکر و مصنف کامو کی تصنیف ’دا آؤٹ سائیڈر‘ کی السٹریشن بھی پیش کی۔

    اپنے انتقال سے قبل صادقین کراچی کے فریئر ہال میں ایک میورل پر کام کر رہے تھے۔ وہاں موجود ارض و سماوات یعنی زمین و آسمان ان کا آخری منصوبہ تھا جو ادھورا رہ گیا۔

    سنہ 1987 میں ان کے انتقال کے بعد اس مقام کو ان سے منسوب کر کے صادقین گیلری کا نام دے دیا گیا۔

    صادقین 10 فروری 1987 کو انتقال کر گئے۔ ان کی آخری آرام گاہ سخی حسن قبرستان میں واقع ہے۔

    آخر میں ان کی کچھ رباعیات جو ان کے متنوع خیالات اور انداز فکر کی عکاس ہیں۔ صادقین نے عشق مجازی، حسن و محبت، جلاد، مقتل، مذہب سب ہی کچھ اپنی رباعیات میں شامل کیا۔

    ہم اپنے ہی دل کا خون بہانے والے
    اک نقش محبت ہیں بنانے والے
    عشرت گہ زردار میں کھینچیں تصویر؟
    ہم کوچہ جاناں کے سجانے والے

    کب مسلک کفر میں ہے کچا کافر
    دیتا نہیں ایمان کا غچا کافر
    میری تو نظر میں ہے بہت ہی بہتر
    اک جھوٹے مسلمان سے سچا کافر

    یہ سایا ڈراؤنا ابھرتا کیوں ہے؟
    خونخوار ہے رہ رہ کر بپھرتا کیوں ہے؟
    تو کون ہے؟ پوچھا تو یہ آئی آواز:
    مجھ سے، میں تری روح ہوں ڈرتا کیوں ہے؟

    جاناں کے قدم چوم کے آ پہنچے ہیں
    ہم چاروں طرف گھوم کے آ پہنچے ہیں
    غائب ہے کدھر؟ ہم سر مقتل جلاد
    لہراتے ہوئے جھوم کے آ پہنچے ہیں

    ہم جنس سے اس حد کی رقابت کیوں تھی؟
    اور جنس مخالف پہ طبیعت کیوں تھی؟
    قابیل نے ہابیل کو مارا کیوں تھا؟
    اور آدم و حوا میں محبت کیوں تھی؟

    ہو ہی ابھی مقتل میں کہا تھا یارو!
    اک وار میں پھر خون بہا تھا یارو!
    سر میرا کٹ پڑا تھا، لیکن پھر بھی
    حق حق لب سے نکل رہا تھا یارو!

    میں کھینچ کے شہکار ہوں ننگا یارو
    لکھ کر خط گلزار ہوں ننگا یارو
    تم کونوں بچالوں ہی میں ہوتے ہو فقط
    اور میں سر بازار ہوں ننگا یارو

  • کاغذ سے تصویر اور تکمیل کا مرحلہ

    کاغذ سے تصویر اور تکمیل کا مرحلہ

    کاغذ پر تصویر کی تشکیل اور پھر اس کی تکمیل تک کا مرحلہ کوئی آسان عمل نہیں، تخلیق کار کی تخلیق کا سارا کرب اس دوران ان کاغذوں پر بکھر آتا ہے، اور پھر یہ کرب فن پارے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

    انہی تینوں مراحل کے نام سے اپنی نمائش منعقد کرنے والے 3 فنکار افشر ملک، انور سعید اور محبوب شاہ نے اپنے فن میں اسی کرب کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹ سے تعلیم حاصل کرنے والے اور زندہ دلان کے شہر میں رہنے والے ان فنکاروں نے اپنے فن کی نمائش کے لیے اس بار کراچی کو چنا۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں لوگوں کی بڑی تعداد نے متضاد خیالات کے حامل فن پاروں کی نمائش کو سراہا۔

    افشر ملک نے اپنے فن پاروں میں زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کیا۔

    afshar-1

    afshar-2

    afshar-3

    انور سعید کے اس فن پارے کا عنوان ہے’ جسم اور اس کے اندر رہنے والی چیزیں‘۔ وہ چیزیں جذبات، احساسات اور خیالات ہیں۔

    anwar-1

    محبوب شاہ نے مختلف تصاویر کو ایک نئے زاویہ نظر سے پیش کیا۔

    mehboob-1

    mehboob-2

    mehboob-4

    نمائش کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں مزید چند روز تک جاری رہے گی۔

  • برطانوی بحری فوج میں ’خودکش بمبار‘ شامل کرنے کا اشتہار

    برطانوی بحری فوج میں ’خودکش بمبار‘ شامل کرنے کا اشتہار

    لندن: لندن کے طول و عرض میں عجیب و غریب اشتہاری پوسٹر نے شہریوں کو خوف اور اچھنبے میں مبتلا کردیا جس میں انہیں ’خود کش بمبار‘ بننے کی دعوت دی گئی ہے۔

    پوسٹر میں برطانیہ کی بحری فوج کا نشان ثبت ہے جبکہ اس میں فوج کے یونیفارم میں ملبوس 3 فوجیوں کو دکھایا گیا ہے۔ پوسٹر میں مزید معلومات کے لیے بحری فوج کی آفیشل ویب سائٹ بھی دی گئی ہے۔

    bomber-4

    یہ پوسٹر دراصل ایک برطانوی آرٹسٹ ڈیرن کلن نے شاہی (برطانوی) بحری فوج کی ہجو میں بنایا ہے۔ پوسٹر میں فوج میں شامل جوہری آبدوز کے عملے میں نوکری حاصل کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ نوکری خودکش بمبار بننے کے مترادف ہے۔

    پوسٹر میں لکھا گیا ہے، ’ہماری جوہری آبدوزیں ایک خودکش مہم پر ہیں۔ ان آبدوزوں سے میزائل لانچ کرنے کا مطلب ہے یقینی موت۔ نہ صرف اس شخص کی جس نے میزائل لانچ کیا، بلکہ اس کے ساتھ ان لاکھوں معصوم لوگوں کی بھی جو اس میزائل کے نشانے پر ہوں گے‘۔

    اسے بنانے والے آرٹسٹ نے صرف ایک پوسٹر بنا کر اسے شہر میں لگایا، اور تھوڑی ہی دیر بعد شہریوں نے اس کی کئی کاپیاں بنا کر پورے لندن میں آویزاں کردیں۔

    bomber-3

    آرٹسٹ کا کہنا ہے کہ جوہری بموں کا استعمال اپنے آپ کو قتل کیے بغیر ممکن نہیں۔ ’جس طرح دہشت گرد خود پر بم باندھ کر ہزاروں معصوم افراد کو مار دیتے ہیں، بالکل یہی کام ہم خود بھی کر رہے ہیں‘۔

    اس عجیب و غریب پوسٹر اور اس پر لکھے پیغام نے پہلے تو لندن کے شہریوں کو ہراساں کیا، اس کے بعد جب انہیں اس کے پس منظر کا علم ہوا تو انہوں نے خود بھی اس پیغام کی تشہیر شروع کردی۔

  • زندگی کی نئی معنویت کو پیش کرتے 11 فنکار

    زندگی کی نئی معنویت کو پیش کرتے 11 فنکار

    کراچی: روشنیوں کے شہر کراچی میں ایک منفرد نمائش مصوری منعقد کی جارہی ہے جس میں 11 فنکاروں نے اپنے فن پارے پیش کیے ہیں۔

    زندگی اور اس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی اس نمائش میں اپنے فن پارے پیش کرنے والے تخلیق کار نو آموز بھی ہیں، اور تجربہ کار بھی، جو اپنے اندر کے احساسات و خیالات کو پیش کر رہے ہیں۔

    ان فنکاروں نے ایسی ہی ایک نمائش سنہ 2012 میں بھی پیش کی تھی۔ اب یہ فنکار اپنی سوچ کے ارتقا کو پیش کرنے کے لیے ایک بار پھر سے اکٹھے ہوئے ہیں۔

    ان فنکاروں میں عبداللہ قمر، اسد حسین، فہیم راؤ، فراز متین، نبیل مجید، محمد اسمعٰیل، نعمان صدیقی، رابعہ شعیب، راحیلہ ابڑو، سعدیہ جمال اور ایس ایم رضا شامل ہیں۔

    آرٹسٹ ۔ نعمان صدیقی
    آرٹسٹ ۔ محمد اسمعٰیل
    آرٹسٹ ۔ ایس ایم رضا

    ایس ایم رضا اپنی تخلیقات کے بارے میں بتاتے ہیں،  ’ہم جو دیکھتے ہیں وہ ایک فریب نظر ہوتا ہے۔ اس شے کے بارے میں جو سوچتے ہیں وہ دھوکہ ہوتا ہے۔ دراصل اس شے کی حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے اور یہی میں نے اپنے فن میں پیش کیا ہے‘۔

    آرٹسٹ ۔ فہیم راؤ
    آرٹسٹ ۔ سعدیہ جمال

    سعدیہ جمال اپنے فن پارے کے بارے میں کہتی ہیں، ’ہمارے ارد گرد بہت سی اشیا موجود ہیں جنہیں ہم سرسری سی نظر سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں۔ کبھی ان کی معنویت پر غور نہیں کرتے۔ ہر خوبصورت شے کے اندر بدصورتی اور ہر بدصورت شے کے اندر کچھ خوبصورتی چھپی ہوتی ہے جو نظر انداز ہوجاتی ہے۔ میں نے اسی معنویت و گہرائی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے‘۔

    آرٹسٹ ۔ عبداللہ قمر
    آرٹسٹ ۔ راحیلہ ابڑو

    راحیلہ ابڑو کا فن پارہ دراصل پانی ہے جو فرش پر پینٹ کیا گیا ہے۔ وہ اپنے اس فن پارے کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرتی ہیں، کہ پانی زندگی کے لیے ایک لازمی جزو ہے اور پانی کے بغیر زندگی کا وجود نہیں۔

    آرٹسٹ ۔ اسد حسین
    آرٹسٹ ۔ نبیل مجید

    نبیل مجید کہتے ہیں، ’ہم نے یہ تو سنا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن کبھی ہم نے اس جملے کی معنویت پر غور نہیں کیا۔ کبھی ہم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ وہ ’ہاتھ‘ کس شکل میں اور کس کس طرح مرد کو آگے بڑھنے کی طاقت فراہم کرتا ہے‘۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں یہ نمائش 7 فروری تک جاری رہے گی۔