Tag: فوتگی

  • بلوچی زبان کے لیجنڈ فن کار کا کراچی میں انتقال

    بلوچی زبان کے لیجنڈ فن کار کا کراچی میں انتقال

    کراچی: بلوچی زبان کے لیجنڈ گلو کار ناکو سبزل سامگی کراچی میں انتقال کر گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لوک گیتوں کی صنف زہیروک کے ماسٹر ناکو سبزل طویل علالت کے بعد کراچی میں گزشتہ روز انتقال کر گئے۔

    بلوچی زبان کے معروف گلوکار سامگی کراچی کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے، انھیں اکتوبر کے آخری دنوں میں ایک نجی میوزک آرگنائزیشن نے طبیعت زیادہ ناساز ہونے پر علاج کے لیے کراچی منتقل کیا تھا۔

    پنجگور سے تعلق رکھنے والے گلوکار سبزل سامگی کی نماز جنازہ آج صبح 11 بجے سامی میں ادا کی جائے گی۔

    سبزل سامگی بلوچی زبان کے لیجنڈ فن کار سمجھے جاتے تھے، وہ لوک گائیکی کی صنف ’زہیروک‘ کے ماسٹر تھے، بڑی تعداد میں لوگ ناکو سبزل کی گائیگی اور فن کے معترف تھے، ان کے پروگرامز میں ایران، کراچی، کوئٹہ، خاران ،گوادر، پنجگور، پسنی اور دیگر علاقوں سے شایقین انھیں سننے آتے تھے۔

    گزشتہ ماہ کے آخری دنوں میں ان کی طبیعت شدید خراب ہوئی، ان کے گلوکار بیٹے شاہمیر سبزل کا کہنا تھا کہ ان کے والد چیسٹ انفیکشن میں مبتلا ہیں۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ اس لیجنڈ گلوکار کے علاج کے لیے گھر والوں کے پاس رقم بھی میسر نہیں تھی، کراچی منتقلی پر ان کے علاج کے اخراجات کے لیے لوگوں سے امداد کی اپیل بھی کی گئی تھی۔

    سبزل سامگی نے موسیقی کو اپنی زندگی کے کم و بیش 50 سال دیے، بلوچی میوزک میں اپنی آواز کا جادو جگانے والے ناکو سبزل سامگی کے آخری البم کا دو سال قبل اعلان سامنے آیا تھا، جو کہ 20 برس بعد آنے والا ان کا کوئی البم تھا، یہ البم بلوچی زبان کے معروف شعرا عطا شاد، مبارک قاضی، بشیر بیدار اور منشی نصیر آبسری کی شاعری پر مشتمل تھا۔

  • مسکراہٹیں بکھیرنے والے شاعر عنایت علی خان انتقال کر گئے

    مسکراہٹیں بکھیرنے والے شاعر عنایت علی خان انتقال کر گئے

    کراچی: مسکراہٹیں بکھیرنے والے معروف شاعر اور استاد پروفیسر عنایت علی خان خالق حقیقی سے جا ملے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں طنز و مزاح کے نامور شاعر پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی انتقال کر گئے ہیں، ان کی نماز جنارہ کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں ادا کی جائے گی۔

    مرحوم کے اہل خانہ کے مطابق پروفیسر عنایت علی کا انتقال گزشتہ شب دل کا دورہ پڑنے سے ہوا، مرحوم کی عمر 85 برس تھی اور وہ کئی ماہ سے علیل تھے۔

    پروفیسر عنایت طنز و مزاح کے ساتھ سنجیدہ شاعری میں بھی الگ پہچان رکھتے تھے، ان کی موت سے علم و ادب کی ایک اور شمع بجھ گئی ہے، وہ 1935 میں بھارتی ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے تھے، اور نومبر 1948 میں ہجرت کے بعد سندھ کے شہر حیدرآباد میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ انھوں نے 1962 میں سندھ یونی ورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں ٹاپ کیا۔

    سنجیدہ شاعری ہو یا مزاحیہ پروفیسرعنایت علی خان منفرد اسلوب کے مالک تھے، تدریس سے وابستہ پروفیسر عنایت علی خان کو 6 کتابوں پر انعام سے بھی نوازا گیا، ان کی مشہور تصانیف میں ازراہِ عنایت، عنایات، عنایتیں کیا کیا شامل ہیں۔

    چنو منو اور شیطان، پیاری کہانیاں کے نام سے پروفیسر عنایت نے بچوں کے لیے کہانیوں اور نظموں کی دو کتابیں بھی لکھیں، ان کی نظم بول میری مچھلی کے کئی مزاحیہ قطعات زبان زد عام ہوئے۔

    پروفیسر عنایت کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر