Tag: فوجی اڈہ

  • افغانستان میں قائم وہ فوجی اڈہ جہاں آج سناٹے کا راج ہے

    افغانستان میں قائم وہ فوجی اڈہ جہاں آج سناٹے کا راج ہے

    کابل: افغانستان میں ایک ایسا فوجی اڈہ موجود ہے جہاں کبھی 600 جہاز روزانہ اترتے اور روانہ ہوتے تھے، لیکن آج یہاں دھول اڑتی ہے اور سناٹے کا راج قائم ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا نے ابھی چند روز پہلے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام ایئر بیس خالی کیا ہے، یوں ملک سے امریکی فوج کے انخلا کی جانب ایک اہم قدم اٹھ چکا ہے اور اندازہ ہے کہ 11 ستمبر کی ڈیڈ لائن سے کہیں پہلے امریکی اور اتحادی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔

    بگرام سے تقریباً 600 کلومیٹرز دور ایک ایسا فوجی اڈہ بھی تھا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی بیرونِ ملک سب سے بڑی فوجی چھاؤنی بنا اور 34 ہزار فوجیوں کے لیے بنائے گئے اس اڈے اس پر ایک ارب ڈالرز سے بھی زیادہ لاگت آئی تھی لیکن خالی ہونے کے 7 سال بعد آج یہاں کے بیشتر حصے پر ان کا نام و نشان تک باقی نہیں۔

    یہ افغان صوبہ ہلمند کے شہر لشکر گاہ کے قریب صحرا میں واقع کیمپ باسشن تھا جو 2005 سے 2014 تک افغانستان میں برطانوی فوج کا مرکز رہا۔ دور دراز ویران علاقے میں بنائے گئے اس فوجی اڈے میں تمام جدید ترین سہولیات دستیاب تھیں۔ یہ ایک پورا شہر تھا، جس کے تین نمایاں حصے تھے۔ ایک برطانوی فوجیوں کا کیمپ باسشن، دوسرا امریکا کا کیمپ لیدر نیک، جہاں برطانیہ سے بھی دو گنا زیادہ سپاہی تھے۔ جبکہ ایک افغان فوجیوں کا کیمپ خوارو تھا۔

    اس فوجی اڈے کا محض ایئرپورٹ ہی لندن کے مرکزی ایئرپورٹ گیٹ وِک کے حجم کا تھا۔ اس کے رن وے پر سی 17 گلوب ماسٹر جیسے طیارے بھی لینڈ کر سکتے تھے۔

    سنہ 2011 میں جب افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں تو اس اڈے پر روزانہ 600 ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹرز اترتے یا یہاں سے پرواز کرتے تھے۔ اس اڈے کے گرد موجود باڑھ ہی 24 کلومیٹرز کی تھی، جس کی حفاظت کا کام 36 واچ ٹاورز سے کیا جاتا تھا۔

    اڈے پر موجود برطانوی فوجیوں کے لیے خدمات انجام دینے والے 4 ہزار سے زیادہ کانٹریکٹرز بھی تھے۔ یہاں 3 ہزار سے زیادہ فوجی گاڑیاں اور ہیوی مشینری، 50 ہوائی جہاز، 1200 سے زیادہ خیمے، ایک جدید ہسپتال، ایک واٹر بوٹلنگ پلانٹ اور فاسٹ فوڈ ریستوران بھی تھا۔ اس اڈے کے لیے کھانے پینے کی تمام اشیا بیرون ملک سے آتی تھیں کیونکہ خطرہ تھا کہ مقامی ذرائع سے حاصل کردہ خوراک میں زہر نہ ملا دیا جائے۔

    اس کھانے کی فوجیوں کو فراہمی کے لیے تین بہت بڑی کینٹین بھی موجود تھے جہاں سے ایک دن 34 ہزار کھانے فراہم کیے جاتے تھے۔

    برطانیہ نے سنہ 2014 میں اس اڈے کی بندش کا فیصلہ کیا اور یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا کیونکہ اس کے مطابق تمام تر اہم نوعیت کا ساز و سامان واپس برطانیہ بھیجا جانا تھا۔ یوں اس پورے شہر کو اس طرح ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ اس کا تمام تر سامان کہیں اور استعمال کیا جا سکے۔ مثلاً بوٹلنگ پلانٹ ہی کو لے لیں، جسے بند کر کے پرزوں میں تقسیم کر کے واپس برطانیہ بھیجا گیا۔ اس پلانٹ کو بنانے، چلانے اور کھول کر برطانیہ لے جانے پر 19.5 ملین پونڈز لاگت آئی۔

    لیکن سارا سامان ایسا نہیں تھا کہ جسے لے جایا جا سکتا ہو یا جسے لے جانے کا کوئی فائدہ ہو لہٰذا باقی ہر چیز کو ضائع کرنے یا اسے تلف کر کے کباڑ میں بیچنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پھر بھی جو چیزیں ایسی تھیں جو نہ لے جائی جا سکتی تھیں اور نہ کباڑ میں بیچی جا سکتی تھیں، انہیں دھماکا خیز مواد سے تباہ کر دیا گیا۔ صرف ایسے سامان کی مقدار ہی 60 ٹن تھی اور مالیت 4 لاکھ برطانوی پاؤنڈز سے زیادہ تھی۔

    برطانیہ نے 26 اکتوبر 2014 کو یہ کیمپ خالی کر کے اسے افغان فوج کے حوالے کر دیا لیکن اس سے پہلے یہاں سے ہر ممکنہ سہولت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کیمپ کا جدید ترین اسپتال تک ختم کر دیا گیا۔

    کیمپ باسشن بنانے پر برطانیہ کے 50 ملین پونڈز خرچ ہوئے، لیکن اسے ختم کرنے اور یہاں کے سامان کو منتقل کرنے پر 300 ملین پونڈز کی لاگت آئی۔

    کیمپ باسشن کو ختم ہونے تقریباً سات سال ہونے والے ہیں اور اب اس کی محض دو یادگاریں ہی بچی ہیں، ایک رِنگ روڈ اور دوسرے واچ ٹاورز۔ اس رن وے پر جہاں روزانہ 600 جہاز اترتے اور پرواز کرتے تھے، اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں۔

    دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی سب سے بڑی جنگی مہم پر برطانیہ کی کل لاگت 37 ارب ڈالرز رہی اور اس دوران 453 برطانویوں کی جانیں گئیں۔

  • عراق میں امریکی فوجی اڈے پر راکٹ حملے

    عراق میں امریکی فوجی اڈے پر راکٹ حملے

    بغداد: عراق میں ایک بار پھر امریکی فوجی اڈے پر حملہ ہوگیا، کئی راکٹ فائر کیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق غیرملکی خبررساں ادارے کا کہنا ہےکہ عراق کے شہر تاجی میں فوجی اڈے پر راکٹ حملے ہوئے، فوجی اڈے میں امریکی فوجی موجود ہیں۔

    سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ فوجی اڈے پر متعدد راکٹ فائر کیے گئے، خوش قسمتی سے راکٹ حملے میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ خیال رہے کہ چند روز قبل تاجی فوجی اڈے پر راکٹ حملے میں 3 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

    ہلاک افراد میں برطانوی اور امریکی فوجی شامل تھے۔

    عراق میں اتحادی فورسز پر راکٹ حملہ، 2 امریکی، 1 برطانوی فوجی ہلاک

    خیال رہے کہ رواں سال جنوری کے آغاز میں امریکا ڈرون حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کردیا تھا، جس کے بعد سے خطے کی صورتحال کشیدہ ہے۔

    عراق کے مختلف علاقوں میں قائم امریکی فوجی اڈوں پر حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

  • یمن میں فوجی کیمپ پرخودکش حملہ،48افرادجاں بحق

    یمن میں فوجی کیمپ پرخودکش حملہ،48افرادجاں بحق

    عدن: یمن کے جنوبی شہر عدن میں فوجی اڈے پر خودکش بم دھماکے میں 48 فوجی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔

    تفصیلات کےمطابق یمن کےشہر عدن میں یہ حملہ اس وقت ہوا جب فوجی اڈے پر متعدد اہلکار اپنی تنخواہیں لینے کے جمع ہوئے تھے۔خودکش دھماکے میں کم ازکم 48فوجی جاں بحق اور درجنوں شدید زخمی ہوگئے۔

    داعش کی نیوز ویب سائٹ اعماق کی جانب سے جاری بیان میں واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہاگیا کہ’داعش کے ایک رکن نے السولہ بن ملٹری کیمپ میں خود کش دھماکا کیا جہاں یمنی فوج کے اہلکار جمع تھے‘۔

    خیال رہے کہ اس سےقبل رواں سال اگست میں عدن میں ایک خودکش حملے میں 60 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے قبول کی تھی۔

    یاد رہے کہ حکومت کی حامی فورسز نے سعودی عرب کی سربراہی میں قائم بین الاقوامی اتحادی فوج کی مدد سے 2015 میں عدن کا کنٹرول سنبھالا تھا۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق خانہ جنگی کے آغاز سےاب تک 7270 افراد مارے جا چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر عام شہری ہیں۔