Tag: فوجی بغاوت

  • نائیجر میں فوجی بغاوت، صدر محمد بازوم کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا

    نائیجر میں فوجی بغاوت، صدر محمد بازوم کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا

    نیامے: افریقی ملک نائیجر میں فوجی بغاوت ہو گئی، صدر محمد بازوم کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، فوج نے نائیجر میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق نائیجر میں فوج نے بدھ کو رات گئے صدر مملکت محمد بازوم کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، اور صدر بازوم کو ان کی سرکاری رہائش گاہ میں نظر بند کر دیا، صدارتی دفتر نے فوجی اقدام کو ریاست کے خلاف بغاوت قرار دے دیا ہے۔

    فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر محمد بازوم صدارتی محافظ دستے کے کمانڈر جنرل کو ہٹانا چاہتے تھے، جس پر فوج نے ان سے استعفیٰ مانگ لیا تھا، لیکن صدر محمد بازوم نے انکار کر دیا۔

    سرکاری ٹی وی سے خطاب میں فوجی آمر کرنل میجر عمادو عبدرمانے نے کہا کہ ہم نے دفاعی اور سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور خراب گورننس کی وجہ سے صدر بازوم کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی سرحدیں بند کر کے کرفیو نافد کر دیا ہے۔

    آمرانہ اقدام پر سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے اقتدار پر قبضے اور جمہوری طرز حکمرانی کو نقصان پہنچانے پر اظہار افسوس کیا، امریکا، یورپ اور دیگر ممالک نے بھی جمہوریت پر شب خون مارنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

  • فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ، سوڈانی فوج نے 3 افراد کو گولیاں مار دیں

    فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ، سوڈانی فوج نے 3 افراد کو گولیاں مار دیں

    خرطوم: سوڈانی سیکیورٹی فورسز نے بغاوت مخالف تازہ ریلیوں میں 3 مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں فوجی بغاوت کے خلاف ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا، سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے 3 افراد کو گولیاں مار دیں۔

    اے ایف پی کے نامہ نگار کے مطابق سوڈان میں ہزاروں افراد پیر کو سڑکوں پر نکل آئے اور تقریباً 3 ماہ قبل ہونے والی فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کیا، اس دوران سیکیورٹی فورسز کی طرف سے آنسو گیس کے گولے پھینکے گئے۔

    سوڈانی پرچم اٹھائے ہوئے مظاہرین کے دارالحکومت خرطوم کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں میں جمع ہونے پر جگہ جگہ بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہل کاروں تعینات کیے گئے ہیں۔

    سوڈانی حکومت کا الجزیرہ نیوز چینل کیخلاف بڑا فیصلہ

    ان ہلاکتوں سے جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں 25 اکتوبر کو ہونے والی بغاوت کے بعد سے ہلاک ہونے والے مظاہرین کی تعداد 67 ہو گئی ہے۔

    ادھر سوڈان کے جمہوریت نواز دھڑے نے اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت کے ساتھ اتفاق کر لیا ہے، سوڈان کے ممتاز جمہوریت نواز گروپ نے اکتوبر کی فوجی بغاوت کے بعد سیاسی تعطل کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی پیش کش کو مشروط طور پر قبول کیا۔

  • ریٹائرڈ جرنیلوں‌ نے امریکا میں‌ فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کر دیا

    ریٹائرڈ جرنیلوں‌ نے امریکا میں‌ فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کر دیا

    واشنگٹن: تین امریکی ریٹائرڈ جرنیلوں‌ نے امریکا میں‌ فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تین ریٹائرڈ جرنیلوں نے ممکنہ بغاوت کا خطرہ ظاہر کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر 2024 کے انتخابی نتائج کوفوج کے بعض حصوں نے قبول نہیں کیا جو ایک ‘ٹرمپ جیسی شخصیت’ کو چاہتے ہیں، تو امریکا میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔

    یہ تشویش ناک دعویٰ سابق آرمی میجر جنرل پال ایٹن، سابق بریگیڈیئر جنرل اسٹیون اینڈرسن اور سابق آرمی میجر جنرل انتونیو ٹیگوبا نے واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم میں کیا۔

    ان ریٹائرڈ امریکی جنریلوں نے جمعے کو متنبہ کیا کہ اگر 2024 کے انتخابات کے بعد بغاوت کی ایک اور کوشش کی گئی تو امریکا کی منقسم فوج ایک نئی خانہ جنگی کو ہوا دے سکتی ہے، کیوں کہ 6 جنوری کے حملوں میں 10 میں سے 1 سے زیادہ افراد کا فوجی سروس ریکارڈ پایا گیا تھا۔

    جرنیلوں نے لکھا کہ جیسے جیسے ہم امریکی دارالحکومت میں مہلک بغاوت کی پہلی برسی کے قریب پہنچ رہے ہیں، 2024 کے صدارتی انتخابات کے بعد اور ہماری فوج کے اندر مہلک انتشار کے امکانات کے بارے میں ہماری (یعنی سب سابق سینئر فوجی حکام کی) فکر مندی بڑھتی جا رہی ہے، جو تمام امریکیوں کو شدید خطرے دوچار کر دے گا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ اگلی بار بغاوت کے کامیاب ہونے کے بارے میں سوچ کر ہم اپنی ہڈیوں میں سنسناہٹ محسوس کر رہے ہیں۔

    جرنیلوں کے مشاہدے کے مطابق اس طرح کے یک طرفہ سیاسی ماحول میں، جس میں وفاداریاں منقسم ہوں، کچھ درست کمانڈر ان چیف کے احکامات پر عمل کریں گے، جب کہ دوسرے ٹرمپ کی طرح ہارنے والے کی پیروی کریں گے۔

    انھوں نے لکھا کہ اس تناظر میں ہماری فوج کے منقسم اور مقید ہونے سے امریکی سلامتی کو نقصان پہنچے گا۔ ہمارے دشمنوں میں سے کوئی بھی ہمارے اثاثوں یا ہمارے اتحادیوں پر حملہ کر کے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

    انھوں نے زور دے کر کہا کہ فوج اور قانون سازوں کو 2024 میں ایک اور بغاوت کو ہونے سے روکنے کے لیے بصیرت مل چکی ہے، لیکن وہ صرف اس صورت میں کامیاب ہوں گے جب وہ اب فیصلہ کن کارروائی کریں گے۔

  • حکومت تحلیل، سوڈانی وزیر اعظم گرفتار

    حکومت تحلیل، سوڈانی وزیر اعظم گرفتار

    خرطوم: شمالی افریقی ملک سوڈان میں فوجی بغاوت کے بعد وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سوڈان کی وزارت اطلاعات کا کہنا ہے کہ فوج نے وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک کو بغاوت کی حمایت سے انکار کرنے پر نامعلوم مقام پر منتقل کرنے کے بعد انھیں گھر میں نظر بند کر دیا ہے۔

    الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق وزارت اطلاعات نے کہا کہ سوڈانی فوج نے عبوری حکومت کو تحلیل کر کے وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک اور ملک کی سویلین قیادت کے کئی دیگر ارکان کو گرفتار کر لیا ہے۔

    عبد الفتاح البرہان، ایک جنرل جس نے اقتدار کی شریک حکمران تنظیم سوورین کونسل کی سربراہی بھی کی، نے ملک بھر میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا اور کونسل اور عبوری حکومت کو تحلیل کر دیا، جس کے بعد ملک میں فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔

    پچھلے مہینے ناکام فوجی بغاوت کی سازش کے بعد سے سوڈان ایک نازک موڑ پر ہے، جب کہ ملک کے طویل عرصے تک رہنے والے رہنما عمر البشیر کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد فوجی اور سویلین گروہوں کے درمیان تلخ الزامات کا آغاز ہوا ہے۔

    سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں انٹرنیٹ سروس منقطع ہے، وزارت اطلاعات کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ تاحال ہمدوک کے حامیوں کے قبضے میں ہے۔ الجزیرہ رپورٹ کے مطابق صنعتی وزیر کو بھی حراست میں لیا جا چکا ہے کیوں کہ انھوں نے حراست سے چند لمحے قبل ہی ٹویٹ کی تھی کہ فوجی ان کے گھر کے باہر موجود ہیں۔

    سوڈانی جمہوریت حامی گروپ کا کہنا ہے کہ عوام فوجی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر نکلیں۔

  • سوڈان میں ایک اور بغاوت کی کوشش ناکام بنادی گئی

    سوڈان میں ایک اور بغاوت کی کوشش ناکام بنادی گئی

    خرطوم: سوڈان میں پہلی بغاوت کے بعد اقتدار پر قابض عسکری قیادت نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایک اور بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق رواں برس اپریل میں سوڈان میں شدید معاشی بحران کے باعث ہزاروں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر آگئے تھے جس کے بعد فوجی قیادت نے ملکی صدر عمر البشیر کا تختہ الٹ کر اقدار پر قابض کرلیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک پریس کانفرنس میں 12 افسران کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے حکمران عسکری قیادت نے کہا کہ بغاوت کی کوشش کرنے والے فوج اور سیاسی جماعتوں میں ہونے والی مفاہمت سے ناخوش تھے۔

    خیال رہے کہ سوڈان میں گزشتہ برس دسمبر سے حالات کشیدہ ہیں، عوام نے مہنگائی کی وجہ سے اس وقت کی حکمران جماعت کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا اور حکمران جماعت کے ہیڈکوارٹر کو نذر آتش کردیا تھا۔

    وقت کے ساتھ ساتھ 26 برس تک اقتدار میں رہنے والے صدر عمر البشیر کیخلاف عوامی غصہ مزید بڑھ گیا اور پرتشدد مظاہروں میں اضافہ ہوگیا جس کے بعد رواں برس اپریل میں فوج نے ملکی کشیدہ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

    سوڈان میں فوجی کونسل اور حزب اختلاف کے درمیان معاہدہ طے پا گیا

    اب مہنگائی کیخلاف مظاہرہ کرنے والے سوڈانی عوام نے اپنے احتجاج کا رخ فوجی آمریت کی طرف موڑ دیا ہے۔ سوڈان میں لوگ سول انتظامیہ کی بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے آئے دن مظاہرین اور فورسز میں جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں جن میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

  • ترکی: ناکام فوجی بغاوت میں‌ ملوث ہونے کا الزام، وزارت خارجہ کے 78 ملازمین گرفتار

    ترکی: ناکام فوجی بغاوت میں‌ ملوث ہونے کا الزام، وزارت خارجہ کے 78 ملازمین گرفتار

    انقرہ: ترکی میں ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کے شبے میں مزید افراد کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، وزارت خارجہ کے 78 ملازمین گرفتار ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق ترک حکام نے وزارت خارجہ کے 249 سابق وموجودہ ملازمین کو 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت سے تعلق کے شبے میں حراست میں لینے کا حکم دے دیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اب تک ان افراد میں سے 78 کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک حکام کی جانب سے یہ فیصلہ 42 شہروں میں وزارت خارجہ کی ملازمتوں کے امتحانات میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں کے سامنے آنے کے بعد اٹھایا گیا۔

    خیال رہے کہ یہ بے ضابطگیاں امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی تنظیم کے ارکان کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئیں۔

    ترک پراسیکیوٹر کے دفتر کے مطابق ان مشتبہ افراد نے 2010 اور 2013 کے درمیان وزارت خارجہ کے مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ملازمین میں سے صرف 14 ابھی حاضر سروس ہیں جبکہ باقی تمام کو وزارت سے نکال دیا گیا ہے۔

    ترکی: ناکام فوجی بغاوت کے بعد اہلکاروں کی گرفتاریاں بدستور جاری

    خیال رہے کہ ترکی میں 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ترک صدر رجب طیب اردوگان کی حکومت فتح اللہ گولن اور ان کی تنظیم کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دے کر سرکاری ملازمین، اساتذہ، ججوں اور فوجیوں سمیت ہزاروں افراد کو سرکاری ملازمت سے برخاست کر چکی ہے۔

  • ترکی: ناکام فوجی بغاوت کے بعد اہلکاروں کی گرفتاریاں بدستور جاری

    ترکی: ناکام فوجی بغاوت کے بعد اہلکاروں کی گرفتاریاں بدستور جاری

    انقرہ: ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد فوج سے وابستہ اہلکاروں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بدوستور جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترک استغاثہ نے مزید 295 فوجی اہلکاروں کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیے جن پر الزام ہے کہ وہ 2016 کی بغاوت میں ملوث ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ترک استغاثہ کی جانب سے جن فوجی اہلکاروں کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں ان میں تین کرنل، آٹھ میجر اور دس لیفٹیننٹ بھی شامل ہیں۔

    ترک حکام دو ہزار سولہ میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کا ماسٹر مائنڈ فتح اللہ گولن کو ہی قرار دیتی ہے، ان فوجی اہلکاروں پر گولن سے روابط کے بھی الزامات ہیں۔

    خیال رہے کہ گذشتہ سال مئی میں ترکی میں طاقت کے بل بوتے پر حکومتی تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کرنے والے 104 فوجی افسران کو عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

    ترکی: ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے پر 6 صحافیوں کو دس سال قید کی سزا

    سال 2016 میں ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے سول حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تھی جس کے بعد پورے ملک کے مختلف شہروں میں ہنگامی پھوٹنے سے 200 سے زائد افراد ہلاک اور 2 ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

    یاد رہے کہ 18 جولائی 2016 کو ترکی میں فوج کے باغی گروہ نے اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش کی تھی جسے عوام نے ناکام بنادیا تھا، اس دوران عوام سڑکوں پر نکل کر آئے اور فوجی ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے تھے جس کے بعد ترک فوج کے باغی ٹولے نے ہتھیار ڈال کر اپنی شکست تسلیم کی تھی اور پھر انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

  • افریقہ میں فوجی بغاوت ناکام، صورتحال قابو میں ہے، حکومت

    افریقہ میں فوجی بغاوت ناکام، صورتحال قابو میں ہے، حکومت

    لیبرویل : افریقی ملک گبون فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال دوبارہ بحال ہونا شروع ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطاقب افریقی ملک گبون میں کچھ فوجی افسران نے ریڈیو اور ٹیلویژن سمیت کئی سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرلیا تھا، باغیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت ختم ہوگئی ہے اور اب تیل کی دولت سے مالامال ملک میں جمہوریت کو دوبارہ بحال کیا جائے گا، جہاں بیمار لیڈر کا خاندان گذشتہ 50 برسوں سے حکومت کررہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ گبون کے دارالحکومت لیبرویل میں ٹینک اور مسلح گاڑیاں ( بکتر بند ) گاڑیاں دیکھی جارہے ہیں۔

    گبون حکومت کے ترجمان میپنگو کا کہنا ہے کہ حکام نے چار باغیوں کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ پانچواں شخص فرار ہوگیا۔

    حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ صورتحال معمول پر آگئی ہے، سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کی عمارت پر پیادہ فوجیوں نے قبضہ کرلیا تھا لیکن اب صورتحال بہتر ہے۔

    ترجمان کا کہنا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کرنے والے جو افسران فرار ہوئے ہیں کچھ ہی گھنٹوں میں انہیں بھی گرفتار کرلیا جائے گا ملک کے ’علی بونگو‘ ایک مرتبہ پھر ملکی قیادت سنبھالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ پانچ فوجیوں نے سرکاری ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرکے ’قومی بحالی کونسل‘ کا اعلان کیا تھا۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دکھا سکتا ہے کہ تین جوان فوجی مسلح ریڈیو اسٹیشن میں موجود ہیں اور اعلان کررہے ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ گبون میں فوجی بغاوت نے سب کو حیرت زدہ کردیا، کیوں گبون کی مسلح افواج بونگوں خاندان کی وفادار سمجھی جاتی ہے۔

    عینی شاہدین نے میڈیا کو بتایا کہ دارالحکومت کے بیشتر حصّے میں دوبارہ امن بحال ہوگیا ہے۔

    خیال رہے کہ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں گبون بہت کم سیاسی افراتفری کا شکار ہوا ہے اور سنہ 1960 سے اب تک صرف تین افراد صدر بنے ہیں۔

    سابق عمر بونگوں نے چار دہائیوں تک گبون کی سیاست پر غلبہ قائم رکھا ہے، گبون تیل پیدا کرنے والا ملک ہے لیکن ملک کی اکثریت غریبی میں زندگی گزر رہی ہے۔

    گبون کی کل آبادی 18 لاکھ اور زندگی کی شرح 62 سال ہےجبکہ نوجوانوں کی بے روزگاری کی ششرح 35 فیصد ہے اور ملک کا قومی نشان سیاہ پی’نتھر‘ ہے۔

  • پاکستان میں انتخابات کا انعقاد خوش آئند ہے‘ ترک قونصل جنرل

    پاکستان میں انتخابات کا انعقاد خوش آئند ہے‘ ترک قونصل جنرل

    کراچی: ترکی کے قونصل جنرل تلغہ یوسک کا کہنا ہے کہ ترک عوام نے دو سال قبل فوجی بغاوت کا بہادری سے مقابلہ کر کے ہمیشہ کے لئے آمریت کا راستہ روک دیا ہے، ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کو دوسال مکمل ہورہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کہ ترکی کی عوام اور حکومت باغیوں کو سزائیں دینے کے باوجود یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر گو لن کا ساتھ دینے والے کس طرح اپنے ہی لوگوں کے خلاف ٹینک شکن‘ ڈاکٹر طیاروں سے حملہ آور ہوئے۔

    انہوں نے کہا کہ دو سو چھیالیس شہدا اور بے شمار زخمیوں نے بہادری کی جو داستان رقم کی وہ ہمیشہ ترک عوام کی ملک اور جمہوریت کی سربلندی میں یاد رکھی جائے گی۔ پاکستان میں 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کو خوش آئند قراردیتے ہوئے انہوں نے گذشتہ دنوں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی اور پاکستان اور ترکی کے تعلقات کو آئندہ مزید مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

    یاد رہے کہ ترکی میں 15 اور 16 جولائی کی درمیانی شب فوج کی جانب سے کی جانے والی بغاوت کو عوام اور پولیس نے ناکام بنا دیا تھا اور ا س کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی کی گئی تھیں، اس بغاوت میں ہونے والی جھڑپوں میں ڈھائی سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

    ترکی میں ناکام بغاوت کے خلاف واضح مؤقف پر پاکستان کا شکریہ: اردغان

    ترکی کی اس ناکام فوجی بغاوت نے 56 سالہ سیاسی تاریخ میں چار بار کی گئی فوجی بغاوتوں کی یاد تازہ کردی، ان فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر ٹکایا گیا تھا اور کئی سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو جیل
    میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان خونی فوجی بغاوتوں میں کئی معصوم شہری جان سے گئے تا ہم اس بار عوام الناس نے ترک صدر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا ہے۔

    ترکی میں پہلی فوجی بغاوت 27 مئی 1960 کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیمل گرسِل کی جانب سے کی گئی اس کامیاب فوجی بغاوت کے نتیجے میں اُس وقت کی حکومت کو معطل کردیا گیا تھا اور صدر،وزیر اعظم سمیت دیگر وزراء کو غداری اور دیگر جرائم کے الزامات میں پابند سلاسل کردیا گیا تھا بعد ازاں وزیراعظم عدنان مینڈرز کو پھانسی دے دی گئی تھی یہ مارشل لاء اکتوبر 1961 کو ختم ہوا اور منتخب جمہوری حکومت نے ملکی باگ دوڑ سنبھالی۔

    دوسری مرتبہ12 مارچ 1971میں ترکی میں کئی مہینے سے جاری معاشی بد حالی ،بد امنی اور ہنگاموں کے بعد آرمی جنرل ممدوح ٹیگمک نے فوجی بغاوت کے بعد ملک کی مجموعی ذبوں حالی کے خاتمے اور معاشی و امن وامان کی بحالی کے نام پر کارِحکومت خود سنبھال لی۔

    محض 9 سال بعد 12ستمبر 1980 میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان تناؤ اور تصادم تیسری بار پھر فوجی بغاوت کو دعوت گناہ دینے کا باعث بنا جس کے نتیجے میں جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی اور آرمی چیف ایڈ مرل بولینٹ نے بغاوت کے بعد وزیراعظم کو اُن کو عہدے سے ہٹا کر خود وزیر اعظم کی نشست پر براجمان ہو گئے تھے۔

    چوتھی بار 28 فروری 1997 میں مسلح افواج نے ماضی کے برعکس جمہوری اداروں پر ٹینکوں اور فوجی دستوں کے ساتھ چڑھائی تو نہیں کی تا ہم جمہوری حکومت کو کارِ حکومت چلانے کے لیے سخت سفارشات دی گئی تھیں حکومت وقت کے پاس ان سفارشات کو قبول کرنے اور نافذ کرنے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا تا ہم اس کے باوجود وزیر اعظم ترک سے جبری استعفیٰ لے لیا گیا تھا،یہ غیر اعلانیہ اورغیر سرکاری فوجی بغاوت بھی کامیاب بغاوت ثابت ہوئی پوری حکومتی مشینیری بہ شمول عدالت،تجارت، نشریات اور سیاسی قیادت فوج کے زیر تسلط رہے۔


    اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

  • ترکی نہیں جانا چاہتے، پاکستان میں ہی رہنے کی اجازت دی جائے، ترک اساتذہ

    ترکی نہیں جانا چاہتے، پاکستان میں ہی رہنے کی اجازت دی جائے، ترک اساتذہ

    کراچی : پاک ترک اسکول کے اساتذہ نے کہا ہے کہ ہم یہاں گزشتہ 22 سال سے درس و تدریس میں مشغول ہیں اور ماضی گواہ ہے کہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے چنانچہ ہمیں پاکستان بدر کرنے کے بجائے یہاں رہنے دیا جائے.

    وہ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے انہوں نے ترک فیملی کو ملک بدر کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 22 سالوں میں اچھے برے حالات میں بچوں کی تعلیم کو جاری رکھا ہے۔

    ترک اساتذہ نے بتایا کہ نومبر 2016 میں وزارتِ داخلہ نے ترک اساتذہ کے ویزوں میں اضافے سے انکارکرتے ہوئے ہمیں 20 نومبر 2016 کو خاندان سمیت پاکستان سے جانے کا حکم دیا گیا اور اگر ہم ترکی جاتے ہیں تو وہاں گرفتار ہوجائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمیں پناہ گزین کے تحت دی جانے والی حیثیت سے سکون کے ساتھ رہنے دیں کیوں کہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔

    ترک اساتذہ نے کہا کہ ہم نے گزشتہ 22 سال سے صرف درس و تدریس کا کام کیا ہے اور کبھی کسی سیاسی پروپیگنڈے یا ایجنڈے کے تحت مغلوب ہو کر سیاسی سرگرمیاں انجام نہیں دیں.

    خیال رہے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک اپوزیشن لیڈر فتح گولن کو بغاوت کی وجہ سمجھا جارہا ہے چنانچہ فتح گولن کی تنظیم کے تحت چلنے والے اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد پاکستان میں قائم پاک ترک اسکول بھی بند کردیئے گئے ہیں.


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔