Tag: فوجی بغاوت

  • ترکی میں فوج کی ناکام بغاوت پر فلم بنانے کا فیصلہ

    ترکی میں فوج کی ناکام بغاوت پر فلم بنانے کا فیصلہ

    استنبول: ترکی کی فلم انڈسٹری کی ایک معروف فرنچائز کے پروڈیوسر نے اعلان کیا ہے کہ وہ ترکی میں ہونے والی فوج کی ناکام بغاوت پر فلم بنائیں گے۔

    فلم میں مرکزی کردار ترکی کے مشہور اداکار پولاط علمدار ادا کریں گے جنہیں ’ترک جیمز بونڈ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

    turkey-2

    یہ اعلان ترکی کی مشہور فلم کمپنی پانا فلمز نے کیا ہے۔ ان کی ٹیلی ڈرامہ سیریز ’ویلی آف دا وولوز‘ طویل عرصہ سے جاری ہے اور یہ ترکی میں مقبولیت کی بلندیوں پر ہے۔ پروڈیوسر کے مطابق اس کی اگلی قسط فوج کی ناکام بغاوت پر مبنی ہوگی اور اسے ’ویلی آف دا وولوز ۔ کوپ‘ کا نام دیا جائے گا۔

    مزید پڑھیں: ترکی میں ناکام بغاوت: 45 اخبارات اور 18 ٹی وی چینلز کی نشریات بند

    اس سیریز میں اس سے قبل عراق پر امریکی حملے پر مبنی قسط بھی پیش کی جاچکی ہے جسے تعریف اور تنقید دونوں کا سامنا کرنا پڑا۔

    اس میں 2010 میں غزہ جانے والے ترکی امدادی جہاز پر اسرائیلی حملہ کو بھی پیش کیا جاچکا ہے۔

    turkey-3

    پانا فلمز اس کے علاوہ بھی اپنی سیریز میں دیگر کئی متنازع موضوعات کو فلم بند کر چکی ہے تاہم ذرائع کے مطابق انہیں ترک وزیر اعظم طیب اردگان کی تائید حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ یہ پروڈکشن ہاؤس ابھی تک اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

  • پاک ترک اسکولز کے ترکش پرنسپلز کو ہٹا دیا گیا

    پاک ترک اسکولز کے ترکش پرنسپلز کو ہٹا دیا گیا

    اسلام آباد : پاکستان میں قائم کردہ ترک اسکولز کے ترک پرنسپلز کو ہٹا کر پاکستانی وائس پرنسپلز کو اُن کی جگہ پرنسپلز تعینات کردیا گیا ہے،یہ فیصلہ ترک میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹر پاک ترک اسکولز عالم گیر خان نے بتایا کہ ترکش پرنسپلزکو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے،جب کہ اسکول کے وائس پرنسپلز کو پرنسپلز کی اضافی ذمہ داریاں دے دی گئی ہیں یہ فیصلہ ترک میں حالیہ ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد کیا گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ پاک ترک فاؤنڈیشن فتح اللہ گولن کی تنظیم کے زیر انتظام چلائے جاتے ہیں۔

    پاک ترک معاہدے کے تحت پاک ترک اسکول کے پرنسپلز ترک شہری ہوتے ہیں جب کہ وائس پرنسپلز کا عہدہ پاکستانی شہریوں کے پاس ہوتا ہے تا ہم فوجی بغاوت کے بعد ترک حکومت کی جانب سے تمام پرنسپلز کوفارغ کرنے کے بعد اب پاک ترک اسکولز کے تمام پرنسپلز پاکستانی شہری ہو گئے ہیں۔

    تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ترک فوجی بغاوت کو عوام کی جانب سے ناکام بنانے کے بعد طیب اردگان کی حکومت سمجھتی ہے اس فوجی بغاوت کے پیچھے جلا وطن رہنما اور طیب اردگان کے سابقہ ساتھی فتح اللہ گولن کا ہاتھ ہے۔

    امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن دنیا بھر میں ماہر تعلیم اور دانشور سمجھتے ہیں،پاکستان میں چلنے والے پاک ترک اسکولز فتح اللہ گولن کی غیر سرکاری تنظیم کے زیر انتظام چلائے جاتے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پرنسپلز کی تبدیلی کے بعد بورڈز آف ڈائرکٹرز میں بھی جلد تبدیلیاں کی جائیں گی اور اسکولوں کا انتظام اردگان انتظامیہ سے منسلک ایک بین الاقوامی این جی او کے حوالے کیا جائے گا جب کہ ترک شہری جو اسکول کا انتظامیہ سنبھالے ہوئے ہے اب صرف استاذہ کے طور ہر کام کریں گے اور اب مزید اسکول رجسٹرڈ نہیں جائیں گے۔

    یادر ہے پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت اسکول اور کالج کا نیٹ ورک 1995 میں قائم کیا گیا تھا،اس نیٹ ورک میں 28 اسکول اور کالجز کام کر رہے ہیں جو پاکستان کے ہر بڑے شہر بہ شمول لاہور، راولپنڈی،اسلام آباد،ملتان، کراچی،حیدرآباد،خیرپور،جامشورو اور کوئٹہ میں قائم ہیں جہاں 1500 ارکان پر مشتمل عملہ کا کررہا ہے جن میں 150 کا تعلق ترک سے ہے جب کہ بقیہ پاکستانی عملہ ہے،پاک ترج فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں 11 ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

  • چیف آف آرمی اسٹاف کو صدر کے ماتحت لائیں گے،ترک صدر

    چیف آف آرمی اسٹاف کو صدر کے ماتحت لائیں گے،ترک صدر

    انقرہ : ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ایسے تمام افراد کے خلاف عائد مقدمات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جن پر صدر کی توہین کرنے کا الزام ہے،انہوں نے کہا کہ فوفی سربراہ صدر کے ماتحت کام کرے گا۔

    حالیہ دنوں کے دوران ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد عوامی اتحاد سے متاثر ترک صدر نے جمعہ کو صدارتی محل سے جاری ایک بیان میں توہین صدر کے مرتکب افراد پر دائر مقدمات ختم کرنے کی نوید سنا دی ہے جب کہ باغیوں کی ناکامی کے بعد ترک میں جاری ہنگامی اقدامات پرتنقید کرنے والی عالمی میڈیا سمیت دیگر ممالک کو اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔

    صدر طیب اردگان کا کہنا ہے کہ تمام فوجی سربراہوں کو وزارت دفاع کے سامنے جوابدہ ہونا ہوگا اور وزیر دفاع تمام دفاعی امور کے کپتان ہوں گے اس کے علاوہ خفیہ ایجینسی کے سربراہ اور چیف آف آرمی اسٹاف کو صدر کے ماتحت لائیں گے جس کے لیے آئین میں درکار ترامیم کی جائیں گی ان فیصلوں کو اتوار کو سرگاری گزٹ میں شامل کیا جائے گا۔

    اس سے قبل ترکی کے صدر نے امریکی جنرل جوزف ووٹل جو کہ امریکی فوج کے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ہیں پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ترکی میں بغاوت کے منصوبہ سازوں کے حامی تھے۔

    جب کہ امریکی جنرل جوزف وٹل نے ترک صدر کے بیان کے بعد ان کی جانب سے خود پر عائد کیے جانے والے الزام کو مسترد کر تے ہوئے جمعرات کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں فوجی رہنماؤں کی گرفتاری ترکی اور امریکہ کے فوجی تعلقات کو خراب کر سکتی ہے۔

    یاد رہے کہ ترکی نے جمعرات کو فوج میں تبدیلیوں کا اعلان کیا تھا اور 1700 فوجی اہلکاروں کو برطرف کر دیا تھا اور اب تک 40 فیصد جنرلز اپنے عہدوں سے برطرف ہو چکے ہیں۔

    پبلک سیکٹر میں کام کرنے والے 66000 افراد کو نوکریوں سے نکالا جا چکا ہے اور 50 ہزار کے پاسپورٹ کینسل کیے جا چکے ہیں۔
    اس کے علاوہ ملک کے 142 میڈیا اداروں کو بند کیا جا چکا ہے اور متعدد صحافی بھی زیرِ حراست ہیں۔

  • استنبول: فوج کی ناکام بغاوت کے بعد 103 جرنیل اور ایڈمرلز گرفتار

    استنبول: فوج کی ناکام بغاوت کے بعد 103 جرنیل اور ایڈمرلز گرفتار

    استنبول: ترکی میں فوج کی ناکام بغاوت کے بعد 103 جرنیلوں اور ایڈمرلز کو حراست میں لے لیا گیا۔

    ترکی کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ان جرنیلوں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے گا جہاں ان کی قسمت کا فیصلہ ہوگا۔ زیر حراست جرنیلوں پر ترک آئین کی خلاف ورزی اور طاقت کے ذریعہ انتظامیہ کو ہٹانے کی کوشش کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔

    ان جرنیلوں پر جلا وطن ترک عالم اور سیاسی لیڈر فتح اللہ گولن کی تحریک میں شامل ہونے کا بھی الزام ہے۔

    واضح رہے کہ ترکی میں فوج کے ایک گروہ نے بغاوت کی جس کے بعد صدر اردگان کی اپیل پر لوگ بھرپور احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور سڑکوں پر گشت کرتے باغی ٹولے کے ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے۔

    ترکی میں فوجی بغاوت کی سیاہ تاریخ *

    ترک عوام نے ٹینکوں اور باغی دستوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔ جمہوریت کی طاقت سے باغی ٹولہ پسپا ہونے پر مجبور ہوا اور عوام نے سرکاری عمارتوں سے باغی فوجیوں کونکال باہر کردیا۔

    ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران 265 افراد ہلاک ہوئے جس میں سازش کی منصوبہ بندی کرنے والے 104 افراد اور 161 عام شہری شامل ہیں۔

    اب تک بغاوت کے الزام میں 6 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور مزید افراد کی گرفتاریوں کا امکان ہے۔ فوج میں بھی کئی اعلیٰ افسران اور 27 سو ججوں کو ان کے عہدے سے برطرف کیا جاچکا ہے۔

    دنیا بھر میں ہونے والی فوجی بغاوتیں *

    دوسری جانب ناکام فوجی بغاوت کے بعد 1800 اسپیشل فورسز کے جوانوں کو استنبول میں تعینات کردیا گیا ہے۔ اسپیشل فورسز کے دستے شہر میں گشت کر رہے ہیں۔ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ کوئی بھی ہیلی کاپٹر نظر آئے تو اسے مار گرایا جائے۔

  • انقرہ : فوجی بغاوت کے بعد امریکا اورترکی کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ

    انقرہ : فوجی بغاوت کے بعد امریکا اورترکی کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ

    انقرہ :امریکا کا کہنا ہےکہ ترک حکومت کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے میں امریکا کا ہاتھ ہونے کا دعویٰ بالکل غلط اور باہمی تعلقات کےلیے نقصان دہ ہے.

    تفصیلات کے مطابق امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اپنے ترک ہم منصب سے ٹیلیفون پر بات چیت کی اور بغاوت کچلنے کے بعد ترک حکومت کی جانب سے امریکا کو مورد الزام ٹھہرانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترک حکومت کی جانب سے اس طرح کا بیان آناقابل افسوس ہے.

    امریکی وزیر خارجہ کے مطابق اس قسم کے الزامات نیٹو کے 2 اہم رکن ممالک کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش ہے،انہوں نےترکی میں جلد قیام امن اور حالات کے کنٹرول میں آنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ ترک عوام اور حکومت تحمل کا مظاہرہ کریں اور فوجی بغاوت کی سازش کی تحقیقات کے دوران آئین اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنایا جائے.

    امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ امریکا ترکی میں حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی تحقیقات میں ہرممکن تعاون فراہم کرنے کو تیار ہے مگر امریکا کو فوجی بغاوت کی سازش میں ملوث قرار دینے کے بیانات اور اشارے جھوٹ پر مبنی ہیں تاہم امریکا اور ترکی کے درمیان تعلقات معمول کے مطابق رہیں گے.

    واضح رہے کہ ترکی میں فوجی بغاوت کو ناکام بنائے جانے کے بعد ترک حکام کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ فوجی بغاوت کی سازش کو امریکا میں مقیم جلا وطن مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی جانب سے ہدایات مل رہی تھیں.

  • مشرف کو سزا دینے سے جمہور کی حکمرانی کا خواب شرمندہِ تعبیر ہوگا ؟

    مشرف کو سزا دینے سے جمہور کی حکمرانی کا خواب شرمندہِ تعبیر ہوگا ؟

    تحریر: سید فواد رضا

    جذباتی مزاج کی حامل پاکستانی قوم جو کہ جمہوریت کی سب سے بڑی دعویدار ہے آج کل اپنی تاریخ کے اہم ترین موڑ سے گزر رہی ہےاور یہ ایک ایسا موقع ہے کہ جب اس قوم نے ایک عہد ساز فیصلہ کر کے اپنے مستقبل کی سمت کا تعین کرنا ہے اور یہ فیصلہ ہے سابق صدر مملکت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے مستقبل کا، انکے خلاف ایک خصوصی عدالت کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے اور اس عدالت نے سابق صدر پر فرد ِ جرم عائد کرنے کے لئے انکے عدالت میں طلب کر رکھا تھا اور انتہائی سخت الفاظ میں فیصلہ سنا چکی تھی کہ اگر آج وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے تو انکی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردئے جائیں گے لیکن ہوا کچھ یوں کہ پرویز مشرف  چک شہزاد میں واقع اپنے فارم ہاوٗس سے انتہائی سخت سیکیورٹی میں عدالت کے لئے روانہ تو ہوئے لیکن پہنچ گئے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی۔

    یہ خبر نشر ہونا تھی کہ سرد موسم میں اسلام آباد کا سیاسی ماحول یکدم گرم ہوگیا انکے حامی اور مخالف دونوں ہی میدان میں اتر آئے اور ان میں سب سے زیادہ متحرک نظرآئے بلاول بھٹو جنہوں نے ٹویٹر پر پیغامات کی بھرمار کردی یہ تک کہہ دیا کہ نجانے بزدل مشرف نے بہادر فوج کی وردی کیسے پہنی ہوگی؟  اسکے بعد پیپلز پارٹی کے قمرالزمان کائرہ اس بیان کی تردید کرتے نطر آئے۔

    کور کمانڈرز کی میٹنگ بھی ہوئی  اورحجاز ِمقدس کے وزیرِ خارجہ سعود الفیصل بھی پاکستان تشریف لا رہے ہیں تو گویا افواہوں کا ایک طوفان گرم ہوگیا ہر کوئی اپنی ذہنی استعطاعت کی مطابق قیاس آرائیاں کرنے لگا کہ یہ ہونے والا ہے اور وہ ہونے والا ہے ، سونے پر سہاگہ ایک اور خبر سنی کہ صہبا مشرف پہلی دستیاب پرواز سے لندن روانہ ہوجائیں گی اس خبر نے تو گویا پچھلی تمام خبروں پر تصدیق کی مہر ثبت کردی اور پرویز مشرف کے مخالفین یہ سمجھنے لگے کہ اب تو بس مشرف گئے ہاتھ سے لیکن پھر ایک اور بیان آیا چوہدری شجاعت حسین کا جس میں انہوں نے کہا کہ انکی ڈاکٹر کیانی سے بات ہوئی ہے اور انکے مطابق پرویز مشرف کو علاج کے لئے بیرون ِ ملک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

       لیجئے جی ! بات وہیں پر آگئی جہاں سے شروع ہوئی تھی اب مشرف باہر جائیں گے یا نہیں؟ انکو سزا ہوگی یا نہیں ؟ یہ دونوں سوال ابھی بھی اپنی جگہ قائم ہیں اور انکا جواب تو بس آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے یا وہ مقتدر افراد کے جنکے ہاتھوں میں اس ملک کے عوام کی تقدیر یک جنبش ِ قلم سے بدل دینے کا اختیار ہے لیکن میرا آج کا موضوع پرویز مشرف نہیں بلکہ آمریت ہے وہ آمریت جسکے خلاف آج اس ملک کا ہر طبقہ فکر صف بندی کئے ہوئے ہے  اور ان سرفروشان ِ جمہوریت کا پورا زور صرف اس بات پر صرف ہورہا ہے کہ  اب کوئی طالع آزما اقتدار پر قابض نا ہوپائے۔

    لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم نے اس ملک کی تقدیر حقیقتاً جمہوری  نمائندوں کو سونپ دی ہے ؟

    تاریخ کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے جمہوریت کی جو سب سے بہترین تشریح میری نظر سے گزری وہ کچھ اس طرح ہے کہ عوام کی عوام پر عوام کے لیے عوام کی جانب سے دیئے گئے اختیار کو جمہوریت کہتے ہیں، لیکن ہمارے ملک کا منظر نامہ کچھ اسطرح ہے کہ نا تو عوام کی حکمرانی ہے اور نا ہی عوام کی حالتِ زار کے لئےکوئی بہتری کی امید، چند گنے چنے چہرے ہیں جو بار بار ایوانِ اقتدارپر براجمان ہیں اور اب کیونکہ وہ چہرے بزرگی کی جانب مائل ہیں تو انہوں نے اپنے سیاسی گدی نشین بھی میدان میں اتار دیئے ہیں جو کہ مستقبل میں اس قوم کی قیادت کا اہم ترین فریضہ انجام دیں گے۔

     ہر پانچ سال بعد الیکشن ہونگے یکے بعد دیگرے پارٹیاں اپنی باری لیں گی اور نظام چلتا رہے گا لیکن کب تک؟ اس وقت تک جب تک ایک عام سیاسی کارکن جو کہ ہر جلسے میں سب سے آگے نعرے بازی کرتا ہے اپنے لیڈر کے لئے جذباتی سیاسی بحثیں کرتا ہے بم دھماکوں اور گولیوں کی بوچھار میں سینہ سپر رہتا ہے لیکن یہ بات نہیں سمجھ پاتا کہ اگر اسکے قائد کا جواں سال بیٹا یا بیٹی وزارت کا امیدوار ہوسکتا ہے تو وہ خود کیوں امیدوار نہیں ہوسکتا۔

    کیا ایم این اے ، ایم پی اے کی کرسیاں صرف مخصوص خاندانوں کے لے ہی مخصوص رہیں گی ایک عام سیاسی کارکن کیوں ان کرسیوں پر بیٹھ کر ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ کرسکتا ؟ پرویزمشرف اگرآئین و قانون کے مجرم ہیں تو انکو سزا ضرور دینی چائیے لیکن اس سے پہلے ہمیں ایک تلخ فیصلہ کرنا پڑے گا اور وہ یہ کہ صرف فوجی آمر کو سزا نہیں دینی بلکہ ہر وہ شخص سزا کا سزاوار ہے جو جمہوریت کا لبادہ اوڑھے جمہور کے حقوق پر شب خون مارتا آیا ہے اور یقین کیجئے کہ عوام کے حق میں یہ تاریخ ساز فیصلہ ان افراد میں سے کوئی بھی نہیں کرے گا جنکے ہاتھ میں اس وقت کی قوم کی تقدیر ہے ، عوام کو اپنی تقدیر کا یہ تاریخ ساز فیصلہ خود ہی کرنے ہوگا ورنہ تاریخ اس قوم کے بارے میں جو فیصلہ کرے گی اسے بیان کرنے کی قلم میں تاب نہیں۔

    وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
    تری بربادیوں  کے مشورے ہیں آسمانوں میں

     

  • قاہرہ:عبوری حکومت کیخلاف مظاہروں میں شدت،2 جاں بحق، متعدد زخمی

    قاہرہ:عبوری حکومت کیخلاف مظاہروں میں شدت،2 جاں بحق، متعدد زخمی

    مصر میں فوجی بغاوت کے بعد بننے والی عبوری حکومت کے خلاف کئی ماہ سے جاری مظاہرے شدت اختیارکرگئے، پولیس فائرنگ اور شیلنگ سے دو افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔

    عبوری حکومت کیجانب سے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینے کے جابرانہ اقدام کے بعد سے احتجاج میں تیزی آتی جارہی ہے، قاہرہ میں احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے فائرنگ اور شیلنگ کی۔

    جس پر پولیس اورمظاہرین میں جھڑپیں شروع ہوگئیں، جھڑپوں میں دو مزید افراد جان کی بازی ہار گئے، مصر میں نئے قوانین کے تحت کالعدم جماعت کے حق میں تحریری یازبانی تشہیری مہم چلانیوالے افراد کو قید وبند کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    منتخب حکومت کی بحالی کے لئے جولائی سے جاری مظاہروں میں اب تک ہزاروں افراد اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔