اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ چیلنج کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کے فیصلے کیخلاف درخواست دائر کردی گئی۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلے پرنظرثانی درخواست دائر کی ، جس میں آئینی بینچ سے فوجی عدالتوں کے کیس کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا کی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے حقائق اور قانون کا درست جائزہ نہیں لیا، فیصلےمیں غلطی کی نشاندہی ہوجائے تو تصحیح کرنا عدالت کی ذمہ داری ہے۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت کا فیصلے میں ایف بی علی کیس پرانحصاردرست نہیں، ایف بی علی کیس کا فیصلہ 1962 کے آئین کےمطابق تھا جس کا اب وجود نہیں۔
دائر درخواست میں کہا ہے کہ اکیسویں ترمیم میں فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کےنتیجہ میں قائم کی گئی تھیں،موجودہ کیس میں آئینی ترمیم نہیں ہوئی تواس فیصلے پر انحصاربھی درست نہیں۔
درخواست کے مطابق سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس کا فیصلہ تضادات کا مجموعہ ہے،آئینی بینچ نے ایک جانب قرار دیا کہ فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق کا تحفظ ہوتاہے اور دوسری جانب لکھا کہ بنیادی حقوق یقینی بنانے کیلئے اپیل کا حق دیا جائے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ 9 اور 10 مئی واقعات پر سپریم کورٹ کی آبزرویشن سے ٹرائل متاثر ہوں گے، عدالتوں میں زیر التوا مقدمات پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کا مؤقف فیصلے کا حصہ بنایا، آئینی بینچ نےفیصلےمیں شہریوں کوبنیادی حقوق سےمحروم کر دیا۔
اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیس میں آئینی بینچ نے مزید سوالات اٹھا دیے اور کہا نو مئی کے واقعات میں کسی فوجی افسر کے ملوث ہونے پر ٹرائل ہوا؟ کیسے لوگ بغیر ہتھیاروں کے کور کمانڈر ہاؤس میں پہنچ گئے، کورکمانڈرہاؤس میں جاناتوسیکیورٹی کی ناکامی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت ہوئی ،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں7رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے دلائل میں کہا گیا کہ کسی فوجی کوکام سے روکنے پر اکسانے کا ٹرائل آرمی ایکٹ کےتحت ہوگا، سپریم کورٹ ماضی میں قراردےچکی ہے ریٹائرڈ اہلکار سویلینز ہوتےہیں۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے آپ کا ساراانحصارایف بی علی کیس پرہے، ایف بی علی کیس میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران دونوں ملوث تھے، موجودہ کیس میں کس پرفوج کوکام سے روکنے پر اکسانےکاالزام ہے؟ آرمی ایکٹ کے تحت تو جرم تب بنے گا جب کوئی اہلکار شکایت کرے یا ملوث ہو۔
وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ فوج کاڈسپلن جو بھی خراب کرےگاوہ فوجی عدالت میں جائےگا، جس پرجسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کیا فوج کے قافلے پر حملہ کرنا بھی ڈسپلن خراب کرنا ہوگا؟آرمی ایکٹ کا دائرہ جتنا آپ وسیع کر رہے ہیں اس میں تو کوئی بھی آسکتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے بھی استفسار کیا کہ کسی فوجی کاچیک پوسٹ پرسویلین سےتنازع ہوتوکیایہ بھی ڈسپلن خراب کرناہوگا؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ اس پہلوکومدنظررکھیں کہ ایف بی علی کیس مارشل لادورکاہے، ذوالفقار علی بھٹو اُس وقت سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے، ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹانےکی کوشش میں ایف بی علی کیس بناتھا، مارشل لااس وقت ختم ہوا جب آئین بناتھا تو وکیل کا کہنا تھا کہ بات ٹھیک ہےلیکن عدالتی فیصلےمیں ایمرجنسی کے نفاذ کا ذکر موجود نہیں۔
جسٹس حسن اظہررضوی نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب،آپ وزارت دفاع کےوکیل ہیں ایک اہم سوال کا جواب دیں، کیا9مئی کے واقعات میں کسی فوجی افسر کےملوث ہونے پر ٹرائل ہوا؟ 9 مئی کو کیسے لوگ بغیر ہتھیاروں کے کورکمانڈر ہاؤس میں پہنچ گئے؟ لوگوں کا کورکمانڈرہاؤس کے اندر جانا تو سیکیورٹی کی ناکامی ہے۔
جس پر وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ مظاہرین پر الزام املاک کو نقصان پہنچانے کا ہے، 9مئی کےواقعےمیں کسی فوجی افسر کا ٹرائل نہیں ہوا، زمانہ امن میں بھی ملٹری امورمیں مداخلت پرسویلین کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہی چلے گا۔
جس پرجسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس میں آخرکوئی ماسٹرمائنڈبھی ہوگا، سازش کس نے کی ہوگی تو خواجی حارث نے بتایا کہ سازش کرنے والے یا ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا، سویلین کا ٹرائل اچانک نہیں ہو رہا، 1967 سے قانون موجود ہے تو جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ایف بی علی کیس میں اپیلیں ریٹائرڈ افسران نے کی تھیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ایف بی علی پرالزام ادارےکےاندرکچھ لوگوں سےملی بھگت کاتھا، ادارے کے اندر سے کسی کی شراکت ثابت ہونا لازم ہے، ادارہ افراد پر ہی مشتمل ہوتا ہے اندر کے افراد سے تعلق کا بتائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سےمکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب، میرا آپ سے ایک ویسےتعلق ہے، محض تعلق کا ہونا آپ کے کسی کیس میں ہماری ملی بھگت بھی نہیں بن جائےگا، جو جرم سر زد ہوا اس میں کیا ہم دونوں کا تعلق تھا یا نہیں وہ بتانا لازم ہوگا، یہ بہت اہم نکتہ ہے اس کو نوٹ کر لیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اگرمیں کسی دفاع کے ادارے سے جا کر بندوق چرا لوں تو اس کا بھی ٹرائل وہیں ہوگا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا بندوق چوری میں پھر اندر سے کیا تعلق ثابت ہوگا؟ تو وکیل کا کہنا تھا کہ جس بندوق سےسپاہی نےجنگ لڑناتھی وہ چوری کر لینا اسکو کام سے روکنا ہی ہے۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے سوال کیا کہ پھریہ بتائیں بندوق چوری کی ایف آئی آرکہاں ہوگی؟ جسٹس مسرت ہلالی کا بھی کہنا تھا کہ 9 مئی کو کئی لوگ تو ویسے ہی چلے جا رہے تھے انہیں کچھ پتہ نہیں تھا کہاں جارہے ہیں تو وکیل نے کہا کہ اُن تمام لوگوں کو ٹرائل ملٹری کورٹ نہیں چلا، میں ملزمان کی تفصیل پیش کروں گا۔
وکیل وزارت دفاع کا کہن اتھا کہ ڈسپلن کے بغیر فوج جنگ نہیں لڑسکتی، فوج کے فرائض میں رکاوٹ بھی ڈسپلن کی خلاف ورزی ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سوال یہ ہےایکٹ کےاطلاق کو کتنا پھیلایا جاسکتاہے، اے ٹی اےآرمی ایکٹ سےسخت قانون ہے، اے ٹی اے میں سزائیں زیادہ ہیں، رعایتیں بھی نہیں ملتیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ فوجی سے اس کی رائفل چوری کرلی جائےتوکیس کہاں چلےگا؟ وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ رائفل ایک فوجی کا جنگی ہتھیار ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے اگرسویلین مالی فائدےکیلئےچوری کرتاہےتوکیس کہاں چلےگا؟ حالانکہ اُس سویلین کامقصدآرمی کوغیرمسلح کرنانہیں تھا تو وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایسی صورت میں حالات و واقعات کو دیکھا جائےگا۔
جسٹس محمدعلی مظہر کا بھی کہنا تھا کہ آفیشل سکریٹ ایکٹ میں ذکرہےکہ کون سےجرائم دائرہ کارمیں آئیں گے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 9اور10مئی واقعات میں ایسےمظاہرین بھی تھےجنہیں پتہ ہی نہیں تھا کیا ہو رہا ہے ، جس پر وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ جن کوپتہ ہی نہیں تھاان کاتوفوجی عدالتوں میں ٹرائل ہی نہیں ہوا۔
بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینزکےٹرائل سےمتعلق انٹراکورٹ اپیل پرسماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے کہ کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا؟
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ دائرہ اختیارکون طےکرتاکس کاٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگاکس کا نہیں؟۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے تمام ملزمان کی ایف آئی آر تو ایک جیسی تھی، یہ تفریق کیسے ہوئی کچھ کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں اور کچھ کا اے ٹی سی میں ہوگا؟
جسٹس نعیم اختر افغان نے وزارت دفاع کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب 9 مئی کے کل کتنے ملزمان تھے ؟ جن ملزمان کوملٹری کورٹس بھیجا ان سے متعلق کوئی اے ٹی سی کا آرڈرتو دکھائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سوال کیا ملٹری کسٹڈی لینے کا پراسس کون شروع کرتا ہے؟ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے کہا کوئی مثال دیں جہاں آئین معطل کئے بغیر سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوا ہو۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے جی ایچ کیو،کراچی بیس سمیت مختلف تنصیبات پر دہشت گرد حملے ہوئے، ہمیں بتائیں ان حملوں کا کہاں ٹرائل ہوا؟ ایک آرمی چیف کاطیارہ ہائی جیک کرنےکی سازش کا کیس بنا تھا، خواجہ صاحب وہ کیس عام عدالت میں چلا آپ ایک فریق کے وکیل تھے، ان سب کا ٹرائل عام عدالتوں میں چلا تو 9 مئی والوں نے ایسا کیا کیا کہ ملٹری کورٹس جائیں؟ ان تمام مقدمات کی ایک ایک ایف آئی آر بھی ہمیں دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ اے ٹی سی سے ملزم بری ہورہا اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی ہے، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ انسداد دہشت گردی عدالتوں کوکیوں مضبوط نہیں بنایا جاتا؟ عدالتوں نےفیصلہ تو شواہد دیکھ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کیا 9 مئی دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جوٹرایل فوجی عدالت میں ہورہا ہے؟ اچھے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ جہاں آئین معطل نہ ہووہاں ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ہوسکتا؟ کون اور کیسے طے کرتا کونسا کیس ملٹری کورٹس میں کونسا سول کورٹس میں جائے گا۔
جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سیکشن 94 کے تحت کمانڈنگ افسر کا ذکر ہے اس پر تفصیل سے دلائل دوں گا، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس ضرور بنائیں، جسٹس جمال خان مندوخیملٹری کورٹس سمیت ہر عدالت کا احترام ہے، آئین کے اندر رہتے ہوئے ملٹری کورٹس بنائیں، محرم علی کیس میں سپریم کورٹ نے کہا آئین سےمتصادم عدالت نہیں بنائی جاسکتی۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ سزا یافتہ ملزمان سے متعلق کوئی آرڈر نہیں دےسکتے سب کی سیکیورٹی عزیز ہے، وکالت نامے پر دستخط سمیت کسی بھی شکایت پر متعلقہ عدالت سےرجوع کریں، جیل مینوئل کے تحت وکالت نامے پر دستخط کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز سےسپریم کورٹ رپورٹ منگوا لے، جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہم اپنے اسکوپ سے باہر نہیں جائیں گے۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ خواجہ حارث نے نیب ترامیم کیس میں 6 ماہ تک دلائل دئیے تھے، خواجہ حارث ٹیسٹ میچ کی طرح لمبا کھیلتے ہیں تو جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ ٹی ٹوئنٹی کی طرح کھیلنا چاہتے ہیں؟ انہیں اپنی مرضی سے دلائل دینے دیں۔
بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ملتوی کردی گئی۔
اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے کیس میں جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل سانحہ اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے؟
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی ، وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آپ جسٹس منیب کی ججمنٹ سے پیراگراف پڑھ رہے تھے وہیں سے شروع کریں، آرٹیکل 233 بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے آئین کے مطابق بھی رولز معطل ہوتے ہیں ختم نہیں، آرٹیکل 5 کے مطابق بھی رائٹس معطل نہیں ہوسکتے تو خواجہ حارث نے بتایا کہ آرٹیکل 233 کا ایک حصہ آرمڈفورسز اور دوسرا حصہ سویلینز کا ہے، عدالتی فیصلے کی بنیاد پر آرٹیکل 8 (5) اور 8 (3) مختلف ہیں یکجا نہیں کیا جاسکتا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ کا نکتہ کل سمجھ آچکا، آگے بڑھیں اور بقیہ دلائل مکمل کریں۔
خواجہ حارث نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے والافیصلہ پڑھا اور کہا ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا سویلین کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا، اکثریتی فیصلے میں آرٹیکل آٹھ تین اور آٹھ پانچ کی غلط تشریح کی گئی۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کریں یانہ کریں تو وکیل نے کہا کہ غلط تشریح کی بنیاد پرکہہ دیا گیا ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے، فیصلے میں کہا گیا جرم سرزد ہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے، اس لئے ان کا کیس الگ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی ہے، یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے، چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
جسٹس جمال نے استفسار کیا سوال یہ ہے سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حدتک ہو سکتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے بھی ریمارکس میں کہا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کیخلاف ٹرائل کیلئے تھا، کیا تمام سویلین سے وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے جیسے سانحہ اے پی ایس میں کیا گیا، پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے۔
وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ بنیادی حقوق رہتے ہیں اس بارےمیں عدالتی فیصلے موجود ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہمیں بتائیں ملٹری کورٹس سےمتعلق بین الاقوامی پریکٹس کیاہے، وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر میں مثالیں پیش کروں گا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر فوجی جوان شہید ہو رہےہیں، ہمیں شہدا کا احساس ہے، سوال یہ ہے ان شہدا کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے، کوئی محض سوچ رکھتا ہو کیا اس کے خلاف بھی ملٹری کورٹس میں کیس چلےگا، سوال یہ ہے کونسے کیسز ہیں آرٹیکل 8 کی شق 3 کے تحت ملٹری کورٹس میں چلیں گے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب لگتا ہےآپ کی تیاری مکمل نہیں ہے، 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم کی ہیں، ہم بھی ان دفعات کو کالعدم رکھیں پھر تو سویلین کا فوجی ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا، اگرہم کسی اور نتیجے پر پہنچیں تو طے کرنا ہوگا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے۔
جسٹس نعیم کا مزید کہنا تھا کہ اب آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں2023 میں ترمیم بھی ہو چکی، ہمیں اس ترمیم کی روشنی میں بتائیں، کل جسٹس جمال نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لئے پوچھا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے بھی ریمارکس دیے پارلیمنٹ کا اختیار بلاشبہ ہے قانون بنائے کہ کیا کیا چیزجرم ہے، پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے، اس جرم کا ٹرائل کہاں ہوگا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے، آئین پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے۔
بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے فوجی عدالتوں کے کیس میں سوال کیا کہ کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟کیا اس کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا؟
تفصیلات سپریم کورٹ میں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت کی ، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا فوج کے ماتحت سویلینز کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والاکون ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے تو جسٹس جمال کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹو کیخلاف اگر کوئی جرم ہوتو کیا وہ خود جج بن کرفیصلہ کرسکتاہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے، آئین واضح ہے ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، فوجی عدالتوں کے کیس میں یہ بنیادی آئینی سوال ہے تو وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی اورفورم دستیاب نہ ہوتو ایگزیکٹو فیصلہ کرسکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ قانون میں انسداد دہشت گردی عدالتوں کا فورم موجود ہے، قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟ جس پر وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ آپ کی بات درست ہے، بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس جمال کا کہنا تھا کہ کوئی شہری فوج کا حصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، ملٹری کورٹس کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 175 سے الگ ہے، کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا کام سے روکنے کے الزام پر ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟
جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ تو آپ نے ایک صورتحال بتائی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا، جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ یہ تو سب سے متعلقہ سوال ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے بھی ریمارکس میں کہا کہ اس سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے، وہ شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا، صرف چوکی کے باہر کھڑے ہونے پر تو کچھ نہیں ہو گا، جس پر وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ ملٹری کورٹس ٹرائل پرآرٹیکل 175 کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کو فوج کے ڈسپلن میں لانے کیلئے لایا گیا، شہری آرمڈ فورسز میں شامل ہو تو بنیادی حقوق کے تحت عام عدالتوں میں معاملہ چیلنج نہیں کرسکتا، ہمارے ملک میں 14 سال تک مارشل بھی نافذ رہا تو وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ آرمڈ فورسز کے فرائض میں شہری مداخلت کرے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید وکیل سے مکالمے میں کہا کہ فرض کریں ایک چیک پوسٹ پر عام شہری جانےکی کوشش کرتا ہے ، کیا یہ بھی آرمڈ فورسز کے فرائض میں خلل ڈالنے کے مترادف ہوگا، آپ کےدلائل سے تعریف اتنی وسیع ہوتی جا رہی ہے کہ سب کو پھر شامل کر لیا جائے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر کا بھی کہنا تھا کہ اس کیس کے دو حصے ہیں، ایک حصہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم قرار دینے سے متعلق ہے، دوسرا حصہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کا سوال بہت اہم ہے، کسی چیک پوسٹ پر سویلین کا تنازع ہو جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا، اختیارات کو وسیع کرکے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ کا نفاذ کن جرائم پر ہوگا اس کا جواب آرمی ایکٹ میں موجود ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے ، سماعت کے اختتام پر حفیظ اللہ نیازی روسٹرم پر آئے ، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ سیاسی بات کریں گے، جس پر ،حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ میں سیاسی بات بالکل نہیں کروں گا، ملزمان کو فیصلوں کے بعد جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے، ملزمان کوعام جیلوں میں دیگر قیدیوں کی طرح تمام حقوق نہیں مل رہے۔
سپریم کورٹ نے جیلوں میں 9 مئی ملزمان سے رویے پر رپورٹ طلب کرلی اور کل سماعت کیلئے مقرر دیگر کیسز منسوخ کر دیے۔
جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کل بھی صرف فوجی عدالتوں کا کیس ہی سنا جائے گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ نے توحکم بھی جیل مینول کے مطابق سلوک کا دیا تھا، پنجاب اور وفاقی حکومت عدالتی حکم کو نہیں مان رہے۔
اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف نے فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت دینے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی عدالت جانے کا عندیہ دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے فوجی عدالتوں کو سویلینز کے کیسز کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے پر تشویش کا اظہار کیا۔
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ہمارے85 کارکنوں کےمقدمےفوجی عدالتوں میں ہیں،فیصلے پر عالمی عدالت انصاف جانے کا سوچ سکتے ہیں، نظر ثانی دائر کریں یا عالمی عدالت جائیں، اس حوالے سے مشاورت جاری ہے۔
عدالتی فیصلے پر رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ آئینی بینچ سے متعلق ہمارے خدشات درست ثابت ہوئے۔
یاد رہے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دی تھی، عدالت نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے، فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کےفیصلے سنانے کی اجازت دے دی اور کہا جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت ہوئی ، 7 رکنی آئینی پینچ نے کیس کی سماعت کی، آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کے سوا دیگر تمام مقدمات کی سماعت مؤخر کر دی، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آج صرف فوجی عدالتوں والا مقدمہ ہی سنا جائے گا۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھے ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلے اس پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ہر شخص کو اس زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ یہ بھی مدنظر رکھیں آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے پہلے بنا تھا، جس پر وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے عدالتی فیصلے کواتنا بے توقیر تو نہ کریں کہ اسے خراب کہیں، تو خواجہ حارث نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے الفاظ قانونی نوعیت کے نہیں تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ کل بھی کہا تھا کہ 9مئی کے واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاؤس کا ہی ہے، کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو یہ بھی بتا دیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں، تفصیلات باضابطہ متفرق درخواست کے ذریعے جمع کراؤں گا، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ان کے تحت ٹرائل کیا کیا ہوگا؟ 9 مئی سے پہلے بھی تو کسی کوان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہوگی۔
خواجہ حارث نے بتایا کہ عمومی طور پر کالعدم ہونےسے پہلے متعلقہ دفعات پر فیصلوں کو تحفظ ہوتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہ تو ان ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہوگی، آرمی میں کوئی شخص زبردستی نہیں اپنی مرضی سے جاتا ہے، آرمی جوائن کرنیوالے کو علم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے، آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کےقواعد اور ڈسپلن کیلئے گیا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی ختم ہوتے ہیں تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اپیل میں عدالت صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک محدود رہے گی؟ کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلوؤں کا بھی جائزہ لے سکتی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے بھی ریمارکس دیئے فریقین اپنی معروضات تک محدودرہ سکتے ہیں عدالت نہیں۔
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کیس کی سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی اور 26 ویں ترمیم کا کیس جنوری کےدوسرے ہفتے میں سننے کا عندیہ دے دیا۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ سویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کامقدمہ امیدہےجنوری میں مکمل ہو جائے گا، پہلے ہفتے یہ کیس ختم ہوا تو26ویں ترمیم کا کیس جنوری کےدوسرے ہفتے سنیں گے، ہمارے پاس 26 ویں آئینی ترمیم سمیت بہت سے مقدمات پائپ لائن میں ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث سے استفسار کیا آپ مزید کتنا وقت لیں گے تو وکیل نے بتایا کہ ابھی دلائل میں مزید کچھ وقت لگ جائے گا، جس پر جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تک کیس ملتوی کردیتے ہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی، عدالت نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے، فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
عدالت نے مزید کہا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا ، انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے کیس میں زیرِ حراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی لطیف کھوسہ کی استدعا مسترد کردی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلیئنز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت ہوئی ، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث بیمار ہیں، خواجہ حارث کےمعدےمیں تکلیف ہےاس لئے پیش نہیں ہوسکتے۔
عدالت نے زیرِ حراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی لطیف کھوسہ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کےحوالےسےاٹارنی جنرل یقین دہانی کروا چکےہیں، مقدمہ سن رہے ہیں فی الحال کسی اور طرف نہ جائیں۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلیئنز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد کردی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیس کی سماعت ہوئی ، 7 رکنی آئینی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ سویلینزکی دو کیٹیگریز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوسکتا ہے، وہ سویلینز جو افواج میں ملازمت کر رہے ہیں، ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوسکتا ہے، فوجی تنصیبات پر حملہ کرنیوالوں، افواج کو ڈیوٹی سے روکنے والوں کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہوگا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کیا کور کمانڈر کا گھر بھی فوجی تنصیبات میں آتا ہے؟ کیا کور کمانڈرز اپنے گھر کا دفتری استعمال کرسکتے ہیں؟
وزارت دفاع کے وکیل نے کہا فوجی افسران کے گھروں میں حساس دستاویزات ہوتی ہیں، گھر کو دفتر ڈکلیئر کرکے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے فوجی اہلکاروں کو کام سے روکنے کا جرم تو تعزیرات پاکستان میں ہے، تعزیرات پاکستان کے تحت فوج کو کام سے روکنے والوں کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہوگا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا اے پی ایس پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کیسے چلا تھا؟ تو وکیل نے بتایا اکیس ویں ترمیم ہوئی تھی جس کے بعد ٹرائل ہوا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اُس وقت سویلین کیخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیلئے آئین میں ترمیم کی گئی تھی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل مکمل ہوچکے ہیں ، عدالتوں کو ٹرائل کے فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد کردی اور فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا کیس کل تک ملتوی کردیا۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نےفوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس جوادایس خواجہ پر 20 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کردیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے درخواست پر سماعت کی، وکیل جواد ایس خواجہ نے کہا26 آئینی کی درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک فوجی عدالتوں کا مقدمہ نہ سنا جائے۔
عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کیا آئینی بینچ کو تسلیم کرتے ہیں؟ وکیل جواد ایس خواجہ نے کہا میں عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا،جس پر جسٹس مندوخیل نے کہا پھر آپ کمرہ عدالت چھوڑ دیں۔
وکیل جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن نے نامزد کیا ہے تو جسٹس مندوخیل نے پوچھا کیا 26 آئینی ترمیم کالعدم ہو چکی ہے۔
.جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کی طرف سے تاخیری حربے استعمال ہو رہے ہیں، ہر سماعت پر ایسی کوئی نہ کوئی درخواست آ جاتی ہے، اگر 26 ترمیم کالعدم ہوجائے تو عدالت فیصلوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، جس لوگ ملٹری کورٹ می زیر حراست کیا وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔
عدالت نے حفیظ اللہ نیازی کو روسٹرم پر بلایا، جسٹس مندوخیل نے حفیظ اللہ نیازی سے سوال کیا کیا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں؟ تو حفیظ اللہ نیازی نے جواب دیا میں یہ کیس چلانا چاہتا ہوں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے جو لوگ جیلوں میں پڑے ہیں انکا کا سوچیں، آپ کا تو اس کیس میں حق دعوی نہیں بنتا۔
عدالت نے فوجی عدالتوں کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پرسماعت روکنےکی درخواست خارج کرتے ہوئے کیس کل تک ملتوی کردیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں7 رکنی آئینی بینچ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس جوادایس خواجہ پر بلا جواز درخواست کرنے پر 20 ہزار جرمانہ عائد کردیا۔
یاد رہے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 26 آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک سماعت نہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔