Tag: فوجی عدالتوں میں ٹرائل

  • سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل :  فل کورٹ تشکیل دینے سے متعلق فیصلہ محفوظ۔ آج سنایا جائے گا

    سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل : فل کورٹ تشکیل دینے سے متعلق فیصلہ محفوظ۔ آج سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے سے متعلق فیصلہ محفوظ۔ آج سنائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں فل کورٹ سے متعلق درخواست پر فیصلہ آج سنایا جائےگا ، سپریم کورٹ نے گزشتہ روز سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیاتھا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ کچھ ججوں نے کیس سننے سے معذرت کی ہے تو فل کورٹ کیسے بنائیں؟ دوران سماعت جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا تھا کہ بظاہرلگتا ہے ملزمان کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے شواہد کے نام پر صرف تصاویر ہیں۔

    جسٹس نقوی نے ریمارکس دیئے تھے کہ سویلینزکاملٹری ٹرائل کرکے بنیادی حقوق سلب نہیں کئے جاسکتے۔

    درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ ، سپریم کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے بھی فل کورٹ کی مخالفت کی تھی۔

    اعتزاز احسن نے فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا کی مشروط حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بینچ کی ازسرنو تشکیل سے مقدمہ تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے، ملزمان کو عدالتی تحویل میں جیل بھیجا جائے توفل کورٹ پر آمادہ ہوں، پہلے ہم نے خود فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی

    سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے تحریری معروضات جمع کرائیں تھیں۔

    جوادایس خواجہ نے کہا تھا سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئین کی خلاف ورزی ہے، موجودہ حکومت کی مدت جلد ختم ہونے والی ہے، حکومتی یقین دہانی کی چندروزبعد کوئی حیثیت نہیں رہےگی۔

    تحریری معروضات میں کہا گیا تھا کہ سویلینز کا ملٹری عدالت میں ٹرائل کرکےبنیادی حقوق سلب نہیں کئےجا سکتے، حکومت قانون سازی کے ذریعے بنیادی حقوق ختم کرنا چاہتی ہے، قانون سازی سےبنیادی حقوق کی فراہمی کوتسلیم کیاجائے تو حقوق دیناحکومت کے اختیار میں آجائے گا۔

    جوادایس خواجہ کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں صاف شفاف ٹرائل ہونا ممکن نہیں،فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا، بینچ تشکیل جو بھی ہوججز کو حلف کے مطابق بلا خوف و خطر فیصلہ کرنا چاہیے، جج کو فیصلہ کرنے کے بعد اس کے نتائج کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

  • سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: فل کورٹ تشکیل دینے کی ایک اور درخواست دائر

    سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: فل کورٹ تشکیل دینے کی ایک اور درخواست دائر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے کی ایک اور درخواست دائر کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے کی ایک اور درخواست دائر کردی گئی۔

    درخواست گزار کرامت علی کے وکیل فیصل صدیقی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کاکیس مفاد عامہ کا ہے، ماضی میں بھی فوجی ٹرائل سے متعلق کیس 9ممبرزبینچ یافل کورٹ نے ہی سنا۔

    درخواست میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے بھی فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جس کو مسترد کیاگیا، حکومت کے کئی وزرا بھی موجودہ بینچ پر تنقید کر چکے، بینچ کے رکن جسٹس یحیی آفریدی بھی فل کورٹ بنانے کا کہہ چکے ہیں۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ تمام ججز پر مشتمل ہی فل کورٹ ہو، چیف جسٹس دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ بنا کر کیس سنیں۔

    درخواست میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل پہلے ہی یقین دہانی کرا چکے کسی سویلین کا ٹرائل شروع نہیں ہوا، فل کورٹ کا فیصلہ آنے سے سویلینز کافوجی عدالت میں ٹرائل کامعاملہ ایک ہی بارحل ہوگا۔

  • فوجی عدالتوں میں ٹرائل : ملزمان کو اپیل کا  حق ملے گا یا نہیں؟ حکومت نے غور کے لئے مہلت مانگ لی

    فوجی عدالتوں میں ٹرائل : ملزمان کو اپیل کا حق ملے گا یا نہیں؟ حکومت نے غور کے لئے مہلت مانگ لی

    اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے بعد ملزمان کو اپیل کے حق سے متعلق جواب کیلئےایک ماہ کی مزید مہلت مانگ لی،چیف جسٹس نے کہا کہ مہلت طلب کرنے پر بینچ مشاورت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نو مئی سے متعلق فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6رکنی لارجربینچ نے سماعت کی۔

    لارجربینچ میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

    سماعت کے آغاز پر  چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم اٹارنی جنرل کو پہلے سنیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے مجھے ہدایت دی تھی، میں نے 9مئی کےپیچھے منظم منصوبے کی بات کی تھی، میں نے تصاویر بھی عدالت میں پیش کی تھیں، ہم بہت محتاط ہیں کہ کس کیخلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلناہے، 102 افرا دکیخلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کیلئے بہت احتیاط برتی گئی۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 9 مئی جیسا واقعہ ملکی تاریخ میں پہلےکبھی نہیں ہوا، 9 مئی جیسےواقعات کی مستقبل میں اجازت نہیں دی جا سکتی، میاں والی ایئربیس میں جب حملہ کیاگیااسوقت جنگی طیارےکھڑےتھے، مجھ سے شفاف ٹرائل کی بات کی گئی تھی۔

    ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن کیس فیصلےمیں ایک فرق ہے، جب عام شہری سول جرم کرے تو مقدمہ عام عدالتوں میں چلتاہے، 21ویں ترمیم کےبعدصورتحال تبدیل ہوئی ، عدالت میں دکھائے گئے وڈیو کلپس سے ظاہر ہے9مئی واقعات میں بہت سےافرادشامل تھے، بڑی تعداد ہونے کےباوجود احتیاط کے ساتھ 102 افراد کو کورٹ مارشل کیلئے منتخب کیا گیا۔

    جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے استفسار کیا کس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا کس کا نہیں اس کا انتخاب کیسے کیا گیا ؟ تو ،اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مستقبل میں مئی9جیسے واقعات کا تدارک کرنا ہے ، میانوالی میں ائیر کرافٹ پرحملہ ہوا ایسا آرڈیننس فیکٹری یا کسی اور جگہ بھی ہو سکتا تھا، 9مئی جیسے واقعات کو مستقبل میں روکنا ہے ، سول جرائم اور سویلین کی جانب سے کئے گئے جرائم میں فرق ہے، ٹوون ڈی کے تحت ہونیوالے جرائم ہی ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوں گے۔

    دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کسی فوجی کا جھگڑا کسی سویلین کے ساتھ ہو تو ٹرائل کیسے ہوگا؟ قانون بالکل واضح ہونا چاہیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمار کس دیئے سویلین پر فوجی ایکٹ کے اطلاق کیلئے21ویں ترمیم کی گئی تھی، سویلین پرعآرمی ایکٹ کےاطلاق کیلئےشرائط رکھی گئی ہیں، 21ویں آئینی ترمیم کےتحت فوجی عدالتیں مخصوص وقت کیلئےتھیں۔

    جسٹس یحیی آفریدی نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ جیسے دلائل دےرہےہیں لگتا ہےاپنی ہی بات کی نفی کررہےہیں، اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ 2015 کے سیکشن 2ون بی عدالت میں پڑھ کرسنایا، جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ آرمی ایکٹ2015میں زیادہ زور دہشتگرد گروپس پر دیا گیا تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایکٹ میں افراد کا تذکرہ بھی موجودہے۔

    جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ کل پارلیمنٹ ملٹری ایکٹ میں بنیادی انسانی حقوق شامل کرناچاہے توکرسکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار ہے تو جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ یعنی ملٹری ایکٹ میں بنیادی انسانی حقوق دینایانہ دیناپارلیمنٹ کااختیارہے، یہ نہیں ہو سکتاایک پارلیمنٹ ملٹری ایکٹ میں بنیادی حقوق دےاگلی نکال دے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سویلین پر فوجی ایکٹ کے اطلاق کیلئے 21ویں ترمیم کی گئی تھی، سویلین پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کےلئے شرائط رکھی گئیں، 21ویں آئینی ترمیم کےتحت فوجی عدالتیں مخصوص وقت کیلئےتھیں۔

    جسٹس یحیی آفریدی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جیسے دلائل دےرہےہیں لگتا ہے اپنی ہی بات کی نفی کررہے ہیں تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 21ویں آئینی ترمیم سےقبل بھی آرمی ایکٹ کاسویلین پر اطلاق کا ذکر موجودتھا۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق ختم ہوگئے ہیں، کیا پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی بالکل پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے ، جس پر جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا بنیادی انسانی حقوق کبھی آرہے ہیں کبھی جارہے ہیں، قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں ہونا چاہیے ،آپ کی دلیل یہ ہے ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے 21ویں ترمیم میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی بات کی گئی ہے، 21ویں ترمیم نےانتظامیہ،عدلتی اختیارات میں فرق کر کےبڑا تحفظ دیاتھا، 21ویں ترمیم میں ٹرائل میں مجوزہ طریقہ کاردے کرانسانی حقوق کاتحفظ کیاگیاتھا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو ملٹری ٹرائل کا طریقہ کار بتانا چاہتا ہوں۔

    جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ملٹری ٹرائل کاطریقہ کاربتانےکی کیاضرورت جب بنیادی حقوق کا اطلاق ہونا ہی نہیں؟ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ
    آپ جوبتاناچاہتےہیں بتائیں ، بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم کیا جاسکتا ہے اس بارے میں سوچیں۔

    جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کسی آرمی افسرکوزخمی کرناذمہ داری اداکرنےسےروکنےکےمترادف ہوگا؟بنیادی انسانی حقوق کےبغیرجرائم پر کورٹ مارشل کی سزالگتی ہے، ایک طرف درج ہے ریاست انسانی حقوق سے ماوراکوئی قانون نہیں بناسکتی، دوسری طرف کہہ رہے ہیں مخصوص قانون میں انسانی حقوق کااطلاق ہوتاہی نہیں، آپ کی دلیل کی منطق سمجھنے سے قاصر ہوں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نظام عدل میں عدلیہ کی آزادی کومرکزی حیثیت حاصل ہے،عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قرار دے چکی ہے، ہم ٹرائل کورٹ پرسب کچھ نہیں چھوڑ سکتے، 2015میں 21ویں ترمیم کےذریعے آئین کو ایک طرف کردیاگیا مگر اب ایسا نہیں، آرمی ایکٹ کاسیکشن 2 پڑھیں جس میں سویلینزکے ٹرائل کی بات ہے۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکشن2 کے مطابق کوئی سویلین دفاعی کام میں رخنہ ڈالےتوقانون کےنرغےمیں آتاہے، کوئی سویلین افواج کاڈسپلن خراب کرے توبھی قانون کے دائرے میں آتا ہے تو چیف جسٹس عمر عطابندیال نے سوال کیا افواج کا ڈسپلن کیسے خراب ہوا؟ عدلیہ کی آزادی انصاف کی بنیاد ہے، ملٹری ایکٹ کے تحت پراسیکیوشن ہی فیصلہ کرے گی اور اپیل بھی وہی سنیں گی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مسٹر اٹارنی جنرل2015 میں جوآئین کو پس پشت ڈالا گیا وہ اب نہیں ہورہا، فوجی عدالت کے فیصلے کیخلاف آزادانہ فورم پراپیل کاحق بنیادی حقوق کی ضمانت ہے۔

    دوران سماعت تیز بارش سے عدالتی کارروائی میں خلل پیدا ہوا تو جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تیز بارش کےسبب آپ کی آواز نہیں آ رہی ، جس پر اٹارنی جنرل نے سوال کیا کیا معزز ججز کو میری آواز آرہی ہے ،سپریم کورٹ میں دوران سماعت ججز نے مسکرانا شروع کر دیا۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کی کسٹڈی لینے کے بعد شواہد کی سمری تیار کر کے چارج کیا جاتا ہے ، الزمات بتا کر شہادتیں ریکارڈ کی جاتی ہیں ، کمانڈنگ افسر شواہد سے مطمئن نہ ہو تو چارج ختم کردیتا ہے، ملزم کو بھی موقع دیاجاتاہے کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کراسکتا ہے جبکہ ملٹری کورٹس میں دوران ٹرائل ملزم کسی لیگل ایڈوائزرسےمشاورت کر سکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے بتایا کہ ملزمان کو اپنے دفاع کےلئے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بھی فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے ، سزائے موت کی صورت میں فیصلہ دوتہائی سے ہونالازمی ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہاں یہ معاملہ اس کیس سے متعلق نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ بادی النظر میں 102 ملزمان میں کسی کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں دی جائے گی۔

    جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا مطلب ہے سیکشن 3 اے کا کوئی کیس نہیں ہے، چیف جسٹس نے بھی سوال کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا کوئی کیس نکل سکتا ہے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میرا بیان آج تک کی اسٹیج تک کا ہے۔

    ؛اٹارنی جنرل نےسپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ 9 مئی واقعات پر ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے فیصلوں میں تفصیلی وجوہات کا ذکر ہوگا۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ٹراٹل سے پہلے حلف بھی لیا جاتا ہے ، یہ حلف کورٹ میں تمام ممبران ایڈووکیٹ اور شارٹ ہینڈوالابھی لیتاہے، سزا سیکشن 105 اور رولز 142 کے تحت سنائی جاتی ہے، ملزم کو سزا سنانے کے بعد کنفرمیشن کا مرحلہ آتا ہے، کنفرمیشن سے پہلے جائرہ لیا جاتا ہے ٹرائل قانون کےمطابق ہوا یانہیں ، ملزمان کو وکیل کرنے کی اجازت دی جائے گی ، پرائیوٹ وکیل کی بھی ملزمان خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیخلاف اپیل کیلئےسیکشن133 موجود ہے ، تین ماہ سےزیادہ کی سزا پر 42دن کے اندر اپیل کرسکتے ہیں ، اپیل کورٹ آف اپیل میں کی جاسکتی ہے ،اٹارنی جنرل بھی لیا جاتا ہے۔

    حکومت نے ملٹری کورٹس میں ملزمان کو اپیل کے حق سے متعلق معاملے پر غور کےلئے مہلت مانگ لی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر بہت محتاط رہ کر غورکی ضرورت ہے۔

    سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل نے کلبھوشن یادیو کیس کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے چلنا ہو گا کہ ملکی پوزیشن متاثر نہ ہو، کچھ چیزوں کا میں ذکر نہیں کر رہابہت کچھ ذہن میں رکھنا ہو گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک ماہ کی مہلت طلب کرنے پر بینچ مشاورت کرے گا اور آئندہ تاریخ مشاورت کے بعد اپنے حکم نامہ میں شامل کردیں گے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

  • سویلینز کا  فوجی عدالتوں میں ٹرائل: اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو 9  مئی کے واقعات اور نقصانات کی تفصیلات بتادیں

    سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو 9 مئی کے واقعات اور نقصانات کی تفصیلات بتادیں

    اسلام آباد : سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس میں اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو نو مئی کے واقعات اور نقصانات کی تفصیلات بتادیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

    اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے توچیف جسٹس نے کہا کہ جی اٹارنی جنرل صاحب فرمائیے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تحریری گزارشات کا والیم ٹو پڑھوں گا۔

    اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے نو اور دس مئی کے واقعات کی تصاویرعدالت میں پیش کی اور بتایا کہ نو مئی کےواقعات تین بجےسےشام سات بجے کے درمیان ہوئے ۔ راولپنڈی اور بنوں میں تین بجے واقعات پیش آئے، کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں پانچ بجکر چالیس منٹ ،میانوالی میں ساڑھے پانچ بجے ،سیالکوٹ میں پانچ بجے حملہ کیا گیا۔

    منصور عثمان نے کہا کہ پی ایف بیس میانوالی کی باؤنڈری دیوار کو نشانہ بنایا گیا، ایئر بیس پر میراج فائٹر طیارے موجود تھے، ایم ایم عالم کی طرف سے انیس سو پینسٹھ میں استعمال طیارےکو جلایا گیا جبکہ ایئر بیس پر دیگر لڑاکا طیارے اور بڑی تعداد میں فیول موجودتھا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ باسٹھ واقعات صرف پنجاب میں پیش آئے۔ جن میں250 اور ایک سو اٹھانوے اہلکار زخمی ہوئے ، جبکہ 98 سرکاری گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا ، لاہور میں سی ایس ڈی کو جلا دیا گیا، فوج ہتھیار چلانےمیں تربیت یافتہ ہوتی ہے لیکن 9مئی کے واقعات پر فوج نے لچک کامظاہرہ کیا۔

    انھوں نے مزید بتایا کہ فیصل آبادمیں آئی ایس آئی دفترمیں ملوث افرادمسلح تھے، ریڈیو پشاور کومکمل طور پر تباہ کیا گیا، تیمرگراہ میں سکول کو نقصان پہنچایا گیا، پنجاب رجمنٹ مردان سینٹر،بلوچستان رجمنٹ ایبٹ آبادپرحملہ کیا گیا، موٹروے ٹول پلازہ سوات کوجلایا گیا مگر اس کارروائی کی ویڈیو نہیں۔

    منصور عثمان کا کہنا تھا کہ 9مئی کو بلوچستان اور سندھ میں صورتحال قابو میں تھی، فوجی افسران کی پولیس کی طرح مظاہرین سےنمٹنے کی تربیت نہیں ہوتی،فوجی افسران کو اس طرح کے جتھوں کو منتشر کرنا نہیں سکھایا جاتا۔

    جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی صرف گولی چلانا جانتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملک کومجموعی طور پر اڑھائی ارب کا نقصان ہوا، صرف فوجی تنصیبات کو 1 ارب 98 کروڑ روپے نقصان ہوا، ۔ جس میں فوجی تنصیبات کو پہنچنے والےنقصانات کا تخمینہ ایک ارب 99 کروڑ روپےلگایا گیا ہے۔

    منصور عثمان نے عدالت میں کہا کہ میں کچھ تصاویر دکھانا چاہتا ہوں، تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کس طرح لوگ جی ایچ کیو میں داخل ہوئے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کل عدالت سے فل کورٹ تشکیل دینےکی استدعا کی تھی، پہلی بارسیاسی جماعت کی جانب سےعسکری تنصیبات پرحملےہیں،دوسری وجہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا شرپسندوں پر اطلاق ہونا ہے، اس نوعیت کا مقدمہ پہلی بارسپریم کورٹ میں آیا ہے اس لئےفل کورٹ استدعا کی، سپریم کورٹ ماضی میں بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل درست قرار دے چکی ، جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ماضی میں فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں بنی تھیں۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ شرپسندوں کیخلاف فوجداری مقدمات آرمی قوانین کے تحت ہیں تو جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ اصل سوال یہ ہے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتاہے یا نہیں،آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اس نکتے کا جواب دیں۔

  • سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق درخواست قابل سماعت قرار

    سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق درخواست قابل سماعت قرار

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سےمتعلق درخواست قابل سماعت قرار دے دی ، چھ رکنی لارجر بینچ کل سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق درخواست کے معاملے پر سپریم کورٹ نے صدر سپریم کورٹ بارعابدزبیری کی درخواست قابل سماعت قرار دے دی۔

    رجسٹرار آفس نے صدر سپریم کورٹ بار کی درخواست کو نمبر الاٹ کردیا، سپریم کورٹ کا 6رکنی لارجر بینچ کل کیس پر سماعت کرے گا، جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس یحیی آفریدی ،جسٹس منیب اختر بینچ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہوں گے۔

    یاد رہے 27 جون کو عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی جانب سے یقین دہانی کرائے جانے کے بعد فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی تھی اور سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی تھی۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت میں ریمارکس دیئے تھے کہ توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی۔

  • سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: سپریم کورٹ کا حکمنامہ جاری، جسٹس سردار طارق مسعود  کا نوٹ سامنے آگیا

    سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: سپریم کورٹ کا حکمنامہ جاری، جسٹس سردار طارق مسعود کا نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد : عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس میں سپریم کورٹ نے پہلی سماعت کا مکمل حکمنامہ جاری کردیا، حکمنامے کےساتھ جسٹس سردارطارق مسعود کا نوٹ بھی سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے معاملے پر پہلی سماعت کا مکمل حکمنامہ جاری کردیا ،حکمنامہ کے ساتھ جسٹس سردار طارق مسعود کا نوٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔

    جسٹس سردار طارق مسعود نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے بینچ سے علیحدگی اختیار کی۔

    جسٹس سردار طارق کا نوٹ

    جسٹس سردار طارق نے کہا کہ بینچ میں شامل کرنے سے پہلے مجھ سے مشاورت نہیں کی گئی، درخواستوں کے مقرر ہونے سے پہلے درخواست گزار اور انکے وکیل نے چیف جسٹس سے چیمبر میں ملاقات کی ملاقات کے اگلے روز درخواستوں کو سماعت کیلئے مقرر کردیا گیا، اس طریقہ کار کی اجازت دی جائے توچیف جسٹس کےاختیارپرسوال اٹھتاہے۔

    سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ کیا سالوں سے زیر التواء مقدمات میں درخواست گزاروں کو چیف جسٹس سے ملنے کی اجازت ہوگی۔

    انھوں نے نوٹ میں کہا کہ جسٹس فائزعیسیٰ کے مؤقف سے متفق ہوں، تحفظات کےباوجودجیلوں میں پڑےشہریوں کی اپیلیں سن رہاہوں، پانامہ کیس اس وجہ سےسناکہ5رکنی بنچ اسےقابل سماعت قراردے چکا تھا۔

    جسٹس سردار طارق نے مزید کہا کہ میں پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کےحوالے سےفیصلےکاانتظارکررہاتھا ، ایکٹ پر یکطرفہ حکم امتناع کےبعدمیں کیس کےجلدفیصلےکی توقع کررہاتھا، ایکٹ کےتحت184(3)کاہرمعاملہ پہلے کمیٹی کےسامنےجاناچاہیے۔

    جاری نوٹ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ ججزپرمشتمل کمیٹی درخواست میں عوامی مفادکاجائزہ لےکر3رکنی بینچ تشکیل دے گی ، سویلین کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کا مقدمہ قانون کےمطابق کمیٹی کےسامنےنہیں رکھاگیا، یہ توقع کرتےہوئےکہ قانون ختم ہوجائےگامعاملہ کمیٹی کےسامنےنہیں رکھاگیا۔

    جج کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سےقانون پرعملدرآمدروکنےپرمیں مقدمات سننےمیں ہچکچاہٹ کاشکارتھا، میں نےچیف جسٹس سےپریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کیس کاجلد فیصلہ کرنےکی درخواست کی۔

    انھوں نے کہا کہ موجودہ کیس میں آنیوالےدرخواست گزارفوجی عدالتوں میں ٹرائل کاسامنانہیں کررہے، عام طورپرکسی بھی قانون کوچیلنج کرنےکیلئےدرخواست ہائیکورٹ میں دائرکی جاتی ہیں لیکن سپریم کورٹ میں آرمی ایکٹ کوعوامی مفادکےقانون کےتحت چیلنج کیاگیا۔

    جسٹس سردار طارق کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانےیانہ چلانےکافیصلہ انفرادی طورپرملزمان کوسن کرکیاجاسکتاہے، فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست قانون کے خاتمےکومدنظر رکھ مقررہوئیں، قانون کےمطابق موجودہ9رکنی بینچ کی اپیل بڑےبینچ کےسامنےمقررہوگی۔

    جسٹس طارق نے مزید لکھا کہ میں کیس سننےسےمعذرت نہیں کررہا، میں بینچ کے26تاریخ کےحکمنامہ پردستخط کرنےکی بجائےعلیحدہ نوٹ جاری کررہاہوں، میری رائے میں کیس کوپریکٹس پروسیجر ایکٹ کےفیصلےکےبعدمقررکیا جاناچاہیے۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ

    دوسری جانب سپریم کورٹ کے حکمنامے میں جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ بھی شامل کیا گیا ، اپنے نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعتراض کی صورت میں جج کیساتھ ساتھ ادارے کی ساکھ کا بھی معاملہ ہوتا ہے، انصاف کی فراہمی کی غیر جانبداری مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ہونی چاہیے۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ظاہری اور حقیقی غیر جانبدارانہ انصاف عوامی اعتماد اور قانون کی حکمرانی کیلئے ضروری ہے، عدالتی غیر جانبداری سے عوامی اعتماد ،شفاف ٹرائل ،قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بقاء برقرار رہتی ہے ۔

    نوٹ میں کہا گیا کہ عدالتی نظام میں غیر جانبداری اخلاقی نہیں بلکہ عملی ہونی چاہیے،عدالتی نظام میں حقیقی غیر جانبدارانہ سے جمہوری روایات،شہریوں کی بنیادی حقوق کی حفاظت ہوتی ہے، اگر کسی جج پر اعتراض کی معقول وجہ ہو تو عوامی اعتماد برقرار رکھنے کیلئے بنچ سے الگ ہو جانا چاہیے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ میں تسلیم کرتا ہوں جواد ایس خواجہ میرے عزیز ہیں، ایک عام شہری کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ درخواست گزار نے درخواست عوامی مفاد میں دائر کی یا زاتی مفاد میں، میں اعتراض کو ترجیح دیتے ہوئے خود کو بنچ سے علیحدہ ہو رہا ہوں، وفاقی حکومت کے اعتراضات کی روشنی میں خود کو بنچ سے الگ کرتا ہوں۔