Tag: فوجی عدالتوں کا قیام

  • فوجی عدالتوں کے قیام میں‌ حکومت خود ہی سنجیدہ نہیں، خورشید شاہ

    فوجی عدالتوں کے قیام میں‌ حکومت خود ہی سنجیدہ نہیں، خورشید شاہ

    حیدرآباد: قومی اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر و پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام عارضی حل ہے ان کے قیام کے لیے مستقل بنیادوں پر پلاننگ کرنا ہوگی۔

    حیدرآباد میں میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی مائنڈسیٹ ہے جسے گولی سے ختم نہیں کیا جاسکتا،افغانستان دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی ملک کی خاطر ہر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ماضی میں دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کی حمایت کی حکومت اگر فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع پر سنجیدہ ہوتی تو دسمبر میں رابطہ کرتی

    انہوں نے کہا کہ نیپ پر عمل نہیں ہوا اور نہ ہی نیکٹا کا کوئی اجلاس ہوا، وزیراعظم پارلیمنٹ میں آکر عوام کو اعتماد میں لینے کو تیار نہیں، پنجاب اور سندھ میں رینجرز اختیارات میں فرق ہے۔

    واضح رہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام پر پی پی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نو مطالبات پیش کیے ہیں کہ انہیں پورا کرنے کے بعد یہ عدالتیں قائم کردی جائیں، یہ مطالبات فوجی عدالتوں میں اصلاحات سے متعلق تھے۔

    پیر کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ہم فوجی عدالتوں کے قیام کے مخالف نہیں ہیں تاہم کچھ تحفظات ہیں جسے دور کرنے کے لیے نو مطالبات پیش کردیے ہیں۔

    یہ پڑھیں: فوجی عدالتوں کے مخالف نہیں، 9 مطالبات پیش کردیے، زرداری

  • فوجی عدالتوں کا قیام، ساتواں اجلاس بھی بے نتیجہ ختم

    فوجی عدالتوں کا قیام، ساتواں اجلاس بھی بے نتیجہ ختم

    اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیے بلایا گیا ساتواں اجلاس بھی بے نتیجہ ختم ہوگیا، پارلیمانی کمیٹی نے معاملہ پھر ذیلی کمیٹی کو بھجوا دیا، پیپلزپارٹی نے معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس بلا لی۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوئے دوماہ کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن ملک کی سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی توسیع پر تاحال متفق نہ ہوسکیں، اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی کا ساتواں اجلاس بھی بے نتیجہ ختم ہو گیا اور کمیٹی کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی، اب آئندہ اجلاس منگل کو ہوگا۔

    اپوزیشن جماعتیں فوجی عدالتوں کے ساتھ نگراں کمیٹی کی بحالی کے مطالبے پر بھی قائم ہیں، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی نگراں کمیٹی کے قیام پر زور دیا ہے، اس کے علاوہ مقدمے میں مذہبی دہشت گردی کے الفاظ کے معاملے پر سیاسی رہنماؤں میں اختلافات بدستور موجود ہیں۔

     فوجی عدالتوں میں 2 سال توسیع کی جاسکتی ہے، زاہد حامد

    حکومتی رکن زاہد حامد کا کہنا ہے کہ منگل کو ہونے والے اجلاس میں فوجی عدالتوں سے متعلق آئینی مسودہ پرسیاسی جماعتیں مشاورت کے بعد اپنا جواب دیں گی۔

    انہوں نے امید طاہر کی کہ تمام جماعتوں کےاتفاق سے فوجی عدالتوں میں 2 سال توسیع کی جاسکتی ہے، پارلیمانی رہنما آئندہ اجلاس میں مشاورت کے بعد رائے دیں گے۔

    اسلام آباد میں اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زاہد حامد کا کہنا تھا کہ ترمیم میں ریاست کےخلاف جنگ اورتشدد کالفظ استعمال کیا گیا ہے، 23 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پارلیمانی رہنماؤں کو ارسال کردیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع، پارلیمانی اجلاس بے نتیجہ

    انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کےاصرار پر ترمیم میں ریاست کیخلاف سنگین اورپرتشدد کارروائیوں کے جملےکا اضافہ کیاہے۔

    واضح رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے بعد جنوری 2015 میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔اس وقت حکومت نے قومی اتفاق رائے سے 2 سال کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 21ویں آئینی ترمیم منظور کرائی تھی تاہم رواں سال 7 جنوری کو فوجی عدالتوں کے دو سال مکمل ہونے کے بعد یہ عملی طور پر غیر موثر ہوگئیں۔

  • فوجی عدالتوں میں توسیع، پارلیمانی رہنماؤں کو مسودہ پیش

    فوجی عدالتوں میں توسیع، پارلیمانی رہنماؤں کو مسودہ پیش

    اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس کسی حتمی فیصلے پر پہنچے بغیر 22 فروری تک ملتوی ہوگیا تا ہم قانونی مسودہ پارلیمانی رہنماؤں کو مشاورت کے لیے پیش کردیا گیا جس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں 3 سال کی توسیع مانگی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں مسودہ پیش کیا گیا۔

    مسودے میں فوجی عدالتوں کی مدت میں 3 سال کی توسیع کی تجویز دیتے کہا گیا ہے کہ حکومت کی تعریف کے مطابق اب کسی کوبھی دہشت گردی میں شامل کیا جاسکے گا اور دہشت گردی کو کسی مذہب یا مذہبی جماعت سے نہیں جوڑا جائے گا بلکہ دہشت گرد کو دہشت گرد قرار دے کر کارروائی کی جائے گی۔

    آئینی ترمیم کا مسودہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے پیش کیا اور مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے بریفنگ دی جس کے بعد آئینی مسودہ پارلیمانی رہنماؤں کے حوالے کیا گیا۔

    پاکستان پیپلز پارٹی نے اعتراض لگا کر مسودہ مسترد کر دیا جس کے بعد مسودہ قانون کو حتمی شکل دینے کے لیے وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی بنادی ہے جو 22 فروری تک اپنی سفارشات جمع کرائے گی۔

    ذیلی کمیٹی وفاقی وزیر زاہد حامد کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے جس میں دیگر پارٹی کے رہنما بھی شامل ہیں جن میں شازیہ مری، شیری مزاری، نعیمہ کشور اور اقبال ایس قادری شامل ہیں، کمیٹی کے ارکان اپنی جماعتوں سے مشاورت کریں گے،کمیٹی مسودے میں ممکنہ قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ لے گی۔

    اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ قانونی مسودے کی کاپی تمام پارلیمانی رہنماؤں کو بھی دے دی گئی ہے جو اپنے اپنے پارٹی رہنماوں سے مشاورت کے بعد 27 فروری کو اجلاس میں مسودے پر اتفاق یا اعتراض سے آگاہ کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر اگلا اجلاس 22 فروری کو ہوگا جس میں ذیلی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں 21 ویں ترمیم میں ترامیم تجویز کی جائیں گی جب کہ پارلیمانی رہنماؤں کا اگلا اجلاس اب 27 فروری کو ہوگا۔

    وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ اتفاق رائے کے بعد نئی ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کرائی جائے گی دوسری جانب پیپلز پارٹی نے اس مسودے کو مکمل طور پر نامنظور اور مسترد کر دیا ہے۔

    رہنما پیپلز پارٹی نوید قمر نے کہا کہ مسودے میں پرانے قانون سے زیادہ سختی برتی گئی ہے، کسی کو بھی دہشت گردی کی الزام میں اندر کیا جا سکتا ہے جو منظور نہیں۔

    اجلاس میں مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ وزیر قانون و انصاف زاہد حامد، پاکستان مسلم لیگ (ضیاء) کے سربراہ اعجاز الحق، پی ٹی آئی کی شیریں مزاری، شاہ محمود قریشی، عوام مسلم لیگ کے شیخ رشید، جماعت اسلامی کے پارلیمانی رہنما طارق اللہ، اے این پی کے غلام احمد بلور، وزیر خزانہ اسحاق ڈار،جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا عطا الرحمان اور دیگر نے شرکت کی۔

  • فوجی عدالتوں کا قیام؟ پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس آج ہوگا

    فوجی عدالتوں کا قیام؟ پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس آج ہوگا

    اسلام آباد: وزیرِاعظم نواز شریف نے پارٹی سربراہوں کا اجلاس آج طلب کرلیا ہے، ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے ترمیم آئین میں ہوگی یا آرمی ایکٹ میں یہ فیصلہ آج پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں کیا جائے گا۔

    فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے فیصلہ ساز اجلاس سہ پہر تین بجے ایوانِ وزیرِاعظم اسلام آباد میں ہوگا، اجلاس میں وزیرِاعظم سیاسی رہنماؤں سے انسدادِ دہشت گردی سے متعلق قومی ایکشن پلان پر عملدر آمد کے حوالے سے مشاورت کریں گے ۔

    پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی اجلاس میں موجود ہوں گے۔

     اجلاس میں قومی ایکشن پلان پر وزیرِاعظم کی جانب سے تشکیل دی گئی عملدرآمد کمیٹیاں بھی اپنی پیش رفت سے آگاہ کریں گی، اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری، پپپلز پارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم، قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ، پپپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن، امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق شریک ہونگے۔

    تحریکِ انصاف کی جانب سے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان، شاہ محمود قریشی شرکت کریں گے۔

    اجلاس میں مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، جمعیتِ علماء ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق ،مشاہد حسین سید، آفتاب احمد خان شیرپاوٴ، سینیٹر کلثوم پرویز، سینیٹر ساجد میر، محمود خان اچکزئی، غلام احمد بلور شریک ہونگے۔

    ایم کیو ایم کی جانب سے ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری، بیرسٹرفروغ نسیم، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی جبکہ اعجاز الحق، مظفر حسین شاہ، ، فاٹا سے سینیٹر عباس آفریدی ، غازی گلاب جمال اجلاس میں موجود ہونگے۔

    وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان ، وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار، وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیرِ دفاع بھی خواجہ محمد آصف اجلاس میں شریک ہوں گے۔

    اس سے قبل وزیرِاعظم کی زیرِ صدارت پارلیمانی رہنماؤں نے ملک سے دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے فوجی عدالتیں قائم کرنے سمیت اٹھارہ تجاویز منظور کی گئیں تھیں، اجلاس میں پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے فوجی عدالتوں کے قیام کی مشروط حمایت کی۔

    نواز شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف لنگڑے لولے فیصلوں کا وقت نہیں، سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔