Tag: فوجی عدالتوں

  • فوجی عدالتوں میں سویلین  کا ٹرائل: سپریم کورٹ کا آئینی بینچ  9 دسمبر کو سماعت کرے گا

    فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل: سپریم کورٹ کا آئینی بینچ 9 دسمبر کو سماعت کرے گا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کا آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل سے متعلق درخواست پر نو دسمبر کو سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل سے متعلق درخواست سماعت کیلئے مقرر کردی۔

    جسٹس امین الدین کی سربراہی میں چھے رکنی آئینی بینچ نو دسمبر کو سماعت کرے گا، جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمدعلی مظہر،جسٹس حسن اظہر رضوی،جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بینچ کا حصہ ہوں گے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس میں سپریم کورٹ نے ملزمان سے غیرانسانی سلوک نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملاقاتوں میں آئندہ تعطل نہیں ہوناچاہیے۔

    جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ زیر حراست افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جا رہی؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو کہا متعلقہ حکام کو بتایا تھا کہ ملاقات کرانے کا حکم عدالت کا ہے، تسلیم کرتا ہوں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں رکنا چاہیے تھا، آج دو بجے زیرحراست افراد کو اہلخانہ سے ملوایا جائے گا۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: ملزمان سے غیر انسانی سلوک نہ کرنے کا حکم

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: ملزمان سے غیر انسانی سلوک نہ کرنے کا حکم

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس میں سپریم کورٹ نے ملزمان سے غیرانسانی سلوک نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ملاقاتوں میں آئندہ تعطل نہیں ہوناچاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف فیصلہ پر انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے۔

    جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا آپ ملزمان کے ساتھ سلوک تو انسانوں والا کریں، جسٹس عرفان سعادت نے کہا اٹارنی جنرل صاحب انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہوسکتا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ پہلے بتاتے تھے ہر ہفتہ ملزمان کی فیملی سے ملاقات ہوتی ہے، آپ اس کو جاری کیوں نہیں رکھتے؟ اٹارنی جنرل آپ کا بیان عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔

    لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ایک ملزم کو فیملی سے نہیں ملنے دیا گیا، اس کا پانچ سالہ بچہ فوت ہوگیا۔

    ملٹری کورٹس میں ملزمان سے ملاقاتوں کے فوکل پرسن برگیڈیر عمران عدالت میں پیش ہوئے، اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے دلائل دیئے۔

    جسٹس امین الدین خان نے کہا زیر حراست افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جا رہی؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو کہا متعلقہ حکام کو بتایا تھا کہ ملاقات کرانے کا حکم عدالت کا ہے، تسلیم کرتا ہوں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں رکنا چاہیے تھا، آج دو بجے زیرحراست افراد کو اہلخانہ سے ملوایا جائے گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا جن سے تفتیش مکمل ہوچکی وہ جیلوں میں کیوں نہیں بھیجے گئے؟ تفتیش کیلئے متعلقہ اداروں کے پاس ملزم رہے تو سمجھ آتی ہے، تفتیش مکمل ہوچکی تو ملزمان کو جیلوں میں منتقل کریں۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جیلوں میں منتقلی میں کچھ قانونی مسائل بھی ہیں، جس پر جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا انسانوں کیساتھ غیرانسانی سلوک نہیں ہونا چاہیے، ہم چاہتے ہیں کم از کم آج اس کیس کی میرٹ پر سماعت شروع کریں۔

    جسٹس محمد علی مظہرنے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہااپیل میں عدالت نے اصل فیصلہ میں غلطی کو دیکھنا ہوتا ہے، اٹارنی جنرل آپ کو ہمیں اصل فیصلہ میں غلطی دکھانا ہوگی۔

    جسٹس شاہد وحید نے کہاہم اپیل میں آپ کو سن رہے ہیں، ساتھی جج نے آپ کو جواب دیا ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ میں نے کوئی جواب نہیں دیا، ایک قانونی نکتے کی بات کی ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل دیں ہم جو ہوا فیصلے میں دیکھ لیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا عدالتی حکم پر آج ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ ملاقاتیں رکی کیوں اٹارنی جنرل نے کہا صرف لاہور میں ملاقاتوں کا ایشو بنا ایسا دوبارہ نہیں ہوگا، ملاقات کیلئے ہر مرتبہ حکم دینا مناسب نہیں ہوگا۔

    جسٹس جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے تحقیقات مکمل ہو چکی تو ملزمان جیل میں کیوں ہیں ملزمان اگر جیل میں ہوتے تو ملاقاتوں کو مسئلہ پیدا نہ ہوتا تو اٹارنی جنرل نے کہا آرمی رولز میں ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ کا ذکر نہیں۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا سزا کے بعد جو ہولیکن رویہ انسانوں والا ہونا چاہیے جبکہ جسٹس عرفان سعادت نے کہا بھی انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا استفسار کیا ہفتے میں کتنی مرتبہ ملاقاتیں ہوتیں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا ہر ہفتہ میں ایک ملاقات کروائی جا رہی ہے تو جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہرمرتبہ 25-20 منٹ کیس انہی باتوں پر چلتا ہے، مرکزی کیس چل ہی نہیں رہا ملاقاتوں میں آئیندہ تعطل نہیں ہونا چاہیے۔

    دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے بات کرنے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے لطیف کھوسہ کو بات کرنے سے روک دیا۔

    جسٹس عرفان سعادت نے کہا کھوسہ پلیز کیس چلنے دیں، ہم ججز کی خواہش ہے کہ آج کیس کو چلائیں، لطیف کھوسہ صاحب پلیز مناسب نہیں اج مقدمہ چلنے دیں، جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا میاں عباد کا پانچ سالہ بیٹا فوت ہوا ملنے نہیں دیا گیا۔

    بریگیڈیئر عمران نے کہا میں فوکل پرسن ہوں تمام ملزمان کے وارثان کو نمبر بھی دیا گیا ہے، عدالت نے ہدایت کی کہ جس ملزم کا بچہ فوت ہوا اس کی ترجیحی بنیاد پر ملاقات کروائی جائے۔

    جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر کے درمیان پھر جملوں کا تبادلہ ہوا، جسٹس شاہد وحید نے کہا جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ ہمیں غلطی دکھائے بغیر ہم سے نیا اور الگ فیصلہ چاہتے ہیں، اپیل میں اگر کیس آیا ہے، تو کھر سب کچھ کھل گیا ہے، یہ نکتہ نظر میرے ساتھی کا ہوسکتا ہے میرا نہیں، اگر اپیل میں سب کچھ ہوسکتا ہے تو کیا ہم کیس ریمانڈ بیک بھی کرسکتے ہیں؟

    جسٹس عرفان سعادت کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آپ ایک جواب دے سکتے ہیں کہ یہ نظر ثانی نہیں اپیل ہے۔

    جسٹس جمال خان مندو نے کہا اٹارنی جنرل آپ یہی کہہ رہے ہیں نا کہ اپیل کا اسکوپ وسیع ہے، بس آگے چلیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی یہاں عدالت کے سامنے ایک قانون کا دفاع کرنے کھڑا ہے، عدالت کو اس بات کو سراہنا چاہیے، جس قانون کو کالعدم کیا گیا وہ ایسا تنگ نظر قانون نہیں تھا جیسا کیا گیا۔

    اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ کی کالعدم شقوں سے متعلق دلائل دیئے، جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کیا اپیل کا حق ہر ایک کو دیا جا سکتا ہے؟ ہر کسی کو اپیل کا حق دیا گیا تو یہ کیس کبھی ختم نہیں ہوگا۔

    جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کل کو عوام میں سے لوگ اٹھ کر آجائیں گے کہ ہمیں بھی سنیں، ایک قانون سارے عوام سے متعلق ہوتا ہے۔

    جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے متاثرہ فریق ہونا ضروری ہے، اپیل دائر کرنے کے لیے جسٹس محمد علی مظہر نے کہااس حد تک جسٹس شاہد وحید سے متفق ہوں، متاثرہ فریق ہونا لازم ہے۔

    جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کیا اس کیس میں اپیل دائر کرنے کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری ضروری نہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ منظوری لازم نہیں ہے۔

    اٹارنی جنرل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل سننے کی استدعا کی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے۔

    جسٹس امین الدین نے کہا خواجہ صاحب ایک دو چیزیں پہلے نوٹ کر لیں، بظاہر یہ کیس عدالت میں 9 مئ واقعات پر آیا، اس کیس میں کیا قانونی شقیں چیلنج ہوسکتی تھی۔

    فیصل صدیقی ایڈوکیٹ وڈیو لنک پر پیش ہوئے، فیصل صدیقی نے کہا.میں نے متفرق درخواست دائر کر رکھی ہے کہ پرائیویٹ وکیل حکومت کی جانب سے نہیں آسکتا، خواجہ حارث کے دلائل سے پہلے میری درخواست نمٹائیں ورنہ غیر موئثر ہوجائے گی۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پہلی بار تو نہیں ہوا کہ پرائیویٹ وکیل حکومت کی جانب سے آیا ہو، فیصل صدیقی نے کہا عدالت کی بار اس پریکٹس کی حوصلہ شکنی کر چکی ہے، نجی وکیل کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بطور جج دیا تھا، فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کے پاس متعلقہ کیس پر مہارت نہ ہو تو ہی نجی وکیل کیا جا سکتا ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کو لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ ان کے پاس متعلقہ مہارت نہیں ہے، موجودہ کیس آئینی نکات کا جس پر اٹارنی جنرل خود پیش ہو رہے ہیں، اٹارنی جنرل کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا وکیل پیش نہیں ہو سکتا، جس پر جسٹس شاہد وحید نے کہا اٹارنی جنرل کو اختیار ہے جس وکیل سے چاہے معاونت لے سکتا ہے، عدالت نے خواجہ حارث کو وزارت دفاع کی جانب سے دلائل دینے کی اجازت دے دی۔

    سپریم کورٹ نے ملزمان سے غیرانسانی سلوک نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ملاقاتوں میں آئندہ تعطل نہیں ہوناچاہیے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

  • فوجی عدالتوں کا کیس جلد سماعت کیلئے مقررکرنے کی   درخواست دائر

    فوجی عدالتوں کا کیس جلد سماعت کیلئے مقررکرنے کی درخواست دائر

    اسلام آباد: فوجی عدالتوں کا کیس جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی درخواست دائر کردی گئی، جس میں کہا عدالتی حکم کے باوجود کیس آج تک سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوسکا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کا کیس جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی درخواست دائر کر دی گئی۔

    درخواست ایڈوکیٹ لطیف کھوسہ کی جانب سے دائر کی گئی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالتی حکم کے باوجودکیس آج تک سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوسکا ہے اور 13 دسمبر سے ابتک کیس کی سماعت نہ ہوسکی۔

    دائر درخواست میں کہا گیا کہ 103 زیر حراست ملزمان کے مقدمات کا فیصلہ سپریم کورٹ کارروائی کی وجہ سے رکا، استدعا ہے کیس کویکم جولائی سے شروع ہونیوالے ہفتےمیں مقرر کیا جائے۔

    سپریم کورٹ نے مقدمے کو جنوری2024 کے تیسرے ہفتے میں مقررکرنے کی ہدایت کی تھی۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے کہا تھا صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہوسکتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نےملٹری کورٹس سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہرکرتے ہوئے کہا تھا کہ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ ملزمان کی رہائی کےلئے تین مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایاجانادوسرا اس کی توثیق ہوگی اور تیسرامرحلہ کم سزاوالوں کوآرمی چیف کی جانب سےرعایت دینا ہوگا۔

  • سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی اور کہا صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہوسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی ، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی لاجر بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزمان کی رہائی کےلئے تین مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایاجانادوسرا اس کی توثیق ہوگی اور تیسرامرحلہ کم سزاوالوں کوآرمی چیف کی جانب سےرعایت دینا ہوگا۔

    اٹارنی جنرل نےفوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی اجازت کی استدعا کر دی ، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اجازت دی بھی تواپیلوں کے حتمی فیصلے سےمشروط ہوگی۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب تک فوجی عدالتوں سےفیصلے نہیں آتے نام نہیں بتا سکتا، جن کی سزا ایک سال ہےانہیں رعایت دےدی جائے گی۔

    وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے،جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اگریہ ملزمان عام عدالتوں میں ہوتےتواب تک باہر آچکے ہوتے توجسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلوانا چاہتے ہیں، انسداد دہشت گردی عدالت میں تو14سال سے کم سزا ہے ہی نہیں۔

    وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ اے ٹی اےعدالت ہوتی تو اب تک ملزمان کی ضمانتیں ہو چکی ہوتیں، ان مقدمات میں تو کوئی شواہد ہیں ہی نہیں، جسٹس شاہدوحید نے استفسار کیا ایف آئی آر میں کیادفعات لگائی گئیں ہیں؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور انسداد دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں ہیں۔

    جس پرجسٹس شاہدوحید کا کہنا تھا کہ پھر ہم ان ملزمان کوضمانتیں کیوں نہ دےدیں، ہم ان ملزمان کی سزائیں کیوں نہ معطل کردیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کی سزا معطل کرنے کیلئے پہلے سزا سنانی ہوگی، ضمانت تب دی جاسکتی ہے جب عدالت کہے قانون لاگونہیں ہو سکتا۔

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانےکی مشروط اجازت دے دی اور کہا کہ صرف ان کیسزکےفیصلےسنائےجائیں جن میں نامزدافرادعید سے پہلے رہاہوسکتے ہیں، اٹارنی جنرل نےیقین دہانی کرائی کہ کم سزا والوں کوقانونی رعایتیں دی جائیں گی تاہم فیصلےسنانےکی اجازت اپیلوں پرحتمی فیصلےسےمشروط ہوگی۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل کو عمل درآمد رپورٹ رجسٹرارکوجمع کرانےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مزید سماعت اپریل کے آخری ہفتے میں ہوگی، جس پر ،فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ایسا نہ ہو رہائی کے بعد ایم پی او کے تحت گرفتاری ہوجائے۔

    سپریم کورٹ نے خیبرپختونخواحکومت کی اپیلیں واپس لینےکی استدعا منظور کر لی ، کےپی حکومت نےسویلنز کاٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلیں واپس لینےکی استدعا کی تھی۔

  • فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

    فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

    اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی اجازت کی استدعا کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی ، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی لاجر بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزمان کی رہائی کےلئے تین مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایاجانادوسرا اس کی توثیق ہوگی اور تیسرامرحلہ کم سزاوالوں کوآرمی چیف کی جانب سےرعایت دینا ہوگا۔

    اٹارنی جنرل نےفوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی اجازت کی استدعا کر دی ، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اجازت دی بھی تواپیلوں کے حتمی فیصلے سےمشروط ہوگی۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب تک فوجی عدالتوں سےفیصلے نہیں آتے نام نہیں بتا سکتا، جن کی سزا ایک سال ہےانہیں رعایت دےدی جائے گی۔

    وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے،جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اگریہ ملزمان عام عدالتوں میں ہوتےتواب تک باہر آچکے ہوتے توجسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلوانا چاہتے ہیں، انسداد دہشت گردی عدالت میں تو14سال سے کم سزا ہے ہی نہیں۔

    وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ اے ٹی اےعدالت ہوتی تو اب تک ملزمان کی ضمانتیں ہو چکی ہوتیں، ان مقدمات میں تو کوئی شواہد ہیں ہی نہیں، جسٹس شاہدوحید نے استفسار کیا ایف آئی آر میں کیادفعات لگائی گئیں ہیں؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور انسداد دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں ہیں۔

    جس پرجسٹس شاہدوحید کا کہنا تھا کہ پھر ہم ان ملزمان کوضمانتیں کیوں نہ دےدیں، ہم ان ملزمان کی سزائیں کیوں نہ معطل کردیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کی سزا معطل کرنے کیلئے پہلے سزا سنانی ہوگی، ضمانت تب دی جاسکتی ہے جب عدالت کہے قانون لاگونہیں ہو سکتا۔

  • 9 مئی کے کتنے لوگ فوجی عدالتوں  میں بے قصور نکلے؟ تفصیلات طلب

    9 مئی کے کتنے لوگ فوجی عدالتوں میں بے قصور نکلے؟ تفصیلات طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نو مئی مقدمات میں بے قصور افراد کی تفصیلات طلب کرلیں، عدالت نے قرار دیا جو ملزمان بری ہوسکتے ہیں ان کی بریت کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نےسماعت کی۔

    درخواست گزاروں کے وکیل فیصل صدیقی نےعدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی استدعا کی، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا لائیونشریات کی درخواست پر فیصلہ جاری کریں گے۔

    جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا ملزمان میں کسی کی رہائی ہوئی یا ہوسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا ٹرائل مکمل ہوچکا لیکن ابھی فیصلے نہیں سنائےگئے تو جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے آپ نے کہا تھا کچھ کیسز بریت کے ہیں اور کچھ کی سزائیں مکمل ہوچکیں۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا حکم امتناع کےباعث بریت کے فیصلے نہیں ہوسکے، درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا بریت پرکوئی حکم امتناع نہیں تھا۔

    جسٹس امین الدین نے قرار دیا جن ملزمان کی بریت ہوسکتی ہے انھیں توبری کریں، جس کو چھ ماہ کی سزا ہے وہ ایک سال گرفتار نہیں رہنا چاہیے، جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت پیش کی کہ کچھ ملزمان ایسےہیں جن کی گرفتاری کا دورانیہ سزا میں تصورہوگا۔

    جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے فوجی عدالتوں کادائرہ اختیارہی تسلیم نہ کریں توبات ختم ہوگی۔

    دوران سماعت درخواست گزاروں نے بینچ اور نجی وکلا پر اعتراض کیا، جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل نے نورکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی۔

    جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے پہلے نو رکنی بینچ بن جاتا توآج اپیلوں پرسماعت ممکن نہ ہوتی۔

    سماعت کے دوران کےپی حکومت نےسویلنزٹرائل کالعدم قراردینے کیلئے اپیلیں واپس لینے کا کہا تو عدالت نے قرار دیا کے پی حکومت اپیلیں واپس لینےکیلئے باضابطہ درخواست دے۔

    جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے یہ وفاق کا کیس ہے،صوبائی حکومتیں کیسےاپیل دائرکرسکتی ہیں، جس پر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا صوبائی حکومتیں ضرورت سے زیادہ تیزی دکھارہی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا بتایا جائے نو مئی کےکتنےلوگ ملٹری کورٹس میں بے قصور نکلے؟ کتنے ملزمان بری ہوسکتے ہیں کتنے نہیں اور کتنے ملزمان ہیں جنھیں کم سزائیں ہونی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے اٹھائیس مارچ تک تفصیلات طلب کرلیں اور فوجی عدالتوں میں محفوظ شدہ فیصلوں کی سمری بھی پیش کرنے کی ہدایت کردی ساتھ ہی عدالت نے قرار دیا حکم امتناع میں سمری کے مطابق ترمیم ہوگی۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت آج ہوگی

    فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت آج ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلین کےٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت آج ہوگی ، سپریم کورٹ میں آج دن 11بجے سماعت شروع ہوگی۔

    جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ سماعت کرے گا ، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہدوحید بینچ میں شامل ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی بینچ میں کا حصہ ہیں۔

    سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ،اعتزازاحسن سمیت دیگر نے سپریم کورٹ سےرجوع کیا تھا۔

    جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے اپیلوں کی جلد سماعت اور 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کر رکھی ہے، ان کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ 6 رکنی بینچ نے فریقین کو نوٹس دیئے بغیر ملزموں کا ٹرائل جاری رکھنے کا حکم دیا۔

    درخواست میں کہا گیا کہ میڈیا رپورٹس سے معلوم ہوا کہ 6 رکنی بینچ ٹوٹ چکا، فوجی عدالتوں میں ٹرائل مکمل ہو چکا، بری ہونے والے کسی ملزم کو رہا نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ نے ملزموں کی رہائی سے نہیں روکا تھا لہٰذا فوجی عدالتوں سے متعلق اپیلوں کو آئندہ ہفتے سماعت کیلئے مقرر کیا جائے۔

    یاد رہے اکتوبر 2023میں 5رکنی بینچ نے 9 مئی واقعات کے 103 ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل خلاف آئین قرار دیا جبکہ وفاقی حکومت سمیت دیگر کی اپیلوں پر 6 رکنی بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو فیصلہ پانچ ایک سے معطل کیا تھا۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا تفصیلی فیصلہ جاری، جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ شامل

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا تفصیلی فیصلہ جاری، جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ شامل

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا، جس میں جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، 125صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا۔

    جسٹس منیب اخترنے فیصلے کی ابتدا لارڈ ایٹکن کے1941کے ایک جملے سے کی، جس میں کہا گیا کہ لارڈ ایٹکن نے کہا تھا برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین خاموش نہیں تھے، برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین وہی تھے جو حالت امن میں تھے۔

    23 اکتوبر 2023 کو سنایا گیا مختصر فیصلہ بھی تفصیلی فیصلے کا حصہ ہے، تفصیلی فیصلے میں کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سےبنیادی حقوق سے متعلق سوال پوچھا گیا، سپریم کورٹ سےپوچھا گیاکیا آئین کےتحت سویلینز کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے۔

    فیصلے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ سےپوچھا گیا سویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل پر آئین کیا کہتا ہے، درخواست گزاروں نےسویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل پرعدالت کی رائے مانگی۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہعدالت نے 23 اکتوبر2023 کو سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قراردینے کا حکم دیا۔

    تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے، جسٹس عائشہ ملک نے48 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔

    سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ پانچ میں سے چار ججز کا اکثریتی فیصلہ ہے، جسٹس یحیی آفریدی کی رائے تفصیلی فیصلے کا حصہ نہیں ہیں، جسٹس یحیی آفریدی نےآرمی ایکٹ کی شقیں کالعدم قراردینے پر رائے محفوظ رکھی ہے۔

    تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کاایک سیکشن 1967 میں اسوقت شامل ہوا جب مارشل لانافذ تھا، کرنل (ر)ایف بی علی کیس میں جب سزائیں دی گئیں اسوقت عبوری آئین تھا۔

    فیصلے کے مطابق 9 اور 10 مئی کے دو دنوں میں فوجی تنصیبات پر حملے کئے گئے ، شہدا کے مجسموں کو نقصان پہنچا گیا، کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہوا، اعلیٰ حکومتی سطح پر یہ فیصلہ ہوا کہ ملوث ملزمان کیخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلایا جائے گا سب کی ایک ہی متحد آواز تھی کہ ایسے واقعات پرقانون حرکت میں آنا چاہیے ،اس کے بعد مختلف تھانوں میں ایف آئی آرز درج ہونا شروع ہوئیں۔

    یاد رہے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے23 اکتوبر 2023 کو مختصر حکم نامہ دیاتھا ، مختصر حکم نامےمیں سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے اور 9 مئی میں ملوث ملزمان کےمقدمات عام عدالتوں میں بھجوانے کا حکم دیا گیا تھا۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ فیصلہ سنادیا گیا

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ فیصلہ سنادیا گیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ مشروط  طور پر معطل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی ، جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    بینچ میں جسٹس امین الدین ،جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے متعلق محفوظ فیصلہ سنا دیا ،انٹراکورٹ اپیل پر فیصلہ 1-5 سے سنایا، جس میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا گیا۔

    سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے ملٹری کورٹس سے متعلق فیصلہ مشروط طورپرمعطل کیا اور کہا فوجی عدالتیں ٹرائل شروع کر سکتی ہیں تاہم حتمی فیصلہ اپیل سے مشروط ہو گا۔

    سپریم کورٹ کے جسٹس مسرت ہلالی نے انٹراکورٹ اپیل پر فیصلے سے اختلاف کیا۔

    یاد رہے 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے 5رکنی لاجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینزکےٹرائل کو غیرآئینی قرار دیا تھا، جس کے بعد انٹراکورٹ اپیلیں وفاقی حکومت،وزارت دفاع اور ،صوبائی حکومتوں کی جانب سےدائرکی گئی ہیں۔

    یاد رہے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے فیصلہ چار ایک کی بنیاد پر سنایا، فیصلے میں سپریم کورٹ نے ملڑی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی کو ائین کے بر خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے جرم کی نوعیت کےاعتبارسےمقدمات عام عدالتوں میں چلائیں جائیں گے۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت آج ہوگی

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت آج ہوگی، عدالت نے مقدمے کے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر رکھا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت آج سپریم کورٹ میں ہوگی۔

    جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ ساڑھے 11 بجے سماعت کرے گا، جسٹس امین الدین خان،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

    سپریم کورٹ نے مقدمے کے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر رکھا ہے جبکہ جواد ایس خواجہ نے بنچ سربراہ جسٹس سردار طارق کی موجودگی پراعتراض اٹھا رکھا ہے۔

    جوادایس خواجہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے خصوصی عدالتوں سے متعلق 9 رکنی بنچ بنایاتھا، اُس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، جسٹس سردار طارق نےسننے سے معذرت کی، جسٹس سردار طارق 26 جون کو نوٹ میں رائے دے چکے کہ معاملہ ہائیکورٹ میں چیلنج ہونا چاہیے تھا۔

    یاد رہے 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے 5رکنی لاجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینزکےٹرائل کو غیرآئینی قرار دیا تھا، جس کے بعد انٹراکورٹ اپیلیں وفاقی حکومت،وزارت دفاع اور ،صوبائی حکومتوں کی جانب سےدائرکی گئی ہیں۔

    یاد رہے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے فیصلہ چار ایک کی بنیاد پر سنایا، فیصلے میں سپریم کورٹ نے ملڑی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی کو ائین کے بر خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے جرم کی نوعیت کےاعتبارسےمقدمات عام عدالتوں میں چلائیں جائیں گے۔