Tag: فوجی عدالتوں

  • فوجی عدالتوں میں سویلنز ٹرائل کیخلاف فیصلہ، سندھ کے بعد وزارت دفاع اور بلوچستان نے بھی چیلنج کردیا

    فوجی عدالتوں میں سویلنز ٹرائل کیخلاف فیصلہ، سندھ کے بعد وزارت دفاع اور بلوچستان نے بھی چیلنج کردیا

    اسلام آباد : وزارت دفاع اور بلوچستان حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ چیلنج کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل سےمتعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست دائر کردی گئی ، سندھ کے بعد وزارت دفاع اور بلوچستان حکومت نے بھی فیصلہ چیلنج کردیا۔

    وزارت دفاع نے ٹرائل نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قراردینے اور اپیلوں پر حتمی فیصلےتک ٹرائل روکنے کیخلاف حکم امتناع کی استدعا کی ہے۔

    درخواست میں آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی سیکشن 59(4) بھی بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ دفعات کالعدم قرار دینےسےملک کا نقصان ہوگا، سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیاوہ ناقابل سماعت تھیں۔

    دوسری جانب بلوچستان حکومت نے آرمی ایکٹ ، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم دفعات بحال کرنے اور اپیلوں پرفیصلےتک 5 رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کرنے کی بھی استدعا کی۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ نے ناقابل سماعت درخواستوں پر حکم جاری کیا۔

    خیال رہے نگراں سندھ حکومت اورشہدافاؤنڈیشن بھی فوجی عدالتوں کیخلاف فیصلے کوچیلنج کرچکے ہیں جبکہ سینیٹ میں فوجی عدالتوں سےمتعلق سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف قرارداد منظورہوچکی ہے۔

    سینیٹ کی قرارداد میں سپریم کورٹ سے فیصلے پر نظر ثانی کی مطالبہ کیا گیا ، جبکہ لواحقین شہدا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ فیصلےپرنظرثانی کرےتاکہ غداروں کوکیفرکردارتک پہنچایاجائے، ہم نےملک کےدفاع اورسلامتی کے لئےقربانیاں دی ہیں۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کیخلاف اپیل دائر

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کیخلاف اپیل دائر

    اسلام آباد : نگراں سندھ حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کیخلاف اپیل دائر کر دی ، جس مین کہا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کیخلاف اپیل دائر کر دی ، سندھ حکومت نے سپریم کورٹ میں بذریعہ ایڈووکیٹ جنرل درخواست دائرکی۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فوجی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہوناچاہیے۔

    ،درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے قانون اور حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا، استدعا ہے کلہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم دفعات بحال کی جائے۔

    سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ ملزمان نے خود درخواست دی کہ انکا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی کیاجائے، فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنےکافیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے۔

    سندھ حکومت نے اپیل پر فیصلےتک سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل کرنےکی بھی استدعا کی۔

    خیال رہے 23 اکتوبرکو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینزکا ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر ن لیگ کا ردعمل آگیا

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر ن لیگ کا ردعمل آگیا

    لاہور : ڈپٹی سیکرٹری جنرل ن لیگ عطا تارڑ نے سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر کہا کہ عدالتی فیصلے سے ملک دشمن عناصر کے حوصلے بڑھیں گے ، ملکی دفاع کو داؤ پر لگانے والوں کا مقدمہ ملٹری ٹرائل ہونا چاہیئے۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر ڈپٹی سیکرٹری جنرل ن لیگ عطا تارڑ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے 9 مئی کو سازش کے تحت قومی سلامتی کے ادارے پر حملے کروائے، شہدا کی یادگاروں کو مسمار کرنے والے قومی مجرم ہیں، کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

    عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ملکی دفاع داؤ پر لگانے والے تمام کرداروں کا ملٹری کورٹس میں ہی ٹرائل ہونا چاہیے، سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملک دشمن سازشی عناصر کے حوصلے بڑھیں گے۔

    ڈپٹی سیکرٹری جنرل ن لیگ نے کہا کہ غیر ملکی ایجنٹ دشمنوں کی حمایت سے ملک کے اندر انتشار پھیلاتے ہیں، کیا غیرملکی ایجنٹس کا بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہ کیا جائے؟

    انھوں نے بتایا کہ پارلیمنٹ 9 مئی کے ملزمان کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی قرارداد منظور کرچکی، پارلیمانی قرارداد کی موجودگی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی گنجائش نہیں بنتی۔

    عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق موجود ہے، اپیل کے حق سے ملزمان کے قانونی حقوق کو تحفظ ملتا ہے، قانونی سسٹم میں بہت سی خامیاں ہیں جس سے ملزمان بچ جاتے ہیں، پوری دنیا میں اسپیشل کورٹس بنائے جانے کی مثالیں موجود ہیں۔

  • 9 مئی: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع، حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا

    9 مئی: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع، حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا

    اسلام آباد: سانحہ 9 مئی سے متعلق فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع ہوگیا اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت کو متفرق درخواست میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق  آگاہ کیا ہے۔

    وفاقی حکومت کی متفرق درخواست کے مطابق 9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں 102 افراد گرفتار کیے گئے، گرفتار کیے گئے افراد کے انصاف کے حق کیلئے فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع کیا گیا ہے، زیر حراست افراد کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹرائل کیا جا رہا ہے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل میں جو قصور وار ثابت نہیں ہو گا وہ بری ہو جائے گا، فوجی عدالتوں میں ہونیوالا ٹرائل سپریم کورٹ میں جاری مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوگا اس واقعات میں ملوث جو افراد جرم کے مطابق قید کاٹ چکے انہیں رہا کر دیا جائے گا۔

    سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا، چیف جسٹس

    متفرق درخواست میں کہا گیا کہ فوجی ٹرائل کے بعد سزا یافتہ قانون کے مطابق سزاؤں کیخلاف متعلقہ فورم سے رجوع کر سکیں گے۔

    درخواست کے مطابق سپریم کورٹ کے 3 اگست کے حکم نامےکی روشنی میں عدالت کو ٹرائلزکے آغاز سے مطلع کیا جارہا ہے، فوجی تحویل میں لیے گئے  افراد کوپاکستان آرمی ایکٹ 1952 اورآفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت گرفتارکیا گیا تھا، گرفتار افراد جی ایچ کیو راولپنڈی اور کورکمانڈر ہاؤس لاہورپر حملے میں ملوث ہیں، گرفتار افراد پی اے ایف بیس میانوالی، آئی ایس آئی سول لائنز فیصل آباد پرحملے میں بھی ملوث ہیں۔

    درخواست کے مطابق گرفتار افراد حمزہ کیمپ، بنوں کیمپ اورگوجرانوالہ کیمپ پرحملے میں ملوث ہونے پرتحویل میں ہیں۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی درخواست پر فل کورٹ کی استدعا مسترد

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی درخواست پر فل کورٹ کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائل کی درخواست پر فل کورٹ کی استدعا مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 6رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی درخواست پر فل کورٹ کی استدعا مسترد کردی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اس وقت ججزدستیاب نہیں چھٹیاں چل رہی ہیں ، ہم نے مختلف مواقع پرلارجربینچز بنائے جومختلف وجوہات کی بنا پر کام نہ کرسکے، سپریم کورٹ کا موجودہ بینچ ہی سماعت سنے گا۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے گزشتہ روز درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل :  فل کورٹ سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : فل کورٹ سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل میں فل کورٹ کی درخواست پر محفوظ کرلیا ، محفوظ فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صدیقی نے ملٹری کورٹس کے معاملے پر فل کورٹ کا مطالبہ کیا ہے،ہم جواد ایس خواجہ کے وکیل کو سنیں گے، جس پر وکیل درخواست گزار خواجہ حسین احمد نے بتایا کہ میرے موکل سابق چیف جسٹس ہیں، میرےموکل کی ہدایت ہے عدالت میرے ساتھ برتاؤ عام شہری کی طرح کرے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سابق چیف جسٹس جوادایس خواجہ گوشہ نشین انسان ہیں ، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی آئینی درخواست غیر سیاسی ہے، کیا فیصل صدیقی صاحب چھپ رہےہیں تو وکیل جوادایس خواجہ نے کہا کہ میرے موکل چاہتے ہیں ان کے نام کے ساتھ چیف جسٹس نہ لگایا جائے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اسی وجہ سے ان کی عزت کرتے ہیں۔

    فیصل صدیقی نے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواست پر دلائل شروع کر دئیے اور کہا حکومت کی جانب سےبینچ پر جو اعتراضات اٹھائےگئےہماری درخواست کا اس سےتعلق نہیں ، پہلے میں واضح کروں گاکہ ہماری درخواست الگ کیوں ہے۔

    سپریم کورٹ نے پہلے فل کورٹ تشکیل دینے سے متعلق درخواستوں کو سننے کا فیصلہ کرلیا ، فیصل صدیقی نے بتایا کہ ہم نےفل کورٹ تشکیل دینےمیں 3وجوہات بیان کیں، پرویز مشرف بھی فل کورٹ فیصلے کی مخالفت نہ کر سکا ، جسٹس منصور علی شاہ جسٹس یحییٰ آفریدی نےبھی فل کورٹ تشکیل دینے کی بات کی۔

    فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل بتا چکے ہیں کہ کسی شخص کو سزائے موت یا عمر قید نہیں ہو گی اور اٹارنی جنرل یقین دہانی کرا چکے عدالت کے علم میں لائے بغیر ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہو گا، فیصل صدیقی

    انھوں نے مزید کہا کہ سیاستدانوں اور وزرا کی جانب سے عدالتی فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے گئے، جب اداروں کے درمیان تصادم کا خطرہ ہو تو فل کورٹ بنانی چاہئے، فل کورٹ کا بنایا جانا ضروری ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کچھ ججز نے کیس سننے سے معذرت کی ہے تو فل کورٹ کیسے بنائیں تو فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اس کا جواب ایف بی علی کیس میں ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ دونوں بنیادی سوالات پر اٹارنی جنرل کا مؤقف ابھی سامنے آنا ہے، فل کورٹ درخواست بہترین لکھی گئی ہےاس لئے دلائل سننا چاہیں گے۔

    جس پروکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کی درخواست کا بینچ پر اعتراض سے کوئی تعلق نہیں، فل کورٹ کی درخواست کا مقصد موجودہ بینچ پر عدم اعتماد نہیں، حکومتی وزرانے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا۔

    فیصل صدیقی نے کہا کہ انتخابات کیس میں بھی حکومت نےفیصلے پر تاحال عمل نہیں کیا، فل کورٹ فیصلے کو فوجی آمروں نے بھی ہمیشہ تسلیم کیا ہے، انتظامیہ کے ساتھ مقابلہ پوری سپریم کورٹ ہی کرسکتی ہے،دنیا بھر میں عدلیہ اور حکومت کی محاذ آرائی ہوتی رہی ہے، دیگرممالک میں بھی عدلیہ نے سامنے آکرانتظامیہ کاسامنا کیا تھا۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ فل کورٹ سے مقدمہ تاخیر کا شکار نہیں ہوگا، پہلے تو علم ہی نہیں تھا کہ ملزمان کہاں ہیں، ملزمان کے سامنے آنے پر معمولی تاخیر بھی قابل قبول ہے،اٹارنی جنرل ٹرائل شروع نہ ہونے،سزائے موت یالمبی قید نہ ہونے کی یقین دہانی کرا چکے۔

    فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ عدالت فل کورٹ کیلئےمعاملہ چیف جسٹس کوبھجوا کر ٹرائل پرحکم امتناع دے سکتی ہے، جو ججز بینچ سے علیحدہ ہوچکے ان کے سوا دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایاجائے، یہ مقدمہ بنیادی حقوق کی وجہ سے بہت اہم ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کے لیے یہ پہلی درخواست آئی ہے، ہم باقی درخواست گزاروں کا موقف بھی سننا چاہتے ہیں۔

    درخواست گزار اعتزاز احسن روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ یہ سب میرے لیے حیران کن ہے کہ اس مرحلے پر بینچ کی تشکیل کو چیلنج کیا گیا، ہم سپریم کورٹ کی تکریم کے لیے جیلوں میں گئے، اعتزاز احسن

    اعتزاز احسن نے فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا کی مشروط حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بینچ کی ازسرنو تشکیل سے مقدمہ تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے، ملزمان کو عدالتی تحویل میں جیل بھیجا جائے توفل کورٹ پر آمادہ ہوں، پہلے ہم نے خود فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔

    اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سینئر وکلاعدلیہ میں اسٹیک ہولڈر ہیں،عدلیہ اور بینچ پر مکمل اعتماد ہے، ضیاالحق دور میں بھی عدلیہ کیخلاف اقدامات پر احتجاج کیا اور جیل گیا، یہ سن کر تکلیف ہوئی کہ دو ججز نے کہا وہ بینچ کو تسلیم ہی نہیں کرتے ، عدلیہ کو بینچ کے تنازعات پر اسٹینڈ لینا ہوگا، فوجی حراست میں موجود ملزمان کیخلاف ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔

    دوران سماعت لطیف کھوسہ نے کہا کہ فوجی تحویل میں ملزمان کی حالت اچھی نہیں ہے، ایک مجسٹریٹ نے ملزم کا اعترافی بیان لینے سے بھی انکار کیا تھا، مجسٹریٹ نے کہا ملزم تو اپنے پاؤں پر کھڑا تک نہیں ہوسکتا بیان کیسےلوں۔

    وکیل لطیف کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ عوامی اہمیت کا حامل مقدمہ ہے، چھ رکنی بینچ بھی فل کورٹ ہی ہے، وزارت دفاع نے تو چیف جسٹس سمیت 2ججز پر بھی اعتراض کیا ہے، عدالتوں کا مذاق بنایا جا رہا ہے، مناسب ہوگا کہ موجودہ بینچ خود ہی مقدمہ کی سماعت جاری رکھے۔

    اعتزاز احسن نے دلائل میں کہا کہ ہمیں اس بینچ پو مکمل اعتماد ہے ،عدالت نے تمام دستیاب ججوں کو بینچ میں شامل کیا تھا،  2ججز کے اٹھ جانے کے بعد یہ ایک طرح کا فل کورٹ بینچ ہی ہے، میں خود1980 میں دیگر وکلاکے ساتھ گرفتار ہواتھا، مارشل لاکے خلاف کھڑے ہوئے تھے دو ججز اٹھنے سے کوئی تنازع نہیں ، 102افراد کو ملٹری کے بجائے جوڈیشل حراست میں رکھا جائے۔

    درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ ، سپریم کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے بھی فل کورٹ کی مخالفت کر دی۔

    سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اعتزاز احسن کی حمایت کرتا ہوں کہ اس کیس کا جلد فیصلہ کیا جائے، سلمان اکرم راجہ

    سپریم کورٹ نے فل کورٹ سےمتعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بینچ جلد کسی رائےپر پہنچ گیا تو 15منٹ میں آگاہ کر دیا جائے گا، کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو کل مقدمے کی سماعت کریں گے۔

    بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی، سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ فل کورٹ کی درخواست پر محفوظ فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

  • فوجی ٹرائل کا سامنا کرنیوالے زیر حراست افراد کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

    فوجی ٹرائل کا سامنا کرنیوالے زیر حراست افراد کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

    اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی ٹرائل کا سامنا کرنیوالے زیر حراست افراد کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے، 102افراد زیر حراست ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سےمتعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل نے فوجی ٹرائل کا سامنا کرنیوالے زیر حراست افراد کی رپورٹ جمع کرا دی ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحریری جواب میں پورا چارٹ ہےکتنی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، 102افراد زیر حراست ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ زیرحراست7ملزمان جی ایچ کیوحملے میں ملوث ہیں، 4ملزمان نے آرمی انسٹیٹیوٹ پر حملہ کیا، 28م لزمان نےکورکمانڈرہاؤس لاہورمیں حملہ کیا، 5ملزمان ملتان،10ملزمان گوجرانوالہ گریژن حملےمیں ملوث ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 8ملزمان آئی ایس آئی آفس فیصل آباد حملے میں ملوث ہیں، 5ملزمان پی ایف بیس میانوالی حملے اور 14ملزمان چکدرہ حملے میں ملوث ہیں، 7ملزمان نے پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان میں حملہ کیا جبکہ 3ملزمان ایبٹ آباد،10ملزمان بنوں گریژن حملےمیں اور ایک ملزم آئی ایس آئی حمزہ کیمپ حملے میں ملوث ہے، زیرحراست ملزمان کی گرفتاری سی سی ٹی وی ودیگرشواہدکی بنیاد پرکی گئی۔

    جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ افراد کی گرفتاری کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہے تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم سی سی ٹی وی فوٹیج اور شواہدکی روشنی میں افراد کو حراست میں لیا، کور کمانڈرہاؤس لاہورمیں داخل افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، صرف102افراد کو گرفتار کیا گیا بہت احتیاط برتی ہے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ مجسٹریٹ آرڈر میں ملزمان کوملٹری کورٹس بھیجنےکی وجوہات کاذکر نہیں، جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا جکہ بظاہر لگتاہے ملزمان کیخلاف مواد کے نام پرصرف فوٹو گراف ہیں۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا کسی ملزم کو انکوائری میں بے گناہ ہونے پر واپس کیا گیا ؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام 102 افراد کی حوالگی مانگی گئی تھی جو مل گئی، کسی کو واپس نہیں کیا گیا۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کے خلاف صرف تصاویری شواہد ہی موجود ہیں؟ ٹرائل میں آخر کون سے شواہد ہیں جو پیش کئےجائیں گے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ متعلقہ حکام سے ہدایات لے کر شواہد کے متعلق بتا سکتا ہوں۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ ایسا لگتا ہے آپ ان سوالات پر پوری طرح تیار نہیں ، ہمارے سامنے ابھی وہ معاملہ ہےبھی نہیں ہم نے آئینی حیثیت کو دیکھنا ہے، وکیل فیصل صدیقی نے درخواست اپنےموکل کی طرف سےفل کورٹ کی دی ہے، ہم پہلے فیصل صدیقی کو سن لیتے ہیں۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس  کی آئندہ سماعت یکم اگست کو ہوگی

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس کی آئندہ سماعت یکم اگست کو ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے مقدمے کی آئندہ سماعت یکم اگست کو ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ مقدمے کی آئندہ سماعت یکم اگست کوہوگی۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نےعدالت کو بتایا کہ آج کی تاریخ تک کسی ملزم کاٹرائل شروع نہیں ہوا ، کسی ملزم کوسزائےموت نہیں ہوگی۔

    تحریری حکم میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نےیقین دہانی کرائی ملٹری عدالتوں کافیصلہ تفصیلی ہوگا اور ملٹری کورٹس میں ملزمان کواپنی مرضی کاوکیل کرنےکی اجازت ہوگی۔

    حکمنامے کے مطابق ملزمان کےٹرائل کےدوران لیگل ٹیم اورفیملی کورسائی حاصل ہوگی۔

    گذشتہ روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجربنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کےخلاف درخواستوں پر سماعت کی تھی۔

    دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ زیادہ تعداد ہونے کے باوجود احتیاط کے ساتھ 102 افراد کو ٹرائل کیلئے منتخب کیا گیا۔ بادی النظرمیں گرفتار 102 ملزمان میں سے کسی کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں دی جائے گی۔

    اٹارنی جنرل نے کلبھوشن کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں ایسے چلنا ہو گا کہ ملکی پوزیشن متاثر نہ ہوم،، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے استفسار کیا تھا کہ کس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا۔۔کس کا نہیں؟۔اس کا انتخاب کیسے کیا گیا۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ مستقبل میں 9 مئی جیسے واقعات کا تدارک کرنا ہے جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ بنیادی انسانی حقوق کبھی آرہے ہیں۔ کبھی جارہے ہیں۔ آپ کی دلیل یہ ہے کہ ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔

    دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا تھا کہ عدالت کو ابھی تک حکومت کی جانب سے ملزمان کی فہرست اور تفصیل نہیں دی گئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ابھی تک ملزمان کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔

    جواد ایس خواجہ کے وکیل نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا کی تھی ، جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریلیکس کریں ابھی کوئی ٹرائل نہیں ہو رہا۔

    لطیف کھوسہ نے ضیا الحق کے مارشل لا کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے کہا تھا کہ موجودہ حالات کو مارشل لا کے ساتھ مت ملائیں، مارشل لا جیسے حالات ہوئے تو ہم مداخلت کریں گے۔

    اٹارنی جنرل نے اپیل کا حق دینے پرغور کیلئے ایک ماہ کی مہلت دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئندہ تاریخ کا تعین مشاورت کے بعد کر دیں گے۔ٹرائل میں پیشرفت پر بھی عدالت کو آگاہ کرنے کی یقین دہانی موجود ہے، یقین دہانی کیخلاف کچھ بھی ہوا تو متعلقہ مجاز شخص کو طلب کریں گے۔حکومت چلی بھی گئی تو عدالت حکم کی خلاف ورزی پر متعلقہ ذمہ دار کو طلب کر کے جواب لے گی۔

  • سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا، چیف جسٹس

    سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف کیس میں چیف جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نو مئی سے متعلق فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6رکنی لارجربینچ نے سماعت کی۔

    لارجربینچ میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کیس میں جو بھی ہوگاوہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے، آپ کے مطابق ابھی ٹرائل شروع نہیں ہوا تفتیش چل رہی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کسی ملزم کا ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوا تو جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا ملٹری ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نوٹ کر رہے ہیں کوئی ٹرائل شروع نہیں کیا جائے گا، شواہد ریکارڈ کئےجائیں گے اور ٹرائل کھلی عدالت میں ہو گا، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹرائل کے دوران ملزمان کے اہلخانہ اور وکلاکو آنے کی اجازت ہوگی۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کو سیل میں رکھا گیا ہے یا کمروں میں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کو جیل میں ہی رکھا گیا ہے لیکن دہشتگردوں کی طرح نہیں، تمام گرفتار افراد کو تمام تر ضروری سہولتیں دی گئی ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ گرفتار افراد پر دماغی یا جسمانی تشدد نہیں ہونا چاہئے، ہم کسی ریٹائرڈ جج کو102افراد سےملاقات کیلئےفوکل پرسن مقرر کرسکتےہیں، جس پر اتارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اس حوالے سے میں آپ کوان چیمبر بتاؤں گا، ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے، تو لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضیا الحق کے دور میں ہوتا رہا ہے ، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ دور کا ضیا الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں ، اگر ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر حکم امتناع کی درخواست مسترد

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر حکم امتناع کی درخواست مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل پر حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے، جب ٹرائل شروع ہی نہیں ہواتو حکم امتناع کیس چیز کا دیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نو مئی سے متعلق فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6رکنی لارجربینچ نے سماعت کی۔

    لارجربینچ میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

    جسٹس (ر)جواد ایس خواجہ کے وکیل نے ملٹری ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا کرتے ہوئے کہا قانون سازی کیلئے حکومت کو وقت درکار ہے تو لیں لیکن اس دوران حکم امتناع دے دیں۔

    سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا مسترد کر دی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب ٹرائل شروع ہی نہیں ہواتو حکم امتناع کیس چیز کا دیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس میں جو بھی ہوگاوہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے، آپ کے مطابق ابھی ٹرائل شروع نہیں ہوا تفتیش چل رہی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کسی ملزم کا ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوا تو جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا ملٹری ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت کو آگاہ کیاجائے گا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نوٹ کر رہے ہیں کوئی ٹرائل شروع نہیں کیا جائے گا، شواہد ریکارڈ کئےجائیں گے اور ٹرائل کھلی عدالت میں ہو گا، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹرائل کے دوران ملزمان کے اہلخانہ اور وکلاکو آنے کی اجازت ہوگی۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کو سیل میں رکھا گیا ہے یا کمروں میں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کو جیل میں ہی رکھا گیا ہے لیکن دہشتگردوں کی طرح نہیں، تمام گرفتار افراد کو تمام تر ضروری سہولتیں دی گئی ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ گرفتار افراد پر دماغی یا جسمانی تشدد نہیں ہونا چاہئے، ہم کسی ریٹائرڈ جج کو102افراد سےملاقات کیلئےفوکل پرسن مقرر کرسکتےہیں، جس پر اتارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اس حوالے سے میں آپ کوان چیمبر بتاؤں گا، ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے، تو لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضیا الحق کے دور میں ہوتا رہا ہے ، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ دور کا ضیا الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں ، اگر ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔