Tag: فوجی عدالتوں

  • سویلنز کو آئین کے برخلاف فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جاسکتا، چیف جسٹس

    سویلنز کو آئین کے برخلاف فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جاسکتا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سےمتعلق کیس میں ریمارکس دیئے کہ سویلنز کو آئین کے برخلاف فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جاسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سےمتعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ بنایا جو اب 6 رکنی بینچ ہو چکا ہے، خوشی ہے حکومت نے گرفتار افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کرائی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اٹارنی جنرل کو آئینی نکات پر سننا چاہتی ہے، اس مرحلے پر فل کورٹ بنانا ممکن نہیں، اٹارنی جنرل کے موقف کو مکمل سنا جائے گا کیونکہ ملک کے ہر شہری کو تشویش ہے کہ سختی سے نہیں نمٹنا چاہیے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فوج کا قانون سخت قانون ہے ، درخواست گزاران کا مؤقف ہے ملزمان کو اےٹی سی میں پیش کیا جاسکتاہے، 9مئی کےواقعات کو ہر کوئی سنجیدہ جرم تسلیم کرتا ہے، کوئی بھی ملزمان کوچھوڑنے کی بات نہیں کر رہا۔

    چیف جسٹس کا ریمارکس میں مزید کہنا تھا کہ سویلینز کو کچھ آئینی تحفظ حاصل ہیں ، فل کورٹ کے حوالے سے عدالت مشاورت کرے گی ، کل کیس کو دوبارہ سنتے ہیں ، سویلنز کو آئین کے برخلاف ٹرائل میں نہیں بھیجاجا سکتا۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل :  وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس یحیی آفریدی ،جسٹس منیب اختر بینچ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہیں۔

    سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

    صدرسپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ 1999سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس سے اصول طے ہے، اصول طے ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کرا دیا ہے،پانچ نکات پر عدالت کی معاونت کروں گا۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے آپ کی رائے آنا اچھا ہوگا ، عابد زبیری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 83اے پر دلائل کا آغاز کروں گا، آرٹیکل 83 اے ک ےتحت سویلینزکا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا،21 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فیصلے میں عدالت نےجوڈیشل ریویوکی بات کی، بنیادی نکتہ یہ ہے جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسےجوڑا جائے گا۔

    صدرسپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں ، عدالتی کہہ چکی ملزمان کا براہ راست تعلق ہوتوہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، سوال یہ ہے کیا بغیر آئینی ترمیم سویلینز کا فوجی عدالتوں ٹرائل ہوسکتا ہے۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ اپنا موقف واضح کریں کیا ملزمان کا تعلق جوڑناٹرائل کیلئےکافی ہوگا؟ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا؟ جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ سویلینزکا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق ٹرائل کےلئے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کےمطابق تعلق جوڑنے، آئینی ترمیم کے بعد سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیرٹرائل کیا گیا تھا، فوج سےاندرونی تعلق ہوتوکیا پھر آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟ عابدزبیری نے بتایا کہ سویلینزکےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کیلئےترمیم ضروری ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اگرملزمان کااندرون تعلق ثابت ہوجائےتوکیاہوگا؟ جس پر صدر سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ موجودہ حالات میں ٹرائل کےلئے خاص ترمیم کرنا ہوگی، کچھ ملزمان کو چارج کیا جارہا ہے کچھ کو نہیں، ہمیں معلوم نہیں ملزمان کےفوج عدالتوں میں مقدمات چلانےکاپیمانہ کیاہے۔

    عابد زبیری کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات سننےوالےجوڈیشل کےبجائےایگزیکٹوممبران ہوتےہیں، 21ویں اور 23ویں ترامیم خاص مدت کےلئےتھیں، 21ویں ترمیم کےبعدسپریم کورٹ نے اجازت تودی مگرریویو کا اختیار بھی دیا، سپریم کورٹ نے دائرہ اختیاریااختیارات سے تجاوز بدنیتی پرجوڈیشل ریویوکااختیاردیا۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے صدر سپریم کورٹ بار سے استفسار کیا کیا آپ کہہ رہے ہیں پہلےعام عدالتوں میں فردجرم لگےپھرمعاملہ ملٹری کورٹس جائے؟ جس پر انھوں نے بتایا کہ قانون میں ملزم کا لفظ ہی ہے جب تک فرد جرم عائد نہ ہو بندہ مجرم نہیں ہوتا۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے مزید کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کیس پہلے عام عدالت میں چلے پھر ملٹری کورٹس جاسکتاہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لیاقت حسین کیس میں کہاگیاملٹری اتھارٹیز تحقیقات کرسکتی ہیں سویلین کا ٹرائل نہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کس پر آرمی ایکٹ لگے گا کس پرنہیں ؟ عابد زبیری نے کہا کہ تحقیقات کرنا پولیس کا کام ہے،پولیس ہی فیصلہ کرے گی۔

    صدرسپریم کورٹ بارعابدزبیری نےمختلف امریکی عدالتی فیصلوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی فوج کی جانب سے حراست بھی غیر قانونی ہے۔

    صدرسپریم کورٹ بارعابدزبیری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا عدالت کے سامنے 21ویں آئینی ترمیم اورلیاقت حسین کیس کو بھی زیر بحث لایا گیا،جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسےہوسکتا ہے؟

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں 9 رکنی بنچ تھا،عدالت کے 23 جون کے حکم نامے کو پڑھوں گا۔

    اٹارنی جنرل نےفل کورٹ کی تشکیل سے متعلق دلائل دینا شروع کرتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہا، جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ میں دیگر بینچ ممبران کے اعتراض کا تذکرہ کیا گیا۔

    جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ 26 جون کا حکمنامہ بھی پڑھیں، وفاقی حکومت نے خودبینچ کے ایک ممبر پر اعتراض کیا، کیا اب حکومت فل کورٹ کاکہہ سکتی ہے؟ جس ہر اٹارنی جنرل نے کہا کہ استدعا ہے کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ کون فیصلہ کریگا کہ کونسے ججز دستیاب ہیں؟ آپ خود مان رہے ہیں کہ بینچ کی تشکیل کا فیصلہ چیف جسٹس کرینگے، اس حوالے سے جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے یہ بینچ اس کیس کو سن چکاہے،آپ اپنی گذارشات جاری رکھیں، کافی حد تک موجودہ بینچ یہ کیس سن چکا ہے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہ رہے ہیں 17 سے زیادہ ججز اس کیس کےلئے دستیاب ہوں جو کہ ممکن نہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالت کےہر جج کی رائے کا احترام کرتا ہوں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے عدالت کے اعتماد کی بات کی ہے، چھٹیاں ہیں ججز دستیاب نہیں،اسلام آباد میں موجود تمام ججز کو پہلی سماعت پر ہی بینچ میں شامل ہونے کا کہا تھا۔

    جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ 3ججز تو بینچ سے علیحدہ ہو چکے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ پر حکومت کے اعتراض اٹھانے پر بھی حیرت ہوئی تھی،جسٹس منصور علی شاہ نے گریس دکھاتے ہوئے خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا۔

    دوران سماعت وزارت دفاع کےوکیل عرفان قادرکی اٹارنی جنرل کولقمہ دینےکو کوشش کی تو اٹارنی جنرل نے وکیل عرفان قادر کو بیٹھنے کی ہدایت کردی۔

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سےمتعلق کیس میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی فل کورٹ کی استدعا مسترد کر دی ، چیف جسٹس نے کہا کہ فی الحال فل کورٹ قائم کرنا ممکن نہیں، اس وقت چھٹیاں چل رہی ہیں،ججز دستیاب نہیں۔

    خیال رہے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر وفاقی حکومت نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا کر رکھی ہے۔

    وفاقی حکومت نے اپنے مؤقف میں کہا تھا کہ آرمی ایکٹ ،آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئین سے پہلےسے موجود ہیں، آرمی ،آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اقدامات قانون کے مطابق ہیں،سپریم کورٹ براہِ راست اس کیس کو نہ سنے۔

    وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ درخواستیں خارج کیں توفریقین کا ہائیکورٹ میں حق متاثرہونےکاخدشہ ہے، پنجاب الیکشن کیس میں جسٹس یحییٰ آفریدی معاملے پر رائے دے چکے ہیں، فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے۔

    حکومت نے مزید کہا تھا کہ آرمی سے مماثلت قوانین کے تحت دیگربھی بہت سےعدالتی فورمزبنائےگئے ، تمام فورمز کے کارروائی کا اپنا طریقہ کار ہے، عدالتی فورمز کے علاوہ دیگر فورمز کی موجودگی کسی طرح قانون کی خلاف ورزی نہیں۔

    مؤقف میں کہا گیا تھا کہ کورٹ مارشل کا ٹرائل قانون میں دئیے گئے حقوق اور فئیر ٹرائل میں کمی نہیں کرتا، کورٹ مارشل صرف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا مؤثر عدالتی نظام دیتا ہے ، آرمی ایکٹ اور آرمی رولز ہر طرح کے فیئر ٹرائل کا تحفظ دیتے ہیں۔

    گذشتہ روز سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سےمتعلق درخواست قابل سماعت قرار دی تھی، صدر سپریم کورٹ بارعابدزبیری کی درخواست قابل سماعت قرار دی۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستیں سماعت کیلئے مقرر

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستیں سماعت کیلئے مقرر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کردی گئی، 6 رکنی بینچ 18 جولائی کوسماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کردیں اور سماعت کے لئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا6 رکنی بینچ 18 جولائی کوسماعت کرے گا، جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس یحیی آفریدی ،جسٹس منیب اختر بینچ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہوں گے۔

    یاد رہے 27 جون کو عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی جانب سے یقین دہانی کرائے جانے کے بعد فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی تھی اور سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی تھی۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت میں ریمارکس دیئے تھے کہ توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی۔

  • چیئرمین تحریک انصاف کے فوجی عدالتوں کیخلاف تحریری جواب کے اہم نکات سامنے آگئے

    چیئرمین تحریک انصاف کے فوجی عدالتوں کیخلاف تحریری جواب کے اہم نکات سامنے آگئے

    اسلام آباد : چیئرمین تحریک انصاف کے فوجی عدالتوں کیخلاف تحریری جواب کے اہم نکات سامنے آگئے، جس میں کہا ہے کہ سویلین کے کورٹ مارشل کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ نے فوجی عدالتوں کیخلاف اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا، جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔

    تحریری جواب میں کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے بغیر فوجی عدالتیں سویلین کا ٹرائل نہیں کر سکتی، سویلین کے کورٹ مارشل کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔

    چیئرمین تحریک انصاف نے اپنے جواب میں عدالت سے استدعا کی کہ فوجی عدالتوں کو منتقل مقدمات واپس فوجداری عدالتوں کو بھیجنے کا حکم دیا جائے اور سویلین کورٹ مارشل کیخلاف درخواستوں کو منظور کیا جائے۔

    جمع کرائے جواب میں کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے بھی سویلین کے کورٹ مارشل کیلئے تمام شہری کو شامل نہیں کیا جا سکتا،اکیسویں ترمیم کیس میں بھی محدود پیمانے پرسویلین کے فوجی ٹرائل کی اجازت دی گئی۔

  • فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم ہے حکومت نے اپنی شکست مانی ہے، لطیف کھوسہ

    فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم ہے حکومت نے اپنی شکست مانی ہے، لطیف کھوسہ

    ممتاز قانون دان لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم ہے حکومت نے اپنی شکست مانی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا ہے اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے ان کے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کی تھی۔

    ممتاز قانون دان لطیف کھوسہ نے جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ سے الگ ہونے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ آسان ہے کہ چیف جسٹس دوبارہ بینچ بنا سکتے ہیں لیکن وفاقی حکومت جو کر رہی ہے وہ غلط ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے استدعا کرنا شرمناک اور افسوسناک ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے پہلے ہی کہا تھا اگر کسی کو اعتراض ہے تو ابھی بتادیں۔

    ممتاز قانون دان نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور سرکار کی جانب سے وکلا نےکہا کوئی اعتراض نہیں، آج ملک جس اذیت اور کرب سے گزر رہا ہے اسکا حل پٹیشن کا فیصلہ کرنا ہے۔

    لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اعتزازاحسن سپریم کورٹ اپنی ذاتی رنجش لیکر نہیں آئے تھے، اعتزازاحسن انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ آئے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے انتہائی تحمل اور برداشت کا ثبوت دیا، چیف جسٹس نے کہا آپ  نے 90 دن والا فیصلہ بھی نہیں مانا، عدلیہ، ملکی تاریخ میں اسے سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اور اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ منصور علی شاہ پر اعتراض نہیں، اس کے باوجود جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض سمجھ سے بالا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم ہے حکومت نے اپنی شکست مانی ہے، ہم  نے تو فل کورٹ کی استدعا کی تھی کہ 15 مکمل ججز بیٹھیں، آج حکومت کو الحام ہوا کہ منصور علی شاہ پر اعتراض کیا جائے۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ اپنے خلاف فیصلہ آنے کی نوشتہ دیوار سمجھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے، بے چینی کی کیفیت اس لئے ہے کہ یہ عدالتوں کی عزت نہیں کرتے۔

    سینیئر سیاستدان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نےکہا ججز کے پاس مورل اتھارٹی ہوتی ہے، چیف جسٹس نےکہا ہمارے پاس ڈنڈا نہیں ہوتا، چیف جسٹس نے کہا ہم آئین پر عمل درآمد کرتے ہیں، حکومت ہوش کے ناخن لے خدارا اسے سر زمین بے آئین نہ بنائیں۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت آج  میں ہوگی

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت آج میں ہوگی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت آج ہوگی، درخواستیں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، بیرسٹر اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین پی ٹی آئی نے دائر کی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت آج سپریم کورٹ میں ہوگی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ دن 11:45 بجے سماعت کرے گا۔

    نو رکنی لارجر بینچ میں نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بھی شامل ہیں ، 14 اپریل کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کسی بینچ کا حصہ نہیں رہے۔

    بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر ،جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔

    سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، بیرسٹر اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین پی ٹی آئی نے درخواستیں دائر کر رکھی ہے، جس میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست گزار اعتزاز احسن نے 20 جون کو چیف جسٹس سے چیمبر میں ملاقات بھی کی تھی، جس میں اعتزاز احسن نے چیف جسٹس سے اپنے مقدمات جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی تھی۔

    درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

  • عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف اعتزازاحسن نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

    عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف اعتزازاحسن نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

    اسلام آباد : ماہر قانون اعتزازاحسن نے عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا، جس میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف ماہر قانون اعتزازاحسن نے درخواست دائر کردی، اعتزازاحسن کی طرف سے وکیل سلمان اکرم راجہ نے درخواست دائر کی۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دیاجائے اور سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کورکمانڈر فیصلے پرربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے، آرمی ایکٹ کا سیکشن 94 اور 1970 کے رولزغیرمساوی ہے، سیکشن 94 اور رولز کو بھی غیرآئینی قرار دیا جائے۔

    اعتزاز احسن کی جانب سے استدعا کی گئی کہ اے ٹی سی کے ملزمان کو عسکری حکام کے حوالے کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور عسکری حکام کی حراست میں دیے گئے سویلین کی رہائی کا حکم دیا جائے۔

    درخواست میں شہباز شریف، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ سمیت چیئرمین پی ٹی آئی، 5 آئی جیز،چیف سیکرٹریز،وزارت قانون، داخلہ،دفاع اور کابینہ ڈویژن کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • فوجی عدالتوں کی توسیع کا فیصلہ اتفاق رائے سے کریں گے، اسحاق ڈار

    فوجی عدالتوں کی توسیع کا فیصلہ اتفاق رائے سے کریں گے، اسحاق ڈار

    اسلام آباد : وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت ایک سال ہو یا دو سال فیصلہ مشاورت سے کریں گے۔ پیپلزپارٹی کی تجاویز مل گئیں ملٹری کورٹس پرکل یاپرسوں پھربیٹھک ہوگی۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، اسحاق ڈار نے کہا کہ اٹھائیس فروری کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اجلاس میں فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلہ ہوا تھا، اجلاس میں پیپلزپارٹی نے شرکت نہیں کی تھی۔

    پیپلزپارٹی نے 4 مارچ کو فوجی عدالتوں سے متعلق سیاسی جماعتوں کو اے پی سی کی دعوت دی تھی، اب میڈیا سے پتہ چلا ہے پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں پر9 تجاویز دی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) اورحکومت کو پیپلزپارٹی کی تجاویز مل گئی ہیں، ان کی تجاویز پر غور کیا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کی توسیع پرتمام جماعتوں کا اتفاق رائے موجود ہے جبکہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے قوم بھی متحد ہے۔

    فوجی عدالتوں سے متعلق مشاورت کے ساتھ نئی تجاویز پرغور ہوگا اور کوشش ہوگی کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پراتفاق رائے ہو، اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کوشش کریں گے فوجی عدالتوں کے معاملے پر 2 دن میں اجلاس بلائیں۔

  • فوجی عدالتیں، متحدہ اور پی پی نے قومی سلامتی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کردیا

    فوجی عدالتیں، متحدہ اور پی پی نے قومی سلامتی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کردیا

    اسلام آباد: فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حوالے سے سیاسی جماعتوں میں اتفاق نہ ہوسکا اور پارلیمانی کمیٹی کا ایک اور اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا، متحدہ پاکستان اور پیپلزپارٹی نے قومی سلامتی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر بلائے جانے والے اجلاس میں اراکین ایک نکتے پر متفق نہ ہوسکے اور پارلیمانی کمیٹی کا ایک اور اجلاس بے نتیجہ ختم ہوا۔

    قائد حزب اختلاف اور اُن کی جماعت پیپلزپارٹی کے کسی بھی رکن نے اجلاس میں شرکت نہ کی اور اس میں حاضر ہونے والے اراکین بھی حکومتی دلیلوں سے متفق نہ ہوسکے جس کے بعد فوجی عدالتوں کا معاملہ لٹک گیا۔

    پڑھیں: ’’ ذاتی طور پرسمجھتا ہوں فوجی عدالتیں قائم ہونی چاہئیں ‘راجہ پرویز اشرف ‘‘

    فوجی عدالتوں میں توسیع کے حوالے سے مشیرقومی سلامتی ریٹائرڈلیفٹننٹ جنرل ناصرجنجوعہ نےاجلاس میں شریک سینیٹرزکو معاملے پر بریفنگ دی۔

    اجلاس کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انتہاء پسندی کا خاتمہ بہت ضروری ہے جبکہ سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ اراکین دہشت گردی کی تعریف پر متفق نہیں ہوسکتے۔

    پیپلزپارٹی کے بعد متحدہ پاکستان نے بھی فوجی عدالتوں کے معاملے پر قومی سلامتی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کردیا جبکہ مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمان کو فوجی عدالتوں میں توسیع کے حوالے سے اعتماد میں لینے اور ناراضیاں دور کرنے کا ٹاسک اسپیکر قومی اسمبلی کے سپرد کردیا۔

  • فوجی عدالتوں کی توسیع کے حق میں نہیں، مولانا فضل الرحمان

    فوجی عدالتوں کی توسیع کے حق میں نہیں، مولانا فضل الرحمان

    اسلام آباد : جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم فوجی عدالتوں کی توسیع کے حق میں نہیں، آئین میں ترمیم کر کے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام عمل میں آیا تھا لیکن اب توسیع کی مخالفت کریں گے۔

    وہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ اگر فوجی عدالتوں کو مزید توسیع دی گئی تو یہ سول عدالتوں پر عدم اعتماد کے مترادف ہوگا پہلے بھی فوجی عدالتوں کا قیام آئین میں ترمیم کے بعد عمل آیا تھا تا ہم توسیع کی مخالفت کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان اور چین کے درمیان قائم دوستی کے رشتے کا عملی مظہر ہے جس کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے دوست ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات خطے میں مثبت اثرات چھوڑتے ہیں۔

    مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مغربی ممالک کے چنگل چھڑانے والےمالیاتی نظام کی حمایت کرتے ہیں اور ایسے ہر پروجیکٹ کی حمایت کریں گے جس سے پاکستان اپنے پاؤں میں کھڑا ہو سکے اور خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔

    انہوں نے کہا کہ فاٹا کے لیے نئی سمری تیارکرنےکی منظوری خوش آئند ہے تا ہم فیصلےمیں فاٹاکےعوام کی رائےشامل ہونی چاہئے وگرنہ عوام کی رضامندی کے بغیر فیصلہ جمہوری اصولوں کےخلاف ہوگا جو کسی کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔

    واضح رہے کہ رواں مہینے فوجی عدالتوں کو حاصل خصوصی اختیارات کی معیاد ختم ہوگئی تھی اور اب تک حکومت کی جانب سے توسیع نہیں کی گی۔

    یاد رہے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے طے کیے گئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت آئین میں ترمیم کر کے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔