Tag: فوجی عدالتیں

  • فوجی عدالتوں کی معیاد ختم، آئی ایس پی آر کی تصدیق

    فوجی عدالتوں کی معیاد ختم، آئی ایس پی آر کی تصدیق

    راولپنڈی : آئی ایس پی آر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دو سال کے دوران فوجی عدالتوں کے ذریعے 274 مقدمات میں 161 مجرموں کو پھانسی اور 113 مجرموں کی قید کی سزا سنائی گئی۔

    پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کو حاصل خصوصی اختیارات کی معیاد ختم ہونے کے بعد ملٹری کورٹس نے کام کرنا بند کردیا ہے۔

    آئی ایس پی آر کے ترجمان کے مطابق دو سالہ مدت کے دوران فوجی عدالتوں کو 274 کیسز بھیجے گئے جن میں سے 161 مجرموں کو سزائے موت اور 113مجرموں کو قید کی سزا سنائی گئی جب کہ اب تک 12 ملزمان کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد بھی کرایا جا چکا ہے۔

    آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلوں سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی میں مدد ملی ہے اور دوران ِ سماعت انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے۔

    یاد رہے دسمبر 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد 6 جنوری 2015 کو پارلیمنٹ نے مشترکہ طور پر آئین میں 21 ویں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کی خصوصی اختیارات کے ساتھ قیام کی منظوری دی تھی۔

  • فوجی عدالتیں 3 روزبعد ختم، مقدمات اے ٹی سی منتقل ہونے کا امکان

    فوجی عدالتیں 3 روزبعد ختم، مقدمات اے ٹی سی منتقل ہونے کا امکان

    اسلام آباد: دوسالہ مدت کے لیے قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کی میعاد ختم ہونے میں تین روز باقی رہ گئے لیکن فوجی عدالتوں کے مستقل قیام کیلئے وزارت داخلہ کا تیار کردہ قانونی مسودہ منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش نہ کیا جاسکا، حکومت کی جانب سے اس اہم ایشو پر مکمل خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ اے پی ایس کے بعد7 جنوری 2015 کو ملک بھر میں اسپیڈی ٹرائلز کے لیے آرمی ایکٹ اور 21ویں ترمیم کے ذریعے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ فوجی عدالتوں نے دہشت گردوں کے مقدمات کی تیزی سے سماعت (اسپیڈی ٹرائل) کرکے سال 2016ء میں 161  مجرمان کو سزائے موت اور 113 کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ 12 دہشت گردوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔

    انسداد دہشت گردی عدالتوں اوراسپیشل کورٹس برائے تحفظ پاکستان کی موجودگی کے باوجود اسپیڈی ٹرائلز کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور حکومت کی جانب سے اسے ضرب عضب اور نیشل ایکشن پلان کی کامیابی کے لیے ضروری قرار دیا گیا تاہم اب اس اہم ایشو پر حکومت کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے اور یہ واضح نہیں کہ حکومت ملٹری کورٹس کو مزید توسیع دینا چاہتی ہے؟ یا آئینی مدت ختم ہونے کے بعد یہ عدالتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔

    اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت فوجی عدالتوں کو توسیع دینا چاہے تو اس کے لیے ایک اور آئینی ترمیم لانی پڑے گی تاہم اس حوالے سے ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔

    یاد رہے کہ آئین کے مطابق مذکورہ فوجی عدالتیں دو سال کے لیے قائم کی گئی تھیں اور سات جنوری دو ہزار سولہ کو یہ مدت پوری ہو رہی ہے۔

    پی پی او اور انسداد دہشتگردی ایکٹ کو یکجا کرکے نیا مسودہ تیار

    علاوہ ازیں اٹھائیس دسمبر دوہزار سولہ کو فوجی عدالتوں کے مستقل قیام کے لیے وزارت داخلہ نے تحفظ پاکستان ایکٹ (پی پی او) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کو یکجا کرکے نئے قانون کا مسودہ تیارکیا تھا وزیر داخلہ کی حتمی منظوری کے بعد اس مسودے کو ایکٹ بنانے کے لیے اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

    وزارت داخلہ کے مطابق دونوں قوانین یکجا ہونے سے دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی عدالتیں مستقل طورپرقائم ہوجائیں گی۔ اس نئے مسودے میں کسی بھی شخص کو 90 روز کے لیے حراست میں رکھنے کی شق بھی شامل ہے۔

    یہ شق فی الوقت پی پی او کی مدت ختم ہونے پر غیر مؤثر ہوچکی ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت 7 جنوری 2017ء کو ختم ہورہی ہے، مدت ختم ہوتے ہی اس میں زیر سماعت مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو منتقل ہوجائیں گے۔

  • دہشت گردوں کو سزائے موت،آرمی چیف نےتوثیق کردی

    دہشت گردوں کو سزائے موت،آرمی چیف نےتوثیق کردی

    راولپنڈی : چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 9 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق  کر دی ہے۔

    پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے 9 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کردی ہے،ان ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے تھے جہاں انہیں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔

    ترجمان کے مطابق ان دہشت گردوں کو سیکیورٹی اہلکاروں، عام شہریوں اور ملکی اداروں پر حملے اور دہشت گردانہ کارروائیاں ثابت ہونے پر فوجی عدالت سے سزائے موت سنائی گئی تھی۔

    آئی ایس پی آر کے ترجمان کے مطابق سزائے موت پانے والوں میں ساجد ولد ابراہیم خان،فضل الحق ولد شہداد خان،عمر سعید ولد حضرت سعید،نذیر احمد ولد اللہ داد،جاوید خان ولد فقیر گل،فضل الرحمان ولد فضلکریم،رحمت ولد اسماعیل خان اور بخت والی ولد عمل خان شامل ہیں۔

    ترجمان کے مطابق سزا پانے والے 9 دہشت گردوں میں بخت والی، رحمت اور زاہد خان کا تعلق لشکر اسلام سے ہے جب کہ بقیہ 6 دہشت گرد تحریک طالبان پاکستان کے اہم رکن ہیں۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق سزائے موت پانے والے دہشت گرد پشاور ائیرپورٹ پر پی آئی اے کے طیارے میں فائرنگ کر کے ایک خاتون کو ہلاک اور 2 مسافروں کو زخمی کرنے، سیکیورٹی پولیس اہلکاروں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹنے والے اور عام شہریوں اور فوجی افسران کو شہید کرنے جیسے سنگین جرائم میں ملوث تھے۔

  • فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے ملزمان کی اپیل خارج کر دی گئی

    فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے ملزمان کی اپیل خارج کر دی گئی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 15 ملزمان کی اپیلیں مسترد کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے ملزمان نے اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی جسے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ اکیسویں ترمیم کی بنیاد پرمسترد کردیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پریڈلین ، بنوں جیل اور آرمی پبلک سکول پشاور حملوں میں ملوث دہشت گردوں نے فوجی عدالتوں سے پھانسی کی سزاپانے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیلیں دائرکر رکھی تھیں جنہیں سپریم کورٹ نے ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

    Supreme court approves decision of Miliatry court by arynews

    سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد فوجی عدالتوں کی سزاؤں پرعملدرآمد روکے جانے کا عبوری حکم امتناعی بھی ختم ہو گیا ہےجس کے نتیجے میں اب ان پندرہ مبینہ دہشتگردوں کو سزائے موت دئیے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق ایک سو بیاسی صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس عظمت سعید شیخ نے تحریر کیا جسے پانچ رکنی لارجر بنچ کے سربراہ اور چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے پڑھ کرسنایا۔

    اسی سے متعلق : فوجی عدالت نے آرمی پبلک اسکول سانحہ میں ملوث دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا سنا دی

    تحریری فیصلے میں قراردیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کا فیصلہ اور کیس کا فوجی عدالتوں میں چلایا جانا آئین اور قانون کے مطابق تھا اکیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں کی گئی ترمیم کے تحت ان پندرہ ملزمان کے اقدامات انتہائی تشویشناک ہیں جن کا سد باب کیا جانا وقت کی ضرورت تھا۔

    فیصلے کے مطابق ملزمان کے کلاء اپنے دلائل کے دوران مقدمات کو فوجی عدالت میں بھیجے جانے سے متعلق کوئی بد نیتی ثابت نہیں کرسکے اورنہ ہی مقدمات کی سماعت میں لا قانونیت یا آئین سے انحراف ثابت کر سکے ہیں۔

    جس کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا اقدام بالکل درست اور اکیسیوں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں کی گئی ترمیم کے مطابق تھا جب کہ آئینی طور پر ملزمان کا کورٹ مارشل کیا جانا بھی درست پایا گیا ہے لہذا ملزمان کی اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں۔

  • اگلےہفتے سے فوجی عدالتیں مقدمات کی سماعت شروع کردیں گی، نیکٹا

    اگلےہفتے سے فوجی عدالتیں مقدمات کی سماعت شروع کردیں گی، نیکٹا

    اسلام آباد: نیکٹا حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں فوجی عدالتیں آئندہ ہفتے سے مقدمات کی سماعت شروع کردیں گی، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قواعدوضوابط نے نیکٹا سے مدراس سے متعلق تفصیلات طلب کرلی ہیں۔

    سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط کا اجلاس چئیرمین سینیٹر طاہرمشہدی کی زیرصدارت ہوا۔ نیکٹا کوارڈی نیٹر حامد علی خان نے کمیٹی کو ملک میں مدارس کے حوالے سے بریفنگ دی۔

    حامدعلی خان کہ ایجنسی رپورٹس کے مطابق ملک میں مدارس کی تعداد اٹھارہ سےتیئس ہزارتک ہے۔جبکہ مدارس بورڈ کے مطابق ملک بھرمیں چھبیس ہزار مدارس ہیں۔

    قائمہ کمیٹی نےدریافت کیا کہ مدارس کیلئے فنڈنگ کہاں سے آتی ہے،جس پر نیکٹا ارکان نے لاعلمی کا اظہارکیا، نیکٹا حکام کمیٹی کو مدارس میں غیرملکی طلبا کی تعدادسے بھی آگاہ نہ کرسکے۔

     وزارت داخلہ کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے چئیرمین کا کہنا تھا کہ پنجاب مدارس کو فنڈنگ کی غلط معلومات سے پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہوا۔

     مدارس کے حوالے سے پنجاب پولیس کی رپورٹ قائمہ کمیٹی میں پیش کی گئی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں پ ایک سوستائیس مدارس میں غیرملکی فنڈنگ کا شبہ ہے۔

  • فوجی عدالتوں کے لیے سندھ سے 27 مقدمات حکومت کو ارسال

    فوجی عدالتوں کے لیے سندھ سے 27 مقدمات حکومت کو ارسال

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے سندھ کے ستائیس مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے لیے حکومت کو فراہم کردیں۔

     سندھہ ہائی کورٹ نے ستائس مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے وفاقی حکومت کو بھیج دیے ذرائع کے مطابق اسکروٹنی کے بعد وفاقی حکومت مقدمات کو فوجی عدالتوں کو بھیجےگی۔ذرائع کے کہنا ہے ستائس مقدمات میں سے سترہ مقدمات بم دھماکوں سےمتعلق ہیں۔

     ان مقدمات میں کراچی ایئرپورٹ حملے، مہران بیس اور دیگر سرکاری تنصیبات پر حملے کے مقدمات بھی 27 مقدمات میں شامل ہیں، باقی دیگر مقدمات بھی دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کیے گئے ہیں اور ان مقدمات کے ملزمان سندھ کی مختلف جیلوں میں قید ہیں ملزمان کا تعلق تحریک طالبان سمیت دیگر کالعدم تنظیموں سے ہے۔

     سندھ کی جیلوں میں کالعدم تنظیموں کے چودہ مجرموں کی اپیلیں سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں، ٹی ٹی پی، کالعدم لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جنداللہ اور القاعدہ کے ملزمان کی اپیلیں بھی زیر سماعت ہیں۔

  • ملک میں9فوجی عدالتیں قائم ہوں گی، آئی ایس پی آر

    ملک میں9فوجی عدالتیں قائم ہوں گی، آئی ایس پی آر

    اسلام آباد: اکیسویں ترمیم کی منظوری کے بعد دہشتگردی کے مقدمات کی سماعت کیلئے ملک بھر میں 9 فوجی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔

    ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا میں 3 ،پنجاب میں 3سندھ میں 2اور بلوچستان میں ایک ایک فوجی عدالت قائم کی جا ئیگی قانونی معاملات کو دیکھنے کے لیے آرمی میں پہلے سے قائم جیگ "جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ”کو "لا افئیر ڈائریکٹوریٹ کا نام دیا جائے گا۔

    ذرائع کا کہناہے فوجی عدالتوں میں جج کی ذمہ داریاں لیفٹیننٹ کرنل رینک کے افسر سنبھالیں گے،دو سے تین مزید آفیسر بھی ان کی معاونت کے لیے موجود ہوں گے ،ملزم کو وکیل فوج کی طرف سے فراہم کیا جائے گالیکن اگر وہ اپنی مرضی کا سول وکیل رکھنا چاہے تو اسے اجازت دی جائے گی ۔ملزم کو شک کا فائدہ دیاجائے گااور شفافیت کا مکمل بندوبست کیا جائے گا۔ فوجی عدالتوں کی سکیورٹی فوج ہی کے سپرد ہو گی،  یہ فوج کے زیرِ انتظام کینٹ کے ایریا میں قائم کی جائیں گی ۔سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی۔

    ذرائع کا کہناہے بے نظیر قتل کیس سمیت کسی بھی مقدمے کو عدالت بھیجنے کا اختیار حکومت کو ہے، حکومت اگر اس بنیاد پر بے نظیر قتل کیس فوجی عدالت بھیجنا چاہے کہ اس میں ہارڈ کوردہشت گرد ملوّث ہیں تو یہ مقدمہ بھی بھیج سکتی ہے ۔

  • فوجی عدالتیں وقت کی ضرورت ہیں،جنرل راحیل شریف

    فوجی عدالتیں وقت کی ضرورت ہیں،جنرل راحیل شریف

    اسلام آباد : چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ فوجی عدالتیں پاک فوج کی نہیں  بلکہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔صورتحال بہترہونے پرسب معمول پرآجائے گا۔

    ان خیالات کا اظہارآرمی چیف نے وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں خصوصی اجلاس  سے خطاب کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ آج کے اجلاس کے فیصلے مستقبل کا تعین کریں گے۔

    آرمی چیف کا کہنا تھا کہ دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں اہم ترین موڑپرپہنچ چکے ہیں، ہم یہ جنگ جیتیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت غیرمعمولی فیصلوں کی ضرورت ہے۔

    دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہارنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ کُل جماعتی کانفرنس میں طے پانے والے اتفاق رائے کے فیصلوں پرعملدرآمد ہوناچاہئے۔

  • فوجی عدالتوں کا قیام آئیڈیل صورتحال نہیں، سراج الحق

    فوجی عدالتوں کا قیام آئیڈیل صورتحال نہیں، سراج الحق

    لاہور: جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام آئیڈیل صورتحال نہیں، معاملہ ابھی اسمبلی میں آئے گا، کہیں خامیاں ہوئیں تو دور کر لی جائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ لاہور میں مسیحی برادری کے اعزاز میں ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    سراج الحق نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام آئیڈیل صورتحال نہیں ہے، فوجی عدالتیں صرف دہشت گردی کے معاملات دیکھیں گی، اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی فوجی عدالتوں کے زمرے میں آتا ہے تو اسے دیکھنا چاہیئے۔

    سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین بھی معاملے کو فوجی عدالتوں میں لے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت خود سانحہ ماڈل ٹاؤن کو دیکھے اور اسے انصاف سے حل کرے۔

    ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کا معاملہ ابھی اسمبلیوں میں آئے گا، کہیں خامیاں ہوئیں تو دور کر لی جائیں گی۔ سراج الحق نے کہا کہ وی آئی پی کلچر ختم کئے بغیر ترقی ممکن نہیں۔

    دہشت گردی فرد، گروہ یا حکومت کرے، جماعت اسلامی قبول نہیں کرے گی، وہ سیاسی دہشت گردی کو بھی مسترد کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ نظریہ پاکستان کے ساتھ مسلسل بے وفائی اور غداری کی گئی، جس سے مسلمان اور غیر مسلمان دونوں غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔