یروشلم: اسرائیلی وزیرا عطم نیتن یاہو کی حکومت کو بڑا دھچکا لگا ہے، مدرسے کے طلبہ کی فوج میں بھرتی کے معاملے پر اہم یہودی مذہبی جماعت نے نیتن یاہو حکومت چھوڑ دی۔
روئٹرز کے مطابق اسرائیل کی الٹرا آرتھوڈوکس پارٹیوں میں سے ایک ’یونائیٹڈ تورات یہودیت‘ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے حکمراں اتحاد کو چھوڑ رہی ہے، کیوں کہ وہ مدرسے کے طلبہ کو فوجی خدمات سے مستثنیٰ کرنے کے بل کا مسودہ تیار میں ناکام رہی ہے۔
مذہبی جماعت ’یو ٹی جے‘ کے بقیہ 7 ارکان میں سے 6 نے وزیر اعظم کو خطوط لکھ کر استعفیٰ دے دیا ہے، جب کہ یو ٹی جے کے چیئرمین نے ایک ماہ قبل ہی استعفیٰ دے دیا تھا، یہ مذہبی جماعت دو اہم دھڑوں دجل ہاتورۃ اور اگودات یسرائیل پر مشتمل ہے۔
یو ٹی جے کے استعفے کے بعد اب نیتن یاہو کی اکثریت 120 نشستوں کی کنیسے یا پارلیمنٹ میں 61 نشستوں والی ایک کمزور اکثریت میں بدل جائے گی۔ یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ آیا ایک اور مذہبی پارٹی شاس بھی استعفے دے گی یا نہیں۔
غزہ میں 60 روزہ ممکنہ جنگ بندی کے بعد کیا ہوگا؟
یو ٹی جے کے دھڑے دجل ہاتورۃ نے ایک بیان میں واضح کیا کہ انھوں نے اپنے سربراہ ربیوں کے ساتھ بات چیت کے بعد مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے، کیوں کہ حکومت نے اپنے وعدوں کی بار بار خلاف ورزی کی، اور پوری تندہی سے اپنی تعلیم میں مصروف مقدس یشوا طلبہ کی ’حیثیت‘ کو استثنیٰ فراہم نہیں کیا۔
مذہبی یہودی جماعتوں کا استدلال ہے کہ 2022 کے آخر میں وہ حکومتی اتحاد میں اس شرط پر شامل ہوئے تھے کہ یشوا طلبہ کو مستثنیٰ کرنے کا بل پیش کیا جائے گا۔ تاہم حکومت نے تاحال اس میں کوئی پیش رفت نہیں کی ہے، اور مذہبی جماعت کے قانون ساز طویل عرصے سے بھرتی بل پر اتحاد چھوڑنے کی دھمکی دیتے آ رہے ہیں۔