Tag: فوج کی خبریں

  • آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈرز کانفرنس، وطن کی خدمت کے عزم کا اعادہ

    آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈرز کانفرنس، وطن کی خدمت کے عزم کا اعادہ

    راولپنڈی: جی ایچ کیو میں سالانہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی صدارت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی۔

    پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت فوج کے جنرل ہیڈکوارٹر راولپنڈی میں سالانہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی۔

    آئی ایس پی آر نے بتایا کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں تمام جنرل آفیسرز نے شرکت کی، کانفرنس میں جیو اسٹرٹیجک صورت حال اور قومی سلامتی سے متعلق امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

    شعبہ تعلقات عامہ نے کہا کہ کانفرنس میں داخلی سیکورٹی کے معاملات، ملک کو در پیش چیلنجز اور ان سے نمٹنے کے لیے جوابی حکمت عملی پر بھی گفتگو کی گئی۔

    کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاک فوج ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے، مادر وطن کے دفاع کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔

    آرمی چیف نے کہا کہ آپریشن رد الفساد کی کام یابیوں کو آگے بڑھایا جائے گا، امن و استحکام کو تقویت دینے کے لیے کام یابیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

    اجلاس کے شرکا نے وطن کی خدمت کے لیے ہر اقدم بروئے کار لانے کے عزم کا اعادہ کیا۔

  • آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے چینی سفیر اور جنوبی افریقی ہائی کمشنر کی ملاقات

    آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے چینی سفیر اور جنوبی افریقی ہائی کمشنر کی ملاقات

    راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے پاکستان میں متعین چینی سفیر اور جنوبی افریقی ہائی کمشنر نے ملاقات کی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں متعین چینی سفیر یاؤژنگ نے جی ایچ کیو کا دورہ، جہاں انھوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔

    آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے چینی سفیر نے ملاقات کی۔

    پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ نے کہا کہ آرمی چیف اور چینی سفیر کی ملاقات میں باہمی دل چسپی کے امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

    دریں اثنا، پاکستان میں متعین جنوبی افریقا کے ہائی کمشنر نے بھی آج جی ایچ کیوکا دورہ کیا۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جی ایچ کیو میں جنوبی افریقا کے ہائی کمشنر نے ملاقات کی۔

    آرمی چیف اور جنوبی افریقی ہائی کمشنر کی ملاقات میں باہمی دل چسپی، علاقائی سیکورٹی اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات پر بات چیت کی گئی۔

  • آرمی چیف سے سینٹ کام کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل کی ملاقات

    آرمی چیف سے سینٹ کام کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل کی ملاقات

    راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے ملاقات کی۔

    پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔

    پاک امریکا عسکری قیادت پر مشتمل وفود میں علاقائی سیکورٹی پر گفتگو کی گئی۔

    آئی ایس پی آر نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ ملاقات میں جیو اسٹریٹجک ماحول اور افغان مصالحتی عمل بھی زیرِ غور آیا۔

    سینٹ کام کے سربراہ جنرل جوزف نے اس موقع پر کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاک فوج کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  پروفیشنل اور تربیت یافتہ فوج امن کی ضمانت ہے، آرمی چیف

    آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ علاقائی امن کے لیے افغانستان میں دیرپا امن انتہائی ضروری ہے، تمام رکاوٹوں کے با وجود ہم علاقائی امن و استحکام کے لیے کوشاں ہیں۔

  • نشانِ حیدرحاصل کرنے والے شیردل سپوت

    نشانِ حیدرحاصل کرنے والے شیردل سپوت

    نشانِ حیدر افواجِ پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو کہ وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والے شیر دل فوجیوں کو دیا جاتا ہے، اب تک پاکستان کے دس سپوت یہ اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔

    پاکستان میں نشانِ حیدر حاصل کرنے والے دس فوجیوں میں میجر طفیل نے سب سے بڑی عمر یعنی 44 سال میں شہادت پانے کے بعد نشان حیدر حاصل کیا، باقی فوجی جنہوں نے نشان حیدر حاصل کیا ان کی عمریں 40 سال سے

    بھی کم تھیں جبکہ سب سے کم عمر نشان حیدر پانے والے پائلٹ آفیسر راشد منہاس تھے جنہوں نے دورانِ تربیت 20 سال 6 ماہ کی عمر میں شہادت کے منصب پر نشان حیدر اپنے نام کیا۔ اب تک بری فوج کے حصہ میں 9 جبکہ پاک فضائیہ کے حصے میں ایک نشان حیدر آیا ہے۔

    نشانِ حیدر کے مساوی ’ہلال کشمیر ‘ ہے جو کہ آزاد کشمیر کی فوج سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کو دیا جاتا ہے ، اب تک یہ اعزاز صرف ایک فوجی سیف اللہ جنجوعہ کے حصے میں آیا ہے۔

    نشانِ حیدر


    نشان حیدر کا اجراء 16 مارچ 1957 سے کیا گیا، اور سنہ 1947 سے اس وقت تک اس نشان کے حق دار شہدا ء کو اس اعزاز سے نوازا گیا۔ یہ پاکستان میں دیے جانے والے تمام سول اور ملٹری اعزازوں میں سب سے بڑا امتیازی نشان ہے۔

    یہ اعزاز پیغمبر اسلام ﷺ کے نامور صحابی اور خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب ہے جن کا لقب حیدرِ کرار ہے اوران کا شمار جلیل القدر، جری اور دلیرصحابہ کرام میں ہوتا ہے۔

    فوج کے کسی بھی رینک اور شعبے سے تعلق رکھنے والے بہادر کو اس اعزاز سے نوازا جاسکتا ہے، اسے حاصل کرنے کا معیار حالت ِ جنگ میں انتہائی خطرے کے مقام پر جرات وبہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہوجانا ہے۔

    نشانِ حیدر پاکستان منٹ میں وزارتِ دفاع کے خصوصی آرڈر پر تیار کیا جاتا ہے اور اس کی تشکیل میں دشمن سے چھینے گئے اسلحے کی دھات کو استعمال کیا جاتا ہے، نشانِ حیدر 88 فیصد کاپر ، 10 فیصد ٹن اور 2 فیصد زنک کے امتزاج سے تشکیل دیا جاتا ہے۔

    کیپٹن محمد سرور شہید


    کیپٹن سرور 1910 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان سے قبل 1944 میں پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی ، 1948 میں کشمیر آپریشن میں ہندوستان کی فوج کے مقابلے میں اوڑی کے مقام پر 50 گز کے فاصلے پر فائرنگ کی زد میں آئے، اس وقت وہ خاردار تاریں کاٹ کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کیپٹن سرور کی شہادت کے وقت عمر 38سال تھی۔

    میجر طفیل محمد شہید


    طفیل محمد 1914 میں پنجاب کے علاقے ہوشیار پور میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1943 میں پاک و ہند کی تقسیم سے قبل فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔1958 میں مشرق پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ہندوستان کی فوج نے بین الاقوام سرحد کی خلاف ورزی کی اور ایک گاؤں میں داخل ہوئی، اس گاؤں کو انہوں نے ہندوستان کی فوج سے واگزار کروالیا، مگر اس دوران وہ دست بدست بھی مخالف فوج سے لڑنے سے شدید زخمی ہونے کے باعث ان کی شہادت ہوئی۔میجر طفیل شہید کی جس وقت شہادت ہوئی ان کی عمر 44 سال تھی، وہ سب سے زیادہ عمر میں نشان حیدر حاصل کرنے والے فوجی ہیں۔

    میجر راجہ عزیز بھٹی شہید


    راجہ عزیز بھٹی 1928 میں ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق گجرات سے تھا، عزیز بھٹی نے 22 سال کی عمر میں پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔1965 کی جنگ میں مشہور زمانہ بی آر بی نہر کے کنارے برکی میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے، نہر کے کنارے ایک مقام پر ہندوستان کی فوج قابض ہو گئی تھی، انہوں نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مخالف فوج سے علاقہ واگزار کروا لیا مگر ہندوستانی فوج کے ٹینک کا ایک گولہ ان کو آ کر لگا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔ میجر عزیز بھٹی شہید کی جس وقت شہادت ہوئی ان کی عمر 37 سال تھی۔ یاد رہے کہ راجہ عزیز بھٹی سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ماموں تھے۔

    میجر محمد اکرم شہید


    محمد اکرم 4 اپریل 1938 کو گجرات میں پیدا ہوئے، انہوں نے 21 سال کی عمر میں 1959 میں فوج میں شمولیت اختیار کی، انہوں نے 1965 کی جنگ میں شرکت کی اور کئی محاذوں پر ہندوستان کی فوج کا مقابلہ کیا۔1971کی جنگ میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ڈسٹرکٹ دیناج پور اپنے علاقے کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے خیال رہے کہ دیناج پور جنگ اسی علاقے میں شامل تھا جہاں 23 نومبر 1971 سے 11دسمبر 1971 تک بوگرہ جنگ لڑی گئی، اس جنگ میں محمد اکرم کو ہیرو کا درجہ ملا۔31 سال 8 ماہ کی عمر میں شہید ہونے والے میجر محمد اکرم کو مشرقی پاکستان (موجود بنگلہ دیش) میں ہی دفنایا گیا، البتہ بعد ازاں ان کے آبائی علاقے جہلم میں یاد گار تعمیر کی گئی۔

    پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید


    راشد منہاس 17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے، انہوں نے 13 مارچ 1971 کو پاک فضائی میں شمولیت اختیار کی، اسی سال 20 اگست کو دوران تربیت ان کے استاد (انسٹرکٹر) مطیع الرحمن نے پاکستان کے جہاز کواغواء کرکے پندوستان لے جانے کی کوشش کی تو جہاز کے کاک پٹ میں پہلے دست بدست لڑائی ہوئی ،بعد ازاں راشد منہاس نے جہاز کو ہندوستان کے بارڈر سے 51 کلومیٹر دور ہی زمین سے ٹکرا دیا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔

    راشد منہاس فوج کا اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر پانے والے کم عمر ترین فوجی ہیں شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 20 سال اور6ماہ تھی جبکہ ان کو پاکستان ائر فورس کا حصہ بنے بھی صرف 5 ماہ ہوئے تھے۔

    میجرشبیرشریف شہید


    شبیر شریف 28 اپریل 1943 کو گجرات میں پیدا ہوئے، انہوں نے 21 سال کی عمر میں 1964 میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی، ان کے والد شریف احمد بھی فوج میں میجر رہے تھے۔1965 کی جنگ میں وہ بحیثیت سیکنڈ لفٹیننٹ شریک ہوئے ان کو کشمیر میں تعینات کیا گیا تھا۔

    سنہ 1971 میں جب مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں جنگ جاری تھی، تو پنجاب میں ہیڈ سلیمانکی کو ہندوستان کی فوج کے قبضے سے واگزار کروانے میں کامیابی حاصل کی اس جنگ میں ہندوستان کے 4 ٹینک تباہ، 42 فوجی ہلاک اور 28 قیدی بنائے گئے۔ملک کے بڑے رقبے کو پانی فراہم کرنے والے بند ہیڈ سلیمانکی پر حفاظت کے دوران ان کو ہندوستان کے ٹینک کا گولہ لگا جس سے28 سال کی عمر میں ان کی شہادت ہوئی۔ آپ سابق آرمی چیف راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے۔

    جوان سوار محمد حسین شہید


    سوار محمد حسین جنجوعہ 18 جون 1949 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، وہ 17 سال کی عمر میں پاک فوج میں بحیثیت ڈرائیور شامل ہوئے۔1971 کی جنگ میں سیالکوٹ میں ظفر وال اور شکر گڑھ کے محاذ جنگ پر گولہ بارود کی ترسیل کرتے رہے، ان کی نشاندہی پر ہی پاک آرمی نے ہندوستان کی فوج کے 16 ٹینک تباہ کیے، 10 دسمبر 1971 کو ہندوستانی فوج کی شیلنگ کی زد میں آکر سوار محمد حسین شہید ہوئے۔

    جس وقت سوار محمد حسین کی شہادت ہوئی ان کی عمر محض 22 سال اور 6 ماہ تھی۔وہ پاک فوج کے پہلے سب سے نچلے رینک کے اہلکار یعنی سپاہی تھے جن کو ان کی بہادری پر نشان حیدر دیا گیا۔

    لانس نائیک محمد محفوظ شہید


    محمد محفوظ 25 اکتوبر 1944 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، انہوں نے 25 اکتوبر 1962 کو ٹھیک 16 سال کی عمر میں فوج میں بحیثیت سپاہی شمولیت اختیار کی۔1971 کی جنگ میں ان کی تعیناتی واہگہ اٹاری سرحد پر تھی، وہلائٹ مشین گن کے آپریٹر تھے، ہندوستان کی فوج کے شیلنگ سے ان کی مشین گن تباہ ہوئی جبکہ ان کی کمپنی (فوجی داستہ) مخالف فوج کی زد میں آگیا۔

    شیلنگ سے لانس نائیک محمد محفوظ کی دونوں ٹانگیں زخمی ہو گئیں انہوں نے اسی زخمی حالت میں ہندوستان کے ایک بنکر (جہاں سے پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا جا رہا تھا) میں غیر مسلح حالت میں گھس کر حملہ کیا اور ایک ہندوستانی سپاہی کو گلے سے دبوچ لیا، البتہ ایک اور ہندوستانی فوجی نے ان پر خنجر سے حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا۔لانس نائیک محمد محفوظ کی بہادری کا اعتراف ہندوستان کے فوجیوں نے بھی کیا۔

    ان کی شہادت کے بعد 23 مارچ 1972 کو بہادری پر سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر انہوں سے نوازا گیا۔بعد ازاں ان کے گاؤں پنڈ مایکان کو محفوظ آباد کا نام بھی دیا گیا۔

    کیپٹن کرنل شیر خان شہید


    کرنل شیر خان یکم جنوری 1970 کو خیبر پختونخوا کے علاقے صوابی میں پیدا ہوئے۔1999 میں جب کارگل میں جنگ شروع ہوئی تو 17 ہزار فٹ کی بلندی پر انہوں نے ہندوستان کی فوج پر اس وقت حملہ کیا جب وہ با آسانی پاک فوج (کیپٹن کرنل شیر خان کی بٹالین) کی نقل و حرکت کو باآسانی دیکھ سکتے تھے، ان کا حملہ مخالف فوج کے لیے نہ صرف حیران کن تھا بلکہ انڈین آرمی کو بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ اس طرح سے بھی کوئی فوجی افسر حملہ کرسکتا ہے۔ ہندوستان کی فوج نے پاکستان کی چوکیوں کو گھیرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں کیپٹن کرنل شیر خان نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مخالف فوج پر حملہ کردیا۔

    شیر خان کے ہمراہ ان کی دو بٹالین نے ہندوستان کی فوج سے نہ صرف اپنے 5 چوکیوں کو محفوظ بنایا بلکہ ان کی کئی چوکیوں پر بھی قبضہ کیا اور ہندوستانی فوج کو ان کے بیس کیمپ تک واپس دھکیل دیا البتہ 5 جولائی 1999 کو کرنل شیر خان کی چوکی ایک بار ہندوستانی فوج کی زد میں آئی، اس دوران وہ مشین گن کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوئے اور ان کی شہادت ہوگئی۔کرنل شیر خان خیبر پختونخوا سے پہلے فوجی اہلکار تھے جن کو نشان حیدر دیا گیا، شہادت کےوقت ان کی عمر 29 سال 7 ماہ تھی۔

    حوالدار لالک جان شہید

    لالک جان یکم اپریل 1967 کو گلگت بلتستان کےضلع غذر میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1984 میں پاک فوج میں 17 سالہ کی عمر میں سپاہی کی حیثیت میں شمولیت اختیار کی۔1999 میں جب کارگل جنگ کا آغاز ہوا تو وہ ناردرن لائت انفنٹری ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر میں تعینات تھے انہوں نے زمینی جنگ کی اطلاع ملنے پر اصرار کرکے اپنی تعیناتی جنگ کے محاذ پر کروائی۔

    7 جولائی 1999 کو شہادت سے قبل لالک جان نے اپنی پوسٹ پر 3 دن کے دوران ہونے والے ہندوستانی فوج کے 17 حملوں کو ناکام بنایا۔7 جولائی کو تین اطراف سے ہونے والے حملے میں لالک جان کو کمپنی کمانڈر کی جانب سے پوسٹ چھوڑنے کی بھی تجویز دی گئی مگر انہوں نے اسے مسترد کر دیا اور ہندوستانی فوج سے مقابلہ کیا، اس دوران ان کے سینے پر مشین گن کا برسٹ لگا البتہ زخمی حالت میں بھی انہوں نے تین گھنٹوں تک مخالف فوج کا مقابلہ کیا، بعد ازاں جب پاک فوج کی نفری چوکی پر پہنچی تو ان کی شہادت ہوچکی تھی۔

    جس وقت لاک جان کی شہادت ہوئی ان کی عمر 32سال تین ماہ تھی، وہ نشان حیدر حاصل کرنے والے اب تک کے آخری فوجی اہلکار ہیں۔

    سیف اللہ جنجوعہ ( ہلالِ کشمیر)۔


    سیف اللہ جنجوعہ 1922 کو نکیلا میں پیدا ہوئے، 18 سال کی عمر میں 1940 میں پاک وہند کی تقسیم سے قبل فوج میں شمولیت حاصل کی۔1948 میں کشمیر رجمنٹ کی جانب سے لڑتے ہوئے انہوں نے مشین گن سے ہندوستان کا طیارہ مار گرایا تھا جبکہ توپ کا گولہ ان کی پوسٹ پر لگا، ان کو ہلال کشمیر سے نوازا گیا جو کہ پاکستان کے نشان حیدر کے مساوی ہے۔جس وقت نائیک سیف اللہ جنجوعہ کی شہادت ہوئی ان کی عمر 26 سال 6 ماہ تھی۔

  • سنہ 1965 کے ہیرو’سپاہی مقبول حسین‘ کون تھے

    سنہ 1965 کے ہیرو’سپاہی مقبول حسین‘ کون تھے

    چکلالہ : سنہ 1965 کی جنگ کے ہیرو سپاہی مقبول حسین ستارہ جرات کی نمازِ جنازہ ادا کردی گئی، وہ گزشتہ شام اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے، انہوں نے زندگی کے چالیس سال بھارت کی قید میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے گزارے۔

    تفصیلات کے مطابق پاک فوج کے سپاہی مقبول حسین گزشتہ رارت سی ایم ایچ اٹک میں انتقال کرگئے ، انہوں نے 40 سال سے زائد عرصہ بھارت کی قید میں گزارا، دشمن نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کے جرم میں ان کی زبان کاٹ دی تھی۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق ان کی نمازِ جنازہ میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سمیت دیگر افسران اور جوانوں نے شرکت کی اور قومی ہیرو کو خراجِ تحسین پیش کیا، انہیں تغار کھنڈ کھاریاں میں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا جائے گا۔

    سپاہی مقبول حسین کون ہیں؟


    ستمبر 2005 میں بھارتی حکومت کی جانب سے کچھ سویلین قیدیوں کا گروپ پاکستان کے حوالے کیا گیا، ان میں سے ایک قیدی ایسا تھا جس کی زباں کٹی ہوئی تھی لیکن آنکھوں میں چیتے سی چمک تھی۔ یہ شخص سپاہی مقبول حسین تھا ، جو کہ اپنے بارے میں کچھ بھی بتانے سے قاصر تھا لہذ ا انہیں بلقیس ایدھی سنٹر بھجوادیا گیا اور ان کے بارے میں اخباروں میں اشتہار دیے گئے۔

    مقبول حسین کی ایک بہن حیات تھیں اوران کا ایک بیٹا آرمی سے ریٹائرڈ تھا۔ اسے خبر ملی کہ بھارت کی طرف سے آنے والے قیدیوں میں اپنے ماموں کو تلاش کر سکتے ہو، بشارت حسین نے تمام عمر اپنی ماں سے مقبول حسین کے بارے ہی سنا تھا اور وہ انکے سچے ہیرو تھے۔بشارت ایدھی سنٹر پہنچا اور اس نے مقبول حسین کو دیکھا،اس کی تصویر اپنی والدہ کو دکھائی اور اسے مختلف علامات اور نشانات سے پہچان لیا گیا۔

    سپاہی مقبول کے عزیز محمد شریف 27 ستمبر 2005 کو انہیں بلقیس ایدھی ہوم سے ان کے آبائی گاؤں ناریاں‘ تراڑ کھل‘ ضلع سندھنوتی آزادکشمیر لے گئے۔ پھر ایک انکشاف تمام پاکستان کے لئے کسی معجزے سے کم نہیں تھا کہ یہ نیم پاگل نظر آنے والا شخص سپاہی مقبول حسین تھا۔ کشمیر میں ہونے والے آپریشن کاسپاہی جو دشمن کی قید میں زندگی ہے چالیس برس گزار کر اپنی دھرتی ماں پر واپس پہنچا تھا۔

     مقبول حسین کو کشمیر رجمنٹل سنٹر لایا گیا. کمانڈنٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔

    اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا۔ اور ایک کاغذ پر یہ نمبر لکھا
    ‘‘330139 ’’

    کمانڈنٹ کو کٹی زباں والے شخص کے بارےاتنا ہی تجسس تھا جس کا اظہار دوسرے لوگ کر رہے تھے. کمانڈنٹ کے حکم پر قیدی کے لکھے نمبر کی مدد سے جب ایک پرانی فائل کھولی گئ تو یہ واقعی سپاہی مقبول حسین تھا. وہ مقبول جس کو جنگ کے دوران نہ ملنے کے سبب ایک مخصوص وقت کے بعد شہید قرار دے دیا گیا تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کر کے واپس آ رہا تھا کہ اسی دوران اس کی دشمن سے جھڑپ ہو گئی۔ سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے ہوئے تھا۔

    اپنے افسران سے پیغام رسائی کے فرائض کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں اٹھائی مشین گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا اور اسی دوران وہ مقابلے میں زخمی ہو گیا ۔ سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے مگر ساتھیوں کی حفاظت اور مشکل کا سوچ کر مقبول حسین نے خود کو ایک کھائی میں گرا لیا۔ ساتھی اسے تلاش کرتے رہے جبکہ وہ آنے والے دشمن کو روکنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ساتھی جب اسے نہ ڈھونڈ سکے تو آگے بڑھ گئےاور پھر مقبول حسین نے اپنی مشین گن سے دشمن کو مسلسل الجھائے رکھا، اسی دوران اسے مزید گولیاں لگیں اور وہ دشمن کے ہاتھوں جنگی قیدی بن گیا۔

    جب جنگ ختم ہی تو دونو ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا اس دوران بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکر نہ کیا ۔ اس لیے پاک فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصور کر لیا ، یادگار شہداء پر بھی اس کا نام کندہ کر دیا گیا۔ بھارتی افواج نے مقبول حسین پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑےِ، اسے چار فٹ کی کوٹھری میں بند کرکے تشدد اور اذیت سے دوچار کیا گیا۔پاؤں سے ناخن اورمنہ سے دانت اکھاڑ دئیے گئے۔ اس کی زباں پر ایک ہی نعرہ ہوتا۔۔ پاکستان زندہ باد.. وہ اسے مجبور کرتے کہ پاکستان کو گالی دو.. مگر اس کی زباں پر صرف اپنے وطن عزیز کا نعرہ ہوتا، بھارتی فوجی اس پر ٹوٹ پڑتے اور تشدد کا نشانہ بناتے۔ یہ ان کے لئے برداشت اور حب الوطنی کا ٹسٹ کیس تھا، وہ اسے جنگی قیدی کا سٹیٹس بھی اس لئے نہ دے رہے تھے کہ مقبول حسین ان کے لئے ایک ضد تھا۔۔ چیلنج تھا جبکہ مقبول کے لہو میں تو صرف اس وطن کی محبت تھی ۔

    سپاہی مقبول حسین ڈٹا رہا، اس کی ہمت کے سامنے بھارتی سپاہ کچھ بھی نہ کر پا رہی تھی۔۔ وہ تو بس ایک نعرہ لگاتا اور جیل کے دیوار گونج اٹھتے..پاکستان زندہ باد ۔ آخر انھوں نے اس کی زبان سے بدلہ لینے کا سفاکانہ فیصلہ کر لیا. انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی. اب وہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہیں لگا سکتا تھا.. ہاں مگر وہ لکھ سکتا تھا.. وہ جیل کی چار فٹ چوڑی دیوار پر لکھتا رہا.. پاکستان زندہ باد.. اور 355139.. وہ آرمی نمبر جسے وہ کبھی بھولنا نہیں چاہتا تھا.. وہ بھولنا تو اپنی اس منگیتر نصیراں کو بھی نہیں تھا جو مقبول حسین کی منتظر تھی.اپنی بہن سرور جان جو اس کی لاڈلی تھی. وہ اس ماں کو بھی نہیں بھولنا چاہتا تھا جس نے مقبول کی شہادت کا خط ملنے کے بعد کہا تھا کہ میرا مقبول زندہ ہے.. وہ ایک دن ضرور واپس آئے گا. اور پھر وہ تمام عمر اس کا گاؤں کے داخلی حصے میں رہتے ہوئے انتظار کرتی رہی…وہ کہتی تھی کہ مجھے گاؤں کے شروع میں دفن کیا جائے،میں اپنے مقبول کا استقبال کروں گی۔

    سپاہی مقبول حسین نے 1965 سے لے کر 2005 تک اپنی زندگی کے بہترین 40سال اس اندھیری کوٹھری میں گزار دئیے۔ کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم سے بہتے خون کی مدد سے پاکستان زندہ باد لکھ دیا کرتا تھا، تنگ آکر بھارت نے انہیں سویلین قیدیوں کے درمیان پاکستان کے حوالے کردیا۔