Tag: فورٹ ولیم کالج

  • فورٹ ولیم کالج کے ڈاکٹر جان گلکرسٹ کا تذکرہ کیوں ضروری ہے؟‌

    فورٹ ولیم کالج کے ڈاکٹر جان گلکرسٹ کا تذکرہ کیوں ضروری ہے؟‌

    فورٹ ولیم کالج سرزمینِ پاک و ہند میں مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ویلزلی گورنرجنرل کے حکم سے 1800ء میں کلکتہ میں قائم ہوا۔ اس کالج میں‌ شعبۂ ہندوستانی کا سربراہ جان گلکرسٹ کو مقرر کیا گیا تھا۔

    سیّد سبطِ حسن اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں،”فورٹ ولیم کالج عام طالبِ علموں کے لیے نہیں کھولا گیا تھا، بلکہ مقصد یہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازمین کو، بالخصوص ان ناتجربہ کا رسول ملازمین کو جو سولہ سترہ سال کی عمر میں ہندوستان آتے تھے، باقاعدہ تعلیم دے کر کمپنی کے مقبوضات کا نظم ونسق سنبھالنے کے لائق بنایا جائے۔

    کالج کا نصاب بہت جامع اور وسیع تھا۔ ہندوستان کی تاریخ، جغرافیہ، مسلم فقہ اور ہندو دھرم، اس ملک کے باشندوں کے رسوم رواج، کمپنی کے آئین و ضوابط، گورنر جنرل کے وضع کردہ قوانین، برطانوی آئین اور طرزِ حکومت، برطانیہ کا قانون، انصاف یہ سب علومِ نصاب میں داخل تھے۔ ان کے علاوہ ہندوستانی، فارسی، عربی، بنگالی سنسکرت اور دیگر مشرقی زبانوں کی تعلیم کا خاص اہتمام کیا گیا تھا۔

    ایسٹ انڈیا کمپنی ایک تجارتی ادارہ تھی، اس لیے کمپنی کے ملازمین کو ہر وقت اس ملک کے باشندوں سے واسطہ پڑتا تھا اور ان کی زبان اور طور طریقوں سے تھوڑی بہت واقفیت ضرور رکھنی پڑتی تھی۔ جنگِ پلاسی کے بعد جب1765ء میں بنگال، بہار، بنارس اور اڑیسہ کے علاقے کمپنی کے زیرِ اقتدار آئے تو کمپنی کے ملازمین کے لیے رعایا کی زبان، مذہبی عقائد اور معاشرتی حالات سے آگاہی اور زیادہ ضروری ہوگئی۔ چنانچہ وارن ہیسٹنگز کے زمانے ہی میں ہیڈلے، ڈاکٹر بالفور، مسٹرولکنس اور ڈاکٹر گلکرسٹ نے کمپنی کے انگریز ملازمین کی سہولت کے لیے لغت، گرامر اور زبان دانی کی کئی کتابیں مرتب کیں۔”

    ان میں سے ڈاکٹر جان گلکرسٹ کا تذکرہ اس لیے اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اس کالج کے شعبۂ ہندوستانی کے سربراہ کی حیثیت سے خاصے متحرک رہے اور ان کے زیرِ نگرانی مقامی ماہرینِ لسانیات اور مصنّفین نے خوب علمی اور ادبی کام انجام دیا اور قواعد و انشا سے لے کر کئی کتابوں‌ کے اردو تراجم انجام پائے۔

    جان گلکرسٹ 1759ء کو ایڈنبرا (اسکاٹ لینڈ) میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں‌ نے آج ہی کے دن 1841ء میں‌ پیرس میں‌ وفات پائی۔ وہ بطور ڈاکٹر ہندوستان آئے تھے اور یہاں‌ اردو زبان سیکھی کیوں کہ اس کے بغیر وہ یہاں بخوبی اپنی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام نہیں دے سکتے تھے۔ بعد میں وہ فورٹ ولیم کالج سے وابستہ وہئے اور چار سال تک کام کرنے کے بعد 1804ء میں انگلستان چلے گئے جہاں اورینٹل اِنسٹی ٹیوٹ میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے۔

    مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد بھی ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ تاہم رفتہ رفتہ اردو اس کی جگہ لے رہی تھی۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے نہ صرف یہ زبان خود سیکھی بلکہ اپنے ہم وطنوں کو بھی سکھانے کے لیے بڑی محنت کی۔ انھوں نے کالج کے قیام سے قبل ہی ایک انگریزی اردو لغت مرتب کرنے کا کام شروع کیا تھا جسے اس وقت کے گورنر جنرل نے پسند کیا اور یوں وہ فورٹ ولیم کالج میں‌ تعینات کیے گئے۔

    فورٹ ولیم کالج میں ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے جو کتابیں تصنیف کیں‌ ان میں‌ ”انگریزی ہندوستانی لغت“ اُن کی پہلی تصنیف ہے۔ ”ہندوستانی زبان کے قواعد“ ان کی دوسری تصنیف ہے۔ مشرقی قصّے میں حکایتوں اور کہانیوں کا ترجمہ شامل ہے جو حکایاتِ لقمان اور انگریزی، فارسی، برج بھاشا اور سنسکرت کے واسطے مترجم تک پہنچی ہیں۔ ان کے علاوہ گلکرسٹ کی تصانیف میں مشرقی زبان دان، فارسی افعال کا نظریۂ جدید، راہ نمائے اردو، اتالیقِ ہندی، عملی خاکے، ہندی عربی آئینہ، ہندوی داستان گو اور ہندوستانی بول چال وغیر شامل ہیں۔ ان تصانیف سے ان کی اردو زبان و بیان میں‌ دل چسپی، سیکھنے کے شوق اور تصانیف کے لیے ان کی محنت و لگن اور ریاضت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    انگریزوں کے قائم کردہ اس تعلیمی ادارے کی عمر تو بہت کم رہی مگر اس کے احاطے میں‌ ہونے والے علمی اور ادبی کام کے اثرات دو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی باقی ہیں۔ اسی طرح اس کالج سے وابستہ ہندوستانی مصنّفین کو بھی اس وقت کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور انھیں‌ غیروں‌ کی تہذیب اور ثقافت کا دلدادہ کہا گیا، لیکن آج کئی برس بھی اردو کے متوالے ڈاکٹر جان گلکرسٹ اور ان کے رفقا کو یاد کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کالج کا قیام مخصوص مقاصد کی تکمیل اور مذہب کے فروغ کے لیے عمل میں‌ لایا گیا تھا، لیکن یہی ادارہ علم و ادب کا بڑا مرکز بھی مانا گیا۔

    ڈاکٹر جان گلکرسٹ کو ہندوستانی (اردو) زبان سے والہانہ محبت تھی اور کہا جاتا ہے کہ انھوں‌ نے نہایت خلوص اور بے غرضی سے اس کے لیے کام کیا تھا۔ گلکرسٹ یہاں‌ تقریباً ڈیڑھ سال تک سول ملازمین کو ہندوستانی اور فارسی پڑھاتے رہے۔ یہ صرف تعلیمی ادارہ نہ تھا بلکہ اس وقت تصنیف و تالیف کا سب سے بڑا مرکز بھی تھا جس کے لیے مقامی اساتذہ اور عالم فاضل شخصیات کی خدمات حاصل کرکے فورٹ ولیم کالج میں لغات، تواریخ، اخلاقی و مذہبی مواد پر مشتمل کتب اور قصّے کہانیوں کی کتابیں بڑی تعداد میں شایع کی گئیں۔ ان کتابوں‌ کو ہندوستان بھر میں‌ پذیرائی حاصل ہوئی اور یہ کالج مشرقی زبان میں‌ مختلف علوم اور زبان و ادب میں‌ بڑی ترقّی کا سبب بنا۔

    اس کالج میں نہ صرف ہندوستانی یعنی اردو ہندی کی تعلیم دی گئی بلکہ بنگلہ اور تمل کی بھی تعلیم دی گئی۔ ان کے علاوہ اڑیسہ کی زبان اڑیا، پنجاب کی زبان پنجابی اور مہاراشٹر کی زبان مراٹھی کی نثر کے ابتدائی نقوش بھی یہاں ملتے ہیں اور ان کے قواعد بھی یہاں تیار ہوتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ اردو میں بڑے پیمانے پر نثر کی ابتدا اور اس کے خد و خال تیار کرنے کا سہرا بھی اس کالج کے سر جاتا ہے جو ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی رخصتی کے بعد اپنی آب و تاب کھو بیٹھا اور بعد میں بند کردیا گیا۔

  • فورٹ ولیم کالج کے یومِ تاسیس کا سلطان ٹیپو شہید سے کیا تعلق تھا؟

    فورٹ ولیم کالج کے یومِ تاسیس کا سلطان ٹیپو شہید سے کیا تعلق تھا؟

    رچرڈ کولی ویلزلی برطانوی نوآبادیات کے زمانے میں ہندوستان کا منتظم تھا جس کے دور میں انگریز فوج کا شیرِ میسور ٹیپو سلطان سے مقابلہ ہوا تھا۔

    اردو کے ممتاز ادیب، صحافی اور دانش وَر سیّد سبطِ‌ حسن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے، فورٹ ولیم کالج سرزمینِ پاک و ہند میں مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ویلزلی، گورنر جنرل (1798۔ 1805ء) کے حکم سے 1800ء میں کلکتہ میں قائم ہوا۔

    اس شرط کے ساتھ کہ کالج کا یومِ تاسیس 24 مئی 1800ء تصوّر کیا جائے۔ کیوں کہ وہ دن سلطان ٹیپو کے دارُالحکومت سرنگاپٹم کے سقوط کی پہلی سال گرہ کا دن تھا۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، فورٹ ولیم کالج عام طالب علموں کے لیے نہیں کھولا گیا تھا بلکہ مقصد یہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازمین کو، بالخصوص ان ناتجربہ کار سول ملازمین کو جو سولہ سترہ سال کی عمر میں ہندوستان آتے تھے، باقاعدہ تعلیم دے کر کمپنی کے مقبوضات کا نظم و نسق سنبھالنے کے لائق بنایا جائے۔

    آگے چل کر انھوں نے لکھا، لارڈ ویلزلی مئی 1798ء میں گورنر جنرل ہو کر کلکتہ آیا۔ وہ لندن میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دفتر میں ایک بڑے عہدہ پر فائز رہ چکا تھا اس لیے ہندوستان کے حالات اور کمپنی کے مسائل کے بخوبی واقف تھا۔ اس نے کلکتہ پہنچتے ہی محسوس کر لیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اب فقط ایک تجارتی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہزاروں مربع میل زمین اور لاکھوں باشندوں کی تقدیر اس کے قبضہ میں ہے، لہٰذا کمپنی کے مفاد اور مقبوضات کے نظم و نسق کا تقاضا یہی ہے کہ انگریز ملازمین کی تعلیم کا باقاعدہ انتظام کیا جائے۔

    چنانچہ ایک یادداشت میں وہ لکھتا ہے کہ ’سول ملازمین کی تعلیم کے موجودہ نقائص مدّت سے میری توجہ کا مرکز ہیں اور میں نے ان نقائص کو دور کرنے کی غرض سے ایک وسیع منصوبے کا بنیادی خاکہ تیار کر لیا تھا اور کونسل کے روبرو اس کا زبانی بھی ذکر کیا تھا، مگر میسور کی جنگ کے باعث اس منصوبے پر فوری عمل نہیں ہو سکا۔

    ویزلی کا انتقال 26 ستمبر 1842ء کو ہوا۔

  • انگریزوں کو "اخلاقِ ہندی” کیوں پڑھائی گئی؟

    انگریزوں کو "اخلاقِ ہندی” کیوں پڑھائی گئی؟

    ہر زندہ اور باشعور معاشرہ نسلِ نو کی تربیت اور کردار سازی کو اہمیت دیتا ہے اور ایسا ادب تخلیق کرتا ہے جو بچّوں اور نوجوانوں کی دل چسپی اور توجہ حاصل کرنے کے ساتھ سبق آموز واقعات اور باہمّت لوگوں کی داستانوں سے ان کی تربیت اور کردار سازی کرتا ہے۔

    نسلِ نو کی تربیت اور انھیں‌ ہمّت و حوصلے سے زندگی کی کٹھنائیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کی ضرورت شاید آج بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جس میں والدین اور اساتذہ کا کردار اور گھر کا ماحول کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ضمن میں بچّوں کا ادب تخلیق کرنا اور انھیں‌ مطالعے کا عادی بنانا بھی ضروری ہے جس سے نہ صرف بچّے زبان و بیان سیکھیں گے بلکہ ان میں معاشرت کا شعور اجاگر ہو گا اور اچھّی عادات اور طور طریقے بھی سیکھنے کو ملیں گے۔

    اس تمہید کے ساتھ ہم آپ کو علم و دانش، حکمت و دانائی کے قصائص پر مبنی اردو کی پہلی کتاب کے بارے میں‌ بتاتے ہیں جو 1803ء میں شایع ہوئی۔ اس کا نام تھا "اخلاقِ ہندی۔”

    اس کتاب کی اشاعت کا مقصد انگریزوں کو مقامی زبان سکھانا اور ہندوستان کی ثقافت سے ہم آہنگ ہونے میں مدد دینا تھا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں انگریز قدم رکھ چکے تھے۔ ہندوستانی علما، ادیب و شاعر اور دیگر قابل ہستیاں انگریزوں کی آمد کے بعد یہاں کی معاشرت میں تبدیلیاں اور اپنی زبان، طور طریقوں پر اس کے اثرات دیکھ رہے تھے جب کہ انگریز سمجھتا تھاکہ مقامی زبانیں سیکھنے اور یہاں کی ثقافت سے ہم آہنگ ہونے کے بعد وہ زیادہ بہتر طریقے سے یہاں راج کرسکتا ہے۔

    چناں چہ حکومتی اور انتظامی امور چلانے کے لیے انگلستان سے آنے والے افسروں نے مقامی زبان سیکھنا شروع کی اور اس کے ساتھ یہاں کے کلچر اور رسم و رواج کو سمجھنے کے لیے انگریزوں نے کلکتے میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا اور قابل ہندوستانیوں کو استاد مقرر کیا۔ ان اساتذہ کو منشی کہا جاتا تھا۔ میر بہادر علی حسینی بھی انہی میں سے ایک تھے۔

    وہ میر منشی کہلائے اور انھوں نے اپنے انگریز شاگردوں کے لیے اردو کی اوّلین کتاب لکھی جس کا نام اخلاقِ ہندی تھا۔ یہ دراصل فارسی کتاب "مفرح القلوب” کا ترجمہ تھا۔ اس کتاب میں مختلف قصائص اور واقعات مقامی زبان اور بولیوں میں بیان کیے گئے تھے۔

    اس میں طالبِ علموں کی دل چسپی اور توجہ برقرار رکھنے کی غرض سے عجیب و غریب داستانیں بیان کی گئی تھیں۔ اس میں کوّے اور چڑی مار کی کہانی، بوڑھے شیر اور مسافر کی حکایت اور کہیں کوّے ہرن اور گیدڑ کا قصّہ پڑھنے کو ملتا ہے۔

    قدیم ہندوستان اور ایران میں ایسی بے شمار حکایتیں اور داستانیں مشہور ہیں جو سبق آموز اور تمدن و معاشرت سکھانے کا ذریعہ تھیں۔ یہ سب طفلانِ چمن اور نونہالانِ وطن کی تعلیم و تربیت میں کسی نہ کسی صورت آج بھی اہمیت رکھتی ہیں اور ان میں سے منتخب کہانیاں ابتدائی درسی کتابوں میں بھی شامل ہیں۔

    منشی صاحب کی کتاب "اخلاقِ ہندی” کا ایک نسخہ 1868ء میں لندن میں بھی طباعت کے زیور سے آراستہ ہوا تھا۔ یہ اس وقت کے مشہور مطبع خانے ڈبلیو ایچ ایلن اینڈ کمپنی میں چھپی تھی۔ اس کتاب کے مرتب سید عبداللہ تھے جو اس زمانے میں‌ لندن میں مشرقی زبانوں کے استاد تھے۔

    (ہندوستان میں بچّوں کے ادب اور تاریخ سے متعلق مضمون سے خوشہ چینی)