Tag: فوسل فیول

  • ’فوسل فیول پیدا کرنے والے ممالک آستین کے سانپ ہیں‘ کوپ 92 میں احتجاج

    ’فوسل فیول پیدا کرنے والے ممالک آستین کے سانپ ہیں‘ کوپ 92 میں احتجاج

    باکو: آذربائیجان میں جاری کوپ 29 اجلاس کے دوران سماجی تنظیم نے انوکھا احتجاج کرتے ہوئے فوسل فیول پیدا کرنے والے ممالک کو آستین کے سانپ قرار دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آذربائیجان میں جاری کوپ ٹوئنٹی نائن میں سماجی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ امیر ممالک موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فنڈگ بڑھائیں، باکو میں جاری اجلاس کے دوران سماجی کارکنان کا بین الاقوامی برادری کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    مظاہرین نے کہا کہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کرنے والے ممالک موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک کے ساتھ انصاف کریں اور ان کی مدد کریں۔ کوپ ٹوئنٹی نائن میں ایک سماجی تنظیم نے فوسل فیول پیدا کرنے والوں کو آستین کا سانپ قرار دیا اور ہال میں دیوہیکل غبارے سے بنا سانپ بھی لے کر آئے۔

    مظاہرین نے کہا کہ فوسل فیول پیدا کرنے والی کمپنیاں کلائمٹ ایکشن میں رکاوٹ ڈال کر پیسہ کما رہی ہیں۔ دریں اثنا مظاہرین نے اس بار اجلاس میں اپنے مظاہرے کے لیے پیدا کیے گیے مشکل حالات کا بھی ذکر کیا، مظاہروں میں شامل لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے حالیہ برسوں میں اقوام متحدہ کے منتظمین کی جانب سے سخت قوانین کے رجحان کو محسوس کیا ہے، جن میں COPs کا انعقاد ایسے ممالک میں کیا جانے لگا ہے جہاں کی حکومتیں مظاہروں اور سول سوسائٹی کی شرکت کے خلاف سخت طرز عمل اپناتی ہیں۔

  • پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی تمام گاڑیاں خاتمے کے قریب

    پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی تمام گاڑیاں خاتمے کے قریب

    برسلز: یورپی یونین نے اگلے 13 سال میں پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی تمام گاڑیوں کو ختم کر کے الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کی منظوری دے دی۔

    بین الاقوامی ویب سائت کے مطابق یورپی یونین نے ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی فروخت سنہ 2035 تک مکمل طور پر ختم کرنے کی منظوری دے دی ہے، یہ اعلان 27 رکنی بلاک نے بدھ کو کیا جس کا مقصد آلودگی کے خطرات کو کم کرنا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یہ تجویز جولائی 2021 میں سامنے آئی تھی، جس کی منظوری دی گئی ہے۔ یورپی یونین کے فیصلے کے بعد پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی تمام گاڑیوں کو الیکٹرک انجن پر شفٹ کیا جائے گا۔

    اس اقدام کا مقصد ماحولیات کے تحفظ سے متعلق طے کیے گئے اہداف کو حاصل کرنا ہے جس میں 2050 تک کاربن کے اخراج کو صفر کرنا ہے۔

    جرمنی اور اٹلی سمیت بلاک میں شامل دیگر ممالک کی درخواست پر تمام 27 ممالک نے اتفاق کیا کہ مستقبل میں آلودگی کے مسائل سے بچنے کے لیے متبادل ٹیکنالوجیز کی طرف بڑھنا چاہیئے، جیسا کہ ہائبرڈ یا بجلی سے چلنے والی گاڑیاں جن کی مدد سے فضا کو آلودہ بنانے والی گیسز کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

    اجلاس میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو بھی 5 سال کے لیے اس پابندی سے چھوٹ کی منظوری دی گئی ہے، اس میں وہ کمپنیاں بھی شامل ہیں جو 2035 کے آخر تک سالانہ 10 ہزار سے کم گاڑیاں بنا رہی ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق اس شق کو فراری ترمیم کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے کیونکہ اس سے پرتعیش برانڈز کو فائدہ ہوگا، ان اقدامات پر اب یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کے ساتھ بھی صلاح مشورہ کیا جائے گا۔

    اجلاس کی صدارت کرنے والی فرانس کی وزیر برائے ماحولیات ایگنس پینیر رنیچر کا کہنا ہے کہ یہ ہماری آٹو موٹیو انڈسٹری کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین اور امریکا کے ساتھ مسابقت کے لیے یہ ایک بہت بڑی ضرورت ہے جن کی جانب سے الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت کے لیے بہت بڑے اقدامات کیے گئے ہیں۔

  • سوئیڈن تاریخ کا پہلا فوسل فیول سے پاک ملک

    سوئیڈن تاریخ کا پہلا فوسل فیول سے پاک ملک

    سوئیڈن کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ بہت جلد فوسل فیول سے پاک پہلا ملک بننے والے ہیں۔ سوئیڈن قابل تجدید توانائی یعنی ری نیو ایبل انرجی کے منصوبوں پر 546 ملین ڈالر کی سرمایہ کرے گا۔

    سوئیڈن کی حکومت کے مطباق ان کا یہ اقدام پیرس میں ہونے والے معاہدے کی تکمیل کی طرف ایک قدم ہے اور 2016 کے بجٹ میں یہ ان کی پہلی ترجیح ہوگا۔

    s1

    سوئیڈن پہلے ہی اپنی بجلی کا ایک تہائی حصہ غیر فوسل فیول تونائی کے ذرائع سے حاصل کرتا ہے۔ سوئیڈن حکام کا کہنا ہے کہ وہ شمسی توانائی، قابل تجدید توانائی کے ذخائر، الیکٹرانک بسوں، ماحول دوست کاروں اور ماحول سے مطابقت رکھنے والی پالیسیوں پر زیادہ سرمایہ کاری کریں گے۔

    s2

    سوئیڈن پہلا ملک نہیں جو قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر توجہ دے رہا ہے۔ اس سے قبل امریکی ریاست ہوائی نے بھی امریکہ کی پہلی فوسل فیول سے پاک ریاست بننے کے منصوبے کا اعلان کیا، اس سال کے آغاز میں کوسٹا ریکا 75 دن تک مکمل طور پر قابل تجدید توانائی پر منحصر رہا، ڈنمارک نے بھی پچھلے سال جولائی میں اپنی بجلی کی 140 فیصد ضروریات کو پون بجلی (ہوا سے بننے والی بجلی) کے ذریعے پورا کیا۔