Tag: فوٹوگرافی

  • گلوبل ولیج تصویری مقابلہ: 50 ہزار درہم جیتنے کا موقع

    گلوبل ولیج تصویری مقابلہ: 50 ہزار درہم جیتنے کا موقع

    ابو ظہبی: گلوبل ولیج متحدہ عرب امارات کے قومی دن کی ایک ماہ طویل تقریبات کا آغاز فوٹوگرافی کے مقابلے کے ساتھ کر رہا ہے جس میں جیتنے والے کو 50 ہزار درہم اور ٹرافی دی جائے گی۔

    حمدان بن محمد بن راشد المکتوم انٹرنیشل فوٹوگرافی ایوارڈ کے ساتھ شراکت میں، گلوبل ولیج نے جمعرات کو 50 سال ایک ساتھ کے نام سے فوٹوگرافی مقابلہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    مقابلہ شوقیہ اور پیشہ ور فوٹو گرافرز کی طرف سے کثیر ثقافتی، تنوع اور رواداری کا جشن منانے والی گذارشات کا خیر مقدم کرتا ہے۔ انٹریز 2 دسمبر کو متحدہ عرب امارات کے قومی دن تک قبول کی جائیں گی۔

    مقابلے کے اصولوں کے مطابق شرکا کی عمر 18 سال سے اوپر ہونی چاہیئے۔

    پہلا انعام جیتنے والے کو 50 ہزار درہم نقد اور سونے کی ٹرافی ملے گی، دوسرے فاتح کو 26 ہزار درہم، چاندی کی ٹرافی اور گلوبل ولیج گڈی بیگ جبکہ تیسرے فاتح کو 26 ہزار درہم اور شیشے کی ٹرافی دی جائے گی۔

    فاتحین کا اعلان 4 جنوری 2022 کو گلوبل ولیج میں کیا جائے گا۔

  • دنیا کی بہترین تصاویر کا مقابلہ، برفانی تودے پر محوِ استراحت ریچھ نے دل موہ لیے

    دنیا کی بہترین تصاویر کا مقابلہ، برفانی تودے پر محوِ استراحت ریچھ نے دل موہ لیے

    برف کے ایک چھوٹے سے تودے پر خواب خرگوش کے مزے لینے والے قطبی ریچھ سے لے کر سمندر میں مچھلیوں کے درمیان تیرنے والے ایک سیاہ ہندوستانی کچھوے تک، شان دار تصاویر کی یہ ناقابل یقین کہکشاں دنیا کے چند بہترین فوٹوگرافرز کے کام کو ظاہر کرتی ہے۔

    یہ شان دار تصاویر دی گولڈن ٹرٹل فیسٹیول فوٹوگرافی مقابلے کے فاتحین نے کھینچی ہیں، اس میلے میں جنگلی حیات کی خوب صورتی کا جشن منایا جاتا ہے۔

    تقریباً 4 ہزار فوٹوگرافرز نے گولڈن ٹرٹل فیسٹیول میں حصہ لیا، جو کہ سب سے بڑا بین الاقوامی ماحولیاتی تعلیمی منصوبہ ہے، جس میں دنیا بھر کے فوٹوگرافرز، ڈیزائنرز اور فن کاروں کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔

    اگرچہ اس مقابلے میں ایک سے ایک خوب صورت تصویر پیش کی گئی ہے، لیکن برفانی ریچھ کی تصویر نے دیکھنے والوں کے دل موہ لیے، دنیا سے دور، گہرے سمندر میں چھوٹے آئس برگ پر اداس سوئے برفانی ریچھ کی تصویر نے ماحول اور جانوروں کی کیٹیگری میں پہلا انعام جیتا، یہ تصویر مارِک جیکوسکی نے کھینچی تھی۔

    مچھلیوں کے ساتھ تیرتا یہ سیاہ ہندوستانی کچھوا ہے، جس نے زیر آب دنیا کی کیٹیگری میں پہلا انعام جیتا، یہ تصویر دمیتری کوف نامی فوٹوگرافر نے کھینچی تھی۔

    بھیڑیے کی یہ تصویر جس میں وہ ایک پہاڑی بکری کا تعاقب کر رہا ہے، ہائی یوآن ٹونگ نے کھینچی، اس تصویر نے انیمل بیہیویئر کیٹیگری میں پہلا انعام حاصل کیا۔

    درخت کی شاخ پر بیٹھے اس چمک دار رنگین پرندے کنگ فشر کی تصویر اینڈریس لوئس ڈومنگوز بلانکو نے لی ہے، اس نے فطرت بچوں کی نگاہوں میں کی کیٹیگری میں دوسرا انعام جیتا۔

    فوٹوگرافر نکولس ریمی نے سینگ والی شارک مچھلی کی یہ تصویر اس وقت کھینچی جب شارک نے ایک انڈا منہ میں دبایا اور کھانے ہی والی تھی، انڈرواٹر ورلڈ کیٹیگری میں اس تصویر کو تیسرا انعام ملا۔

    اس تصویر میں غوطہ خوروں کی ایک ٹیم نظر آ رہی ہے، جو شارکوں کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے، انھوں نے ایک بڑی شارک کے گرد گھیرا بنایا ہوا ہے، اور اس کی پیمائش لینے کے ساتھ تصاویر بھی لے رہی ہے۔ لیکن یہ تصویر میگنس لونڈرگن نے لی، جس نے ہیومن اینڈ نیچر کیٹیگری میں دوسرا انعام جیتا۔

  • راجا دین دیال: متحدہ ہندوستان کا ماہر فوٹو گرافر

    راجا دین دیال: متحدہ ہندوستان کا ماہر فوٹو گرافر

    فوٹو گرافی ایک آرٹ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب متحدہ ہندستان میں‌ کیمرے کا تصوّر تک نہ تھا اور مناظرِ فطرت ہوں یا پورٹریٹ کے لیے لوگ مصوّر کے محتاج ہوتے تھے۔

    کیمرا ایجاد ہوا تو تصویر کھینچنا آسان ہو گیا، لیکن اس زمانے میں‌ یہ مشین اور ٹیکنالوجی بہت محدود تھی۔ اس وقت کیمروں سے تصویر بنانا اور پھر ان کی ڈویلپنگ کا عمل خاصا محنت اور وقت طلب ہوتا تھا۔ کیمرے کیا تھے، ایک بڑا سا ڈبّا ہوتا تھا، جس سے تصویر کشی کے وقت ایک مخصوص آواز کے ساتھ تیز روشنی آنکھوں‌ پر پڑتی تھی۔ کئی دن انتظار کے بعد موٹے سے مخصوص کاغذ پر تصویر (عکس) ہاتھ میں‌ آتی تھی۔

    اس ایجاد کے حوالے سے کچھ ترقّی ہوئی تو باقاعدہ رِیل والے کیمرے آگئے جن میں مخصوص تعداد میں تصاویر اتارنے کے بعد انھیں‌ اکٹھا دھلوانے کی سہولت ہوگئی۔ یہ تصاویر رنگ و نور کے توازن کے ساتھ نسبتاً صاف ہوتی تھیں۔ اس کے بعد ڈیجیٹل کیمروں کا دور آیا اور آج موبائل فونز نے گویا سب کچھ بدل کر دیا ہے۔ اب ہر شخص فوٹو گرافر ہے، مگر پروفیشنل فوٹو گرافی ایک الگ بات ہے اور کی آج بھی بہت اہمیت ہے۔

    راجا دین دیال کا نام بہت کم لوگوں نے سنا ہو گا جو متحدہ ہندوستان کے ایک پروفیشنل فوٹو گرافر تھے۔

    وہ 1844ء میں‌ میرٹھ کے علاقے سردھنا کے ایک صرّاف خاندان میں پیدا ہوئے۔ تاہم خاندانی پیشہ اپنانے کے بجائے انجینئرنگ کی تعلیم اور فنّی تربیت کے حصول کے لیے کالج میں‌ داخلہ لیا۔ 1866ء میں‌ تعلیم مکمل کی اور اندور شہر کے ڈپارٹمنٹ آف ورکس، سیکریٹریٹ آفس میں ملازم ہوگئے۔

    اس زمانے میں‌ ہندوستان میں‌ اکثریت کیمرے سے نامانوس اور یہ ان کے لیے ایک کرشماتی مشین تھی، لیکن فنّی تعلیم سے بہرہ مند دین دیال کے لیے یہ مشین کسبِ معاش کے ساتھ شہرت کا وسیلہ بنی۔

    راجا دین دیال نے 1870ء کے وسط میں معاوضہ لے کر باقاعدہ فوٹو گرافی شروع کی اور اس غرض سے مختلف شہروں‌ میں‌ فوٹو اسٹوڈیو بھی قائم کیے۔ وہ اس سے قبل 1885ء میں‌ وائسرائے ہند کے لیے فوٹو گرافر کی حیثیت سے ذمہ داریاں‌ انجام دے چکے تھے جب کہ حیدرآباد دکن کے چھٹے نظام میر محبوب علی خان نے انھیں‌ اپنا کورٹ فوٹوگرافر مقّرر کیا تھا۔ اسی آصف جاہی فرماں روا نے انھیں راجا بہادر مصوّر جنگ کے خطاب سے بھی نوازا تھا۔

    اُس زمانے میں‌ فوٹو گرافی ایک آرٹ سے کم نہیں‌ تھی جس میں مہارت کی بنیاد پر راجا دین دیال کو ملکہ وکٹویہ کی جانب سے باقاعدہ سند جاری کی گئی۔ یہ 1897ء کی بات ہے جب تک وہ شاہی خاندان اور ہندوستان میں انگریز سرکار کے لیے متعدد تقاریب اور اہم مواقع پر اپنی خدمات پیش کرچکے تھے۔

    راجا دین دیال نے سب سے پہلے ریاست اندور کے شاہی خاندان کے لیے فوٹو گرافر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں‌ اور اسی حوالے سے ان کا نام اور کام جب ایک انگریز عمل دار سر ہنری ڈیلے تک پہنچا تو وہ اسے سراہے بغیر نہ رہ سکا اور دین دیال کی بہت حوصلہ افزائی کی۔

    متحدہ ہندوستان کے اس فوٹو گرافر کی تصاویر اور اپنے کام میں‌ مہارت کا چرچا ہوا تو مقامی راجا اور فرماں روا، امرا اور انگریز سرکار بھی اس کی خدمات حاصل کرنے لگے راجا دین دیال نے انگریز گورنر جنرل کے وسطی ہند کے دورے کو بھی کیمرے کی آنکھ سے دیکھا اور مختلف لمحات کو تصویر کیا۔

    1868ء میں دین دیال نے لالا دین دیال اینڈ سنز کے نام سے اپنا اسٹوڈیو بنایا اور اس کے تحت سرکاری سطح پر ہندوستان کے منادر، مختلف تاریخی عمارات اور پُرفضا مقامات کی تصاویر کھینچیں۔ اس فوٹو گرافر نے سکندر آباد کے علاوہ 1870ء میں‌ اندور شہر جب کہ 1896ء میں‌ بمبئی میں‌ بھی اسٹوڈیو قائم کیا۔

    1875ء میں برطانیہ کے شاہی خاندان کی ہندوستان آمد پر انھوں نے فوٹو گرافر کی حیثیت سے تقریبات اور شاہی خاندان کی زندگی کے کئی لمحات کو عکس بند کیا۔ انھوں نے نہ صرف سیاسی اور عوامی تقاریب کے دوران عکّاسی کی بلکہ شاہی محلّات، باغات اور مختلف عمارتوں کو بھی اپنے کیمرے میں قید کیا تھا۔ شاہانِ وقت اور والیانِ ریاست کے علاوہ انھوں نے متعدد مشہور مقامات اور شخصیات کی تصاویر محفوظ کیں۔

    دین دیال نے 1880ء کے آغاز پر سر لیپل گریفن کے ساتھ بھی فوٹو گرافر کی حیثیت سے وقت گزارا۔ انھوں‌ نے ہندوستان کے تاریخی مقامات اور آثارِ قدیمہ کا دورہ کیا تھا اور اس موقع پر جو 86 تصاویر ”یادگارِ وسطی ہندوستان” کے نام سے محفوظ کی گئی تھیں، آج بھی میوزیم میں‌ موجود ہیں۔

    سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1885ء میں‌ راجا دین دیال نے حیدرآباد دکن کے چھٹے نظام اور 1897ء میں‌ ملکہ وکٹوریہ کے فوٹو گرافر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    راجا دین دیال کے کیمرے سے کھینچی گئیں نادر اور یادگار تصاویر نہ صرف بھارت بلکہ برطانیہ میں بھی شاہی میوزیم میں محفوظ ہیں‌ اور دنیا کے مختلف ممالک میں ان کی خصوصی طور پر نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

  • ”کلک“ سے پہلے اسے پڑھ لیجیے….

    ”کلک“ سے پہلے اسے پڑھ لیجیے….

    ہم روشنی کی مدد سے اشیا کو دیکھتے ہیں۔

    انسان نے ترقی کے مدارج طے کیے اور جب یہ جانا کہ اس کی آنکھ کس طرح کام کرتی ہے اور وہ کیسے کسی منظر اور شے کو دیکھ پاتا ہے تو اس نے کیمرا ایجاد کیا۔

    یہ روشنی کی مدد سے ہماری آنکھ کی طرح ہی کام کرنے والی ایک ایجاد ہے۔

    آج یہ ایجاد پہلے سے کہیں زیادہ جدید اور طاقت ور ہوچکی ہے، اور اب ڈیجیٹل کیمروں سے بہترین فوٹوگرافی کی جارہی ہے، مگر اس کے کام کرنے کا بنیادی طریقہ اور اصول انسانی آنکھ اور روشنی ہی ہے۔

    اسے ہم سادہ الفاظ میں بیان کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح ضرورت سے کم یا زیادہ روشنی میں آنکھ کی پتلی (Pupil) پھیلتے ہوئے یا سکڑ کر روشنی کی شدت (Light Intensity) کو قابو کرکے پردۂ چشم (Retina) پر مناسب عکس بناتی ہے، بالکل اسی کیمرے میں موجود لینز کا سوراخ جسے اپرچر کہتے ہیں اسے بڑا یا چھوٹا کر کے مناسب عکس بنایا جاتا ہے۔

    اچھی فوٹوگرافی کے لیے کیمرے کی آنکھ سے منظر کو قید کرنے کی خواہش رکھنے والے کو ایکسپوژر، شٹر، اپرچر اور آئی ایس او کو سمجھنا ہوتا ہے، کیوں کہ فوٹوگرافی انہی پر عبور حاصل کرنے کا نام ہے۔

    فوٹو گرافر جانتا ہے کہ ایکسپوژر سے مراد ”تصویر میں روشنی کی شدت (مقدار)“ ہے۔ تصویر میں ضرورت سے زیادہ چمک یا منظر میں تاریکی اس کی خرابی تصور کی جاتی ہے۔

    عکاسی کے دوران مناسب ایکسپوژر کے لیے فوٹو گرافر شٹر، اپرچر اور آئی ایس او کی سیٹنگز استعمال کرتا ہے۔

    شٹر دراصل کیمرے میں تصویر بنانے والے سینسر کے آگے موجود پردے کو کہتے ہیں جو تصویر بناتے ہوئے ایک خاص وقت کے لیے کھلتا اور پھر بند ہو جاتا ہے۔ اسی دوران روشنی سینسر پر پڑتی ہے اور عکس بناتی ہے۔

    لینز کا وہ سوراخ جس سے روشنی گزر کر سینسر تک پہنچتی ہے، اسے ہم اپرچر کہتے ہیں جسے فوٹو گرافر بڑا یا چھوٹا کرسکتا ہے تاکہ مرضی کے مطابق مناسب عکس محفوظ کرسکے۔

    اس کے بعد آئی ایس او (ISO) کی وضاحت ضروری ہے۔ اس سے مراد تصویر بنانے والے سینسر کی حساسیت (Sensitivity) ہے اور اس کا خیال رکھ کر ہی اچھا رزلٹ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

  • دھرتی اور افق کے سنگم کو اجاگر کرتی تصاویر

    دھرتی اور افق کے سنگم کو اجاگر کرتی تصاویر

    فن یا آرٹ پرواز تخیل کو پیش کرنے کا نام ہے، اور اس کی کوئی سرحد، کوئی حد نہیں۔

    تصورات، خیالات، اور تخیل ہر شخص کا مختلف ہوتا ہے، لیکن فنکار کے اندر یہ ہنر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں تصویر ہوتے تخیل کو دنیا کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک فنکار کی تخلیقی صلاحیت دکھانے جارہے ہیں، جس کی تخلیقی اڑان نے آسمان اور زمین کو یکجا کردیا اور اس آمیزش سے جو فن پارے سامنے آئے وہ دنگ کردینے والے ہیں۔

    ان تصاویر کو دیکھ کر آپ ایک لمحے کو بھول بیٹھیں گے کہ زمین کی حد کہاں ختم ہوئی اور آسمان کہاں شروع ہوا۔

    سیاہ و سفید رنگ کی آمیزش سے تخلیق کی گئی ان تصاویر میں پہاڑ بھی ہیں، بادل بھی، سمندر بھی، عمارتیں بھی اور طوفان بھی۔

    یہ تصاویر ابتداً کیمرے سے کھینیچی گئی ہیں، تاہم ماہر فنکار نے مہارت سے انہیں فن پاروں میں تبدیل کردیا ہے۔

    To the mind that is still, the whole universe surrenders. – Lao Tzu #CoastalFlorida Collection – "Palm Pilots”

    A post shared by H E N T H O R N E (@henthorne_) on

    Gratitude is the sign of noble souls. – Aesop #Pacifico Collection – "Looking Glass”

    A post shared by H E N T H O R N E (@henthorne_) on

    Next Stop – Cuba

    A post shared by H E N T H O R N E (@henthorne_) on

    Things do not change; we change. Henry David Thoreau #Pacifico Collection :::: Spotlight ::::

    A post shared by H E N T H O R N E (@henthorne_) on


    کیسی لگیں آپ کو تصاویر؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • رنگین روشنیوں سے جگمگاتی خوبصورت تصاویر

    رنگین روشنیوں سے جگمگاتی خوبصورت تصاویر

    روشنی ہماری دنیا کی تیز رفتار ترین شے ہے جسے قید کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے، تاہم 2 تخلیق کاروں نے اپنے کیمرے کے ذریعے یہ کمال کر دکھایا ہے۔

    کم ہینری اور ایرک پیئر نامی دو تخلیق کاروں نے فوٹوگرافی کے شاہکار تخلیق کیا ہے۔

    ایرک ایک فوٹوگرافر ہے جبکہ کم ڈانسر ہے۔ ایرک نے کم کے ساتھ ٹیوب لائٹس کے استعمال سے فوٹوگرافی کا شاہکار تخلیق کیا ہے۔

    ایرک کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک سیکنڈ کا وقت ہوتا ہے جس میں صحیح منظر ملتا ہے۔ اس ایک سیکنڈ کے لیے مجھے کافی دیر محنت کرنی پڑتی ہے۔

    ایرک کا کہنا تھا کہ وہ کم کے پیچھے کھڑا ہو کر ٹیوب لائٹس کو مستقل گھماتا ہے جس کے بعد ہی صحیح منظر ملتا ہے۔

    مختلف رنگین روشنیوں کے ساتھ کم کے مختلف انداز مل کر ان تصاویر کو نہایت خوبصورت بنا دیتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • روشنی کے بغیر ہماری دنیا کیسی لگے گی؟

    روشنی کے بغیر ہماری دنیا کیسی لگے گی؟

    دنیا کی تیز رفتار صنعتی ترقی نے جہاں معاشی طور پر کئی ممالک کو خوشحال کردیا ہے وہیں یہ ہماری زمین اور اس کے ماحول کو بے تحاشہ نقصان بھی پہنچا رہی ہے۔

    تیز رفتار صنعتی ترقی اور آبادی میں تیزی سے اضافہ ہمارے ماحول کو کئی طرح سے آلودہ کررہا ہے جن میں ایک روشنیوں کی آلودگی بھی شامل ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہماری سڑکوں کے کنارے لگی اسٹریٹ لائٹس، ہمارے گھروں اور عمارتوں کی روشنیاں آسمان کی طرف جا کر واپس پلٹتی ہیں جس کے بعد یہ فضا میں موجود ذروں اور پانی کے قطروں سے ٹکراتی ہے۔

    ان کے ساتھ مل کر یہ روشنیاں ہمارے سروں پر روشنی کی تہہ سی بنا دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقیقی آسمان ہم سے چھپ سا جاتا ہے اور یوں ہم آسمان کا خوبصورت نظارہ دیکھنے سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں روشنیوں کا یہ طوفان برقی آلودگی پیدا کر رہا ہے جو آسمان کی خوبصورت کہکشاں کے نظارے کو ہماری نگاہوں سے اوجھل کردے گا۔

    برطانوی ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں مصنوعی روشنیوں کے باعث موسمیاتی پیٹرن (طریقہ کار) میں تبدیلی آرہی ہے اور اس کے باعث موسم بہار ایک ہفتہ جلد آرہا ہے جس کا اثر پودوں پر بھی پڑ رہا ہے۔

    اسی طرح ایک اور تحقیق میں بتایا گیا کہ مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان یعنی اربنائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث مصنوعی روشنیوں کی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور یہ فطرت اور فطری حیات کو متاثر کر رہی ہے۔

    ایک فرانسیسی مصور نے کچھ انوکھی تکنیکوں کے ذریعہ روشنی کے بغیر شہروں کی عکاسی کی اور آسمان، چاند اور تاروں کے قدرتی حسن کو پیش کیا۔ آپ بھی یہ خوبصورت تصاویر دیکھیں۔

    پیرس
    نیویارک
    شنگھائی
    rio
    ریو ڈی جنیرو ۔ برازیل
    لندن

    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سال 2017 کی منتخب تصاویر، جو آپ کو بھی حیران کردیں گی

    سال 2017 کی منتخب تصاویر، جو آپ کو بھی حیران کردیں گی

    نیویارک: سال 2017 تلخ و شیریں یادوں کے ساتھ اپنے اختتام کی جانب تیزی سے گامزن ہے، دنیا کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے گزرتے سال بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔

    سال 2017 جہاں کچھ لوگوں کے لیے کامیابیوں کا سال ہوا وہیں کچھ لوگوں کو ممکنہ طور پر مایوسی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہوگا تاہم ہر شخص نئے آنے والے سال میں اچھی امیدوں کے ساتھ داخل ہونے کا خواہش مند ہے۔

    دنیا بھر کے فوٹو گرافرز اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے ایسے مناظر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہر کوئی حیران رہ جاتا ہے۔

    سال 2017 فوٹو گرافی کی دنیا کے لیے بھی اچھا ثابت ہوا کیونکہ جدید کیمروں اور لاینس آنے کے بعد اس شعبے سے وابستہ افراد کی لگن مزید بڑھ گئی۔

    رواں سال فوٹوگرافی کا مقابلہ امریکا کے شہر نیویارک میں منعقد کروایا گیا جس میں سے ماہرین نے 10 بہترین تصاویر کا انتخاب کیا۔

    نیویارک کے علاقے مین ہیٹن اور اسٹیٹن آئی لیند کے درمیان سمندری راستہ طے کرنے والی کشتیوں کی تصاویر کو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ بنایا۔

    جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں واقع پارک کے تالاب میں موجود مچھلی جب سانس لینے کے لیے سطح سمندر پر آئی تو اس منظر کو فوٹو گرافر نے اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا۔

    ارجنٹائن کے 140 سال قدیم چڑیا گھر میں موجود ایشیائی ہاتھی جس کے پنجرے کو مندر کی طرح سے تیار کیا گیا، اس منظر کو فوٹو گرافر نے اس خوبصورتی سے تصویر میں محفوظ کیا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    سانس فرانسسکوکا مشہور گولڈن گیٹ برج 13 جنوری کو بادلوں سے ڈھک گیا تھا، اس منظر کو فوٹو گرافر نے کیمرے میں محفوظ کر کے نایاب تصویر بنائی۔

    سربیا کے شہر بلغراد کے ایک خالی گودام میں مہاجرین آگ جلا کر سردی سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہاں موجود فوٹو گرافر نے منظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔

    علاوہ ازیں منتخب کی جانے والی دیگر تصاویر


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دلربا آئینہ رو تصویر ہے

    دلربا آئینہ رو تصویر ہے

    آپ نے مختلف ماہر فوٹوگرافرز کو دیکھا ہوگا جو مختلف زاویوں سے تصویریں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ماہر تصویریں کھینچنے کے لیے مختلف طریقہ کار استعمال کرتے ہیں۔

    ایک معروف طریقہ گلاس یا کسی شیشے کے پار سے تصویریں کھینچنے کا بھی ہے۔ لیکن آپ نے یہ طریقہ پہلی بار دیکھا ہوگا جس میں انگوٹھی پر عکسی تصویر کھینچی جارہی ہے۔

    اس طریقے کا بانی آسٹریلیا کا پیٹر ایڈمز شان ہے جو اس سے پہلے آنکھ کی پتلی پر عکسی تصاویر کھینچ چکا ہے۔ اس بار وہ صرف نئے شادی شدہ جوڑوں کی تصاویر کھینچ رہا ہے۔

    اس کا کہنا ہے وہ تصویر کھینچنے سے پہلے انگوٹھی پر فوکس کرتا ہے اور جوڑے کو ایسے کھڑا کرتا ہے کہ وہ انگوٹھی میں نظر آئیں۔

    مستقبل میں ایڈمز کا ارادہ ہے وہ پانی کے بلبلے پر عکسی تصاویر کھینچے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دہکتے آتش فشاں کے سلگتے لاوے میں مسکراتا چہرہ

    دہکتے آتش فشاں کے سلگتے لاوے میں مسکراتا چہرہ

    ایتھوپیا : آتش فشاں دہکتے شعلوں اور سلگتے انگاروں کا نام ہے جو خوف کی علامت اور تباہی کا باعث ہوتا لیکن فوٹو گرافر نے ان لمحات میں سے بھی ایک دل آویز منظر اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیا.

    برطانوی فوٹو گرافر کرسٹوفر ہارسیلی کی تخلیقی نظر نے آگ اور دھواں اگلے آتش فشاں میں سلگتے انگاروں سے بنے مسکراتے چہرے کی شبیہ کو محفوظ کر کے سب کو خوشگوار حیرت مین مبتلا کردیا.

     

    یہ شاہکار تصویر ایتھوپیا کے دور دراز علاقے میں واقعے ایک آتش فشاں کے پھٹنے کے دل دہلانے والے مناظر کی عکاسی کرتے ہوئے لی گئی جس نے شائقین آتش فشاں کے ایک نئے انداز سے متعارف کرایا.

    ناقابل برداشت درجہ حرارت اور سلگتے لاوے کے آتش فشاں سے باہر نکلنے کے دوران ہونے والی ہلکی پھلکی بارش نے کہیں کہیں اس لاوا کو ٹھندا کردیا جس سے لاوے میں آنکھیں اور مسکراتے ہونٹ کی شبیہ نمودار ہوئی جسے فوٹو گرافر نے پلک جھپکتے کیمرے میں محفوظ کرلیا.

     

    بہ شکریہ سی جی ٹی این

    ایک ہفتے قبل لی گئی اس تصویر نے جلد ہی پوری دنیا میں دھوم مچا دی اور شائقین نے تعجب اور تذبذب کے ساتھ اسے پذیرائی بخشی جب کہ سوشل میڈیا پر بھی یہ تصاویر صارفین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں.