Tag: فوڈ سیکیورٹی

  • تمباکو کی کاشت فوڈ سیکیورٹی کے لیے خطرہ

    تمباکو کی کاشت فوڈ سیکیورٹی کے لیے خطرہ

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن (نو ٹوبیکو ڈے) منایا جارہا ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو نوشی ہر سال دنیا بھر میں 80 لاکھ افراد کی موت کی وجہ بن رہی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز عالمی ادارہ صحت نے سنہ 1987 میں کیا جس کا مقصد تمباکو نوشی سے ہونے والے امراض اور اموات کی طرف دنیا کی توجہ دلانا تھا۔

    طبی ماہرین کے مطابق تمباکو نوشی کے باعث ہر سال ہلاک ہونے والے 80 لاکھ افراد میں سے تقریباً 12 لاکھ کے قریب افراد ایسے ہیں جو خود تمباکو نوشی نہیں کرتے۔

    ایسے افراد دوسروں کی تمباکو نوشی سے پیدا ہونے دھوئیں کے باعث مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو بعد ازاں جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔

    ان 12 لاکھ میں سے ایک تہائی تعداد کمسن بچوں کی ہے جو اپنے والدین یا دیگر اہل خانہ کی سگریٹ نوشی کے باعث موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، تمباکو نہیں، خوراک اگائیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تمباکو کی کاشت کسانوں، ان کے خاندانوں، فوڈ سیکیورٹی اور ماحول کے لیے سخت نقصانات کا باعث ہے جس کا شعور اور انسداد ضروری ہے۔

  • گزشتہ برس گندم کی پیداوار میں کتنی کمی ہوئی؟

    گزشتہ برس گندم کی پیداوار میں کتنی کمی ہوئی؟

    اسلام آباد: نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی وزارت کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس 2 ملین میٹرک ٹن کم گندم پیدا ہوئی، ضرورت پوری کرنے کے لیے گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی کا اجلاس چیئرمین راؤ محمد اجمل کی زیر صدارت ہوا، وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی کمیٹی کو گندم کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔

    بریفنگ میں بتایا گیا کہ ملک میں گزشتہ سال 28.22 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا ہوئی، گندم کی ضروریات 30.79 ملین میٹرک ٹن تھی۔

    بریفنگ کے مطابق گزشتہ سال گندم کا شارٹ فال 2.60 ملین میٹرک ٹن تھا جس کے بعد 2.6 ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

    کمیٹی کو بتایا گیا کہ 1.24 ملین میٹرک ٹن گندم درآمد ہو چکی ہے، مزید گندم جنوری کے آخری یا فروری کے پہلے ہفتے میں پاکستان پہنچے گی۔

  • وزیر اعظم کی ملک میں غذائی پیداوار بڑھانے کی ہدایت

    وزیر اعظم کی ملک میں غذائی پیداوار بڑھانے کی ہدایت

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہمیں ہر حال میں پاکستان میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ہے، کسان پیکج پر عمل درآمد کو تیز کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت زرعی شعبے کی ترقی کے لیے دیے گئے کسان پیکج کا جائزہ اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، رانا ثنا اللہ، مریم اورنگزیب اور مصدق ملک شریک ہوئے۔

    وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ کسان پیکج پر عمل درآمد کو تیز کیا جائے، زرعی شعبے کی ترقی پاکستان میں فوڈ سیکیورٹی کی ضامن ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر حال میں پاکستان میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

    وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ گندم، کپاس، کنولہ اور زیتون کی کاشت اور پیداوار پر خصوصی توجہ دی جائے، کسانوں کو غذائی اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے بہتر بیجوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

  • سندھ میں دنیا میں سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے: بلاول کا نیویارک میں خطاب

    سندھ میں دنیا میں سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے: بلاول کا نیویارک میں خطاب

    نیویارک: وزیر خارجہ پاکستان بلاول بھٹو زرداری نے امریکا میں فوڈ سیکیورٹی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو درپیش تحفظ خوراک اور توانائی کے چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ سندھ میں دنیا میں سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    نیویارک میں ‘گلوبل فوڈ سیکیورٹی کال ٹو ایکشن’ اجلاس میں اپنے خطاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث چیلنجز درپیش ہیں، اور ان موسمیاتی تبدیلیوں سے تحفظ خوراک کو براہ راست خطرہ لا حق ہے۔

    بلاول نے صوبہ سندھ کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جیکب آباد میں اپریل میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا، کہا جاتا ہے کہ یہ درجہ حرارت موسم گرما کے عروج پر ریکارڈ کیا گیا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، یہ موسم بہار کا ٹمپریچر ہے۔

    انھوں نے کہا پاکستان کو نہ صرف تحفظ خوراک اور توانائی کے چیلنجز کا سامنا ہے، بلکہ پانی کی شدید قلت بھی ہے، جس سے ملک کو قحط کا سامنا ہے۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر تحفظ خوراک یقینی بنانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، پاکستان نے افغانستان اور یوکرین کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کی، بھوک کی کوئی قومیت نہیں ہوتی، اسی طرح وائرس اور وبا کی بھی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔

    انھوں نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ دنیا بھرمیں تنازعات کے تصفیے کے لیے مذاکرات کی راہ اپنانی ہوگی، اس لیے ہمیں مل کر کام کرنے کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ لوگوں کو خوراک فراہم کی جا سکے، تاکہ آدمیت کو وباؤں اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے محفوظ بنایا جا سکے۔۔

    گزشتہ روز وزیر خارجہ پاکستان نے امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن سے ملاقات کی تھی، بلنکن نے فوڈ سمِٹ میں پاکستان کی شرکت پر اظہار تشکر کیا، بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ جیو پولیٹیکل صورت حال کے باعث کئی چیلنجز کا سامنا ہے، عالمی سطح پر ہوئے واقعات کے باعث سیکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں، بلنکن نے کہا کہ امریکا نے خطے کی سیکیورٹی کی صورت حال پر بھی توجہ مرکوز رکھنی ہے۔

  • پاکستان کو درپیش فوڈ سیکیورٹی قومی سلامتی کا چیلنج ہے: عمران خان

    پاکستان کو درپیش فوڈ سیکیورٹی قومی سلامتی کا چیلنج ہے: عمران خان

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو فوڈ سیکیورٹی کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، فوڈ سیکیورٹی اصل میں نیشنل سیکیورٹی ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان کسان کنونشن سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے کہا پاکستان میں 40 فی صد بچے نہ اپنے قد پر پہنچتے ہیں نہ ان کا دماغ بن پاتا ہے، کیوں کہ ان کی غذا پوری نہیں ہو پاتی، دودھ خالص نہیں مل رہا، اور جو دودھ بیچا جارہا ہے وہ دودھ ہی نہیں ہے۔

    انھوں نے کہا اس کنونشن کا مقصد منزل کا تعین کرنا ہے، فوڈ سیکیورٹی قومی چیلنج ہے، پچھلے سال ہم نے 40 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی، ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ گائیں، بھینسوں کی جنس کو ٹھیک کریں، دیگر شعبہ جات کی طرح زراعت کے شعبے میں بھی چھوٹے کسان پچھے رہ گئے، ہم نے اقدامات نہ کیے تو آگے فوڈ سیکیورٹی بڑا خطرہ بن جائے گا، اُس قوم کو سزا ملنی چاہیے جو اپنے لوگوں کی غذا پوری نہیں کرتے۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا ہم احساس پروگرام کے تحت نیوٹریشن کا پروگرام لے کر آ رہے ہیں، دودھ کے نام پر پتا نہیں کیا بیچا جا رہا ہے، عوام کو خالص دودھ نہیں مل رہا، اس سے بہت سے بچے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں، دودھ کا بڑا مسئلہ ہے مجھے کہاگیا کہ دودھ ٹھیک نہیں، معلوم ہوا کہ زیادہ تر دودھ مضر صحت ہے، یہ بھی بتایا گیا کہ وہ دودھ نہیں، زیادہ تر دودھ یوریا اور واشنگ مشین میں بن رہا ہے۔

    عمران خان نے کہا ہم نے ارادہ کر لیا ہے کہ کسان کے لیے تحقیق کرنی ہے، کسان کے لیے بیج دریافت کرنے ہیں، لیکن نشہ کرنے والوں کی طرح ہمیں بھی امداد لینے کی عادت ہوگئی، ہم کسان کے لیے کسان کارڈ کا اجرا کر رہے ہیں، کسانوں کے پاس ڈائریکٹ سبسڈی جائے گی، ہمارے لوگ چھوٹے کسانوں کو ٹریننگ دیں گے، ہمارے پاس زمین بھی خالی پڑی ہے۔

    انھوں نے مزید کہا ڈی آئی خان، چولستان، بلوچستان میں زمین خالی پڑی ہے، ان علاقوں میں زیتون کا انقلاب آ رہا ہے، ہم چند سالوں میں زیتون آئل کے ایکسپورٹر بن جائیں گے، ہمارے 30 فی صد پھل، سبزیاں ضائع ہو جاتی ہیں کیوں کہ اسٹوریج نہیں، ہماری کوشش یہی ہوگی کہ کسان خوش حال ہو، اپنی زمین پر پیسہ لگائے۔

    وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ایواکاڈو سب سے مہنگی سبزی ہے، اس لیے انھوں نے اسے اپنے گھر میں اگا لیا ہے، انھوں نے چین کے حوالے سے کہا کہ چین میں کسان ورچوئل مارکیٹ جاتا ہے، اور وہ ورچوئل مارکیٹ سے آن لائن چیز فروخت کرتا ہے۔

  • خیبر پختونخواہ فوڈ سیکیورٹی کی پالیسی بنانے والا پہلا صوبہ بن گیا

    خیبر پختونخواہ فوڈ سیکیورٹی کی پالیسی بنانے والا پہلا صوبہ بن گیا

    پشاور: ملکی تاریخ میں پہلی بار صوبہ خیبر پختونخواہ فوڈ سیکیورٹی پالیسی بنانے والا پہلا صوبہ بن گیا، پالیسی کی منظوری جلد کابینہ اجلاس میں دی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ ملک میں فوڈ سیکیورٹی کی پالیسی بنانے والا پہلا صوبہ بن گیا، پختونخواہ فوڈ سیکیورٹی پالیسی کی منظوری پیر کو کابینہ اجلاس میں دی جائے گی۔

    دستاویزات کے مطابق فوڈ سیکیورٹی پالیسی پر عمل کے لیے 3 مختلف پلان مرتب کیے گئے ہیں، قلیل مدتی پلان 2 سے 3 سالوں پر محیط ہوگا اور اس کا تخمینہ 56 ارب ہے۔

    دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ وسط مدتی پلان 4 سے 7 سالوں پر محیط ہوگا اس کا تخمینہ 109 ارب ہے جبکہ طویل مدتی پلان 8 سے 10 سال پر محیط ہوگا اور اس کا تخمینہ 70 ارب ہے۔

    پختونخواہ میں زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے 19 مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، وسط مدتی پلان کے تحت 24 مختلف اقدامات میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر، موجودہ ڈیموں کی مرمت کےعلاوہ کمانڈ ایریاز کی توسیع اور اقدامات بھی شامل ہیں۔

    دستاویزات میں کہا گیا کہ طویل مدتی پلان کے تحت بڑے ڈیموں کی تعمیر، زیتون کی کاشت اور دیگر اقدامات شامل ہیں، زراعت اور آبپاشی سمیت اور متعلقہ محکموں کی ذمے داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔

  • فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہے،وزیراعظم عمران خان

    فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہے،وزیراعظم عمران خان

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے سے متعلق اسٹیک ہولڈرز پر رابطے مستحکم اور مربوط نظام تشکیل دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں زرعی شعبے میں اصلاحات اور پیداوار میں اضافے کے لیے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں مختلف زرعی اجناس کی پیداوار کی موجودہ صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔

    اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہے،زرعی شعبے سے متعلق میڈیم اور لانگ ٹرم منصوبوں پر ایکشن پلان پیش کیا جائے۔

    وزیراعظم نے مختلف اجناس کی پیداوار کے تخمینوں پر درست ، مستند اور قابل بھروسہ ڈیٹا بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل فوڈ سیکیورٹی ڈیش بورڈ فعال کرنے کے عمل کو تیز کیا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ زرعی شعبےسےمتعلق اسٹیک ہولڈرز پر رابطےمستحکم اور مربوط نظام تشکیل دیا جائے،اجناس کی پراسیسنگ کے حوالے سے خصوصی اقتصادی زونز پر توجہ دی جائے۔

    عمران خان نے چین کے تجربے سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چین کی مہارت اور تعاون کا بھرپور استعمال یقینی بنایا جائے۔

    وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کے دوران ایگروایکولوجیکل زونز کو ازسر نو مرتب کرنے کی ہدایت کی۔انہوں نے کہا کہ کاشت کاروں کو درآمدکی جانے والی اجناس کی پیداوارکی طرف راغب کیا جائے،درآمدی اجناس کی پیداوار پر کاشت کاروں کو مطلوبہ معاونت دی جائے۔

  • سرمایہ کاروں کے اعتماد کے لیے 10 سالہ پالیسی دینی ہے: خسرو بختیار

    سرمایہ کاروں کے اعتماد کے لیے 10 سالہ پالیسی دینی ہے: خسرو بختیار

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت گئی تو ساڑھے 50 ارب اور ن لیگ کی حکومت گئی تو 13 سو ارب کا خسارہ تھا، سرمایہ کاروں کے اعتماد کے لیے پاکستان کو 10 سالہ پالیسی دینی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی خسرو بختیار نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کی نظریں اس وقت ایوان کی طرف ہیں، مسلم لیگ ن آئی ایم ایف کے پاس گئی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2.5 ارب تھا۔

    خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ جب ہماری حکومت آئی تو ملک میں جی ڈی پی کی شرح 78 فیصد تھی، جب ڈیفالٹ کی طرف جا رہے ہوں تو روپے کی قدر کیسے بہتر ہو سکتی ہے، پیپلز پارٹی کی حکومت گئی تو ساڑھے 50 بلین خسارہ تھا۔ جب ن لیگ کی حکومت گئی تو 13 سو بلین کا خسارہ تھا۔

    انہوں نے کہا کہ جب حکومت گئی تو ایک ڈالر ایکسپورٹ اور 2.3 ڈالر امپورٹ کر رہے تھے، اس وقت ملک میں کمرشل کنزیومر 31 لاکھ ہیں۔ 50 لاکھ بینک اکاؤنٹس ہیں ان میں سے صرف 5 لاکھ سے ٹیکس جمع ہوئے۔ وفاقی حکومت پہلے ہی خسارے کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔

    خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ ایسے میں ہر گزرتے سال کے ساتھ مشکلات آتی ہیں، ملک میں سرمایہ کار کو عزت دینے کی سوچ پیدا کرنا ہوگی، یہ وقت معیشت پر سیاست کا نہیں نیشنل اکنامک چارٹر لانے کا ہے۔ ملک میں توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب پر فیصلہ کرنا پڑے گا۔ ٹیکس ہم سب کو مل کر اکٹھا کرنا پڑے گا ورنہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کے لیے پاکستان کو 10 سالہ پالیسی دینی ہے، سوشل ویلفیئر کو چلانا ہے تو صوبوں کو بھی ٹیکس جمع کرنا پڑے گا۔ سندھ رواں سال گندم کا ایک دانہ بھی جمع نہ کرسکا۔ سندھ نے کمٹمنٹ کی ہے کہ وہ بھی 14 لاکھ ٹن گندم خریدے گا۔

    خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ قوم کو اب سیاسی تقریروں سے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا، کوئی ایک ملک بتا دیں جس نے ایکسپورٹ بڑھائے بغیر ترقی کی ہو؟ پرویز مشرف کی جب حکومت آئی تو 7 بلین کی ایکسپورٹس تھیں، بدقسمتی سے پیپلز پارٹی کی حکومت ایکسپورٹس کو زیرو پر لے گئی۔

  • ضائع شدہ خوراک کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ

    ضائع شدہ خوراک کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ

    آپ کے گھر سے بے شمار ایسی غذائی اجزا نکلتی ہوں گی جو کوڑے کے ڈرم میں پھینکی جاتی ہوں گی۔ یہ اشیا خراب، ضائع شدہ اور پلیٹوں میں بچائی ہوئی ہوتی ہیں۔

    دنیا بھر میں خوراک کو ضائع کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ جتنی خوراک اگائی جاتی ہے، ہم اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے کل 70 کروڑ 95 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں۔ صرف پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8.1 فیصد بچے غذائی قلت کے باعث 5 سال سے کم عمر میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں ضائع شدہ غذا کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے طریقوں پر کام کیا جارہا ہے اور اس کی ایک بہترین مثال سنگاپور کے ننھے طالب علموں نے دی۔

    singapore-4

    سنگاپور کے یونائیٹڈ ورلڈ کالج آف ساؤتھ ایشیا کے پانچویں جماعت کے طالب علموں نے ڈرموں میں پھینکی جانے والی خوراک کو قابل استعمال بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کے لیے انہوں نے اس پھینکی جانے والی غذائی اشیا کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    یہ بچے ہر روز اپنے اسکول کی کینٹین سے 50 لیٹر کے قریب غذائی اشیا جمع کرتے ہیں۔ ان میں پھلوں، سبزیوں کے چھلکے، ادھ پکی اشیا، بچائی جانے والی چیزیں اور خراب ہوجانے والی اشیا شامل ہیں۔ ان اشیا کو سوکھے پتوں اور پانی کے ساتھ ملایا گیا۔

    singapore-2

    اس کے بعد اس کو اسی مقصد کے لیے مخصوص ڈرموں میں ڈال دیا گیا جس کے بعد 5 ہفتوں کے اندر بہترین کھاد تیار ہوگئی۔ طالب علموں نے اس کھاد کو اسکول کے گارڈن میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ بچی ہوئی کھاد، کسانوں اور زراعت کا کام کرنے والے افراد کو دے دی گئی۔

    منصوبے پر کام کرنے والے بچوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ بھی خوراک کو ضائع کرنے کے نقصان دہ عمل میں شامل ہیں۔ ’جب ہم اس میں شامل ہوئے تو ہمیں چیزوں کی اہمیت کا احساس ہوا اور اس کے بعد ہم نے بھی کھانے کو ضائع کرنا چھوڑ دیا‘۔

    مزید پڑھیں: امریکی عوام کا ’بدصورت‘ پھل کھانے سے گریز، لاکھوں ٹن پھل ضائع

    یہ بچے غذائی اشیا کی اس ناقد ری پر اداس بھی ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ لوگ کھانے کو ضائع نہ کیا کریں۔

    singapore-3

    اس منصوبے کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اب پورے سنگاپور کی یونیورسٹیز، کالجز اور دیگر اسکول ایسے ہی منصوبے شروع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

  • ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    لندن: برطانیہ میں ضائع شدہ غذائی اشیا سے سجی پہلی سپر مارکیٹ کا افتتاح کردیا گیا۔ اس سپر مارکیٹ میں وہ غذائی اشیا فروخت کی جارہی ہیں جو مختلف ہوٹلوں اور سپر اسٹورز کی جانب سے ضائع کردی جاتی ہے یا پھینک دی جاتی ہے۔

    برطانوی شہر لیڈز میں کھولی گئی اس سپر  مارکیٹ کو، جسے ویئر ہاؤس کا نام بھی دیا گیا ہے، رئیل جنک فوڈ پروجیکٹ نامی تنظیم نے قائم کیا ہے جو ضائع شدہ خوراک کو قابل استعمال بنانے پر کام کر رہا ہے۔

    sm-1

    sm-2

    مارکیٹ میں اشیا کی قیمتوں کی جگہ ’پے ایز یو فیل‘ کا ٹیگ لگا ہے یعنی آپ خوراک کے لیے جو قیمت مناسب سمجھیں وہی دے دیں۔

    یہ سپر مارکیٹ ان افراد کو مفت اشیائے خورد و نوش بھی فراہم کر رہی ہے جن کی آمدنی کم ہے اور جو اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

    مزید پڑھیں: امریکی عوام کا ’بدصورت‘ پھل کھانے سے گریز

    ان ہی میں سے ایک کرسٹی رہوڈز بھی ہے۔ کرسٹی اور اس کا شوہر کم تعلیم یافتہ ہیں لہٰذا ان کی آمدنی بے حد کم ہے۔ اس آمدنی میں وہ اپنی اور اپنے 3 بچوں کی کفالت نہیں کر سکتے اور ایسے میں یہ ویئر ہاؤس ان کے لیے نعمت خداوندی ہے۔

    sm-3

    sm-4

    کرسٹی کا کہنا ہے کہ اسے یہاں سے تازہ پاستہ، جوس، مٹھائیاں، سبزیاں اور سلاد مل جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہی جیسے غریب افراد کو پھلوں سے جام بنانا بھی سکھائے گی جو اس نے ایک بار اپنے گھر پر بنایا تھا۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    پروجیکٹ کے سربراہ ایڈم اسمتھ کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے اسٹور پورے ملک میں کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں سے لوگ کم قیمت یا مفت خوراک حاصل کرسکیں۔

    sm-5

    sm-6

    واضح رہے کہ خوراک کو ضائع کرنا دنیا بھر میں فوڈ سیکیورٹی کے لیے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں جتنی خوراک اگائی جاتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے۔

    اس ضائع کردہ خوراک کی مقدار تقریباً 1.3 بلین ٹن بنتی ہے اور اس سے دنیا بھر کی معیشتوں کو مجموعی طور پر ایک کھرب امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔