Tag: فوڈ چین

  • غیر ملکی فوڈ آؤٹ لیٹس پر حملہ کرنے والوں کے خلاف ریاست ایکشن میں آ گئی

    غیر ملکی فوڈ آؤٹ لیٹس پر حملہ کرنے والوں کے خلاف ریاست ایکشن میں آ گئی

    راولپنڈی: غیر ملکی فوڈ آؤٹ لیٹس پر حملے کرنے والوں کے خلاف ریاست ایکشن میں آ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق غزہ جنگ کی آڑ میں ملکی کاروبار کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہو گئیں، راولپنڈی میں غیر ملکی ریسٹورنٹ پر حملہ کرنے والے 4 ملزمان کی شناخت ہو گئی۔

    پولیس نے غیر ملکی ریسٹورنٹ پر حملہ کرنے والے 2 ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے، جب کہ دیگر دو کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں، پولیس حکام کا کہنا ہے گرفتار ملزمان میں مرکزی ملزم کو گجرا چوک سے گرفتار کیا گیا، جسے کینٹ تھانے منتقل کر دیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچانے والےعناصر سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ادھر پنجاب کے شہر شیخوپورہ میں لاہور بائی پاس چوک پر بھی ایک غیر ملکی فوڈ آؤٹ لیٹ پر فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق ہو گیا ہے۔

    ڈی پی او بلال ظفر شیخ کے مطابق موٹر سائیکل سوار حملہ آور فائرنگ کر کے فرار ہو گیا، پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی، ملزم کی گرفتار کے لیے تفتیش جاری ہے۔

  • بچوں کے لیے کھانے کے ساتھ کھلونوں کی جگہ کتابوں کا تحفہ

    بچوں کے لیے کھانے کے ساتھ کھلونوں کی جگہ کتابوں کا تحفہ

    دنیا بھر کی مختلف کمپنیاں گاہکوں کو لبھانے کے لیے نت نئی تکنیکیں استعمال کرتی ہیں اور ان کا ہدف مختلف عمر کے افراد ہوتے ہیں۔

    ایسی ہی ایک کوشش معروف فوڈ چین بھی اپنے ننھے گاہکوں کے لیے کرتی ہے جس میں انہیں کھانے کے ساتھ کھلونے بھی دیے جاتے ہیں، اس ڈیل کو ہیپی میل کہا جاتا ہے۔

    تاہم نیوزی لینڈ میں ایک انوکھا تجربہ کیا گیا، جسے بعد ازاں بے حد پذیرائی ملی۔

    نیوزی لینڈ میں ہیپی میل میں بچوں کو کھلونوں کی جگہ کتابیں دی گئیں جسے دیکھ کر ننھے بچے اور ان کے والدین ایک لمحے کے لیے حیران رہ گئے۔

    کمپنی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فونز کی آمد کے ساتھ ننھے بچوں میں مطالعے کا رجحان کم ہوگیا ہے، ان کی یہ کاوش مطالعے کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔

    ہیپی میل میں بچوں کے مصنف رولڈ ڈہل کی کتابیں رکھی گئی ہیں جنہوں نے ’چارلی اینڈ دا چاکلیٹ فیکٹری‘ جیسے مشہور ناول سمیت بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔

    ان رنگ برنگی کتابوں کے ساتھ مختلف اسٹیکرز بھی دستیاب ہیں جبکہ ان میں بچوں کو مختلف بیرونی سرگرمیاں کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ کتابیں ماحول دوست بھی ہیں، ان کی جگہ پلاسٹک کے کھلونے نہایت مختصر وقت کے لیے بچوں کے کھیلنے کے کام آتے ہیں جس کے بعد انہیں پھینک دیا جاتا ہے۔ یوں یہ کھلونے کچرے اور آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔

    فوڈ چین کے اس اقدام کو نہایت پذیرائی حاصل ہورہی ہے تاہم ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اس پر تنقید کر رہے ہیں۔

    بعض افراد کا کہنا ہے کہ بچوں کے لیے مفت کتابیں ہماری قریبی لائبریری میں دستیاب ہیں تو پھر پیسے خرچ کر کے اور بچوں کے موٹاپے کی قیمت پر ان کتابوں کو خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔

    آپ کو یہ کوشش کیسی لگی؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔